یقینِ محکم
نادان ہوں، ناسمجھ ہوں، بے کار ہی سمجھو
دل روتا ہے، ہونٹ ہنستے ہیں، فنکار ہی سمجھوآج بہت دنوں بعد میجر احد کو موقع ملا تھا حور سے ملنے کا۔ وہ رستم کے مخصوص حلیے میں گۓ جب راستے میں انھیں ماہ بیر ملا۔
دونوں کے منھ کے زاویے ایک ساتھ بگڑے ایک دوسرے کو دیکھ کر۔ پھر ایک دوسرے کو گھورتے ہوئے نکل گئے۔
کیوں کہ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے تھے۔
میجر احد، حور کے کمرے میں گۓ۔ وہ اس وقت سو رہی تھی۔ اس کو دیکھتے ہی ناگواری کے بل ان کے ماتھے پر نمودار ہوۓ۔
وہ سب اتنی ٹینشن میں تھے اور یہاں محترمہ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔ بھئ غصہ آنا تو فطری تھا۔
وہ فوراً اس کے پاس گئے اور ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کرنا چاہا تو ایسا محسوس ہوا جیسے کسی گرم انگارے کو چھو لیا ہو۔
انھیں تشویش لاحق ہوئی۔ وہ فوراً زی کے سیکرٹ روم میں گۓ اس سے ملنے لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔
اگر ذوریز، زی نہیں ہے تو یہ زی ہے کون؟ اور گیا کہاں؟ اسے زمین کھا گئ یا آسمان نگل گیا؟
وہ واپس حور کے کمرے میں آۓ اور ڈاکٹر کو کال کی۔ ڈاکٹر نے آتے ہی ضروری علاج کیا۔
"سب ٹھیک تو ہے نا ڈاکٹر؟"
ڈاکٹر نے انھیں عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ بے چینی ان کے انگ انگ سے جھلک رہی تھی۔
"فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ جو زہر ان کو دیا گیا تھا یہ اس کا سائیڈ ایفیکٹ ہے۔ میں نے ڈرپ لگا دی ہے۔ یہ صبح تک ٹھیک ہو جائیں گی۔"
ڈاکٹر نے اپنے پروفیشنل انداز میں کہا اور چلی گئ۔
میجر احد کا یہاں رکنا ٹھیک نہیں تھا ورنہ وہ اسے اکیلے چھوڑ کر کبھی نہ جاتے۔
لیکن وہ ایک آرمی آفیسر تھے۔ دل سے نہیں دماغ سے سوچتے تھے۔
وہ حور کے کمرے سے نکل گۓ کیونکہ ابھی زی کو ڈھونڈنا زیادہ اہم تھا۔
*****************
چودھویں کا چاند آج جوبن پر تھا۔ جہاں یہ رات بہت سے لوگوں کے لیے مسرت کا باعث تھی وہیں اسلام آباد کے ریڈ لائٹ ایریا میں واقع چندا بائی کے کوٹھے پر بہت سی لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے تھے۔جب ایک لڑکی کی عزت کا سودا کر دیا جائے تو وہ زندہ درگور ہو جاتی ہے۔ یہاں موجود درندوں کے بھی کچھ یہی عزائم تھے۔ لیکن کاتب تقدیر نے کچھ اور ہی فیصلہ کیا ہوا تھا۔
YOU ARE READING
یقینِ محکم
Mystery / Thrillerیقین محکم یہ کہانی ہے ایک لڑکی کے اللّٰہ پر یقین کی۔پاک سر زمین کے محافظوں کی۔ دو بھائیوں کی جنہوں نے اپنی منزل خود چنی ۔ ایک ایسے گینگسٹر کی جس نے بدلے کی آگ میں اپنا سب کچھ گنوا دیا