قسط نمبر 17

25 3 4
                                    

یقینِ محکم

آنکھوں کے اندر بھی ہیں درکار آنکھیں
چہرے کے پیچھے بھی چہرہ ہو سکتا ہے

زی اپنے پیلس میں آتے ہی سیکرٹ روم میں بند ہو گیا۔ وہ گہری سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا۔

اپنی زندگی کے سفر پر نظرِ ثانی کر دہا تھا۔

"میں زی ہوں۔ جس کا اصلی نام کوئی نہیں جانتا۔ اور جو جانتے ہیں وہ میری حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ میں نے اپنی آدھی زندگی ایک کٹھ پُتلی کی طرح گزار دی۔

ماہ بیر میرا وہ دوست تھا جس پر میں نے سب سے زیادہ بھروسہ کیا۔ ہر کام اس سے پوچھ کر کرنا گویا میری عادت بن گئ تھی۔

لیکن اس نے زندگی برباد کر دی۔ وہ چاہتا تو مجھے اس راستے سے روک لیتا جب کہ اس نے ایسا نہیں کیا۔ اب تو مجھے دوستی کے لفظ سے بھی نفرت ہو گئ ہے۔

کاش میں کبھی بھٹکا نہ ہوتا۔ ماہ بیر نے مجھے وہ فرعون بنا دیا جس کی لگامیں ہامان کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں۔ کاش میں کبھی بیرون ملک نہ گیا ہوتا۔

میری کبھی ماہ بیر سے ملاقات نہ ہوئی ہوتی اور گزشتہ بارہ سال میری زندگی میں نہ آئے ہوتے۔ آہ کاش!"

ندامت کے چراغوں سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اندھیری رات کے آنسو خدا سے بات کرتے ہیں

وہ یہ سب سوچ رہا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔

"کم ان"۔

اس نے بے دلی سے جواب دیا۔ تو دروازے کے پیچھے سے ماہ بیر کا چہرہ نمودار ہوا۔ اس کو دیکھتے ہی زی کا حلق تک کڑوا ہو گیا اور اس نے اپنا رخ موڑ لیا۔

ماہ بیر کو اس کو انداز بہت چبھا لیکن یہ وقت ان باتوں کو کرنے کا نہیں تھا۔


"زی تمھیں آج کل کیا ہوا ہے؟"

اس نے استفسار کیا۔

"مطلب؟"

زی نے آئبرو اچکائی۔ سمجھ تو وہ گیا تھا لیکن ماہ بیر کے منھ سے سننا چاہتا تھا۔

"تم آج کل اپنے کام پر توجہ نہیں دے رہے۔ کیا بھول گئے ہو اپنا مقصد؟"

ماہ بیر نے طنز کیا۔

"میں کچھ نہیں بھولا مسٹر ماہ بیر اوالمیر"۔

زی کے لہجے میں آگ کی سی تپش تھی۔ ماہ بیر کو یک دم کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔

"کاش تم میری زندگی میں کبھی نہ آۓ ہوتے ماہ بیر۔ کاش  ۔ تو شاید میں کبھی اتنا برا نہ بنتا۔ لیکن تم نے جو میرے اندر انتقام اور نفرت کا زہر انڈیلا اس نے مجھے برباد کر دیا۔ تم نے مجھے برباد کر دیا"۔

یقینِ محکمWhere stories live. Discover now