قسط نمبر 16

29 3 6
                                    

یقینِ محکم

سنو!
وہ جو دل میں تیرا مقام ہے
کسی اور کو وہ دیا نہیں
وہ جو رشتہ تجھ سے بن گیا
کسی اور سے وہ بنا نہیں
وہ جو سکھ ملا تیری ذات سے
کسی اور سے وہ ملا نہیں
تو بسا ہے آنکھوں میں جب سے
کوئی اور ایسا بسا نہیں

منساء نے غزل لکھ کر اپنی ڈائری بند کر دی۔ اس کی سوچوں کا زخ نا چاہتے ہوئے بھی حان کی طرف چلا گیا۔

جس نے اس سے بے تحاشا محبت کی تھی۔ لیکن وہ تو اسے ہمیشہ لاابالی سا لڑکا سمجھتی رہی۔ جو ہر وقت شرارتوں اور موج مستی کے لیے تیار رہتا تھا۔

پچھلے کچھ دنوں میں اس نے حان کا ایک الگ ہی روپ دیکھا تھا۔ اسے یاد تھا پی۔ ایم۔ اے سے پاس آؤٹ ہونے کے بعد جب اس نے ان کی ٹیم جوائن کی تھی تب حان نے اسے شادی کے لیے پرپوز کیا تھا۔

اور منساء نے اسے یہ کہ کر انکار کر دیا تھا کہ وہ ابھی شادی کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کے بعد ان دونوں کے درمیان اس موضوع پر گفتگو نہیں ہوئی۔

حان حارث کون تھا؟

منساء کو یہ درے سے پتہ چلا تھا۔ وہ ایک لاوارث بچہ تھا۔ جس کے والدین اسے مسجد کے باہر چھوڑ کر چلے گۓ تھے۔

میجر احد اور میجر ذوریز اس دن عشاء کی نماز پڑھ کر گھر جا رہے تھے جب انھیں کسی بچے کے رونے کی آواز آئی۔

مسجد کی سیڑھیوں سے تھوڑی دور ایک بےبی بیگ پڑا تھا۔ وہ پاس گئے تو بیگ کے اندر ایک بچہ بھوک کی وجہ سے بلک بلک کر رو رہا تھا۔

اس کو دیکھ کر ان دونوں کا دل ہمدردی سے بھر گیا اور وہ اسے گھر لے آئے۔ مسز ابراہیم نے شروع میں تو بہت مخالفت کی لیکن پھر چاروناچار اسے قبول کر لیا۔

لیکن ہالے نور کے دل میں اس کے خلاف نفرت ضرور انڈیل دی تھی۔ حان کی تربیت میجر احد نے خود کی تھی۔

وہ خود اس وقت بہت چھوٹے تھے لیکن اس کو کھانا کھلانا، نہلانا دھلانا حتیٰ کہ اس کے پیمپرز بھی خود بدلے تھے انھوں نے۔

ہمدردی پہلے انسیت اور پھر محبت میں بدلتی چلی گئی۔ اور حان حارث، احد ابراہیم کو سگی اولاد کی طرح عزیز ہو گیا۔

یہ تھی حان حارث کی کہانی۔

لیکن منساء وقار کون تھی؟

ایک ایسی لڑکی جس نے زندگی کی ہر آسائش سے لطف اٹھایا لیکن ایک چیز کی کمی اسے بھی تھی۔

"محبت"۔

اس نے زندگی میں کبھی ماں باپ کی محبت نہیں نہیں دیکھی تھی۔ چونکہ اس کے والدین ایلٹ کلاس سے تعلق رکھتے تھے، ان کے پاس اپنی اکلوتی بیٹی کو دینے کے لیے پیسے کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔

یقینِ محکمWhere stories live. Discover now