یقینِ محکمایسا بے حس کہ پگلتا نہ تھا باتوں سے
آدمی تھا۔۔۔۔یا کوئی تراشا ہوا پتھر
دکھ ہی ایسا تھا کہ رویا تیرا محسن ورنہ
غم چھپا کر اسے ہنستا ہوا اکثر دیکھارستم نے بہت کم عرصے میں زی کا اعتماد جیت لیا تھا اور یہ بات ماہ بیر کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے بارہا زی کو اس سے متنفر کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اور اندر ہی اندر بل کھا کر رہ گیا۔
آج بھی زی نے کروڑوں روپے کے ڈرگز رستم کے ساتھ مل کر سرحد پار پہنچاۓ تھے اور ماہ بیر کو کان و کان خبر نہ ہوئی۔
جب اسے معلوم ہوا تو وہ دندناتا ہوا زی کے سر پر پہنچ گیا۔
"باس! آپ کو نہیں لگتا کہ آپ اس رستم پر کچھ زیادہ ہی بھروسہ کرنے لگ گئے ہیں؟"
اس نے اپنا لہجہ حتیٰ المقدور شائستہ رکھا ۔
"باس میں ہوں یا تم؟ مجھے مت سکھاؤ کہ کس پر بھروسہ کرنا چاہیے اور کس پر نہیں"۔
زی نے طیش میں آکر کہا۔
زی کو اپنا آپ ایک کٹھ پُتلی لگنے لگا تھا جو صرف ماہ بیر کے اشاروں پر چلتا تھا۔ اس لیے اس نے دانستہ ماہ بیر سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔
"لیکن باس"۔۔۔۔۔
ماہ بیر نے کچھ کہنا چاہا تو زی نے روک دیا۔
"تمھیں ایک کام کہا تھا۔ وہ ہوا کہ نہیں؟"
زی نے سرد انداز میں پوچھا۔
"ہاں باس! کوئی میجر احد ہے۔ وہ اور اس کی ٹیم آپ کے خلاف ثبوت تلاش کرنے میں سرگرم عمل ہے"۔
ماہ بیر نے بتایا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا کہ زی اس کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔
"ہا ہا ہا ہا! اس بار تو دشمن سچ میں ظرف والا ملا ہے۔ اب اس کھیل میں مزہ آۓ گا"۔
زی کا کھوکھلا قہقہہ گونجا۔
ماہ بیر وہاں سے نکل گیا۔ اسے ابھی اپنا نیا منصوبہ ترتیب دینا تھا۔
"باس! کام ہو گیا"۔
رستم نے آ کر اطلاع دی۔
زی نے اسے گہری نظروں سے دیکھا۔ نا جانے کیوں یہ شخص اپنا اپنا سا لگتا تھا۔
"ٹھیک ہے۔ تم جاؤ اب۔ اگر مجھے ضرورت پڑی تو تمھیں بلوا لوں گا"۔
زی نے رستم کو جانے کا حکم دیا اور خود کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
KAMU SEDANG MEMBACA
یقینِ محکم
Misteri / Thrillerیقین محکم یہ کہانی ہے ایک لڑکی کے اللّٰہ پر یقین کی۔پاک سر زمین کے محافظوں کی۔ دو بھائیوں کی جنہوں نے اپنی منزل خود چنی ۔ ایک ایسے گینگسٹر کی جس نے بدلے کی آگ میں اپنا سب کچھ گنوا دیا