(mega episode) قسط نمبر 22

22 2 20
                                    

یقینِ محکم

یہ جو زندگی کی کتاب ہے
یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے
کہیں اک حسین خواب ہے
کہیں جان لیوا عذاب ہے
کبھی کھو لیا کبھی پا لیا
کبھی رو لیا کبھی گا لیا
کہیں رحمتوں کی ہیں بارشیں
کہیں تشنگی بے حساب ہے
کہیں چھاؤں ہے کہیں دھوپ ہے
کہیں اور ہی کوئی روپ ہے
کہیں چھین لیتی ہے ہر خوشی
کہیں مہربان بے حساب ہے
یہ جو زندگی کی کتاب ہے
یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے

زی جیسا ناسور پاکستان سے ختم ہو گیا تھا۔ جہاں سب کو اس بات کی خوشی تھی وہیں ایک قلق بھی تھا۔لیکن مجرم کہاں کسی کا سگا ہوتا ہے۔

سو یہ زخم بھی وقت کے ساتھ مندمل ہو جانا تھا۔ آج ڈیڑھ مہینے بعد حورین گھر لوٹی تھی۔اور گھر پہنچتے ہی جو منظر اسے دیکھنے کو ملا وہ ناقابل یقین تھا۔

صوفے پر عالیان اور نورعین بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔اور پاس ہی رابعہ بیگم بیٹھ کر سبزی کاٹ رہیں تھیں۔

"بھائی"۔

اس کے لب بےآواز ہلے۔ آنکھیں لبالب پانی سے بھر گئیں۔اگر یہ اس کی ثابت قدمی اور یقینِ محکم کا انعام تھا تو کیا ہی اعلیٰ انعام تھا

اتنے میں عالیان کی نظر بھی حورین ر پڑ چکی تھی۔ وہ مسکرایا اور پھر چلتا ہوا اس کے پاس آیا۔

"کامیابی مبارک ہو کیپٹن حورین داؤد"۔

وہی مسکراہٹ، وہی چمکتی آنکھیں۔ حورین نے اپنا کانپتا ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے کو چھوا۔ وہ کوئی خواب نہیں تھا۔ سالم حقیقت تھی۔

وہ ہوش میں آتے ہی اس کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ یہاں تک کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔

"آپ کہاں چلے گئے تھے بھائی؟ آپ کو ذرا ہمارا خیال نہیں آیا۔ آپ کی حور آپ کے بغیر ٹوٹ گئ تھی۔ میں نے آپ کو کتنا یاد کیا لیکن آپ نہیں آۓ"۔

وہ اپنے بھائی کے گلے لگ کر ان سے انھیں کی شکایت کرنے لگی۔

"بس میرا بچہ! اب میں کہیں نہیں جاؤں گا"۔

عالیان نے اس کا سر تھپتھپا یا۔

"بھئ ہم بھی یہاں ہیں"۔

نور سے رہا نہیں گیا تو بول پڑی۔ حور, عالیان سے الگ ہو کر نور سے ملی۔

"میں نے کہا تھا نا بھائی زندہ ہیں"۔

حور نے گردن اکڑا کر نور سے کہا۔

"اچھا بس، زیادہ شوخی نا ہو"۔

یقینِ محکمTahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon