part 3

3.3K 173 11
                                    

وہ انگلش کی کتاب کو اپنے سامنے کھولے بیٹھی ہوئی تھی لیکن اس کے خیالوں کے ریشم دھاگے کہیں اور ہی الجھے ہوئے تھے۔ اس کا دھیان کتاب پر بالکل بھی نہیں تھا وہ پچھلے دو گھنٹے سے ایسے ہی بیٹھی ہوئی تھی ایک لفظ بھی اس نے نہیں پڑھا تھا۔ اس کی یہ کاروائی پلنگ پر بیٹھی نانو دیکھ رہی تھیں انھیں وہ آج کافی خاموش اور الجھی الجھی سی لگی ہوئی تھی۔ نہیں تو پہلے وہ ایسے کبھی خاموش نہیں بیٹھتی تھی۔ انھیں اس کی فکر ہوئی۔ اس کی زندگی میں ایک وہی تو تھیں فکر کرنے والیں اور کون تھا اس کے لیے پریشان ہونے والا۔

"زینیا پتر کیا سوچ رہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تمہارا دھیان کدھر ہے۔۔۔۔۔۔۔؟" نانو اٹھ کر اس کے پاس آئیں اور اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے بولیں

ان کی آواز سے اس کے خیالوں کے سارے دھاگے ٹوٹ گئے اور ان کی طرف دیکھنے لگی۔

"زینی بول کیوں نہیں رہی تم ۔۔۔۔۔۔۔ ؟ٹھیک تو ہو؟" نانو نے اس کی طرف سے جواب نہ پاکر جنجھوڑا جو انہیں ٹکی ٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔

"کچھ نہیں نانو اماں ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے کیا ہونا ہے بھلا اچھی بھلی تو ہوں۔"

وہ کھنکھتے لہجے میں گویا ہوئی بالکل ایسے جیسے وہ کب سے بول رہی تھی۔

"اچھا اچھی بھلی ہو تو کیا سوچ رہی تھی اتنی دیر سے؟ میں کب سے دیکھ رہی تھی کہ تم نے ایک لفظ نہیں پڑھا کتاب تو تم نے گود میں کھولی ہوئی ہے لیکن دھیان تمہارا کہیں اور ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا بات ہے؟ زینیا نے انھیں دیکھا جو اس کے لیے پریشان تھیں اس نے اپنے آپ کو کوسا کیا ضرورت تھی اس طرح ایکٹ کرنے کی لیکن اس میں بھی اس کا کوئی قصور نہیں تھا کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان ان باتوں کو سمجھتا سمجھتا الجھ جاتا ہے اور اس الجھن کو سلجھانے کے لیے اسی طرح بیٹھے بیٹھے ہی سوچنے لگ جاتا ہے۔

نانو کیا میری ماں واقعی ایک بری عورت ہے؟ کیا واقعی اس کے غیر محرموں کے ساتھ ناجائز تعلق تھے ؟ کیا واقعی انہوں نے میرے باپ کو اسی وجہ سے چھوڑا تھا ؟

وہ کچھ کھوئی کھوئی سی ان سے پوچھ رہی تھی نانو اماں اس کے سوالوں سے ٹھٹکیں اس نے آج تک کبھی بھی ان سے اپنی ماں کے بارے میں نہیں تھا پوچھا وہ تو ماں اور باپ دونوں کے ذکر سے ہی نفرت کرتی تھی لیکن آج اس کے منہ سے یہ سوال سن کر ان کا حیران ہونا لازم تھا۔

"نہیں زینیا تمہاری ماں ایسی نہیں تھی اور نہ ہے اس کا کسی کے ساتھ بھی اس طرح کا تعلق نہیں تھا۔ وہ اپنی پسند سے شادی کرنے کے جرم میں یہ سزا بھگت رہی ہے۔" نانواماں کی دکھی بھری آواز میں جواب دیا جیسے اس کے سوال کا جواب بہت پہلے ہی تیار کرکے رکھا ہو۔ان کی بات پر اس نے اگلا سوال اٹھایا۔

"تو نانو اگر انہوں نے میرے باپ سے پسند کی شادی کی تھی تو پھر اسے نبھایا کیوں نہیں؟ کیوں علیحدہ ہوگئیں کیوں میری زندگی تباہ کردی؟ کیوں انہوں نے دوسری شادی کی جب وہ میرے باپ سے اتنی محبت کرتی تھیں جس کے لیے اس نے آپ سب کو چھوڑ دیا اس کی محبت ختم ہوگئی ؟ دیکھیں آج سب مجھ میں اس عورت کو ڈوھونڈتے ہیں نانو سب کو لگتا ہے میں بھی اسی طرح کی ہوں آخر کو اس کی بیٹی جو ہوں۔" آہستہ آہستہ اس کی آواز اونچی ہوگئی تھی اس کے لہجے میں ماں کے لیے بدگمانی اور نفرت سی تھی اس کے اندر کا کئیں سالوں کا غبار چھٹ پڑا تھا لیکن مجال ہے اس کی آنکھوں میں آنسو بھی آیا ہو آواز میں دکھ تھا چہرے پر غم کے آثار تھے انکھیں ویران تھیں وہ تھک چکی تھی ممانی اور اس کے رشتے داروں کی باتیں سن سن کر۔

مجھے صندل کردو Where stories live. Discover now