مجھے صندل کردو
بقلم : نمرہ نور
چوتھی قسط
وہ سکول سے گھرتک پیدل چلتے چلتے تھک چکی تھی اوپر سے سورج کی منہ زور تپش اس کے دماغ کو جیسے جھلسا رہی تھی اس گرمی میں اس کا بہت برا حال تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہی سڑک پر کسی سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ جائے لیکن ہائے رے یہ قسمت سڑک پر کوئی ایسا درخت بھی نہیں تھا
اگر عنزہ ہوتی تو وہ اب تک اسے کتنی دفعہ کوس چکی ہوتی کہ کنجوسی چھوڑو اور کوئی رکشہ پکڑو لیکن نہیں جی زینیا میڈیم جو اپنا ایک پیسہ بھی خرچ کرئے عنزہ تو اسی وجہ سے اس سے چڑتی تھی لیکن بقول عنزہ کہ وہ بھی ڈھیٹ تھی
رو دھو کر جیسے ہی وہ اپنے گھر کی گلی میں مڑی اس نے سکھ کا سانس لیا ایک دو گھر چھوڑ کر اس کا گھر نظر آرہا تھا گلی میں ایکا دوکا لوگ آتے جارہے تھے وہ جلدی جلدی قدم اٹھاتی گزر رہی تھی۔
"زینیا ۔۔۔۔۔۔ زینیا بات سنو یار۔" وہ جو بیرونی دروازے کے قریب پہنچی عجلت بھری آواز میں پیچھے مڑکر ادھر ادھر دیکھا لیکن آواز دینے والا وجود اسے نظر نہیں آرہا تھا۔
"ارے زینی میں یہاں ہوں ادھر دیکھو۔" آواز دینے والے کو شاید انداز ہوگیا تھا کہ وہ اسے نظر نہیں آرہی اسلیے اس سے مخاطب ہوئی۔ زینیا کی نظر اپنے گھر کے سامنے والی کوٹھئ کی دوسری منزل کی کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑی رافعہ پر پڑی تھی جس نے ابھی اسے آواز دئے کر روکا تھا۔
"ہاں بولو رافعہ کیا بات۔" وہ تھکاوٹ سے چور لہجے میں وہی کھڑے اس سے مخاطب ہوئی۔
"یار ذرا نزدیک آو ناں اتنا لاوڈلی مجھ سے بولا نہیں جاتا۔" زینیا اس کی بات پر جنجھلاتی ہوئی ذرا دیوار کے نزدیک گئی کھڑکی کافی اونچی تھی اور زینیا کو اس پر غصہ بھی آرہا خد ہے ایک تو وہ تھکی ہاری آئی اوپر سے اس میڈیم کے نھرے بھی ختم نہیں ہورہے۔
"ہاں اب بولو اور ایک سیکنڈ میں اپنی بات ختم کرو میرے پاس ٹائم نہیں اتنا۔" وہ جنجھلاتے ہوئے سر کو ذرا اوپر اٹھا کر بولی وہ بھی اپنے نام کی تھی اس کی تھکاوٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے بولی۔
"میں تو کہتی ہوں اندر آجاو مجھے تم سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"رافعی تم نے بات کرنی ہے تو یہی پر کرو ورنہ میں چلتی ہوں ۔" وہ غصے سے گویا ہوئی
"اچھا اچھا ٹھیک ہے یار غصہ تو مت ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ سکول سے آرہی ہو تم؟ " اس کے سوال پر زینیا کا دل کیا ہاتھ میں پکڑا پیپروں کا بنڈل اس کے سر پر دئے مارے جو اسے وہاں گرمی میں کھڑا کرکے فضول سوالات پوچھ رہی تھی۔ لیکن وہ اس سے اونچا کھڑی تھی ورنہ وہ جس قدر تھکی ہوئی تھی اسے مارنے پر بھی باز نہ آتی۔
"ہاں۔" وہ زچ ہوگئی تھی اس کی اتنی لمبی تمہید سے پتہ نہیں میڈیم اصل بات کب کریں گی۔
"اچھا زینی یار یہ بتاو تم نے میرے کپڑے سلائی نہیں کیے ابھی؟ پتہ ہے دو مہینے ہوگئے ہیں تمہیں کپڑا دیا تھا ایک گاون سلائی کرنے کے لیے اور تم ہو کے سب کو کردیتی ہو ایک صرف میں ہی بچاری ہوں جس کے ساتھ تمہیں پتہ نہیں کیا دشمنی ہے۔" وہ منہ بسورتے ہوئے صدمے سے اسے یاددہانی کرواتے ہوئے بولی۔
YOU ARE READING
مجھے صندل کردو
Randomمکمل ناول✔ یہ کہانی ہے کسی کے جنون و عشق کی کسی کی نفرتوں کی کسی کے ادھورے پن کی کسی کی چاہت کی تو کسی کے لاابالی اور کھلنڈر پن کے کسی کی بدمزاجی اور بدتمیزی کی۔ ہے یہ کہانی تھوڑی کھٹی میٹھی سی۔ امید ہے سب کو پسند آئے گی اگر کہیں غلطی ہوگئی تو می...