part 7

3K 200 36
                                    

گرنے کے باعث زینیا کی چینخ نکل گئی تھی ساتھ ہی اسے تکلیف کا احساس ہوا لیکن اس نے پراوہ کیے بغیر اس خرکت کرنے والے انسان کو دیکھا تو غم و غصے سے وہ اس پر چلائی۔

"تم ۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی۔" وہ اٹھ کر  اسے گریبان سے پکڑ کر بولی۔

"ابھی تم نے میری ہمت دیکھی کب ہے جان من ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو  آو تجھے آج میں اپنی ہمت سے ملاقات کرواتا ہوں۔" وہ اپنے چہرے پر مکروا مسکراہٹ لیتا اسے بازووں سے کھینچتا ہوٹل کے پچھلے دروازے سے اسے گیراج تک لے آیا۔

"عمر یہ کیا خرکت ہے چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔۔۔" وہ ڈر کے مارے چلائی تھی ساتھ ہی مدد طلب  نگاہوں سے ارد گرد دیکھا جہاں کسی بھی زی رخ کا نام و نشان تک نہ تھا۔

اس نے اپنا بازووں اس کے شکنجے سے چھوڑوانا چاہا لیکن ساری کوشش اس کی مظبوط گرفت میں کمزور پڑ گئی تھی۔

وہ اسے کھینچتا ہوا اپنی گاڑی تک لایا اور گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول کر بولا۔

"گاڑی میں بیٹھو۔" انداز حکم دینے والا تھا

"نہیں بیٹھوں گی تم ہوتے کون ہو مجھے پر حکم چلانے والے۔"

وہ غصے سے چلائی اور ساتھ ہی ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھوڑوایا تھا

"گاڑی میں بیٹھتی ہو یا پھر میں تمہیں اپنے طریقے سے بیٹھاوں۔" وہ اس کے نزدیک ہوکر  اس کے بالوں کو اپنی گرفت میں لیتے بولا اس کے جسم میں درد کی لہر سی دوڑ گئی تھی۔

"چھوڑو مجھے ذلیل انسان تمہیں شرم نہیں آتی ایسی خرکت کرتے ہوئے۔" وہ دانت پیستے بولی زینیا کو اس وقت اس سے گھن محسوس ہورہی تھی وہ دل ہی میں اپنے خدا سے اس مصیبت سے بچنے کی دعا مانگنے لگی۔

مشکل ترین وقت میں ایک وہی تو ہے جسے مدد کے لیے  پکاریں تو مدد کرتا ہے اپنے بندوں کی مشکل کو آسان کرتا ہے اسے حوصلہ دیتا ہے مشکل خالات سے لڑنے کا چاہے  خالات جیسے بھی ہوں وہ اپنے بندوں کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔

"عابی یہ تو وہی لڑکی ہے جو مجھ سے اس دن مال میں ٹکرائی تھی۔"

آبان شاہ اور عباد شاہ جو گاڑی سے اتر کر اندر کی طرف جارہے تھے جب اس کی نظر زینیا پر پڑی جس کے بال عمر کی مٹھی میں ہونے کے باعث چہرے کی رنگت لال سرخ ہوگئی ہوئی تھی اور آنکھوں میں آنسو قطار کی صورت میں بہہ رہے تھے  ناجانے کس احساس کے تخت اسے کوئی گڑبڑ محسوس ہوئی تھی۔

"ہاں یہ تو وہی لڑکی ہے جس نے آپ سے سوری بھی بلوایا اور پانچ ہزار بھی نکلوایا۔۔۔۔۔۔۔۔ واہ بھیا کیا یاداشت ہے آپ کی ہاں ہاں آپ  بھولیں گئے بھی کیسے زندگی میں پہلی دفعہ جو ایسی لڑکی سے ٹکر ہوئی تھی کیوں صیخ کہا ناں؟" عباد شاہ اس کی بات پر زینیا کو دیکھ کر شرارت سے بولا۔

اس سے پہلے وہ کوئی اور بات کرتے جب زناٹے دار تھپڑ کی آواز سنائی دی تھی ان دونوں نے اس طرف دیکھا جہاں اپنی گال پر ہاتھ رکھے پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی انھوں نے دیکھا وہ کیسے دوبارہ اسے اس کی بالوں کی چوٹی سے پکڑ کر گاڑی میں بیٹھانے کی کوشش کررہا تھا۔

مجھے صندل کردو Nơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ