مجھے صندل کردو part 12

3.4K 215 30
                                    

Asslam o Alikum.
My dear reader frnds

How r u gysss.😍😍😍




زینیا پھر عنزہ اور فاروق کے ساتھ ہی ہسپیٹل چلی آئی تھی نانو اسے دیکھ کر  خوش ہوگئی تھیں لیکن اس کے مرجھائے چہرے کو جہاں اس نے مسکان سجائی ہوئی تھی لمحوں میں پہچان گی تھیں ۔ ابان شاہ جو انھیں چھوڑنے آیا تھا کمرے میں نانو کا حال دریافت کرنے آیا تو وہ ان سے پوچھنے لگیں۔

"  کیوں بیٹا میری بیٹی کا خیال نہیں رکھا۔" انھوں نے دوٹوک انداز میں پوچھا ابان شاہ نے ہربڑا کر زینیا کو دیکھا جو نانو کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔" کہیں یہ نانو کو نہ بتادئے۔" اس  نے دل میں سوچا پھر نانو کی نظروں سے چھپ کر اسے کڑی نظر سے گھورا جیسے وارن کیا ہو اگر نانو کو کچھ بتایا تو بہت برا انجام ہوگا۔

" نہیں نانو ایسی کوئی بات نہیں  میں نے تو اپنی طرف سے ان کا بہت  خیال رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"لیکن ویکن کچھ نہیں نانو   یہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں اور آپ زیادہ مت سوچیں آرام کریں میں ٹھیک ہوں۔" وہ تیزی سے اس کی بات کاٹتے بولی ابان شاہ اسے دیکھ  کر مسکرا دیا

زاہرہ بیگم جو صبح کی ان کے پاس آئی ہوئی تھیں  زینیا کو دیکھ دیکھ کر جل کے کوئلہ ہورہی تھیں اتنا دولت مند اور ہیرے جیسا شوہر دیکھ کر  ان کے دل میں حسرت جاگی کہ ان کی بیٹیوں میں سے کسی ایک کو یہ مل جاتا۔

انھوں نے دل ہی دل میں زینیا کو بدعاد دی جسے وہ اپنا دشمن  سمجھتی تھیں۔ نفرت اور حسد جب دل میں جنم لیتا ہے تو بہت نقصان ہوتا ہے حسد انسان کی نیکیوں کو دیمک کی طرح چاٹتا ہے  

زینیا نانو کو بتا کر باہر آگئی نہیں چاہتی تھی کہ نانو اس کے سامنے  کچھ پوچھیں ۔ کیا ہوگا اس کی زندگی پہلے بھی سکون میں نہیں تھی زاہرہ بیگم کی باتیں عمر کی بری نظر اور نفرت نے اس کا جینا دو بھر کیا ہوا تھا لیکن اب ایک الگ سی بے سکونی تھی اسے  تو اب ایسا لگنے لگا تھا کہ شاید وہ ساری زندگی ہی ایسے گھٹ گھٹ کر جینے کے لیے پیداہوئی ہے وہ اپنی گزری حالات زندگی اور آنے والی حالات زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی اپن ہی سوچوں میں لفٹ سے باہر نکلتے وجود سے بری طرح ٹکرا گی۔

مقابل کی اسے دیکھتے ہی آنکھیں چمک اٹھی تھیں۔

"ارے واہ کیا بات ہے تم ابان شاہ  کی بیوی بن کر کچھ زیادہ ہی پیاری نہیں ہوگی ۔" وہ جو  زبردست تصادم ہونے کے باعث اپنا سر مسل رہی تھی اپنے قریب عمر کی آواز سن کر اچھل پڑی جو  خشمگیں نگاہوں سے اس کا جائزہ لے رہا تھا زینیاکو اس کی ہوس بھری نگاہوں سے جیسے اپنے وجود پر کانٹے چھبتے محسوس ہورہے تھے

"میرے رستے سے ہٹو خبیث انسان۔" وہ غصے سے تڑخ کر بولی۔

"اففف زینی تم کتنی حسین ہو اور تمہارے بال ۔" وہ اس کے غصے کی پرواہ کیے بغیر اس کے کھلے بالوں کو چھوتے ہوئے مدہوش سے لہجے میں بولا زینیا کو اس کے انداز سے وحشت ہورہی تھی اسے ایسا لگا  جیسے آس پاس گزرتے لوگ انھیں شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے ۔

مجھے صندل کردو Dove le storie prendono vita. Scoprilo ora