تپتی دھوپ میں سورج کی تیز گرمائش دماغ کو چھورہی تھی جبکہ سورج کی تیز روشنی سے آنکھیں چندھیا رہی تھیں ۔ کالج کے گیٹ کے سامنے ایک بھیڑ سی جمع تھی یہ پرائیویٹ گرلز کالج تھا جس کے باہر اس وقت گاڑیوں اور لوگوں کا رش تھا کیونکہ چھٹی کا وقت تھا اور کسی نہ کسی لڑکی کو کوئی نہ کوئی لینے آیا تھا وہ بھی کالج کے گیٹ کے باہر رش سے ہٹ کر تھوڑے سے فاصلے کی دوری پر تپتی دھوپ میں بیگ کو ہاتھ میں لٹکائے ہاتھ سے کاپی کو ماتھے پر رکھے جو دھوپ سے بچنے کی ناکام کوشش میں رکھی ہوئی تھی وہ عنزہ وقار کا انتظار کررہی تھی جو اسے ادھر انتظار کرنے کا کہہ کر خود واپس کالج کے اندر چلی گئی تھی کیونکہ وہ اپنی کتاب کالج ہی بھول آئی تھی وہ ایسی ہی تھی کچھ نہ کچھ تو ضرور بھول جاتی تھی ہمیشہ کی طرح اب بھی وہ اپنی چار دن کے بعد ہونے والے پیپر کی کتاب بھول آئی تھی اور ہمیشہ کی طرح کالج کے باہر آکر ہی اسے یاد آیا تھا۔ لیکن اب وہ اسے یہاں انتظار کرنے کا کہہ کر شاید بھول گئی تھی۔ وہ دونوں بی ایس سی پارٹ ٹو میں تھیں اور چار دن بعد ان کے پیپر شروع ہونے والے تھے کالج سے فری ہوئے تو انہیں دوہفتے ہوگئے تھے لیکن آج پرنسپل کے کال کرنے پر وہ اپنی رول نمبر سلپ لینے آئی تھیں گھر میں تو وہ کہہ کر آئی تھیں کہ دس گیارہ بجے واپس آجاییں گی لیکن یہاں کیا پتہ تھا دیر ہوجائے گی ایک تو ساری کلاس کو اکٹھی رول نمبر سلپ دینے کے چکر میں لیٹ ہوگئی تھیں اور دوسرا عنزہ میڈیم رول نمبر سلپ ملنے کے بعد سب کے پاس جا جا کر پوچھ رہی تھی کہ بھئی اس کے آگئے پیچھے کس کس کا روک نمبر ہےجس وجہ سے اور دیر ہوگئی تھی لیکن اب میڈیم جا کر واپس آنے کا بھول گئی تھی کچھ تپتی دھوپ سے اور کچھ غصے سے اس کے روئی جیسے عارض لال گلابی ہورہے تھے۔ وہ سب کو آتے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ اسے وہاں تقریبا آدھا گھنٹہ ہوگیا تھا اس کا انتظار کرتے لیکن عنزہ تھی کہ آ ہی نہیں رہی تھی۔ ہزار دفعہ تو وہ اسے کوس چکی تھی۔
"مجھے خود ہی اس دیکھنا ہوگا پتہ نہیں کہاں مر کھپ گئی ہے۔" وہ غصے سے بڑبڑاتے ہوئے بولی۔
"بچہ تم کدھر جارہے ، تم کو کتنا بار منع کی ہے کہ چھٹی ہونے کے بعد تم بچہ لوگ اندر نہیں جا سکتا۔" وہ جیسے ہی کالج کا گیٹ پار کرنے لگی تھی تو خان بابا نے اسے روک لیا وہ جانتی تھی کہ چھٹی ہونے کے بعد اگر کوئی لڑکی ایک بار کالج سے باہر آجائے دو بارہ اندر جانے کی اجازت نہیں تھی لیکن یہ تو ان دونوں کا معمول کا کام تھا اور خان بابا بھی( چوکیدار) ہر دفعہ یہی کہتے تھے۔"خان بابا پلیز آخری دفعہ جانے دیں۔"
وہ منت کرتے ہوئے بولی۔"بچہ تم ہر دفعہ یہی کہتا ہے لیکن تم قول کے بہت جھوٹے ہو اور وہ جو تمہارے ساتھ بچہ ہوتا ہے وہ بہت ہی جھوٹا اور مکار ہے ہر دفعہ میرے کو دھوکہ دئے کر چلا جاتا ہے۔"
"اوہو خان بابا اتنا بھی ہٹلر بننے کی ضرورت نہیں ہے مجھے بہت دیر ہورہی ہے پلیز جانے دیں آپ بہت اچھے ہیں خان بابا پلیز جانے دیں اب دیکھیں ناں پتہ نہیں پھر ہم نے یہاں آنا بھی ہے یا نہیں آخری دفعہ ہے پلیززذزززز۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تھوڑا ایموشنل ہوئی۔
VOUS LISEZ
مجھے صندل کردو
Aléatoireمکمل ناول✔ یہ کہانی ہے کسی کے جنون و عشق کی کسی کی نفرتوں کی کسی کے ادھورے پن کی کسی کی چاہت کی تو کسی کے لاابالی اور کھلنڈر پن کے کسی کی بدمزاجی اور بدتمیزی کی۔ ہے یہ کہانی تھوڑی کھٹی میٹھی سی۔ امید ہے سب کو پسند آئے گی اگر کہیں غلطی ہوگئی تو می...