"الھادی"

640 42 0
                                    

ارسل اور ارشیہ جہانگیر صاحب کے بچے ہیں اور  سلمیٰ بیگم ان دونوں کی والدہ ہیں - ارسل جہانگیر صاحب کی خواہش پر پاکستان آرمی میں بھرتی ہوا تھا - اپنی قابلیت اور محنت کی وجہ سے میجر کی پوسٹ جلد ہی حاصل کر لی تھی -
شروع شروع میں اُس کو اپنا کام مشکل لگا تھا لیکن آہستہ آہستہ اُسے اپنے وطن سے اپنے ملک سے وفاداری کا جذبہ اپنے دل میں پنپتا ہوا محسوس ہوا تھا - اور جب ہم اپنے کام سے وفاداری کی نیت کر لیں تو وہ کام مشکل نہیں رہتا- اسی طرح ارسل جہانگیر اوہ--- معذرت "میجر ارسل جہانگیر " کو اپنے کام سے شدید محبت ہو گئی تھی -
ارشیہ ارسل سے دو سال چھوٹی تھی اور دونوں میں کافی دوستی بھی تھی - ارشیہ کچھ عرصہ پہلے ہی پڑھنے کے لیے باہر شفٹ (باہر مطلب ملک سے باہر گھر سے باہر نہیں )ہوئی تھی-

☆☆☆
سالم اور ارسل کی دوستی آج یا کل کی نہیں بلکہ نرسری کلاس سے تھی -
سالم بھی ارسل ہی کی طرح"ہائی سوسائٹی"سے تعلق رکھتا تھا -
سالم اور ارسل دونوں نے ہی آرمی کا ٹیسٹ دیا اور سلیکشن بھی ہو گئ تھی مگر سالم کے والد کی اچانک ڈیتھ کی وجہ سے وہ آرمی جوائن نہی کر سکا تھا - دونوں کی دوستی ایسی ہے کہ جینے مرنے کی قسمیں ساتھ کھا رکھی ہیں - اور تو اور ان کی دوستی پر ایک "دوستانہ" فلم مزید بن سکتی ہے - سالم کو شادی کا جتنا جنون تھا ارسل اتنا ہی شادی کے نام سے بھاگتا تھا -
.☆☆☆
عشق کہتا ہے میرے ساتھ رہو دن رات رہو...
مطلب برباد تھے برباد ہو برباد رہو...
وہ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی پر مشاعرہ سن رہی تھی یہ شعر سن کر اس نے سوچا تھا کہ شاید عشق کا قائدہ ہی یہ ہے کہ جو عشق کرے گا وہ برباد ہی ہو گا - لیکن پھر اس نے سوچا تھا کہ ایک عشق ایسا ہے جو اگر ہو جائے تو کچھ بھی نا ممکن نہیں رہتا ہر چیز خودبخود جھولی میں ڈال دی جاتی ہے -
موسیٰ کب اس کے ساتھ صوفے پر آ کر بیٹھا اُسے علم ہی نہیں ہوا تھا
یار جنت ہر وقت تمہارے اندر یہ شاعروں کی روح کیوں گھسی رہتی ہے - موسیٰ نے جنت کے ہاتھ سے ریموٹ لیتے ہوئے کہا -
جنت خاموشی سے اُٹھ کر کمرے کی طرف بڑھ گئ (جیسے موسیٰ کو کہا ہو بولتے رہو مجھے کیا )-
کمرے میں آ کر وہ بیڈ پر لیٹ گئ اور آنکھیں بند کر لیں- بند آنکھوں کے سامنے ایک منظر سا چلنے لگا -
تیز بارش ہو رہی تھی جیسے کسی طوفان کی آمد کا پتا دے رہی ہو- وہ دونوں آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھے تھے اور درمیان میں میز حائل تھا - دونوں کے سامنے چائے کے ان چھوئے کپ رکھے  تھے -
جلدی بتاؤ تمہیں مجھ  سے  کیا بات کرنی تھی  باہر بارش دیکھو کتنی تیز ہو رہی ہے - لمبی خاموشی کے بعد جنت نے ہی بات کا آغاز کیا تھا -
ایک تو تمہیں گھر جانے کی بڑی جلدی ہوتی ہے - سامنے بیٹھے شخص نے گلہ آمیز لہجے میں کہا تھا -
اچھا اب تم غصہ کرنے مت بیٹھ جانا - بتاؤ نا کیا بات ہے - جنت نے محبت سے کہا -
سامنے بیٹھے شخص نے مخملی کالے رنگ کی ڈبیا کھول کر جنت کے سامنے کی
will u marry me?
اس نے جنت کا دودھیا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا -
جنت کی آنکھوں میں ایک ساتھ کئ جگنو روشن ہوئے تھے -
ہاں! اس نے خوشی سے بے قابو ہوتے دل کے ساتھ کہا -
اس نے ڈبیا سے بے حد خوبصورت ہیرے کی رنگ نکالی اور جنت کے ہاتھ میں پہنا دی -
بہت َخوبصورت ہے - جنت نے مسکراتے ہوئے کہا -
ہاں مگر تم سے زیادہ نہیں - اس نے جنت کا دوسرا ہاتھ بھی اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا - جنت ؟؟؟موسیٰ کی آواز پر اس نے آنکھیں کھولی تو سارہ منظر ایک دم سے چھٹ گیا تھا -
☆☆☆
ہاں  بولو - وہ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے بولی -
وہ مجھے تمہیں کچھ بتانا تھا- موسیٰ نے تمہید باندھنی چاہی -
بتاؤ کیا بات ہے ؟-
وہ جو اس دن تم شادی والی بات کی وجہ سے بابا جان پر تبصرہ کر رہی تھی وہ بابا جان نے سن لیا تھا - موسیٰ نے بغور اس کے چہرےکے تاثرات  کا جائزہ لیتے ہوئے کہا -
جنت کے رنگ ایک دم سے اُڑن چھو ہو گئے تھے وہ اچھل کر بیڈ سے اتری - کک... کیا ؟تمہیں کیسے پتا ؟؟؟-
شاید بابا کسی کام سے آئے تھے تمہاری بات سن کر وہیں سے پلٹ گئے تھے میں نے انہیں پلٹتے دیکھا تھا -
ہو سکتا ہے انہوں نے کچھ سنا ہی نا ہو - جنت نے ابرو اچکاتے ہوئے کہا -
ہو سکتا ہے مگر ان کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ انہوں نے سب سن لیا ہے - موسیٰ نے کندھے اچکائے -
اُس کے دل کو کچھ چبھا تھا اس نے سوچا تھا کہ وہ اپنے ماما بابا کو کبھی ہرٹ نہیں کرے گی- لیکن اب وہ کتنا ہرٹ ہوئے ہوں گے -
اس نے جلدی سے چپل پہنی اور باہر کو لپکی - ماما کچن میں کھڑی ََخانساماں کو رات کے کھانے کی ہدایات دے رہی تھی -
ماما بابا جان کہاں ہیں ؟
وہ تو اسٹڈی میں ہیں کیوں کیا ہوا ہے تمہارے رنگ کیوں اُڑے ہوئے ہیں ؟ - ماما نے پریشانی سے پوچھا -
کچھ نہیں - اس نے ہاتھ جھلا کر کہا اور سٹڈی کی طرف بڑھ گئی-
اس کو اپنے بابا جان سے بات کرنے کے لیے اپنی ساری ہمت جمع کرنی پڑتی تھی -
نوک....نوک اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے دروازہ بجایا -
آجاؤ - اندر سے ظفر صاحب کی مصروف سی آواز آئی -
وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی - سامنے سٹڈی ٹیبل پر بیٹھے کسی. کتاب کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھے - اُن کی جنت کی طرف پشت تھی-
جنت چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی ان کی طرف بڑھنے لگی --

الھادی Where stories live. Discover now