محبت درد ہے (part 1)

514 39 11
                                    

--   (3سال پہلے) --
" *محبت* *درد* *ہے*"
*اصلاۃ* *خیر* **من* *_النوم_*
(بیشک نماز نیند سے بہتر ہے )
شہرِ لاہور کی فضاؤں میں مؤذن کی خوبصورت آواز گونج رہی تھی جو فضا کو معطر کر رہی تھی -آذان فجر کی آواز سوۓ ہوۓ لوگوں کو بتا رہی تھی کہ نماز نیند سے بہتر ہے اٹھو اور اٹھ کر نماز پڑھو -پرندے اپنی چوں چوں سے بتا رہے تھے کہ وہ خدا کی حمدو ثنا میں مصروف ہیں درختوں کی جھکی ٹہنیاں خدا کے آگے سر بسجود تھیں -لوگ گاہے بگاہے مساجد کی طرف بڑھ رہے تھے -
ڈیفینس ایریا لاہور میں جائیں تو بہت سے بڑے بڑے خوبصورت بنگلے بنے نظر آئیں گے جن میں سے اکثر کی لائیٹس آف تھیں -داہنی جانب موجود بنگلوں میں سے ایک بنگلے کے باہر "ظفر ویلاز" کا بڑا سا بورڈ نسب تھا - یہ 15،20مرلے پر محیط ایک بنگلہ تھا - گیٹ عبور کر کے جائیں تو سامنے سنسان راہداری تھی -دائیں جانب اور بائیں جانب لان تھا -دائیں جانب والے لان میں لکڑی کی خوبصورت کرسیاں اور ٹیبل موجود تھا جو اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ گھر کے لوگ موسم انجواۓ کرنا جانتے تھے -
سامنے پورچ تھا پورچ میں تین گاڑیاں کھڑی تھی جن میں سے ایک سیاہ اور دو سفید رنگ کی تھیں - پورچ سے ذرا سا آگے ایک لکڑی کا خوبصورت سا نفیس سا داخلی دروازہ تھا اندر داخل ہوں تو سامنے ٹی وی لاؤنج موجود تھا جس میں بڑے بڑے صوفے پڑے تھے اور پچاس انچ کا  LED  لگایا گیا تھا دیواروں پر طرح طرح کی پینٹنگز آویزاں تھیں گھر کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا -
دائیں طرف اوپن کچن تھا جو اس وقت سنسان تھا - کچن کے ساتھ ہی دو کمرے تھے ان دو کمروں کے ساتھ سیڑھیاں تھیں کمروں کے بلکل سامنے تین اور کمرے موجود تھے -  کچن کے ساتھ والے کمروں میں سے ایک کمرہ ڈرائینگ روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا اور دوسرہ کمرہ فاطمہ کا تھا -سامنے والے کمروں میں سے ایک جنت کا دوسرہ موسیٰ کا تھا جبکہ تیسرہ لاکڈ کمرہ تھا -
اوپری منزل پر سامنے والا کمرہ  ظفر صاحب اور زاہدہ بیگم کا تھا جبکہ باقی کے چار کمرے لاکڈ تھے -گھر کی پچھلی سائیڈ پر انیکسی اور ملازموں کے لیے کوارٹر بناۓ گئے تھے -

جنت کے کمرے میں جائیں تو وہاں اندھیرے کا راج تھا وہ بیڈ پر الٹی لیٹی کانوں میں ہینڈز فری گھساۓ گانوں کا فل والیم چھوڑے بے سدھ سو رہی تھی -بیڈ کے بائیں جانب والی دیوار پر بڑی سی کھڑکی موجود تھی جو ہلکی سی کھلی تھی ٹھنڈی ہوا کمرے کی خنکی کو بڑھا رہی تھی اور ونڈ چائمز کو ہلنے میں مدد دے رہی تھی جو ہلنے کی وجہ سے خوبصورت سر بکھیر رہے تھے -
مؤذن کی آواز اس گھر کے مکینوں کے کانوں تک نہیں پہنچ پا رہی تھی یا شاید وہ نماز کے بجاۓ نیند کو اپنی دنیا اور آخرت کی کنجی سمجھے سو رہے تھے -

☆☆☆

ہر طرف درخت ہی درخت  تھے سیاہ رنگ کے اونچے لمبے درخت -آسمان تک نظر نہیں آرہا تھا ہر طرف اندھیرا تھا کہیں سے کوئی ذرہ برابر بھی روشنی نہیں آ رہی تھی وہ بھاگ رہی تھی اندھا دھند بھاگ رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے کس سمت میں جانا ہے  بس اتنا جانتی تھی کہ اسے وہاں سے اس اندھیرے سے نکلنا ہے -بغیر جوتے کے کیچڑ سے لتھڑے پاؤں سیاہ کپڑوں پر جگہ جگہ پر لگے کیچڑ کے دھبے بکھرے بالوں کے ساتھ وہ حلق کے بل چلا رہی تھی -
کوئی ہے ؟؟ کوئی نکالو مجھے یہاں سے ---کوئی ہے ؟؟؟
مگر اس اندھیر نگری میں کہیں سے کوئی آواز نہیں آ رہی تھی گھمبیر خاموشی کو صرف اس کی اپنی آواز توڑ رہی تھی -
وہ اب زاروقطار رونے لگی تھی مدد کے لیے پکار رہی تھی مگر کوئی آ ہی نہیں رہا تھا کوئی تھا ہی نہیں -

الھادی Where stories live. Discover now