جنت !اس نے بہت نرم آواز میں اسے پکارا -جب وە متوجہ نہ ہوئی تو اس نے اپنے ہاتھوں سے اسکے چہرے سے ہاتھ ہٹاۓ-
جنت! ادھر دیکھو میری طرف اور میری بات غور سے سنو -ارسل نے اسکے دونوں ہاتھوں جو اپنی مظبوط گرفت میں پکڑ رکھا تھا -اس نے اپنی سرخ متورم آنکھیں اٹھا کر ارسل کی طرف دیکھا -اس لمحے ارسل کو لگا تھا وہ دوبارہ پلکیں نہیں جھپک سکے گا اتنی اداسی اتنی ویرانی تھی اسکی آنکھوں میں کہ بے اختیار اسکو جنت کے ماں باپ پر افسوس ہوا تھا -کاش وہ اسکی ان ویرانیوں ان محرومیوں کا سمیٹ کر یہیں کسی کھائی میں پھینک سکتا اور اسکی آنکھوں کو خوشیوں کے جگنوؤں سے بھر سکتا -
ریت کی طرح کچھ لمحے یونہی سرک گئے تو اسکی آنکھیں جھک کر جنت کے ہاتھوں پر ٹک گئی جو ابھی تک اسکے ہاتھوں میں تھے -جنت زندگی کا ایک اصول بنا لو وہ یہ کہ
Live only for your self...
میں یہ نہیں کہتا کہ دوسروں کو خوش نہ رکھیں دوسروں کا خیال نہ رکھیں ,دوسروں کو خوش بھی رکھیں اور دوسروں کا خیال بھی رکھیں لیکن جیئیں صرف اپنے لیے کہ اس دنیا میں ہر انسان صرف اپنے لیے جیتا ہے ,اپنے لیے لڑتا ہےاور اپنے لیے مرتا ہے -اور جہاں تک خوش رہنے یا رکھنے کی بات ہے تو اس پر بھی میں یہی کہوں گا اپنی خوشی کی امید دوسروں سے مت لگائیں کیونکہ دوسرے ہمیں کبھی خوش نہیں کرتے ہم خود کو خود خوش کرتے ہیں چاہے وہ ظاہری خوشی ہو یا ظاہر اور باطن دونوں کی اس لیے ہمیں خود کو خوش رکھنا آنا چاہیے -کونکہ دکھ تو خزاں کی طرح ہوتے ہیں آتے ہیں ہماری زندگی کے درخت سے سے پرانے اور بوڑھے پتوں کو گرا کر زندگی کے درخت کو خالی کر کے ہمیں بہار یعنی خوشیوں کی نوید سنا کر جاتے ہیں کہ اب ہماری زندگی کا درخت پھر سے سر سبزو شاداب ہونے والا ہے -کیا تم نے کبھی غور نہیں کیا جب خزاں آتا ہے تو درخت کے سارے پرانے زرد پتے گر جاتے ہیں اور پھر بہار آنے پر دوبارہ سے وہی شاخیں ہری بھری ہو جاتی ہیں -
اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے جنت کہ دکھ سکھ تو زندگی کا حصہ ہیں بجاۓ اسکے کہ ہم مایوس ہو کر بیٹھ جائیں خود کو ختم کر لیں بہتر یہی ہے کہ ہم ڈٹ کر مشکلات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہو جائیں اور ان سے کہیں ہم تیار ہیں جب ہم خود ہی اپنے اوپر یہ اداسیاں سوار رکھیں گے تو کہاں سے آئیں گی خوشیاں ?ہاں بتاؤ ?-
وہ اتبا لمبا لیکچر دے کر سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا جو بیٹھی لب کاٹنے میں مشغول تھی -
اور ہاں کوئی رنگ نحوست کا یا خوشی کا نہیں ہوتا سب رنگ ایک جیسے ہوتے ہیں یہ تو ہمارے اپنے مفروضے ہیں کہ فلاں رنگ سوگ کا ہے اور فلاں خوش بختی کا ہے اس لیے براۓ مہربانی اس سیاہ رنگ بیچارے کی جان چھوڑ دو وہ بھی پچھتاتا ہو گا کس چڑیل کے پلے پڑ گیا ہوں -اب کے باقاعدہ اس نے جنت کے آگے ہاتھ جوڑ دیے تھے اور آنکھوں سے شرارت صاف جھلک رہی تھی -اس کے اس انداز پر جنت مسراۓ بغیر نہیں رہ سکی تھی -
چلو اٹھو اب چلیں موسم کافی خراب ہو رہا ہے -
جنت اپنا چہرہ ہاتھوں سے اچھی طرح رگڑتی ہوئی اٹھ گئی -ارسل جو جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے دوسری طرف رخ کیے کھڑا تھا واپس مڑا -
اور ہاں اگر انکل آنٹی تم لوگوں کو وقت نہیں دے پاتے تو تم لوگ خود ان کو وقت دے دیا کرو ہو سکتا ہے ان کے پاس واقعی وقت نا ہو -سمجھ رہی ہو نا میری بات ?-اس نے جنت کی ابرو اچکاتے ہوۓ اسے دیکھا اس نے اثبات میں سر ہلا دیا اور دونوں ہاتھوں کو رگڑنے لگی سردی کی شدت کا احساس اب ہوا تھا اسکو -
دونوں سڑک پر ساتھ ساتھ چلنے لگے -
★★★
دونوں ڈھلوان نما سڑک پر چل رہے تھے جب ارسل نے جیکٹ کی جیب سے مونگ پھلی نکال کر جنت کی طرف بڑھائی- اس نے صرف ایک دانا ہی پکڑا -جب کھولا تو وہ سڑا ہوا تھا -
یہ تو سڑا ہوا ہے -وہ منہ بناتے ہوئے بولی -جب تم اتنا سڑا ہوا منہ بنا کر پکڑو گی تو اس بیچارے نے خود ہی جل کر بھسم ہو جانا ہے -وہ مزے سے منہ میں مونگ پھلی کا دانہ ڈالتے ہوۓ بولا -
اس کے اس انداز پر جنت بے اختیار ہنس پڑی -★★★
وہ لوگ ہوٹل پہنچے تو پلوشے اور فیضی وہیں پر موجود تھے ڈنر انہوں نے اکٹھے کیا تھا کافی پی کر سب اپنے کمروں میں چلے گئے -آج کی رات اور کل کا دن انہیں اسی ہوٹل میں رکنا تھا کل شام کو انہیں بھوربن روانہ ہونا تھا اور پھر پرسوں واپسی تھی -جنت چل چل کر تھک گئی تھی اس لیے اپنے کمرے میں آتے ہی منہ تک لحاف اوڑھ کرسوگئی - پلوشے بھی جلد ہی کمرے کی لائیٹس آف کر کے سو گئی -
★★★" اعوذ باللّٰەمن لشیطن الرجیم٠"
(میں اللّٰە کی پناە لیتا ہوں شیطان مردود سے )مکمل اندھیرے میں میں صرف ایک وجود نظر آ رہا تھا -
" بسم اللّٰە الرحمن الرحیم ."
(اللّٰە کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے )جس کی آواز کی گونج ہر طرف تھی -
"الحمدللّٰە رب العلمین ."
(ہر قسم کی تعریفیں اللّٰە کے لائق ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے )
وہ سفید چادر کو اچھی طرح لپیٹے ہوئے زمین پر بیٹھی تھی -
اور یہ آیات کا ورد کر رہی تھی وہ کوئی عورت تھی اسکی ان آیات کی تلاوت کرنے کی طرز نہایت خوبصورت تھی -رات کا ناجانے کون سا پہر تھا جب پلوشے کو محسوس ہوا جیسے کوئی کمرے میں کچھ پڑھ رہا ہے -دن بھر کی تھکن کی وجہ سے غنودگی اس کے حواسوں پر سوار تھی وہ آنکھوں کو زبردستی کھولتے ہوۓ اٹھ کر بیٹھ گئی -
اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا -وہ حیرت و بے یقینی سے سوئی ہوئی جنت کو دیکھ رہی تھی جو ان قرآنی آیات کا ورد کر رہی تھی -وہ سائیڈ ٹیبل لیمپ آن کر چکی تھی جسکی وجہ سے کمرے میں ہلکی زرد روشنی پھیل گئی -وہ حیران تھی اور اسکی حیرت بجا تھی جس لڑکی کو اس نے جاگتے میں کبھی قرآن پڑھتے نہیں دیکھا تھا وہ سوتے میں قرآن کی تلاوت کیسے کر سکتی ہے ?-اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے اس نے جنت کو جھنجھوڑ کر اٹھایا -کک....کیا ہوا ?-وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی -
کچھ نہیں تم نیند میں بڑبڑا رہی تھی -اس نے دانستہ طور پر اصل بات بتانے سے گریز برتا تھا -
اچھا تھکاوٹ کی وجہ سے کچھ بول دیا ہو گا شاید -وہ کہہ کر پھر سے لحاف اوڑھ کر لیٹ گئی -پلوشے کا دماغ الجھ کر رہ گیا تھا -
کیا تھی جنت ?ایک عجیب پہیلی?-وہ سوچوں کو دماغ کی سلیب سے جھٹکتی لیٹ گئی -★★★
اس نے بہت عجیب عجیب خواب دیکھے تھے مگر جو خواب اس نے رات کو دیکھا تھا وہ حیران تھی یہ سب کیا ہو رہا تھا وہ ان آیات کو بخوبی پہچانتی تھی مگر یوں میں پڑھنا پتا نہیں کیوں اسکو عجیب سے احساسات نے گھیر رکھا تھا -نا جانے کب ارسل اسکے ساتھ کھڑا ہو گیا تھا اسے معلوم ہی نہیں ہو سکا -
بس بس اتنی دور مت جاؤ راستہ بھٹک گئی تو ???-ارسل بے اپنی خوبصورت گھمبیر آواز سے ماحول کا سکوت توڑا -
جنت نے چونک کر ارسل کی طرف دیکھا -
تم کب آئے ?-
جب تم کسی اور دنیا میں گم تھی تب ہی خادم نے اپنی حاضری دی تھی - وہ مسکراہٹ دبائے سنجیدہ لہجے میں گویا ہوا -وہ مسکرا دی تھی -
عجیب شخص تھا وہ ہمیشہ اسے ہنسنے پر مجبور کر دیتا تھا -★★★
YOU ARE READING
الھادی
Humorیہ کہانی ہے فرض سے فرض کی ---درد سے سکون کی ---محبت سے عشق کی ---گمراہی سے راہ راست کی ----یہ کہانی ہے ایک ایسے کردار کی جو اپنا وجود نہیں رکھتا مگر اپنی چھاپ چھوڑ جاتا ہے ---جی ہاں یہ کہانی ہے ایک ہادی کی ---الھادی ---