الھادی
از
فریحہ مظفروہ موبائل پر نظریں جمائے جلدی جلدی کچھ ٹائپ کرتی ہوئی لاونج میں داخل ہوئی موسیٰ اور فاطمہ بیٹھے کسی بات پر زیرِ بحث تھے وہ ان کو دیکھ کر ایک اداس سی مسکراہٹ اچھالتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی -
لائیٹس آف کیے آنکھوں پر بازو رکھ کر اکڑوں لیٹی وہ بے سکون لگتی تھی -
"دعا نہ کرنا مایوسی کے مترادف ہے اور مایوسی انسان کو کفر کے دہانے پر لا کھڑا کرتی ہے -"
کسی ہتھوڑے کی طرح یہ آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تھی اور وہ لرز کر رہ گئی تھی -اسکو شدید گھٹن کا احساس ہونے لگا -
اسی لمحے کمرے کا دروازہ ناک ہوا تو اس نے "یس کم ان" کا کہہ کر کمرے میں داخل ہونے کا عندیہ دیا -زاہدہ بیگم کمرے کا ماحول دیکھ کر حیران ہوئیں اور کمرے کی لائیٹس آن کر دیں کمرہ چکا چوند روشنیوں میں نہا گیا -وہ آنکھوں سے بازو ہٹا کر اُٹھ بیٹھی -
طبیعت ٹھیک ہے بیٹا تمہاری ؟؟-انہوں نے اسکے ماتھے کو چھو کر محبت سے پوچھا -
جی ٹھیک ہوں بیٹھیں آپ-وہ اس کے قریب ہی بیڈ پر ٹِک کر بیٹھ گئیں-اس دن تمہیں مہمانوں کے ساتھ لنچ کیے بغیر نہیں جانا چاہیے تھا -زاہدہ بیگم کا لہجہ خلافِ توقع نرم تھا -
شادی پر جانا ضروری تھا میرا ویسے اُن سے ملنا تھا سو وہ میں نے مل لیا تھا -"راحم سے کیا بات ہوئی تمہاری ؟؟-"
"کچھ خاص نہیں-"
جنت وہ ایک اچھا لڑکا ہے -
بابا جان کب آئیں گے ؟؟-یہ اشارہ تھا کہ وہ مزید اس ٹاپک پر بات نہیں کرنا چاہتی -
بغیر موسم کی بارش کی طرح کسی بھی وقت آسکتے ہیں وہ -ایک افسردہ سی مسکراہٹ تھی ان کے چہرے پر -
ایک بار پھر مل لو راحم سے شاید---ماما میں کچھ دیر آپکی گود میں سر رکھ کر لیٹ سکتی ہوں پلیز ؟-وہ ان کی بات کاٹتے ہوئے لجاجت سے بولی -وہ چند لمحے اسکی آنکھوں میں دیکھتی رہیں کچھ تھا جو انہیں بھی اداس کر گیا تھا ان کی بیٹی کی آنکھوں میں -انہوں نے آہستہ سے اثبات میں سر ہلا دیا -
ان کی گود میں سر رکھ کر آنکھیں بند کر کے وہ سکون سے لیٹ گئی تو زاہدہ بیگم نرمی سے اسکے بالوں میں انگلیاں چلانے لگیں -
اتنے سالوں سے جو سرد دیوار ٹھہری تھی وقت نے آج وہ گِرا دی تھی -قدم آگے بڑھانے سے ہی فاصلے مٹتے ہیں ایک جگہ کھڑے رہنے سے نہیں -
نور؟؟-انہوں نے محبت سے اسکو پکارا -"دعا کریں ماما آپکی بیٹی کو نور مل جائے ہدایت کا نور اسکے ھادی کا نور -"ایک موتی اسکی آنکھ سے لڑھک کر ماما کی گود میں جذب ہو گیا -
اللّٰہ نور السموت والارض •
(اللّٰہ تمام آسمانوں اور زمین کا نور ہے )"اللّٰہ کا نور مانگنے والوں کے دِلوں میں اُتار دیا جاتا ہے -"
★★★★★
مون سون کے بادلوں نے لاہور کے آسمان پر قبضہ جما کر سورج کو چھپا دیا تھا -ہوا زندہ دِلانِ لاہور میں جھوم جھوم جا رہی تھی یونیورسٹی میں معمول کی گہما گہما تھی فیضی اور پلوشے کی شادی کو ایک مہینہ گزر چکا تھا وہ امریکہ شفٹ ہو گئے تھے اب ارسل اور جنت تنہا رہ گئے تھے اپنے گروپ میں -ہلکے آسمانی رنگ کا کڑتا اور سیاہ چوڑی دار پاجامہ پہنے دوپٹے کومفلر سٹائل میں گردن کے گِرد لپیٹے گھنگھریالے بال پونی ٹیل میں باندھے وہ گھاس پر چہل قدمی کر رہی تھی غالباً لیکچر فری تھا ارسل اسکو تنہا دیکھ کر اسکی طرف آ گیا -
YOU ARE READING
الھادی
Humorیہ کہانی ہے فرض سے فرض کی ---درد سے سکون کی ---محبت سے عشق کی ---گمراہی سے راہ راست کی ----یہ کہانی ہے ایک ایسے کردار کی جو اپنا وجود نہیں رکھتا مگر اپنی چھاپ چھوڑ جاتا ہے ---جی ہاں یہ کہانی ہے ایک ہادی کی ---الھادی ---