اب بک بھی دو کیا بات ہے یوں گھور کر مجھے نظر مت لگا دینا - جنت نے اِتراتے ہوءے کہا-
ارے بھءی تمہیں تو سو شکرانے کے نوافل ادا کرنے چاہیں جو تمہیں مجھ جیسی َخوبصورت اور ذہین بہن ملی ہے.فاطمہ نے شوخی سے کہا - آہاااا!یہ میں کیا سن رہا ہوں میری غیر موجودگی کا فاءںدہ اٹھا کر لوگ خود کو ذہین قرار دے رہے ہیں موسیٰ نے بھی اپنی انٹری ضروری سمجھی تھی-
اف! تم لوگ مجھے کبھی چین سے مت رہنے دینا ہر وقت خوش فہمیوں کا ہی شکار ہی رہا کرو - اتنا ہی اگر پڑھائ ہر فوکس کر تو ٹاپ ہی کرو - جنت نے دونوں کو آڑے ہاتھوں لیا تھا-
اچھا اب سن بھی لو کہ کیا خبر لائ ہوں میں - فاطمہ بتانے کے لیے بے قرار تھی-
چلو بتا بھی دو کیا بات ہے - جنت نے فاطمہ روح تک کو قرار بخشا تھا-
تو پھر سنو کہ بابا جان نے تمہاری زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کر لیا ہے-
جنت ٹھٹھکی تھی اس کے دل کی دھڑکنے بے ترتیب ہوءی تھیں-
کیسا فیصلہ؟؟؟جنت نے اپنے جزبات پر کنٹرول کرتے ہوءے پوچھا -
ارے تمہاری شادی کا - فاطمہ فرطِ جزبات سے بولی -
جنت کے کانوں میں ایک دم سے صرف ایک ہی بات گونجنے لگی وہ اواز جس وہ ہزاروں لاکھوں میں بھی پہچان سکتی تھی -
Will you marry me?
کسی نے پوچھا تھا اس سے -
ارے جنت کیا ہوا تمھارا رنگ کیوں سفید پڑ رہا ہے- موسیٰ نے پریشان ہوتے ہوءے کہا-
موسیٰ کی اواز نے اسے اپنے کمرے میں واپس آنے میں مدد دی تھی -
مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ بابا جان کو کس بات کی جلدی ہے جو ہر فیصلہ کرنے کی جلدی پڑی ہے میری زندگی کا اتنا اہم فیصلہ اور انہوں نے مجھ سےپوچھنا تک گوارا نہیں کیا- جنت اپنی ہی رو میں بولے جا رہی تھی اس بات سے بلکل انجان کہ بابا جان کمرے کی چوکھٹ پر کھڑے سب سن رہے ہیں
☆☆☆
دوپہر کے وقت "جہانگیرہاوس"میں جاؤ تو سلمیٰ بیگم ٹی وی لاونج میں بیٹھی ٹی وی پر کوئی ٹاک شو دیکھ رہی ہیں- دروازے کی بیل بجنے کی آواز آئی تو وہ ٹی وی آف کر کے دروازے کی طرف بڑھ گئیں -
دروازہ کھولا تو سامنے سالم کو پایا-
اسلام و علیکم آنٹی! سالم نے مسکراتے ہوءے سلمٰی بیگم سے رسمی علیک سلیک کی-
سلمیٰ بیگم نے خوشدلی سے سالم احمد کو اندر آنے کا کہا-
آنٹی ارسل کہاں ہے میں تو اس کے آنے کا انتظار کر رہا تھا مگر اس نے تو کوئی حال چال ای نہیں پوچھا آپ ہی بتاءیں ایسے ہوتے ہیں دوست اتنے مہینوں بعد آیا ہے وہ اس کو تو چاہیے تھا وہ سب سے پہلے اپنے جگری سے ملنے آتا آپ ہی بتائیں یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ویسے ہے کہاں وہ؟ سالم نےسلمیٰ بیگم کے جواب کے بغیر ہی اتنا کچھ بول دیا تھا- (یعنی سالم کافی باتونی شخص ثابت ہوا ہے)-
وہ اپنے کمرے میں سو رہا ہے سلمیٰ بیگم نے مسکراتے ہوئے بتایا -
سالم بیٹا تم جاؤ اوپر میں کھانا بنواتی ہوں - آنٹی میٹھے میں کسٹرڈ ضرور بنوائیے گا - سالم نے بغیر جھجھکے کہا اور کمرے کی طرف بڑھ گیا- وہ ایسا ہی تھا بے ضرر سا ہر بات کہہ دینے والا -
☆☆☆
اُس نے احتیاط سے دروازہ کھولا اور اسی احتیاط سے کمرے میں داخل ہو گیا- کچھ دیر تو وہ کھڑا سوچتا رہا کہ کیا کرے کس طرح ارسل کو اُٹھائے - اور آخرکار اس کے ذہن میں آئیڈیا آ ہی گیا تھا اور وہ مزے سے مسکراتے ہوئے سائیڈ ٹیبل کی طرف گیا وہاں سے گلاس اُٹھایا اور واش روم کی طرف بڑھ گیا- واش روم سے گلاس پانی کا بھر لیا اور اتنی ہی احتیاط سے ارسل کے بیڈ کی طرف بڑھنے لگا -
اس سے پہلے کہ سالم حملہ کرتا ارسل نے کمبل سے پانی والی بوتل نکال کر سالم پر حملہ کر دیا تھا- جیسا کہ وہ ہمیشہ کرتا تھا-
سالم نے لمبی سانس خارج کی (جیسے کہہ رہا ہو پھر سے ارسل جہانگیر پھر سے تم ) اور اپنا منہ صاف کرنے لگا -
یار ارسل! تو ہر دفعہ کیسے کر لیتا ہے یہ تجھے کیسے پتا چل جاتا ہے کہ میں کچھ کرنے والا ہوں تو ہمیشہ کیسے ہرا دیتا ہے مجھے ؟-
"تو میرا جگری یار ہے اور مجھے تجھ سے بڑی محبت ہے اور جس چیز سے ہمیں محبت ہوتی ہے اس کی ہر آہٹ ہر چاپ, ہر عادت یہاں تک کہ اس کی خاموشی تک کی پہچان ہوتی ہے - اور مجھے بھی تیری ہر آہٹ ہر عادت سے محبت ہے اس لیے تیری ہر آہٹ اور تیری سوچ کو جان جاتا ہوں- "
سالم نے ارسل کو گلے سے لگا لیا اور لگائے ہی رکھا-
چل اب چھوڑ بھی دے اتنا جذباتی نہ ہو - ارسل نے سالم کو چڑانے کے لیے کہا-
چل فریش ہو جا آنٹی کھانا بنوا رہی ہیں کھا کر پھر کہیں باہر چلیں گے- سالم نے ارسل سے الگ ہوتے ہوئے کہا-
ہاں کافی پینے چلیں گے بہت یاد آتی تھی مجھے ہماری فیورٹ کافی - ارسل نےبھی سالم کی تائید کی تھی -
ہاں لیکن پیسے تو دے گا دیکھ میں تو اپنا بٹوا گھر بھول آیا ہوں - سالم نے معصوم سی شکل بنائی -
اچھا اچھا دے دوں گا مر نہ تو کنجوس انسان! کیا یاد کرے گا کہ کتنا اعلٰی طرف دوست تھا تیرا "ارسل جہانگیر" ارسل نے گردن اکڑا کر کہا-
چل میں انتظار کر رہا ہوں نیچے اتنا تو اعلیٰ طرف ہنہ ارسل جہانگیر - سالم نے ناک چڑہاتے ہوئے اپنا بدلہ لیا-
کھانا بہت ہی َخوش گوار ماحول میں کھایا گیا - ارسل اور سالم
کی نوک جھوک جاری رہی تھی جس کو سلمیٰ بیگم نے بہت انجوائے کیا تھا -
تم دونوں گھر آجاتے ہو تو یہ ویران گھر مجھے جہنم سے جنت لگنے لگتا ہے - ورنہ تو یہ خالی دیواریں مجھے ڈپریشن کی مریضہ بنا دیتی ہیں- کتنی بار ارشیہ سے کہا ہے اب آ جائے پاکستان واپس میں تھک گئی ہوں اس تنہائی سے - سلمیٰ بیگم اداسی سے کہہ رہی تھیں-
اسی لیے کہتا ہوں آنٹی اس کمینے کی شادی کر دیں - سالم نے شرارت سے کہا-
گھر میں کوئی بال بچوں کا بھی سین بنے -
اس سے پہلے کہ سلمیٰ بیگم کچھ کہتی ارسل اُٹھ کھڑا ہوا - چلو چلتے ہیں پھر کافی پینے - ارسل نے جیسے کہنا چاہا ہو کہ بس اب مجھے اس مو ضوع پر کوئی بات نہیں کرنی دفع کرو اس بات کو-
سالم بھی اُٹھ کھڑا ہوا - اوکے آنٹی خدا حافظ پھر ملاقات ہو گی انشااللّہ -
ارسل اور سالم باہر چلے گئے اور سلمیٰ بیگم کے لیے وہی تنہائی چھوڑ گئے تھے -☆☆☆
***
اُس نے جیسے ہی بے حد خوبصورت دروازے سے اندر قدم رکھا اُس کی آنکھیں تیز روشنی سے چندھیا گئی تھیں -
جانتی ہو یہ دروازہ کون عبور کر پاتا ہے ؟اس نے اپنے عقب سے وہی آواز سنی تھی جو مقناطیس کی طرح اُس کو اپنی طرف کھینچ لائی تھی-
نہیں میں نہیں جانتی اور میں تو اس جگہ سے بھی بلکل انجان ہوں - اس نے اردگرد کا جائزہ لیتے ہوئے کہا-
یہ دروازہ وہ لوگ عبور کرتے ہیں جو بہت نیکوکار ہوتے ہیں- جواب بہت نرمی سے دیا گیا تھا -
نیکوکار؟؟؟مطلب کیسے لوگ نیکوکار ہوتے ہیں ؟ اس نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا-
جو لوگ نیکیاں کرتے ہیں وہ لوگ - جواب بہت سادگی سے دیا گیا -
ہر طرف سبزہ, تتلیاں,رنگارنگ پھول اور بہت بڑے بڑے محل نماں گھر تھے اور طرح طرح کی سبزیاں اور پھل موجود تھے - وہ مسحور کن انداز میں اردگرد کا جائزہ لے رہی تھی اتنی خوبصورت جگہ کبھی نہیں دیکھی تھی اس نے -
تو...تو کیا میں بہت نیک ہوں ؟میں نے بہت سی نیکیاں کی ہیں ؟ اس نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا -
وہ...وہ بہت خوش تھی اس نے اپنے دونوں بازو پھیلا کر ایڑھی کے بل گھوم کر وہ منظر دیکھا تھا -
نہیں تم نے بہت سی نیکیاں نہیں کی - تمہیں یہاں صرف یہ منظر ایک دفعہ دیکھانے کے لیے لایا گیا ہے - جواب افسردگی سے دیا گیا تھا -
لیکن تم یہاں آ سکتی ہو تم ہمیشہ یہاں رہ سکتی ہو - اب اس کی آواز میں امید تھی -
اس نے اس مسحور کن آواز کی پہلی بات کو نظر انداز کر کے صرف دوسری بات پر غور کیا تھا-
اُس کی ڈارک براؤن آنکھوں میں یک دم کئی جگنو روشن ہوئے تھے تم مجھے بتا دو کہ یہ کون سی جگہ ہے میں بابا سے بولوں گی وہ یہاں پر ایک گھر لے لیں پھر ہم یہاں شفٹ ہو جائیں گے -
یہاں تمہیں کوئی بھی گھر نہیں خرید کر دے سکتا یہاں تمہیں خود گھر تعمیر کرنا ہو گا -
میں خود لیکن کیسے - ؟ اس کی آنکھوں میں دنیا جہاں کی ساری حیرت در آئی تھی -
ہاں تم خود اور اس کے لیے تمہیں اپنا"ہادی" تلاش کرنا ہو گا -
"ہادی"وہ زیرِ لب بڑبڑائی تھی -
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور پوچھتی ایک جھٹکے سے اس کی آنکھ کھلی. کچھ دیر تو وہ اندھیرے کو گھورتی رہی "روشنی سے اندھیرے کا سفر بھی انسان کو اندھا کر. دیتا ہے " - اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا لیمپ ان کیا اور پانی پیا - یہ کیسا عجیب خواب تھا-
وہ نہیں جانتی تھی وہی خواب اس کی زندگی بدلنے والے تھے -
☆☆☆
YOU ARE READING
الھادی
Humorیہ کہانی ہے فرض سے فرض کی ---درد سے سکون کی ---محبت سے عشق کی ---گمراہی سے راہ راست کی ----یہ کہانی ہے ایک ایسے کردار کی جو اپنا وجود نہیں رکھتا مگر اپنی چھاپ چھوڑ جاتا ہے ---جی ہاں یہ کہانی ہے ایک ہادی کی ---الھادی ---