کرس وؤ میز پہ ہنوز بہٹھا رہا۔یہ میری بات مان کر بھی نہیں مانتی کتنی húlí(عیار)ہے۔وہ غصے سے سوچتا رہا ۔"سر۔۔۔سر۔۔ر " وہ ہوش میں واپس آیا۔ایک نرس اسکے قریب کھڑی اسے پکار رہی تھی۔"ڈاکٹر ہاشم آپ کا باہر انتظار کر رہے ہیں آپ جلدی سے جائیے"۔"ان سے جا کر کہو آپ جائیےمیں نہیں آرہا ۔ سر آپ پلیز کال کر دیں انہیں۔اسنے تھورا ڈرتے ہوے کہا ۔"آپ جا سکتی ہیں"یہ کہ کر وہ دوبارہ سے سوچوں میں ڈوب گیا۔اگر میں نے انکو فون کیا تو یوں ہی لنچ کے لیے زد کریں گی مام۔اچانک اس کی سامنے نظر پڑی۔
ہیرا کیبن میں ہادی کے پاس بیٹھی کچھ ڈسکس کر رہی تھی۔"دیکھو ہمارا کام یہاں ڈیوٹی کرنا ہے کسی کے کام میں اگر دخل اندازی کریں گے تو اپنے مقصد سی ہٹ جایئں گے اور ویسےبھی بابا نے ہم دونوں کو اتنا سمجھا بھجا کے بھیجا ہے تو ہمیں انکی بات کو مددّ نظر رکھ کر سب کچھ کرنا ہوگا" ہادی نے اپنی پیشانی کو مسلتے ہۓ کہا ۔
مگر مجھے ان غریب لوگوں پر ترس آرہاہے کہ کیا فائدہ لیو ہاسپٹل ناران کا؟ 30 سال سے تو یہ چل رہاہےاسکے علاوہ اتنے قابل ڈاکٹرز بھی یہاں ہیں ۔مجھے لگا یہاں ناران میں کون ڈاکٹرز ہوں گے جو پیسہ کمانا نہیں بلکہ غریبوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں وہ تو اب پتہ چلا کہ سب کو اچھی خاصی سیلری ملتی ہے ظاہر ہے ڈاکٹر ہاشم ایک مشہور سائنسدان ہیں ۔ابھی میں نے سنا ہے کہ ان کی ایک خاص ریسرچ چل رہی ہے ۔ اور اگر چی باۓ ساتھ نہ دیتی تو انکی چاینہ میں چلنے والی ریسرچ نہ ہوتی ۔وہ الگ بات ہے کہ ہم اب آۓ ہیں آج اسکی ترقی کی وجہ ڈاکٹر ہاشم نہیں بلکہ چی باۓ ہیں۔اسنے غصے کو دباتے ہوے کہا۔تم صحیح کہ رہی ہو ہیرا مگر ۔۔۔۔چلو چھوڑو جو بھی ہےاٹھو ٹائم ہو گیا ہے ہمارا۔وہ دونوں اپنے اپنے پیشنٹس کو دیکھنے چلےگۓ۔
ڈاکٹر شعیب کیا خیال ہے آج ایک ساتھ ڈنر کا۔؟ ڈاکٹر ہاشم نے یہ بولتے ہوے چی باۓ کیطرف دیکھا جسے یہ ڈنر لنچ وغیرہ کی پارٹیز انتہائ بری لگتی تھیں ۔چی باۓ نے فوراً اپنا موبائل نکالا اور ٹکٹ کنفرم کروانے کیلۓ غور سے سکرین میں دیکھنے لگی ۔ااااا کہا ملے گی ٹکٹ یہ فلائٹ آج بند ہی کیوں ہو وہ اپنےدانتوں میں انگلی دباۓ بول رہی تھی ۔او shì de rìluò guānbì zhuānmén guòlǜ q(ìوہ اپنے ہی منہ میں بربرا رہی تھی۔
چی باۓ ! آج سنڈے ہے تو آج سپیشل فلائٹس بند ہیں اسنے مزہ لیتے ہوے کہا سو تمہیں جانے سے پہلے ہمارے ساتھ ایک ڈنر تو کرنا پڑے گا ہاشم مسکراتا ہوا کہ رہا تھا۔اور آج میرے خیال سے کرس وؤ نے لنچ نہیں کیا اور ابھی تک یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اسنے کچھ نہیں کھایا تو میںسوچ رہا ہوں کہ رات کے ڈنر می کچھ خاص ہونا چاہیے ۔ ہاشم م م مممم ۔۔۔۔تم چپ کرجاؤ میرے بیٹے کا نام لیکر تم مجھے بلیک میل نہیں کر سکتے چی باۓ کا غصہ آسمان پہ تھاوہ بہت تیز تیز انگلش میں بول رہی تھی ۔او اچھا چھا بس مگر پلیز بس ایک ڈنر بسس ایک ہاشم جان بوجھ کر ترلے کےسے انداز میں بول رہا تھا ۔
شعیب تم دیکھ رہے ہو کیسے گزارہ کرنا پڑتا ہے اففف ۔چی باۓ کو سمجھ نہیں آئ تھی مگر پھر بھی ہاشم کو گھور رہی تھی hǎo de (ٹھیک ہے)یہ کہ کے وہ چلی گئ ۔اووووہ مان گئ ہاشم نے سکون کا سانس لیتے ہوے کہا۔
...@@@...
تم مجھ سے پوچھوگی نہیں کہ میں ایک ہفتہ کہاں تھا؟؟احسن نے کھڑےہوتے ہوے کہا اور کھانے کی ٹرے سائڈ پہ رکھ دی ۔مجھے کچھ بھی پوچھنے کی عادت نہیں ہے اگر آپ بتانا نہیں چاہتے تو میں کیوں پوچھوں ؟اسنے اپنے ناخنوں سے کھیلتے ہو کہا ۔اچھا اب مجھے بھوک لگی ہے میں کیا کروں ؟کھانا کھایے اور کیا کرنا ہے حوریہ نے کھانے کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا ۔میں نے کہا نا کہ میں تب کھاؤں گا جب تم کھاؤ گی ۔ "میں نے نہیں کھانا"وہ یہ کہ کر سوئ ہوی حریم کو اٹھا کر اسکی جگہ پر لٹانے لگی۔اچھا سنو ! باہر چل کر کچھ کھاتے ہیں احسن نے نئ تجویز پیش کی ۔میں جارہا ہوں اور نیچے تمہارا انتظار کر رہا ہوں یہ کہتے ہوے اسنے اپنا کوٹ اور گاڑی کی چابی لی اور یہ گیا وہ گیا ۔
ہاۓ میں کیا کروں حریم سوئ ہوی ہے اسکا کیا کروں پھر کچھ سوچ کر فوراً اس نے اپنا کوٹ پہنا اور شال لیۓ وہ نیچے جانے لگی ۔رابعہ ! وہ جو کریم لگانے میں مگن تھی بھابھی کی آواز پر پلٹی ۔۔۔۔اااا۔۔۔ جی بھابھی اسنے فوراً کریم رکھتے ہوے پوچھا ۔ میں احسن کے ساتھ باہر جا رہی ہوں حریم اوپر سوئ ہوی ہے پلیز تھوڑی دیر اسکے پاس بیٹھ جاؤ گی۔؟ ج۔جی بھا بھی کیوں نئ اسنے فوراً جوتا پہنا اور باہر نکل گئ ۔ہم جلدی آجایئں گے "یہ کہ کر وہ باہر کو لپکی احسن ہارن پہ ہارن دے رہا تھا۔
جیسے ہی وہ کار کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھی احسن نے اسکی پھولی سانس دیکھ کر اسے پانی پیش کیا ۔میں ٹھیک ہوں اسنے پانی کی باٹل پیچھے کرتے ہوے کہا۔اب وہ سوچوں میں گم ہونے لگی ۔گاڑی کی بڑھتی سپیڈ کے ساتھ ساتھ اسکی سوچوں میں گہرائ بڑھتی جا رہی تھی۔
{"ماما مجھے بخار ہے ۔تو بیٹا اللہ سے دعا کر نا وہ ٹھیک کر دے گا ۔مگر ماما ! اللہ نے بولا ہے دعا کے ساتھ ساتھ تو دوا بھی لو ۔ تجھے نہ بہت باتیں آگئں ہیں۔ ماں نے غصے سے کہا۔ اچھا ایسا کرو کہ سورۃ الالفاتحہ پڑھ کر پانی میں دم کر کے پیو ٹھیک ہو جاۓ گا ۔ ماں ایسے کیسے ٹھیک ہوگا میں دودھ پر دم لگا دوں ؟ اسنےبرے معصومانہ انداز میں پوچھا۔تم رہنے دو کوئ دم وم نہیں لگاؤ میں یہ بس تھوڑے سے کپڑے رہ گۓ ہیں دھو کر پھر میں تمہیں خود دیتی ہوں دودھ تب تک تم درود شریف پڑھو اسکی برکت سے سب ٹھیک ہو جاۓ گا ۔ماں نے برے پیار سے کہا"}اب وہ ان کلمات کا ورد کرتے ہوۓ احسن کے لیے دعا کرنے لگی۔(ماں کیا احسن بھی ٹھیک ہو جایئں گے ؟ہا اللہ نے چاہا تو ضرور۔۔
حوریہ ۔۔۔۔حوریہ۔۔۔حور۔۔۔۔آ۔ا۔۔۔آ ہاں وہ اسکے تیسرے بار بلانے پہ ہوش میں آئ تھی وہ اپنی ماں سے بات کر رہی تھی مگر واپس اس دنیا میں آگئ تھی۔
چلو! احسن نے دروازہ کھول کر اسے باہر نکلنے کا اشارہ کیا ۔ وہ باہر آئ سردی اپنے عروج پر تھی۔اسنےاپنے ہاتھوں کو کوٹ کے اندر کر لیا اور شال کو اچھا خاصہ لپیٹ لیا ۔آج کچھ زیادہ سردی نئ ؟ اسنے سڑک پر جمی برف دیکھ کر سوال کیا ۔ سردی روز ایسے ہی ہوتی ہے تم گھر سے کم باہر آتی ہو اسلیۓ کچھ زیادہ محسوس ہو رہا ہے۔ وہ باتیں کرتے ہوے ہوٹل میں داخل ہوے۔احسن نے چیئر کی طرف اشارہ کیا کہ تم بیٹھو میں ابھی آتا ہوں۔ یہ کہ کر وہ ریسپشن کی طرف بڑھا۔ اور اپنے لئے پھیکا کھانا بنوانے کیلے بولا باقی آڈر کر کے وہ واپس آگیا۔آپ ہوٹل کا کھانا کیسے کھائں گے ؟ اسمیں مرچ بہت ہوتی ہے؟ ڈونٹ وری میں اپنا الگ آڈر کر آیا ہوں۔
مطلب ہمیں دیر ہو جاۓ گی گھر پہنچتے پہنچتے؟ اسنے ادھر ادھر نظریں گھماتے ہو ے بولا ویسے بس ہم اکیلے ہیں یہاں کوئ بھی نہیں ہے۔ تم فکر نہ کرو ابھی صرف دس بجے ہیں یہاں لوگ ویسے ہی جلدی سو جاتے ہیں۔ اور کھانا آنے تک ہم باتیں وغیرہ کر لیتے ہیں احسن نے مسکراتے ہوے بولا۔ءحوریہ کو کسی چیز میں دلچسپی محسوس نہ ہو رہی تھی وہ بس احسن سے یہ پوچھ لینا چاہتی تھی کہ ڈاکٹر نے اسے کیا بتایا ہے؟
...@@@...
اچانک دروازے پر زور زورسے دستک ہوئ ۔آ جاؤ! ہاشم کی آواز گونجی ۔جیسے ہی دروازہ کھلا ہیرا جلدی سے ٹیبل تک آئ وہ بہت گھبرائ ہوی لگ رہی تھی سر۔۔ ! ہاشم نے اسکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔وہ ایک پیشنٹ ہے جسکے یہاں پر ایک سال سے ڈیلسز ہو رہے ہیں۔ اسکا ٹانگ میں لگا فصولہ کام نہیں کر رہا جس کی وجہ سے ڈیلسز نہیں ہو پا رہے ۔۔۔۔وہ لوگ جلدی سے باہر کو بھاگے ۔اور اس پیشنٹ کا گردہ ہم بدل نہیں سکتے ڈیلسز کے علاوہ کوئ چارہ نہیں ہے اسکے بولنے کی رفتار اسکے چلنے کی رفتار سے مقابلہ کر رہی تھی۔گردہ ہم بدلیں گے...گردہ ہم بدل سکتے ہیں!...ہاشم نے آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھولتے ہوے معنی خیز انداز میں کہا ۔سر۔۔۔۔۔۔وہ کچھ کہتے کہتے رک گئ اور مسکرانے لگی...ایک عجیب مسکراہٹ...جسکا کوئ مطلب نہ تھا...جسکا کوئ بھی مطلب اخذ کیا جا سکتا تھا ۔شور سر ! بدل سکتا ہے اسکا گردہ آج ہم اسے روم میں شفٹ کر دیتے ہیں کل تک گردے کے سارے ٹیسٹ کمپلیٹ ہو جائں گے۔
ہیرا نے پیشنٹ کو برے غور سے دیکھا وہ لگ بھگ پچاس سال کا آدمی لگتا تھا ۔ اسکی فائل مجھے دے دو ہاشم نے مصروف انداز میں کہا ۔ سر ! گردے کا بندوبست ؟ہیرا نے فائل دیتے ہوے ہاشم سے کہا ۔وہ میں کرلوں گا ۔
ہاشم کے جانے کے بعد ہیرا پیشنٹ کو روم میں شفٹ کر کے اسکے پاس ہی رکھی چئر پر بیٹھ گئ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت دے اور آپ کو لمبی زندگی عطا کرے اسنے پیشنٹ کو دیکھ مسکراتے ہوے کہا ۔ آپ پہلے یہاں کیوں نہیں تھی ؟ اسنے بڑے دکھی انداز میں پوچھا ۔کیوں کیا میں بہت اچھی ہوں ؟اسنے ہنستے ہوے کہا۔نہیں ! یہاں کے ڈاکٹرز فری علاج تو کرتے ہیں مگر ہمیں انسان نہیں سمجھتے بات ایسے کرتے ہیں جیسے ہم جانور سے بھی بدتر ہیں اسنے روہانسے ہوتے ہوے بولا۔اور اس کی آنکھ سے ایک درد بھرا آنسو بہ نکلا اووو۔۔ چچچ ہیرا نے فوراًٹشو پیپر لیکر آنسو صاف کیا۔سر جب تک ہمارے ساتھ اللہ ہے وہ ہمیں اکیلا نہیں چھوڑے گا ۔پلیز اپنے آنسؤں کو روکیں یہ دنیا ایسی ہے کے روتے ہووں سے منہ مور لیتی ہے یہ یاد رکھیں جو روتا ہے وہ بس خود کو کھو دیتا ہے اسنے سمجھاتے ہوے کہا ادھر دیکھیں میری طرف ۔مسکراۓ ۔اچھا آپ کا نام کیا ہے ؟ میرا نام فضل الرحمٰن ہے۔ اچھا جی فضل صاحب اب آپ آرام کیجیۓ میں چلتی ہوں دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔یہ کہتے ہوے وہ فوراً وہا سے نکلی ۔اس سے فضل کے آنسو برداشت نہیں ہو رہے تھے۔
ہادی جب تم فری ہو جاؤ تو میں نےبات کرنی ہے ۔ok؟ہادی کو بول کر وہ وہاں سے باہر ہاسپٹل کے لان میں جا کر بیٹھ گئ ۔بی بی جی آپ بہت تھکی ہوی لگ رہی ہیں آپ کیلۓ چاۓ لے آؤں ؟ ہاسپٹل کیے ملازم پرویز خان نے پوچھا ۔ نہیں مجھے نہیں پینی اور میں نے کبھی نہیں پی اسنے مسکرا کر کہا ۔ملازم چلا گیا ۔ اسنے ہاسپٹل کو اوپر تک دیکھا ۔ جب ہم کسی کو زندگی دے نہیں سکتے پھر ہم انکے جذبات کو قتل بھی نہیں کر سکتے ۔میں نے سنا تھا لوگ صرف لیتے ہیں دیتے نہیں مگر ڈاکٹرز لیتے کم ہیں اور دیتے زیادہ ہیں وہ بس جان لیتے ہیں اوربدلے میں اذیت دیتے ہیں اور اذیت وہ جو باتوں سے دی جاتی ہے ۔ کیا ان ڈاکٹرز کو ترس نہیں آتا میرے بابا ۔۔۔۔۔انکا مرنے کا وقت تو نہیں تھا مگر کیا کیا ڈاکٹرز نے ؟ ماردیا نہ۔
اب وہ آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی کیا عجیب دنیا ہے لوگ ہم سے زندگی مانگتے ہیں زندگی دینے والا تو خدا ہے ہم تو نہیں ۔اسکے آنسو گر رہے تھے یہ ڈاکٹرزمیں بہت کم ایسے ہیں جو کسی کو سمجھ سکیں ۔ وہ سوچنے میں اچھی خاصی مگن تھی ۔اسکے آنسو گال پہ بہتے جارہے تھے۔
ہااا ا۔۔۔۔۔ ہادی نے اچانک پیچھے سے آکر ڈرایا ۔ اسنے فوراً اپنے آنسو صاف کۓ۔ میں نی کتنی بار منع کیا ہے مجھے ڈرایا مت کرو اسنے غصے سے کہا۔لو میں نے ڈرایا کب میں تو کب سے یہاں کھڑا ہوں۔
...@@@...
احس۔۔۔۔ن ! اسنے بڑا سوچتے ہوے بولا ۔ ہاں کہو۔ احسن سیدھا ہو کر بیٹھا ۔ڈاکٹر نے تمہاری طبیعیت کے بارے میں کیا کہا ہے؟ مجھے سچ سچ بتاؤ ورنہ۔۔۔۔۔۔ ورنہ کیا احسن نے ڈرتے ہوے پوچھا۔ورنہ کچھ بھی نہیں میں کیا کر سکتی ہوں ۔
تم بہت معصوم ہو میں یہ خیال کرتا ہوں۔۔۔۔
اووووو۔۔۔ہ گریٹ اب آپ مجھے معصوم سمجھ کر سب کچھ چھپائیں گے تو ایسا میں ہونے نہیں دوں گی۔
اچھا کیا چھپایا میں نے تم سے وہ سیدھا ہو کہ بیٹھا۔
یہی کہ آپ کہاں تھے؟ کیا کر رہے تھے کس کے ساتھ تھے؟؟؟
بس۔۔۔۔۔بس۔۔۔بس۔ واااؤ ایک ساتھ اتنے سوال تم نے تو کہا تھا کہ میڼ کوئ سوال نہیں کرتی۔
ہاں تو صحیح کہا نہ میں نے سوال نئ کیا آپکو یہ بات خود بتانی چاہئیے تھی نہ ۔اب شرافت سے بتا ؤ ورنہ میں ناران چلی جاؤ گی اپنی ماں کے پاس۔اسنے روٹھنے والے انداز میں کہا ۔ اوہ اچھا! سیدھی طرح کہو نہ کہ تم ناران جانا چاہ رہی ہو ۔
ہاں میں نے جانا ہے۔ اسنے غصے سے منہ پھلا لیا ۔اوہ اچھا لڑائ تو مت کرو میں کل تمہیں لے جاؤں گا۔ اسنے ویٹر کو آتے دیکھ کر گویا بات ختم کی ہو۔
سر کچھ اور چاہئے۔؟ ویٹر نے کھانا رکھتے ہوے پوچھا ۔ نہیں بس جاؤ۔ اسنے پلیٹ حوریہ کے آگے رکھتے ہوے کہا ۔
میں کھانا نہیں کھاؤ ں گی جب تک تم مجھے بتاؤ گے نہیں۔
کھانا ہے تو کھاؤ ورنہ۔۔ احسن نے دھمکی دی ۔
ورنہ کیا؟؟...الٹا چور کوتوال کو ڈانٹےوہ سوچتے ہوےبولی ۔احسن اتنا روڈ کیوں ہوگیا ہے ؟ اگر میں نے زیادہ تنگ کیا تو اسنے بات بتانی نئ اور ساتھ میں کھانا بھی چھور دینا ہے ۔اسنے یہ سوچ کر کھانا شروع کر دیا۔
اگلی صبح بہت اداس سی لگ رہی تھی مگر اس صبح حوریہ بہت خوش تھی اسے نئ پتہ تھا کے آج اسکی خوشی کا آخری دن ہے ۔
وہ ناران جانے کیلے تیار ہو رہی تھی ۔
اتنے ۔۔۔۔۔ے۔۔بڑے ۔۔۔بڑے ۔۔بیگ احسن کا سر چکرا گیا ۔ میڈم وہاں سدا رہنے کا ارادہ تو نہیں ؟؟ وہ ہنستے ہوے بولا۔
یہ اتنے دن رہ کیسے لی گی ؟ وہ بیگ گاڑی میں رکھتے ہوے سوچ رہا تھا۔
وہ اپنے سفر پہ روانہ ہو گۓ تھے ۔ اور یہ سفر انکے
ی زندگی کا آخری سفر تھا۔ حریم بہت کیوٹ لگ رہی تھی۔
...@@@...
اچھا رلیکس پہلے یہ بتاؤ رو کیوں رہی ہو؟ اسنے فکرمندانہ انداز میں سوال کیا۔ بس ایسے ہی ۔
مجھ سے پیشنٹس دیکھے نہیں جاتے پتہ نہیں ڈاکٹر کیسے بن گئ۔وہ اپنے آنسو بڑی بےدردی سے صاف کرتے ہوے بولی ۔
اوہ یاد ہے جب پہلی دفعہ ہم ایمرجینسی وارڈ میں گۓ تھے تو تمہیں چکر آگۓ تھے سب مریض ایک ساتھ دیکھ کر۔ وہ سامنے ہاسپٹل سے نکلتے ڈاکٹر ہاشم کو دیکھتے ہوے بول رہا تھا۔۔اچھا یاد آیا تم نے کوئ ضروری بات کرنی تھی نہ مجھ سے وہ اسکی طرف مرتے ہوے کہ رہا رتھا کیوں کہ اسے ڈاکٹر ہاشم کے ساتھ چلتا کرس وؤ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا اور دل ہی دل میں وہ اسے بیوقوف کہتا رہتا تھا مگر کیا کریں ہاسپٹل اسی کا ہے کچھ کہنے کا چانس ہی نہیں ہے سو ایک چپ سو سکھ۔
وہ میں کہ رہی تھی کہ۔۔۔۔۔۔ ابھی اتنا ہی کہ پائ کہ سامنے سے آتے ہاشم اور کرس وؤ کو دیکھتے ہی چپ ہو گئ۔
ہیلو بچو! ڈاکٹر ہاشم نے پاس آکر کہا ۔ہادی اور ہیرا کھڑے ہو گۓ۔آیے سر بیٹھیے ہیرا نے بینچ کیطرف اشارہ کرتے ہوے پیشکش کی۔وہ آج ایک چھوٹا سا ڈنر رکھا ہے گھر میں ۔۔۔جس میں صرف نیوسٹاف ہوگا ۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔ آج شام آٹھ بجے آجانا تم لوگ لیٹ مت ہونا ہو سکے تو جلدی پہنچ جانا ۔شیور سر ! ہیرا نے فوراً بولا ۔اوکے سی یو لیٹر۔ کہتے ہوے ہاشم چلا گیا ۔
مجھے بہت ضروری کام ہے میں نئ جاسکتا ہادی نے منہ بناتے ہوے کہا ۔
اووووہ اچھا کوئ بات نہیں ہادی میں ڈیڈ سے کہ دوں گا ۔ کرس وؤ نے خوش ہوتے ہوے کہا ۔
نہیں ! سر آپکو اتنا سیڈ ہونے کی ضرورت نہیں ہے میرا مطلب ہے میں آؤں گا آخر آپ نے اتنے پیار سے بلایا ہے میرا مطلب یہ ہے کہ میں بس تھوڑا سا لیٹ آؤں گا۔ یہ کہتے ہوے اسنے کن نظروں سے کرس وؤ کو دیکھا اسکو تو گویا آگ ہی لگ گئ ہو۔
ہیرا کو پتہ تھا انہوں نے لڑنا شروع کردینا ہے ابھی ۔ ہادی چلو لیٹ ہو رہے ہیں ہمیں جاکر تیار بھی ہونا ہے ابھی ۔اسنے ہادی کو تقریباً گھسیٹ تے ہوے کہا۔
ہادی غصے میں اتنی سپیڈسے گاڑی چلا رہا تھا کہ ہیرا چیخ پری کیا ہوگیا ہے اتنا غصہ ہے تو کرس وؤ کو لانگ ڈرائیو پر لے جاؤ پھر جو جی چاہے وہ کرنا۔ ہا۔۔۔۔۔ا۔۔۔ا۔۔دی تمہیں سنتا نہیں کہ کیں کیا کہ رہی ہوں۔ سنتا ہے اور سن بھی رہا ہوں ہادی نے مزید گاڑی کو تیز کرتے ہوۓ کہا ۔آئندہ کبھی تمہارے ساتھ نئ آؤں گی اسنے چیختے ہوے کہا ۔ نہ آنا ہر بار تم یہی کہتی ہو مگر پھر بھی آجاتی ہو وہ اسے اور غصہ دلاتے ہوے بولا۔
اسنے اب کچھ بھی بولے بغیر منہ شیشے کیطرف کیا باہر دیکھنے کیلیے مگر وہ اور چیخیں مارنے لگی اتنی خوفناک پہاڑیاں اور کھا ئیاں اوپر سے تیز گاڑی ۔مجھے سمجھ نہیں آرہی تمہیں ہوا کیا ہے کوئ جن آگیا ہے یا بھوت کا سایہ ہو گیا ہے یہ کہتے ہوے وہ روتے روتے آیة لکرسی پڑھنے لگی ۔
وہ بس چپ تھا تم کرس وؤ سے دور رہا کرو وہ انگریز کا بچہ تمہیں کوئ نقصان بھی پہنچا سکتا ہے وہ برے عجیب سے انداز میں بولا۔
وہ چاہے کوئ نقصان پہنچاۓ نہ پہنچۓ تم نے ضرور آج کچھ کرنا ہے ۔
انکی لڑائ زورو شور پر تھی اتنی دیر میں گھر آچکا تھا۔ اس نے فوراً گاڑی کا دروازہ کھولا اور اتر کر زور سے دروازہ بند کرتی یہ جا اور وہ جا۔
کاش ہم لوگ ایک گھر میں نہ رہتے اور نہ اسکی پاگلوں جیسی حرکتیں دیکھنی پڑھتیں وہ یہ بولتے ہوۓ سیڑھیاں چڑ رہی تھی ۔ اپنے کمرے میں جا کر اس نے بیگ بیڈ پہ پھینکا اور لیٹ گئ۔
ہادی اپنا بیگ صوفے پہ پھینکنے کے سے انداز میں رکھ کر سیدھا کچن میں گیا اور فریج سے پانی نکال کر پینے لگا ساتھ ہی شمیم اند داخل ہوئ بیٹا ہیرا نہیں آئ کیا؟ اسنے اسے اکیلا دیکھ کر سوال کیا۔ آئ ہے ماما اوپر بھاگ گئ ۔
لو آج پھر اسے کچھ کہ دیا کوئ حال نئ تمہارا دوسروں کا غصہ ہمیشہ اس پہ اتارتے ہو ۔ جاؤ اسے بلاؤ میں کھانا لگاتی ہوں ۔
میں نے تو کھانا نئ کھانا اور ہیرا کو بلا لینا۔ باۓ یہ کہتے ہوے ہادی دوبارہ چلا گیا ۔ بیٹ۔۔ا ۔۔بات۔۔ تو سنو وہ جا چکا تھا۔
ہیرا انکی دوست کی بیٹی تھی اور ساتھ ساتھ ہادی کی یونی فیلو بھی تھی۔ ہیرا۔۔۔ہیر۔۔ا۔۔ وہ ہیرا کو آوازیں دیتی باہر تک گئ مگر کوئ جواب نہ پاکر وہ اوپر چلی گئ۔۔۔۔۔
وہ ہیرا کے کمرے میں گئ تو ہیرا رو رہی تھی اوندھے منہ لیٹی ۔ وہ اسکے پاس جا کہ بیٹھی ہیرا کا سر اپنی گود میں رکھا تو ہیرا نے اور رونا شروع کر دیا ۔ چپ بیٹا ۔۔۔۔۔ اسے آنے تو دو دیکھو کیا حال کرتی ہوں ۔وہ اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرتےہوے بول رہی تھی کیا کہا اسنے ؟ ۔ ماما مجھے پانی دیں اسنے پانی مانگا ماما جیسے ہی اٹھ کر پانی لینے گئ تب تک وہ اپنی نیند کی میڈیسین کھا چکی تھی ۔
جیسے ہی شمیم پانی لائ ، ماما میں دوائ کھا چکی ہوں اب مجھے کوئ نہ اٹھاۓ اسنے آنسو صاف کرتے ہوے بولا وہ بھول چکی تھی کہ اسے ابھی ڈنر پر بھی جانا ہے۔مگر بیٹا کھانا تو کھا لیتی... دروازہ بند کر کے جانا اس نے ان کی بات ان سنی کرتے ہوے بولا۔ ٹھیک ہے وہ کیا کرسکتی تھی اٹھ کر چلی گئ ۔ ماں کی کمی میں کیسے اس کی پوری کروں ۔ وہ سوچ رہی تھیں۔خود ایک ڈاکٹر ہے پھر بھی اپنے آپ کا خیال نئ رکھتی کھانا نئ کھاتی ٹائم سے ۔ وہ اسکی فکر کر رہی تھیں۔
ڈیڈ سب آ چکے ہیں بس ہادی اور ہیرا نئ آۓ ؟ کرس وؤ کو ٹینشین ہو رہی تھی۔
آ جائیں گے ابھی ۔ ہاشم ریسٹ واچ پہ نظر دوڑاتے ہوے بولا۔
ٹائم گزرتا جا رہا تھا ۔ تنگ آکر (kris wu) کرس وؤ نے ہیرا کو کال کی مگر نو آنسر سن کر اسے اور بھی ٹینشین ہونے لگی ۔
اسنے نا چاہتے ہوے بھی ہادی کو کال کی ۔ اور ہادی کا جواب سن کر گویا اسے آگ ہی لگ گئ ہو۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔
YOU ARE READING
Aakhri shola by Inahseya ABDULLAH season1
Romanceآخری شعلہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ بدلے کی آگ میں انسان خود کو بھی جلا ڈالتا ہے اور نفرت کرنے سے خود کے سوا کسی کو اذیت نہیں ہوتی۔