قسط نمبر: 15
خالی گلاس ہاتھوں میں لئے وہ بس اسے دیکھے جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔
ہاشم بری تجسسی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
کرس وؤ اپنی نیند پوری کر چکا تھا۔۔
"یہ دکھنے میں کتنی معصوم دکھتی ہے، پر اتنی معصوم ہے نئ، وہ اندر ہی اندر سوچ رہا تھا"۔۔۔ اور حرا کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا۔۔۔۔
وہ لوگ ملائشیا میں سٹے کر رہے تھے۔۔۔۔۔
"چلیں تھوڑا گھوم پھر لیتے ہیں بابا"۔۔۔۔۔
کرس وؤ نے اپنا موڈ بدلتے ہوۓ کہا۔۔۔
ساتھ چلتی حرا بہت گہری سوچ میں ڈوبی ہوئ تھی۔۔۔۔
"سر آپ سے ہر چیز کیلئے معافی درکار ہے مجھے،آپ میرے بابا جتنے ہیں میں آپ کی رسپیکٹ کرتی ہوں"۔۔۔حرا کرس وؤ کے طنزیہ نظروں کے وار سہتی ہوئ ہاشم سے مخاطب تھی۔۔۔۔
اوہ۔ہ۔ہ۔۔۔ہ مگر معافی کس چیز کیلئے؟ ۔۔۔۔ہاشم اوہ کو لمبا سا کرتا ہوا گویا ہوا۔۔۔۔۔
"سر ہر اس چیز کیلئے جس سے آپ کومیری وجہ سے تکلیف ہوئ ہو"۔۔۔۔وہ کہتے کہتے رو پڑی۔۔۔۔۔
اوہ ہو بیڈ گرل۔۔۔۔۔کیا ہوگیا ہے۔۔۔؟۔۔۔اتنا چلو کچھ کھاتے ہیں۔۔۔۔ جہاز اپنی اوڑان کو سمیٹے نیچے کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔۔۔
ائیرپورٹ پہ اپنا سامان لیتے ہوۓ ہاشم نے اپنی طنزیہ نظریں حرا کی اوڑھ بڑھائیں۔۔۔حرا بہت نروس ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔
وہ لوگ جیسے ہی ائیر پورٹ سے نکلے۔۔۔سامنے ایک چمکتی دمکتی کار ،ان کیلئے کھڑی تھی۔۔۔۔۔اور تین گاڑیاں مع گارڈز کے تیار کھڑی تھیں۔۔۔۔
کرس وؤ نےجیسے ہی دروازہ کھولنا چاہا ،حرا فوراً آگے بڑھی اور دروازے پہ ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔"پہلے سر آپ بیٹھیں "۔۔۔
وہ دروازہ کھول کر ہاتھ سے اشارہ دیتے ہوۓ مخاطب ہوئ۔۔۔۔
ہاشم کا۔۔ای ووسٹی میں اپنا ایک بہت بڑا فلیٹ تھا جس میں اسوقت یہ لوگ جارہے تھے۔۔۔۔۔
ابھی روانہ ہوۓ کچھ ہی دیر ہوئ تھی کہ حرا کو چکر سے آنے لگے۔۔۔۔اسے ہرطرف اندھیرا سا دکھنے لگا۔۔۔۔وہ اپنے آپ کو بار بار ہوش میں رکھنے کی کوشش کر رہی تھی جو کہ ناکام رہی تھی۔۔۔۔اچانک وہ اپنے دائیں جانب بیٹھے کرس وؤ پہ گر گئ۔۔۔
کرس وؤ اسکو مخاطب کرنے لگا ۔۔"حرا ۔۔۔حرا۔۔۔۔"اسکے ہونٹ نیلے پر گۓ تھے،وہ اسے ہلانے لگا مگر اسکے حرکت نہ کرنے پر وہ ڈر گیا ۔۔۔۔اسکی آواز پہ آگے بیٹھے ہاشم نے مر کر دیکھا اور ڈرائیور سے کار کو روکنے کا بولا۔۔۔۔۔
ہاشم نے پانی کے چھینٹے اس کے منہ پہ مارے مگر اسکے وجود میں کوئ حرکت نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔
"فوراً ہاسپٹل چلو"۔۔۔۔ہاشم نے ڈرائیور سے کہا۔۔۔۔
"بابایہ ہمارے لئے کوئ مصیبت نہ کھڑی کر دے"۔۔۔۔کرس وؤ کو پریشانی لاحق ہوی۔۔۔۔۔
ہمیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے،گارڈز ہمارے ساتھ ہے۔۔۔۔۔
اسی لمحے کرس وؤ کا موبائل فون بج اٹھا۔۔،
"ہیلو۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔یار وہ حرا کی کچھ طبیعیت نہیں ٹھیک ہم اسے ہاسپٹل لے کے جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔نہیں اسکی ضرورت نہیں۔۔۔۔اوکے تم آجاؤ۔۔۔۔" اسنے بات کر کے جیسے ہی فون رکھا ۔۔ہاشم کی سوالیہ نظریں اسکے ارد گرد تھی۔۔۔
"وہ بابا ابرو کی کال تھی"۔۔۔۔۔اسنے کچھ پوچھنے سے قبل ہی بول دیا۔۔۔
"اوکے۔۔۔" ہاشم اپنے موبائل میں کچھ ڈھونڈھ رہا تھا۔۔۔۔
"مگر بابا آپ سب کچھ جان کر بھی کیوں انجان بن رہے ہیں"؟۔۔۔۔
کرس وؤ! جسٹ سٹاپ۔۔۔وہ اتنے غصیلے لہجے میں مخاطب تھا۔۔۔۔۔گویا پھٹ ہی پڑے گا۔۔۔
ابراہیم نے اس سوۓ ہوۓ پہ چادر اوڑھ دی اور دروازہ بند کر کے باہر چلا گیا۔۔۔
اگلے دن اس شخص نے اپنے بارے میں سب بتایا کہ،اسکا نام ڈاکٹرکرس وؤہے،وہ ایک مشہور سائینسدان ہاشم یمرانی کا بیٹا ہے،،
اور تم نے مجھے رات بھر اپنے گھر رکھا ،تم ایک بہت اچھے انسان ہو،یہ کہتے ہوۓ اسنے اپنا کارڈ نکال کہ اسے تھمایا۔جب کبھی میری ضرورت پرے تم مجھے بلا سکتے ہو،میں حاظر ہو جاؤں گا،
اور اسنے جاتےجاتے کچھ پیسے ابرہیم کو تھمادئیے جن ہیں ابراہیم نے چپ کر کے تھام لیا،۔۔۔۔کرس وؤ جا چکا تھا۔۔۔
ابراہیم اپنے خیالات کی دنیا سے باہر أگیا۔۔۔
اور اب وہ کرس وؤ سے ملنے جارہا تھا۔۔۔۔۔جو کہ پاکستان سے آچکا تھا اور یہ بتا چکا تھا کہ حرا ٹھیک نئ ہے،
وہ گاری ڈرائیو کرتےہوے سوچ رہاتھا۔۔۔۔۔
میرا نام کتنا پیارا ہے ابراہیم یمرانی ،ایک دن میں اس نام پہ فخر کرتا تھا،اور ابرو نام پکارے جانے پہ چڑتا تھا،اور أج مجھے اپنے آپ کو ابرو بلانا ہی پسند ہے ۔۔کدھر ہو گی مجھے ابرو بلانے والی۔۔۔زندگی بہت برے طریقے سے سب کچھ چھینتی ہے کہ جینے کی وجہ بھی چھین لیتی ہے،مگر خدا نے یہ زندگی بھی کیسی گیم بنائ ہے نہ جب ایک مقصد ختم ہوتا ہےتو خدا فورا ہمیں دوسرے مقصد میں لگا دیتا ہے غرضیکہ،کوئ نہ کوئ مقصد ہوتا ہے،چاہے دل زندہ ہو یا نہ ہو،ہر حال مین کوئ نہ کوئ مقصد موجود ہوتاہے۔۔۔۔۔۔لوگ کہتے ہیں ہمارا مقصد کیا ہے اس دنیا مین آنے کا؟ وہ کیوں بھول جاتے ہیں ہمیں اسکی عبادت کے ساتھ اسکے بندوں کو راحت پہنچانی ہے،اور ظالموں سے مظلوموں کو انصاف دلانا ہے،۔۔۔۔۔
میرا اس دنیا میں کوئ مقصد نئ تھا جب میں ایک یتیم خانے میں تھا،۔۔۔۔تب۔۔۔
بس مجھے اور نئ سوچنا اپنے ماضی کے بارے میں،میں تھک گیا ہوں۔۔۔اب بس ایک مقصد باقی ہے اپنے باپ کی زندگی کو حرا سے بچانے کا۔۔۔۔۔۔
ہاسپٹل آچکا تھا۔۔۔۔۔
ہاسپٹل کے ایمرجینسی وارڈ میں اسے لےجایا گیا تھا۔۔۔۔
ای وو سینٹرل ہاسپٹل میں ہاشم نے سب برے برے ڈاکٹرز کو بلا لیا تھا،وہ خود ایک ڈاکٹر تھا،مگر وہ سمجھ نئ سکا تھا حیرا کی حالت کو۔۔۔۔۔
ہاشم خود ایمرجینسی وارڈ میں حراکے پاس کھڑا تھا،(یااللہ اسے کچھ ہونانہیں چاہئیے،مجھے جاننا ہے اسکو،یہ جیسی دکھتی ہے ویسی ہے نئیں،اور یہ کس کے کہ کہنے پہ مجھے مارنا چاہتی ہے،اور مجھے مارنے کے بجاۓ خود کیوں اس حال میں پہنچ گئ ؟؟؟؟، یہ سب سوال کرنے ہیں مجھے اس سے،اور جاننا ہے سب کچھ ) وہ دل ہی دل میں دعا کررہاتھا۔۔۔۔
کرس وؤ تھک چکا تھا وہ ہاسپٹل سے ابرو کے پاس پہنچ گیا،اسے ٹینشین تو نہیں تھی حرا کی مگر ابرو اسکے کان کھاۓ جارہا تھا،اسے ہوا کیا ہے مجھے تفصیل سے بتاؤ،ابرو ہاسپٹل کے باہر کرس وؤ کا انتظار کررہاتھا،
وہ جیسے ہی ابرو کے پاس پہنچا،تو یہ دیکھ کر وہ شاکڈرہ گیا کہ ابرو کے ہاتھوں سے خون بہ رہا تھا،آنکھیں سرخ ہو رہی تھی،وہ اپنی مٹھیاں اتنی زور سے بند کئیے کھڑاتھا کہ اسکے ہاتھوں میں موجود کار کی چابی اسکے ہاتھ کو زخمی کر گئ تھی،۔۔۔۔۔
"ابرو ۔۔۔۔یہ ۔۔۔یہ۔۔۔کیا ہوگیا ہے ،تمہارے ہاتھ کو۔؟"یہ کہتے ہوۓ اسنے اسکے ہاتھ کو پکڑا۔۔
چھوڑو ۔۔۔۔اسنے اپنا ہاتھ بڑی بے دردی سے چھراتے ہوۓ کہا،
ایسا نئ ہوسکتا ہے،حرا کو کچھ نئ ہوگا نہ۔۔۔بتاؤ مجھے ۔،،وہ چیخا۔۔۔
"ابرو ریلیکس ،ویسے مجھے نئ لگتا وہ اب زندہ رہے گی،مگر ڈیڈ اسے بچانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں،"
"میں آج تک اس سے مل نئ سکا مگر پھر بھی بہہت حساب برابر کرنے ہیں مجھے اس سے،وہ ایسے کیسے مر سکتی ہے۔۔
روزانہ لاکھوں لوگ مرتے ہیں مگر ان لاکھوں کے بدلے یہ ایک ہی بہہت قیمتی۔۔۔"
"ابرو۔۔۔۔،! یار تم کچھ بتاؤ گے کہ تمہارا اس سے لینادیناکیاہے؟ وہ اسکی بات کاٹتے ہوۓ بولا"
اسکو بس میں نے اپنے ہاتھوں سے سزا دینی ہے وہ بھی وہ سزا جو آج تک کسی نے کسی کونئ دی ہوگی۔۔۔
بہت سے ایسے راز ہیں جن کو میں جان کر بھی خاموش ہوں ان پہ سے پردہ اٹھا کر میں تباہی نہیں مچانا چاہتا،
تم کون ہو،میں کون ہوں،ہاشم کون ہے،حرا کون ہے،معاذ کون ہے،یہ ایک سلجھی ہئ الجھن ہے جو میں سلجھا چکا ہوں بس ابھی ایک دھاگے کی گرہ باقی ہے،بس وہ بھی کھل جانے دو پھر آۓ گا اسلی مزہ،ایک دوسرے کو جاننے کا۔۔۔
کونسے راز کی باتیں کررہے ہو مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی،میں کون ہوں ،تم کون ہو،ہم فرینڈز ہیں یار ۔۔۔کیا ہوگیا ہے۔۔۔
اور چلو گاڑی میں بیٹھو۔۔۔وہ اسے زبردستی گاڑی میں بٹھانے لگا،اور فرسٹ ایڈبکس نکالنے لگا،۔۔۔۔ابرو تو ان الجھنوں میں کیوں ہرتے ہو جنہیں سلجھا کر بھی سلجھا نہیں پاتے ہو،؟
"میری الجھنیں مجھے سلجھا گئ ہیں بنا مجھے بتاۓ،میں اپنے آپ میں اتنا الجھ گیا تھا کہ سب کچھ سلجھا لیا،پھر بھی دل کو وہ چاہئیے جو نہ میری الجھنوں میں ہے نہ میری سلجھنوں میں۔۔۔کیا کروں،۔۔۔۔"
کرس وؤ اسکی باتیں سمجھنے کی مکمل کوشش کررہا تھا،ساتھ ساتھ اسکے ہاتھ کی بینڈیج کررہاتھا۔۔۔۔۔چل یار اب اندر چلتے ہیں کوئ صورتحال دیکھتے ہیں۔۔۔۔
انکی نظر سیدھے ہاشم پہ گئ جو کہ کسی ڈاکٹر سے زور زور سے کچھ بول رہا تھا،
یہ دونوں تیزی سے بھاگے ۔۔۔۔۔
"سر آئم سو سوری۔۔۔۔۔۔"
سٹاااااااااپ۔۔۔جسٹ سٹاااااپ، وہ نئ مر سکتی ۔۔۔ہاشم آپے سے باہر ہوگیا تھا۔۔۔ڈاکٹر زندگی دے بھی سکتا ہے لے بھی سکتا ہے،پھر کیسے بتاؤ کیسےےےےےےے۔ہاشم نے ڈاکٹر کا گریبان پکر لیا۔
سر پلیز آپ سمجھنے کی کوشش کریں ۔۔۔ڈاکٹر کہ رہا تھا،اور اپنے آپ کو۔ چھڑانے کی کوشش کررہاتھا،۔۔۔۔
زندگی ہمارے ہاتھ میں جب ہوتی ہے ہم اسے اپنے ہاتھوں سے کھو دیتے ہیں بعد میں اسکاقصور وار کسی اور کو ٹھہراتے ہیں،سر وہ خدا جسے چاہے بلا لیتا ہے اپنے پاس،آپ بھی ایک ڈاکٹر ہیں سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اپنی جان لگا دیتے ہیں،مگر۔۔۔۔۔
"کیا کہا آپ نے ؟؟؟" (ابرو کاہاتھ بےاختیار اپنے دل پہ ٹھہر سا گیا۔۔۔۔۔)وہ زندہ نئ ہے اب۔۔۔مطلب ۔۔۔حرا مرچکی ہے،؟ابرو یہ کہتے ہوۓ زمین پہ بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔ایک عجیب سا ماحول چھا گیا تھا۔۔۔
"میں تجھے محسوس کرتی رہی۔۔۔،
دیکھ۔ نہ سکی،
تیری طلب کرتی رہی ۔۔۔،
تجھے پا نہ سکی،
اے درد زندگی تجھے سلام۔۔۔،
تیری خاک زندگی میں جی نہ سکی۔۔۔۔۔۔"
جاری ہے
BẠN ĐANG ĐỌC
Aakhri shola by Inahseya ABDULLAH season1
Lãng mạnآخری شعلہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ بدلے کی آگ میں انسان خود کو بھی جلا ڈالتا ہے اور نفرت کرنے سے خود کے سوا کسی کو اذیت نہیں ہوتی۔