سرد ہوائیں،چاند کی روشنی میں خاموش بلند پہاڑ سر اٹھا کے اس بات کا اعلان کر رہے تھے کہ،زندگی گزارنے کیلئےچٹانوں جیسی سختی لازمی ہے،جوہر آندھی،طوفانوں،میں ہنوز کھڑے رہتے ہیں،۔۔۔۔۔
ہادی حرا کے پاؤں کی بینڈیج کر رہا تھا،۔۔۔۔،ساتھ ساتھ اسے دیکھ رہا تھا،وہ لگ پرسکون رہی تھی،۔۔۔۔مگر حقیقتاً وہ پر سکون نہیں تھی۔
"یقینناً صبح یہ فریش فیل نہیں کر پاۓ گی،میڈیسین کہ بغیر جو سو گئ ہے۔۔۔۔" وہ بینڈیج کرتے ہوۓ سوچ رہاتھا۔۔۔۔۔
"نیند بھی کتنی عجیب چیز ہے۔۔۔۔ایسا لگتا ہے نیند ایک بہت ہی خوبصورت وادی ہے۔۔۔اور خواب اسکی رونق ہے۔۔۔"
"نیند کی وادی ۔۔۔دنیا کی واحد ایسی وادی ہے۔۔۔جہاں ہر پریشان،۔۔(کسی کہ مرنے کا ہی دکھ کیوں نہ ہو )امیر کیا،۔۔غریب کیا،۔۔زخمی کیا۔۔۔ہر کوئ اپنی شناخت بھول کہ اس میں سکون حاصل کر پاتاہے،۔۔۔"
"مگر۔۔۔۔۔۔۔جسےنیند اپنی وادی میں ہی نہ آنے دے۔۔۔۔وہ اپنے غم ۔۔کون سی وادی میں لے جاۓ،۔۔۔۔۔وہ سکون کہاں حاصل کرے؟؟؟۔۔۔"
بتاؤ مجھے ہادی۔۔۔۔میں وہاں جاناچاہتی ہوں۔۔۔
ہادی کے کانوں میں حرا کے الفاظ گونج رہے تھے۔۔
وہ کچھ دن پہلے کی گفتگو پہ ایک نظر ڈال رہا تھا۔۔۔
"حرا اللہ سے دوستی کرلو،اور جو دوست ہوتا ہے وہ کبھی پریشان ہونے نہیں دیتا۔۔۔ہم کسی کے بارے میں اندازہ نہیں لگا سکتے کہ وہ وفادار ہے یا نہیں۔۔۔۔۔مگر۔۔اللہ کی وفاداری بارش کا ایک ایک ذرہ ثابت کرتا ہے۔۔۔۔۔"
"میں اللہ سے دوستی کے لائق نہیں ہوں۔۔۔"وہ ہاری ہوئ لگ رہی تھی۔
(بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔۔۔،وفاداری پر بھی)
"دیکھو اتنے انبیا آۓ سب نے اپنی پریشانیاں اللہ کے آگے پیش کیں ۔۔۔۔۔بدلے میں انہیں وہ عزت ملی جو آج تک کوئ دنیا میں کسی کو نہیں دے سکا۔۔۔۔"
(میں اتنی گنہگار ۔۔۔۔وہ میری کیسے سنے گا)
"اس سے مانگو تو وہ بے انتہا خوش ہو تا ہے۔۔۔اور اگر نہ مانگو تو وہ ناراض ہوتا ہے۔۔۔۔تم اس سے مانگتی کیوں نہیں ہو۔۔۔میں ہم دونوں کیلئے بہت کچھ مانگتا ہوں۔۔۔"
میں جہاں تک ہوسکتا ہے ۔۔۔۔تمہیں سکون دینے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔مگر نیند میں خرید نہیں سکتا۔۔۔
"میں اپنے آپ کو مانگنے کے قابل ہی نہیں سمجھتی،۔۔۔۔۔"
"میری دعا ہے کہ میری زندگی بھی تمہیں مل جاۓ۔۔۔اور تم ایک پرسکون زندگی گزار سکو۔۔۔۔۔تمہیں جس کی تلاش ہے وہ تمہیں مل جاۓ۔۔۔تمہیں اللہ کا ساتھ مل جاۓ۔۔۔اللہ تمہیں اپنی دوستی کے قابل بناۓ۔۔۔(یاللہ اسے اس آگ سے نکال دے جس میں یہ خود کو برباد کر رہی ہے،۔۔۔میری قربانی چاہئے تو ۔۔۔میں قربان ہو جانا چاہتا ہوں۔۔اسے اس اذیت میں تو نہیں دیکھنا پڑے گانہ ۔ ۔۔آگے جدھر تقدیر لے جاۓ)" وہ ہاتھ اٹھاۓ دعا مانگنے کی صورت میں دعا مانگ رہاتھا۔۔۔
ایک دم بہت تیز ہوا چلی۔۔۔۔کہ حرا کے بال ہوا سے اڑنے لگے۔۔۔۔۔۔جیسے ہی ہادی نے اپنے ہاتھوں کو منہ پہ پھیرا دعا ختم کرنے کہ بعد۔۔۔تو حرا نے بہت اونچا ٰامین کہا۔۔۔۔اگر وہ جانتی کہ یہ سب قبول ہو جائیں گی تو وہ کبھی اٰمین ہی نہ کہتی۔۔۔۔۔۔۔
کبھی دعاؤں کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے اور اس وقت کی دعا قبول ہوتے دیر نہیں لگتی۔۔۔اس "وقت"نے بھی دعا کو تقدیر میں ڈال دیا تھا۔۔۔۔۔ان دونوں نے اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں سے لکھ دی تھی۔۔۔۔
وہ سونے کی بہت کوشش کر چکا تھا۔۔۔مگر ناکام رہا۔۔۔میں ہاشم یمرانی ۔۔اپنی پہچان کھو چکاہوں ۔۔۔اور بعض اوقات پہچان بدلنے کے بعد سب کچھ بدل جاتا ہے۔۔۔اگرچہ اپنی پہچان اندر ہی رہتی ہے۔۔۔۔۔
"میں ہاشم یمرانی دکھنے میں ایک مظبوط انسان ہوں، ایک بہت قابل سائنسدان ہوں۔۔۔۔۔میں نے اس دن خدا سے وعدہ کیا تھا۔۔۔کہ جیسے میرے دو بیٹے ہیں،ابراہیم اور کرس وؤ،ایسے ہی حرا میری بیٹی ہے،اور میں اس بیٹی کا اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ خیال رکھوں گا۔۔۔۔،اسے ایک مثالی بیٹی بناؤں گا۔۔۔۔۔اگرچہ میں ایک مثالی باپ نہیں بن سکا۔۔۔۔اور مجھے کیا پتہ تھا کہ ابراہیم کو کھونے کے بعد"۔۔۔۔۔۔وہ بولتے بولتے ایک دم چپ کر گیا تھا۔۔۔
"کاش معاذ کاش تم مجھسے دغا نہ کرتے کاش۔۔۔۔تم نے مجھسے کیوں حرا کو چھینا۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔"
کیا یہ وہی حرا ہو گی جو معاذ نے مجھسے چھینی تھی یا یہ کوئ اور ہے۔۔۔۔۔مگر یہ۔۔؟ اسکے بارے میں جو انفارمیشین ملی تھی اس میں یہ کاغان کی رہنے والی بتایاگیا تھا مجھے۔۔۔۔۔اور ہادی کے گھر اسنے ایک کمرہ لےرکھا ہے کرائے پہ بسس۔۔۔۔۔وہ بھی بس جاب کیلئے۔۔۔
میں بھی کتنا پاگل ہوں۔۔۔۔بھلا معاذ حرا کو اپنے گھر کیوں رکھنےلگا۔۔۔۔۔
ہاں جیسے میری شمیم کی طرح معاذ کی وائف کا نام بھی شمیم ہے۔۔۔۔۔
اسی طرح یہ کوئ اور حرا ہو گی۔۔۔۔
وہ حرا کی چھوٹی چھوٹی باتیں سوچ کر خود کا دل بہلا لیتا تھا۔۔۔ابرو کو تو وہ بس ایک دن کیلئے دیکھ پایا تھا۔۔۔۔۔۔
"مجھے دلہن بننا ہے،اور شادی کرنی ہے،۔۔
اسکے معصومانہ انداز پہ اسے بے حد پیار آیا۔۔۔۔
اچھا جی چلو ہم آج آپکو دلہن بناتے ہیں،مگر دلہن کیوں بننا ہے آپکو؟۔
میں ابھی دلہن نئ بنوں گی۔۔۔
ماما نے کہا تھا کہ جب میں دلہن بنوں گی،تب ہی میں ہمیشہ ااااا(وہ ہمیشہ کو لمبا کرتے ہوے کہ رہی تھی) ان کے پاس رہوں گی،،ماما سے مجھے بہت پیار ہے مگر ماما مجھے چھوڑ کہ چلی گئ ہیں۔۔۔۔۔وہ ایک دم اداس دکھنے لگی۔۔۔
ہاشم کو ایک چھوٹی سی بچی کی بات سمجھ میں نہ آسکی۔۔۔۔۔
"اچھا یہ بتاؤ جب آپ دلہن بنتی تھی تو دلہا کون بنتا تھا؟۔۔"
"ماما نے بولا میرا دلہا ابراہیم بنے گا اگر وہ ماما کی بات نئ مانے گا،تو ماما اس کی ٹانگیں توڑیں گی"۔۔۔۔(ابراہیم کے نام پہ اسکا دل ایک دم بند سا ہوا )
"چلو پھر ماما تو آپکی نئ ہیں ابراہیم کہاں ہے؟"
وہ لوگ آۓ تھے اسے کھینچ کہ لے گۓ تھے۔۔۔۔۔۔وہ گم ہو گیا۔۔۔۔
وہ بس رو ہی پڑتی اگر وہ موضوع چینج نہ کرتا ۔۔۔۔اچھا چلو پھر دلہن نئ بننا۔۔۔؟
"آپ مجھے کبھی چھوڑ کر تو نئ جاؤگے نہ؟۔۔۔۔"ایسا کریں ابراہیم تو گم ہو گیا اب آپ میرے دلہا بن جاؤ،ماما کہتی ہیں دلہا وہ ہوتا ہے جو ہمیشہ ساتھ رہتا ہے کبھی چھوڑ کر نئ جاتا ۔۔۔۔۔
ہاشم کے چہرے پہ ایک رنگ آکر گزر گیا،۔۔۔۔
وہ خیالوں ہی خیالوں میں سو چکا تھا۔۔۔۔۔جسکی وجہ سے صبح وہ لیٹ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔
لیو تاؤ کو خداحافظ کرتے ہوۓ کرس وؤ بہت روٹھا روٹھا سا دکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
صبح کے نو بج رہے تھے،کچھ ہی دیر میں حرا اور ڈاکٹر ہاشم چائینہ روانہ ہونے والے تھے۔۔۔۔۔اناؤنسمنٹ ہو رہی تھی۔۔۔۔مسافروں کو مخاطب کیا جارہا تھا۔۔۔۔،کہ وہ تیار رہیں۔۔۔۔
ہادی کاٹینشین کے مارے بی پی لوہوتاجارہاتھا۔۔۔۔۔۔اسے اپنی سانسیں رکتی محسوس ہو رہی تھیں۔۔۔۔
"اچھا حرا ! اپنا اچھے سے دیھان رکھنا اور دیکھو زیادہ گھومنا پھرنا مت(اسکے پاؤں پہ لگی پٹی کو وہ مسلسل دیکھ رہا تھا)۔۔۔۔"وہ اسے کوئ دسویں بار نصیحت کر چکا تھا۔۔۔۔اور حرا ہر بار خاموش رہی تھی وہ بس آج خاموش ہی رہنا چاہتی تھی۔۔۔۔
سامنے سے آتے ڈاکٹر ہاشم کے ساتھ کرس وؤ کو دیکھ کر ہادی کو گویا آگ ہی لگ گئ ہو۔۔۔۔۔
"حرا اس لفنگے شخص سے دور رہنا"۔۔۔۔اسنے نفرت زدہ لہجے میں کہا۔۔حرا مسکرا گئ۔۔۔
ہاۓ۔۔۔کیسے ہو بھئ تم سب لوگ۔۔۔۔"؟
ڈاکٹر ہاشم نے آکر کہا۔۔۔۔۔انہوں نے ایک نظر ہال میں لگی گھڑی کی طرف دوڑائ۔۔۔
الحمدللہ ہم تو ٹھیک ہیں ۔۔۔! ہادی نے بڑا اتراتے ہوۓ جواب دیا۔۔۔۔
ڈاکٹر ہاشم نےحرا پہ ایک بھر پور سی گہری نظر ڈالی جو کہ حرا محسوس کر چکی تھی۔۔۔۔۔لیکن اسنے یہ سوچتے ہوے نظر انداز کیا کہ وہ حرا کے اس دن والے واقعے سے واقف ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔
"چلو بھئ دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔پہلے ہی کافی لیٹ ہو چکے ہیں۔۔۔۔"
ہادی نے اسے بس آنکھوں سے الوداع کہا۔۔۔۔۔۔کیونکہ وہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ حرا میریڈ ہے۔۔۔
ہادی کی آنکھوں میں آنسو آگۓ تھے۔۔۔۔اور وہ حرا سے چھپ نہیں سکے تھے۔۔۔
"کاش میں ایک عام سے گھرانے کی عام سی لڑکی ہوتی تو ہادی تمہیں کبھی رد نہ کرتی۔۔۔۔۔میں بس چاہتی ہو میری سنگدلی میرے لئیےرہے، تم بہت اچھے ہو،اور تم مجھسے اچھی لڑکی ڈیزرو کرتے ہو۔۔۔میں نے ہر طرح سےکوشش کی کہ تم مجھسے نفرت کر سکو مگر ہر بار میرے لئےتمہاری فکر اور بڑھ جاتی ہے۔۔۔،مگر اب بس۔۔۔یہ تمہاری اور میری آخری ملاقات تھی"۔۔۔۔۔اسنے جاتے ہوۓ آخری بار اسےمڑ کر دیکھا۔۔۔۔۔۔ہادی کی نظریں جھکی ہوئ تھیں وہ اسے جاتے ہوۓ نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔۔
"بیٹا آج سے تم نے حرا کی حفاظت کرنی ہے،۔۔۔۔اسے ہر پریشانی سے بچانے کوشش کرنی ہے۔۔۔اور تمہاری طرف سے تو کوئ تکلیف نہیں پہنچنی چاہئے اسے۔۔۔۔یہ بات تم ہمیشہ یاد رکھو گے۔۔۔۔"
ہادی کے کانوں میں اسکے باپ کی آواز گونج رہی تھی۔۔۔۔۔۔
"یہ واقعی بہت سنگدل ہے۔۔۔۔میں کب سے اسے سمجھاتا رہا ہوں مجال ہے جو اسنے ایک بھی بات کا رسپانس دیاہو ۔۔۔"
وہ جو کبھی کسی چیز سے نہیں ڈرتا تھا۔۔۔۔آج وہ ڈر گیا تھا۔۔۔وہ جو ہر چیز کا سلیوشن نکال لیتا تھا۔۔۔آج حرا کو روکنے کا کوئ سلیوشن نہیں نکال پایا تھا۔۔۔وہ کبھی ہارا نہیں تھا۔۔۔۔کیسے بھی کر کے حرا سے بات منوالیا کرتا تھا۔۔۔۔وہ آج ہار گیا تھا۔۔۔اور وہ اپنے آنکھوں سے آنے والے آنسوؤں کو بے دردی سے صاف کرتا ہوا چل دیا تھا ۔۔۔۔۔مگر ایک فیصلہ کر کے۔۔۔۔۔۔وہ غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔۔۔اور غصے میں کئے گۓ فیصلے ہمیشہ اذیت کا سبب بنتے ہیں۔۔۔۔۔
وہ فیصلہ اسنے جی آئ ایجینسی کے خلاف لیاتھا۔۔۔اور اسکا یہ فیصلہ حرا کو کیا نقصان پہنچانے والا تھا۔۔۔وہ نہیں جانتا تھا۔۔۔
چائنہ کے مشہور شہر شنگہائ میں ایک فائیو سٹار ہوٹل کی چھت پہ ایک لڑکا آسمان پہ نظریں ٹکاۓ کھڑاتھا۔۔۔گویا وہ کچھ تلاش کرنا چاہ رہا ہو۔۔۔۔۔۔اور کسی گہری سوچ میں گم ہو۔۔۔۔
وہ وائٹ جینز ،اور وائٹ شرٹ،جسکے اوپر کے دو ادھ کھلے بٹن سے اسکے گلے میں موجود چین دکھ رہی تھی،شرٹ کے اوپر وائٹ کوٹ پہنے،ساتھ وائٹ شوز،۔۔۔۔۔اس سفیدی میں وہ کسی سنگ مرمر کی مورتی دکھتا تھا۔۔۔۔۔وہ ہلکے گرے کلر کے بالوں(جن میں وائٹ شیڈیڈ شو ہوتی تھی)میں کافی مختلف دکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
اسکا کلر اسکے کپڑوں سے بھئ زیادہ فئیر تھا۔۔۔۔۔
اسکی پرسنالٹی ایک دم کسی ہیرو ٹائپ کی تھی۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ ہیرو بہت اداس لگ رہا تھا۔۔۔۔
"میں ہوں ابراہیم یمرانی،۔۔۔۔ہاشم یمرانی کا بیٹا،اور کرس وؤ یمرانی کا بھائ۔۔۔۔۔۔میری کوئ پہچان نئ ہے نہ میرے پاس کوئ ثبوت ہے کہ میں ہاشم یمرانی کا بیٹا ہوں۔۔۔۔زندگی میں کچھ رشتےایسے ہوتے ہیں جن کا کوئ ثبوت نئ ہوتا۔۔۔اور کچھ ایسے رشتے ہوتے ہیں جن کا اگر ثبوت ہو بھی تو وہ رد کردئے جاتے ہیں۔۔۔۔بچپن میں میرا باپ مجھے جانتا تھا۔۔۔۔۔مگر پھر بھی وہ مجھے چھوڑ گیا تھا۔۔۔اورجو مجھے تب نہ اپنا سکا وہ آج مجھے کیا اپناے گا۔۔۔۔چلو اچھا ہے ۔۔۔۔۔۔پھر بھی بابا مجھے آپ سے بے انتہا پیار ہے ۔۔۔میں آپکو روزانہ اخبار میں دیکھتاہوں،۔۔۔۔۔اور کرس وؤ سے تو بات ہو ہی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"اسنے یہ کہتے ہوۓ ہاتھ میں موجود وائن کا گلاس لبوں سے لگا لیا ایک وقت تھا جب وہ شراب سے نفرت کرتا تھا مگر اب وہ بھی اسکا عادی ہو چکا تھا۔۔۔۔۔
وائن سے اسے کوئ یاد آگیا تھا۔۔۔۔۔
"آج کتانا زیادہ کام کیا ہے میں نے کہ میں تھک گیا ہوں۔۔۔۔چلو کوئ نئ اس ویک اینڈ پہ کچھ اچھا سا پلان بناتا ہوں۔۔۔" وہ اپنے خیالوں میں مگن چل رہا تھا کہ اسے ایک شخص دور سے آتا دکھائ دیا جو کہ لڑکھڑاتے ہوۓ آرہاتھا۔۔۔۔
ابراہیم اسکی طرف بڑھا ۔۔۔ابھی وہ اس تک پہنچ نئ سکا تھا کہ دور سے آتا شخص گر چکا تھا۔۔۔
ابراہیم نے فوراً آگے بڑہ کر اسے اٹھایا۔۔۔پتہ نئ کیوں اسے اس گرے ہوۓ شخص پہ بہت رحم آیا۔۔۔۔۔
وہ اسے اٹھا ہی رہا تھا کے سامنے سے آتی گاڑی کی رفتار دیکھ کر وہ ڈر گیا۔۔۔۔اور جلدی جلدی اس شخص کو اٹھا نے لگا ۔۔۔اور قریب ہی موجود اپنے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔۔۔۔
گھر آکر جب اسکی حالت دیکھی تو اسے بہت عجیب سا محسوس ہوا ۔۔۔وہ شخص نشے میں دھت تھا۔۔۔۔اور دکھنے میں اس ہی کے ہم عمر تھا۔۔۔۔وہ یہ سوچ کر اسے گھر لے آیا تھا کہ کہیں پولیس اسے دیکھ نہ لے اس حال میں۔۔۔
وہ اسے گھر کیوں لے آیا تھا یہ وہ نئ جانتا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ کافی دیر اسکے چہرے پہ دیکھتا رہا۔۔۔۔وہ چائینیز تھا مگر جیسے ہی اسنے اپنے لبوں کو حرکت دی اور جو الفاظ اسنے ادا کئے وہ سن کر ابرہیم حیرت زدہ رہ گیا ۔۔۔۔
ماما میں آپکو کبھی معاف نئ کروں گا کبھی نئ۔۔۔۔۔
جاری ہے
ESTÁS LEYENDO
Aakhri shola by Inahseya ABDULLAH season1
Romanceآخری شعلہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ بدلے کی آگ میں انسان خود کو بھی جلا ڈالتا ہے اور نفرت کرنے سے خود کے سوا کسی کو اذیت نہیں ہوتی۔