پانچ برس بعد

96 51 0
                                    

"ہادی بیٹا حرا نظر نہیں آرہی وہ کدھر ہے؟" شمیم نےبڑے فکرمندانہ انداز میں اس سے کہا۔۔
ہادی کوئ بھی جواب دئے بغیر وہاں سے چلا گیا، اسکی ماں نے بھی روکنے کی کوشش نہیں کی، کچھ ہی دیر میں حرا بھی آچکی تھی ،اور وہ کسی سے بات کئے بغیر سیدھا ہادی کے پاس گئ تھی۔۔
اسنے ہادی کے دروازے پہ ناک کیا،۔۔ایک بار ۔۔۔دو بار۔۔۔تیسری بار پہ بھی کوئ جواب نہ پا کر وہ دروازہ کھول کہ اندر چلی گئ۔۔،
ہادی صوفہ کم بیڈ پہ آرا ترچھا لیٹا ہوا تھا، شوز اتارنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی،۔۔
ہادی ! وہ اسکو مخاطب کرتے ہوۓ اسکے پاس بیٹھی،
"پھر کیا سوچا ہے تم نے ڈایئوورس کے بارےمیں؟" یہ سوال وہ بہت ہی مشکل سے کر پائ تھی،اسکی آنکھیں بسس گود میں رکھے اپنے ہاتھوں پہ تھیں۔
"حرا۔۔۔میں جب ۔۔۔۔مر جاؤں گا نہ ۔۔۔۔اس دن ،۔۔تم ۔۔۔۔۔آزاد ۔۔۔۔ہو جاؤ گی ۔۔۔اس سے پہلے کا خیال ۔۔۔۔دل سے نکال دو۔۔۔۔۔۔۔"
اس کے الفاظ کانچ کی کرچیوں کی طرح بکھرے ہوے محسوس ہورہے تھے  ۔
حرا تم مجھے کوئ تو وجہ بتا دو چھوڑنے کی ،۔۔۔کوئ ایک وجہ ۔۔۔آی پرامس میں وہ کام پھر کبھی نہیں کروں گا۔۔۔پلیز ۔۔
وہ اسکے آگے ہاتھ جوڑتے ہوۓ بولا۔۔۔۔اسکے لہجے میں کپکپی سی طاری تھی۔۔۔
تمہیں پتہ ہے ہادی جب کسی بھی چیز کی کوئ وجہ نظر نہ آتی ہو بعد میں وہی بہت بڑی وجہ بن جاتی ہے۔۔۔۔، وجہ بننے میں دیر نہیں لگتی ۔۔۔۔یہاں تک کہ بے وجہ چیزوں میں بھی ہم وجہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔۔۔۔۔ وجہ۔۔۔۔وجہ کوئ نہیں ہے چھوڑنے کی ، کہتے ہو تو میں وجہ بنانے میں دیر نہیں کروں گی۔۔۔، اسنے دل پہ پتھر رکھ کہ دو ٹوک الفاظ میں بات کی۔۔۔۔
"میں کل ہاشم کے ساتھ چائینہ جارہی ہوں ،(ہادی کے سر پہ گویا بمب پھٹ گیا ہو) جب کل چلی جاؤں گی ، تب وجہ بن جاۓ گی کہ ایک شادی شدہ لڑکی گھر چھوڑ کر فرار اور۔۔۔۔
ابھی وہ اور بھی کچھ کہنے جارہی تھی کہ کہ ہادی نے اسے ایک تھپڑ لگایا ،
"بس چپ اب ایک لفظ اور نئ ورنہ۔۔۔"اسکا پارہ آسمان کو چھو رہا تھا۔۔۔تھپڑ سے اسکا گال ایک دم لال ہو گیا تھا۔۔
اسنے تھپڑ کو اگنور کر دیا ،آنسوؤں کو حلق میں روک لیا،
"ہادی مجھے کل جانا ہے اور ہر حال میں جانا ہے، چاہے تم روکو یا نہ۔۔۔۔مجھے ہائر کیا گیا ہے ہاشم کی انویسٹی گیشن کیلئے ،۔۔۔۔۔۔سو مجھے اپنی جاب کو مدّ نظر رکھ کہ جانا ہی ہو گا،۔۔۔ہاشم کوئ عام سا انسان نہیں ہے بلکہ یہ ایک سائنسدان ہے،وہ اپنی ایک خاص شناخت رکھتا ہے۔اور یہ ہمارےلئے بہت اہمیت رکھتا ہے ، اور تو اور "جی۔آئ۔" والوں نے اسکی پل پل کی خبر مانگی ہے ،مجھسے ۔۔وہ منہ پہ سختی لاتے ہوۓ بولتی گئ۔۔۔
"تم۔۔ یہ جاب ہی چھوڑ دو ،۔۔۔۔۔سارا کھیل ختم ہو جاےگا " ۔۔۔۔اب ہادی اسکی منت کر رہا تھا۔
؍؍؍۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؍؍؍
ہاشم ایک خوش کن منظر سے واپس آگیا تھا۔۔۔۔۔وہ منظر ادھوراتھا اسنے قسمت سے لڑ کر اس منظر کو پورا کرنے کا سوچا تھا مگر آج پھر سے وہ منظر چکنا چور ہو گیا تھا۔۔۔۔وہ سامنے اونچے اونچے پہاڑوں کو دیکھ رہا تھا۔۔یہ پہاڑ کتنے بلند ہوتے ہیں،یہ اپنی بلندی کی وجہ سے مغرور سے لگتے ہیں انکو مزید نکھارنے کیلئے کاٹ کر تراش کر اور بھی خوبصورت بنایا جاتا ہے۔دکھنے میں ہر پہاڑ ایک جیسے ہیں مگر تراشنے کے بعدوہ مختلف صورت اختیار کر جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔،
میں بھی ان پہاڑوں کی طرح بلند ہوں ۔۔مجھے بھی اپنے آپ کو مزید نکھارنے کیلئے خود کو کاٹنا اور تراشنا پڑے گا پھر میں بھی اپنی ایک الگ پہچان بناؤں گا۔۔۔۔ہاشم یہ سوچتے ہوۓ گاڑی آگے بڑھا چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؍؍؍
شمیم نے اپنی ماں سے اجازت لی اور زمان کے ساتھ حوریہ کے گھر گئ ۔۔۔،وہاں جا کہ پتہ چلا کہ حوریہ کی ماں (الفت بیگم) اپنی بیٹی اور داماد کی بیک وقت موت سے اپنے حواس کھو بیٹھنے کی وجہ سے مینٹیل ہاسپٹل میں ایڈمیٹ کروا دی گئ تھیں،۔۔اور حریم۔۔۔اسکا اس قدر براحال تھا ،،اسکے کپڑے منہ اسقدر گندے ہو رہے تھے کہ واضح نظر آتا تھا کہ یہ کوئ یتیم بچی ہے۔۔۔۔
"یہ ہے ہی منحوس یہ میرے بیٹے کی زندگی میں کیا آئ اسکی جان ہی لےلی"۔۔
اسکی دادی کوئ لاکھ بار کوس چکی تھیں حریم کو۔۔۔۔
"زبیدہ آنٹی اگر آپکی اجازت ہو تو میں اسے لینے آئ ہوں۔۔"
شمیم نے پورے ماحول پہ ایک نظر ڈال کر فیصلہ کیا ۔
"لے جاؤ بھئ لے جاؤ ویسے بھی دو دن سے اسنے ہمارا جینا مشکل کیا ہوا ہے"۔ایک تو اس بیچاری کے ماں باپ چلے گۓ اس دنیا سے اوپر سے زبیدہ تو اس بچی کو باتوں سے ہی مار دیتی،افف ۔۔۔۔،اتنے سنگدل لوگ بھی دنیا میں ہوتے ہیں۔۔وہ سوچ کر رہ گئ۔۔
"اور ہاں اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اپنی دوست کی کچھ چیزیں لے سکتی ہوں؟"
شمیم نے تھوڑا ڈرتے ہوۓ سوال کیا۔۔
"اس کلموہی کی چیزیں تو میں پھنکوانے والی ہوں جو میرے بیٹے کو کھا گئ،جو میرے گھر کو اجاڑ گئ،۔۔۔۔۔۔۔تمہیں جو چاہئے لے جاؤ۔"
وہ حوریہ کو اچھا خاصا بول رہی تھیں۔
"زمان یہ ان دونو ں رومز میں جتنا سامان ہے،ایک سوئ بھی اگر ہے تو اسے ابرو ہاؤس میں منتقل کرو ود فرنیچر کے۔"
وہ زمان کو کہ کر حریم کی تیاری کرنے لگی۔۔۔وہ سوچ رہی تھی۔
(کسی کے جانے سے زندگی رک نہیں جاتی،بلکہ ہر روز مر کر زندگی کے دن پورے کرنے پرتے ہیں۔۔۔۔۔،جانے والا پھر چاہے زندگی سے چلا جاۓ یا دنیا سے۔۔۔فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔مگر ایسا کیوں ہے دنیا سے جانے ولا خوابوں میں آجاتا ہے،اور زندگی سے جانے والا اسقدر ناراض ہوتا ہے کہ خوابوں میں بھی نہیں آتا۔۔۔)
؍؍؍۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؍؍؍
"ہادی اسے میں نے خود شروع کیا تھا ۔، اب ختم بھی میں ہی کروں گی۔۔۔۔اور ویسے بھی میری جاب کہ کچھ اصول ہیں ۔۔جسے چھوڑنا اتنا آسان نہیں ہے،۔۔یا کم از کم میرے لیے نہیں ہے۔۔۔۔۔"
"مگر میں تم سے پرامس کرتی ہوں جس دن ہاشم کا کھیل ختم اس ہی دن میں اپنی جاب کو ہمیشہ کیلئے باۓ کہ دوں گی۔۔۔" اسنے اپنے ہاتھ کو ہادی کے ہاتھ سے ملایا پرامس کرنے کیلئے۔۔۔۔
"پکا والا پرامس نہ۔۔۔"۔۔ہادی کو تسلی نہیں ہو رہی تھی۔۔
ہاں بھئ پکا والا۔۔۔۔۔اےےے اتنا پکا والا۔۔اسنے یہ کہتے ہوۓ ہادی کا ہاتھ زور سے دبا یا۔۔۔۔اب دونوں مسکرانے لگے تھے ، انکی مسکراہٹ صرف دو پل کی تھی۔۔
"حرا! مجھے چھوڑنے کی وجہ بتادو بس۔۔۔؟ وہ ایک دم جیسے بہت ڈر گیا ہو، اسکی سہمی سہمی سی آواز پہ حرا نے نظریں جھکا لیں۔۔۔
"کچھ نہیں بس ایسے ہی۔۔۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ تم میری جاب سے پریشان ہو گے میں بار بار موڈ نئ کسی کا ٹھیک کر سکتی ۔،سوچا ایک ہی دفعہ میں تمہارا موڈ خراب کردوں۔۔۔چلو اس بات کو چھوڑو ۔۔۔سمجھو میں نے ایسا تم سے کچھ کہا ہی نہیں ہے۔۔"وہ بڑے لاپروا سے انداز میں بولی۔۔۔۔۔
"نئ ۔۔۔۔مجھے بتاؤ۔۔۔۔تم کسی اور کی وجہ سے؟ یا۔۔۔۔۔؟ ہادی کا ادھورا جملہ اسے خوفزدہ کرتا تھا۔۔۔
"ایسا کچھ نہیں ہے بابا۔۔دیکھو ہادی تم تھک گۓ ہو سو جاؤ۔۔۔۔اس بارے میں بعد میں بات ہوگی۔۔۔۔وہ اسکے شوز اتارتے ہوۓ بولی۔
"چلو اٹھ کہ چینج کرو اور سو جاؤ"۔۔۔۔وہ اسکو ہدایات دیتے ہوۓ اسکی بکھری ہوئ چیزیں صحیح کرنے لگی۔
(میں گارنٹی سے کہتا ہوں اس الّو نے کچھ نہیں کھایا ہوگا)۔۔اسنے اسے دیکھتے ہوۓ سوچا۔۔
"حرا ! پلیز کچھ کھانے کو لادو بہت بھوک لگی ہے ۔۔۔"
اسنے بچوں کی طرح فرمائش کی۔۔۔
"ٹھیک ہے میں لاتی ہوں۔۔۔۔اور جب میں آؤں تو تم مجھے ادھر نظر نہ آؤ۔۔۔چینج کرو چل کے"وہ رعب جھاڑتی ہوئ کچن کی جانب بڑھ گئ۔۔
(یا اللہ تیرا لاکھ شکر ہے اسنے ضد نہیں کی کہ میں اسے کیوں چھوڑ نا چاہ رہی ہوں۔۔۔ اس سوال کا جواب بڑا عجیب ہے۔۔۔) وہ نگٹس فرائ کرتے ہوۓ سوچ رہی تھی۔۔۔۔۔
ہادی نے اپنے کوٹ کے اندر کی جیب سے وہ تصویر نکالی جو اسے ہاشم کی ایک پرانی فائل سے ملی تھی، وہ واش روم جانے کے بجاۓ اس تصویر کو بس دیکھے جا رہا تھا، یہ تصویر ہاشم کے پاس کیسے ؟ اور کیوں ہے؟ ، اور تو اوریہ تصویر حرا کی ہے وہ بھی تب کی جب وہ صرف آٹھ سال کی تھی،اس تصویر کے پیچھےلکھے سن سے اسنے حرا کی ڈیٹ آف برتھ سے اندازہ لگایا، ہاشم حرا کو کیا پہلے سے جانتا ہے؟ اگر جانتا ہے تو کیسے ؟ وہ پریشانی سے اپنی پیشانی مسلتا ہوا تصویر کو واپس کوٹ میں رکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔
حراجیسے ہی کھانا لئے واپس آئ تو ہادی کو جیسا چھوڑ کر گئ تھی وہ ویسی ہی حالت میں پا کر اسے غصہ آگیا،
"ہادی میں تمہیں کیا بول کے گئ تھی؟ ہاں ۔۔تم نا بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہو۔ وہ ٹرے بیڈ پہ رکھتے ہوۓ غصے میں بول رہی تھی۔۔۔
"حرا ۔۔اس ہاسپٹل آنے سے پہلے کیا تم ہاشم کو جانتی تھی؟"
ہادی نے اسکی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوۓ پوچھا۔
"نہیں تو ۔۔۔ کیوں۔۔۔کیا ہوا؟"
وہ گلاس میں پانی ڈالتے ہوۓ بولی۔
"مگر میں جتنی بار ہاشم کے پاس جاؤں ۔۔ہادی ۔ایسا لگتا ہے کہ میں اسے جانتی ہوں، اور کبھی کبھار ہاشم ایسی باتیں کرتا ہے جیسے یہ مجھے مجھ سے بھی زیادہ جانتا ہو۔۔
وہ بولتی جا رہی تھی،اسنے نہ چاہتے ہوۓ بھی وہ بات ہادی سے کہ دی جسے سن کر ہادی کے چہرے کا رنگ یکدم بدل گیا۔وہ ایک شاک کیسی کیفیت میں بس اسے دیکھتا رہ گیا۔۔۔۔
؍؍؍۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؍؍؍
ابرو ہاؤس میں ایک کمرے میں حوریہ کا سامان رکھ دیا گیا تھا،اور اس کمرے کو تالا لگا دیا گیا تھا۔۔۔، اس کمرے کی چابی زمان کے حوالے کردی گئ تھی تاکہ وہ کمرے کی صفائ کر کے کمرے کو بند کردیا کرے۔۔۔۔۔۔
شمیم کی ماں نے حریم کو اپنے ذمے لے لیا،اس طرح سے حریم اس گھر کا ایک فرد بن گئ۔۔۔۔، سنی خان اپنی ماں کی وجہ سے خاموش تھا ورنہ اسے حریم کا اس گھر میں آنا ایک آنکھ نہ بھایا۔۔اسکی سوچ تھی کی ہم کیوں ایک یتیم کی مفت میں پرورش کریں کل کو ہمارا سب کچھ نہ ہڑپ لے۔۔۔۔، سنی خان بھول گیا تھا کہ وہ خود بھی یہاں مفت کی روٹیاں توڑ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؍؍؍چار سال بعد ؍؍؍
ابرو ہاؤس میں کچھ خاص تبدیلی نہیں آئ تھی۔۔۔
حریم اور ابرو ۔۔۔ان چار سالوں میں معصوم بچوں سے بہت ہی شرارتی بچے بن گۓ تھے دونوں ون کلاس میں تھے۔۔۔ابرو بسس حریم کو ہر وقت مارنے پہ تلا ہو تاتھا۔۔۔۔ ابرہیم کو اپنے آپ کو ابرو کہلانا بہت پسند تھا۔۔۔،
"میرے بابا آئیں گے نا تب میں سب سے پہلے انکو تمہاری بہت ساری شکائتیں لگاؤں گا تمہیں ڈانٹ بھی پرواؤں گا جیسے تم مجھے ٹیچر سےپڑواتی ہو " ابرو لنچ ٹائم میں اسے سنا رہا تھا ۔۔۔۔
بس ایک سال رہ گیا ۔۔۔۔۔۔بس ایک سال ۔۔۔۔۔۔
اسی طرح وقت آگے آگے بھاگتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ایک سال پل جھپکتے میں گزر گیا۔۔؍؍؍
۲۹جولائ بہت بھاری دن تھا اس سال پہ، اور ابرو ہاؤس والوں پہ۔۔۔۔آج کے دن ہاشم اپنے بیٹے سے ملنے کیلئے پانچ برس بعد لوٹ رہا تھا۔۔۔یہ جانے بغیر کہ ابرو ہاؤس پہ ایک قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔۔۔۔۔
ابرو ہاؤس کا نظارہ اس دن کچھ ایسا تھا۔۔۔
صبح کی روشنی ایسی تھی جیسے وہ ویران ہو گئ ہو اس سے اسکی روشنی کی خوبصورتی چھین لی گئ ہو ۔۔۔
ابرو ہاؤس کا ادھ کھلا دروزاہ چیخ چیخ کہ اپنی ویرانیت کا واویلا کر رہا تھا۔۔۔ اس ویران گھر میں اب کوئ ذی روح نہ تھی۔۔ ۔۔۔۔سواۓ زمان خان کہ جو کہ اس ویران گھر کے تہ خانےمیں بند موت سے لڑ رہا تھا،
(کاش میں ایک بار بڑے صاب (ہاشم)سے مل پاتا بس ایک بار۔۔، انکو بتا سکتا کہ شمیم بی بی پہ کتنے پہاڑ ٹوٹے ان کے جانے کے بعد۔۔ اور انکی موت کتنی بے دردے سے ہوئ۔) زمان خان کی آنکھوں سے آنسوں کا دریا بہ پڑا۔۔۔وہ چیخ رہا تھا۔۔۔اسکی پکار کوئ سننے والا نہیں تھا۔۔۔۔(پتہ نہیں ابراہیم اور حریم کہا ہوں گے ۔۔۔۔یا اللہ میرے بچوں کی حفاظت فرمانا ۔۔۔۔۔۔)زمان خان نے بند دروازہ دیکھتے ہوۓ سوچا۔۔۔"میں یہاں گل سڑ کہ مر جاؤں گا کبھی کسی کہ وہم و گمان میں بھی نہ آۓ گا کہ اس گھر میں موجود تہ خانہ میں کوئ مر رہا ہےآج بڑے صاب کتنا کھوش ہو کہ آۓ گا ،اپنے بیٹے کو ملنے ،مگر اسے کیا پتہ اس کا بیٹا کدھر ہے،زندہ بھی ہےیا مرگیا ۔۔۔۔۔۔۔یااللہ مجھے بس اتنی سی زندگی دے کہ میں بڑے صاب سے ایک بار مل لوں۔۔۔۔بس ایک بار ۔۔۔۔"
وہ اپنے رب کے آگے گڑگڑا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پھوٹ پھوٹ کہ رو دیا۔۔۔۔
؍؍؍۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔؍؍؍
اسلام علیکم !
مجھے کچھ نے کہا ہے کہ ہمیں بھول جاتا ہے کہ past کون سا ہے۔۔ میں نے past کو لائینز کے بغیر لکھ دیا ہے ۔۔۔۔

Aakhri shola by Inahseya ABDULLAH season1Tahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon