Episode..1............part ......4.................
"۔۔۔میں ۔۔۔میں ۔۔۔ایسا کیسے کرسکتا ہوں؟ تمہارا گردہ ڈلوا لوں ۔۔۔۔۔؟ ایسا نہیں ہو سکتا۔۔"
اسنے بہت تڑپتے انداز میں حوریہ کو دیکھتے ہوۓکہا۔۔
"ٹھیک ہے پھر آئیندہ کے بعد مجھ سے سارے رشتے ختم آپ کے" اسنے اٹھتے ہوے بولا ۔۔
احسن اپنی میڈیسن ساتھ نہیں لایا تھا۔۔۔کیونکہ اسنے سوچا تھا کہ حوریہ کو چھوڑ کر واپس آجاؤں گا۔ مگر اب حوریہ کو چھوڑ کر جانا مشکل تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ایک ہفتے کے بعد۔۔۔۔۔۔
"احسن آپ نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے اگر ہم دونوں میں سے کوئ ایک نہ رہے تو ہماری بیٹی کا کون ہوگا سہارا۔۔۔ اور میں نے اللہ سے دعا کی ہے اگر جان لینی ہے تو ہماری دونوں کی لیں ۔۔ایک کی نئ۔۔"اسنے احسن کو میڈیسن پکڑاتے ہوۓکہا۔
"او۔۔۔ہ۔۔ہ ۔۔۔۔ و۔۔۔ا۔۔۔ؤ۔۔ اگر ہم دونوں نہ رہے تو ہماری بیٹی کا تب کیا ہوگا۔۔۔چلو چھوڑو ہم پاگلوں کی طرح فضول باتیں لے کر رہ گۓ ہیں۔۔اب سارا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔" ۔۔
"اچھا اب دیرنہ کرو جلدی کرو آپریشن کا وقت ہو رہا ہے۔۔"احسن حریم کو پیار کرتے ہوۓبولا ۔
"میں بس دس منٹ میں آئ اپنی دوست سے تو مل آؤں ساتھ اسے بتا بھی آؤں۔۔" حوریہ یہ کہ کر اپنا کوٹ پہن نے لگی ۔
کمرے میں زیادہ سردی محسوس نہیں ہوتی تھی مگر باہر نکل کر دانت سے دانت بجنے لگتے تھے۔۔
"تمہاری وہ دوست نہ جسکا شوہر باہر جا کر اسے بھول چکا ہے؟"
احسن نے کچھ یاد کرتے ہوۓ بولا۔
"ہاں وہی ۔۔۔اور تو اور اسنے اسے طلاق بھی دےدی ہے اور باہر دوسری شادی بھی کرلی ہے ۔بیچاری ۔۔مجھے اس پر بہت دکھ ہوتا ہے ۔۔۔۔اتنی پیاری ہے ، جوان ہے،ایک چھوٹا سا بیٹا ہےاور دیکھو کیا کھیل کھیلا ہے اسکے ساتھ مقدر نے۔۔۔"
مقدر تمہارے ساتھ کیا کھیل کھیلنے والا ہے حوریہ ۔۔۔۔۔وقت اسے بڑی بیچارگی سے دیکھ رہا تھا۔
اسنے جیسے ہی ڈور بیل پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔ساتھ ہی خودبخود دروازہ کھل گیا ۔۔۔
۔اااوووو۔۔۔ہ ۔۔ خدایا۔۔۔۔ حوریہ تم۔۔۔۔۔؟؟دروازہ کھولنے والی نے کہا ۔۔
وہ ایک بڑی سی چادر جو کہ جگہ جگہ سے پھٹی تھی۔۔وہ لیۓ ہوۓ۔پاؤں میں سردی کے باوجود گھساپٹا سا جوتا۔۔آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے ۔۔۔حوریہ نے جب سارا اسکاجائزہ لیا تو اسکی طرف متوجہ ہوئ۔۔
ہاں!میں کیوں ۔۔۔؟۔۔۔میں نہیں آسکتی۔۔۔وہ حریم کو پیار کرتے ہوۓ اندر کی طرف بڑھی۔۔
مجھے یقین نہیں آرہا تم میرے سامنے ہو حوریہ۔۔۔اسنے ہکےبکے سے انداز میں کہا۔
لو پہلی بار تھوڑا آئ ہوں۔۔؟ حوریہ ایک سائڈ پہ رکھی کرسی پہ بیٹھتے ہوۓ بولی۔۔
وہ حیرت بس اسلیۓ ہو رہی ہے کہ تمہیں میں آج بہت یاد کر رہی تھی۔اسنے اپنےیبٹے کو ہاتھ سے پکڑ کر حوریہ کی طرف چلاتےہوۓ کہا۔
ماشآاللہ پیارے ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا بھی ہو گیا ہے۔حوریہ اسے پیار کرتے ہوۓ بولی۔
۔۔۔۔۔۔۔کچھ حال احوال کے بعد ۔۔۔۔۔
آج احسن کے آپریشن کے ساتھ ساتھ میرا بھی آپریشن ہے ۔ وہ بڑے فخر سے اسے ساری بات بتا رہی تھی۔
مگر۔۔۔احسن مانا کیسے؟
...@@@...
"یہ کھانا؟؟؟ "شمیم نے سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔
"ماما آپ نے خود بتایا کہ حرا نے کچھ کھایا نہیں ہے۔بس اسی کو یہ کھلانے جارہا ہوں "۔وہ بڑے معصومانہ انداز میں بول رہا تھا ۔اسنے خود کو ماما سے بچانے کیلیۓدل ہی دل میں اللہ کو پکارنا شروع کیا۔
"مگر وہ تو سوئ ہوی ہے اسے اٹھانا بھی۔۔"ابھی بات پوری نہیں ہوی تھی کہ ہادی بول پڑا۔
"ماما آپ کو کس نے کہا کہ میں اسے اٹھانے جا رہا ہوں،یاد ہے میں پہلے بھی اسےسوۓسوۓ میں کھانا کھلادیتا تھا ۔تو بس ایسے ہی کھلانے جارہا ہوں"۔اس نے بڑا پیار جتاتے ہوۓ کہا۔
وہ جیسے ہی حرا کے کمرے میں گیا ۔حرا کو بیڈ پہ نا پا کراس نے بیڈکے اطراف میں نگاہ دوڑائ۔
وہ ایک کونے میں ،زمین پر بیٹھی ملی۔ اسنے کھانے کی ٹرے ایک سائڈ پہ رکھی۔۔
وہ آہستہ آہستہ اس کے پاس گیا ۔"حرا تم نیچے کیوں بیٹھی ہو؟"۔اسنے اس کو بازو سے پکڑ کر پوچھا اورآرام سے اس کو نیچے سے اٹھانے لگا۔اسکی آنکھیں لال ہو رہی تھیں آنسو گال پہ بہ رہے تھے اسی اثنا میں اسکی نظر اسکے کان میں لگی ہینڈفری پہ گئ۔" میں بھی تو سنو ں کیا سنا جارہا ہے"اسنے ایک ہینڈفری اپنے کان میں ڈالتے ہوۓ کہا ۔وہ ماحول کی ٹھنڈک ،ماحول کی گھٹن کو نظر انداز کررہا تھا۔جیسے ہی اسنے اپنے کان میں ہینڈفری لگائ۔۔۔۔
۔بے خیالی میں بھی تیرا ہی خیال آۓ۔
۔کیوں بچھڑنا ہے ضروری یہ سوال آۓ۔
۔تھوڑا سا میں خفا ۔ہوگیا اپنے آپ سے۔
۔تھوڑا سا تجھ پہ بھی ۔بے وجہ ہی ملال آۓ۔
"یہ۔۔۔یہ۔کیا سن رہی ہو ۔؟بھئ جب میں مرجاؤں گا نہ تب یہ سننا" اسنے اسکے کان سے دوسری ہینڈفری بھی اتاردی اور تھوڑا سا شوخا ہوگیا۔
"اچھا یہ میں کھانا لایا ہوں یہ کھالو تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا۔" وہ اسکے موڈ کو بالکل نظر انداز کرتے ہوۓ اسکے منہ میں نوالہ ڈالنے لگا ۔
"ہادی!مجھے کچھ نہیں کھانا یہاں سے جاؤ "،وہ اسکا ہاتھ پیچھے کرتے ہوۓ غرائ۔
"حرا! اتنا غصہ کیوں کر رہی ہو ؟۔۔۔ہوا کیا ہے ۔ بتاؤ تو صحیح مجھے پتہ ہے تم کبھی اتنی چھوٹی سی بات پر نہیں روتی پھر آج کیوں؟ "اچھا چھوڑو یہ غصہ وغیرہ کھانا کھاؤ"۔وہ یہ کہتے ہوۓ پھر سے اسکی طرف کھانا بڑھانے لگا۔ "ہادی جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔۔ےےےےےوہ اسکو بازو سے پکڑ کر دروازے کی طرف لے گئ۔اور کمرے سے باہر نکال کر دروازہ بند کردیا۔اور خود دروازہ بند کر کے وہاں زمین پر بچھے کارپیٹ پہ ہی بیٹھ گئ۔
اور ہادی گیا نہیں تھا وہ بہت پریشان ہو گیا تھا۔وہ بھی دروازے کے باہر ہی بیٹھ گیا۔
اور حرا نے زور زور سے رونا شروع کردیا۔
"دیکھو تمہیں جومسئلہ ہے وہ بتاؤ ۔ایسے مجھے کیسے سمجھ آۓ گا کہ تمہیں کیا ہوا ہے؟مجھے پتہ ہوتا تم دوائ کے ساتھ سوئ ہو میں تمہیں نا اٹھاتا۔" اسنے دکھ برے لہجے میں کہا۔
"انسان ہمیشہ اسکی طلب کیوں کرتا ہے جو اسکے پاس نہیں ہوتا اور جو پاس ہوتا ہے اس پہ شکر نہیں کرتا" وہ روتے روتے بولی۔ "کیا چاہیۓ بتاؤ میں وہ لے آؤں گا"۔ ہادی نے شکر کیا کچھ تو بولی ہے۔"مجھے وہ مل کر بھی نہیں مل سکتا۔تم مجھے آزاد کردو۔۔مجھے بس یہ چاہیۓ ۔مجھے کوئ بدلہ نہیں لینا میں تھک گئ ہوں"
اسنے ہچکیاں لیتے ہوۓ کہا۔
ہادی کے پاؤں سے گویا زمین ہی نکل گئ ہو۔وہ خاموش ہوگیا
۔۔۔۔بالکل خاموش۔۔اور اس خاموشی کے ساتھ اسکا درد اسکے آنسؤں سےباہر آگیا۔"واقعی کچھ چیزیں لاحاصل ہوتی ہیں حاصل کر کے بھی ہم ان کو حاصل نئ کر پاتے۔۔" اسنے اپنے آنسؤں کو صاف کرتےہوۓ سوچا۔۔۔
...@@@...
تمہیں پتہ ہے بات ساری کی ساری طلب کی ہوتی ہے۔۔جب طلب بڑھتی ہے نہ تو تڑپ بھی بڑھ جاتی ہے۔۔اور جب تڑپ بڑھتی ہے نہ تب درد حد سے زیادااہ بڑھ جاتا ہے۔۔۔اور درد تمام حدوں کو توڑتا ہوا آنسؤں سے باہر آجاتا ہے ۔۔۔۔اور انسان خودبخود سجدے میں گرجاتا ہے ۔۔جب درد سے بھرا سجدہ ہو ۔۔۔خدا نہ ملے یہ ہو نہیں سکتا۔۔
اور خدا نے مئری سن لی ۔میں چاہتی تو خدا سے پیسے مانگتی۔۔خدا سے گردہ مانگتی ۔۔۔خدا سےاحسن کی زندگی مانگتی۔۔۔مگر میں نے صرف اور صرف وہ مانگا جو مانگنا چاہئیے تھا۔اور خدا سے میں نے ہم دونوں کی موت و زندگی اکٹھی مانگی ہے۔۔حوریہ نے بڑے فخر سے بتایا۔میرا آپریٹ مشہور ڈاکٹر ہا۔۔ابھی اسکی بات پوری نہیں ہوئ تھی کہ ۔اسکی دوست بول پڑی۔
"کیا پیو گی؟ باتوں باتوں میں بھول ہی گیا ۔۔میں وہ بس بازار سے کچھ سودا لینے جارہی تھی۔۔۔وہ۔۔"
وہ ہچکچاتے ہوۓ وضاحت دے رہی تھی۔
مجھے کچھ نہیں پینا میں صرف دس منٹ کیلئے آئ ہوں تم سے ملنے۔احسن باہر گاڑی نکال چکے ہوں گے۔اچھا سنو وہ اٹھتے ہوۓبولی۔
ماما ہمارے ساتھ ہاسپٹل جا رہی ہیں ۔۔حریم ماما کے ساتھ ہو گی اور رات کو گھر آجاۓ گی ۔دو دن تک شائد ہم گھر آجائیں۔تو میری حریم کا اچھے سے دیہان رکھنا ۔۔یہ ضدی بہت ہے اسکی چھوٹی چھوٹی باتوں کے ساتھ تمہیں بہت مزہ آۓ گا۔۔یہ تنگ نہیں کرتی بڑی معصوم بچی ۔۔۔۔۔ابھی اسکی بات پوری نہیں ہوئ تھی کہ معصوم بچی نے پاس بیٹھے مظلوم بچے کے بالوں کو زور سے پکڑ لیا اور وہ چیخنے لگ گیا ۔اتنے میں حوریہ کی بات ادھوری رہ گئ۔۔
ماشآاللہ بڑی شریف و معصوم بچی ہے ۔۔اسنے اپنے بیٹے کو اس سے چھڑاتے ہوۓ کہا۔قہقہ لگا کر دونوں ہنس پڑیں۔ہا۔۔۔ۓ۔ ۔۔۔میرے بچے کا ستیاناس مار دیا۔
باہر ہارن پہ ہارن بج رہا تھا ۔۔
اچھا تم جاؤ خیروعافیت سے ۔تمہاری شریف و معصوم بچی کا اچھے سے خیال رکھوں گی انشآاللہ۔ وہ حریم حوریہ کو پکڑاتے ہوۓبولی۔
خدا حافظ دعاؤں کے ساتھ ساتھ خوابوں،خیالوں میں بھی یاد رکھنا ۔حوریہ یہ کہتے ہوۓ اسکے گلے ملی ۔۔۔وو ایک دوسرے کے گلے لگیں اور سلام کر کے حوریہ باہر چلی گئ۔
جیسے ہی وہ کار کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھی ماما کی ڈانٹ تیار تھی ۔"حد ہوتی ہے حوریہ "ماما کا پارہ ہائ تھا بہت زیادہ۔"ماما بہت لیٹ ہو چکے ہیں" احسن نے بھی حصہ ڈالا ۔
"کیا ہوگیا ہے ۔بس پانچ منٹ ہی لگا کے آئ ہوں "وہ احسن کو ایسے دیکھ رہی تھی گویا کہ بعد میں پوچھتی ہوں ۔"بڑےمعصوم بنے ڈرائیو کر رہے ہیں میں پوچھ کر ہی توگئ تھی "۔اسنے یہ سوچتے ہوۓ احسن کو دیکھا ۔
"پوچھ کر نہیں میڈم آپ بتا کر گئ تھیں "اسنے بھی نظروں میں ہی جواب دیا تھا۔۔۔
...@@@...
"میں نے یہ کیا کہ دیا میں پاگل ہوگئ ہوں بھول جاتی ہوں کے ان کے احسان کے نیچے دبی ہوں ۔۔"["احسان وہ عذاب ہے جو ہمیں جیتے جی ماردیتا ہے ،احسان تو کسی دوست کا بھی نہیں لینا چاہیۓ،احسان انسان کو مار کیوں دیتا ہے اور ہو بھی وہ احسان جو بنا مانگے مل جاۓ۔"]وہ بہت درد سے سوچ رہی تھی۔
["واقعی ہم تب ہی کسی قابل بنتے ہیں جب دل مردہ ہو جاتا ہی تب ہی ہر خوشی کیوں ملتی ہے جب اسکی چاہ نہیں ہوتی"]کیو ۔۔و۔۔و۔ں۔۔وہ اپنے بال نوچتے ہوۓ سوچ رہی تھی۔"ہادی کیا سوچے گا "یہ سوچتے ہوۓ وہ فوراً اٹھی دروازہ کھولا۔۔
"ہادی آئم سو سوری میں پتہ نہیں کیا کیا بول گئ ۔مجھے سجھ نہیں آرہی مجھے ہو کیا رہا ہے۔ میں ایک نارمل لائف گزارنا چاہتی ہوں۔ہاسپٹل میں کرس وؤ کو جھیلنا پڑتا ہے اور تمہیں غصہ بھی آتا ہے کے وہ میرے پاس کیوں آتا ہے۔ تم ان لوگوں کو بتا کیوں نہیں دیتے کے میں تمہاری کیا لگتی ہوں ؟" اس نےہادی کو سمجھاتے ہوۓ کہا۔اور اسکے آنسو صاف کرنے لگی۔ "ت۔۔م ۔تم ۔نے یہ کیوں کہاکہ مجھے آزاد کردو "وہ کسی ہارے ہوۓ کی طرح بولا۔
بتا تو رہی ہوں کہ ہاسپٹل میں اپنے رشتے کو ظاہر کر کے اس نوٹنکی سے آزاد کرو۔وہ بالکل ہلکا سا جواز پیش کرتے ہوۓ بولی۔
"کاش تم میری لائف سے خودبخود دور ہو جاؤ ہادی میں تمہارے قابل نہیں ہوں میں جذباتوں سے عاری ہوں تمہیں خوش نہیں رکھ سکتی مجھے یہ دنیا اسکے لوگ پسند نہیں ہیں ۔"وہ اسکو دیکھتے ہوۓ آنکھوں سے باتیں کر رہی تھی ۔
میں تمہیں ہر حال میں خوش رکھوں گا۔اسنے بھی اسکا جواب نظروں میں ہی دیا۔
دونوں کو پتہ تھا وہ ایک دوسرے کو بس تسلی دے رہے ہیں۔"
دیکھو ہمیں بابانےمنع کیا ہے یہ سب بتانے سے میری نہیں مگرباباکی بات تو مان لو۔بس ایک مہینہ اور ہے۔ہمیں تین مہینے یہاں کام کرنا تھانا"۔وہ اسے کنوینس کرنے کی کو ش کر رہا تھا۔اسکے بعد جو چاہو جیسے چاہو رہ لینا۔۔
"چلو آؤ کھانا کھائیں"حرا اسے اٹھاتے ہوے بولی۔وہ مسکرا کر اسے اندر لے گئ۔۔
...@@@...
وہ جیسے ہی ہاسپٹل پہنچے آپریشن کا ٹائم ہو گیا تھا ۔ڈاکٹر سے ساری بات کلئیر ہو چکی تھی۔اب بس کچھ پیپرزپہ سائن کرنا باقی تھے۔جو کہ وہ لوگ کر رہے تھے۔
دونوں کو الگ الگ روم میں لے جانے کیلیۓسٹیچر آچکا تھا ۔
"ماما میری حریم "۔۔۔۔ حوریہ سٹیچر پر لیٹتے ہوۓبولی۔۔اسکے آنسو گلے میں اٹک سے گۓ تھے ۔وہ بہت ڈر گئ تھی اسکا بی پی اچانک لو ہوگیا تھا ۔مجھے رونا نہیں ہے "اگر میں نے ہمت کھودی تو احسن کو میں کھو دوں گی"۔
[ہمت رکھنا یا نا رکھنا یہ ایک الگ بات ہے ۔"سب کچھ کھو جاۓ گا اگر میں نے ہمت نہ رکھی "یہ کہنے والے اس وقت اپنا سب کچھ کھو چکے ہوتے ہیں ۔مگر خود کو تسلی دیتے ہیں۔]
وہ اپنے آنسؤں کو بڑی بے دردی سے صاف کرتے ہوۓ سوچ رہی تھی۔
اللہ تعالی ہمیں کامیاب کرے تمہاری اس کوشش کو اس قربانی کو قبول کرے اس کے بدلے مجھے زندگی عطا کرے ۔احسن نے اسے رخصت کرتے ہوۓکہا۔
آپریشن کے درمیان کا وقت الفت بیگم پر بہت بھاری تھا۔
وہ چکر پہ چکر کاٹ رہی تھیں۔
اب بس کچھ ہی دیر باقی تھی۔۔۔الفت بیگم دعاؤں میں اپنے بچوں کی زندگی طلب کر رہی تھیں،اسی اثنا میں کوئ چوتھی بار موبائل پہ کال آنے لگی۔جسے وہ کب سے اگنور کر رہی تھیں ۔"پتہ نہیں کون ہے کون نہیں ۔ہیلو ۔کون۔"انہوں نے بڑبڑاتے ہوۓ کال اٹھا ہی لی۔
"خالہ میں آپکی پڑوسن بات کر ہی ہوں حوریہ کی دوست "۔فون میں سے آواز سنائ دی۔
"اووہ اچھا بیٹا تم ہو "انہوں نے پہچانتے ہوۓ کہا۔
"میں کب سے کال کر رہی تھی آپ اٹھا نہیں رہی تھیں میرا بہت دل گھبرا رہا تھا میں بھی ہاسپٹل آگئ ہوں باہر کھڑی ہوں آپ مجھے بتائیں کہ آپ اسوقت کہاں ہیں؟"اسنے بہت عجلت میں بولا۔
بیٹا میں تمہیں باہر لینے آتی ہوں۔۔ یہ کہتے ہوۓ وہ باہر کیطرف بڑھیں۔
جب وہ اندر کیطرف بڑھ رہی تھی اچانک اسکی نظر ایک ڈاکٹر پہ پڑی۔یہ ۔۔۔یہ۔۔۔یہاں کیسے؟اسنے گویا خود سے سوال کیا۔وہ سن سی ہوگئ تھی۔۔
"خالہ۔! آ۔۔آ۔پ مجھے حوریہ وغیرہ کی رپورٹ دکھا سکتی ہیں "۔وہ گم سم سے انداز میں چلتے ہوے بولی۔وہ لوگ ایک جگہ بیٹھ چکے تھے ۔
ہاں یہ پڑی ہے بیٹا۔وحریم کو فیڈر دیتے ہوۓ بولیں۔
"یہ ۔۔۔یہ۔۔کیا ہوگیا ۔۔۔اچانک اسکے منہ سے دبی دبی سی آواز نکلی ۔۔۔"یااللہ خیر کرنا "وہ فائل پھینک کر دوڑی وہاں سے اپنے بیٹےکو لے کر۔۔
ہاسپٹل میں بنی مسجد میں سیدھا چلی گئ۔اور وہاں جاتے ہی وہ گر گئ ۔۔یااللہ میری دوست ،بہن وہ سب کچھ ہے میرا ۔اسے بچا لے زندگی دےدے پلیز وہ اللہ سے التجا کرتے ہوۓسجدے میں چلی گئ۔۔
یااللہ وہ۔۔و۔۔و۔۔وہ۔ بدل گیا ہو یااللہ وہ رحم کردے وہ بخش دے میری خوشیوں کو۔یااللہ تو مجھے اور حوریہ ہم سب کو اسکے چنگل سے بچا ۔۔وہ۔۔وہ۔ درندہ صفت انسان ہے وہ کسی کو نہیں چھوڑتا ۔۔اسکے آنسو رک نہیں رہے تھے ۔۔۔"وہ واپس کیسے ۔؟کیوں آگیا ہے کاش مجھے پتہ ہوتا کاش۔۔
"کاش " وہ ہے جو اگرکبھی پورا ہو بھی جاۓ تو منہ سے یہی نکلتا ہے کہ کاش یہ کاش کبھی پورا نہ ہوتا ۔انسان کتناجلد باز ہے۔کاش کو پورا کرنے کیلے جان لگا دیتا ہے اور جب وہ پورا ہوجاۓ تو اسی سے بچنے کیلئے اپنی جان گنواں دیتا ہے یہ کہتے ہوۓ کہتا ہے کاش ایسا نہ ہوتا"
"مجھے سوچنا ہوگا آرام سے کہ کیا کروں جلدبازی میں کوئ نقصان نہ کردوں "وہ یہ سوچتے ہوۓ باہر نکلی وہ ایک لمبی سی لابی میں آگئ۔۔منہ پہ اسنے نقاب کرلیا۔
وہ خالہ کے پاس آکر بیٹھ گئ ۔اور دل ہی دل میں دعائیں کرنے لگی ۔
احسن کے گھر والے کون ہیں ایک ڈاکٹر نے سب کو دیکھتے ہوے کہا ۔
"ہم ہیں"الفت بیگم کھڑے ہوتے ہوۓبولیں۔
"ہو گیا آپریشن ۔؟ کیسا ہوا ۔۔"وہ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہوے بولیں ۔
یااللہ مجھے بری خبر نہ سنانا پلیییز۔اس نے ڈاکٹر کو دیکھتے ہوۓ من ہی من میں اللہ سے دعا کی۔
دیکھیں ہم نے پوری کوشش کی ۔۔جیسے ہی گردہ ڈالا اچانک سے انکا سانس اکھڑنے لگا ۔۔بہت کوشش کے باوجود ہم انہیں نہیں بچا سکے۔آئم سو سوری میم۔یہ کہتے ہوے وہ ڈاکٹر جیسے آیاتھا ویسے ہے چلاگیا ۔مگر ایک قیامت چھوڑ کر۔۔۔
الفت بیگم اپنا حواس کھو بیٹھی تھیں۔۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔۔وہ بس یہی بڑبڑا رہی تھیں۔
"میری حوریہ اللہ تعالیٰ نہیں۔۔۔۔ نہیں۔۔اسکی حفاظت فرما۔۔وہ حریم کو اپنے سینے کے ساتھ زور سے لگاتے ہوۓ بولی۔
""میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی اور احسن کی اکٹھی زندگی اور موت کی دعا مانگی ہے۔ "" حوریہ کی آواز اسکے کانوں میں گونجی۔۔ نہیں۔۔۔۔اسنے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں۔۔۔جاری ہے
BẠN ĐANG ĐỌC
Aakhri shola by Inahseya ABDULLAH season1
Lãng mạnآخری شعلہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ بدلے کی آگ میں انسان خود کو بھی جلا ڈالتا ہے اور نفرت کرنے سے خود کے سوا کسی کو اذیت نہیں ہوتی۔