نازک ساگلاس:قسط نمبر 14
وہ ابھی جا ہی رہے تھے کہ ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا۔۔۔
"ڈاکٹر صاحبہ مجھے جیسے ہی پتہ چلا کہ آپ جا رہی ہیں تو میں آپکو ملنے آگیا۔۔
اسلام آ باد پہنچ ہی گیا ہوں آپ کے پیچھے پیچھے۔۔۔مجھے یہ تھاکہ آپ چلی نہ جائیں۔۔"وہ اپنی پھولی ہوی سانس کو بمشکل قابو کر پا رہا تھا۔
وہ اتنی روانی میں بول رہا تھا گویا کہ کہیں اسکی بات ادھوری نہ رہ جاۓ۔۔۔
آ آ۔۔۔آپ زندہ ہیں حرا اس آدمی کو دیکھ کر شاکڈ رہ گئ۔۔
یہ وہی آدمی تھا جسکا ہادی نے بتایا تھا کہ وہ مرگیا ہے۔۔۔۔اور وہ سمجھی تھی شائید ڈاکٹر ہاشم نے اسے مار دیا ۔۔۔حلانکہ اس وقت منظر بالکل مختلف تھا۔۔۔۔۔وہ اس پیشینٹ کے مرنے کی خبر سن کر ہاشم کو ماردینا چاہتی تھی مگر وہ شخص تو اسکے سامنے زندہ کھڑا تھا۔۔۔۔۔
"جی مجھے گردہ تو نہیں ڈلا مگر میرے ڈیلسیز ہوگۓ تھے خدا نے مجھے نئ زندگی دی ہے آپ کی وجہ سے۔۔۔۔"
وہ حرا کو بڑی مشکور نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
"م۔۔م۔۔میں نے تو ایسا کچھ نئ کیا۔۔۔۔"
وہ بہت ڈر گئ تھی۔۔۔اسکی نظریں ہاشم کے چہرے پہ ٹک سی گئیں ۔۔۔۔اور ہاشم اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
(کیا یہ شخص رحم دل ہوسکتا ہے؟)
میں اتنا بھی بے رحم نئ ہوں۔۔۔ہاشم نے آنکھوں سے جواب دیا تھا۔
آپ نے مجھے ہمت دی تھی اور ہمت ایسا ہتھیار ہے کہ ڈوبنے والوں کا سہارا بن جاتا ہے۔۔۔۔وہ رسمی کلمات کہتا ہوا چلاگیا۔۔۔
آپ چلیں مجھے جسٹ ون منٹ چاہئے۔۔۔۔۔حرا ڈاکٹر ہاشم سے کہتے ہوۓ واش روم کیطرف چلی گئ۔۔۔۔۔
"سر جیسا کہ آپ نے کہا تھا کہ ہاشم گردے سیل کرتا ہے لوگوں کو مار کر ۔۔۔۔۔ایسا کچھ نئ ہے۔۔۔۔ان دو ماہ میں مجھے ایسا کوئ سین نضر نئ آیا۔۔۔اور جو میں نے بتایا تھا کہ ایک پیشینٹ کو مارا گیا ہے وہ بھی اب زندہ ہے۔۔۔آئم سو سوری میں نے آپکو رانگ انفارمیشن دی۔۔اب مجھے ہاشم کی انوسٹیگیشن سے آزادی چاہئے ۔۔۔۔باقی انفارمیشن میں نے آپکو ساری میلز کردی تھیں۔۔۔۔۔پلیز سر میں اب آگے اور ہاشم کے ساتھ نئ رہنا چاہتی"۔۔۔۔۔۔۔۔اسنے یہ کہتے ہوۓ میسیج سینڈ کردیا۔۔۔
اسلام آ باد کے ائیر پورٹ سے جہاز اپنی اڑان بھر چکا تھا۔۔۔۔۔
وہ خوبصورت پہاڑوں اور وادیوں کو سوچ کے سکون محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔۔وہ اب ان وادیوں سے دور جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔شائید ہمیشہ کیلئے۔۔۔۔
جہاز سرد ہوائیں چیرتا ہوا،پہاڑوں کو پار کرتا ہوا اپنی منزل پہ رواں دواں تھا۔۔۔۔جہاز میں زیادہ تر مسافر سو چکے تھے۔۔۔۔۔ جبکہ ڈاکٹر ہاشم اپنی فائلز کو دیکھنے میں مصروف تھا۔۔۔۔گویا کہ اپنا کوئ خاص کام کر رہا ہو۔۔۔۔
ساتھ بیٹھی حرا سکون سے آنکھیں بند کئے ، ٹیک لگاۓ بیٹھی تھی،وہ ضد کر کہ ہاشم کے ساتھ بیٹھی تھی جبکہ وہ کرس وؤ کی جگہ تھی۔۔۔۔۔
ہاشم سے آتی وہ خاص مہک اسے پر سکون کر رہی تھی۔۔۔
سکون سوچ رہا تھا کچھ دیر حرا کا سکون ختم کیا جاۓ۔۔۔۔۔
"ہیلو سر !"
ہاشم جو کہ فائلز میں مگن تھا اچانک اسنے سر اٹھایا۔۔۔
ایک ائیرہوسٹس۔۔۔ہاتھ میں شراب کا ایک نازک سا گلاس لئے اسکے پاس کھڑی مسکرا رہی تھی۔۔۔۔
"آپ ہمارے ساتھ سفر کر رہے ہیں یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے۔۔۔۔ہماری طرف سے آپ پلیز اسے لے لی جئے ۔۔۔۔"
ہاشم نے مسکراتے ہوۓ اس سے گلاس پکڑلیا۔۔۔
ائیر ہوسٹس ہنوز وہیں کی وہیں کھڑی رہی۔۔۔۔
اس دوران حرا نے اپنی آنکھیں فوراً کھول لیں۔۔۔۔اور ہاشم کے ہاتھ میں موجود گلاس دیکھنے لگی۔۔۔۔۔ حرا نے ارد گرد نظر گھمائ سارے آس پاس کے مسافر سو رہے تھے۔۔۔
ابھی ہاشم گلاس لبوں سے لگانے ہی لگا تھا کہ حرا نے اسکے ہاتھوں سے گلاس چھین لیا۔۔۔۔۔
"ایک منٹ سر "
کیا ہوا۔۔۔؟
اااااہ۔۔کچھ نہیں ۔۔۔۔۔سر۔۔۔۔۔میرا دل چاہ رہا ہے کہ پہلا سپ میں لوں۔۔۔۔۔
ہاشم نے اسے ناسمجھنے والے انداز میں دیکھا۔۔۔۔۔
ائیر ہوسٹس یہ سین دیکھ کر وہاں سے فوراً چلی گئ تھی۔۔۔۔۔۔
حرا نے جلدی سے بیگ میں سے ایک خالی باٹل نکالی جس میں ایک گھونٹ پانی تھا۔۔۔اسنے وہ پانی پی کر ساری شراب اس میں ڈال دی۔۔۔۔۔
اور ایک اور باٹل جس میں جوس تھا وہ اس گلاس میں ڈال دیا۔۔۔۔۔تقریباً ادھا گلاس وہ جوس اسمیں آگیا تھا۔۔۔۔۔
ہادی جیسے ہی واپسی کے سفر کیلئے نکلا۔۔۔۔۔۔وہ کسی دکھی آتما کی طرح سوگ مناتا ہوا دکھ رہا تھا۔اسنے اپنا موبائل نکالا اور اپنے بابا کو کال کرنے لگا۔۔۔۔
سلام دعا کے بعد وہ اصل مدعے پہ آیا۔۔۔۔۔
"ڈیڈ وہ آرہی ہے چائینہ،میں نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی مگر اسکے سوالوں کے جواب نہ پاکر میں ہار گیا ہوں"۔۔۔۔۔وہ بہت سخت مزاجی سے بات کر رہاتھا۔۔۔۔اسکا لہجہ بکھرا بکھرا سا تھا۔۔۔۔
انداز میں زہر گھولا ہوا لہجہ معاذ کو ہلا گیا تھا۔۔۔۔۔
"میں جانتا ہوں وہ آرہی ہے۔۔۔۔تمہارے ذمے میں نے ایک کام لگایا تھا تم اسے ہی پورا نہ کر سکے"۔۔۔۔۔
بابا ! اسنے کہا کہ وہ یہ جاب اچانک نہیں چھوڑ سکتی اور اس جاب کی خاطر اسے جانا پڑے گا۔۔۔۔وہ روہانسا سا ہوا۔۔۔
"ویسے اب وہ ہاشم کو ختم کر کے ہی لوٹے گی"۔۔۔کیونکہ میں نے اسکے دماغ میں ایسا زہر بھرا ہے جسے وہ کبھی ختم نہیں کر سکے گی چاہ کر بھی نہیں۔۔۔۔باپ کا فریبی لہجہ ہادی کو ڈرا گیا ۔۔۔۔۔
"مگر بابا آپ کی ہاشم انکل سے کیا دشمنی ہے؟"۔۔۔۔۔
"دشمنی بہت پرانی ہے چھوڑو جو میں نہیں کر سکا وہ اب حرا کرے گی۔۔۔۔ہاہاہا۔۔ہاہاہا۔۔" معاذ کی مکروہ ہنسی ہادی کو دہلا گئ۔۔۔۔۔
"مگر بابا اگر آپ نے حرا کو استعمال کرنا تھا تو اسے میرے ساتھ منسوب کیوں کیا ۔۔۔۔کیوں اسے میرا کیا۔۔۔۔۔کیوں اسے میرے حوالے کیا۔۔۔۔۔۔۔بتائیں مجھے ۔۔۔۔۔وہ چیخا۔۔۔"
"یہ بات وہ مجھسے کہ چکی ہے کہ وہ تمہارے ساتھ رہ کر تمہاری زندگی خراب نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔۔۔
بیٹا وہ پاگل ہے تمہارے قابل نہیں ہے۔۔۔۔وہ اب چلی گئ ہے اور وہ کبھی نہ لوٹنے کیلئے گئ ہے۔۔۔
سو تم اسے بھول جاؤ دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت چیز ہے۔۔۔۔
تمہیں جو لڑکی پسند ہو اسے ہم تمہیں خرید دیں گے۔۔۔۔بس تم پسند کرو۔۔۔"۔۔
"بس کریں ۔۔۔۔بابا بس کریں ۔۔۔۔۔آپ کو ذرہ میرا خیال نہیں آیا ۔۔۔کہ میرا کیا ہوگا۔۔۔۔۔میں انسان ہوں حرا کو ایک کھلونا سمجھ کر آپ نے مجھے دیا جب مجھے اسکی عادت ہوگئ تو اب آپ وہ کھلونا مجھسے کیوں چھین نا چاہتے ہیں۔۔۔۔
کیوو۔و۔و۔ووو۔۔۔ں۔۔۔۔۔۔۔مجھے کوئ نہیں چاہئے وہ میری بیوی ہے میں اسے ہی اپناؤں گا ۔۔۔۔۔اب آپ کی مرضی نہیں چلے گی"۔۔۔۔۔۔
"تمہارے پہنچنے تک بہت دیر ہو جاۓ گی بیٹا۔۔۔۔۔۔" جانے دو اسے ۔۔۔۔زد مت کرو۔۔۔۔
بابا ! پاگل وہ نہیں تھی۔۔۔۔پاگل مجھے آپ لگ رہے ہیں۔۔۔۔
اب وہ ہی میری زد ہے ۔۔۔۔۔اسکی خاطر اپنی جان دینے کا وعدہ کیا ہے میں نے اس سے مگر یہ زد پوری کئے بنا میں نہیں مروں گا۔۔۔۔۔۔۔۔اسنے فون کو غصے سے گاڑی سے باہر پھینک دیا تھا۔۔۔۔یہ جانے بغیر جس کیلئے اس نے جان دینی ہے اسکی موت کا پروانہ لکھا جا چکا ہے اور موت اسکے سر پہ کھڑی مسکرا رہی ہے۔۔
ہاشم کو لگا وہ اسے شراب سے روک رہی ہے۔۔۔۔۔وہ مسکرا دیا۔۔۔
اسنے جوس کا گلاس لینے کیلئے ہاتھ آگےبڑھایا۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔حرا نے دینے سے انکار کردیا۔۔۔۔۔۔
"سر آپ پلیز اسے مت پئیں مجھے لگتا ہے اس میں انہوں نے کچھ ملایا ہے (ہاشم حیرت سے اسے دیکھنے لگا)
ظاہر سی بات ہے ۔۔۔آپ ایک سائینسدان ہیں کوئ بھی آپ کو مارنا چاہے گا۔۔۔۔(تم بھی تو مجھے مارنا چاہتی ہو)
سو پلیز آپ جہاز میں ایک چیز بھی مت کھائیے گا۔۔۔۔
وہ بہت آہستہ آواز میں اسے کہ رہی تھی۔۔۔۔۔
مگر میں کئ بار آتا جاتا ہوں ۔۔۔۔۔میرے ساتھ کبھی ایسا نئ ہوا۔۔۔۔تو اب کیوں ہوگا۔۔؟
"سر کیا آپ میری چھوٹی سی بات نئ مان سکتے۔۔"۔
وہ روٹھے سے انداز میں گویا ہوئ۔۔۔۔
"اچھا جوس تو پینے دو۔۔۔۔۔"
"نئ آپ یہ بھی نئ پئیں گے۔۔۔"
"یہ تو تم خود لائ ہو اس میں کیا شک ہے اب؟"
"پہلے میں پی تی ہوں اگر مجھے کچھ ہوا تو آپ دیکھ لیں گے ۔۔۔۔۔۔شائید آپکو یقین آجاۓ۔۔۔۔۔"
"یقین تو مجھے خود پہ بھی نہیں آتا۔۔۔۔تم پہ کیا کروں گا"۔۔۔۔۔۔
"سر جوس میرا ہے گلاس میرا نئ ہے۔۔۔۔"
"یقین کبھی کبھی کرنا پڑتا ہے مگر خود کو ایک ڈولتے ہوۓ پیمانے پہ رکھ کر یا تو آپ گرنے سے بچ جائیں گے یا پھر گر جائیں گے"۔۔۔۔
"اوہ۔۔۔ہ۔۔۔ہ اچھا اور اگر ہم گر گۓ میرا مطلب کے یقین ٹوٹ گیا تو"۔۔۔۔
"تو آپ اس سے اور مظبوط ہو جائیں گے"۔۔۔
"اور اگر یقین نہ ٹوٹے تو؟"۔۔۔
"تو آپکا یقین آپکو اور مظبوط کرے گا"
"دونوں صورتوں میں ہم کیا مظبوط ہی ہوں گے؟"۔۔۔
جب ہم کوئ چیز حاصل کرتے ہیں تو ہم اپنے آپکو انوکھاسمجھنے لگتے ہیں ۔۔۔اور پھر وہی ہماری آخری منزل ہوتی ہے۔۔۔
اور بعض لوگ اسے سنجیدگی سے اپنےاندر اتار لیتے ہیں کہ ابھی وہ بہت پیچھے ہیں یہی سوچ انکو بہت آگے تک لے جاتی ہے اور بہت مظبوط کر دیتی ہے۔۔۔
وہ ابھی تک گلاس کو ہاتھ میں لئے دیکھے جا رہی تھی۔۔۔۔
اور ہاشم بڑے غور سے اسکے الفاظ سن رہا تھا۔۔۔
"اور جب ہم ہار جاتے ہیں کسی سے،کسی منزل سے،کسی یقین سے تو یہ ہار ہمیں توڑ دیتی ہے۔۔۔۔اور یہ توڑ پھوڑ بعض کو چکنا چور کردیتی ہے اور بعض اسے نظر انداز کر کے آگے گزر جاتے ہیں۔۔۔۔۔جو گزر جاتے ہیں وہ مظبوط ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر ہم ہار کر تھک کر بیٹھ جائیں گے تو یہ زندگی کا سفر ہمیں گزاردے گا۔۔۔۔۔۔اور اگر ہم اس کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوۓ ہر مشکل سے کھیل جائیں تو یہ ہمیں کیا گزارے گا بلکہ ہم اسے گزار دیں گے"۔۔۔۔۔،
وہ بہت آرام آرام سے اپنے الفاظوں کو اپنے لبوں سے جدا کر رہی تھی۔۔۔۔۔
"تم نے کہا نہ کہ مشکل سے کھیلنا چاہئے ۔۔۔۔۔پھر تو مجھے یہ جوس۔۔۔
ابھی ہاشم کی بات پوری نہیں ہوئ تھی کہ وہ گلاس اپنے لبوں سے لگا گئ تھی۔۔۔۔۔جوس پیتے پیتے اسکے ذہن میں سب سے پہلے ہادی آیا لڑتا جھگڑتا سا۔۔۔۔تمہارے بغیر میں کیسے رہ سکتا ہوں بولو ۔۔۔۔
پھر ماما آئ پیسے دیتے ہوۓ بیٹا شاپنگ کر لینا۔۔،میرے بیٹے کو خود سے آزاد کردو بیٹا۔۔۔۔۔یہی ہمارے احسان کا بدلہ ہے۔۔۔۔
اب بابا آۓ تھے ہادی کے جنہوں نے اسے اس گھر میں رکھا تھا ۔۔۔۔۔
تم اس گھر کی بہو ہو۔۔۔ اور میری لاڈلی بیٹی ہو۔۔۔
اب یانگ یانگ اسکے سامنے آیا تھا۔۔
آپ قسم کھائیں مجھے کبھی نہیں چھوریں گی۔۔۔
ہاں میں تمہیں کبھی اکیلا نہیں چھوروں گی یہ کہتے ہوۓ اس نے یانگ یانگ کے بالوں پہ ہاتھ پھیرا تھا جسکی وجہ سے وہ مسکرا گیا۔۔۔۔۔۔سارا چائینہ یانگ یانگ کا غلام ہے اور میں آپکی محبت کا غلام ہوں۔۔۔
مجھے بس اس پرفیوم سے پیار ہے اور اس سے جسکی یہ ہے۔۔۔۔مگر میں اس شخص کو نہیں جانتی۔۔۔۔۔
اسکی آنکھوں سے ایک آنسو نکلا اور کہیں غائب ہوگیا ۔۔۔۔
ایک ہی سانس میں اسنے سارا جوس پی لیا۔۔۔۔۔
وہ جانتی تھی اس شراب میں زہر ہے ۔۔۔مگر اسنے یہ خود کیوں پی لیا سمجھ سے باہر تھا۔۔۔۔کیا ہاشم کو بچانے کی خاطر یا۔۔۔۔۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔۔۔۔۔۔
ابرہیم نے اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی مگر اسکا دل خراب ہو رہا تھا ابرہیم اسےایک بازو سے سہارا دئے واش روم میں لے گیا۔۔۔۔
کچھ دیر بعد ابرہیم کے ایک دو قہوے سے اسکی طبیعیت میں کافی ٹہراؤ آگیا تھا،وہ اب پہلے سے سنبھل چکا تھا۔۔۔۔
"تمہارا بہت شکریہ۔۔۔۔"اس شخص نے کہا۔
ویسے تمہیں اتنا نہیں پینا چاہئے تھا۔۔۔۔کیا تمہیں اپنے ماں باپ کی پرواہ نہیں ۔۔۔۔ابرہیم نے اسے ڈانٹتے ہوۓ کہا۔۔
وہ شخص ابھی بھی نشے میں تھا بس تھوڑا سا سنبھل گیا تھا۔۔۔اسنے رونا شروع کردیا۔۔۔۔وہ بہت رویا۔۔
میری ماما مجھے کہتی ہیں ڈیڈ کے پاس جاؤ اور ڈیڈ کہتے ہیں ماما کے پاس۔۔۔ڈیڈی بزنس میں مصروف اور ماما اپنی لائف بنانے کے چکروں میں ہیں۔۔۔اور پتہ ہے آج ماما نے حد کردی۔۔ماما کسی آدمی کے ساتھ تھی کلب میں۔۔اور ڈرنک کر رہی تھیں۔۔۔۔۔یار میں فخر کرتا تھا کہ میرا باپ پاکستانی ہے میری لائف بہت اچھی ہوگی مگر ۔۔۔ماما ۔۔کو دیکھ ۔۔۔کر ۔۔۔مجھے ۔۔۔عورت ۔۔۔۔ذات ۔۔سے ۔۔ہی ۔۔چڑ ۔۔ہوگئ ۔۔ہے۔۔۔۔۔۔وہ اب نیم بے ہوشی میں چلاگیا تھا۔۔۔
جاری ہے
ESTÁS LEYENDO
Aakhri shola by Inahseya ABDULLAH season1
Romanceآخری شعلہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ بدلے کی آگ میں انسان خود کو بھی جلا ڈالتا ہے اور نفرت کرنے سے خود کے سوا کسی کو اذیت نہیں ہوتی۔