شعلوں کی شروعات

62 8 0
                                    

شعلوں کی شروعات۔۔۔۔۔۔۔۔
ہادی ابھی بھی ہنوزاسے ہی دیکھےجارہاتھا۔،
حرا نےہاشم کے پرفیوم والی بات بتا کراسے پریشانی میں ڈال دیا تھا۔،
"لو ۔۔۔دنیا میں ایک پرفیوم ایک ہی انسان تھوڑی نہ لگا سکتاہے"،ہادی اپنی حیرت کو چھپاتے ہوۓ بولا۔
(مطلب۔۔۔جو میرا پرفیوم ہے وہی پرفیوم کیسے ہاشم کا ہو سکتاہے؟؟؟ یہ پرفیوم میں نے حرا کے کہنے پر ہی لگانا شروع کیا تھا۔).وہ سوچ رہا تھا۔۔
"ہادی! مجھے یہ پرفیوم اتنا پسند کیوں ہے یہ میں نہیں جانتی۔۔مگر اس پرفیوم میں کچھ خاص ہے جو مجھےسلادیتاہے،سکون دیتا ہے۔"
وہ ابھی بھی ہادی کی مہک کو محسوس کرتے ہوۓ کہ رہی تھی۔
کھاناآج پھر ٹھنڈا ہو چکا تھا ۔۔۔۔وہ اپنی باتوں میں مگن تھے۔۔
"مجھے اپنی پیکینگ کرنی ہے ابھی،اور پلیز تم اپناجاناکینسیل کردو،تمہارا وہاں جاناخطرے سے خالی نہیں ہے۔"
وہ یہ کہ کر ٹیبل کی طرف بڑھی،ٹیبل پہ رکھےبلیو کلر کے خوبصورت سے گلاس کینڈل کو اٹھا کر دیکھنے لگی،۔
"مگر مجھے جانا ہے ہاشم کو نہیں پتہ چلےگا کہ میں وہاں ہوں،مجھے کوئ کسی بھی قسم کا خطرہ نہیں ہے"۔
وہ اسکے پاس آتے ہوۓ بولا۔
"یہ کینڈل میں ساتھ لے جانا چاہتی ہوں،اور اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھنا چاہتی ہوں۔" وہ کینڈل کو ہاتھ میں لیے گویا ہوئ۔
میں چاہتی ہوں جیسے ہم موبائل کو ریسٹ کر دیتے ہیں اسے ہی میں اپنی لائف ریسٹ لرنا چاہتی ہوں،مجھے بچپن کا لچھ یاد نہیں ،میں کون ہوں،کہاں سے آئ ہوں،بس اتنا پتہ ہے کہ جب میں یہاں آئ تھی تو سیدھا تمہارے نام کے ساتھ آئ تھی،۔"
"(وہ ماچس چلانے لگی)اب میں اس مقام پہ ہوں جس کیلئے میں زندہ رہی ہوں،مجھے اب آگے بڑھنا ہے۔ (اسنے کینڈل جلائ)اور تباہی مچانی ہے اتنی تباہی کہ خود کے تباہ ہونے کی بھی پرواہ نہیں ہے مجھے۔"
ہادی نے اسکے ہاتھ سے کینڈل لینی چاہی مگر ۔۔۔اسنے ایکدم کینڈل کو پیچھے کرلیا جس کی وجہ سے اسکے خود کے ہاتھ پہ گرم گرم موم گر پڑا،(اسنے کرب سے آنکھیں موند لیں )اور درد کی جھلک اسکے چہرے پہ واضح نظر آرہی تھی۔
"تم پاگل ہو دو مجھے ادھر!" ہادی اس سے گلاس کینڈل چھینتے ہوۓ بولا۔"
تم نے گلاس کینڈل کو جلا کہ اچھا نہیں کیایہ خراب ہوگیا ہے،اتنا خوبصورت تھا۔۔۔۔،تمہاری زندگی اس گلاس کینڈل کی طرح خوبصورت ہے ،اور تم اسے جلانا چاہتی ہو،تمہاری زندگی کا بھی ایسا ہی حال ہو جاۓ گا جیسا کہ اس گلاس کینڈل کا ہو گیا ہے۔۔۔۔۔تم اس کینڈل سے کچھ سیکھو صرف ایک شعلے سے یہ ساری خراب ہوگئ ہے۔"
"مجھے پرواہ نہیں ہے مجھے ڈر نہیں لگتا ،ایسی زندگی سے،میں نے بس ایک شعلہ ہی تو لگایا ہے۔۔آج اس چھوٹے سے شعلے سےشروعات کی ہے ۔۔۔دیکھتے جاؤ اب ان شعلوں میں زندگی گزاروں گی،ظاہر ہے خود بھی جلوں گی درد بھی ہو گا،اور جانتے ہومیں پہلا شعلہ ہاشم کےبیٹے کا جلاؤں گی ۔۔۔اور آخری شعلہ۔۔۔۔۔۔وہ میرا ہوگا"۔
"تم پاگل ہو چپ کر جاؤ ۔۔۔۔جانتی ہو ایک شعلہ (وہ انگلی اٹھاتے ہوۓ کہ رہا تھا)صرف ایک شعلہ سب کچھ راکھ کر دیتا ہے۔"
"ایسا نہیں ہے" اور اگر ایسا ہے بھی تو اور اچھی بات ہے،سب لچھ اکٹھا ختم ہو جاۓ گا،تمہیں نہیں پتہ کتنا سکون ملے گا مجھے ان شعلوں میں،مجھےبس  سکون چاہئے۔"
(ہادی اسے بیڈ پہ بیٹھا رہا تھا اور اسکی اول فول باتیں بھی سن رہا تھا)۔
"اچھا ۔۔۔۔۔۔اگر ایسا ہے تو دوسرا شعلہ میرا جلانا میں بھی دیکھوں کہ تمہارے ان شعلوں میں کتنا سکون ہے"۔وہ طنزیہ لہجہ میں بولا۔
"تم میرے شعلوں کی ضدمیں آجاؤ گے اسی لئے کہا مجھسے دور ہو جاؤ۔۔۔"وہ ہادی کو بڑی ترسی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
"ہادی میں تمہیں کب سے کہ رہی ہوں کہ کسی وفادار سےدوسری شادی کرلو۔۔کیونکہ میں آج نہیں تو کل ہمیشہ کیلئے تم سے دور ہو جاؤں گی۔۔۔۔۔میں عنقریب جیل چلی جاؤں گی مجھے سزاۓ موت ہو جاۓ گی۔۔۔"
"جبتک میں زندہ ہوں مجھے دوسری شادی کی قطعاًضرورت نہیں ہے۔۔اور اگر تمہیں جیل بھیجا گیا ۔۔۔تو میں تمہیں کچھ ہونے نہیں دوں گا ۔۔۔۔نکال لوں گا۔۔"
؀؀؀؀؀؀؀؀؀؀؀؀؀
ہاشم نے جیسے ہی گاڑی گیٹ کے سامنے روکی ایک گارڈ فوراً بھاگتا ہوا آیا ،ہاشم گاڑی سے اتر کر چابی گارڈ کی طرف اچھال کہ اندر کی جانب بڑھ گیا،۔۔
گارڈجب گاڑی کو گیراج میں لانے کیلئے کار میں بیٹھا ،اسکو ایک عجیب سا سکون محسوس ہوا،نرم ،آرام دہ سیٹ تھی گاڑی کی، وہ اس پہ بیٹھ کہ بڑی خوشی محسوس کررہا تھا،اور ہاشم کو اندر جاتے دیکھ رہا تھا،وہ ہاشم کا پورا جائیزہ لے رہا تھا،یہ ہمیشہ کالا سوٹ کیوں پہنتا ہے،ویسے اس پہ کالا سوٹ جچتا بڑا ہے،۔۔۔گارڈ خود سے سوال و جواب کر رہا تھا۔۔۔۔کتنا خوش قسمت ہے یہ گاڑیاں ، گھر،دولت،شہرت،ایک خوشحال چھوٹی سی فیملی ہے،۔۔۔۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ،سب کچھ ہے اس کے پاس ،غریبوں کا بھلا بھی کرتا ہے،مگر سخت مزاج ہے یا مغرور سمجھ میں نہیں  آتا،۔۔۔اسکی اولاد کتنا فخر کرتی ہوگی اپنے باپ پر۔۔۔۔،آہ۔۔۔ہ۔۔۔ہ۔ ایک ہم ہیں چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کرتا ہے۔۔۔بس ۔۔۔۔ہاشم اندر جا چکا تھا،
اب وہ گاڑی گیراج میں کھڑی کر کہ گھر کو اوپر سے نیچے تک دیکھ رہا تھا،حسرت سے۔۔۔۔وہ اس امیری پہ خوش ہو رہاتھا یہ جانے بغیر کے اس گھر کے مکین ایک دوسرے سے ہی ناآشنا تھے، وہ بس ایک گھر میں تو رہتے تھے ،مگر ایک ساتھ نہیں رہتے تھے،۔۔۔۔
ہاشم جیسے ہی اپنے کمرے میں آیا،اسے ایسا لگاجیسے اس کے کمرے میں کوئ آیا ہو۔۔،وہ گلاس میں رکھا پانی اٹھا کر پینے لگا،سارا ڈنر خراب ہو گیا،اس حرا کی وجہ سے،میں کسی سے مل بھی نہیں پایا،   چلو خیر۔۔۔۔
وہ ڈاکٹرولی کو فون کرنے لگارہا،۔۔۔مگر اسکا فون بند جارہا تھا،
"میں نے کہا تھا مجھے حرا کی انفارمیشین چاہئے ایک،آدھے گھنٹے میں۔۔۔مگر یہ لوگ کسی کام کے نہیں ہیں۔۔۔۔وہ غصے سے سوچ رہا تھا۔۔۔۔
جب وہ تھک جاتا تھا وہ اپنے موبائل میں ایک تصور دیکھ لیتا تھا تو اسکی ساری تھکن دور ہو جاتی تھی۔۔۔
اور اب وہ وہی تصویر بس دیکھے جارہا تھا۔۔۔۔۔اور اچانک اسکا چہرہ بےحد اداس لگنے لگا تھا،وہ اپنی پیشانی کو مسلنے لگا،اور آنکھیں بند کر کے اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا ،کیا ہے زندگی،سب کچھ چھین لیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے کرب سے آنکھیں موندلیں۔۔۔۔۔وہ کتنی دیر ایسے ہی رہا۔۔
"مجھے صبح جانا ہے۔" یہ کہتے ہوۓ وہ اپنی پیکینگ کرنے کیلئے اٹھا۔۔۔۔۔۔۔۔
؀؀؀؀؀؀؀؀؀؀؀؀
"وقت بدل رہا ہے اسے بدلنے دو کیوں وقت کو قید میں رکھنا چاہتے ہو،وقت کو آزاد رہنے دو "۔(اسکی آنکھوں میں نمی واضح نظر آرہی تھی)۔
"ٹھیک ہے وقت کو بدلنے دو ،اور وقت کا کام صرف بدلناہے ۔۔۔۔(حرا سر کو ہاں میں ہلا رہی تھی گویا ہادی کی بات کی تصدیق کر رہی ہو)مگر وقت کے ساتھ انسان کو بدلنا نہیں چاہئے۔"اسنے نے جیسے ہی یہ کہا،حرا کا ہلتا سر اچانک رک گیا،اور اسنے اب نفی میں سر ہلایا۔
"ایسا نہیں ہو سکتا وقت ہی تو سب کچھ بدلتا ہے،جب انسان ہی نہ بدلے تو کیسے پتہ چلے گا کہ اسکا وقت بدل گیا؟"
وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوۓ کہ رہی تھی۔
"وقت بدلے یا نہ ۔۔۔بس انسان جیسا ہے ویسا ہی رہنا چاہئے"۔(وہ اپنے ہاتھ سے بس ختم کا ریایکشین دیتے ہوۓ بولا)گویا بات ختم کرنا چاہ رہا ہو۔
"میں نے وقت کو دکھانا ہے ،کہ وقت کی طرح میں بھی تباہی مچاؤں گی،جیسے وہ سب کچھ چھین لیتا ہے،میں بھی چھین لوں گی اس سے،انتقام صرف وقت کو ہی نہیں لینا آتا،مجھے بھی لینا آتا ہے۔۔وقت نے مجھسے میرا سب کچھ چھین لیا۔۔(وہ اب رورہی تھی)"۔
"تم اب خوش ہو ایسے ہی چلنے دو ماضی کو بھول کیوں نہیں جاتی؟۔۔۔ (وہ اسے قائل کرتے ہوۓ کہ رہا تھا۔)،
اگر اسنے تمہارے ماں باپ چھینےہیں تو تمہیں اسکے بدلے میرے ماں باپ بھی تو دیے نہ،تمہارا بچپن میرے ساتھ گزرا ہم لوگوں نے کتنا انجواۓ کیا،کم ہی کسی نے اتنا کیا ہوگا،مجھے نہیں یاد اب سے پہلے تم ہمارے گھر کبھی اداس ہوئ ہو،روئ ہو۔۔خدا کا شکر کرو اسنے تمہیں آج سب کچھ نوازا ہے ،پھر تم کیوں ان سب چیزوں کی ناشکری کر کہ انہیں رد کر رہی ہو۔۔کیوں؟"وہ بہت بے بس نظر آرہا تھا۔
"میں ناشکری نہیں کر رہی(سب ایسے ہی کہتے ہیں،وہ سوچ رہا تھا)میں جب کبھی خود کا بچپن سوچوں تو میرے ذہن میں کچھ نہیں آتا،بس پہلی سوچ ، پہلی یاد، وہ ہے جب میں ہاسپٹل میں تھی،۔۔۔۔۔۔
تو تمہارے بابا آۓ تھے،میں انہیں پہچان نہیں پائ تھی ،۔۔۔
اور پہچانتی بھی کیسے پہلی بار میں نے انہیں دیکھا تھا،اور شائد ڈاکٹرز کے بعد پہلا قریبی شخص وہی دیکھا تھا،۔۔۔۔۔
وہ لگا تار تین مہینے آتے رہے تھے،۔۔۔۔
ایک دن،ساتھ والے بیڈپہ ایک لڑکی کی ماں اس سے بہت پیار کرہی تھی،اسکا سر دبا رہی تھی،وہ روتی تھی تو اسکے آنسو صاف کرتی تھی،
میں نے سوچا میری ماں کہاں ہے؟مجھے کچھ یاد نہیں آرہاتھا،سب کچھ بلینک ہوگیا تھا۔۔۔۔۔
میں نے بابا(معاذ) سے پوچھا کہ میری ماما کہاں ہیں؟۔۔انہوں نے کہا کہ وہ ہی میرا سب کچھ ہیں۔۔۔اور میری ماما اللہ کے پاس ہیں۔۔۔
انہوں نے کہا کہ میں انکی بیٹی ہوں،اور گھر جانے کیلئے مجھے کچھ پیپرز پہ سائن کرنے ہوں گے،۔۔۔۔۔مجھے کیا پتہ تھا یہ سائن مجھے قید کرنے کیلئے لیے گۓ ہیں۔۔۔۔۔(وہ اونچا اونچا رونا شروع ہو گئ)۔۔۔
؀؀؀؀؀؀؀؀؀؀؀؀؀
ہاشم اپنی پیکینگ میں مصروف تھا، اب وہ تقریباً اپنی ساری پیکنگ کرچکاتھا،۔۔
لیوتاؤ کمرے میں داخل ہوئ ، "ہاشم آپکی پیکینگ ہوگئ ہو تو کچھ بات کرنی تھی مجھے،۔" وہ اپنی چینی زبان میں اس سے مخاطب تھی۔
ہاں بولو،
"مجھے اپنے ایک کلائینٹ کے ساتھ سویڈن جانا ہے، (واؤ اب ہیزبینڈ کلائنٹ ہوگیا)چائینہ جانا میں نے کینسل کردیا ہے۔"
کونسے کلائنٹ کے ساتھ؟ اور کس سلسلے میں؟ (ہاشم کو ہنسی آگئ تھی)تم"۔۔۔وی۔۔وو۔۔۔شی۔۔۔ین۔۔۔"کے ساتھ جارہی ہو نہ؟
اسنے وی ووشی ین کا پورا نام لمبا لمبا کر کہ ادا کیا۔
لیوتاؤ نظریں جھکا گئ،اسکا جھوٹ پکرا گیا تھا۔
اسکے سر کے جھکانے سے ہاشم کا شک یقین میں بدل گیا۔
"اووہ تو تم ووشی ین  کے ساتھ جارہی ہو
،(کرس وؤ کمرے کے باہر سے گزر رہا تھا مگر ووشی ین کے نام پہ رک گیاکیونکہ (وی ووشی ین کی بیٹی(شیاؤمن)اسکی دوست تھی)ویسے ووشی ین کافی اچھا انسان ہے،اور سچ میں تم دونوں ساتھ میں بہت اچھے بھی لگتے ہو، (ہیں بابا یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں )تم دونوں نےشادی کرلی ہے(کرس وؤ کو گویا شاک لگا ہو ،شادی کی عمر تو میری ہے میری مام کی تو نہیں)یہ بات تم اپنے باپ اور بیٹے کو بتا کیوں نہیں دیتی ۔(مام نے اگر دوسری شادی کرلی ہے تو میرے بابا کےساتھ یہاں کیا کر رہی ہیں)۔"
"نہیں پلیز کرس وؤ کو کچھ مت بتانا (افف کرس وؤ کو پتہ چلنے سے شادی ٹوٹنے سے تو رہی)ورنہ ۔۔۔۔ورنہ وہ مجھسے اور دور ہو جاۓ گا،(مام دور تو میں کب کا آپ سے ہوچکا ہوں)
ہاشم ! تم اچھے انسان ہو ، ہمارا بیٹا تم پہ گیاہے مجھ پہ نہیں گیا،(یاللہ تیرا شکر کہ میں اس سیلفیش مام پہ نہیں گیا اپنے لولی بابا پہ گیا ہوں)تو ۔۔۔۔۔اسی لئے ہمارے بیٹے کا خیال رکھنامیرے جانے کے بعد، (مام جارہی ہیں مطلب اب پھر مجھے اور بابا کو اکیلے رہنا پڑے گا)میرے بابا اور کرس وؤ کو نہیں پتہ چلنا چاہئے کہ میں کس کےساتھ۔۔کہاں جارہی ہوں، (واؤ مام واؤ آپ بھی کمال ہیں)میں تم سے درخواست کرتی ہوں۔"
"اور میں آپ کی درخواست رد کرتا ہوں۔"کرس وؤ دروازہ کھول کر اچانک اندر آگیا تھا،۔۔۔۔لیو تاؤ کیا ہاشم کا رنگ بھی ایکدم بدلا تھا۔۔۔۔۔۔
؀؀؀؀؀؀؀جاری ہے؀؀؀؀؀؀

Aakhri shola by Inahseya ABDULLAH season1Opowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz