رات اپنی پوری اندھیری کے ساتھ چھا چکی تھی۔چاند کہیں غائب ہوگیا تھا ستارے بھی ناراض تھے آج۔بادلوں کی حکومت بہت پیاری لگ رہی تھی گویاانہوں نے آج آسمان کو چاندکے بغیر ہی چار چاند لگا دیے ہوں ،سرد برف ہوائیں ایک دوسرے سے باتیں کرتی ہوئ ٹکرا رہی تھیں۔ اور یہ سارا نظارہ کھینچنے والی ۔۔۔حرا۔۔۔بےحد اداس تھی اسےآج کی پارٹی میں جانا نہیں تھا مگر پھر بھی وہ جانا چاہتی تھی ۔
وہ ٹیل پونی ،بلیو"لانگ کوٹ، بلیک لانگ شوز،پارٹی میک اپ،کلاٸ پے ایک نازک سا" بریسلیٹ پہنے ۔۔۔بلاشبہ وہ خوبصورت لگ رہی تھی مگر آج اسکے چہرے پر معصومیت کے بجاۓ سختی کے تاثرات جمے تھے ۔اور بہت کچھ کر ڈالنے کی ہمت اسکے چہرے پر صاف عیاں ہو رہی تھی۔
"میں آج کیا کرنے جا رہی ہوں یہ کوئ سوچ بھی نہیں سکتا"۔ وہ اپنا آپ شیشے میں دیکھ کرمسکرا گئ۔ مجھے کسی نے کہا تھا کہ بدلہ لینا فرض سمجھو چاہے خود کو ختم کیوں نہ کرنا پڑے،بدلہ بدلہ اور بس بدلہ "وہ شیشے میں دیکھتے ہوۓ بول رہی تھی،ساتھ ساتھ وہ لپ گلوز کو ڈارک کرہی تھی۔
"تمہاری زندگی کا مقصد کیا ہے ؟؟؟؟ صرف بدلہ ؟۔، شادی شدہ ہو،گھر ہے،دولت ہے،سب کچھ ہے اگر بات محبت کی کرو تو یہ کچھ نہیں ہے جب شادی ہوگئ ہے تو وہ بھی مل جاۓ گی ،تم پاگل ہو سب کچھ کھو دو گی ایسے تم۔۔ اور اگرتمہارے لئے بدلہ اتنا ضروری ہے کہ جسمیں تمہیں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں ہے تو اگر تمہاری وجہ سے کسی اپنے کی جان چلی گئ تو کیاجواب دو گی اپنے آپ کو،سب کو،؟بتاؤ ،،،،"اسکا عکس شیشے میں اسے ملامت کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔
"چھوڑ دو زد فضول کی ،جو ہادی کہ رہا ہے اسکی بات مانو اس میں ہی بھلائ ہے تمہاری،اور سوچو تمہاری وجہ سے اسے کچھ ہوگیا تو ؟۔۔۔ عکس نے دوبارہ سوال کیا ۔۔
نہیں ۔۔۔ہادی کو کچھ کو نہیں ہو سکتا وہ اپنے آپ کی حفاظت کرنا جانتا ہے۔ہو سکتا ہے اگرکسی کو کچھ ۔ ۔۔ تو وہ میں ہوں ،مگر پرواہ نہیں ہے۔۔اور ہاں سنو مجھے ہادی ناپسند نہیں ہے مگر پسند بھی نہیں ہے سو اس کیلیے میں اپنے پلانز بدل نہیں سکتی۔۔۔وہ شیشے کے سامنے سے اپنا موبائل اٹھاتے ہوۓ بولی ،اسکا عکس پیچھے آیا ۔۔۔مت جاؤ ،مت جاؤ،بعد میں پچھتاؤ گی،،۔۔۔۔مگر وہ ان سنا کرتے ہوۓ کمرے سے باہر جا چکی تھی،،،ہادی کی کال آرہی تھی اور وہ جانتی تھی کہ اسے جانے کیلئے ہی بلا رہا ہوگا۔ جیسے ہی وہ نیچے آئ ہادی نے اسکا پورا جائزہ لیا سر سے پاؤں تک کا۔
،ہاہاہا،،،ہاہہاہا،، " حرا کیوں وہاں سب کو بھگانا ہے ؟وہ ہنستےہوۓبولا۔
"جانا ہے تو میں نے ایسے ہی جانا ے،"اب چلو ۔۔وہ گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولتے ہوۓ بولی۔
"اووہ ہیلو۔۔۔۔سنو میں کوئ تمہارا ڈرائیور نہیں ہوں میڈم آگے آؤ ورنہ ،،،"وہ تو اسے پیچھے بیٹھتادیکھ کر اچھل ہی تو گیا تھا۔
"ورنہ کیا ہاں؟ بولو ۔۔ تمہارے ورنہ سے ڈر نہیں لگتامجھے،آئ سمجھ۔" مجھے تمہارے ساتھ نہیں بیٹھنا میری مرضی ہے تمہارا ہر حکم مجھ پہ چل نہیں سکتا۔"وہ اترتے ہوے بولی،
"اوکے تم گاڑی چلاؤ، میں پیچھے بیٹھ جاؤں گا ،تمہارے ساتھ نہیں بیٹھوں گا۔"وہ بہت سنجیدہ الفاظ میں کہ رہا تھا۔(اسنے اب مجھ پہ غصہ ہونا ہی ہے ،اسے چائینہ جو نہیں لیکر جارہا ،سو مجھے اس سے لڑائ نہیں کرنی چاہئے) وہ سوچتےہوۓ پیچھے کا دروازہ کھول کر بیٹھ گیا تھا۔
"میں۔۔۔میں۔تو نہیں ڈرائیو کروں گی۔۔اووہ(اسے مزہ چکھاتی ہوں) اووہ ٹھیک ہے میں کرلوں گی ڈرائیو"۔وہ مسکراتے ہوۓ فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر بیٹھ رہی تھی۔۔
※......................................................※
"ایمبولینس کو کاغان کیوں روانہ کیا گیا سر؟"لال دین نے ہاسپٹل سے نکلتے نکلتے سوال کیا۔
"حوریہ کا سسرال کاغان میں ہے بس اسی لئےاور ویسے بھی اسکی ماں کی حالت دیکھی ہے،ایسے میں ہم ناران رک نہیں سکتے"معاذ نے عجلت میں کار کا دروازہ کھولتے ہوۓ بتایا،اور ابراہیم کو اندر بٹھایا۔
"لال دین جلدی ڈرائیو کرو۔۔۔یہ کہتے ہوۓ اسنے اپنا کوٹ (جو کہ گاڑی میں پڑا تھا)شمیم پہ ڈالا ،وہ بارش میں پوری طرح سے بھیگ گئ تھی،اسنے اسے پانی پلایا،وہ اب تھوڑا تھوڑاہوش میں آگئ تھی،۔۔۔
"ہیلو۔۔۔ہاں ۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔شمیم کو میں ہاسپٹل سے لے آیا ہوں۔۔۔۔۔نہیں یار ایسا میں نہیں کرسکتا،دیکھو اسکا ناران جانا بہت ضروری ہے ،ہم اسے یہاں نہیں روک سکتے۔۔۔۔۔۔۔ہاں ابراہیم کو تم لے لو۔۔۔۔اوکے۔۔۔
گاڑی ایک جھٹکے سی رک گئ تھی ،سامنے سے آتا ہاشم ایسا لگ رہا تھا گویا کہ آج اسنے پوری دنیا فتح کرلی ہو،وہ جیسے ہی کار کا دروازہ کھول کر ابراہیم کو پکڑنے کیلئے آگے بڑھا ،تو ابراہیم نے اپنی ماں کا بازو زور سے پکڑلیا،مگر ہاشم نے اسے زبردستی اٹھا لیا،اور لے کر چلا گیا ،ابراہیم چلاتا رہا،شمیم نیم بےہوشی میں تھی ،مگر وہ ابراہیم ۔۔۔۔ابراہیم ۔۔۔۔پکار رہی تھی ۔۔۔۔ اسکے کانوں میں جیسے ہی ابراہیم کی چیخوں کی آواز آئ وہ ہوش میں آگئ تھی،ایک ماں کا دل اپنےبچے کو کھوتا ہوا کیسے دیکھ سکتا تھا،مگر جب تک وہ ہوش میں آئ تب تک،ہاشم ،ابراہیم کو لیکر جا چکا تھا،اسنے ہوش میں آتے ہی پھر سے چلانا شروع کردیا تھا،وہ ابراہیم کو بھول گئ تھی،یاد تھا تو بس یہ کہ حوریہ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔۔
"ممم۔۔۔می۔ں۔۔کہاں ہوں؟" شمیم نے اپنے آپ کو ایک انجان گاڑی میں پا کر ،ڈرتے ڈرتے منہ میں بربڑایا...
"بھابھی ! آپ کو ہم حوریہ کے گھر لے جارہے ہیں۔ آپ ہاسپٹل میں بےہوش ہوگئی تھیں۔" معاذ نے جلدی جلدی اسے بتایا اس سے پہلے کہ وہ کوئ اور سوال کرتی۔
"ابراہیم وہ۔۔۔وہ کہاں ہے؟" وہ۔۔وہ ۔۔بھی وہاں پہنچ جاۓ گا،آپکی وجہ سے وہ بہت رو رہا تھا ،تو میں نےاسے چیز دلوانے بھیجا ہے۔۔۔۔
"تم۔۔م۔تم۔۔ہاشم کے دوست ہو اسکی ہر بات مانتے ہو ،مجھے سیدھے سیدھے بتاؤ کہ میرا بچہ کہاں ہے؟"
"مجھے ابھی کہ ابھی ابراہیم چاہئے ورنہ میں ابھی اس گاڑی سے کود جاؤں گی۔"اسنے ایک دم ہوش و حواس میں آتے ہوۓ کہا۔۔۔
"اوکے ریلیکس " اس سے اور جھوٹ بن نہیں پا رہا تھا۔
ابراہیم ہاشم کے پاس ہے ،میں جانتا ہوں آپ ان سے الگ ہیں مگر،ابرہیم کو پکڑنے کیلئے ،دیکھنے کیلئے وہ ترس گیا تھا،اسلئے وہ لے ۔۔۔۔۔اسکی بات ابھی پوری نہیں ہوئ تھی کہ،شمیم چیخ پڑی۔۔۔۔۔۔،"مجھے ابراہیم کے پاس جاناہے،" اسنے معاذ کی بات کاٹتے ہوۓ کہا۔
"بھابھی آپکو ،اپنی دوست کے گھر جانا چاہئے ،نہ کہ ہاشم کے پاس،ایک جگہ جا سکتی ہیں،چوائس آپکی ہے"۔ اسنے بڑا سوچ سمجھ کر کہا۔
جانے والی تو چلی گئ ،مجھے اپنے بچے کے پاس جانا ہے،( اولاد ایک ایسی چیز ہے جس کیلئے ماں سب کو چھوڑ دیتی ہے)اس نے سوچتے ہوے فیصلہ کیا۔
"میں آپکو ہاشم کے گھر اتار دیتا ہوں ،آگے آپ کی مرضی،(ویسے ہاشم نے کیا پلین کیا تھا،وہ یہی تو چاہتاتھا کے ،وہ اسکے گھر آۓ)۔اسنے یہ کہتے ہوۓ لال دین کو ہاشم کی طرف چلنے کا کہا،۔۔۔۔۔۔۔
"مگر مجھے تم نے ابراہیم کے ساتھ گھر ڈراپ کرنا ہے "۔اسنے گاڑی کا رخ ان سڑکوں کی طرف ہوتا دیکھ کر کہا،جن کی طرف وہ نگاہ ڈالنا بھی پسند نہیں کرتی تھی۔
ٹھیک ہے بھابھی،جیسا آپ کہیں( نہیں جیسا ہاشم کہے ،کیا کروں دو لوگوں کے بیچ پھنس چکا ہوں)۔۔
※................................................※
وادئ ناران کے خطرناک راستے ،رات کےوقت میں سیاہ پہاڑ،لہلہاتے درخت،گرجتے بادل ،ایسے میں فل سپیڈ میں گاڑی رواں دواں،۔۔۔۔"اووہ یار کیا تمہارے اندر چڑیل تو نہیں آگئ ؟ آہستہ ڈرائیو کرو اگر ایکسیڈینٹ ہو گیا تو؟۔" ہادی نے اپنے ماتھے کا پسینہ صاف کرتے ہوۓ کہا ۔
"کیوں ؟ تم تو اس سے بھی تیز چلاتے ہو،،،کیوں کیا ہوا ڈر گۓ۔۔؟،" وہ فرنٹ شیشے کو اس پہ سیٹ کرتے ہوۓ بولی۔
گاڑی میں ایک دم سے بہت خاموشی چھا گئ،ہادی نےجب اس پہ ایک نظر ڈالی ۔۔۔اسکی آنکھوں میں لگا ڈارک کاجل،آنکھوں میں بےچینی،ماتھے پر تیوری چڑھاۓ وہ بہت بدلی بدلی سی لگ رہی تھی۔
ڈنر شروع ہونے میں کچھ وقت تھا۔۔ڈاکٹر ہاشم اور لیو تاؤ سب کو ویلکم کر رہےتھے،
واؤ بیوٹیفل( wa hǎo piàoliang)۔لیوتاؤ حرا سے ملتے ہوۓ بولیں۔
سب یہاں وہاں چہل قدمی کر رہے تھے ۔حرا لاؤنج میں ایک سائیڈ پہ رکھے صوفے پر جا کے بیٹھ گئ،کرس وؤ ڈرنک لیۓ حرا کے پاس آکر بیٹھ گیا،
"کیسی طبیعیت ہے اب تمہاری" اسنے بیٹھتے ہی پوچھا۔
"ہمم۔۔۔ٹھیک ہوں " وہ لاپرواہ سے انداز میں بولی۔
"حرا مجھے ہر چیز کیلۓ معاف کردو پتہ نہیں پھر ہم ملیں یا نہ،وہ گلاس پہ ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولا۔"
وہ بس آگے سےمسکرادی، مجھے جوس ملے گا؟ اسنے وہاں سے اٹھتے ہوۓ کہا۔
" ہاں کیوں نہیں۔۔آؤ " وہ اسے کھانے کی ٹیبل پہ لاتے ہوۓ بولا۔
وہ جوس لیکر وہاں ڈائننگ ٹیبل پہ ہی بیٹھ گئ اور اسنے کرس وؤ کو بیٹھنے کی آفر بھی کی،جسے قبول کرتے ہوۓ کرس وؤ بیٹھ چکا تھا،سامنے سٹینڈ میں پڑی چھری حراکی نظروں میں آگئ تھی،اسنے اٹھ کر وہ چھری اٹھائ اور اس سے ٹیبل پہ نشان کھینچنے لگی،۔۔۔
" کرس وؤ اگر کوئ پسند نہ ہو تو کیا کرنا چاہئے؟" وہ ایک ہاتھ میں چھری لیے دوسرا ہاتھ اس پہ پھیرتے ہوۓکہ رہی تھی۔
"جو نہ پسند ہو اسے چھوڑ دو ،دور ہو جاؤ، بس" اسنے ہنستے ہوۓ کہا۔
"ویسے میرا دل کر رہا ہے کہ تمہیں جان سے ماردوں " وہ اسکی گردن پہ چھری رکھتے ہوۓ کہ رہی تھی۔اور چھری اس کی گردن پہ زور سے پھیری۔وہ تڑپ رہا تھا اور وہ ہنس رہی تھی ۔چھناکے کی زوردار آواز سے وہ ہوش کی دنیا سے واپس لوٹی۔ساتھ والے ٹیبل سے گلاس گرا تھا۔افف اتنا آسان نہیں ہے کسی کو مارنا ۔اب وہ چھری کو اپنے ہاتھ پہ پھیرتے ہوۓ مسلسل کرس وؤ کو دیکھ رہی تھی۔
"کسی کو بلا وجہ مارنا کتنا آسان ہوتا ہے نا کہ۔۔۔کچھ زیادہ سہنا نہیں پڑتا۔ ہاں بس ساری زندگی کی نیند اڑجاتی ہے،اور،۔۔۔کسی کی موت کی وجہ بن جانا بھی سکون چھین لیتا ہے،اور ہم کسی کو دکھ دے کر کبھی سمجھ نہیں پاتے کہ ہم نے کسی کی ساری زندگی برباد کر دی ،کسی کا بسا بسایا گھر اجاڑدیا،
اور،سکون ،،ہم ڈاکٹرز اپنا سکون خود برباد کرتے ہیں اور پھر سکون ڈھونڈھنے کی خاطر اپنے آپ کو خود سے آزاد کر دیتے ہیں۔"چھری اب ہاتھ سے کلائ تک کا سفر کر چکی تھی۔
"مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تم کیسی عجیب عجیب باتیں کررہی ہو۔" اور یہ تم پلیز چھری کو چھوڑدو لگ جاۓ گی ،کرس وؤ ڈرتے ہوۓ بولا۔
"وہ جو کل ایک آدمی کی ڈیتھ ہوئ ،وہ بچ سکتا تھا ،مگر سمجھ سے باہر ہے کہ وہ کیسے اور کیوں زندہ نہیں رہ سکا، اسے کتنی تکلیف ہوی ہوگی ۔۔مرتے ہوۓ ،اور اسے اپنی فیملی بھی یاد آئ ہوگی،اور اسکی فیملی اب کس حال میں ہوگی،اسکا درد سمجھ سکتے ہو؟ نہیں ہمارا کام بس آپریشن کرنا ہے ،ہم مریضوں کے مرنے کے عادی سے ہوگۓ ہیں ہمیں ان کیلیے کچھ فیل نہیں ہوتا،مگر کل مرنے والا انسان بہت دکھی تھا ،،اور میں نے پہلی بار کسی پیشنٹ کیلئے دعا کی تھی رو رو کر اسکی ٹینشین سے میں سو نہیں پا رہی تھی مگر وو۔۔۔۔۔ہ۔۔نہیں بچ سکا۔ہمیں بھی پھر زندہ رہنے کا کوئ حق نہیں جب ان لوگوں کو ہم بچا نہیں سکتے،"۔۔۔وہ کسی ۔ٹرانس کی کیفیت میں بولے جا رہی تھی۔جبکہ کرسوؤ حیرت سے اسکے ٹوتتے الفاظوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ابھی وہ یہ سب دیکھ ہی رہا تھا کی اچانک حرا نے کلائ پر رکھی چھری کو زور سے جھٹکا۔۔۔۔
باہر سے بھاگتا ہوا ہادی جیسے ہی لاؤنج میں پہنچا۔۔۔۔۔حرا کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر اسکی جان نکل گئ تھی۔۔وہ فوراً اسکی طرف لپکا تھا۔۔۔۔۔※...................................................※
ابراہیم چپ کر جاؤ ،میری جان، ہاشم کب سے اسےچپ کروانے کی کوشش کر رہا تھا جو کہ ناکام ہو رہی تھی۔
دیکھو،ابراہیم ؍ ماما بس آنے والی ہوں گی،اور پھر ہم بہت انجواۓ کریں گے مل کر،( میرا کوئ قصور نہیں تھا،اور نہ ہی ہے،پتہ نئ قدرت نے مجھے اس سے دوبارہ کیوں ملا دیا،وہ آ کیوں نہیں رہی ) کئ سوچیں اسکے دماغ میں گھیرا ڈالے ہوے تھیں۔اتنی دیر میں ڈور بیل کی آواز نے اسے اپنے طرف متوجہ کیا۔۔۔۔۔۔
معاذ کی پہلی بیل پہ ہی ہاشم دروازہ کھول چکا تھا،اور شمیم فوراً اندر کی طرف بھاگی تھی ،ابراہیم کے رونے کی آواز یہاں تک آرہی تھی۔۔۔۔۔
" تھینکس معاذ اب تم جا سکتے ہو" ہاشم نے یہ کہ کر دروازہ بند کردیا۔معاذ اب جاچکا تھا ۔۔۔
اووو۔ہ۔۔ہ ویلکم ،ویلکم،ویلکم،وہ پرجوش انداز مییں کہتا ہوا اسکی طرف بڑھا۔
"تمہاری ہمت کیسے ہوئ کہ تم میرے بیٹے کو مجھسے پوچھے بغیر ہاتھ بھی لگاؤ"وہ ابراہیم کو اٹھا کر باہر جانے کیلئے مڑی۔
" دیکھو سب آتے ہیں میرے پاس اپنی مرضی سے مگر جاتے ہیں،میری مرضی سے،سو اب تم تب جاؤ گی جب میری مرضی ہوگی،اور ویسے بھی تم تو میری بیوی ہو نا،پھر تو تمہیں روکنے کا مجھے پورا حق ہے"۔اسنے یہ کہتے ہوۓ ابراہیم کو اس سے لے لیا،جوکہ سو چکا تھا۔اسنے اسے سائیڈ پہ رکھے صوفے پر لٹا دیا۔۔
وہ خاموش ہوگئ تھی، بہت ڈرگئ تھی اسنے چپ چاپ ابراہیم کو اسکے حوالے کردیا،وہ جانتی تھی ہاشم بہت ضدی ہے جو کہتا ہے وہ کرتا ہے،اب اگر مجھےیہاں سے جانا ہےتو عقل سے کام لینا ہوگا۔۔۔۔
"ہاشم مجھے یہاں سے جانا ہے ،اب تمہارا مجھ پہ کوئ حق نہیں ہے،(وہ چلتے چلتے اس تک آئ)تم کونسے حق کی بات کرتے ہو،مجھے بیمار کو چھوڑ کر چلے گۓ تھے،اور فون پہ کہ دیا تھا کے اب میرا تمہارا رشتہ ختم،(اسکے آنسو بہ پڑے)تو اب کونسے رشتے کی خاطر مجھے یہاں روک رہے ہو،یہ بیٹا تمہارا نہیں ہے،(اسنے سوۓ ہوۓ ابراہیم کی طرف اشارہ کیا)یہ بس میرا ہے،جب اسکو ایک باپ کی ضرورت تھی تو،تب اسکا باپ کسی اور کےساتھ تھا،اسکے پاس نہیں تھا،(اسنے نفرت سے اپنی آنکھیں موند لیں)۔۔۔بولتے بولتے اسکے سامنے سارا منظر گھوم گیا تھا ۔۔۔۔۔جب میں اکیلی چیخ رہی تھی کوئ میری پکار سن نے والا نہیں تھا،(اسنے چیختے ہوۓ کہا)پتہ نہیں پھر میرے پڑوس کی خالہ الفت مجھے ہاسپٹل لے گئ تھی،تب تم کہاں تھے،جب میں مر رہی تھی ،کہاں تھے،؟؟۔۔ (اسنے پاس پڑا شیشے کا گلدان زور سے زمین پہ پٹخ دیا تھا)تم نے تو مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا،(وہ سانس لینے کو رکی )لوگوں کی باتوں نے جینا اور بھی مشکل کردیا تھا،اگر خالہ الفت نہ ہوتی تو میں واقعی اب تک مر چکی ہوتی،(چیختے ہوۓ وہ اب ٹیبل پہ رکھے گلاس توڑتی گئ)میں نے تم سے شادی نہیں کی تھی بلکہ تم نے کی تھی ،(وہ اسکی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوۓ کہ رہ تھی)مگر مجھے بیچ چوراہے میں چھوڑ دیا،اور میری عمر کتنی ہے ابھی ،جانتے ہو صرف انیس ۱۹ سال کی ہوں ،(وہ اب بالکل اس کے سامنے آچکی تھی) اور کہاں ایک معصوم ونازک لڑکی تھی اور آج حالات نے کیا کچھ سکھا دیا ہے،(اس نے اسکے کندھوں سے اسے جھنجھوڑا)اور اب خدا کا واسطہ ہے مجھے میرے بچے کے ساتھ رہنے دو،جیسے ہم رہ رہیں ہیں ،ہمیں جانے دو۔۔۔"
„بس یا ابھی اور بھی کچھ کہنا ہے" وہ اسے صوفے پہ بٹھاتے ہوۓ بولا۔
کیا تم مجھے ایک دفعہ معاف نہیں کرسکتی؟،بس ایک بار میں تم سے دور رہ نہیں سکتا،پلیز وہ اسکے ہاتھ پکڑکر زمین پہ بیٹھتے ہوۓ بولا،وہ اسے پتہ نہیں کیا کیا اپنی میٹھی باتیں سنا رہا تھا۔
عورت ذات عزت اور پیار مانگتی ہے۔اسے پیار سے مناؤ تو،وہ مان جاتی ہے ،ہاشم نے بھی ابھی کچھ ایسا ہی کیا تھا،وہ مان گئ تھی۔اور ہاشم ابراہیم کو اٹھاۓ،شمیم کو لئے اپنے بیڈ روم میں لے گیا تھا۔۔۔۔(یہ کتنی معصوم ہے)وہ بس یہ سوچ کر مسکرادیا۔۔۔۔۔۔۔※................................................※
"کرس وؤ نے فوراً اسکا ہاتھ پکڑا تھا اسکی کلائ پہ خون کی ایک پتلی سی دھار واضح نظر آرہی تھی، یہ۔۔۔کیا کیا تم نے؟۔ "ہیرا" ۔۔۔۔"وہ اسکے ہاتھ سے چھری کھینچ رہا تھا جو کہ حرا نے بہت زور سے پکڑی ہوئ تھی،اور وہ دے نہیں رہی تھی اسی اثنا میں ہادی اسے ڈھونڈھتے ہوۓ وہاں پہنچ چکا تھا،اسنے حرا کے ہاتھ سے فوراًچھری کھینچی تھی ،چونکہ یہ سب اچانک ہوا ،حرا کے ہاتھ سے چھری نکل کر اب ہادی کے ہاتھ میں جاچکی تھی،اسے لگی زیادہ نہیں تھی مگر لگ سکتی تھی،
"اٹھو یہاں سے " وہ اس کا ہاتھ کرس وؤ کے ہاتھ سے چھڑاتے ہوۓبولا۔،اور زبردستی اسے وہاں سے لےگیا ،۔
"دیکھو حرا۔۔۔۔۔پلیز تم ایسا کچھ مت کرو جس سے ہم نظروں میں آجائیں،میرے لیے تم مشکلات پیدا کر رہی ہو ،دیکھو میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتاہوں(اسنے اپنے ہاتھ جوڑے) ہمیں یہاں بس احسن انکل کی فائل ہی نہیں ڈھونڈھنی،۔۔۔بلکہ ان سب لوگوں کی فائل ڈھونڈھنی ہے جن کو گردہ ڈالا گیا ہے،اور تمہیں ہو کیا گیا ہے ابھی کل تو تم کہ رہی تھی کہ تم تنگ آچکی ہو اس بدلے سے اور تم یہ سب اب ختم کرنا چاہتی ہو،تو پھر یہ سب کیوں،؟"( وہ اس سے وجہ مانگ رہا تھا)اور یہ بدلہ تمہارا نہیں ہے یہ بدلہ ہر اس شخص کی موت کا ہے جنہوں نے اپنی جان اس ہاسپٹل میں بلاوجہ گنوائ ،یہ بدلہ اسلئے ہے کہ آئیندہ آنے والے لوگوں کو ہم بچا سکیں ،ہماری نیت صرف انصاف دلانے کی ہے۔۔۔وہ اسے سمجھاتے ہوۓ کہ رہا تھا،اس سے بتا رہا تھا کہ وہ اسکے راستے کی رکاوٹ بن رہی ہے۔
"ہادی! میں وہ پانا چاہتی ہوں جو کبھی مل نہیں سکتا،اور میں ہارنا چاہتی ہوں اس ہار کو محسوس کر کے میں تمہیں قبول کرنا چاہتی ہوں (مطلب کہ ابھی تم نے مجھے قبول ہی نہیں کیا ، تو تم نے مجھے اسی لئے ۔۔۔اوہ۔۔ہادی کی سوچیں کہاں تک جارہی تھیں) مگر میں ایسا کر نہیں پا رہی،اور تم جانتے ہو میں ایک ڈاکٹر نہیں ہوں،تمہاری بدولت میں یہاں ہوں ،مگر میں تمہارے ساتھ بند چکی ہوں( میں نے کب باند کر رکھا ہے) اسلئے میں کچھ بھی آزادانہ نہیں کر سکتی،( سب کچھ اپنی مرضی سے کرتی ہے افف۔۔لڑکیوں کیلئے جان بھی دےدو نہ تب بھی گلہ ضرو کریں گی)سو پلیز تم مجھے آزاد کردو ( ہادی کو ایک چکر سا آگیا )میں سیریز کہ رہی ہوں ، میں ایک انویسٹیگیٹر ہوں مجھے اپنے جیسے کو تلاش کرنا ہے جو میرے ساتھ چل سکے،تم ایک ڈاکٹر ہو ، ( ہادی کو برا لگا تھا ۔۔کیا ڈاکٹر ہونا غلط ہے)،میں اور تم ایک ساتھ رہ سکتے ہیں ، پر ہم دونوں چل نہیں سکتے ، اسنے آنکھیں جھکا کر سب کچھ کہ دیا تھا جو کل نہیں کہ پائ تھی پتہ نہیں اسکے دماغ میں چل کیا رہا تھا،اور وہ اپنے معصوم سے انداز میں کی گئ باتوں سے ہادی کو قتل کر چکی تھی ،۔
اور ہادی اچانک کرسی پہ سے اٹھا اور اسکے پاس آیا ،(حرا جانے کیلئے کھڑی ہو رہی تھی)"بس ایک منٹ میرے سامنے کھڑی رہو ،۔۔۔۔پھر جہاں چاہو جیسے چاہو تم جاسکتی ہو۔۔۔۔وہ یہ کہتے ہوۓ اسکے پاس آیا،اور اسے بڑے غور سے دیکھنے لگا،۔۔۔۔۔اور بس دیکھتا رہا۔۔۔۔ ہادی کا پرفیوم اسکے دماغ میں چڑنے لگا تھا،حرا سے وہاں کھڑا نہیں ہوا جارہا تھ مگر ۔۔۔۔وہ پھر بھی ضبط کر کے کھڑی تھی،( لوگوں کو ایک منٹ کی حقیقت نہیں پتہ،اور مجھے یہ ایک منٹ ہزار منٹ لگ رہے ہیں) وہ اپنے آپ کو ہادی کی ان نظروں سے بچانا چاہتی تھی،جیسے ہادی اسے دیکھ رہا تھا،وہ غصے میں نہیں تھا مگر بہت بکھرا سا ،ہارا سا ،ٹوٹا ہوا،دکھ رہا تھا،(اسنے اپنی آنکھیں بند کر لیں،کاش ہادی میں تمہیں بتا سکتی مجھے تمہیں کیوں چھوڑناپڑ رہا ہے )وہ ایک دم سے پاس پڑی کرسی پہ بیٹھ گیا تھا، اور بولا بھی تو کیا:"حرا ۔۔۔سنبھل سنبھل کے سنبھل سکو تو۔۔۔۔سنبھل سنبھل کے سنبھلنا۔۔۔۔آنے والے طوفان سے بچا نہیں سکتا،"اسنے بڑے دھیمے انداز میں کہا۔
"دیکھو زندگی صرف وہ نہیں ہے جو ہم گزار رہے ہوتے ہیں،زندگی وہ بھی تو ہے جو ہم گزارنا نہیں چاہتے،"
یہ کہ کر وہ جانے کیلیے اٹھا،مگر حرا کے الفاظوں نے اسکے قدم روک دیے۔۔
اسی طرح محبت وہ نہیں ہوتی جو ہم کسی سے کرتے ہیں ۔۔۔ہادی! ۔۔۔۔محبت وہ بھی ہوتی ہے جو ہم کسی کو دے نہیں سکتے۔۔۔۔۔۔مجبور ہوتے ہیں۔۔ (میں تمہارے ساتھ رہ کر تمہیں مصیبت میں نہیں ڈال سکتی،میں اپنے ساتھ ساتھ تمہاری زندگی داؤ پہ نہیں لگانا چاہتی،اسکی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے )اور وہ فوراً وہاں سے ڈاکٹر ولی کی وائف ڈاکٹر لبابہ کے پاس چلی گئ،وہ اس سے پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ کیوں اور کس لیۓ مجبور ہے،مگر پوچھ نہیں سکا ،اور فائل کو تلاش کرنے کیلئے ڈاکٹر ہاشم کی لائیبریری میں چلا گیا۔۔۔مگر جیسے ہی اسنے فائل والا کبڈ کھولا اچانک سے کمرے میں کوئ آیا اور اسنے پیچھے سے ہادی کو دبوچ لیا۔۔
※جاری ہے※
※................................................※
ESTÁS LEYENDO
Aakhri shola by Inahseya ABDULLAH season1
Romanceآخری شعلہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ بدلے کی آگ میں انسان خود کو بھی جلا ڈالتا ہے اور نفرت کرنے سے خود کے سوا کسی کو اذیت نہیں ہوتی۔