بادل بہت زور سے گرج رہے تھے،سرد ہوائیں بےقابو ہو گئی تھیں،جب بھی وہ روتی تھی آسمان بھی اسکے ساتھ روتا تھا،اندرحرا کے آنسو ٹوٹ ٹوٹ کہ بکھر رہے تھے،۔۔۔باہر آسمان سے بارش کے قطرے گر گر کربکھر رہے تھے۔۔
وہ بیڈ پہ ٹانگیں لٹکاۓ بیٹھی تھی،۔۔ہادی بیڈ کے پاس رکھے دیوان پہ بیٹھا تھا۔۔
"حرا ! پرانی باتوں کو یاد کرنے سے کچھ نہیں ملتا، پلیز تم ان سب کو بھول جاؤ، اور ایک اچھی سی زندگی گزارو۔۔۔""ہادی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے حرا کو چپ کرواۓ۔۔
"مجھے دو لوگ چاہئے ہیں، ایک ماما۔۔۔، اور ایک وہ شخص جو میرے پاس ہاسپٹل میں آتا تھا۔۔۔" بس ۔۔۔۔۔اور کچھ نہیں چاہئے۔۔
"ماما مل نہیں سکتی، تم سمجھتی کیوں نہیں ہو، ہاسپٹل والا آدمی بابا کے سوا کوئ نہیں جانتا۔۔۔۔اور وہ بتانےسے رہے۔۔۔"
"جو تمہارے پاس ہیں انہی تم چھورنا چاہتی ہو،۔۔۔جو پاس نہیں انہیں ڈھونڈھنا چاہتی ہو۔۔۔"
"میں بہت خودغرض ہوں،میں مانتی ہوں تمہارے مجھ پہ بہت احسان ہیں،۔۔۔"ابھی اسکی بات آدھی رہ گئ تھی۔۔۔"
"میں نے تم پہ کوئ احسان نہیں کیا،میں نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ بس ایک دوست کی حیثیت سے کیاہے،شوہر کا حق ابھی مجھے ملا نہیں ہے۔۔۔"(میں وہ حق کسی کو دینا بھی نہیں چاہتی)۔۔۔۔"
"میں اپنا کسی کو دوست نہیں مانتی،(تم کچھ نہیں مانتی دیکھنا ایک دن تم سب کچھ مانو گی)۔"ہادی برابر اسکے جواب اندر ہی اندر دے رہا تھا۔
"مجھے کوئ شوق نہیں ہے کہ کوئ میرے لئے کچھ کرے ،(تمہارے کہے بغیر سب کچھ ہو جاتا ہے اسیلئے)۔"
"تم مجھے احسان فراموش سمجھو ۔۔۔یا بےوفا دوست ۔۔مجھے پرواہ نہیں ہے" (پرواہ ہوتی تو آج تم اور میں ایک ساتھ ہوتے ،،جانتا ہوں تمہیں پرواہ نہیں پھر بھی میں بھینس کے آگے بین بجاتا ہوں)۔"
"میں یہ شادی اسلئے نہیں توڑ رہی کہ تم یہ نہ سمجھو کہ مجھے کسی اور کے پاس جانا ہے۔۔۔۔، (جانتا ہوں تمہیں یانگ یانگ کا ساتھ چاہئے)۔"
"تمہیں شوق ہے اسی میں بندھنے کا تو یہ شوق ہی رہے گا تمہارا ۔۔۔۔، (یہ شوق اگر اکیلے میرا ہوتا تو تم اسے توڑ چکی ہوتی ۔۔ثابت ہوتا ہے کہ یہ شوق تمہارا بھی ہے)۔"
"کیونکہ مجھے شادی کرنی ہی نہیں ہے۔۔۔۔(شادی ہو چکی ہے ۔۔اب تم خود کو انکار کرسکتی ہو مجھے نہیں)۔"
"ہم دونوں میں سے کوئ ایک ضرور مرے گا میری آگ میں۔۔۔(وہ میں مروں گا،تمہاری جان بچا کر ۔۔۔ایسا مجھے لگتا ہے)۔"
"اگر میں مرگئ تو مجھے خوشی نہیں ہوگی۔۔۔کیونکہ میرے کچھ کام ادھورے رہ جائیں گے۔۔(جیسا کہ ہاسپٹل والا آدمی)۔"
"مگر تم مر گۓ تو مجھے ملال نہیں ہوگا۔۔۔(اگر یہ تمہاری خواہش ہے تو میں تمہیں ملال ہونےبھی نہیں دو گا)۔"
"کیونکہ تم خود اس آگ میں جلنا چاہتے ہو۔۔۔(میں اس آگ سے تمہیں بچانا چاہتا ہوں)۔"
"میری منزل کے ۔۔جانے کے راستے میں مجھے بہت کچھ قربان کرنا ہے،بہہہت کچھ۔۔۔۔۔اسکیلئے ہمت چاہئے ہوگی جو کہ مجھ میں ہے۔۔"
ہادی کا دل چاہ رہاتھا وہ پھوٹ پھوٹ کہ رو دے ۔۔۔یہ پاگل لڑکی گرگٹ کی طرح ہر لمحہ بدل جاتی تھی۔۔۔کبھی ہادی پہ رحم،تو کبھی بے انتہا ظلم کے وار کرتی تھی۔۔۔
"ہاں مام میں آپکی درخواست رد کرتا ہوں۔۔۔وہ یہ کہ کر اونچا اونچا ہنسنے لگ گیا،۔۔۔"
"مجھے بھی تو بتائیں کون سی درخواست کہاں کی درخواست ۔۔۔۔"
لیوتاؤ کی رکی سانس بحال ہوئ۔۔۔۔۔(صد شکر کہ اسنے کچھ نہیں سنا)
"کچھ نہیں ۔۔۔۔۔چھورو یہ بتاؤ تم ابھی تک سوۓ کیوں نہیں۔۔۔"لیوتاؤ الٹااس سے سوال کرنے لگی تھیں،۔۔۔
میں بابا سے کچھ بات کرنے آیاتھا،۔۔آپ کی بات اگر پوری ہوگئ ہوتو اجازت دیں میں بات کرلوں اب؟ وہ برے اجنبی سے انداز میں بولا۔۔۔۔۔
"کیوں نہیں ۔۔۔۔یہ کہتے ہوۓ لیوتاؤ فوراً کمرے سے نکل گئ تھی۔۔۔
"بابا میں نے کہا تھا نہ کہ حرا کچھ گربر ہے،۔۔وہ لمحہ بھر کیلئے خاموش ہوا۔۔۔"
جلدی بولو کیاہواہے۔۔۔۔
بابا ڈاکٹر ولی نے بتایا ہے،کہ ۔۔۔حرا کوئ ڈاکٹر نہیں ہے اسکا ڈاکٹری سرٹیفکیٹ، جی۔آئ ایجینسی نے جاری کیا ہے ہے اور حرا جی۔آئ کا ایک رکن ہے،جو کہ اپکی انویسٹی گیشن کے لئے ہائر کی گئ ہے۔۔۔۔۔جی۔آئ والے جاننا چاہتے ہیں،کہ آپ کے پاس اتنی پراپرٹی کیسے ہے؟ اور انکو لگتا ہے کہ آپ پاکستان کے بجاۓ چائینہ کو فوقیت دیتے ہیں،سائنسی فوائد آپ پاکستان کے بجاۓ چائینہ کو دے رہے ہیں۔۔۔
ڈاکٹر ولی نے یہ سب انفارمیشن بہت مشکل سے حاصل کی ہیں۔۔۔۔
کرس وؤ نے بہت جلدی جلدی ایک ہی سانس میں سب کچھ بول دیا۔۔۔۔۔
"اسے پہلے ایک بہت بڑا جھٹکا لگا تھا۔۔۔پھر اسنے ایکدم نارمل ریایکٹ کیا۔۔۔۔
اووہ گریٹ۔۔۔۔۔۔ اب ہمیں محتاط رہنا ہوگا، پہلے سے زیادہ،۔۔۔۔تم نے کچھ نہیں سنا نہ ہی بتایا ہے کچھ ۔۔۔۔اوکے۔"
جی بابا ۔۔۔۔وان آن۔۔۔(خدا حافظ) کہ کر وہ کمرے سے جا چکا تھا۔۔۔
اوووووہ گاڈ یہ میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے،۔۔۔۔۔ایک پل بھی سکون کا نہیں ہے کیا۔۔۔۔
زندگی میں زندگی کزارنے والے کتنے کم لوگ ہیں،۔۔۔
کتنی عجیب بات ہے کہ زندگی میں اگر لوگ زندگی کو نہ گزاریں تو زندگی انہیں گزار دیتی ہے۔۔۔۔
وہ شیشے میں اپنے آپ کو دیکھنے لگا اور دیکھتا ہی گیا۔۔۔۔
"حرا۔۔۔اس نام کی طرح اسکی شخصیت کو بھی ہیرے کیطرح ہونا چاہئےتھا۔۔۔۔میری حرا کی طرح۔۔۔۔
حرا میں جانتا ہوں تم جہاں ہو، جیسی ہو،مجھے تلاش کر لو گی۔۔۔
حرا تم کہاں ہو؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم میرا ہیرا تھی تم کہاں کھو گئ ہو۔۔۔ تم نے مجھے زندگی کی روشنی دکھائ تھی اور خود زندگی کے اندھیروں میں کہاں گم ہو گئ ہو۔۔؟؟؟۔۔۔۔۔
وہ بولتے بولتے سوچوں میں گم ہوگیاتھا۔۔اسے آج حرا کے نام سے بیتے دن یاد آگۓ تھے۔۔۔۔
اسے آج بھی یاد تھا، کہ جب وہ اپنے بیٹے سے ملنے کیلئے لوٹا تھا، وہ حال،وہ اجرا گھر ،وہ ویران سا ناران، سب کچھ اجر گیا تھا۔۔
میرا ابراہیم کیسا ہوگا؟۔۔۔۔۔ شمیم کاش میں تم سے معافی مانگ سکتا،۔۔۔۔۔سمجھ نہیں آتا کہ زمان خان کو زمین نگل گئ یا آسمان۔۔۔۔
میں کیوں یہ سب سوچ رہا ہوں ان سب کے سوچنے سے کچھ نہیں ملنے والا،جو کھو گیا،سو کھو گیا اسے تلاش کرنے سے میں اپنے آپ کو بھی کھو دوں گا۔۔۔۔۔
بادل اتنی زور سے گرج رہے تھے۔۔ہادی ڈر گیا تھا۔۔"اب بسسس کردو سو جاؤ۔۔۔دیکھو ٹائم بہت ہوگیا ہے" وہ دیوان سے اٹھ کر اسکے پاس آتے ہوۓ بولا۔
اسنے حرا کے بیگ سے اسکی نیند کی میڈیسن نکالی مگر وہ شیشی بالکل ختم ہوچکی تھی۔۔۔۔ہادی کو اب سمجھ میں آیا وہ اتنا کیوں بپھری ہوئ ہے۔۔۔
"ہادی تمہارا پرفیوم اب محسوس نہیں ہو رہا،تمہیں کتنی بار کہا ہے اس پرفیوم کو اپنے آپ سے الگ مت کیا کرو"۔
واااؤ۔۔۔۔ایک انجان شخص کی مہک تمہیں یاد رہ گئ ۔۔۔اور میں جیتا جاگتا انسان تمہیں چبھتا ہوں، تمہیں بس وہ پرفیوم چاہئے،جسکی وجہ سے تمہیں وہ شخص یادآجاتا ہے،مجھ میں اور اس میں کیا فرق ہے؟،تم نے تو اسکی شکل تک نہیں دیکھی۔۔۔۔تمہیں پرفیوم چاہئے نہ (وہ اپنے بال غصے سے نوچنے لگا،،۔۔۔۔میں پاگل ہوجاؤں گا۔۔۔۔۔)یہ لو۔۔۔
وہ اٹھا اور ڈریسینگ ٹیبل کی طرف برھا۔۔اسنے اپنا خاص پرفیوم اٹھایا اور اس پرفیوم سے خود کو بھگونے لگا۔۔۔وہ کرتا جارہا تھا۔۔۔اور اسکی آنکھیں لال ہوگئ تھیں غصے کے مارے۔۔۔
"بس کردو۔۔۔"
حرا نے اٹھ کر اس کے ہاتھوں سے پرفیوم لے نے کی کوشش کی،
مگر اسکی مضبوط گرفت سے وہ پرفیوم نہیں لے پائ۔۔
ہادی نے پرفیوم کو زور سے زمین پہ دےمارا، پورا کمرہ خوشبو سے بھر گیا تھا،کانچ بکھر گۓتھے،۔۔۔ماحول حرا کے دماغ پہ اثر کرنے لگا تھا۔۔۔
ہادی! وہ بیڈ سے اتر کر اسکے پاس آئ جوتا پہنے بغیر۔۔۔
"تمہارے پاؤں میں یہ چبھ جائیں گے۔۔"
وہ اسے نظر انداز کرتے ہوۓ آگے بڑھی،اوراسنےہادی کو کندھوں سے پکر کر زور سےجھنجھوڑا۔۔۔۔
"یہ تم کیا کر رہے ہو،مجھے لگا تھا ایک میں ہی پاگل ہوں،"
"چھوڑو مجھ" ہادی غرا یا(حرا نے اپنی گرفت اسکے بازؤں پہ اور سخت کردی،آخر وہ،پولیس ڈیپارٹمنٹ سے لنک رکھتی تھی،طاقت تو ہونی ہی تھی)۔
"تم بہت سیلفیش ہو،تم نے ایک بار بھی میرے بارے میں سوچا،میں یہاں کیسے رہوں گا ،تمہارے جانے کےبعد،مگر نہیں۔۔۔۔تمہیں بس اپنی پرواہ ہے۔۔۔"
"ہاں میں سیلفیش ہوں،میں کیوں تمہارے بارے میں سوچوں گی۔۔۔۔۔۔وہ اسے کھینچتے ہوۓ بیڈ تک لائ۔۔۔۔(اسکے پاؤں میں ایک دم کانچ چبھ گیا تھا،اسے چبھن سے احساس ہوا کہ وہ بہت برا کانچ ہے مگر،وہ برداشت کر گئ۔۔۔۔)۔اور اسے بیڈ پر پٹخا۔۔۔۔
اسکے پاؤں کا درد اسقدر زیادہ تھاکہ اس سے کھڑا نہیں ہوا گیا،وہ فوراً بیٹھ گئ،۔۔
"کیا ہوا"۔۔۔۔ ہادی اپنی بات بھول گیا تھا۔اسے ایک دم شانت دیکھ کر۔۔
کچھ بھی تو نہیں۔۔۔۔
(میں اگرچلوں گی تو یہ پھر پریشان ہو جاۓ گا،میری چوٹ سے)
"افف ہادی سر درد ہو رہا ہے بہت(وہ اپنا سر دباتے ہوۓ بولی)۔"
"مجھے تھوڑا سا دبادو ۔۔۔نہ،۔۔۔۔چائینہ میں کون ہوگا دبانے کیلئے۔۔۔وہ بچوں کیطرح ضد کرتے ہوۓ کہ رہی تھی۔۔۔۔"
ہادی اسے کل کی طرح پھر دبانے لگا تھا،۔۔۔۔۔
وہ سوگئ تھی آج پھر دوائ کےبغیر۔۔۔۔
ہادی نے جب اسے سیدھا کرنے کیلئے،اسکی بیڈ سے لٹکی ٹانگیں اٹھا کر اوپر کرنا چاہیں تو،وہ اسکا پاؤں دیکھ کر حیرت زدہ ہو گیا۔۔۔۔۔۔
ہاشم جیسے ہی بیڈ پہ لیٹا،نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی،اسکے آنکھیں بند کرتے ہی ایک معصوم سی بچی کا چہرہ گھوم گیا اور وہ نہ چاہتے ہوۓ بھی ماضی میں چلاگیا۔۔۔
وہ ابرو کو آوازیں دے رہاتھا اونچی اونچی۔۔۔ابرو ہاؤس کے سارے کمرے خالی تھے،۔۔ویران گھر کو دیکھ کر اسکا دل بند ہورہاتھا۔۔۔ہاشم نے محلے والوں سے پوچھا یہاں کی فیملی کہاں گئ؟۔۔۔۔
"لوگوں نے بتایا کہ یہاں ایک لڑکی تھی۔۔اسنے پہاڑ سے چھلانگ لگا کہ خودکشی کرلی۔۔۔۔"
"کوئ کہ رہاتھا کہ ہم نے اسکی صبح لاش دیکھی تھی۔۔۔،"
"صاب ایسا لگتا تھا کہ اسے کسی نے دھکا دیا ہو۔۔۔۔"
"اسکا نام شائید شمیم تھا ۔۔۔ایک اور آواز آئ تھی۔۔۔اسے پولیس کے آنے سے پہلے ہی غائب کردیاگیا تھا۔۔۔"
باقی یہاں کہ لوگ راتوں رات کہیں چلے گۓ،ہم زیادہ نہیں جانتے۔۔۔۔۔
اسکی حالت اس چوزے جیسے ہوگئ تھی جو آخری سانسوں میں گر جاتا ہے،کہ اس سے سانس لینا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔۔۔
وہ پاگلوں کی طرح روتا رہا،۔۔۔اسے گھر سے کوئ ایسا ثبوت نہ ملا جو کسی جرم کی نشاندہی کرے۔۔۔
وہ سب کچھ سوچنے سے قاصر تھا ،۔۔۔۔کسنے کیا ۔۔۔کیوں کیا۔۔۔۔اسنے اپنے باپ کو فون کیا۔۔۔۔۔
"ڈیڈ مجھے کنگریٹس کہیےکہ میرا ایک عدد فضول سا بیٹا،اور اسکی ماں سب ختم ہوگۓ۔۔۔
آپ اپنے بیٹے کا بیک گراؤنڈ ریسیٹ کرنا چاہتے تھے نہ ۔۔۔۔،ہوگیا ۔۔۔۔۔آپ کو نہ ایک گرینڈ پارٹی دینی چاہئے۔۔
اسنے یہ کہ کر فون بند کر دیا۔۔۔۔
وہ سوچنے کی صلاحیت کھو چکا تھا۔۔۔
وہ اس جگہ آیا تھا جہاں سے شمیم کودی تھی۔۔۔۔۔
وہ کافی دیر وہاں بیٹھا رہا۔۔۔۔اسنے آس پاس نظریں دورائیں وہاں اس سے کچھ ہی فاصلے پہ ایک بچی بیٹھی تھی۔۔۔۔۔۔
اسنے بالکل نہیں سوچا کہ یہ بچی اکیلی یہاں کیوں بیٹھی ہے۔۔۔۔
وہ خود اذیت میں تھا۔۔۔۔۔رو رہا تھا۔۔۔۔
" مجھےاب کچھ نہیں چاہئے اس دنیا سے۔۔۔اسنے مجھسے میرا سب کچھ چھین لیا،۔۔۔(ایم۔۔ایم ٹاؤن)
وہ سوچ رہا تھا کہ شمیم کیسے کودی ہوگی ۔۔۔وہ بھی اس جگہ پہ کھڑا ہوا۔۔اور شمیم کی یادوں کے ساتھ ساتھ اسنے اپنے آپ کو ہواؤں کی ضد پہ چھوڑ دیا۔۔۔۔
وہ پہاڑسے گر ہی جاتا کہ اگر اسے پیچھے سے کوئ کھینچ نہ لیتا۔۔۔
جیسے ہی وہ پیچھے کو گرا اسنے جب اپنی نگاہیں اوپر کو اٹھائ ۔۔۔۔وہ وہی بچی تھی جو کچھ دیر پہلے اس سے کچھ فاصلے پہ بیٹھی تھی ۔۔وہ بالکل مبہوت سا اسے دیکھے گیا۔۔۔ہلکی گرے شیڈڈ آنکھوں میں ایک عجیب سی وحشت تھی۔۔۔وہ ڈر گیا۔۔۔۔
"پرنس۔۔۔پرنس۔۔۔۔ایسا نہیں کرو نہ۔۔" وہ اسے پرنس بلا رہی تھی ۔۔۔۔۔اسنے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتوں سے اسکےبازو پکڑ رکے تھے ۔۔۔،اور اسکی گویا منتیں کر رہی ہو۔۔۔
"میں کوئ پرنس نہیں ہوں ہٹو ۔۔۔۔"
"میرا نام ہاشم ہے ،جب میں مر جاؤں تو میرے باپ سے کہنا کہ ہاشم بہت اذیت سے گیا ہے اس دنیا سے۔۔۔۔۔۔۔"
پلیز پرنس ہاشم رک جاؤ۔۔۔۔۔۔مت کودو۔۔
ہاشم ایکدم اٹھ بیٹھا تھا۔۔۔۔ماضی کی تلخی اس سے سہی نہ گئ۔۔اسنے فوراً گلاس اٹھایا پانی کا اور۔۔۔ایک ہی سانس میں سارا پی گیا۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
ŞİMDİ OKUDUĞUN
Aakhri shola by Inahseya ABDULLAH season1
Romantizmآخری شعلہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ بدلے کی آگ میں انسان خود کو بھی جلا ڈالتا ہے اور نفرت کرنے سے خود کے سوا کسی کو اذیت نہیں ہوتی۔