ہوتی ہے سزا ہر خطا کی...

124 59 21
                                    

Episode...2part...4...........................................
صبح کی روشنی جیسے ہی اسکے کمرے میں پھیلنے لگی اسنے اپنی آنکھوں کو نیند سے آزاد کیا۔
اسکی سبز آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے بہت واضح ہو رہے تھے،اسنے پورے کمرے کا جائزہ لیا،جب اسنے اپنے دائیں طرف نظر دورائ تو ہاشم پہ اسکی نظر ٹھہرسی گئ،اسکا دماغ بہت بوجھل ہو رہا تھا،بہت سوچنے پراسکے ذہن میں حریم کا چہرہ گوم گیا۔۔۔۔،(میری حریم کا اچھے سے دیہان رکھنا ۔۔یہ ضدی بہت ہے اسکی چھوٹی چھوٹی باتوں کے ساتھ تمہیں بہت مزہ آۓ گا۔۔یہ تنگ نہیں کرتی بڑی معصوم بچی )،اسکے ذہن میں حوریہ کے الفاظ گونجے۔۔۔۔۔اب اسکے ذہن میں نرس کے الفاظ گونجنےلگےکہ" میم مجھے نہائت صدمہ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپکی پیشینٹ نے بہت زیادہ سٹریس لیا ہے جسکی وجہ سے انکا ہارٹ فیل ہوگیا۔
کیا۔۔۔۔ ہارٹ فیل مطلب؟
مطلب اب وہ اس دنیا سے جا چکی ہیں "۔۔۔۔۔۔
"نہیں۔۔۔۔۔نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔۔"وہ اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالتے ہوۓ چیخنے لگی،ہاشم کی آنکھ کھل گئ،
"کیا ہوا ہے؟" ہاشم بہت گھبرا کر اٹھ گیا تھا،۔۔۔
"ت۔۔ت۔۔تم نے مار دیا میری بہن کو ہاں تم نے مار دیا"۔وہ اسے مارنے لگی۔
"یہ۔۔یہ ۔۔تم کیا کہ رہی ہو؟ میں نے ایسا کیا کیا ہے؟ بولو " وہ اپنے آپ کو اس سے چھراتے ہوۓ کہ رہا تھا۔
"حوریہ کو مار دیا۔(اوووو تو وہ لڑکی اسکی دوست تھی ہاشم نے سوچا)اسکا کیا قصور تھا ۔۔۔یہی نہ کہ اسنے اپنی وفا کو داؤ پہ لگایا اور تم نے اسکی وفاداری کو ہی قتل کر دیا" (میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور یہ کبھی یقین نہیں کرے گی)اسنے بولتے بولتے بیڈ کے کراؤن کے ساتھ ٹیک لگاکر آنکھیں موند لیں،اور لمبے لمبے سانس لینے لگی،اسے لگ رہا تھا جیسے وہ اسکے آخری لمحے ہوں ،اچانک اسکا جسم ٹھنڈا ہونے لگا۔۔
ہاشم نے جیسے ہی اسکا ہاتھ پکڑا وہ برف جیسے ٹھنڈے ہو رہے تھے،۔۔۔۔"مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ تمہاری دوست ہے،اور ویسے بھی اسکی موت سے میرا کوئ لنک نہیں ہے وہ ڈپریشن کے زیرِ اثر تھی جو اسکی موت کی وجہ بنی۔۔"
"اچھا اگر تمہیں پتہ ہوتا تو کیا تم احسن کو زندگی دے دیتے۔۔۔ وہ پوری دنیا کی معصومیت اپنے اندر لیے گویا ہوئ،وہ یہ کہ کر اونچا اونچا رونا شروع ہوگئ،۔۔"تم ایسے ہو چکے ہو کہ تمہیں کوئ انسان ،انسان ہی نہیں دکھتا،اسکا جنازہ ہو گیا ہوگا،اور میں اسکی دوست،بہن ،وہ میرا سب کچھ تھی، میں۔۔۔میں اسکا چہرہ ہی نہیں دیکھ پائ،صرف تمہاری وجہ سے،اگر آج میں یہاں نہ ہوتی تو کم از کم اسکا چہرہ تو دیکھ لیتی نہ۔۔سب تمہاری وجہ سے ،،اور کیا کیا رہ گیا ہے زندگی میں میرے پاس جو تم نے چھین نا ہے رکو میں ذرا سوچ لوں۔۔۔۔۔وہ انگلیوں میں گن نے لگی۔۔۔نمبر ایک ماما۔۔۔۔۔نمبر دو بابا۔۔۔۔نمبر تین بہن بھائ۔۔۔گھر۔۔۔۔میری مسکراہٹ۔۔۔۔میری خوشیوں بھری زندگی۔۔۔۔مجھسے خود مجھے ۔۔۔۔میرا ہیزبینڈ۔۔۔۔۔میری بیسٹ فرینڈ۔۔۔۔اور اب بس میری زندہ لاش بچی ہےاور ایک میرا بیٹا۔۔۔۔ " وہ بولتی جا رہی تھی ،اور ہاشم کو لگ رہا تھا کہ یہ اب نیا کیس ہے جسکی معافی اسے اب نہیں ملے گی۔۔
"چپ کرو ایک دم چپ" وہ چیختے ہوۓ بولا۔
~※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※~
ڈاکٹر لبابہ کو کوئ پندرہ منٹ ہوگۓ تھے۔۔۔حرا سے پوچھتے پوچھتے کہ تمہیں کیا ہوا ہے اور وہ گم صم، چپ چاپ بیٹھی تھی ،
"میں ابھی آتی ہوں۔۔۔۔، یہ کہ کروہ اٹھ کر چلی گئ۔۔۔۔
وہ جیسے ہی باہرنکلی،دروازےپہ ہاشم کےکھڑے گارڈز نے اسے باہر جانے سے روکامگر وہ نہیں رکی۔۔۔۔"یہ گارڈز کیسے حفاظت کرسکتے ہیں انسان کی، مانا کہ ہاشم ایک سائنسدان ہے،۔۔اسکی جان کواتنا خطرہ ہوتا ہے۔۔، مگر انکو کیا پتہ اسکی جان کی پیاسی اسکےساتھ سارادن رہتی ہے"۔۔۔وہ سوچتے سوچتے ہلکی ہلکی بارش میں چل رہی تھی۔۔۔ہاشم ساراقصور تمہارا ہے،اگر تم نہ ہوتے آج میں خوش ہوتی اپنی زندگی میں۔۔۔ہادی اسکے لبوں سے اسکانام پھسل گیا،۔۔۔ہاں یاد آیا ہادی کہاں ہوگا،کیاکررہاہوگا۔۔ مجھے ایسا کرنے پہ اسکی ماما نے ہی مجبور کیاہے۔۔۔ظاہر سی بات ہے ہادی انکا بیٹا ہے اسیلئے انکووہ زیادہ پیارا ہے مجھسے۔۔۔۔اسکےذہن میں انکے الفاظ گھوم گۓ" بیٹا تم چلی جاؤ، دیکھو تم بھی مجھے پیاری ہو مگر میں تمہاری وجہ سے اپنے بیٹے کو کھونا نہیں چاہتی۔۔۔اسے پیار کی وجہ سے زندگی نہ ملے یہ مجھے گوارا نہیں،،ہاں اگر اسے زندگی کیوجہ سے پیار نہ ملے تو یہ میرے لئے چھوٹا غم ہے،،سو پلیز تم اسکی زندگی سے خود ہی چلی جاؤ ،۔۔میں اسکو سنبھال لوں گی۔۔۔" ان الفاظوں نے گویا اسکی جان ہی لےلی تھی۔۔اسے چلتے چلتے ایک جھٹکا سا لگا تھا وہ اپناتوازن برقرار نہ رکھ پائ اور ۔۔۔وہ گر ہی جاتی اگر کوئ پیچھے سے اسے پکڑ نہ لیتا۔۔دیہان سے چلو۔۔۔ایک تو مجھے سمجھ ہی نہیں آتااتنی رات کو باہر نکلنے کا مقصد کیا ہے،،،۔۔۔۔اگرکسی جانور نےنقصان پہنچا دیا نہ تو ۔۔وہ اسے سنبھالتے سنبھالتے۔۔۔اتنی باتیں سنا چکا تھا۔۔میرا پاؤں مُرگیاہے آہ۔۔ہ۔۔اس نے جب سیدھا کھڑا ہونا چاہا تو اس سےہوانہیں گیا۔۔۔
"دیکھو آرام سے آہستہ آہستہ سیدھا کرو حرا ٹھیک ہوجاۓ گا" اسنے روانی میں اسکا نام بھی بول دیا۔(اس شخص کی مہک کو وہ لاکھوں میں پہچان سکتی تھی۔۔۔۔ہادی)
حرا نے جب سر اٹھاکر اس شخص کے چہرے کی طرف دیکھا تو ۔۔کچھ لمحے کیلئے وہ شاکڈہوگئ۔۔ وہ ہادی نہیں تھا بلکہ ہاشم تھا۔۔۔۔س۔۔س۔سر آپ اسنے فوراً پیچھے ہونا چاہامگر ہو نہیں سکی کیوں کہ اگر وہ اسے چھوڑتا تو وہ گرجاتی۔۔۔۔
"کیا میں پوچھ سکتاہوں کہ اتنی سردی میں تم باہر کیا کر رہی ہو؟" وہ اسکی روئ روئ آنکھیں دیکھتے ہوۓ بولا،جیسےوہ کچھ جانچنا چاہ رہا ہو ،۔۔۔۔
"میں گھر کیسے جاؤں گی، میرے پاؤں میں بہت درد ہو رہا ہے ،اسنے بہت کوشش کی کہ پاؤں پہ زور ڈال سکے مگر ایسا نہیں ہو سکا۔۔۔اسکےپاؤں میں موچ آگئ تھی۔۔وہ اسے بازو سے پکڑے گاڑی تک لایا ۔۔" اگر مجھے میرے گارڈز نے بتایانہ ہوتا تو تم یہاں کیا کرتی بتاؤ مجھے ،موبائل بھی تم وہاں چھوڑ آئ ہو"۔۔۔وہ اسے گاڑی میں بٹھاتے ہوۓ ڈانٹ رہا تھا۔۔۔۔"میں جانتا ہوں کہ تمہارے لئے ہادی کو چھوڑ کر جانا بہت مشکل ہوگا مگر ہم نے جانا تو ہے نہ؟"وہ اسکی طرف دیکھتے ہوۓکہ رہا تھا۔۔۔ "پلیز مجھے گھر نہیں جانا پرنس ہاشم " ۔۔۔"پرنس ہاشم "۔۔۔اسنے اپنے منہ میں الفاظ دہراۓ وہ اسے اسکے نام سے پکار رہی تھی۔۔۔
ہاشم نے اچانک گاڑی کو بریک لگایا ،وہ اسکے گھر نا جانےکی وجہ سے نہیں رکا تھا وہ اسکے اس نام کے پکارنے سے رکا تھا۔۔۔۔[(پرنس ہاشم کہنے والی لڑکی اسے یاد آگئ تھی) تم نے مجھے اس نام سے کیوں پکارا؟ وہ پوچھنا چاہتا تھا مگر پوچھ نہیں سکا۔۔۔۔]
مگر اسنے اسے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ضرور، " وہ میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ کسی کے نام کے ساتھ پرنس لگایا جاۓ تو وہ بات مان لیتے ہیں۔۔۔۔(یہی بات اس لڑکی نے بھی کی تھی )بس اسیلئے میں نے گھر نہیں جانا تھا تو ۔۔۔مجھے لگا آپ ایسے بات مان جائیں گے۔۔۔"
اسنے لانگ ڈرائیو پہ جانے کے ارادے سے گاڑی موڑ لی۔۔۔۔
ایک لمبی خاموشی انکے درمیان پیدا ہوگئ ۔۔۔۔۔۔۔۔
~※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※~
بتاؤ مجھے میں نےکیا کیا ہے؟ کیوں تم انکی موت کا ذمہ دار مجھے ٹھہرا رہی ہو۔۔۔۔کیوں ۔۔"وہ ایک دم پاگلوں کی طرح چیختے ہوۓ کہ رہاتھا۔۔،ابراہیم شور سے اٹھ گیا اوروہ رونے لگ گیا۔
"تم نے کیا نہیں کیایہ تم مجھے بتاؤ؟" ۔۔۔وہ ابراہیم کو اٹھاتے ہوۓ بولی۔
"مجھے بس یہ بتاؤ انکی موت کا ذمہ دار میں کیسے ہوں۔؟اسنے اب کی بار تھوڑا آہستہ آواز میں کہا،ابراہیم کے سامنے وہ لڑائ کا ماحول نہیں بنانا چاہتا تھا،۔۔۔
تم نے حوریہ کی کڈنی نکال بھی لی اور احسن میں ڈالی بھی نہیں اور اسے مار دیا۔۔۔
اووووہ۔۔۔۔۔کتنا آسان ہے نہ یہ تمہارے لیۓ بولنا ۔۔۔میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔اور ویسے بھی میں ایسا کیوں کروں گا ۔۔۔مجھے کیا ملنا ہے ایسا کر کہ۔۔۔۔میری ابھی تو ڈاکٹر کی ٹریننگ ختم ہوئ ہے ۔۔۔اور میرا یہ پہلا آپریشن تھا۔۔۔آج کے دور میں مجھ جتنے لڑکے مزے کرتے ہیں اور میں اتنی چھوٹی سی عمر میں ڈاکٹر بن گیا ہوں۔۔۔۔مگر مجھے سمجھ نہیں آرہی تم کس تحت یہ کہ رہی ہو ۔۔کیا ثبوت ہے تمہارے پاس اسکا۔۔۔۔وہ بڑے دکھ بھرے انداز میں بولا۔۔۔۔
"تم نے یہ سب پیسوں کیلئے کیا ہے میں جانتی ہوں۔۔اور اسکا ثبوت تمہارے فون میں ہے جن کے ساتھ تم ڈیلینگ کرتے ہو۔۔میں گواہ ہوں تمہارے ان ثبوتوں کی۔۔۔میں خود تمہارا ایک ثبوت ہوں۔۔"وہ ابراہیم کو فیڈر دیتےہوۓ بولی۔۔
"اوووہ۔۔۔واقعی مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ مجھے پیسے ایسے لوگوں کے گردے بیچ کر مل سکتے ہیں"۔۔۔۔وہ پاگلوں کی طرح اونچا اونچا ہنسنے لگا۔۔۔"صحیح کہا تم نے،میں نے سب کچھ تمہارا لے لیا(۔۔کاش میں تم سے ملا ہی نہیں ہوتا۔۔اور کاش ابراہیم نہ ہوتا ہمارے درمیان ۔۔۔پھر بتاتا کہ میں نے کیا کیا ہے کیا نہیں۔۔)اب مجھے کیا سزا ملنی چاہئے؟ اور ہاں پولیس کے پاس تو تم جانے سے رہی کیوں کہ تمہیں اپنا بیٹا زیادہ پیارا ہے نہ"؟ وہ بولتے بولتےپاس بیٹھے،دودھ پیتے، ابراہیم کو پیار
کر تےہوۓ کہ رہا تھا۔۔۔۔اسکا انداز یکدم بدل گیا۔۔،شمیم بہت ڈرگئ تھی،اسنے فوراً ابراہیم کو اٹھانا چاہا مگر،ہاشم ابراہیم کو اٹھا چکا تھا اور اسے اتنا پیار کرنے لگا جیسے آج کے بعد وہ اسے مل ہی نہ سکے۔۔
"اب ناشتہ بھی ملے گا یا میں ایسا ہی بھوکا رہوں؟۔۔۔۔اور تمہارے لیکچر سنتا رہوں"۔۔وہ ابرہیم کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہ رہا تھا۔۔
میں لیکر آتی ہوں۔۔۔وہ یہ کہتے ہوۓ کمرے سے باہر نکل گئ،کچن میں جا کہ وہ بہت روئ مگر اسطرح سے کہ اپنے منہ پہ ہاتھ رکھنا نہ بھولی تھیِ۔۔اسنے روتے روتے ناشتہ بنایا۔۔کیسا نصیب ہے کہ میں آج حوریہ کے پاس ہونے کےبجاۓ یہاں اپنی قسمت کو رورہی ہوں۔۔
[قسمت انسان خودلکھتا ہے،جب ہاتھ میں قلم ہو اور صفحے خالی ہوں تو ہم انہیں ضائع کردیتے ہیں،انسان بہت نادان ہے اپنی قسمت کےساتھ خود ہی کھیل جاتا ہے اور کہتا ہے،جو قسمت میں تھا وہی ملا،خدا نے قسمت لکھناہمارے ہاتھ میں رکھا ہے،اور اسکو منظور کرنا اپنے ہاتھ میں،۔۔۔جیسے ایک انسان بادشاہ کو خط کچھ اسطرح سے لکھے کہ"مجھے تم سے کچھ نہیں چاہئے میں نے جو مانگا تم نے نہیں دیا ،اب بس مجھے یہ دے دو ۔۔۔بادشاہ کو اس پر غصہ آۓ گا کہ یہ مانگنے کا، لکھنے کا طریقہ ہے۔۔اور وہ اسکا خط رد کردے گا۔۔۔۔مانگنے کا بھی طریقہ ہوتا ہے،،جب ہمیں مانگنا نہیں آتا تو وہ ہماری قسمت کو کیسے منظور کرے گا۔۔۔۔کیسے۔۔۔بتاؤ ۔۔۔وقت نے سوال کیا تھا۔۔۔]
وہ ناشتہ کرچکاتھا۔اب وہ شیشے کے سامنے کھڑااپنی ٹائ سیدھی کر رہا تھا۔۔"میں تمہیں چھوڑکر نہیں گیاتھا۔۔تم میری ایک غلطی ہو جسے میں سدھارنا چاہتا ہوں، اب تم جہاں رہنا چاہتی ہو رہو،جسکے ساتھ مرضی رہو،یہ رہے تمہارےطلاق کے پیپرز" ،وہ دراز سے پیپرز نکال رہا تھا۔۔۔جسے دیکھ کر ۔۔۔۔۔اسکےپاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئ۔۔۔اور وہ مسکراتے ہوۓ اسکے پاس آیا اور اسے پین دیا یہاں پہ سائن کردو۔۔۔میں ۔۔۔ایک ۔۔۔قاتل ہوں۔۔۔اور۔۔وہ بھی۔تمہاری۔۔۔بہن کا سو مجھے کوئ حق نہیں ہے کہ میں تمہیں اور کوئ دکھ دوں۔۔۔بقول تمہارے ،کہ تمہارے پاس اب کچھ نہیں بچا،کھونے کیلئے۔۔اسنے لوہا گرم دیکھ کر وار کیا تھا۔۔اور ابراہیم کاخرچ تمہیں وقت سے مل جاۓ گا۔بھئ اب تمہارے خاندان کے گردے بیچے ہیں اچھا خاصامنافع جوہوا ہے،۔۔۔۔وہ بولتے بولتے موبائل پہ لگ گیا۔۔
اور اسنے فیصلہ کرنے میں ذرادیر نہیں لگائ۔۔۔اور سائن کردیے۔۔مگر صرف ایک لمحے کیلئے اسنے سوچامیرا کیا ہو گا؟۔۔ لیکن اسنے اپنے بیٹے کی جان کی خاطر اپنے آپکو اسوقت حقیقت میں ماردیا تھا۔
"ہوتی ہے سزا ہر خطا کی۔۔مگر
میں خود ایک سزا ہوں بے خطا کی"
اسے واقعی ایک سزا ہی تو ملی تھی مگر کس چیز کی اس خطا کی جو اسنے کی ہی نہیں تھی۔۔۔یہی دستورِ زندگی ہے۔۔۔
~※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※~
ہیلو ۔۔۔۔۔ہاں کرس وؤ میں لیٹ آؤں گا ڈاکٹر حرا کے ساتھ ہوں کچھ کام ہے۔۔۔کیا کہا ۔۔۔ہادی بھی چلا گیا۔۔۔۔ہاں اسکو شائید کوئ ضروری کام تھا۔۔۔۔ہاں میں جلدی آنے کی کوشش کرو گا۔۔۔باۓ۔
اسنے موبائل رکھتے ہوۓ کہا۔۔۔(مجھے سمجھ نہیں آرہا ہادی والا پرفیوم ہاشم کیسے لگا سکتا ہے) اسنے ہاشم کیطرف دیکھتے ہوۓ سوچا۔۔
"تمہیں پتہ ہے آج میں ساراناران گھوما ہوں ۔۔پتہ نہیں دوبارہ یہاں کب آؤں کب نہیں۔۔۔اچھا سنو تمہیں اب ہمت سے کام لینا ہوگا تمہیں شوق تھا نہ کہ تم میرے ساتھ چائینہ جاؤ۔۔۔میری ریسرچ دیکھنے ۔۔۔آج تک میری بیوی یہ نہیں دیکھ سکی ۔۔۔تم نے جب مجھسے کہا تھا اتنے معصومانہ انداز میں کہا تھا کہ جسکی وجہ سے میں تمہیں روک نہیں پایا۔۔۔۔"
"سر اگر لائف میں پیار یا اپنے گولز کو چننا پڑے تو ہمیں کسے چننا چاہئے؟"
"میں کہتا ہوں ہمیں پیار کو چننا چاہئے کیونکہ یہ قسمت والوں کوملتا ہے  اور  آپس میں جتنی مرضی رنجشیں ہی کیوں نہ آجائیں انہیں تحمل سے سلجھانا چاہئے۔۔۔"اسنے بڑے آرام سے کہا۔
"اور اگر ہم پیار کرنے والوں کو پیار کی غرض سے ہی چھوڑ دیں ۔۔،"
وہ روہانسی ہو گئ۔۔۔۔
مطلب وہ چونکا تھا۔۔
"مطلب یہ کہ اگر ہادی کو میرے ساتھ رہنے کیوجہ سے کچھ ہو جاۓ اور میں اس وجہ سے اس سے پہلے ہی دور ہو جاؤں تو کیا یہ صحیح ہے؟"۔۔۔۔ اسنے بہت سوچ سمجھ کر الفاظ کا چناؤ کیا۔۔۔۔
"ہادی کو کیوں تمہاری وجہ سے کچھ ہو گا؟" وہ اسے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولا۔
"جو میں نے کہا اسکا جواب دیں نہ آپ"۔۔۔وہ شیشے کے پار دیکھتے ہوۓ بولی۔۔۔ویسے بھی ہادی میرے لئے کوئ خاص نہیں ہے جو میں اسکیلئے یہ سب کروں میں نے بس ایک سوال کیا ہے۔۔۔مجھے وہ پسند ہے جو مجھے کبھی مل نہیں سکتا۔۔۔۔آ،۔۔ہ۔۔۔ہ
"حرا کوئ بھی کام پیسوں سے ہوجاتا ہے یہاں تک کہ محبت بھی پیسوں سے مل جاتی ہے۔۔" جو تمہیں چاہیے وہ تمہیں ضرور ملے گا۔۔۔۔۔اسنے ایسے کہا جیسے اسے واقعی اسے ملنے کایقین ہو۔۔۔۔۔۔(کب تک مجھسے بھاگو گی حرا۔۔۔۔کب تک اپنے آپ سے بھاگو گی۔۔وہ یہ سوچتے ہوۓ مسکرا گیا)
"تمہیں پتہ ہے ہم کبھی کبھی لوگوں سے بے پناہ نفرت کرنے لگتے ہیں ( ہاں جیسے میں تم سے کرتی ہوں)مگر صرف انہی سے جن سے ہمیں جنونی پیار ہوا ہوتا ہے۔۔۔(افف پاگل )صاف الفاظ میں ایسے کہ ہمیں کسی ایسے شخص سے پیار ہو جاۓ کہ ہمیں خود ہی یقین نہ آۓ ،ہم اس حقیقت کو جھٹلانے کیلئے اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔۔۔"۔(اوہ۔۔۔ہ۔۔کیا یہ مجھے جانتا ہے۔۔۔اسنے پریشانی سے سوچا) اسنے آخری لائن اسی کیطرف دیکھ کر کہی۔۔۔۔
"نہیں ایسا بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔۔"؟۔۔۔۔ وہ بمشکل سوال کر پائ۔
"کیوں تم نے ایسا نہیں کیا؟۔۔خود کے ساتھ۔۔" اسنے ایسے سوال کیا جیسے اسکے بارے میں سب کچھ جانتا ہو۔۔۔۔اسنے اسکے دماغ میں چلتے سوالوں  پہ ایک ضرب لگائ۔۔۔(میں ایک سائنسدان ہوں عقل والوں کو مات دیتا ہوں مات کھاتا نہیں ہوں مگر یہ لڑکی سمجھ نہیں پاۓ گی)
"مم۔۔م۔میں ۔۔۔میں ایسا کیوں کروں گی۔۔۔پلیز مجھے اس ٹاپک پہ بات نہیں کرنی۔۔۔۔۔"
"جیسے تمہاری مرضی مگر جو تم پانا چاہتی ہو وہ ملنا بہت آسان ہے مگر تمہارا اس چیز کو ایکسپٹ کر نا سب سے مشکل ترین کام ہے۔۔۔وہ مسکرا کر گویا ہوا۔۔۔" اسنے ایک اور ضرب لگائ۔۔
بس کردو پلییز۔۔۔۔۔وہ اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھتے ہوۓ زور سے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔※
ہادی نے جیسے ہی کبڈ کھولا اسے ایسا لگا کہ کسی نے اسے پیچھے سے پکڑ لیا ہو مگر یہ اسکا وہم تھا ۔۔۔اسے کچھ نہیں ملا تھا۔۔جیسے ہی اسنے کبڈ بند کرنے کیلیے ہاتھ بڑھاۓ کوئ چیز اسکے سر پہ آکر گری،اسنے دیکھاوہ ایک فائل تھی مگر جب وہ فائل اٹھا کر رکھنے لگا اسمیں سے کچھ گر گیا اسنے جلدی سے اٹھایاتھا، اسکو ایک پرانی سی تصویر ملی تھی جسے وہ لاکھوں میں بھی پہچان سکتا تھا۔۔۔۔
~※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※~
وہ جانے کیلئے جب گاری میں بیٹھنے لگی اسنے اپنے اس گھر کو آخری بار دیکھا۔۔۔دیکھتے دیکھتے اسکی نظر ہاشم پہ گئ۔۔وہ ابراہیم کو لاتے ہوۓ اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں کررہا تھا ۔۔،وہ ایک بیس سالہ لڑکا کہیں سے بھی ایک باپ،شوہر نہیں لگتا تھا،ابراہیم اسکی نادانی کی وجہ تھا،وہ مکمل سفید سوٹ میں تھا،لانگ کوٹ،اور تنگ پئجامہ،سفید شوز،وہ بہت وجیہہ شخص لگ رہاتھا،۔۔۔وہ اسکا معائنہ کرنے میں اتنی مگن تھی کہ اسکے پاس آنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔ہیلو! بس کرو دیکھنا۔۔۔ مجھے پتہ ہے میں بہت ہینڈسم ہوں۔۔۔وہ مسکراتے ہوۓ اسکیلئے دروازہ کھول رہا تھا۔۔
"زندگی تو بھی کیا چیز ہے،دولت والوں سےمحبت،اور محبت کرنے والوں سے دولت چھین لیتی ہے۔۔۔۔،(وہ گاڑی چلاتے ہوۓ سوچ رہا تھا)
"مجھے ۔۔زندگی ۔۔۔تم سے کوئ شکائیت نہیں ہے،یہ زندگی کی تعریف ہے اس میں ہر وقت کوئ نہ کوئ امتحان ہوتاہے ،ایک دن ایسا آۓ گا جب میں سارے امتحانوں سے گزر جاؤں گا،اور جب ہم آزمائش میں صبر سے کام لیں تو ہمیں انعام بھی بہت اچھا ملتا ہے،مجھے اب اس انعام کا انتظار رہے گا،اسکو کیا لگتا ہے کہ میں اس سے،اپنے بیٹے سےاور اس سب سے دور ہوکر میں خوش ہو جاؤں گا ۔۔۔۔وہ سوچتے سوچتےغصے میں آگیا۔۔۔۔
وہ اسے ایک ایسی جگہ لے آیا جہاں بہت اچھے اچھے گھر بنے تھے،اسنے اپنے کوٹ کےاندر والی پاکٹ سے چابیاں نکالیں،وہ گاڑی سے اتر کر چلتا چلتا ایک گیٹ کے پاس جا کہ کھڑا ہوا،اس گیٹ کے چوکیدار سے بات کرتے ہوۓ اسنے چابیاں اسے پکڑادیں،اور واپس گاڑی کی طرف آیا۔
"اترو ،چلو،۔۔۔۔وہ گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوۓ بولا۔۔"اوریہ گھر تمہارا ہے ،چاہے رہو یا نہ،اسکے پیپرز اندر لاک میں ہیں سب کچھ سیٹ ہے،۔۔۔۔۔یہ گھر میں نے اپنے بیٹے کے نام کیا ہے"۔۔۔۔وہ اسے گیٹ کیطرف اشارہ کرتے ہوۓ کہ رہاتھا۔
وہ بس اس گھر کو دیکھتے جارہی تھی۔۔۔آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔۔۔„اور ہاں یاد آیا تم نے کہا تھا نہ کے میں نے تم سے تمہاری ماما۔۔۔اور یہ گھر وغیرہ سب کچھ چھین لیا ہے۔۔۔لو میں نے سب کچھ تمہیں واپس لٹادیا۔۔(اسکی آواز گلے میں بند سی ہونے لگی۔۔)بس تم مجھے اپنا ایک برا خواب سمجھ کر بھول جانا(یہ تم سے ہو گا نہیں )،ابراہیم تمہاری خوشیوں کی وجہ بنے گا انشآاللہ۔۔۔میں تمہیں تمہاری دوست واپس نہیں دے سکتا،اور تمہاری خوشیاں ابراہیم کے ذریعے لٹا رہا ہوں۔۔۔،تمہارے ماما بابا سب اس گھر میں تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔۔اب مجھے جو کہنا،کرنا تھا وہ میں نے کردیا۔۔۔۔تمہیں کچھ کہنا ہے یامیں جاؤں؟" بولتےبولتے اسے لگا جیسے آج کے بعد وہ بول ہی نہیں سکے گا۔۔۔اسنے جیسے ہی مڑ کر پیچھے دیکھا وہ گاڑی سے ٹیک لگاۓ،آنکھیں بند کئے،کھڑی تھی،اسکے ہونٹ سفید ہو رہے تھے،۔۔۔۔وہ ابھی اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ اسے ایک چکر سا آگیا ،اسنے بولنے کیلئے لب کھولے مگر لبوں نے ساتھ نہ دیا۔۔۔اوراسکے زمین پہ گرنے کی آواز سے شمیم ہوش میں آئ اور اسکی طرف لپکی۔۔۔جو کہ بےہوش ہوگیا تھا۔۔،چوکیدار بھی بھاگا بھاگا آیا۔۔" اٹھو۔۔۔ہاشم ۔۔۔۔اٹھو۔۔۔وہ اسکے منہ پہ ہلکے ہلکے تھپڑ مارتے ہوے چلا رہی تھی۔۔۔چوکیدار نے ہاشم کے منہ پہ پانی کے چھینٹے مارے۔۔۔مگر وہ ہوش میں نہیں آرہا تھا۔۔۔"اٹھاؤ میرے ساتھ انکو" وہ چوکیدار سے کہتے ہوۓ اسے اٹھانے لگی۔۔۔۔۔ابرہیم گھبرا کر رونے لگ گیا۔۔۔۔وہ ابراہیم کو ہی بھول چکی تھی نظر آرہاتھا تو وہ بس ہاشم تھا۔۔۔(ہاشم مجھے پتہ ہے تم مجھسے دور نہیں جاسکتے۔۔۔۔اور نہ ہی میں تم سے۔۔۔مگر اب ہم ایک ہو نہیں سکتے)اسکے آنسو بہتے رہے۔۔۔جنہیں اب ہمیشہ بہنا تھا۔۔۔۔۔۔۔
~※※※※※※※※※※※※※جاری ہے※※※※※※※※※※※※※※※※~
اسلام علیکم! امید ہے آپ سب بخیریت ہوں گے ... آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ مجھے بتائیں کہ کیسا چل رہا ہے ناول... اسمیں کچھ کمیاں ہیں،خامیاں ہیں،اچھا ہے ،بہت اچھا ہے۔۔۔۔کچھ تو بتائیں۔۔۔آپ لوگوں کےسپورٹ کرنے سے ہی یہ ناول آگے بڑھے گا انشآاللہ۔۔اچھالگے تو ووٹ ضروردیجئے،نہ اچھے لگے تو کمی بتائیے۔۔
میری دعا ہے آپ لوگوں کو اللہ تعالی آپکی منزلوں تک باآسانی پہنچاۓ،ہمیشہ بروں کی عزت کرنے والا اور اللہ تعالی کا فرمانبردار بناۓ۔۔اٰمین۔۔۔اناہسیہ عبداللہ🙂

Aakhri shola by Inahseya ABDULLAH season1Where stories live. Discover now