ابراہیم گیند سے کھیلتے کھیلتے کمرے سے باہر چلا گیا تھا۔اب اسکی گیند اس سے بہت دور چلی گئ تھی۔وہ اپنی گیند کے پیچھے پیچھے جارہا تھا کہ اچانک سامنے سے آتے ڈاکٹرسے وہ ٹکرا کر گر پڑا۔
اففف ڈاکٹر نے عجلت بھرے انداز میں اسے پیچھے کیا۔ابراہیم نے ڈاکٹر کی ٹانگیں پکڑلیں۔
"پکڑو اسے" اسنے پاس آتی نرس سے کہا۔
اوہ۔۔۔ہ۔۔ سوری سر۔اسنے فوراً بچے کوپکڑ کرپیچھے کیا۔ابراہیم نے زور زور سے رونا شروع کردیا۔جیسے ہی ڈاکٹر نے اس روتے ہوۓ کو دیکھا ایک دم سے اسے اس بچے پہ بہت ترس آیا تو وہ گھٹنوں کہ بل بیٹھ کر اسےچپ کروانے لگا،بچے کی گرین آنکھیں دیکھ کر ڈاکٹر کو کوئ یاد سا آگیا گرین آنکھوں والا،ابراہیم چپ کرنے کے بجاۓ اور اونچا اونچارونے لگا اور ماما ماما پکارنے لگا۔آپ کا نام کیا ہے؟ اسنے بچے کو پیار کرتے ہوۓ پوچھا،میرا نام ابراہیم ہاشم ہے ۔ بچے نے برے معصومانہ انداز میں بتایا۔
شمیم کو جیسے ہی ابراہیم کے رونے کی آواز آئ وہ بھاگی بھاگی آئ۔
"ابراہیم میں کب سے آپکو ڈھونڈ رہی تھی بیٹا"اسنے یہ کہتے ہوۓ ابراہیم کاڈاکٹر کے ہاتھوں سےاسکا بازو پکڑا،وہ رو رہی تھی،جسکی وجہ سےاسکا گلہ بیٹھ گیا تھا،اسنے چہرے پہ نقاب کر رکھا تھا۔
"آپ پلیز دیہان رکھیں ایسے بچہ گم بھی ہو سکتا ہے"۔ ڈاکٹر نے کھڑے ہوتے ہوۓ ہدائیت دی۔
"مجھے پتہ ہی نہیں چلا کب یہ۔۔۔۔"اسنے یہ کہتے ہوۓ جب اپنی نظر اٹھائ تو سامنے ہاشم تھا،وہ اسکی آواز نہیں پہچان پائ تھی،اسےحوریہ کی ٹینشین لگی تھی،جوکہ آپریشن تھیٹر میں موت اور زندگی کی کشمکش میں تھی۔
ہاشم نے جب اسے دیکھا،تووہ شاکڈ ہوگیا،وہ اسکی گرین آنکھیں لاکھوں میں بھی پہچان سکتاتھا۔
"تم؟" وہ ابھی بھی جیسے اک خواب کیسی کیفیت میں تھا،
"ہاں میں ۔۔۔۔اور میں اپنے بیٹے کیلیۓ یہاں آئ ہوں،مجھے پتہ ہوتا کہ تمہاری شکل دیکھنے کو ملے گی تو میں یہاں کبھی نہیں آتی" اسنے زہر خندہ الفاظ میں کہا۔یہ کہتے ہوۓ وہ فوراً ابراہیم کولیۓ باہر کی جانب چلدی۔
اورہاشم پیچھے سے پکارتا رہا،مگر اسنے ایک نہیں سنی۔
وہ جیسے ہی ہاسپٹل سے باہر آئ اسنے زور زور سے رونا شروع کردیا،
آسمان پہ بادل چھاۓ ہی رہتے تھے وہ آسمان کیطرف منہ کرتے ہوۓ بولی آج ہم مل کر روئیں گے،وہ ابراہیم کو لیکرایک بینچ پہ بیٹھ گئ ،ابراہیم کو بیگ سے ایک بسکٹ نکال کر دیا ،ابراہیم کھانے میں مگن اور وہ رونے میں۔
※...................................................※
حرا کے آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوۓ باہر جانے کیلیۓ مڑی ۔شمیم نے بہت روکا مگر وہ نہیں رکی۔حرا لاؤنج کا دروازہ کھول رہی تھی جو کہ شمیم نے پہلے ہی لاک کر دیا تھا ،انکو یہ فکر تھی کی حرا غصے میں کچھ کر نہ بیٹھے۔وہ غصے سے ہینڈل کو زور زور سے گھما رہی تھی۔۔۔۔۔۔
ہادی بہت تیز گاڑی چلا رہا تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ بنا بنایا کھیل بگڑ جاۓ۔"انسان سوچتا کچھ ہے ہوتا کچھ ہے،کرتا کچھ ہے ہوکچھ جاتا ہے،ایسا کیوں ہوتا ہے؟۔وہ اپنے بال مٹھی میں زور سے پکڑتے ہوۓسوچ رہا تھا۔جیسے ہی اسنے گاڑی گھر کے سامنے روکی اسے بڑا عجیب سا محسوس ہوا اسنے اپنے ساتھ والے گھر کیطرف مڑ کر دیکھا جو کہ ویران ہو چکا تھا۔وہ جیسے ہی اندر آیا تو دروازہ لاکڈ اور ہادی شاکڈ۔
شمیم نے ہادی کیلیۓ جیسے ہی دروازہ کھولا حرا ایک دھارتی ہوئ شیرنی کیطرح غرائ۔
"تم مجھے کیوں چھوڑ کر گۓ تھے؟، اگر آج میں وہاں ہوتی تو میں اس شخص کو بچا لیتی، اوروہ آج زندہ ہوتا۔بتاؤ مجھے ۔۔۔۔۔"وہ اسکو کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ رہی تھی۔
"دیکھو ریلیکس ہو جاؤ دکھ مجھے بھی ہے ،وہ کسی کا باپ ہوگا ،کسی کا بھائ،حرا ہم کچھ نہیں کرسکتے تھے،وہ پیشنٹ ڈاکٹر ہاشم کا تھا ،میں یا تم ہم اسے نہیں بچا سکتے تھے"۔اسنے اسکے ہاتھ اپنے کندھوں سے نیچے کرتے ہوۓ کہا۔
"نہیں ہادی میں نے آج ڈاکٹر ہاشم کو رنگے ہاتھوں پکڑنا تھا جو کہ انسانی زندگی کو کچھ سمجھتا ہی نہیں ہے،آج میں نے سارے ناٹک سب کچھ ختم کر دینا تھا"۔وہ بڑے افسردہ سے لہجہ میں کہتی ہوئ پیچھے کو چل رہی تھی۔
"کیا۔۔۔۔ا۔۔؟؟؟ تم ایسا کبھی نہیں کرو گی جب تک میں نہ کہوں"۔وہ غراتے ہوۓ بولا۔
"میں اب تھک گئ ہوں۔اور اسے زندہ نہیں دیکھنا چاہتی"۔اسنے غصے سے چیختے ہوۓ کہا۔
"تم نہیں جانتی وہ کتنا گھٹیا قسم کا انسان ہے سو انسان تو گھٹیا نہیں ہو سکتامگر اسکی عادات گھٹیا ہیں،وہ تمہیں کبھی بھی کچھ بھی نقصان پہنچا دے گا اگر اسے ہمارے پلانز کی تھوڑی سی بھی خبر ہوگئ،۔
اب وہ چایئنہ جا رہا ہے سو میں اسکے پیچھے پیچھے جاؤں گا،میں آج یہی کنفرم کرنے گیا تھا،مجھے کرس وؤ نے بتایا ہے کہ وہ بھی واپس جارہا ہے ہاشم کے ساتھ۔
ابھی تمہیں کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔تم یہاں ماما کے پاس رہو۔اپنی صحت کا خیال رکھو"۔ وہ اسے سمجھاتے ہوۓ بولا۔
میری صحت کو بھلا کیا ہونے لگا میں بالکل پرفیکٹ ہوں الحمدللہ۔اسنے چڑتے ہوۓ کہا۔ وہ اسکی بات اگنور کرتا ہوا ماما کیطرف مڑگیا۔
"ماما! میری تیاری کر دینا میں نے کل نکلنا ہے چایئنہ کیلیۓ " وہ یہ کہ کر صوفے پہ گرسا گیا۔
"اووووو۔ہ۔ہ حرا!،،،ویسے ایک بات بتاؤتمہیں کیسےپتہ تھاکہ اس پیشنٹ کو گردہ نہیں ڈل سکتا"؟ وہ جیسے کچھ یاد آنے پر فوراً اٹھ کر بیٹھا ۔
حرا کا غصے کے مارے برا حال تھا چائینہ تو اسنے جانا تھا اب ہادی اسکو نہ جانے دینے کے ساتھ ساتھ خود جارہا تھا۔
حرا کا کوئ جواب نہ پاکر ہادی اٹھ کراسکے پاس رکھے دوسرے صوفے پہ حرا کے پاس جا کے بیٹھ گیا۔
"اب بتاو جو میں پوچھ رہا ہوں۔اور ٹھیک سے بتاؤ"۔اسنے اسے متوجہ کرتے ہوۓ کہا۔
"میں نہیں بتاؤں گی تمہارے سارے جواب دینا میرا فرض نہیں ہے"۔اور وہ اٹھ کر سیدھا سیڑھیوں کیطرف بڑھ گئ۔
"ایسا نہیں ہو سکتا۔۔ میں کیا کروں ؟،۔۔مجھے جانا ہے ہادی کو نہیں۔۔،میں بات کرتی ہوں ہادی سے"۔ وہ ابھی سیڑھیوں میں ہی تھی کے فوراًپلٹی ۔ہادی کے پاس آہستہ آہستہ چلتے ہوۓ پہنچی ۔
"ہادی !میں بھی تمہارے ساتھ چلوں؟"۔ اس نے بہت ہمت کرتے ہوۓ کہا۔
"نہیں ! حرا تم نہیں جاؤ گی ،وہاں کبھی بھی تم خوش نہیں رہو گی۔ اور چایئنہ کو تم سے دشمنی بہت زیادہ ہے ہر بار تم کسی نہ کسی مصیبت میں پھنس جاتی ہو،ویسے بھی میں اکیلا ٹھیک ہوں وہاں تمہارے ساتھ مشکل ہوگی۔اسنے بڑے سنجیدہ رویے میں کہا۔
موبائل کی کب سے بجتی ٹیون نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔
"ہیلو سر۔۔۔۔۔،جی ۔۔۔۔جی ۔۔۔۔ہم آجائیں گےانشآاللہ۔۔جی ۔۔۔باۓ۔۔۔"وہ موبائل پہ کسی سےبات کررہا تھا۔جیسے ہی اسنے موبائل بند کیا ،حرا اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"وہ ہاشم کی کال تھی آج رات انہوں نے سب کو ڈنر پہ انوائٹ کیا ہے ۔کل چند لوگ تھے،ہم نہیں گۓ تھے مگر آج بہت بڑی پارٹی ہے لیوناران ہاسپٹل کی ملکہ لیو تاؤ دے رہی ہیں"۔وہ برا مزہ لیتے ہوے بول رہا تھا۔
لیوتاؤ چی باۓ کا اصلی نام تھا،ہادی کو لیوتاؤ بےحد پسندہےاسلیۓکہ لیوتاؤ ہاشم کو بخشتی نہیں ہر وقت کلاس لیتی رہتی ہے۔ملکہ لیوتاؤ ہادی نے نام دے رکھا ہے۔
"مجھے کسی پارٹی وارٹی میں نہیں جانا میں کچھ ٹھیک نہیں ہوں اسلیۓ"۔حرا نے بڑا عجیب سا منہ بنا کر کہا۔
"اوہ اچھا بھی تو تم کہ رہی تھی میری صحت اچھی بھلی ہے اب کیا ہوا؟" وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔
"ہاں تم نے بھی تو ٹھیک ابھی چند سیکینڈ پہلے کہا کہ مجھے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مجھے ماما کے پاس گھر میں رہنا چاہیے" وہ بھی حساب برابر کرتے ہوۓ بولی۔
وہ چلتا چلتا سکے پاس آیا ۔وہ آگے آگے آرہا تھا اور حرا پیچھے پیچھے ہوتی جارہی تھی کہ یکدم اسکے قدم رک گۓ کیونکہ پیچھے دیوار تھی،وہ اور پیچھے نہیں جا سکتی تھی۔
"اچھا تو وہ تم کیا کہ رہی تھی کہ نہیں جانا؟" اسکے پاس آنے سے اسے بہت ڈر لگتا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ پاس آکر کچھ ایسا کرتا تھا کہ وہ اسکی بات مان جاتی تھی۔
"مجھے نہیں ڈرنا اس سے وہ اپنے آپ کو سمجھاتے ہوۓ پورے کانفڈنس سے کھڑی رہی گویا اسکے پاس آنےسےاس پہ کچھ اثر نہ ہورہا ہو"مگر حقیقت میں اسکی جان تو سمجھو نکل ہی گئ تھی مگر کانفڈنس برقرا بھی تو رکھنا تھا۔"ہاں میں کہ رہی تھی کہ مجھے نہیں۔۔۔۔۔اسکی بات ابھی یہاں تک آئ تھی کے وہ اور آگے کو بڑھا۔اچانک وہ خاموش سی ہوگئ اورہادی کو پیچھے کرتے ہوۓ تیزتیز قدموں سے سیڑھیوں کیطرف بڑھی۔
(ویسے یہ میری بات مان کر جاتی ہے آج کچھ بھی کہے بغیرکیسے چلی گئ؟) وہ سوچ رہا تھا۔
"تو پھر جانا ہے یا میں تمہیں ریڈی کرنے آؤں"۔ وہ شرارت سے بولا۔
"نہیں میں ہو جاؤں گی ریڈی"۔وہ بڑی ٹیڑھی سی شکل بناتے ہوۓ بولی اور یہ جا وہ جا۔۔۔۔۔۔۔
※................................................※
ہاسپٹل کی دوسری منزل میں بنے آپریشن تھیٹر کی کھرکی میں کھڑا ہاشم اسے ہی دیکھ رہا تھا،"کیا تھا اگر تم مجھے میرا بزنس آرام سے چلانے دیتی،زندگی کتنی اچھی گزر رہی تھی،یہ میرا بیٹا ہے ابراہیم " اسنے ابراہیم کا کانام اپنے لبوں سے بڑے نازک طریقے سے نکالا تھا،یہ میرا ابراہیم ہے اور یہ مجھ جیسا ٹیلینٹیڈ بھی ہوگا،اسکا دل چاہ رہا تھا وہ ابراہیم کو اپنے ساتھ لپٹا،ے اور بے حد پیار کرے مگر ابھی ،اسکا آپریشن روم میں ہونا بہت لازم تھا۔
"سر وہ دیکھیں " نرس نے حوریہ کو لگے پائپس کیطرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔
"مجھے سمجھ نہیں آرہی کے میں نے تم لوگوں سے کہا تھا کہ آج کے دن اسے بےہوش رکھنا ہے اور یہ اپنے سارے پائپس خود کیسے اتار کر باہر جا سکتی ہے روم سے تم لوگ کہاں تھے؟ دیکھو کتنا اس عورت کا نقصان ہوگیا ایک اسکا شوہر بھی اس دنیا سے جا چکا ہے اور اب اسکی حالت دیکھو،"۔وہ غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔
سر انکو ہوش آگیا،نرس نے خوش ہوتے ہوۓ کہا۔
"احسن اب اس دنیا میں نہیں ہے؟ کیوں ڈاکٹر میرے سارے ٹیسٹ ہوۓ تھے سب کچھ کلئیر تھا پھر وہ کیوں چلا گیا،اس سے بس ایک بار بات کروا دو "۔ وہ الفاظ توڑ توڑ کربات پوری کر رہی تھی۔ دیکھیں ابھی "آپ بالکل سٹریس نہ لیں آپ کی صحت پہ برااثر پرسکتا ہے اسکا۔"
نرس نے بڑے پیار سے اسے کہا،
"میرے احسن کاآپریشن ہاشم نے کیا ہے نہ؟ اللہ سے دعا کرتی ہوں ہاشم تم بھی تڑپو جیسے میں تڑپ رہی ہوں ، میرے ہاتھ سے احسن چلا گیا،خدا کرے تمہاری اولاد بھی تمہارے ہاتھوں جاۓ،تمہاری ساری زندگی برباد ہو جیسے میری ۔۔۔ابھی اسکے الفاظ پورے نہیں ہوۓ تھے کہ وہ بے ہوش ہوگئ تھی۔۔۔۔۔۔اچانک سانس کاسگنل دینے والی مشین سے ٹوں ٹوں کی آواز نے سب کو ہلا دیا تھا ،آپریشن تھیٹر کا منظر کچھ یوں تھا۔
اسے کرنٹ لگایا جارہا تھا،کبھی اسکے سینے کو دبایا جارہا تھا مگر ایسا کرنے سے اسے زندگی ملنی ہوتی تو آ ج تک کوئ مرتا ہی نہیں،
"لیوشی از ڈیڈ" ہاشم یہ کہ کر باہر نکل گیا تھا،اور کچھ ڈاکٹرز کے آنکھوں میں آنسو تک آگۓ تھے،وہ الگ بات تھی ان کے سامنے روزانہ ہزارو مرتے تھے مگر آج یہ لڑکی ٹینشین سے اس دنیا سے چلی گئ تھی اسکا ہارٹ فیل ہوگیا تھا۔
※.......................................※
"... ہاۓابرو کیسے ہو؟"کرس وؤ نے موبائل پہ کسی سے بڑے سنجیدہ الفاظ میں کہا۔
"میں کیسا ہو سکتا ہوں ؟ اچھا بتاؤ کچھ پتہ چلا؟"دوسری طرف سے آواز آئ۔
"نہیں یار کچھ خاص انفارمیشن نہیں ملی مگر،مجھے نہیں لگتا کے ہادی اور حرا ایک دوست سے زیادہ کچھ رشتہ رکھتے ہوں،میں نے آج حد کردی تھی ہادی سے کئ بار پوچھا کے ہیرا کہاں ہے،مگر اسنے کہا کے وہ بیمار ہے۔۔۔جیسا کے تم نے کہا تھا۔۔۔میں نے بار بار پوچھا شائد کے ہادی کو غصہ آۓ تو مجھے ہیرا کے بارے میں کچھ تو بولے گا،مگر نہیں اسنے کچھ بھی نہیں کہا،یار میں اپنا کریکٹر ہیراکی نظرمیں پہلے ہی بہت خراب کر چکا ہوں۔آج لاسٹ ڈےہے ہمارا۔اور کوئ خدمت ہوتوبتاؤ؟"اسنے جلدی جلدی بتاتے ہوۓ کہا۔
"ایسا کیوں ہوتا ہے جوبلاوجہ چلاجاتاہے ۔۔۔وہ رہ جانے والوں کیلیۓ بہت بڑی وجہ بن جاتا ہے..."
"جانے والابےمقصدہو کر نکلتا ہے ۔۔۔مگر رہ جانے والوں کیلیۓ وہی ایک مقصد بن جاتا ہے..."
"جانے والا ویران وخشک آنکھیں لیکر جاتا ہے ۔۔۔مگر رہ جانے والوں کی آنکھیں ہمیشہ کیلیۓ تر کردیتا ہے..."
"بے قدر ہو کر جانے والا ۔۔۔کیوں رہ جانے والوں کیلیۓ باقدر بن جاتا ہے..."
"فریبی،بےوفا،گنہگار،بےنمازی،جانے والا ۔۔۔کیوں رہ جانے والوں کی نیک دعاؤں میں سما جاتا ہے... کیوں ۔۔۔اسکا جواب ہے تمہارے پاس؟؟" نہیں نہ،مجھے اسکا جواب ڈھونڈھنا ہے۔۔۔۔
"اگر جانے والے کی اتنی قدر رہ جانے والے اسکے پاس ہوتے ہوۓ کریں تو یہ زندگی جنت نہ بن جاۓ... مگر حقیقت ہے قدر ہمیشہ اسکی ہوتی ہے جو پاس نہیں ہوتا۔پاس پڑا ہیرا ہمیں کوئلہ دکھتا ہے جسکی کوئ حیثیت نہیں ہوتی۔مگر دور جانے والا کوئلہ بعد میں ہیرا کیوں دکھتا ہے؟؟ کوئ بتا ۔۔۔۔۔"اسے بولتے بولتے سانس چڑھ گیا تھا۔
"مجھے بس "حرا"چاہیۓ کیسے بھی کر کے؟ "اسنے نفرت بھرے انداز میں حرا کے نام پہ زور دیتے ہوۓ کہا...
"ابرو پلیز کامڈاؤن۔۔دیکھو تم اپنے آپ کو اتنا سٹریس دو گے تو کیسے چلے گا سب... اور میرا مشورہ مانو حرا کا پیچھاچھوڑدو۔وہ بہت معصوم ہے اسے کیوں اذیت دینا چاہتے ہو،جب کہ وہ اسکی حقدار نہیں ہے۔لائف کو انجواۓکرو چھورو سب کچھ ،کچھ نہیں ملے گا یہ سب کر کے،ایسا کر کے تم کون سا خوش رہ سکتے ہو،تم ہیرا کو سب سے دور کر کے کبھی خوش نہیں کر سکوگے۔وہ یہاں اپنی فیملی کیساتھ خوش ہے"۔اسنے اسے سمجھاتے ہوۓ کہا۔
"ایسا نہیں ہو سکتا وہ کیسے خوش ہے مجھے پتہ ہے وہ بھی چایئنہ آنے کیلیے مچل رہی ہوگی ،میں سب کچھ کروں گا جو میرا دل چاہتا ہے۔ہادی کو میں اپنے ہاتھوں سے ماروں گا،مجھے پتہ ہے وہ ضرور چایئنہ آۓ گا"۔اسنے غراتے ہوۓ کہا اور فون بند کردیا۔
کرس وؤ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔"ابرو تم کیوں بھول گۓ کہ ہیرا کو نقصان پہچانے سے یانگ یانگ کسی کو نہیں چھوڑے گا ...(چائینہ کا سب سےبڑا باڈی بلڈر کہلانے والا دکھنے میں ایک معصوم بچہ دکھتا تھا،گردن تک آتے لمبے بال ایک سائڈکو کٹا پف جو کہ ایک آنکھ کو ڈھکے ہوۓ تھا ،دوسری آنکھ میں لگا صاف سرمہ دکھائ دیتا تھا۔۔۔یانگ یانگ کی بڑی مانگ تھی وہاں مگر وہ اپنے گھر سے باہر ہی نہیں آتاتھا)"لوگ طوفانوں سے ڈرتے ہیں اور طوفان مجھسے"یانگ یانگ کی آواز اسکے کانوں میں گونج رہی تھی۔"یااللہ یانگ یانگ سے ابرو کو بچانا"۔وہ دل میں دعا کرتا ہوا چل دیا۔۔۔
...زندہ ہوں تو کرلے ابھی تو قدر...
...بعد مرنے کےبےفائدہ سی توہے قدر...
آج رات سب کے چہروں پہ افسردگی چھائ ہوئ تھی۔ظاہر ہے ان سب سے پیار کرنے والا ہاشم ،شرارتیں کرنے والا کرس وؤ،اور سخت مزاج مگر رحمدل لیوتاؤ،جا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
※.......................................※
ہاشم لڑکھراتے قدموں سے باہر آیا" تمہارے ہاتھوں تمہاری اولاد بھی نہ بچے" یہ الفاظ اسکی جان لے رہے تھے ،وہ اپنی گاڑی کے پاس کھڑے ہوکر اپنے بیٹے کو دیکھ رہا تھا اور بس دیکھتا ہی جارہا تھا،ابراہیم اپنی ماں کے آنسو صاف کر رہا تھا،اسے کیا خبرتھی کے اندر ایک اور قیامت اسکی منتظر ہے۔
"ابراہیم " وہ بس یہی پکار رہا تھا ، پھر اسکی ہمت جواب دے گئ اور وہ گاڑی کا دروازہ بڑے شکستہ انداز میں کھولتے ہوۓ گاڑی میں بیٹھا اور چلاگیا۔
وہ ہاسپٹل سے باہر آگئ اسکا دل بہت گھبرا رہا تھا،الفت بیگم کو انہوں نے فون کردیا تھا وہ اب آچکی تھیں، ۔
"میری بیٹی کیسی ہے؟" انہوں نے فوراً سوال کیا اس سے پہلے کہ وہ کوئ جواب دیتی،ایک نرس بھاگتی ہوی آئ،"اوووہ۔۔۔میم آپکو اپنے مریض کیلیۓ اندر ہونا چاہیے تھاصد شکر کے مجھے آپکی پہچان تھی تو آپ مل گئ،
کک۔۔ک۔کیا ہوا ؟ سب ٹھیک تو ہے نہ؟ اسنے ڈرتے ڈرتےسوال کیا۔
میم مجھے نہائت صدمہ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپکی پیشینٹ نے بہت زیادہ سٹریس لیا ہے جسکی وجہ سے انکا ہارٹ فیل ہوگیا۔
کیا۔۔۔۔ ہارٹ فیل مطلب اب ؟
مطلب اب وہ اس دنیا سے جا چکی ہیں۔ میں آپ کا دکھ سمجھ سکتی ہوں،ایک ساتھ دو موتیں اکٹھی جو ہوئ ہیں۔۔۔۔وہ بولتی جا رہی تھی ایسا نہیں ہو سکتا، نہیں ۔۔۔میری بیٹی تو بہت بہادر تھی وہ۔۔۔ الفت بیگم چیختے ہوۓ اندر کو بھاگی تھی جبکہ شمیم نے ہاشم کو گالیا ں دینا شروع کردی ،میں ہاشم کو نہیں چھوروں گی،،،وہ چلاتے ہوۓزمین پہ بیٹھ گئ تھی،
سامنے سے ہاشم کا دوست معاذ آرہا تھا۔۔"بھابھی کیا ہوا آپکو آپ۔۔آ۔۔پ ۔۔ایسے؟ وہ اسکو زمین سے اٹھا رہا تھا۔
اچانک تیز بارش شرو ع ہوگئ ، "تت۔۔۔تم نے کہا تھا نہ کہ ہاشم کو اسکے حال پہ چھوڑدو آ۔۔۔ج۔۔۔آج۔۔اسکی وجہ سے میری بہن ۔۔۔میری بہن۔۔۔اس دنیا سے چلی گئ "وہ یہ کہ کر پھر سے دھاریں مار کر رونے لگی۔میں نے تم سے کہا تھا وہ لوگوں کے ساتھ کھیلتا ہے وہ گردے بیچتا ہے ،وہ لوگوں کو لوٹتا ہے ،کہا تھا میں نے مگر کسی نے یقین نہیں کیا۔اب۔۔اب۔۔ میں کیس کروں گی اس پر،،،اس نے ۔۔۔ایک نہیں دو دو جانیں لی ہیں،پتہ نہیں اور کتنے لوگوں کو اسنے مارا ہو گا۔" اسے ایک دم چکر سا آگیا تھا وہ گرنے لگی تھی کہ معاذ نے اسے پکڑلیا۔
بارش بہت تیز ہوگئ تھی سردی بےحد ہو رہی تھی۔
لال دین ! معاذ نے اپنے نوکر کو آواز دی ،گاڑی کا دروازہ کھولو جلدی وہ شمیم کو گاڑی میں لٹانے لگا جو کہ بے ہوش ہو گئ تھی، اب وہ دروازہ بند کر کے لال دین کو کچھ ہدائیت کرتا ہوا اندر کو گیا تھا۔
اسنے دیکھا کے حوریہ کی ماں حوریہ کے سٹریچر کے پاس کھڑے ہو کر اونچا اونچا ہنس رہی تھی، تم لوگ سب پاگل ہوگۓ ہو فضول میں میری بیٹی کو نیند سے جگا رہے ہو ،سونے دو اسے خبردار اسے کسی نے تنگ کیاتو۔۔۔۔۔وہ اپنا دماغی توازن کھو چکی تھی۔۔۔۔
ایک نرس تو الفت بیگم کو دل ہی دل میں پاگل قرار دے چکی تھی۔۔۔
معاذ نے بہت ہمت کر کے سب کچھ ہینڈل کیا۔۔۔
اب ایمبولینس کاغان روانہ ہو گئ تھی۔
کاغان ایک بار پھر ویران ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
※جاری ہے※
CZYTASZ
Aakhri shola by Inahseya ABDULLAH season1
Romansآخری شعلہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ بدلے کی آگ میں انسان خود کو بھی جلا ڈالتا ہے اور نفرت کرنے سے خود کے سوا کسی کو اذیت نہیں ہوتی۔