Episode #1. ..part #3
گاڑی اپنی تیز رفتار سے رواں دواں تھی۔
حریم نے اونچا اونچا رونا شروع کردیا ۔ "اسے مجھے دے دو۔ "احسن نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوۓکہا ۔
نہیں ! "آپ سے ٹھیک سے ڈرائیو نہیں ہو پاۓ گایہ راستےہے بھی خطر ناک ہیں "حوریہ نےیہ کہتے ہوے حریم کو اپنے سینہ کے ساتھ زور سے لگا لیا۔
"ہپلے بھی تو میں اسکے ساتھ ڈرائیو کرتا ہوں ۔"یہ کہتے ہوۓاحسن نے گاڑی ایک سائڈ پہ روکی اور حریم کو اپنی گود میں لیا اور سیٹ بیلٹ باندی۔
گاڑی دوبارہ سےاپنے سفر پر رواں دواں تھی۔وہ لوگ ایک مخصوص راستہ طے کر کے ناران پہنچ گۓ ۔
"میں اب زندہ نہیں رہوں گا۔ مگر ! میری بیٹی ، بیوی ان کا کیا ہو گا؟" وہ یہ سوچتے ہوۓ مطلوبہ راستے سے ہٹ چکا تھا اور کسی اور ہی منزل کی طرف چل پڑا تھا۔(سچ ہے کہ تقدیر کو ہم بدل نہیں سکتے) ۔[انسان سفر کرتا ہے اپنی منزل کیلیۓ اور جب منزل وہ نہ ہو تو سفر اپنا راستہ خود بدل لیتا ہے] (وقت اسکی منزل دیکھ کر مسکرا گیا کیوںکہ وہ مقدر کے کھیلوں سے واقف تھا۔)
"آپ یہ۔۔۔۔یہ۔۔۔کہاں جا رہے ہیں ؟؟؟۔۔۔۔ہمارا گھر یہاں تو نہیں ہے"۔ اسنے سڑک پر نظریں دوڑاتے ہوۓ بولا۔
میں ۔۔۔۔۔و۔۔ہ ۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔وہ ۔۔میں جھیل پہ جارہا ہوں ۔۔۔ ج۔جج۔۔جھیل پہ مزہ آۓگا نہ وہاں پہ ۔؟ الٹا اس سے سوال کرتے ہوۓ بولا۔
جب اس نے سڑک کو بڑے غور سے دیکھا تب جا کہ اسے احساس ہوا کہ وہ بہت آگے آگیا ہے۔
"جھیل پہ جا رہا ہوں؟ مطلب ؟ "وہ اسکا سوال دہراتے ہوے بولی۔ "میں نے سیدھے گھر جانا ہے" ۔اسنے منہ دوسری طرف کر کے بچوں کیسے انداز میں کہا۔
"دیکھو تھوڑا سا ساتھ وقت گزارنا چاہتا ہوں کھیلنا چا ہتاہوںحریم کے ساتھ پتہ نئ پھر موقعہ ملے یا نہ۔"اس نے بہت درد بھرے لہجے میں کہا تھا۔
"مطلب کیا ہے آپکا ؟"
اللہ نہ کرے دوبارہ کیوں کوئ موقع نہیں ملے گا ؟؟؟"اس کا دل ایک دم لرز کہ رہ گیا تھا۔ "
احسن !مجھے جھیل نہیں جانا۔میرا دل نہیں کر رہا اور میں صبح سے بہت خوش تھی ناران آنے کیلیۓ مگر طبیعیت ٹھیک نہیں ہے میری۔ تو سو پلیز گھر چلو ماما ہمارا انتظارکر رہی ہوں گی۔
[میں صرف اور صرف اس لیۓ ناران آئ ہوں تاکہ احسن کے بارے میں جان سکوں کہ اسے ڈاکٹر نے آئندہ کے بارے میں کیا بتایا ہے۔ یہ بڑے بڑے بیگ تو صرف ایک بہانہ ہیں۔]اسنے پریشان ہوتے ہوۓ سوچا۔
"اووہ تم نے جھیل نہیں جانا؟ ۔۔۔۔۔چلو پھر یہاں چلتے ہیں" اس نے ایسے ہی ایک سائڈ پر برف سے کھیلتے بچوں کو دیکھ کر کہا۔اور گاڑی ایک سائڈ پہ پارک کرنے لگا۔
...@@@...
اووہ۔۔۔شٹ۔۔۔..ہیرا کا پارہ تو آسمان کو چھو رہاہوگا وہ تیار ہو کر میرا انتظار کر رہی ہو گی اور اگر مجھے کرس وؤ کی کال نہ آتی تو میں تقریباً بھول چکا تھا کہ آج ہم نے ڈنر پر بھی جانا ہے۔ وہ یہ سوچتے ہوے اس نے گاڑی کی رفتار تیز کردی ۔
ہادی جیسے ہی گھر پہنچا وہ بس بھاگا بھگا اوپر گیا۔ہیر۔۔۔۔ا۔۔ ۔وہ اسکا دروازہ ناک کیۓ بنا ہی اندر چلا گیا ۔
"وااا۔۔اااؤ ۔۔۔و " اسنے سوئ ہوئ ہیرا پہ ایک نظر ڈالی جو کہ تقریباً نیند کی وادی میں خوابوں کے صحرا میں سیر کر رہی تھی دنیا سے بے پرواہ ہو کر۔ وہ تالیاں بجاتا ہوا اسکے پاس آیا ا۔۔۔۔ے۔۔ ہیرا۔۔۔ہیر۔۔۔ا۔۔۔۔ا۔۔ا۔ا۔ا۔ا اس نے اسکے کان کے پاس جا کر اونچا اونچا چیخنا شروع کیا۔ کیوں کہ ڈاکٹر ہاشم کا کوئ چوتھی بار فون آ چکا تھا۔ اور اگر آج وہ ڈنر پہ نہیں گۓ تو سارا کھیل خراب ہو جاۓ گا بنا بنایا ۔
ہیر۔۔۔اااااااا۔ اٹھ جاؤ۔۔۔۔۔ اسنے اسے تقریباً جھنجھوڑتے ہوے بولا ۔۔۔ اور اسے اٹھا کر بٹھا دیا ۔۔۔۔
اور جب اس نے ہیرا کی لال ہوتی آنکھوں میں نیند کی شدت کے ساتھ ساتھ غصہ دیکھا ۔۔۔۔۔تب اسے احساس ہوا کے اسنے سوۓ ہوۓ شیر کو جگا دیا ہے۔
او۔۔۔۔ہ۔۔۔ہ مجھے لگا تھا تمہارا غصہ پہلے کیطرح اتر چکا ہو گا۔مگر نہیں۔۔۔۔۔۔وہ تھورا ڈرتے ہوے بول رہا تھا۔۔۔۔۔۔مجھے کیوں ایسا لگ رہاہےکہ ہیرا اچانک جھپٹ پڑے گی وہ پیچھے ہوتے ہوۓ سوچ رہا تھا۔
"مجھے کیوں اٹھایا میں یہ نہیں کہوں گی مگر تمہیں پتا ہونا چاہئیے کے میں تم سے بات نہیں کرنا چاہتی ۔اس نے ایک نظر اس پر ڈالی اور بہت آہستہ آہستہ اسے دیکھتے ہوۓ بولا ۔اس کا حلیہ کچھ اس طرح سے دکھ رہا تھا کہ فل وائیٹ پینٹ شرٹ میں،بے ترتیب سے بال، دیوار سے ٹیک لگاۓ، گھبراۓ ہوے کھڑا تھا۔
اس کے سر میں ایک ٹیس سی اٹھی۔اس نے ایک دم اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا اور سر کو جھکا لیا ۔ایک دم کمرے میں اتنی خاموشی سی چھا گئ کہ گھڑی کی ٹک ٹک کرتی سوئیاں اس ماحول کو خوفناک کرہی تھیں۔
"اوو۔۔۔ہ۔۔۔ہ۔۔اچھا سوری بابا ! اٹھ جاؤ دیکھو تمہیں مجھسے بات نہیں کرنی نہ کرو مگر ڈنر پہ تمہارا جانا لازمی ہے ہمیں مطلوبہ فائل پھر کیسے ملے گی اگر نہ گۓ تو؟"
"جو سزا دوگی ،جو کہو گی منظور ہے پلیز اٹھ جاؤ ۔" وہ اس کی منت کر رہا تھا ۔
یہ آج اتنی سیریز کیسے ہو گئ؟ اور نہ غصہ نہ ہی لڑائ کچھ تو بات ضرور ہے اسنے ہیرا کو دیکھتے ہوۓ سوچا جو کہ بالکل خاموش بیٹھی تھی۔۔۔
"میرے لیۓ اپنی زندگی سے زیادہ عزیز نہ کوئ انسان ہے اور نہ ہے کوئ اور چیز۔
مجھے ڈنر پہ نہیں جانا " یہ کہتے ہوۓوہ آرام سے لیٹ گئ۔
"مگر ہیر۔۔ا۔ا۔ا۔۔۔"وہ ابھی بس اتنا ہی کہ پایا تھا۔۔۔۔
"میں تم سے بدتمیزی کرنا نہیں چاہتی ۔میں نے ایک دفعہ کہا کہ میں نہیں جانا چاہتی تو ہزار بار میں بھی میرا یہی جواب ہوگا۔(وہ اسکی طرف دیکھ رہی تھی بڑے افسوس سے)[بھروسہ ٹوٹ تے دیر نہیں لگتی]۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔ہادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[بھروسہ کرنے کیلیۓ صدیاں لگ جاتی ہیں۔۔۔۔۔"]وہ روہانسی آواز میں بولی۔
ہادی اچانک سن سا ہو گیا تھا۔"میں نے اسے کچھ ایسا نہیں کہا اور نہ ہی یہ لڑائ پہلی بار ہوئ ہے۔پھر اسے کیا چیز ڈسٹرب کر گئ؟ وہ یہ سوچتے ہوے آرام سے کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوۓ باہر چلا گیا ۔اسکی چال کسی ہارےہوۓ کیطرح لگ رہی تھی۔
...@@@...
حریم برف میں کھیل رہی تھی ۔۔۔۔احسن برف کے گولے بنا بنا کے حریم پہ پھینک رہا تھا۔۔حریم کی کھلکھلاتی ہنسی احسن کو سکون دے رہی تھی ۔۔۔۔۔احسن نے اچانک حوریہ پر برف پھینکی ۔۔۔۔اور حوریہ نے بھی جواب میں کوئ کسر نئ چھوڑی۔۔۔۔۔۔
یہ مکمل چھوٹی سی خوشحال فیملی کو وقت بہت دکھ بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔پھر وقت کچھ سوچ کر مسکرایا۔۔۔اور وقت کو حریم پر پہلے ترس آیا ۔۔۔مگر ۔۔۔۔صرف۔۔۔دو سیکینڈ کیلیے۔۔اور پھر وہ فخر سے حریم کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔
[کچھ بننے کی لیے ،کچھ حاصل کرنے کی لیے ۔۔۔۔۔کچھ کھونا پڑتا ہے]
وقت نے سوچا اور ۔۔۔۔۔۔وقت کو کسی پہ بھی ترس نہیں آتا ۔۔۔۔
"ہمیشہ سے ہے وقت بے رحم
مگر
ہمیشہ سے ہے وقت کا ازالہ رحم"
"احسن!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج کتنی الگ سی خوشی ہو رہی میرا مطلب کے عجیب سا سکون مل رہا ہے یہاں دل چاہ رہا ہے کہ یہاں ہی رہ جاؤں ۔۔۔۔۔"حریم کو کھیلتا دیکھاس نے کہا۔
"دل چاہ رہا ہے وقت کو روک دوں مگر وقت رکتا نہیں چاہے انسان کی سانسیں کیوں نہ رک جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھو انسان کی سانسوں کے رک جانے پر بھی وقت نہیں رکتا ۔۔۔مگر ۔۔۔۔۔ابھی ہماری سانسیں چل رہی ہیں ہم خود وقت کو روک لیتے ہیں۔"
اس نے یہ کہتے ہوے اپنی گھڑی کا ٹائم روک دیا ۔۔اور گھڑی اتار کر ایک طرف بنے درخت کی نیچے مٹی کھود کر اسنےاسمیں ڈال دی۔۔۔اس بات کو یادرکھو اگر کبھی تم وقت کو روکنا چاہو اور وہ نہ رکے تو اسے اس گھڑی جیسا کر دینا وہ وقت رک جاۓ گا۔۔۔۔" یہ "بس خوش فہمی ہے ایک پر خوش فہمی سے انسان اگر خوش ہو جاۓ تو سب کچھ چلتا ہے دو دن کی تو یہ زندگی ہے۔۔۔۔اسنے حوریہ کو سمجھاتے ہوے کہا۔۔۔"
حوریہ کو اسکی باتیں زرا بھی سمجھ میں نہیں آرہی تھیں۔۔۔وہ بس اس کا چہرہ دیکھتی جا رہی تھی۔
"چلو ماما کی کال آرہی ہے ۔۔۔" اسنے اٹھتے ہوے بولا۔
وہ گھر تک کے راستے میں بہت خوشی خوشی باتیں کرتے رہے۔۔۔۔
جیسے ہی وہ گھر پهنچے الفت بیگم نے انکابہت اچھے سے استقبال کیا۔
وہ لوگ باتیں کرتے ہوے اندر پہنچے ۔۔۔کھانے کے دوران احسن نے جب موبائل نکالا تو اس پر ڈاکٹر کی سات مسڈ کالز آچکی تھیں۔۔وہ کال بیک کرتا ہوا اچانک ٹیبل سے اٹھ گیا ۔۔"پہلے کھانا تو کھالیں ۔بعد میں جو مرضی کرنا"۔ اس نے احسن کو اٹھتا دیکھ کر روکا۔
وہ کمرے میں چلا گیا اسکی بات ان سنی کرتا ہوا۔۔حوریہ فوراً اسکے پیچھے پیچھے گئ۔۔
"دیکھیۓ ڈاکٹر صاحب میں اتنے زیادہ پیسے کیسے اتنی جلدی ارینج کر سکتا ہوں۔
پلیز۔۔۔۔اوکے دس دن تک تو ڈلے ہو سکتا ہے نہ؟۔۔۔"
احسن بہت پریشان دکھ رہا تھا ۔۔۔ڈاکٹر اسے پتہ نہیں کیا کہ رہا تھا کہ احسن کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔۔۔حوریہ اسکا چہرہ دیکھ نہیں سکی تھی چونکہ احسن کا منہ باہر کھڑکی کی طرف تھا ۔۔
حوریہ اچانک کمرے میں آئ اور احسن کا آکر کالر پکڑلیا اور جب اس نے اسے روتے ہوےدیکھا تو وہ گھبرا گئ۔۔احسن مجھے بتاؤ کیا بات ہے آپ مجھسے کیوں چھپا رہے ہو جو بھی ہےصاف صاف بتاتے کیوں نہیں ہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ بولووووو۔۔۔۔و۔۔۔ وہ اتنی زور سے چیخی ۔۔کیونکہ اسکا دل کچھ غلط ہونے کے نشاند ہی کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔
...@@@...
ماما ۔۔۔۔۔۔ما۔۔ما۔۔ ہادی نیچے آکر شمیم کوڈھونڈھتا ہوا انکے کمرے میں گیا۔
"بیٹا میں اپنے کمرے میں ہوں" (شمیم اپنے کپڑوں کی الماری ٹھیک کر رہی تھی)
"ماما ! ہیرا کو کیا ہوا؟" ہادی صوفے پہ بیٹھتے ہوے لا پرواہ سے انداز میں بولا۔
"یہی سوال مجھے تو تم سے کرنا تھا۔۔۔"وہ اپنے کپڑے چھوڑ کر اس کے پاس آکر بیٹھتے ہوے بولیں۔
"ہادی۔۔۔ تم کیوں اسے ہمیشہ ستاتے رہتے ہو ؟ ۔۔۔ہر ایک کا غصہ اس پر اتارتے ہو۔۔۔ کیا وہ کوئ تمہیں فالتو کی چیز نظر آتی ہے؟ تم نے ہیرا کی ذمہ داری خود اپنے سر لی تھی اسے اپنے ہوشو حواس میں تمنے قبول کیا تھا ۔صد شکر میں نے اسکی ابھی رخصتی نہیں کی ۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم نے اسکا یہی حال کرنا ہے تو میں یہ شادی تمہاری توڑ ۔۔۔۔۔۔۔" ابھی بات پوری نہیں ہوئ تھی کہ ہادی کی رنگت یک دم بدل گئ تھی۔
"ماما ۔۔۔۔۔ بس کریں آپ میری کم اسکی ماں زیادہ دکھتی ہیں ۔۔۔۔"
وہ گلاس میں پانی ڈال کر شمیم کو دیتے ہوۓبولا۔شمیم کو بولتے بولتے سانس چڑ گیا تھا۔
"اففف مما آپ تو آج جیسے پاکستان اور انڈیا کے درمیان فیصلہ سنانے والی تھیں ۔ویسے اگر آپ کو اپنی بہو پسند نہیں ہے تو آپ بدل لیں مجھے آپ کا ہر فیصلہ منظور ہے" وہ شرارت سے کہتے ہوۓ بول رہا تھا۔اور اس سے پہلے کے ماما کا ہاتھ میں پکڑا ہوا جوتا اس تک آتا وہ فوراً دوسری سائڈ پہ ہوگیا۔
"اچھا سوری ماما۔۔"وہ کان پکڑتے ہوے بولا۔۔۔
پہلے یہ بتاؤ ۔۔۔۔ہیرا سوئ ہوی تھی اسے اٹھایا تو نئ؟ شمیم نے گھورتی ہوی نظروں سے دیکھا۔
ن۔ن۔۔نہیں۔۔۔نن۔نہیں تو بھلا میں اس سوئ ہوئ پرنسز کو کیوں اٹھاؤں گا؟ اسنے الٹا سوال کردیا ۔
"اٹھانے کی غلطی بھی نہ کرنا ۔"انہوں نے انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتے ہوۓ بولا۔
"مگر ۔۔۔۔۔کیوں ۔۔۔؟ ۔۔۔۔دیکھیں ماماآج ہمیں ڈاکٹر ہاشم نے ڈنر پہ انوائیٹ کیا ہے ۔(ہاشم کا نام سن کر شمیم کہ چہرے پر ایک زہریلا پن ابھر آیا) اور ہمیں جو فائل چاہئیے تھی وہ آج مل سکتی تھی مگر ۔۔۔۔۔پلیز (وہ شمیم کے ہاتھ پکڑتے ہوے بولا)ماما اسے اٹھایئں یہ موقع باربار نہیں ملتا۔"
"میں اسے نہیں اٹھا سکتی ۔۔۔۔بیٹا وہ نیند کی دوائ کھا کر سوئ ہے ۔۔"
۔۔(ہادی کا چہرہ دیکھنے والا تھا ۔ اگر مماکو پتہ چل گیا کی میں نےاسے اٹھا دیا ہے تو؟؟؟؟؟)
"اور اگر اسے اٹھا دیا تو اسکی طبیعیت زیادہ خراب ہوگی۔۔۔ "( یا اللہ مجھے بچا لے ہادی کے ماتھے پر پسینے کے چھوٹے چھوٹے قطرےنموںدار ہو رہے تھے جنہیں وہ ساتھ ساتھ صاف کر رہا تھا)
"پتہ تو ہے اگر وہ ایک بار اٹھ جاۓ تو اسےدوبارہ نیند نہیں آتی۔۔۔۔"انہوں نے فکرمندانہ انداز میں کہا ۔۔۔اسنے کچھ کھایا بھی نہیں ہے ۔۔۔۔۔کیا کروں اسکا۔۔؟؟؟وہ سامنے ہیرا کی پڑی شیلڈز دیکھتے ہوے بولیں۔۔۔۔
ہادی موبائل پہ کچھ نمبر ڈائل کرتا ہوا باہر نکل گیا۔ ہیلو سر۔۔۔ ہادی نے ڈاکٹر ہاشم کو فون کرتے ہوۓ بولا۔ وہ سوری وغیرہ کر کے فون بند کر کے جب اندر کیطرف بڑھا تو اسے ہیرا کا خیال آیا۔۔۔ وہ سیدھا کچن کی طرف بڑھا وہ ٹرے میں ہیرا کیلیےکھانا لیے آہستہ آہستہ باہر نکلا شمیم سے چھپ کر۔۔۔۔۔ابھی وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کہ اچانک شمیم نے اسے پیچھے سے آواز دی۔۔۔۔اسے لگا آج میں اگر پکڑا گیا تو بسس۔۔۔آگے کا سوچنے کی ہمت نہیں تھی۔۔۔ابھی ان سوچوں میں گم تھا کہ پیچھے سے شمیم نے آ کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔" بیٹا۔۔۔" وہ ابھی کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ ہادی کے ہاتھ میں کھانے کی ٹرے پر نظر پڑی ۔۔۔۔۔بس۔۔۔۔انہوں نے ایک نظر ہادی پہ ۔ایک نظر کھانے پراور ایک نظر سیڑھیوں کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔اور ہادی کے ہاتھ کپکپانے لگے تھے۔۔۔۔۔
...@@@...
احسن بالکل خاموش کھڑاتھا ۔۔اور حوریہ روتے روتے زمین پہ بیٹھ گئ ۔۔
"حوریہ ۔۔۔۔ اٹھو نیچے سے" اسنے اسے اٹھاتے ہوے کہا۔۔۔
"احسن پلیز تمہیں خدا کا واستہ ہے مجھے بتاؤ" وہ روتےروتے اس سے التجا کر رہی تھی۔۔
"وو۔۔ہ۔۔اچھا سنو ۔۔۔جیسا کہ تمہیں پتہ ہے کہ میرےگردےنہیں ہے۔۔جو میں نے ایک ڈلوایا تھا وہ تقریباً اج سے آٹھ سال پہلے ڈلوایا تھا ۔۔۔مگر تمہیں نئ پتہ کہ میرا وہ گردہ بھی ختم ہوگیا تھا۔۔اسکے بعد سے میرے ڈیلسیز ہوتے رہے اور میں کام کا بہانہ کر کے گھر سے دور رہا ۔۔۔مگر۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اب کہ رہے ہیں کے مجھے نیا گردہ ڈلوانا چاہئیے ۔۔جس کے لیے میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔۔۔۔ڈاکٹر نے بتایا کے اگر میں نیا گردہ ڈلوالوں تو زندگی کے کچھ سال اور گزار سکتا ہوں۔ڈیلسیز اب نہیں ہوں گے۔۔مگر۔۔۔۔۔"
"مگر کیا؟؟؟؟ احسن بولو۔۔۔۔"
مگر میں اتنے پیسوں کا بندوبست نہیں کر پا رہا جتنےکہ ڈاکٹر نے بولا ہے۔۔۔
"ہا۔۔۔۔اہ۔۔ہ۔ہ۔اسے لگا کہ اسکے پاؤکے نیچے سے زمین نکل گئ ہو۔۔۔ احسن تم میری ایک بات مانو گے؟؟؟"
"کیا ؟"
"یہ کہ تم میرا گردہ ڈلوالو پلی۔۔۔ی۔۔یی۔ز "اس نے اسکے آگے ہاتھ جوڑتے ہوے کہا ۔۔۔اور اگر تم نے منع کیا نہ تو میرا اور تمہارا رشتہ ختم۔۔۔۔"
وہ خاموش نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
YOU ARE READING
Aakhri shola by Inahseya ABDULLAH season1
Romanceآخری شعلہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ بدلے کی آگ میں انسان خود کو بھی جلا ڈالتا ہے اور نفرت کرنے سے خود کے سوا کسی کو اذیت نہیں ہوتی۔