صبح کی روشنی ایسے جگمگا رہی تھی جسے کوئ فتح حاصل کر کے بھی ہار چکا ہو۔بادلوں نے سورج کو یوں چھپا رکھا تھا گویااسے اپنی پناہ میں رکھنا چاہ رہے ہوں۔ناران کی خوبصورت وادی کو بادلوں نے اوربھی خوبصورت کردیاتھا۔
ہاسپٹل کی روش پہ تیز تیز چلتی ہوی ایک لڑکی نہائت جلدی میں لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔اسکی آنکھوں میں نفرت اور انتقام کی آگ صاف صاف دکھ رہی تھی ۔۔۔یوں لگ رہا تھا کہ آج وہ اس ہاسپٹل کو ہی ختم کر دینا چاہتی ہے۔
وہ دھاڑ سے ایک کمرے کا دروازہ کھولتے ہوۓ اندر کو داخل ہوئ۔اسنے اس مقام تک پہنچنے کے لۓ بہت محنت کی تھی ۔آج اسنے اس کمرے کو بے انتہا خوبصورت بنایا تھا کہ وہ انتقام خوبصورت انداز میں لینا چاہتی تھی ۔سٹیچر پر ایک لڑکا بیہوش پڑا تھا جو کہ شکل سے انتہائ معصوم دکھ رہا تھا وہ اسکے معصومانہ چہرے کو نظر انداز کرتےہو ۓ آگے بڑھ گئ۔
اسنے گلوز اور گاؤن پہنا اور سٹیچر کی طرف بڑھنے لگی ۔جیسے ہی اسنے لڑکے کے گاؤن کو ہٹانے کیلۓ ہاتھ بڑھایا یکدم اسکا دل جیسے بند ہو گیا تھا مگر نہیں۔۔۔اسے یہی کرنا تھا ۔وہ اپنے آپ کو کنٹرول کرتے ہوۓ اسکا سینہ چاک کرنے لگی اور وہ جو بے رحمی اسکے ساتھ کرنے جا رہی تھی اسکی ذات کا اصلی روپ اسے ہر گز اجازت نہ دیتا ۔مگر وہ مجبور تھی ۔اس نے اس پل کے لیے بہت محنت کی تھی۔
سینہ چاک کر کے اسنے اسکے اندر ہاتھ ڈال کراسکا دل پکڑا اور اسکو باہر کر کےpictures لینے لگی۔۔یہ pic اسنے کسی کو what's app کی اور voice message کرنے لگی "تمہیں اپنا بیٹا کرس وؤاگر زندہ چاہیۓ تو میری بات مان لو۔۔۔۔۔جو آگ میرے اندر لگی ہے اسکا تم ابھی پہلا شعلہ دیکھ رہے ہو ہاشم ۔۔۔اسنے نفرت زدہ لہجے میں کہتے ہوۓ موبائل کو پھینکنے کے سے انداز میں ٹیبل پر رکھا اور اپنے خون سے لدے ہاتھوں میں موجود دل کو دیکھنے لگی۔ ۔۔۔۔
...@@@...
کاغان کی وادی میں سورج کی روشنی ایک ایسے کمرے میں جا کر ٹھہری جو نہائت ہی خوبصورت اور سلیقے سے رکھی ہر چیزکوواضح کر رہی تھی جیسے ہی صبح کی روشنی نے کھڑکی کے اندرجھانکا بیڈپرلیٹی حوریہ نے اپنی پیاری سی گول مٹول نیلی آنکھوں کوفورا موٹے سے کمبل میں چھپالیا۔اسےبےحد سردی لگ رہی تھی کل سے تیز بخار نے اسے بہت نڈھال کردیا تھا۔اس نے گھڑی کی طرف ایک نظر دیکھا جسکی ٹک ٹک چلتی سوئیا اس کے دل کی دھڑکن کو روک رہی تھی ۔وہ آج بھی نہیں آیا تھا گھر ...یہ سوچ نہ اسے صحیح طریقے سے سونے دیتی اور نہ ہی اسے کسی اور کام میں دل لگانے دیتی۔اگر...اگر... وہ ٹھیک نہ ہوسکا تو ۔۔؟؟؟ اگر اسے کچھ ہوگیاتو۔؟ وہ منہ ہی منہ میں بڑبرا رہی تھی۔نہیں ایسا میں ہونے نہیں دوں گی ...میں کچھ بھی کر کے اسے بچا لوں گی۔...وہ اپنی سوچ میں مگن تھی کی اچانک حریم کے رونے پر وہ کچھ ہوش میں آئ۔اسنے فورااپنے دائیں جانب لیٹی دو سالہ حریم کو اٹھایا اور اسے بےساختہ اپنے سینے سے لگالیا ۔جیسے میں یتیمی میں بڑی ہوئ تھی کیا میری بیٹی بھی...نہیں نہیں میں پاگل ہو گئ ہوں ایسا نہیں ہوسکتا میں اپنی بیٹی کی خاطر اپنی جان دے دوں گی...مگر اسکے ساتھ کچھ برا نہیں ہونے دوں گی ۔بےاختیار اسکی آنکھوں سے آنسو کسی آبشار کی طرح بہنے لگے ۔اسنے انہیں بہنے دیا۔روز روز ان آنسؤں کو روک کر وہ اندر ہی اندر ختم ہو رہی تھی......
...@@@...
ناران کی بلندو بالا پہاڑیوں کے بیچ و بیچ ایک بلڈنگ دکھتی تھی جسے ہاسپٹل کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ۔چونکہ یہاں پر بہت سے لوگ قریب ہسپتال نا ہونے کی وجہ سے مر رہے تھے اس لیے یہ ہسپتال خاص ان لوگوں کے لیے بنایا گیا تھا ۔
ایک ہال نما کمرے میں میں گول دائرےکی صورت میں پڑی کڑسیوں پر کچھ افرادبیٹھے گفتگو کر رہے تھے۔ڈاکٹر ہاشم نے ڈاکٹرز کاایک نیا عملہ تیارکیا تھا۔
آہم...آہم ڈاکٹرہاشم نے اپنا گلہ کھنکاراگویا کہ وہ سب کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں ..." دیکھۓ آج ہم جس عہدے پر ہیں ہمارا کام صرف اور صرف غریبوں کی مدد کرنا ہے اور انکو انکی بیماریوں سے آزاد کرنا ہے۔اور... (ابھی انکی بات مکمل نہیں ہوئ تھی کہ اچا نک ایک آواز گونجی۔)
بابا! اور جو امیر ہیں انکو انکی بیماری میں مرنے دیں گے؟ڈاکٹر کرس وؤ نے برے معصومانہ انداز میں پوچھا"ڈاکٹر ہیرا جو پانی پی رہی تھی اچانک کھلکھلا کر ہنس پڑی۔...سب ہنسنے لگے کرس وؤ بات ہمیشہ وہ کرتا تھا کہ خود تو بات کر کہ چپ کر جاتا تھا اور باقی سب کا ہنس ہنس کربرا حال ہوجاتا ۔
ڈاکٹر ہاشم اب اپنے عملے کا تعارف کروا رہے تھے "یہ کرسوؤ ہے۔میرا شیر بیٹا( جو پہلی کرسی پر بہت شان سے بیٹھا تھا۔کچھ چینی ،پاکستانی نقوش مل کر ایک الگ ہی personality show ہو ری تھی ،ہلکے گرے کلر کے بال ،سفید رنگت ،ڈارک براؤن آنکھیں ،اونچا لمبا قد وہ ہر طرح سے perfectلگ رہا تھا ۔اسکے چہرے کے چینی نقوش یقیناً اس کی ماں پر گۓ تھے)..."
اور یہ ڈاکٹر ہیرا ہیں ان دو مہینوں میں ہمارے ساتھ کام کر کے انہوں نے ثابت کیا ہے کہ یہ انتہائ قابل ، انتہائ ہنس مکھ اوراچھے اخلاق کی مالک ہیں(ڈاکٹر ہاشم نے دوسری کرسی پر بیٹھی انتہائ معصومانہ شکل،درمیانہ قد،گرے آنکھیں جو کہ بہت خوبصورت تھیں،دوپٹہ سلیقے سے اوڑھے جو کہ سب سے مختلف لگ رہی تھی ،کا تعارف کروایا).."
اور کرس وؤ،ہیرا! یہ ڈاکٹر شعیب اورڈاکٹر لبنی ہیں۔ یہ ڈاکٹر ھادی جن کے پاپا میرے کلاس فیلو رہ چکے ہیں اور یہ ڈاکٹر ولی اور ڈاکٹر لبابہ ہیں۔ (انہوں نے دونوں کو مخاطب کر کے باقی سب کا تعارف کرواتے ہوے کہا)
سر کیا یہ سب ناران ہی کے رہنے والے ہیں؟ڈاکٹر ہیرا نے سوال کیا ۔ نہیں !ڈاکٹرشعیب اور ڈاکٹر لبنی مانسہرہ جبکہ ڈاکٹرولی اور ڈکٹر لبابہ چترال سے ہیں اور ھادی چائنہ سے سٹڈی کرکہ حال ہی میں لوٹا ہے۔
آہم ،آہم آہم چی باۓنے گلا کھنکار کر گویا اپنا یہاں پر ہونا یاد دلایا اور چینی زبان میں کچھ بڑ بڑائ...(چی باۓ"درمیانہ قد،گورا رنگ ،چھوٹی چھوٹی کالی سیاہ آنکھیں ،کانوں تک آتے بال درمیان سے مانگ نکالے بلا شبہ وہ ایک خوبصورت عورت دکھتی تھیں انہیں اردو تھورا بہت بولنا آتی تھی جبکہ انگلش اردو کی نسبت ٹھیک آتی تھی مگر وہ غصے میں اپنی چینی زبان میں ہی بات کرتی تھیں ۔(آخر وہ ہاشم کی بیوی تھیں اور ہاشم نے ان کا ہی تعارف نہیں کروایا تھا۔گھورنا تو بنتا تھا )۔ہاشم جان بوجھ کر انہیں ignore کر رہے تھے۔اور چی باۓ کا غصے سے لال ہوتا چہرہ اس بات کی گواہی دے رہا تھا۔
آپ کو ایک بات بتاتا چلوں ۔۔۔ہاسپٹل چی باۓ کا ہے میں نے اور اسنے اس پر بے انتہا محنت کی ھے۔صرف اورصرف ہمارہ مقصد انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔اپنی پوری جان لگا دیں گے اس کیلۓ ۔ہاشم نے پرجوش انداز میں کہا۔جبکہ چی باۓ نے اپنی طرف دیکھتی سب نظروں کا جواب ہلکے سے سر جھکا کر دیا۔
...@@@...
حوریہ جلدی جلدی گھر کے کام نپٹانے لگی مگر ناشتہ کۓ بغیر ۔کام سے فارغ ہوکر وہ احسن(husband ) کے کمرے کی طرف گئ اور اسکی files کوئ ساتویں بار نکال کر پڑہنے لگی۔
اسکا یہ ۱۰ مرلے پر بنا گھر انتہائ خوبصورت تھا two portions پر بنے اس گھر میں وہ اکیلی نہیں رہتی تھی اوپر کے portion میں وہ اپنی بیٹی اور شوہر کے ساتھ جبکہ نیچے اسکی ساس زبیدہ اور دو نندیں رہتی تھيں۔
ایک نند رابعہ جو کہ فارغالفروغ ،گندمی رنگت جو کہ اسے خوب بھاتی تھی ۔مگر پھر بھی وہ اپنی بھابھی حوریہ جیسی پیاری ہو جانا چاہتی تھی اور دوسری مریم جو کہ ناویں میں پڑھتی تھی اور بے انتہا چلاک، ہر ایک کی باتوں کو سننا اور بولنا جیسے اسکے سوا اور کوئ کام ہی نہیں زندگی میں۔اور زبیدہ (ساس ) موڈ ہوا تو بات کر لی ورنہ بس اپنے کام سے کام رکھنا انکی عادت تھی۔
حوریہ files کو دیکھ کر رو رہی تھی کہ اچانک door bellنے اسے اپنی طرف متوجہ کیا ۔اسنے جیسے ہی کھڑکی سے جھانک کر باہر دیکھا تو چہرے کی رنگت بدل گئ اسنے جلدی جلدی files کو واپس جگہ پر رکھا اور الماری بند کر کہ باہر آگئ اور سوئ ہوئ حریم کو جگانے لگی ۔حریم اٹھ جاؤ بیٹا بابا آگۓ ہیں آپ کے ۔
وہ حریم کو لئے نیچے آگئ۔ماشآللہ بہو رانی آج ہماری یاد کیسے آگئ ؟ زبیدہ نے تنزیہ انداز میں پوچھا۔وہ امی مجھے دو دن سے بہت زیادہ بخار تھا اسی لے نیچے نہیں آسکی ۔ابھی بھی اترا نہیں ھےاور...۔وہ ابھی اپنی بات ختم کر نہیں پائ تھی زبیدہ نے اسے آخری سیڑھی پر ہی روک لیا تھا ۔احسن صوفے پر دوسری طرف منہ کیۓ بیٹھا تھا اچانک اٹھا اور پاس آیا۔
کیسی ہو حوریہ ؟ اسنے بہت آرام سے پوچھا ساتھ ہی حریم کو اسکے ہاتھوں سے لے لیا۔ جی میں ٹھیک ہوں ۔یہ بولتے ہوے وہ اسکے چہرے کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔آؤ بیٹھو ! وہ صوفے کیطرف اشارہ کرتے ہوے بولا۔ نہیں!اسنے فورا جواب دیا ۔احسن اسے معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگا۔آپ کے لیۓ کھانا لگاؤ؟ مجھے پتہ نہیں تھا کہ آپ آج آ رہے ہیں ورنہ میں کچھ اچھا سا بنا لیتی ۔وہ اپنی انگلیوں کو مروڑتے ہوے بول رہی تھی ۔ کیوں بہو میں صبح سے تمہیں آوازیں دے رہی تھی یہی تو بتانا تھا کہ احسن کیلۓ کچھ اچھا سا بنا لو مگر تم نے کہاں میری بات سن نی تھی۔وہ لہجے میں غصے کو لاتی ہوے بولیں۔
کوئ بات نہیں امی اسکی طبیعیت ٹھیک نہیں تھی۔جو بھی بنا ہے میں کھا لوں گا ۔احسن نے حوریہ کے ڈرتے ہوے چہرے کیطرف دیکھتے ہوے کہا۔اور حوریہ نے احسان مندانہ نظروں سے اسے دیکھا ۔آپ فریش ہو جائں میں کھانا لگاتی ہوں یہ کہ کر وہ اوپر کھانا لینے کیلۓ چلی گئ۔
حریم احسن کے ساتھ کھیل رہی تھی اسکی گود سے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
یہ اتنی خوبصورت ہے وہی اسکی جگہ اگر بیٹا ہوتا تو کیا ہو جاتا بھلا وہ حریم کو دیکھ کر سوچ رہی تھیں۔امی میں بہت تھک گیا ہوں کچھ آرام کروں گا شام کو ملتے ہیں پھر۔وہ اٹھتے ہوۓ بولا ۔اسنے انکی نظروں میں حریم کو دیکھ کر آتا ہوا غصہ بھانپ لیا تھا۔
...@@@...
اب کب تک یہ میٹینگ چلے گی میں بیزار ہوگیا ہوں۔کرس وؤنے اکتاتے ہوے کہا۔
érzi nǐ jiāng nénggòu dédào bié de dōngxبیٹا تم جا کر کچھ کھالو ورنہ بیمار ہو جاوگے) چی باۓ نے فکرمندانہ انداز میں کہا ok see you later
ہاشم بات ختم کرتے ہوے بولا. سب ایک ایک کر کے چلے گۓ۔
zǒuchū yīxiē shíwù(باہر کہیں کھانے کیلۓ چلیں میں ویسے بھی باہر جانا چاہ رہی تھی یہاں پر مریض دیکھ کر دل گھبرا رہا ہے ۔چی باۓ نے چینی زبان میں کہا ۔ مام ہم ہیرا کو بھی ساتھ لے جائیں؟
کرس وؤنے کہا۔ہاں پوچھ لو اگر وہ جانا چاہے تو ۔چی باۓ نے لاپرواہ سے انداز میں کہا۔
وہ بھاگابھاگا ہیرا کے پاس گیا ۔۔ہیرا! بات سنو اسنے اتنی عجلت میں دور سے ہی آواز دی ۔سب لوگ اسکی طرف متوجہ ہو گۓ۔
ہیرا جو کہ کسی file میں مگن تھی اچانک ڈرگئ اور اسنے اتنے غصے سے اسکی طرف دیکھا آنکھیں کچھ ایسا زاویہ لیےہوے تھیں گویا کچا ہی چبا جاۓ اسے۔اب وہ پاس آ چکا تھا۔وہ میں نہیں بابا کہ رہے ہیں کہ تم ہمارے ساتھ lunch کرنے باہر چلو ۔ اسنے جیسے اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کرنا چاہا مگر کر نہیں سکا۔انتہائ معصومانہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"آپ کو پتہ بھی ہے کہ میں کتنی important files دیکھ رہی ہوں اورbrunchمیں کر چکی ہوں"اسنے صاف انکار کر دیا۔
کرس وؤ کو ہمیشہ ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی پتھر سے سر پھوڑ رہا ہے مگر ہر بار نئ امید لے کر پھر وہی کرتا تھا جسکا جواب بس ناں میں ہوتا تھا۔اچھا ! کب کھایا ہے اور کیا کھایا ہے؟ بتاؤ۔ تم جھوٹ بڑے کمال کا بولتی ہو for your kind information ہم ابھی ابھی میٹنگ سے آۓ ہیں اور تم نے اتنی جلدی کیسے lunch کر لیا؟ وہ اسکے سامنے پڑے ٹیبل پر بیٹھ گیا اور وہ فائل دیکھنے لگا جسے وہ دیکھ رہی تھی۔ فار یور کائنڈ انفارمیشن میں نے لنچ نہیں برنچ کہا ہےاب تم جاسکتے ہو ۔نہیں تو میں جا رہی ہوں یہ کہتے ہوے وہ اٹھ کھڑی ہوی۔حد ہو گئ ہے یار! جو بھی کیا تم نے lunch یاbrunch بابا بلا رہے ہیں جلدی چلو ان کو دیر ہو رہی ہے ۔میری بات کبھی تو مان لیا کرو۔یہ کہتا ہوا وہ روہانسا سا ہوگیا تھا ۔ اگر آپ کے بابا کو جلدی ہوتی تو آپ یہاں آرام سے ٹیبل پر نہ بیٹھے ہوتے ۔اور وہ اسے ہکا بکا چھور کر چلی گئ ۔
پاس سے گزرتے ہوے ایک نرس نے بڑی بیچارگی سے کرس وؤ کو دیکھا جیسے کہ رہی ہو کہ ہیرا کبھی بات مان نے والوں میں سے نہیں ہے۔
...@@@...۔
احسن بلکل خاموش ہو گیا تھا۔ بیٹا اب تم سو جاؤ جا کر یہ نہ ہو کہ حوریہ تمہیں باتوں میں ہی الجھاۓ رکھے وہ اسے سرگوشانہ انداز میں کہ رہی تھیں۔ جی امی میں واقعی بہت تھکا ہوا ہوں آرام کرنا بہت ضروری ہے وہ اکتاتے ہوے انداز میں بولا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگا۔ زبیدہ اسےہرگز اوپر نہ جانے دیتیں مگر کیا کرتیں احسن کو اپنے کمرے کے علاوہ نیند نہیں آتی تھی ۔وہ شروع سے ہی بہت ضدی تھا ہر بات منوانا اسکی عادت تھی اور کسی کی بات مان لینا گویا اس کی شان کے خلاف ہو۔اور سب سے خاص بات وہ آرام کے دوران کسی کی دخل اندازی پسند نہیں کرتا تھا ۔
احسن نے جب کمرے میں قدم رکھا تو اسے ایک خوبصورت سا احساس ہوا کہ یہ کمرہ اسکی خوشیوں کا ،سکوں کا مرکز ہے جب اپنے کمرے میں وہ آجاتا تو اسکا باہر جانے کا دل نہیں کرتا۔ کاش یہ کمرہ ہمیشہ میرا رہے یہ سکوں مجھے حاصل ہو جاۓ ۔وہ ان سوچوں میں گم تھا اچانک حریم زور سے بیڈ سے نیچے گر گئ ۔اسنے اونچا اونچا رونا شروع کر دیا ۔اسکی چیخیں سن کر حوریہ بھاگی بھاگی آگئ اور آکر اسے اٹھایا بےاختیار اسکی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ پاگل ہو گئ ہو کچھ نہیں ہوا بچے ایسے ہی گر گر کر بڑے ہوتے ہیں احسن نے حریم کو اسکے ہاتھوں سے لیتے ہوے کہا۔وہ کچھ بولے بغیر اٹھی اور کھنا لینے چلی گئ ۔
یہ اتنی چپ کیوں ہو گئ ہے؟ میرا دل ویسے ہی بات کرنے کو نہیں چاہ رہا اسلۓ کہ طبیعیت ٹھیک نہیں ہے مگر یہ مجھ سے کچھ پوچھ رہی ہے اور نہ ہی کچھ بول ری ہے کیوں ۔۔؟؟؟وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ کھا نا لۓ اندر داخل ہوئ ۔"سوری مجھے پتہ ہوتا آپ نے آج آنا ہے تو میں کھانا جلدی بنا لیتی اب میں نے جو بھی جلدی میں بنا لیا ہے پلیز کھا لیجئۓ" وہ برے آرام سے کھانا رکھتے ہوے کہ رہی تھی۔ احسن نے چپ چاپ کھانا شروع کیا۔ویسے یہ اتنی جلدی میرے لئۓ میری پسند کا کھانا بنا کیسے لیتی ہے سمجھ سے باہر ہے ۔انہیں سوچوں میں وہ کھانا کھا رہا تھا ،اورحوریہ حریم کو فیڈر دے کر سلانے لگی۔
"تم بھی کھانا کھاؤ ،وہ دراصل مجھے بھوک بہت لگی تھی اسی لیے جلدی سے کھانا شروع کردیا "احسن نے جلدی جلدی کہا ۔نہیں میں کھا چکی ہوں یہ کہ کر وہ باہر جانے لگی۔وہ بھوکی تھی وہ اچھی طرح جانتا تھا۔احسن نے کھانا چھوڑدیا ۔دیکھو وہ کھانے کی ٹرے پیچھے کرتا ہوا بولا ۔مجھے بھوک بہت زیادہ لگی ہے اگر تم نہیں کھاؤگی تو میں بھی نہیں کھاؤ گا تو اگر تم مجھے بھوکا مارنا چاہتی ہو تو ٹھیک ہے وہ بولتا جا رہا تھا۔کہ حوریہ نے اچانک اسکے منہ پر ہاتھ رکھا ۔آپ کیا سوچے سمجھے بغیر بولتے ہو وہ روہانسی ہو گئ تھی۔ احسن نے اب اسے تنگ کرنے کی ٹھانی۔ اور اسکا ہتھ اپنے منہ سے ہٹاتے ہوے بولا اگر میں آج گھر ہی نہ آتا راستے میں ہی مجھے کچھ ہو جاتا اور۰۰۰۰۰۰۰۰ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ ۔احسااااان ۔۔۔وہ اس سے اپنے ہاتھ چھرانا چاہ رہی تھی جنہیں احسن نے مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔ احسن نے اسے کھینچ کر گود میں بٹھا لیا تھا اور وہ اب بلکل خاموش ہو گئ تھی اسنے صرف ایک سیکینڈ کیلۓ سوچا اگر احسن کو کچھ ہو گیا تو بس۰۰۰۰۰۰۰ اسنے رونا شروع کردیا بے آواز آنسو اسکے احسن کے ہاتھوں پر گرتے جا رہے تھے ۔وہ اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ ایک ہفتہ کہاں تھا مگر۰۰۰۰۰۰جاری ہے...............
BINABASA MO ANG
Aakhri shola by Inahseya ABDULLAH season1
Romanceآخری شعلہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ بدلے کی آگ میں انسان خود کو بھی جلا ڈالتا ہے اور نفرت کرنے سے خود کے سوا کسی کو اذیت نہیں ہوتی۔