صیاد
رباب تنویر
وقت کا کام گزرنا ہے اس لیے یہ گزر ہی جاتا ہے اور جو چیز رہ جاتی ہے وہ ہے وقت کی چھاپ جو یادوں کی صورت میں تا عمر ساتھ رہتی ہے. گزرتا وقت اپنے ساتھ بہت سے انسانوں کو بہا لے جاتا ہے. یہ بہاؤ سمندر کی لہروں کی مانند ہوتا ہے جو کبھی پلٹ کر نہیں آتیں. پر وقت کی ایک خاصیت ہے کہ یہ جنہیں ساتھ لے جاتا ہے ان کے متبادل بلکہ ان سے بہتر انسان ہماری زندگیوں میں شامل کر جاتا ہے اور یوں جانے والوں کا دکھ ہم آنے والوں کی خوشی میں فراموش کر دیتے ہیں. مگر زندگی کی چند اداس شامیں جانے والوں کی کسک کو تازہ کر دیتی ہیں. خوش قسمتی انسان کی یہ ہے کہ ایسی شامیں صرف چند ہی ہوتی ہیں. کیونکہ زندگی کی مصروفیت یادوں کو یاد آنے ہی نہیں دیتی. ایسی ہی مصروفیات نے اس خوبصورت نقوش والی لڑکی کو بھی جکڑ رکھا تھا. علوی ہاؤس کے گرد بنے خوبصورت لان میں بیٹھی وہ شاید کسی کا انتظار کرنے میں مصروف تھی. اس کی گود میں بچی تھی جس کی عمر قریباً دس ماہ کے قریب تھی. کھلونوں سے کھیلتی اس بچی پر مسکراتی نگاہ ڈالتے ہوئے آنیہ نے سربراہی گیٹ کی جانب دیکھا جہاں سے مرتضی کی سوزوکی 1990 کی کار داخل ہوئی تھی.
”اسلام و علیکم! بابا" مرتضی نے گاڑی سے قدم باہر نکالا ہی تھا جب چار سال کا بچا بھاگتا ہوا آیا اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ کر بولا. وہ بچہ صحت مند ہونے کے باعث اپنی عمر سے بڑا لگتا تھا.
”آپ کہاں سے آگئے ؟ آپ تو اپنی نانو کے گھر رہنے کے لیے گئے تھے. مما بھی آئی ہیں آپ کی؟" اس سے سوالات کرتے ہوئے مرتضی لان میں بیٹھی آنیہ کی جانب بڑھا
”نہیں مما تو نہیں آئی. میں ہی آیا ہوں کیونکہ میں پھوپھو کے بغیر اداس ہو گیا تھا" اس کا ہاتھ تھام کر چلتے بچے نے جواب دیا
”کون سا تاویز گھول پر پلایا ہے تم نے میرے بیٹے کو آنیہ جب دیکھو تمہارے پلو سے لگا رہتا ہے" مرتضی نے اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے سوال کیا
”وہی تاویز گھول کر پلایا ہے میں نے اسے جو تم نے میری بیٹی کو گھول کر پلایا ہے" آنیہ کا اشارہ بچی کی جانب تھا جو مرتضی کو دیکھ کر اس کے ہاتھوں سے نکل کر مرتضی کی گود میں جانے کی جدوجہد میں تھی.
”یہ تاویز کا نہیں میرے پیار کا اثر ہے" مرتضی نے اسے کو گود میں لیتے ہوئے کہا. وہ اب اس کی گود میں بیٹھی اس کی آنکھوں پر لگے گلاسز اتارنے کی کوشش کر رہی تھی.
”ہارون نہیں آئے تمہارے ساتھ؟" اس کے لہجے میں ہارون کے لیے فکر واضح محسوس کی جا سکتی تھی.
”وہ اللہ یار کے ساتھ کسی کام سے گیا ہے آجائے گا کچھ دیر میں"
”کھانا ابھی کھاؤ گے یا ہارون کا ساتھ؟"
”ہارون کے ساتھ ہی کھاؤں گا" اسے جواب دے کر مرتضی نے اس بچے کی جانب دیکھا جو ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ چڑھائے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بالکل اس کے انداز میں بیٹھا تھا.
”بالکل تم پر گیا ہے" اس کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھتے ہوئے آنیہ بولی. اس کی بات کے جواب میں مرتضی نے مسکرانے پر اکتفا کیا.
”بابا گڑیا کو نیچے بٹھا دیں مجھے کھیلنا ہے اس کے ساتھ" بچے کی بات سن کر مرتضی نے بچی لان کی زمین پر بٹھا دیا.
”گڑیا مجھے پکڑ لو!!!!!" مرتضی نے جیسے ہی اس بچی کو بٹھایا وہ چار سالہ بچہ کرسی سے اتر کر اس بچی کے آگے بھاگتے ہوئے بولا. بچی اس کو بھاگتے دیکھ کر کھلکھلائی اور اس کے پیچھے پیچھے کرولنگ کرنے لگی.
”الہان گڑیا کو لے کر گیٹ کے پاس نہ جانا" مرتضی نے الہان نامی چار سالہ بچے کو ہدایت دی.
”آنیہ اللہ یار زور دے رہا ہے کہ ہم ایک بار اس کی حویلی آئیں "
”تم اسے منع کر دو میں نے نہیں جانا اس کی حویلی"
”کوئی معقول وجہ بھی تو ہو اسے منع کرنے کی"
”کیا یہ وجہ کافی نہیں ہے کہ اس کی حویلی گوادر میں ہے سی پورٹ کے قریب"
”خدا کے لیے آنیہ اس سب کو بھول جاؤ. پانچ سال گزر گئے ہیں اس واقع کو"
”پانچ سال کتنی جلدی گزر گئے ہیں نا؟ ان پانچ سالوں میں بہت کچھ بدلا ہے. پہلے ہارٹ اٹیک کے بعد بابا کی حالت مسلسل بگڑنا شروع ہو گئی تھی. ان کی حالت کے پیش نظر بڑے بابا نے ہم تینوں کی شادیاں کر دیں. میری شادی ہارون سے اور تمہاری شادی اپنے دوست کی بیٹی سے.اور پھر ہماری شادی کے چھ مہینے بعد بابا کا ہم سب کو چھؤڑ جانا" بابا کے ذکر پر آنیہ اداس ہو گئی تھی.
”تمہاری عمر بیس سال تھی اور زیادہ تر لڑکیوں کی اسی عمر میں شادی ہو جاتی ہے اس لیے تمہارے متعلق بڑے بابا کا فیصلہ درست تھا. مگر تمہارے جڑواں بھائی یعنی کے مرتضی عادل علوی کی عمر اس وقت شادی کی نہیں تھی. لڑکوں کے لیے بیس سال کوئی عمر ہوتی ہے شادی کی. میری جوانی میں ہی شادی کی صورت میں مجھے نکیل ڈال دی گئی تھی. میرے ساتھ ظلم ہوا تھا اس وقت مگر بابا کی حالت کے باعث میں اس ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کر سکا." اپنی بہن کی اداسی دور کرنے کے لیے مرتضی بات کو مزاخیہ رخ دے کر بولا
”فرح بھابھی کو تمہاری یہ تقریر حرف بہ حرف بتاؤں کی میں" آنیہ نے اسے دھمکی دی اور دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ اس کا دھیان گوادر نہ جانے والے موضوع سے ہٹا
”آنیہ ایمانداری سے بتاؤ دیکھنے میں لگتا ہے کہ میں چار سال کے بچے کا باپ ہو سکتا ہوں."
”بالکل لگتا ہے. تم چار سال کے بچے کے نہیں دس سالہ بچے کے باپ لگتے ہو اور شکر کرو اس اچھے وقت میں شادی ہوگئی تمہاری ورنہ تم بھی اب تک احتشام کی طرح کنوارے گھوم رہے ہوتے" پانچ سال پہلے جب ان تینوں کی شادی کی بات چلی تھی تب احتشام نے منع کر دیا اور اس کا کہنا تھا کہ پہلے وہ پڑھائی مکمل کرکے فارن سروس میں جاب کرنا چاہتا ہے.
”اس کے کنوارے پن کا علاج بھی میں نے,اللہ یار نے اور ہارون نے مل کر سوچ لیا ہے"
”اللہ یار سے یاد آیا ہم اللہ یار کے گھر جانے کی بات کر رہے تھے" اچانک سے یاد آنے پر مرتضی بولا
”چھوڑو اس بات کو تم یہ بتاؤ احتشام کب واپس آ رہا ہے؟"
”موضوع بدلنے کی کوشش مت کرو. آج تم مجھے بتا ہی دو تم گوادر جانے سے اتنی خائف کیوں ہو؟" مرتضی کے سوال پر آنیہ نے ایک گہری سانس خارج کی. وہ اسے کیا بتاتی کہ ساحل پر کھڑے اس شخص کو وہ چاہ کر بھی فراموش نہیں کر سکی تھی. اس کی وہ سرد نگاہیں آج بھی اسے خوف زدہ کرتی تھیں. ان نگاہوں کا سرد پن اس کے حواس منجمند کر دیتا تھا.اس شخص سے دوبارہ ٹکراؤ ہونے کے ڈر سے اس نے گزرے پانچ سالوں میں ایک مرتبہ بھی گوادر کا رخ نہیں کیا تھا.
”مجھے اس موضوع پر بات نہیں کرنی" وہ بے رخی سے بولی اور گیٹ کی جانب دیکھنے لگی جہاں سے ہارون اس بچی کو گود میں اٹھائے چلا آرہا تھا. ہارون کے ساتھ چار سالہ الہان بھی تھا.
”کیا باتیں ہو رہی ہیں؟" ہارون نے مسکراتے ہوئے سوال کیا
”تمہاری بیگم کا دماغ درست کرنے کی کوشش کر رہا ہوں" مرتضی کے جل کر بولنے پر آنیہ نے منہ بنایا.
”کیا ہوا ہے میری بیگم کے دماغ کو؟" ہارون مسکراتے بولا
”وہی اللہ یار کی حویلی نہ جانے کی رٹ. تمہارا ہی حوصلہ ہارون جو تم میری خر دماغ بہن کو برداشت کر لیتے ہو"
”بابا میری پھپھو کو کچھ مت کہیں" الہان نے مرتضی کو تنبیہ کی
”لوجی تان لی بندوق ان کے محافظ نے" مرتضی نے اپنے بیٹے کی غداری پر چہرے کے تاثرات بگاڑے
”سوچ سمجھ کر بولا کرو مرتضی میری بیوی کا ڈیفینس بہت مضبوط ہے" ہارون نے اسے چھیڑا.
”تمہاری تو بیوی ہے تبھی ہر دفعہ اس کی سائیڈ لیتے ہو. مگر یاد رکھنا میری گڑیا میری سائیڈ ہے. یہ بڑی ہو کر میری اور احتشام کی ٹیم میں شامل ہوگی. پھر دیکھنا ہر دفعہ ہمارا پلڑا بھاری ہوگا" مرتضی نے ہارون کے کف لنکس سے کھیلتی بچی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا.
”اچھا بحث ختم کرو اور جلدی سے سب کھانے کی ٹیبل پر آجاؤ میں کھانا لگاتی ہوں" آنیہ اندر کی جانب بڑھ گئی.
”مرتضی تم اللہ یار سے کہہ دو ہم اگلے ہفتے اس کے گھر آئیں گے تب تک احتشام بھی واپس آجائے گا" ہارون رسانیت سے بولا
”آنیہ نہیں مان رہی گوادر جانے کے لیے"
”اسے راضی کرلوں گا میں تم کی فکر مت کرو. اسے بس وہم ہے کہ وہ اس جگہ جائے گی تو پھر کچھ برا ہو گا"
”ٹھیک ہے پھر میں اسے اگلے ہفتے کا کہہ دیتا یوں"
”اگلے ہفتے کوئی کہیں نہیں جا رہا" مرتضی کے ساتھ رکھی چیئر پر بیٹھا الہان حکمیہ انداز میں بولا
”کیوں اگلے ہفتے کیا ہے؟" ہارون نے آبرو اچکاتے کوئے سوال کیا
”چاچو آپ بھول گئے؟ اگلے ہفتے میری سالگرہ ہے اور میں نے اپنے دوستوں کو گھر بلانا ہے"
"پہلی بات تو یہ کہ میں تمہارا چچا نہیں تایا لگتا ہوں کیونکہ میں عمر میں تمہارے باپ سے بڑا ہوں اور دوسری بات یہ کہ تم آنیہ کو تو پھوپھو بلاتے ہو مجھے کیوں چچا بلاتے ہو؟"
”دیکھیں ہارون چچا میں نے بابا کے حوالے سے آپ سے رشتہ داری جوڑی ہے پھوپھو کے حوالے سے نہیں. پھوہھو بابا کی بہن ہیں اس لیے میں انہیں پھوپھو کہتا ہوں اور آپ بابا کے کزن ہیں اس لیے آپ کو چچا کہتا ہوں. تایا آپ کو میں اس لیے نہیں کہتا کیونکہ مجھے تایا لفظ اچھا نہیں لگتا"
”بڑے بابا کہہ لیا کرو؟" ہارون نے مشورہ دیا
”بڑے بابا تو میں آپ کے بابا کو کہتا ہوں" اس نے عابد صاحب کا حوالہ دیا جو اپنی بیگم فاریہ کے ساتھ عمرے پر گئے تھے
”وہ رشتے میں تمہارے دادا لگتے ہیں" ہارون نے تصیح کرنی چاہی
"مگر دیکھنے میں وہ میرے بڑے بابا ہی لگتے ہیں اور آپ میرے چچا. اس لیے نو آرگیومنٹش" دائیاں ہاتھ فضا میں بلند کرکے الہان نے بات ختم کی.
”دیکھنے میں تو پھر میں تمہارا بھائی لگتا ہوں"مرتضی نے گفتگو میں حصہ ڈالنے ضروری سمجھا
”اب دیکھنے والوں کی نظر اتنی بھی کمزور نہیں ہے" الہان کے جھٹ سے بولنے پر مرتضی اس کا منہ اور تیز رفتار سے چلتی زبان دیکھ کر رہ گیا. مرتضی کے تاثرات دیکھ کر ہارون کا قہقہ فضا میں بلند ہوا.
”بے عزتی سے پیٹ بھرا کہ نہیں؟ اگر نہیں بھرا تو آ کر کھانا کھا لو" کہتے ساتھ ہی ہارون بچی کو گود میں اٹھائے اندر کی جانب بڑھ گیا.
”پر گئی ٹھنڈ باپ کی بے عزتی کروا کر؟" مرتضی الہان کو مخاطب کرتے ہوئے دانت پیس کر بولا
”میں نے کیا کیا ہے؟خود ہی کہتے ہیں سچ بولا کرو چاہے سچ کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو" لبوں پر ابھرتی ہوئی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے وہ چار سالہ الہان بولا
»بیٹا بڑے ہوکر خوب نام ڈبونا میرا" مرتضی نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے طنز کیا
”جی انشاء اللہ" شرارت سے چمکتی آنکھیں مرتضی کے چہرے پر ٹکاتے ہوئے وہ بولا.
”بابا اگلے ہفتے اللہ یار انکل کی طرف جانے کا پروگرام ملتوی کر دیں... بابا انکار مت کیجیئے گا اکلوتا بیٹا ہوں میں آپ کا.... پلیز میں اپنے دوستوں سے وعدہ کر چکا ہو کہ میں انہیں اپنے گھر بلا کر پارٹی دوں گا. آپ پلیز اللہ یار انکل سے کہہ دیں کہ ان کی حویلی ہم اگلے ہفتے سے اگلے ہفتے آجائیں گے. آپ بہت اچھے ہیں بابا پلیز" لہجے میں مصنوعی بے چارگی لاتے ہوئے الہان بولا
”اچھا بس بس.... کر دیتا ہوں میں پروگرام ملتوی"
”بابا آپ بہت اچھے ہیں"
”بہت بڑے ڈرامے باز ہو تم"
”ماما اور پھوپھو کہتی ہیں میں آپ پر گیا ہوں"
اس کی بات پر مرتضی نے اس گھوری سے نوازا پھر اس کا ہاتھ تھام کر گھر کے اندرونی حصے کی جانب بڑھ گیا.
............................
سات گھنٹے کی فلائٹ کے بعد دوپہر کے دو بجے کے قریب وہ دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے آرائیول کنکورس ہال سے باہر نکلی. وہ گاؤن میں ملبوس تھی اور سر پر سکارف کو اس انداز میں لیا تھا کہ اس کی گردن نمایاں تھی. آج حجر کی آنکھیں بھورے لینز سے پاک تھیں جنہیں اس نے گول شیشوں والی شیڈز سے چھپایا تھا. دیکھنے میں وہ دبئی کے شہریوں کی طرح ہی لگ رہی تھی. گرے ٹائلوں سے بنے ایئرپورٹ پر طائرانہ نگاہ ڈالنے کے بعد اس نے کندھے پر پہنے ہوئے ٹریولنگ بیگ میں سے فار کی دی ہوئی فائل نکالی. اس فائل سے اس جگہ کا ایڈریس دیکھا جہاں اسے مار کر پھینکا گیا تھا. چھبیس سال پہلے کے ایڈریس کے مطابق وہ جگہ دبئی کے مشہور سی پورٹ میناء راشد کے قریب واقع تھی. ائیر پورٹ سے باہر نکل کر اس نے کیب کروائی اور میناء راشد کا رخ کیا. کچھ فیت میں وہ پورٹ کے سامنے کھڑی تھی. فار کے بتانے پر اس کے ذہن میں اس جگہ کا جو نقشہ بنا تھا وہ جگہ اس نقشے کے بالکل مخالف تھی. وہاں نہ کوئی سنسان جگہ تھی اور نا ہی کوئی ویرانی. تینوں اطراف سے بلند و بالا عمارتوں میں گھرا وہ سی پورٹ بحری جہازوں اور مقامی لوگوں سے بھرا تھا. فائل میں اس جگہ کا چھبیس سال پہلے والا نقشہ تھا جس سے اسے کوئی خاطر خواہ مدد نہیں مل تھی. کافی دیر وہ جگہ کو تلاش کرتی رہی جہاں اسے پھینکا گیا تھا مگر کچھ حاصل نہ ہوا. تھک ہار کر اس نے فار کی دی فائل دوبارہ کھولی تاکہ اس میں سے کوئی اور راستہ تلاش کر سکے. فائل میں لکھا نمبر دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک آئی. وہ نمبر فار کے دوست شیخ سلمان کا تھا جن کے گھر وہ چھبس سال پہلے آئے تھے. اس نے وہیں کھڑے کھڑے اس نمبر پر کال ملائی جو خوش قسمتی سے اٹھالی گئی تھی
”ہیلو" اس دفعہ اس نے ہیلو امریکن لہجے میں بولا تھا.
”ہیلو... شیخ سلمان سپیکنگ" لائن کے دوسری جانب موجود شخص نے بھی امریکن لہجے میں جواب دیا.
”میں نوروے میں مقیم آپ کے دوست ایرک پائیپر کی لے پالک بیٹی حجر بول رہی ہوں" اس نے فار کا حوالہ دے کر اپنا تعارف کروایا
”...... ایرک کی لے پالک بیٹی ......وہی نہ جو اسے دبئی میں ملی تھی" کچھ دیر سوچنے کے بعد شیخ سلمان نے جواب دیا
”جی وہی والی بیٹی..... مجھے آپ کی مدد درکار ہے کیا آپ میری مدد کریں گے؟" حجر نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا
”کس قسم کی مدد؟"
”میں اپنے اصلی والدین کو تلاش کرنا چاہتی ہوں اسی وجہ سے میں دبئی آئی ہوں. مجھے لگا تھا کہ یہاں سے کوئی نہ کوئی سراغ مل جائے گا مگر یہاں آ کر مجھے نا امیدی کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ یہاں کا نقشہ ہی بدل چکا ہے. آپ اس واقع کے چشم دید گواہ ہے کیا آپ اس واقع کو تفصیلأ بتا سکتے ہیں مجھے؟"
”کیوں نہیں... آپ ایرک کی بیٹی ہیں اس لیے آپ کی مدد کرنا فرض ہے میرا. آپ اس وقت کہاں ہیں؟"
”میں میناء راشد ہورٹ پر ہوں"
”میں آپ کو Carlton Ritz ہوٹل لوکیشن بھیجتا ہوں آپ وہاں آجائیں میں آپ کو وہیں ملوں گا"
”ٹھیک ہے" کال بند ہونے کے کچھ منٹوں بعد ہی اسے لوکیشن کا میسج موصول ہوا. اب وہ ایک بار پھر سے کیب میں بیٹھی ایک انجان سفر پر گامزن تھی. گاڑی کی کھڑکی سے نظر آتی بلند و بالا عمارتوں کو دیکھ کر اس نے لمبی سانس خارج کی. اسے یہ بلند وبالا عمارتوں سے بھرا ملک باکل پسند نہیں آیا تھا کیونکہ دبئی کی خوبصورتی مخص اس کے آرکیٹیکچر کی باعث تھی اس کی خوبصورتی مین میڈ تھی اور حجر کو قدرتی چیزیں اچھی لگتی تھیں مین میڈ نہیں. ہوٹل پہنچ کر ایک نیا مسئلہ جو سامنے آیا تھا وہ یہ تھا کہ اس وسیع رقبے پر بنے ہوٹل میں وہ اس شیخ سلمان نامی شخص کو کیسے تلاش کرے گی جس کی شکل سے بھی وہ واقف نہیں. اس نے ایک دفعہ پھر اس شخص کے نمبر پر کال ملائی
”بار بار آپ کو ڈسٹرب کرنے کے لیے معزرت خواہ ہوں"
”کوئی بات نہیں بیٹے آپ کو کوئی بھی مشکل پیش آئے بلا جھجھک مجھ کہہ دیجیئے گا"
"جی ضرور... فل حال تو مجھے آپ یہ بتائیں کہ آپ ہوٹل کے کس حصے میں موجود ہیں؟"
”آپ گیٹ کے پاس رکیں میں اپنے ماتحت کو بھیجتا ہوں آپ کے پاس" چند اختتامی کلامات ادا کرنے کے بعد اس نے فون بند کر دیا. کچھ دیر بعد ایک شخص اس کے پاس آیا اور شیخ سلمان کا حوالہ دیا تو حجر اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی. پول سائیڈ ایریا کراس کرنے کے بعد وہ ہوٹل کے اس حصے میں آئے جہاں زیادہ تر سیمینار یا کانفرینس کے لیے ہال بنائے گئے تھے. وہ شخص ایک کانفرنس ہال میں داخل ہوا.حجر نے بھی اس کے تاکید کی. سفید دیواروں سے رنگے اس کانفرنس ہال میں داخل ہوتے ہی ایک شخص سے اس کی نگاہ ٹکرائی. وہ شخص عربیوں کے مخصوص لباس میں ملبوس تھا. ساٹھ سالہ وہ شخص چہرے پر مسکراہٹ لیے اس کو ریسیو کرتے ہوئے بولا
”مشکل تو نہیں پیش آئی یہاں آتے ہوئے؟"
”کوئی مسئلہ نہیں یوا" حجر کو اس کا انداز بالکل فار جیسا لگا تھا
”پہلے آپ یہ بتائیں بیٹا کہ کیا لیں گی؟ چائے, کافی یا قہوہ؟"
”کافی" حجر ان کے طرز مخاطب سے متاثر ہوئی تھی.
”ایرک اور الیکزینڈرہ کیسے ہیں؟"
”مور اور فار بالکل ٹھیک ہیں" چند ادھر ادھر کی باتوں کے بعد حجر کام کی بات کی طرف آئی
”میں کہاں ملی تھی آپ کو؟" اس کے سوال پر انہوں نے الف سے ے تک ساری بات اسے بتا دی اور وہ ساری بات وہی تھی جو فار نے اسے بتائی تھی.
”کیا آپ مجھے اس جگہ کے بارے میں بتا سکتے ہیں جہاں میں آپ کو ملی تھی؟"
”وہ جگہ میناء راشد کے قریب واقع تھی. مگر جب میناء راشد کو کچھ سال پہلے دوبارہ سے تعمیر کیا گیا ہے تب اس رہائشی علاقے کو بھی پورٹ کا حصہ بنا لیا اور جو لوگ ان اپارٹمنٹ میں رہائش پزیر تھے انہیں میریٹائم سٹی منتقل کر دیا گیا تھا. اس لیے اب اس جگہ کی تلاش کرنا ناممکن ہے"
”آپ ان پولیس آفیسرز کے بارے میں بتا سکتے ہیں جو اس وقت اس کیس کے انچارج تھے؟" حجر نے اس امید کا دامن نہیں چھوڑا
”ان پولیس آفیسرز کو ڈھونڈنا بہت مشکل ہے اور اگر آپ کسی طرح انھیں ڈھونڈ بھی لیتی ہیں تب بھی یہ بات یقینی نہیں ہے کہ انہیں اتنے سال پرانے کیس کی تفصیلات یاد ہونگی. اس لیے بہتر ہے کہ آپ اس راستے پر گامزن نہ ہوں جس کی کوئی منزل نہیں"
"اپنی پہچان تلاش کرنا میری خواہش ہے جس کے حصول کے لیے میں ایک دفعہ کوشش ضرور کرنا چاہتی ہو. اگر اپنی مقصد تک پہنچ گئی تو ویل اینڈ گڈ اور اگر نا پہنچ پائی تو سمجھ جاؤں گی کہ اس خواہش کا حسرت میں تبدیل ہونا قسمت میں لکھا تھا."
”اگر ایسی بات ہے تو پھر میں آپ کو نہیں روکوں گا آپ اپنی کوشش جاری رکھیں. اگر مدد کی ضرورت ہے تو میں حاضر ہوں."
“سر کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ دبئی بحری راستے کے زریعے کن ممالک سے تجارت کرتا ہے"
”دبئی کی زیادہ تجارت تو متحدہ عرب عمارات اومان, ایران وغیرہ کے ساتھ ہوتی ہے اس کے علاوہ اس کے تجارتی تعلقات یو کے اور جرمنی سے بھی ہیں. مگر زیادہ تر تجارت ایشیائی ملکوں کے ساتھ ہوتی ہے. آپ نے یہ سب جان کر کیا کرنا ہے؟"
”کچھ خاص نہیں بس ویسے ہی" حجر نے تفصیل بتانے سے گریز کیا
”میرا مشورہ یہی ہے کہ آپ اس سب کو چھوڑ کر اس ثبوت کا پیچھا کریں جو وہ شخص خود چھوڑ کر گیا ہے"
”مجرم ارادۃً وہی ثبوت چھوڑتا ہے جس سے اسے کوئی خطرہ نہیں ہوتا. میرے کیس میں بھی کچھ ایسا ہی ہے اغواہ کار کے چھوڑے ہوئے ثبوت بے فائدہ ہیں"
”ان بے فائدہ ثبوتوں میں سے راہ تلاش کر کے مجرم کے دماغ تک رسائی حاصل کرنا ہی تو آپ کا پروفیشن ہے اور ایرک نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ حجر اپنے پروفیشن میں ماہر ہے." باتوں باتوں میں وہ اس کا حوصلہ بڑھا گئے تھے. حجر ان کی بات پر مسکرتے ہوئے بولی
”فار نے کہا ہے تو مان لیتی کیونکہ وہ صرف حق دار کی ہی تعریف کرتے ہیں"
”یہ بات تو بالکل ٹھیک کہہ آپ نے"
”چلیں چلتی ہوں سر اپنے قیمتی وقت میں سے میرے لیے ٹائم نکالنے کا بہت شکریہ"
“شکریہ کی کوئی بات نہیں. آپ ہماری مہمان ہیں اور مہمانوں کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے" حجر ان کی بات پر مسکراتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھ گئی. دروازے سے باہر نکلتے ہی اس کے چہرے سے وہ رسمی مسکراہٹ غائب تھی. اس سفر کا آغاز کرتے ہوئے اس کے حوصلے بلند تھے. اسے امید تھی کہ یہاں سے کوئی نہ کوئی سرا تو اس کے ہاتھ لگ ہی جائے جس کے پیچھا کر کے وہ جلد ہی اپنی سر زمین تک پہنچ جائے گی. مگر یہاں سب کچھ اس کی امیدوں کے برعکس تھا. اس کا حال اب صحرا میں گم اس پیاسے کی طرح تھا جس نے نخلستان کے سراب کے پیچھے لمبا سفر طے کیا تھا اور اتنا لمبا سفر طے کرنے کے بعد اس کے حصے میں جو چیز آئی تھی وہ تھی ذہنی اور جسمانی تھکن. سوچوں سے پیچھا چھڑا کر اس نے اردگرد دیکھا تو خود کو ایک سیمینار ہال کے سامنے پایا. اس ہال کے باہر بہت رش تھا. ان سب پر ایک نگاہ ڈال لر اس نے بیگ سے فون نکالا اور سائمن کا نمبر ملانے لگی.
..........................
گیٹ وے بلڈنگ کے سیکنڈ فلور پر بنے آفس میں خاموشی چھائی تھی. آفس کے اندر موجود چاروں افراد اپنی اپنی جگہ پر سر جھکائے کھڑے یہ سوچنے میں مصروف تھے کہ اس صورت حال کو کیسے سمبھالا جائے. دروازے میں کھڑے الہان نے ایک نظر ان کے جھکے سروں کو دیکھا پھر مناسب چال چلتا ان سے دو قدم فاصلے پر رکھ گیا
”میری شان میں کوئی قصیدہ رہ گیا ہ تو وہ بھی پڑھ لو" اس کے طنز پر ان کے جھکے سر مزید جھک گئے
”تم لوگوں کو اپنی کمپنی میں جاب دینے کے فیصلے پر شدید پچھتاوا ہو رہا ہے. میری غیر موجودگی میں تم لوگوں نے جو حرکتیں کی ہیں ان سب کی رپورٹ مل گئی ہے مجھے" الہان ان کی جانب ملامتی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا. اس کی بات پر ان سب نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر اینڈی بولا
”باس کون سی حرکتیں کی ہیں ہم نے؟ ہم سب باقائدگی سے آفس آتے رہے ہیں اور سارا کام بھی پلین کے مطابق ہی ہو رہا ہے اور ابھی بھی میں صوفے پر لیٹا آپ کی فلائٹ کی ٹائیمنگ ہی چیک کر رہا تھا." اینڈی نے نا صرف الہان کو مطمئن کرنے کی کوشش کی بلکہ لمحوں میں آفس ٹائیمنگ میں فون استعمال کرنے کا جواز بھی پیش کیا
”آفس تو تم سب باقائدگی سے آتے رہے ہو مگر آفس آکر پورا دن کیا کرتے تھے اس کا اندازہ بھی مجھے خوب ہے اور رہی بات میری فلائٹ کی ٹائیمنگ کی تو یہ جان کر تمہے افسوس ہوگا کہ میری فلائٹ گھنٹہ پہلے لینڈ ہو گئی تھی اور ڈرائیور کو لیٹ بھیجنے کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا تم لوگوں کو کیونکہ میں ڈرائیور کا انتظار کیے بغیر ہی کیب کروا کر آدھے گھنٹے پہلے کا آفس پہنچ گیا تھا اور تم لوگوں کے نیک خیالات بھی گوش گزار کرچکا ہوں"
”باس اینڈی بالکل سچ کہہ رہا ہے اور میں آپ کی چیئر پر بیٹھا آج سیمینار میں دینے والی آپ کی سپیچ سوچ رہا تھا. اپنے ذہن میں میں نے آپ کی ساری سپیچ تیار کر لی ہے بس اب اسے پیپر پر لکھنا پھر آپ کی سپیچ تیار" پیٹر نے بڑی صفائی سے جھوٹ بولا
”کیا میں نے تمہے اپنی سپیچ لکھنے کے لیے کہا تھا؟ نہیں نا تو پھر تم نے اپنا قیمتی وقت کیوں ضائع کیا تھا؟"
”باس میں تو ایک ایل ای ڈی پر نئی گیم کے گرافکس چیک کر رہا تھا تا کہ جلد از جلد ٹیسٹنگ کا کام ختم ہو اور ہم گیم لاؤںچ کر سکیں" اینڈی اور پیٹر کے جواز سن کر کر جارج نے بھی اپنا دماغ چلایا اور اپنی طرف سے بہترین بہانہ پیش کیا. اس کا بہانہ سن کر الہان ایل ای ڈی کی جانب بڑھا اور اسے آن کرکے ہسٹری چیک کرنے لگا.
”مجھے تو یہاں کہیں گیم کی سائٹ کھلی نظر نہیں آرہی ہاں مگر انگلش موویز کئی مرتبہ دیکھی گئی ہیں پچھلے ایک ہفتے میں"
ان تینوں کی وضاحت جھوٹ ثابت کرنے کے بعد الہان نے سائمن کی جانب رخ کیا جو مناسب بہانا بنانے کی تگ و دو میں تھا مگر کوئی اچھا سا بہانہ اس کے ذہن میں آہی نہیں رہا تھا
”مینجنگ ڈائیریکٹر سائمن آپ اپنی صفائی میں کوئی جھوٹی دلیل نہیں دیں گے؟ یاں پھر آپ سنگل ہونے کے غم میں ڈوبے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو بتاؤ میں تمہے اس غم سے ابھرنے میں مدد دوں" اس نے سائمن پر طنز کیا
”نہیں باس"
”اس کمپنی کو بنے آٹھ سال ہونے والے ہیں. ان آٹھ سالوں میں پہلی مرتبہ میں اتنے دنوں کے لیے غیر حاضر رہا ہوں اور کمپنی کی ذمہ داری تم لوگوں کے سپرد کی ہے مگر تم لوگوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ دیکھ کر مجھے سخت مایوسی ہوئی ہے" ایک لمحے کے لیے وہ رکا
”سائمن ایک ہفتے میں کمپنی کے ورکنگ آورز کتنے گھنٹے بنتے ہیں؟" پھر اچانک سے سائمن کو مخاطب کرتے ہوئے بولا
”کمپنی کی ٹائمنگ صبح نو سے چھ ہے یعنی نو گھنٹے اور ویک کے ورکنگ آورز پینتالیس گھنٹے بنتے ہیں" سائمن نے جواب دیا جبکہ باقی تیبوں نا سمجھی سے اس کی جانب دیکھ رہے تھے.
”پیٹر اگر اس ایک ہفتے یعنی پینتالیس گھنٹوں کا کام دو ہفتے میں پورا کرنا ہو تو ورکنگ آورز کے علاوہ اور کتنے گھنٹے کام کرنا پڑے گا؟"
”ساڑھے چار گھنٹے باس..... نو کی بجائے اگر ساڑھے تیرہ گھنٹے کام کیا جائے تو دو ہفتوں میں تین ہفتوں کا کام مکمل کیا جا سکتا ہے"
”بس پھر فائنل ہو گیا... پچھلے ایک ہفتہ جو تم لوگوں نے ضائع کیا ہے اس کی تلافی کرنے کے لیے تم چاروں اگلے دو ہفتے ساڑھے چار گھنٹے آور ٹائم کرو گے.مطلب صبح نو بجے سے رات ساڑھے دس تک" الہان نے ان کے سر پر بم پھوڑا جس سے وہ سب بھونچکا گئے.
”باس صرف آج ہم یوں کام چھوڑ کر بیٹھے تھے وہ بھی اس خوشی میں کہ آپ اتنے عرصے بعد واپس آرہے ہیں ورنہ روز تو ہم پوری توجہ سے کام میں مصروف رہتے ہیں" اس کی سزا سن کر اینڈی نے بات سمبھالنے کی نا کام کوشش کی
”تم سب کو میرے ایک ہفتے بلکہ تماری لغت کے مطابق اتنے عرصے بعد واپس آنے کی جتنی خوشی تھی اس کا اندازہ مجھے خوب ہے اسی خوشی میں ہی تو تم لوگوں نے ڈرائیور کو گھنٹہ لیٹ بھیجا تھا ائیر پورٹ اور رہی بات کام میں مصروف رہنے کی تو تمہاری مصروفیت کی صرف رپورٹ ہی نہیں ملی بلکہ باقائدہ ویڈیو ہے میرے پاس اگر کہو تو دکھا دوں؟"
”نہیں باس اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے.. آپ نے کہہ دیا ہم نے مان لیا" جارج نے بگڑی بات سمبھالنے کی نا کام کوشش کی.
”اچھی بات ہی... چلو اب اپنا بوریا بسترا اٹھاؤ اور نکلو میرے آفس سے" الہان کا شارہ میز کے وسط میں رکھے کھانے پینے والی اشیاء کے ریپرز کی جانب تھا. اس کی بات سن کر جارج نے میز سے ریپر اٹھائے اور پھر وہ چاروں مرے قدموں سے آفس سے نکل گئے.
”یہ پورے ہفتے کہ رپورٹ باس کو کس نے دی ہے؟" آفس کا دروازہ پھلانگتے ہی اینڈی نے ان تینوں سے سوال کیا
”میں خود یہی سوچ رہا ہوں" جارج گویا ہوا
”مجھے تو یہ باس کے چمچے حماد کا کام لگتا ہے" سائمن نے اپنے شک کا اظہار کیا
”حماد بتا تو سکتا ہے باس کو مگر ہم سب کی ویڈیو بنا کر باس کو دکھانے کی ہمت نہیں ہے اس میں" جارج نے اس رائے رد کی. اس سب کے دوران پیٹر خاموش تھا
”کہیں آفس میں لگے کیمرے کی ریکارڈنگ باس نے تو نہیں دیکھ لی؟"
”باس کیسے دیکھ سکتے ہیں آفس کی ریکارڈنگ تو بس ایدمینسٹریشن اور... ؟
”ایلکس!!!!" سائمن,اینڈی اور جارج ایک ساتھ بولے اور پھر تینوں نے گردن گھما کر سست قدم اٹھاتے پیٹر کی جانب دیکھا
”یہ ضرور اس کی اولاد ایلکس کا کار نامہ ہے" جارج پیٹر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا
”میرا اس میں کوئی قصور نہیں... میں بے قصور ہوں" ان سب کو اپنی جانب بڑھتا دیکھرکر پیٹر دہائی دینے والے انداز میں بولا
”ابھی پتا چل جاتا ہے کہ تمہارا قصور ہے یا نہیں" اسے جواب دے کر اینڈی نے مصنوعی کالر جھاڑی پھر بلند آواز جارج اور سائمن کو مخاطب کرتے ہوئے بولا
”ایلکس کو دنیا میں لانے کے ذمہ دار کون؟"
”پیٹر" اس کے سوال پر جارج اور سائمن ایک زبان ہو کر بولے
”ایلکس بنا کر باس کو دینے والا کون؟"
”پیٹر"
“ایلکس کو آفس کے کیمرے تک رسائی دینے والا کون؟
“پیٹر”
”ان تمام گواہوں اور ثبوتوں کی روشنی میں ثابت ہوا ہے کہ ہماری کونفیڈینشیل معلومات لیک ہونے, وہ ساری معلومات باس تک پہنچنے اور باس کا ہمیں سزا دینے کے پیچھے کسی اور کا نہیں دوست کے لبادے میں چھپے ہمارے دشمن پیٹر ولسن کا ہاتھ ہے اور دفعہ تین سو دو کے تحت پیٹر ولسن کو اگلے دو یفتے ہم سب کی جرابیں دھونے کی کڑی سزا سنائی جاتی ہے"
”سزا بہت کڑی ہے مائی لارڈ... مجھے معلوم نہیں تھا کہ ایلکس بڑا ہو کر مجھ سے یعنی کے اپنے باپ سے غداری کرے گا... میں نے دانستنگی میں کچھ نہیں کیا مائی لارڈ...میں رحم کی اپیل کرتا ہوں"
”تمہاری اپیل رد کی جاتی ہے کیونکہ اس فتنہ پرور کو ایجاد کرنے اور اسے باس کو گفٹ کرکے ان کی نظروں میں نمبر ٹانگنے کی کوشش تم نے دانستگی میں کی تھی."
"میں سپریم کورٹ میں رحم کی اپیل کروں گا.. یہ فیصلہ ٰغلط ہے میرا گناہ اتنا بڑا نہیں تھا جتنی بڑی مجھے سزا دی جاتی ہے. میرے ساتھ یہ سراسر زیادتی ہے"
”سپریم کورٹ یعنی کے باس بھی اس سزا کو کم کرنے میں تمہاری مدد نہیں کر سکتے کیونکہ وہ خود ہم سب سے خفا ہے اس لیے اپنی سزا کو خاموشی سے قبول کرو. کسی اور کو اس سزا پر اعتراض نہیں ہے اس لیے آج کے لیے یہ عدالت برخواست کی جاتی ہے" عدالت برخواست ہوتے ہی ان تینوں کے قہقہے بلند ہوئے جبکہ پیٹر بے بسی سے ان کی شکل دیکھ کر رہ گیا.
”تم لوگ میرے ساتھ اچھا نہیں کر رہے" پیٹر نے انہیں وارنگ دی. وہ سب اسی شغل میں مصروف تھے جب حماد ان کی جانب بڑھا
”سائمن سر... باس آپ کو بلا رہے ہیں" حماد کا پیغام سن کر ان چاروں کے درمیان نظروں کا تبادلہ ہوا
”جا میرے گیدڑ شیر کی کچھاڑ میں..... ہم سب کی اخلاقی مدد تیرے ساتھ ہے" اس کو ہچکچاتے دیکھ کر اینڈی نے اسے حوصلہ دیا. سائمن کے جاتے ہی حماد بھی وہاں سے کھسکنے لگا تھا مگر اینڈی نے اس کے گلے میں بازو ڈال کر اسے روک لیا
”جارج سنا ہے آج کل ہمارے آفس کے سٹاف میں کوئی غدار گھس آیا ہے جو باتیں لیک کر رہا ہے" اینڈی سنسنی خیز لہجے میں بولا
”سنا تو میں نے بھی ہے. تم فکر نہ کرو جلد ہی میں غدار کا منظر عام پر لانے والا ہوں. شک کے دائرے میں تو بہت سے لوگ ہیں مگر دائرے کا مرکز ایک ہی ہے جسے میں بہت جلد بے نقاب کرنے والا ہوں. اور ہاں ہمیشہ کہ طرح غدار کی سزا کا انتخاب تم ہی کرو گے." اینڈی کی بات کا جواب دیتے وقت جارج کی نظریں حماد ہر ٹکی تھیں جسے اینڈی نے زبرستی روکے رکھا تھا
”کیوں نہیں.... میں اس موقع سے ضرور فیض یاب ہونا چاہوں گا"
”تمہارا کیا خیال ہے حماد کون ہے وہ غدار؟" پیٹر نے حماد کو بھی گفتگو میں شامل کیا
”سر مجھے جانے دیں... پلیز باس نے مجھے سیمینار کی لوکیشن دیکھنے کے لیے کہا ہے" حماد منمنایا
”لو بھلا میں نے تمہے کب روکا ہے تم تو خود ہی ہماری باتیں سننے کھڑے ہو" اس کے انداز سے ظاہر تھا کہ حماد کو تنگ کر رہا ہے
”جاؤ" حماد کو وہیں کھڑے دیکھ کر اینڈی دوبارہ بولا
”سر وہ اپنا بازو ہٹا لیں"
”او ہو... سوری مجھے خیال نہیں رہا" کہتے ساتھ ہی اینڈی نے اس کی گردن سے بازو ہٹایا تو حماد گولی کی طرح وہاں سے غائب ہوا.
”چلو کر لو کام اب اپنا اپنا.... ورنہ باس نے سزا مزید بڑھا دینی ہے" پیٹر جلے انداز میں بولا اوراپنے ڈیپارٹمنٹ کی جانب بڑھ گیا. اینڈی اور جارج نے بھی اس کی تاکید کی.
”باس آپ نے بلایا؟" دروازہ ناک کرنے کے بعد سائمن الہان کے آفس میں داخل ہوتے ہوئے بولا
”ہمم...آؤ بیٹھو" مرکزی کرسی پر بیٹھے الہان نے جواب دیا.
”فائل دیکھ کر کیا جواب دیا محترمہ نے؟" سائمن کے بیٹھتے ہی الہان نے سوال کیا
”وہی جس کا یقین تھا آپ کو"
”یعنی مان گئی"
”ہمم.... کیس کی پروسیڈنگ کے متعلق پوچھ رہی تھی. میں نے کہہ دیا تھا کہ باقی تفصیلات آپ خود بتائیں گے"
”تم جلد از جلد میری میٹنگ رکھواؤ اس سے کیونکہ کیس کی کاروائی میں مزید تاخیر نہیں کی جا سکتی. ایسا کرو آج رات کی ٹکٹ بک کروا دو میری ناروے کی تا کہ کل ہی اس سے فیس ٹو فیس مل کر میں اسے تفصیلات اور پروسیڈنگ کے متعلق بریفنگ دے سکوں"
”ناروے جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ آج دبئی آئی ہے اور آج ہی میٹنگ کا کہہ دیا ہے میں نے اسے آپ بس کنفرم ٹائمنگ بتا دیں"
”دیٹس گریٹ... ویل ڈن سائمن..... پانچ بجے سیمینار ختم ہوجائے گا اس لیے پانچ بجے رکھوا دو میٹنگ"
”باس اسی خوشی میں میری سزا کم کر دیں"
”سزا تو کم نہیں ہوگی اور کچھ چاہیے تو بتاؤ"
”نہیں کچھ نہیں چاہیے بہت شکریہ اس عنایت کا" سائمن جل کر بولا
”جیسے تمہاری خوشی" الہان کی بات پر سائمن منہ بناتا دروازے کی جانب بڑھا جب الہان ایک مرتبہ پھر گویا ہوا
”سیمینار کا ٹائم اور لوکیشن کیا ہے؟"
"سیمینار تو دو بجے شروع ہو جائے گا مگر آپ کی سپیچ چار بجے ہے اور Ritz Carlton ہوٹل میں ہے سیمینار" اس کی بات پر سر ہلا کر الہان نے ایک بار پھر سے نظریں کمپیوٹر سکرین پر جما دیں جہاں سیمینار میں دینے والی اس کی سپیچ کے اہم پوئنٹس لکھے تھے.
..................................
دوپہر دو بجے کے قریب کالے رنگ کی لیموزین Ritz Carlton ہوٹل کے پارکنگ ایریا میں رکی. کار کے رکنے پر وہ پانچوں گاڑی سے باہر نکلے اور ہوٹل کے سیمینار ہال کی جانب بڑھنے لگے. بلیک فارمل سوٹ میں ملبوس موڈرن کوئف ہیر سٹائل اور کالی شیڈز لگائے الہان ان سب میں نمایاں تھا. اس کے دائیں جانب پیٹر اور سائمن تھے جبکہ بائیں جانب اینڈی اور جارج تھے. وہ چاروں بھی سوٹ میں ہی ملبوس تھے.
”یار جب پروفیٹک مونسٹر ہمارے ساتھ ہوتا مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ سب لڑکیاں مڑ مڑ کر مجھے ہی دیکھ رہی ہیں" اینڈی نے سرگوشی کرنے والے انداز میں کہا تاکہ چند قدم اگے چلتا الہان نہ سن سکے.
”بے وقوف سب تجھے نہیں پروفیٹک مونسٹر کو دیکھ رہی ہیں" جارج نے اسے اس کی بے وقوفی کا احساس دلایا.
”اب تم میری پرسنیلیٹی کو انٹرایسٹیمیٹ کر رہے ہو" جارج نے اینڈی کی بات کا جواب دینے کے لیے منہ کھولا ہی تھا جب الہان بولا
”سائمن اور پیٹر میری سپیچ کے وقت تم دونوں بیک سٹیج رہ کر سائونڈ سسٹم سمبھالو گے اور گروپ ڈسکشن کے وقت سب سوالوں کے جواب دینے کی ذمہ داری اینڈی اور جارج کی ہے."
”ایک بات اور... تم دونوں فضول گوئی سے پرہیز کرنا" وہ جارج اور اینڈی کو مخاطب کرتا ہوا بولا اور پھر ایک سیمینار ہال کے اندر بڑھ گیا. جیسے ہی انہوں نے اندر قدم رکھا ہال میں موجود تمام لوگ ان پانچوں کی جانب متوجہ ہوئے. لمحوں میں ان کے گروپ کے گرد لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا تھا. پہلے دو گھنٹے وہ مختلف کمپنیز کے امبیسیڈرز سے بات چیت میں مصروف رہے پھر جب الہان کی سپیچ کا وقت ہوا تو وہ سب بیک سٹیج کی جانب بڑھ گئے. وہ سب سپیچ کے اہم پوئنٹس ڈسکس کرنے میں مصروف تھے جب سائمن کا فون رنگ کیا.ان سب سے ذرا فاصلے پر جا کر سائمن نے فون اٹھایا
”سائمن کب ہے میٹنگ؟" دوسری جانب سے سوال کیا گیا
”ایک گھنٹے بعد....گیٹ وے بلڈنگ سیکنڈ فلور"
”ٹھیک ہے" فون بند کرکے سائمن دوبارہ سے ان کے قریب آیا تو الہان نے آبرو اچکاتے ہوئے اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا جس پر سائمن نے آنگھوٹا دکھاتے ہوئے اسے آل ڈن کا سگنل دیا. اسی دوران ایک آواز فَضا میں گونجی یہ آواز ہوسٹ کی تھی جو الہان کا مختصر تعارف کروانے کے بعد اسے سٹیج پر بلا رہا تھا. اپنے نام کی پکار سن کر الہان مضبوط قدم اٹھاتا سٹیج کی جانب بڑھ گیا.
.............................
سائمن سے میٹنگ کی ٹائمنگ پوچھنے کے بعد حجر نے ایک نگاہ گھڑی پر ڈالی جو چار بجا رہی تھی. ہوٹل کی راہداری میں کھڑی وہ یہ سوچنے میں مصروف تھی کہ اس ایک گھنٹے میں وہ کیا کرے. دبئی گھومنے میں اسے ذرہ برابر دلچسپی نہیں تھی کیونکہ آرکیٹیکچر اس کے لیے کبھی پرکشش نہیں رہا تھا. بلند وبالا عمارتیں اسے انسان کی طاقت, ترقی اور وقت کی تیزی کا احساس دلاتی تھیں جس سے اس کے اندر گھٹن بڑھنے لگتی تھی. اس کی آنکھوں کو بھاتے تھے تو بس قدرتی نظارے جو دل کو سکون اور روح کو آرام پہنچاتے ہیں. کچھ دیر سوچنے کے بعد جب کوئی خاص ایکٹیوٹی ذہن میں نہ آئی تو وہ بھی سامنے بنے سیمینار ہال میں داخل ہونے والے ہجوم میں گھس گئی. یہ سوفٹویر کمپنیز کی کانفرینس تھی. سب سے آخری ٹیبل پر کچھ لڑکیاں بیٹھی تھیں حجر بھی اسی ٹیبل پر بیٹھ گئی. روسٹرم کے قریب کھڑا ہوسٹ کسی گیم ڈیویلپر کمپنی کی شان میں قصیدے پڑھنے میں مصروف تھا. حجر جو خاموشی سے اسے سن رہی تھی قریب بیٹھی لڑکی کے آواز پر اس کی جانب متوجہ ہوئی
”تم نے اس گیم ڈیویلپر کمپنی کے سی ای او کی مطلق افواہ سنی ہے" وہ لڑکی اس کے ساتھ بیٹھی دوسری لڑکی سے مخاطب تھی
”نہیں کون سی افواہ؟" دوسری لڑکی نے سوال کیا
”یہی کہ یہ شخص بہت عجیب ہے.کسی نے بھی آج تک اس شخص کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا.کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اپنی پرکشش شخصیت اور ترقی کے باعث یہ شخص مغرور ہے. اس کے متعلق ایک آرٹیکل پڑھا تھا اور پھر میں نے اس کے رویے کو آبزرو کرنا شروع کیا تھا اور اس کے رویے سے غرور نہیں سرد مہری جھلکتی ہے." حجر بڑی توجہ سے ان کی گفتگو گوش گزار کر رہی تھی.
"مجھے تو بس اتنا ہی علم ہے کہ اس شخص نے بائیس سال کی عمر میں سوفٹویر اور گیم ڈیزائنگ کمپنی کی بنیاد رکھی تھی اور پھر بہت کم عرصے میں اس کی کمپنی نے ٹاپ گیم ڈیویلپر کمپنی کا خطاب حاصل کیا.انفیکٹ گیمنگ کی دنیا میں یہ وہ واحد شخص ہے جس نے اتنی کم عمر میں اس قدر ترقی حاصل کی ہے. اسے گیمنگ کی دنیا میں آئے آٹھ سال ہو گئے ہیں اور جس گیم کے ساتھ اس کی کمپنی کا نام جڑا ہو لوگ آنکھیں بند کرکے اسے ڈاؤنلوڈ کرتے ہیں اور حال ہی میں آنے والی اس کی دا ہنٹر گیم نے تو سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی ہے." ہنٹر گیم کے نام پر حجر چونکی اور سٹیج کی جانب دیکھنے لگی جہاں ہنٹر گیم لاؤنچ کرنے والے کمپنی کا سی ای او الہان مرتضی سپیچ کرنے میں مصروف تھا. موڈرن کوئف ہیر سٹائل میں بال سیٹ کیے بلیک سوٹ میں ملبوس تھا. دائیاں ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے دوسرے ہاتھ سے مائیک تھامے اس شخص کی نظریں ہال میں موجود افراد پر ٹکی تھیں
”گیم ایک ایسی ایکٹیوٹی ہے جس سے آپ تفریح حاصل کرتے ہیں. گیم کی مختلف قسمیں ہیں جن میں سے موجودہ دور میں سب سے زیادہ کھیلی جانے والی قسم آن لائن گیمز ہیں کیونکہ ان تک رسائی حاصل کرنا بہت آسان ہے. گیمز کھیلنے کے بہت سے فائدے ہیں. ان سے انسان کی مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے. ان سے ہماری فراغت دور ہوتی ہے اور آن کائن گیمز کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان سے ہمارا سماجی میل جول بڑھتا ہے." ایک لمحے کے لیے وہ رکا
”بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ موبائل گیمز کی بدولت ہماری نوجوان نسل گمراہی کا شکار ہے. اس سے طلباء کا دھیان پڑھائی سے ہٹ جاتا ہے. گمیز انسان کو کاہل بناتی ہیں. یہ صحت پر مضر اثرات مرتب کرتی ہیں. میں ان سب کی رائے کا احترام کرتا ہوں. ہر ایک کی اپنی سوچ ہے اور میری سوچ یہ ہے کہ گیم بظاہر اچھی ہے نہ بری......یہ ہمارا طریقہ کار ہے جو اس کو اچھا یا برا بناتا ہے." اس کی اس بات پر سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور ان تالیاں بجانے والوں میں آخری ٹیبل پر بیٹھی حجر بھی شامل تھی.
”آپ نے کبھی ان لوگوں کے احساسات جاننے کی کوشش کی ہے جو معذور ہوتے ہیں جو چل پھر نہیں سکتے. جو دنیا کی سیر نہیں کر سکتے ان کے لیے گیمز ہی واحد زریعہ ہیں جس کے باعث وہ بیرونی دنیا سے جڑے رہتے ہیں. گیمز انہیں ان کی پہنچ سے زائد دنیا دیکھنے اور ان سے دور رہنے والے لوگوں کو جاننے میں مدد دیتی ہے."
”میں اس بات سے انخراف نہیں کروں گا کہ گیم اڈکٹیو ہوتی ہیں. گیم کی دنیا مختلف ہوتی ہے. ایک مرتبہ اس افسانوی دنیا میں جانے کے بعد انسان واپسی کا راستہ فراموش کر دیتا ہے کیونکہ کہ طلسمائی دنیا اسے جکڑ لیتی ہے. انسان ایک کے بعد ایک لیول کھیلتا ہی چلا جاتا ہے. گیم بند کرنے کا دل ہی نہیں کرتا. یوں ہم حقیقی دنیا سے کٹ جاتے ہیں اور گیم کی دنیا میں جینے لگتے ہیں. ساری گیمز ایسی ہوتی ہیں مگر دا ہنٹر گیم مختلف ہے. اس میں ایک لیول پار کرنے کے بعد آٹھ گھنٹے کا وقفہ آتا ہے جس میں پلیئر کو کوٹھری میں قید کردیا جاتا ہے." تالیوں کی گونج پر وہ ایک لمحے کے لیے رکا پھر دوبارہ گویا ہوا
”بہت سے لوگوں نے مجھ سے اس آٹھ گھنٹے قید کی منطق پوچھی ہے (آٹھ گھنٹوں کی قید کا سن کر حجر کے ذہن میں بھی یہی سوال آیا تھا) ان سب لوگ کو میں بتاتا چلوں کہ اس قید کا مقصد پلیئر کی اڈکشن بریک کرنا ہے. انہیں گیم کی طلسمائی دنیا سے واپس حقیقی دنیا میں لانا ہے.(ہال میں ایک بار پھر تالیوں کی آواز گونجی) میرے پاس کہنے کو ابھی بہت کچھ ہے اگر آپ سب بار بار ایسے ہی داد دیتے رہیں گے تو پینتالیس منٹ کے محدود وقت میں اپنی بات کہنا میرے لیے مشکل ہوجائے گا" اس نے سامعین کو وقت کی قلت کا احساس دلانا چاہا
”آپ سب کے مطابق اس گیم کو بنانے میں مجھے کتنا وقت لگا ہو گا؟ ایک سال, دو سال؟؟؟ہمم؟؟ آپ سب کی رائے غلط ہے کیونکہ اس گیم کو بنانے میں مجھے دس سال لگے ہیں. اس گیم کا ایک ایک فیچر پر میں نے مہینوں کام کیا ہے. جو رڈلز لیول ٹو میں پلیئرز کو دی جاتی ہیں وہ سب ان کی تعلیم کے مطابق ہوتی ہیں. گیم کی سائٹ پر اکاؤنٹ بناتے وقت جس نے اپنی قابلیت زیادہ بتائی ہوگی اس کی پہیلیاں اتنی ہی مشکل ہونگی اور جس کی کوالیفیکیشن کم ہوگی اس کی پہیلیاں آسان ہونگی. گیم ڈیزائن کرتے وقت میں نے ایک لاکھ رڈلز بنائی تھیں تاکہ ہر سو بندوں کے گروپ کو دوسرے سے مختلف رڈلز مل سکیں مگر جیسے ہی گیم کے ڈائونلوڈ بھڑتے گئے ان رڈلز کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا. اب جب گیم کے ڈائونلوڈ پچاس ملین ہیں رڈلز کی تعداد پچاس لاکھ ہے. اس کے علاوہ اس بات کی بھی یقین دہانی کی جاتی ہے کہ مختلف لیول میں آپ کو ملنے والے پارٹنر کا تعلق آپ کے براعظم سے نہ ہو. دونوں پلئیر مختلف براعظموں کے باشندے ہوں. اس فیچر کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو مختلف قوموں کے متعلق جاننے کا موقع ملے. اس کے علاوہ اور بہت سے فیچرز ہیں. آپ گیم کھیلیں گے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا" آخری بات اس نے سنجیدگی سے کہی تھی مگر اس کے باوجود وہ بات ہال میں موجود سبھی لوگوں کے چہروں ہر تبسم بکھیر گئی تھی.
”اپنی مدمقابل کمپنیز کو میں یہ نصیحت کروں گا کہ دنیا کا ٹرینڈ بدل رہا ہے اور اب وار گیمز سے زیادہ ایکسپلور گیمز پسند کی جاتی ہیں اس لیے آپ بھی ایکسپلورنگ (کھوج) گیمز بنائیں. یہ گیم میں نے اکیلے نے بنائی ہے مگر وقفے وقفے سے اپڈیٹ ہونے والے ورژن میری ٹیم کی ان تھک منت کی بدولت ہیں. میں ان سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ان کی سپورٹ کی بدولت ہی یہ سب ممکن ہوا ہے. سماعت کے لیے شکریہ."سب کی تالیوں میں اس نے اپنی سپیچ کا اختتام کیا اور سٹیج سے اتر کر ایک میز کی جانب بڑھ گیا. حجر نے ایک نظر گھڑی پر ڈالی. پانچ بجنے میں پندرہ منٹ رہ گئے تھے اس لیے وہ جلد ہی سیمینار ہال سے نکلی اور کیب کروا کر سائمن کے دیے ہوئے ایڈریس کی جانب سفر کرنے لگی.
...........................
"واہ پروفیٹک مونسٹر کمال کر دیا.... آپ نے تو میرا دل ہی جیت لیا ہے... اور ہاں شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ ہماری مخنت کے بدلے میں ہماری سزا کم دیں. زیادہ نہیں بس دو ہفتوں مے آور ٹائم کو ایک ہفتے کا کر دیں" سپیچ دے کر الہان جیسے ہی سٹیج سے اتر کر ٹیبل پر آ کر بیٹھا اینڈی کی نا رکنے والی فضول گوئی ایک مرتبہ پھر سے شروع ہوئی. الہان اس کی بات نظرانداز کرکے پانی پینے لگا جب بیک سٹیج سے سائمن الہان کی تلاش میں نظریں دوراتا ہوا آیا
”باس واپسی کے لیے نکلیں میٹنگ کے لیے دیر ہو رہی ہے....پانچ بجنے میں چند ہی منٹ رہ گئے ہیں" قریب آتے ہی سائمن عجلت سے بولا
”ہاں ہاں چلو" الہان فوراً اپنی جگہ سے اٹھا اور خارجی دروازے کی جانب قدم بڑھانے لگا. باقی چاروں بھی اس کے پیچھے ہی تھے.
”سائمن" جارج نے سائمن کو پکارا
”اب کونسی میٹنگ ہے باس کی؟ جہاں تک مجھے پتا ہے کیس کی وجہ سے باس اب کسی سے میٹنگ نہیں رکھ رہے اور ان کی ساری میٹنگز پیٹر سنبھالتا ہے"
”کیس سے متعلق ہے میٹنگ اور باس نے ہی رکھوائی ہے"
”اچھا تو اس کے لیے ہی باس نے تمہے آفس بلایا تھا..... مجھے پہلے ہی شک تھا کہ باس کے ساتھ مل کر تم کوئی نہ کوئی کھچڑی پکا رہے ہو" جارج پر سوچ انداز میں بولا
”کوئی کھچڑی وچڑی نہیں پک رہی... یہ میٹنگ کمپنی کے معاملات سے متعلق نہیں تھی جو میں تم لوگوں کو بتاتا پھرتا" سائمن کی بات سن کر جارج خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گیا. سائمن یونیورسٹی سے الہان کے سب سے زیادہ قریب رہا تھا اس لیے الہان کے ذاتی معاملات سے بہت حد تک آگاہ تھا اور ان کو نمٹانے کی ذمہ داری بھی اس کی ہی تھی.
"سائمن" الہان کی پکار پر سائمن دائیں جانب بنی سیٹ پر بیٹھے الہان کی جانب متوجہ ہوا
”جو ڈیٹیلز تم نے ویب سائٹ کو بھیجی تھیں ان کی فائل دکھاؤ" اس کی بات پر سائمن سر ہلاتا اپنے آفس بیگ میں سے کچھ تلاش کرنے لگا. کچھ لمحے بعد بیگ میں سے ایک فائل نکال کر اس نے الہان کی جانب بڑھائی.
"10ستمبر1993" فائل کے پہلے صحفے پر یہ ڈیٹ درج تھی. جیسے ہی اس نے صحفہ پلٹا ایک تصویر اس کے سامنے آئی. یہ تصویر ایک بچی کی تھی جس کی عمر لگ بھگ ایک سال تھی. اس بچی کے نقوش جانے پہچانے سے تھے. اس تصویر سے نگاہ ہٹا کر اس نے تصویر کے نیچے لکھی معلومات دیکھیں. یہ تصویر میں موجود بچی کے اغواہ کے کیس کی فائل تھی. اس فائل میں اس بچی کے متعلق ساری معلومات موجود تھی.
”دائیں ہاتھ کی پشت پر جلے کا نشان" الہان نے پوکٹ سے پین نکال کر مارک آف آئیڈینٹیفیکیشن کے آگے واضح حروف میں لکھا
"ایک پوئنٹ اور ایڈ کیا ہے میں نے... یہ بھی بھیج دینا"
”ٹھیک ہے باس"
”ایک بات تو بتائیں باس" اینڈی بولا
”میں سوچ ہی رہا تھا کہ تم اب تک بولے کیوں نہیں..... پوچھو کیا پوچھنا ہے؟"
”ہم سب یونیورسٹی سے آپ کے دوست ہیں.... مطلب بارہ سال ہو گئے ہیں ہمیں ساتھ...اتنے لمبے عرصے میں آپ نے کبھی ہمیں اپنے خاندان کے بارے میں نہیں بتایا" اس کے سوال پر باقی تینوں نے بھی الہان کی جانب دیکھا کیونکہ کہیں نہ کہیں وہ سب اس سوال کا جواب جاننا چاہتے تھے
”پہلی بات تو یہ کہ میں نے تم چاروں سے دوستی نہیں کی تھی. تم سب زبردستی میرے دوست بن گئے تھے اور رہی بات فیملی کی تو میرے ممی بابا کی وفات ہو چکی ہے. میری فیملی ایک ہی بندے پر مشتمل ہے وہ ہیں میرے بابا کے کزن احتشام چچا اور تم سب ان سے مل چکے ہو" وہ بے تاثر لہجے میں بولا
”ایک اور سوال پوچھوں؟"
”پوچھ لو.... میرے منع کرنے سے کون سا تم نے باز آ جانا ہے" الہان کی بات ہر اینڈی ڈھٹائی سے مسکرایا پھر جھجھکتے ہوئے بولا
”وہ کون ہے جس کی تلاش آپ سالوں سے کر رہے ہیں؟" اینڈی کی بات پر الہان کے چہرے پر ایک سایہ لہرایا.
”اگر آپ نہیں بتانا چاہتے تو نہ بتائیں" اس کو خاموش دیکھ کر اینڈی دوبارہ بولا. اب کی بار الہان خاموشی سے کھڑکی سے نظر آتے دوڑتے مناظر کو دیکھنے لگا. گاڑی میں بیٹھے پانچوں افراد اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے تبھی گاڑی میں خاموشی کا راج تھا.
..............................
YOU ARE READING
Siad
Mystery / ThrillerSiad means hunter. It is thriller novel. It is about a girl live in norway and a pakistani boy. Read the novel to know how they came across each other.