صیاد
ازقلم رباب تنویر
....................
“A man is insensible to the relish of prosperity , till he has tasted adversity.”
(Sheikh Saadi)
………………..
کرائم برانچ کے کانفرنس روم میں ساری ٹیم ایک مرتبہ پھر سے جمع تھی. کل گوادر میں لوگوں سے عہزب کے متعلق تفتیش کرنے کے بعد شام میں وہ اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے تھے. آج صبح بیورو پہنچتے ہی حجر نے میٹنگ بلوائی تھی. سب کے آںے کے بعد مرکزی کرسی پر بیٹھ کر آفیسر سعد کی جانب دیکھتے ہوئے حجر بولی.
“کیا نئی خبر ہے؟"
“میم! ایک نیوز چینل نے ڈیڈ باڈیز کی تصویریں لیک کر دیں ہیں. کل سے سوشل میڈیا پر ان تصویروں کے باعث ہلچل مچی ہے. بے دردگی سے انسب کے بنائے گئے بچوں کے چہروں پر اور ہاتھ پر نشانات دیکھ کر لوگ خوفزدہ ہیں." اپنی نشست سے اٹھ کر آفیسر سعد نئی پیدا ہونے والی صورت حال کے متعلق بریفنگ دینے لگے.
”کون سا نیوز چینل ہے؟" نگاہ ایل ای ڈی پر وقفے وقفے سے ابھرتی تصویروں پر جمائے اس نے استفسار کیا.
“سٹی نیوز" آفیسر سعد کے منہ سے نیوز چینل کا نام سن کر حجر کے بائیں جانب رکھی کرسی پر براجماں الہان کے دماغ میں جھمکا ہوا.
“سٹی نیوز؟" آبرو اچکا کر الہان نے دوبارہ کنفرم کیا.
“جی" آفیسر سعد نے تائید کی.
“کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟" اس شش وپنج کا شکار دیکھ کر حجر نے پوچھا.
“دراصل سٹی نیوز وہی نیوز چینل ہے جس نے آپ کے پاکستان آنے کی خبر لیک کی تھی. اسی نیوز چینل کا پہلے آپ کے آنے کی خبر لیک کرنا پھر ڈیڈ باڈیز کی تصویریں.. یہ اتفاق نہیں ہو سکتا." وہ پر سوچ انداز میں بولا.
“یقیناً یہ اتفاق نہیں ہے." کہتے ساتھ حجر نے رخ دوبارہ ایل ای ڈی کی جانب موڑا.
”ڈیڈ باڈیر کی تصویریں صرف فارینسک فوٹوگرافر نے اتاریں تھیں اور وہ تصویریں فارینسک ٹیم کے ریکارڈ اور میرے لیپ ٹاپ میں ہیں. یہ دونوں جگہیں ایسی ہیں جہاں سے کوئی بھی تصویریں چڑا نہیں سکتا. ویسے بھی اگر ہم غور سے نیوز چینل پر دکھائی جانے والی تصویروں اور فارینسک فوٹوگرافر کی تصویروں کا موازنہ کریں... " بات کرنے کے دوران ہی اس نے لیپ ٹاپ کی کچھ کیز دبائیں جن کے نتیجے میں ایل ای ڈی کے ایک جانب اب نیوز پر چلنے والی اور دوسری جانب فارینسک فوٹوگرافر کی تصویریں ابھرنے لگیں تھیں.
”دونوں تصویروں کو مختلف اینگل سے لیا گیا ہے. اسلیے یہ بات تو کلیر ہوئی کہ یہ تصویریں ہماری ٹیم کے علاوہ کسی باہر کے شخص نے اتاری ہیں." وہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہوئی.
“جس وقت ڈیڈ باڈیز ملی تھیں اس وقت وہاں بہت سے رپورٹرز موجود تھے. ہو سکتا ہے ان میں سے کسی رپورٹر نے یہ تصویریں کلک کی ہوں." اس کے خاموش ہونے پر ہاجرہ بولی.
”یہ تصویریں بہت اطمیبان سے لی گئیں ہیں. اس رات جھیل کے قریب رپورٹرز کا بہت رش تھا. ہجوم میں دھکوں کے باعث ایسی کلیئر تصویریں نہیں لی جا سکتیں اور ویسے بھی رپورٹرز بہت دور کھڑے تھے سو یہ ان میں سے کسی کا کام نہیں ہے." وہ پریقین انداز میں بولی.
“اگر نیوز چینل کے کیمرہ مین نے نہیں لی تو پھر کس نے لی ہیں یہ تصویریں؟" آفیسر بلال نے دلچسپی سے پوچھا.
“یہ تو نیوز چینل کے اونر سے ہی پتا چلے گا. ہاجرہ کال کنیکٹ کرو ذرا اس نیوزچینل کے اونر سے اور سپیکر آن کر دو." حجر کے آرڈر پر ہاجرہ ہاتھ میں پکڑے ٹیبلٹ پر تیزی سے انگلیاں چلانے لگی. چند ساعتوں کے بعد کانفرنس روم میں بھاری مرادانہ آواز گونجی.
“ہیلو..."
"اونر آف سٹی نیوز؟" وہ استفہامیہ انداز میں بولی.
"جی... آپ کون" لائن کے دوسری جانب سے سوالیہ انداز میں پوچھا گیا.
"ہیڈ آف کرائم برانچ... حجر ہارون" حجر نے تعارف کروایا جبکہ روم میں بیٹھے باقی سب افراد خاموشی سے ان کی گفتگو گوش گزار کر رہے تھے.
"جی کہیں" اب کی بار ذرا چوکنے انداز میں کہا گیا تھا.
"کل آپ کے نیوز چینل پر حال ہی میں جھیل کے کنارے ملنے والی ڈیڈ باڈیز کی تصویریں دکھائی گئی ہیں. کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ تصویریں آپ کے پاس کہاں سے آئیں." اس نے دھمیے لہجے میں مدعا بیان کیا.
"ہمارے اپنے ذرائع ہیں. ہم آپ کو نہیں بتا سکتے." نیوز چینل کے اونر نے جھجھکتے ہوئے انکار کیا.
"بتانا تو آپ کو پڑے گا کیونکہ آپ کی دی گئی انفارمیشن ہمارے کیس سے جڑی ہے. اگر آپ فون پر نہیں بتانا چاہتے تو میں لیگل نوٹس بھیج کر آپ کو بیورو بلوا لیتی ہوں." اس نے مبہم انداز میں دھمکی دی.
"ہمارے... چینل کے فوٹوگرافر سرفراز امین نے یہ خبر مجھ تک پہنچائی تھی اور تصویریں بھی اس کے توسط ملی تھیں." گھبرا کر دوسری جانب سے بتایا گیا.
"وقت کے لیے شکریہ." کوئی الوداعی کلمات کہے اس نے ہاجرہ کو کال بند کرنے کا اشارہ کیا.
"ہاجرہ سرفراز امین کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ چیک کرو. میل باکس دیکھو... اور پتا لگاؤ کہ اس کے پاس یہ تصویریں کہاں سے آئیں." ہاجرہ کو آرڈر دینے کے بعد وہ باقی سب کی جانب متوجہ ہوئی.
"میرے پاس آپ سب کے لیے ایک خبر ہے. ذرائع کے ذریعے مجھے پتا چلا تھا کہ یہ کیس چھپبس سال پہلے کے کیس سے جڑا ہے. دونوں مجرموں نے اپنے وکٹمز پر باز کا نشان چھوڑا تھا." وہ ایک لمحے کی لیے ٹہری
"تقریباً چھبیس سال پہلے گوادر کے عہزب کمال نامی شخص نے کئی عورتوں اور بچوں کو اغواہ کرکے انہیں اپنے بحری جہاز پر قید کر کے رکھا تھا. ان عورتوں اور بچوں میں سے صرف آنیہ علوی نامی عورت اور اس کے بھتیجے کے اغواہ کی رپورٹ درج کروائی گئی تھی مگر پولیس عہزب کی قید سے اسے نکال نہ پائی. عہزب کا کوئی سراغ پولیس کے ہاتھ نہیں لگا تھا. آٹھ سال تک آنیہ علوی اس کی قید میں رہیں پھر کسی انجان شخص نے ان کی مدد کرکے انہیں وہاں سے نکالا." بڑے نامحسوس انداز میں وہ الہان کے نام چھپا گئی تھی. اس کی حرکت کسی اور نے نہ سہی مگر الہان نے ضرور محسوس کی تھی.
"تو کیا عہزب ہی انسب ہے؟" آفیسر بلال نے دلچسپی سے سوال کیا.
"نہیں... اس انجان شخص نے اپنے دفاع کے لیے عہزب پر فائر کیا تھا. جس کے نتیجے میں وہ موقع پر دم توڑ گیا تھا."
"اس کیس کا کوئی وکٹم موجود ہے جس سے ہم عہزب کے متعلق دریافت کر سکیں؟ میرا مطلب ہے آنیہ یا اس کا بھتیجا" اب کی بار سوال آفیسر سعد کی جانب سے آیا تھا.
"آنیہ اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کے علاوہ اس کیس کے دو وکٹم ایسے ہیں جن سے میں واقف ہوں... آنیہ کی بیٹی اور اس کا بھتیجا.... پر وہ دونوں منظر عام پر نہیں آنا چاہتے اور ویسے بھی وہ اس وقت چھوٹے تھے اسلیے انہیں عہزب کی شکل یاد نہیں ہے." حجر کے پردہ ہوشی کرنے پر الہان نے تشکر آمیز نظروں سے اس کی جانب دیکھا.
"میں گوادر عہزب کے متعلق ہی معلوم کرنے گئی تھی. وہاں کے مقامی لوگوں سے عہزب کے متعلق تفتیش کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ وہ بحری راستوں کے ذریعے تجارتی مال پہنچاتا تھا. اس کے خاندان کے بارے میں کوئی خاص انفارمیشن نہیں ملی مگر ہر یک نے یہی بتایا ہے کہ وہ غیر معمولی شخص تھا. اس کا سرد رویہ اور لوگوں کو قید کرنے کا جنون اس کے غیر معمولی ہونے کا ثبوت ہے."
"عہزب کا انسب سے کیا رشتہ ہو سکتا ہے؟" آفیسر نعمان پرسوچ انداز میں بولے.
"پارٹنر"
"انسب عہزب کا بیٹا بھی تو ہو سکتا ہے."
"بھائی"
"دوست" کمرے میں مختلف آوازیں گونجیں.
"انسب, عہزب کمال کا دوست, بھائی , بیٹا ہو یا نہ ہو, وہ عہزب کمال کا وکٹم ضرور ہے. انسب کی حرکات و اسناد کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ بھی ایک غیر معمولی شخص ہے. ڈیڈ باڈیز کے قریب چھوڑے جانے والے پیغامات ہی دیکھ لیتے ہیں." کہتے ساتھ ہی اس نے فائل میں سے وہ دو صفحات نکالے جو دو دن پہلے ڈیکوڈ کرکے الہان نے اسے دیے تھے اور ان پر لکھے الفاظ بلند آواز میں پڑھنے لگی.
Murder is not about lust, it's not about violence.It's about possession.When you feel last breath of life coming out of victims, you look into their eyes.At the point, it's being a God
ایک پیغام ختم ہونے کے بعد حجر نے اگلا پیغام پڑھنا شروع کیا.
“We serial killers are your sons, we are your husband,we are everywhere. And there will be more children dead tomorrow”
”انسب کے بھیجے گئے یہ دو میسج پڑھ کر اس کی دماغی خرابی کا اندازہ ہو رہا ہے. پہلے پیغام میں اس نے اپنے ظلم وتشدد کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور دوسرے پیغام میں اس نے واضح طور پر مزید بچوں کے مارنے کا اعلان کیا ہے. ڈیڈ باڈیر کی حالت, اور یہ پیغامات دیکھ کر میں نتیجے پر پہنچی ہوں کہ انسب سائیکوپیتھ psychopath ہے. ایسا شخص جس کے دل میں انسانیت کے لیے کوئی ہمدردی اور خوف موجود نہ ہو اسے سائیکوپیتھ کہتے ہیں. یہ اپنی غلطیوں کی ذمہ دار دوسروں کو ٹہراتے ہیں اور عام طور پر یہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں.
“Psychopath have found to have weak connections among the components of brain’s emotional system. These disconnects are responsible for the inability to feel emotions deeply especially empathy and remorse”
"امگدالا amygdala ہمارے دماغ کا وہ حصہ ہے جو احساسات کا ذمہ دار ہے. سائیکوپیتھ میں اماگدالا نان ڈیولپ ہوتا ہے اور ان میں یہ مختلف طریقے سے فنکشن کرتا ہے. دنیا کی آبادی کا تقریباً ایک فیصد حصہ سائیکوپیتھ ہے. امریکہ میں ہر سو میں سے ایک فرد سائیکوپیتھ ہے جبکہ برٹین میں ہر دوسو میں ایک سائیکوپیتھ ہے. مگر ضروری نہیں کہ ہر سائیکوپیتھ قانون کی خلاف ورزی کرے. کچھ سائیکوپیتھ ایسے بھی ہیں جو نارمل زندگی گزارتے ہیں. یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر سیریل کلر سائیکوپیتھ ہو مگر زیادہ تر سیریل کلر میں سائیکوپیتھ کی خصوصیات پائی جاتی ہیں. ایک بات میں بتاتی چلوں کہ سائیکوپیتھی کا کبھی علاج نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایسی کوئی دوائی نہیں جو ہمدردری پیدا کر سکے, کوئی ویکسین نہیں جو انسان کو قتل کرنے سے روک سکے اور نہ کسی بھی قسم کی ٹاک تھیرپی لاپروا ذہن کو بدل سکتی ہے." کمرے میں موجود سبھی افراد خاموشی اور توجہ سے اس کی بات سن رہے تھے.
“یہ تو تھی سائیکوپیتھ کے متعلق بنیادی باتیں. اب سائیکوپیتھی کی وجوہات پر آتے ہیں. سائیکوپیتھی پر بہت ریسرچ کی گئی ہے. ایک ریسرچ کے نتیجے میں ثابت ہوا ہے کہ
"Psychopath are born, not made.”
جینز کے اندر تبدیلیاں انہیں ایسا بناتی ہیں. دوسری ریسرچ کے مطابق بچے کی تربیت اس کے سائیکوپیتھ ہونے یا نا ہونے پر اثرانداز ہوتی ہے.
“Its most likely the mixture of nature and nurture that turn someone into psychopath.”
(غالباً قدرت اور اور تربیت دونوں مل کر کسی انسان کو سائیکوپیتھ بناتے ہیں.)
ماں باپ کا کشیدہ تعلق, بچپن میں ابیوز, والدین کے طرف سے نظرانداز کیا جانا, کسی سائیکوپیتھ گارڈین کی زیر نگرانی پرورش پانا, یہ سب چیزیں کسی کے سائیکوپیتھ ہونے میں اہم کرادار ادا کرتی ہیں. ان سب میں پرائمری کوز والدین کی جانب سے نظر انداز کیے جانا ہے. اس بچے کے سائیکوپیتھ ہونے کے زیادہ امکانات موجود ہیں جو تین سال کی عمر میں ماں باپ سے علیحدہ ہو گیا ہو بانسبت اس بچے کے جس نے ایک اچھے ماحول میں پرورش پائی ہو. انسب بھی کسی ایسی وجہ کے باعث سائیکوپیتھ بنا ہے. عہزب کا لوگوں کو قید کرنے کا جنون اس کے سائیکوپیتھ ہونے کا ثبوت ہے اور انسب کا لوگوں کو قتل کرنا اس کے سائیکوپیتھ ہونے کو ظاہر کر رہا ہے. عہزب صرف بچوں اور عورتوں کو اغواہ کرتا تھا. عورتوں کو وہ بغیر کچھ کہے اپنے پاس قید رکھتا تھا جبکہ بچوں پر جسمانی تشدد کے علاوہ ذہنی طور پر بیمار کرنے کے لیے وہ انہیں ڈاراک سٹوریز پڑھنے کے لیے دیتا تھا. وہ انہیں اپنی طرح سائیکوپیتھ بنانا چاہتا تھا اور قوی امکان ہے کہ وہ کسی وکٹم کو سائیکوپیتھ بنانے میں کامیاب رہا ہو. اس کا وہ وکٹم انسب ہے."
“عہزب کے دو وکٹمز جن سے آپ واقف ہیں کیا عہزب کی کوششوں کی نتیجے میں ان میں سے کسی میں سائیکوپیتھکی ڈیویلپ ہوئی؟" آفیسر بلال نے ذہن میں آئے سوال کو الفاظ کی شکل دی.
“جیسا کہ میں پہلے بتا چکی ہوں کہ عہزب کا اصلی شکار صرف عورتیں اور بچے تھے اس لیے آنیہ علوی کی ایک سالہ بچی اس کا اصلی ٹارگٹ نہیں تھی تبھی اس نے بچی کو قید میں رکھنے کی بجائے کسی اور کے حوالے کر دیا. وہ بچی اس کی راہ کا کانٹا تھی جسے اس نے بےدردی سے نکال پھینکا. رہی بات آنیہ کے بھتیجے کی تو آنیہ علوی نے اپنی توجہ سے بچے کو ٹراما سے نکال لیا تھا اور ویسے بھی ذہنی ٹارچڑ ہر شخص پر مختلف طریقے سے اثراانداز ہوتا ہے. چند ایک میں یہ سائیکوپیتھی کا باعث بنتا اور چند میں یہ نفسیاتی بیماری کا. (الہان نے بےچینی سے پہلو بدلا.) سائیکوپیتھی نفسیاتی بیماری سے بہت خطرناک ہے. سائیکوپیتھ میں بچپن سے ہی کچھ عجیب سی عادات پائی جاتی ہیں مثلا جانوروں کو مارنا, ہتھیاروں کی تصویریں بنانا وغیرہ مگر جانوروں کے شکار سے انسانوں کے شکار تک آنے کے لیے انہیں ایک ٹریگر trigger کی ضرورت ہوتی ہے. کوئی بھی برا واقع مثلا بریک اپ, ماں باپ کی علیحدگی وغیرہ ان کا ٹریگر ہو سکتی ہیں. ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ انسب کا ٹریگر کیا ہے. کس چیز نے اسے بچوں کو قتل کرنے پر ابھارا.
وکٹمولوجی کے مطابق کچھ وکٹمز, کریمینل کی قید میں اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتے ہیں. انہیں اپنے مجرم سے انسیت ہو جاتی ہے. میرا اندازہ ہے کہ انسب کو بھی عہزب سے کچھ ایسی ہی انسیت تھی یا پھر ان دونوں کے بیچ میں کوئی رشتہ تھا جس کی وجہ سے انسب عہزب سے محبت کرتا تھا اسی وجہ سے عہزب کی موت کا بدلا لینے کے لیے وہ قتل کر رہا ہے مگر ایک بات جو پس منظر ہے وہ یہ ہے کہ عہزب کو مرے اٹھارہ سال ہو گئے پھر اچانک اتنے سالوں بعد انسب کو اس کے موت کا بدلہ لینے کا خیال کیوں آیا. کون سا حادثہ اس کا ٹریگر بنا یہ جاننا ہے ہمیں." بات ختم کرکے وہ کرسی پر براجمان ہوکر پانی کے گھونٹ بھرنے لگی.
"کیسے پتا لگائیں گے ہم؟ ہمیں نہیں معلوم کہ اب ہمیں اگلا قدم کیا اٹھانا چاہیے. کیس میں دن بہ دن بڑھتی پیچیدگیاں دیکھ کر ہم سب کے ذہن بلینک ہو چکے ہیں" آفیسر سعد نامیدی سے بولے.
"مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ جتنا ہم اس کیس پر تحقیق کر رہے ہیں اتنا ہی ہم منزل سے دور ہوتے جا رہے ہیں. اگر یہی صورت حال رہی تو مجھے لگتا ہے کہ ہم کبھی انسب تک پہنچ نہیں پائیں گے." اب کی بار آفیسر فجر نے لب کشائی کی. حجر کو تو کیس جوائن کیے چند ہفتے ہوئے تھے مگر کرائم برانچ کی باقی ساری ٹیم پچھلے چھ ماہ سے کیس پر کام کر رہی تھی. پچھلے چھ ماہ سے دن رات محنت کرنے کے باوجود کیس کو حل نہ ہوتا دیکھ کر وہ سب مایوسی کا شکار ہو چکے تھے.
"روز ہم نئے سراغ کے پیچھے بھاگتے ہیں اور آدھے سے زیادہ سفر طے کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ہم غلط سمت جا رہے ہیں." آفیسر فاطمہ بولیں.
"کیس کے جتنے شواہد ہمیں ملے ہیں ان میں سے کوئی بھی ہمارے اگلے قدم کی نشاندہی نہیں کر پارہا." اب کی بار بولنے والے آفیسر نعمان تھے.
"آپ سب اتنے نامید کیوں ہو رہے ہیں. کیوں لگتا ہے آپ کو ہم غلط سمت جا رہے ہیں؟" حجر تعجب سے بولی
"امجد اس کیس کا واحد گواہ تھا جسے انسب نے ہمیں گمراہ کرنے کے لیے بھیجا تھا. امجد نے ہمیں جو ایڈریس لکھوایا تھا وہ غلط تھا سو اب اس کا کوئی اتا پتا نہیں." آفیسر بلال نے نشان دہی کی.
"میں مانتی ہوں کہ امجد نے ہمیں گمراہ کیا تھا مگر نادانستگی میں اس نے ہمیں انسب کے ہینڈی کیپ ہونے کا سراغ دیا تھا. اس نے بتایا تھا کہ فصیحہ کو اغواہ کرنے والا شخص ہلکا سا لنگڑ کر چل رہا تھا. نادانستگی میں ہی سہی مگر امجد نے ہمیں ہمارا اگلا قدم بتا دیا تھا." حجر نے انہیں نئی راہ دکھائی.
"فصیحہ کے گھر کے سامنے والی بلڈنگ میں انسب قیام پزیر تھا مگر اس علاقے اور بلڈنگ میں کوئی کیمرہ نا ہونے کے باعث ہم اس تک پہنچ نہیں پائے." آفیسر فاطمہ نے نے بےسمت سفر کے متعلق بتایا.
" اس تفتیش سے ہمیں پتا لگا کہ انسب کو معلوم ہے کہ شہر کے کس کس حصے میں سرویلینس survellaince کیمرے نسب ہیں. وہ محتاط انداز اپناتے ہوئے اس جگہ اغواہ کرتا ہے جہاں کوئی کیمرہ نہ لگا ہو. ہمیں اس کی تقلید کرنی ہے. یہ رہا سرویلینس کیمروں کا میپ. جن جگہ کیمرے نہیں لگے ان جگہ کی سکیورٹی سخت کریں کیونکہ انسب اپنا اگلا شکار انہی میں سے کسی علاقے سے کرے گا." سرویلینس کیمروں کا میپ فاطمہ کی جانب بڑھاتے ہوئے حجر بولی.
"انسب نے کیٹامین اور کڈاور استعمال کیے مگر ہم اس کی شناحت پتا لگانے میں ناکام رہے کیونکہ سرجیکل شاپ سے ہسپتال کے عملے کی بڑی تعداد کڈاور اور کیٹامین خریدتی ہے." آفیسر سعد نے دلیل دی.
"کیٹامین اور کڈاور کے استعمال سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انسب کا تعلق ہسپتال کے عملے سے ہے. تبھی تو اس نے کڈاور تک باآسانی رسائی حاصل کر لی. میرے خیال میں وہ کسی نجی ہسپتال میں نچلے درجے پر کام کر رہا ہے. ہماری نظروں سے بچنے کے لیے وہ میل نرس , ٹیکنولوجسٹ, فیونیرل ڈائیریکٹر funeral director, میڈیکل اسسٹینٹ جیسی کوئی بھی جاب کر سکتا ہے. آپ کو اسلام آباد کے نجی ہسپتال میں لنگڑا کرچلنے والے شخص کو ڈھونڈنا ہے."حجر پرسکون انداز میں بولی.
"صیاد کا نام عہزب ہے. اس کا تعلق گوادر سے تھا. وہ سائیکوپیتھ تھا. انسب صیاد کا وکٹم کے اور وہ بھی سائیکوپیتَ ہے. یہ سب ہمیں معلوم ہو گیا ہے مگر کیس کی تفتیش میں یہ سب چیزیں ہماری مدد نہیں کر سکتیں." آفیسر فجر گویا ہوئیں.
"یہ سب چیزیں بڑی مدد گار ہیں اگر آپ غور کریں تو. عہزب کے متعلق پتا لگاںے سے ہمیں معلوم ہوا کہ وہ بحری جہاز کے ذریعے تجارت کرتا تھا اور گوادر پورٹ سے کچھ سال پہلے ہماری زیادہ تر تجارت دبئی سے ہوتی تھی تو ظاہر ہے کہ عہزب کمال کی جڑیں دبئی میں بھی تھیں. یہاں سے آنیہ کو اغواہ کرنے کے بعد وہ کافی عرصہ روپوش رہا اور وہ عرصہ یقیناً اس نے دبئی میں ہی گزارا ہوگا. انسب چونکہ عہزب سے جڑا ہے تو کہیں نہ کہیں اس کی جڑیں بھی دبئی میں موجود ہونگی. ہمیں دبئی میں تفتیش کرنی پڑے گی." اس نے فردا فرداً سب کی رہنمائی کی.
"انسب کے اٹھائے گئے ہر قدم میں ہمارے لیے رہنمائی موحود ہے ہمیں بس اس کی حرکات و اسناد کا جائزہ لینا ہے. میں جانتی ہوں کہ آپ سب نامید ہو رہے ہیں مگر یقین مانیں ابھی تفتیش کے لیے بہت سے در کھلے ہیں. ہمیں اپنے لوگوں کو بچانا اس سفاک شخص سے بچانا ہے. چھبیس سال پہلے اگر اس کیس پر ٹھیک سے تفتیش کرلی گئی ہوتی تو انسب کی صورت میں نیا صیاد جنم ہی نہ لیتا اور اگر اب ہم ہمت ہار کر اس کیس یونہی بیچ راہ میں چھوڑ دیں گے تو کچھ سالوں بعد ایک نیا صیاد جنم لے گا. اگر ہم مایوس ہوگئے تو یہ قصہ یونہی چلتا رہے گا. اپنے بکھرے حوصلے یکجا کریں, ایک بار پھر سے عزم کے ساتھ کیس پر کام کا آغاز کریں. اور یاد رکھیں کہ ظالم کی رسی جتنی مرضی دراز ہی کیوں نہ ہو ایک نا ایک دن کھینچی ضرور جاتی ہے. کیا آپ انسب کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟" حجر نے ان سن کو موٹیویٹ کیا جس کے جواب میں سب نے سر ہلا کر اپنے عزم کا اظہار کیا.
"گڈ... اب میرے پاس دو منصوبے ہیں. فل وقت ہم پلین اے پر کام کریں گے. انسب کا نیوز چینل پر تصویریں اپلوڈ کرنے سے ایک بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس سے ڈریں. لوگوں میں افراتفری پھیلے. وہ توجہ چاہتا ہے. اس کا توجہ طلب انداز ظاہر کرتا ہے وہ ایک نارسیسسٹک narcissistic سائیکوپیتھ ہے. ایسے لوگوں پر سے توجہ جب ہٹتی ہے تو یہ لوگ غصے سے پاگل ہو جاتے ہیں. ہمیں بھی اس پر سے توجہ ہٹانی ہے تب ہی یہ بل سے باہر نکلے گا."
"کیسے؟" آفیسر سعد نے استفسار کیا.
"اتنا مشکل کام نہیں ہے. ہمیں نیوز چینل پر بس یہ خبر چلانی ہے کہ بچوں کے اغواہ کے کیس کا مجرم مل گیا ہے. اس سے ڈیڈ باڈیز کی تصویروں سے لوگوں میں پیدا ہونے والی افراتفری ختم ہو حائے گی. سب انسب کو توجہ دینا بند کر دیں. اس کا خوف ختم ہو جائے گا اور ہر طرف سکون چھا جائے گا. یہ صورت حال انسب کے لیے ناقابل برداشت ہوگی اور غصے سے پاگل ہو کر دنیا کو یہ دکھانے کے لیے کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں وہ ایک اور اغواہ کرے گا. چونکہ ہم اس کے طریقہ کار سے واقف ہیں کہ اغواہ اس نے ایسے علاقے سے کرنا ہے جہاں سرویلینس کیمرہ نہ ہو اور ان علاقوں میں ہماری ٹیم عام لباس میں ملبوس پہلے سے ہی موجود ہو گی. جب انسب اغوۃ کرے گا تو ہماری ٹیم اسے پکڑ لے گی. پلین پاورفل ضرور ہے مگر اس پر عمل در آمد کرتے ہوئے ہمیں محتاط رہنا ہو گا. ذرا سی کوتاہی سے انسب تو ہاتھوں سے نکلے گا ہی ساتھ میں وہ شخص کی جان بھی خطرے میں پڑے گی جسے وہ اغواہ کرے گا." حجر نے فول پروف پلین بتایا تو کمرے میں بیٹھے ہر فرد کی آنکھوں میں ستائش کے رنگ ابھرے.
"مس ہاجرہ آپ کا کام کہاں تک پہنچا؟" اس نے لیپ ٹاپ پر پھرتی سے انگلیاں چلاتی ہاجرہ کہ جانب رخ موڑا.
"میم! سرفراز کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ چیک کر لیے ہیں میں نے... کہیں سے کچھ نہیں ملا ما سوائے جی میل کے. کل صبح اس کے جی میل اکاؤنٹ پر ایک میل اّئی تھی جس میں ڈیڈ باڈیز کی تصویریں تھیں. یہ میل اسے عتبہ نامی پروفائل کی جانب سے بھیجی گئی تھی. اسی میل ایڈریس سے کچھ دن پہلے بھی اسے میل بھیجی گئی تھی جس میں اسے آپ کے کے پاکستان آنے کا بتایا گیا تھا. میں عتبہ کی پرسنل انفارمیشن حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہوں مگر آئی پی ایڈریس بہت سٹرانگ ہے." وہ بے چارگی سے بولی.
"لائیں دیں میں کوشش کرتا ہوں." تب سے خاموش بیٹھا الہان گویا ہوا. اس کی بات پر حجر سمیت باقی سب نے حیرانی سے اس کی جانب دیکھا.
"کمپیوٹر سائنس میں بیچلر ڈگری ہولڈر بندے کے منہ سے ہیکنگ کا ذکر بالکل بھی حیران کن نہیں ہے. " ان سب کی حیران چہروں پر ایک نظر ڈالتے ہوئے وہ جھنجھلا کر بولا.
"ہاجرہ دیں ذرا لیپ ٹاپ انہیں... آج ان کی صلاحیتوں سے مستفید ہوتے ہیں." بازو سینے پر لپیٹتے ہوئے وہ بولی. اس کی بات پر ہاجرہ نے خاموشی سے لیپ ٹاپ اس کے حوالے کیا. لیپ ٹاپ اپنے سامنے ٹیبل پر رکھنے کے بعد سفید شرٹ میں ملبوس الہان نے کف کے بٹن کھول کر شرٹ کے بازو کہنیوں تک موڑے اور اپنی ذہین آنکھیں سکرین پر جماتے ہوئے وہ اپنی گیارہ انگلیوں سے کہ بورڈ کی مختلف کیز دبانے لگا. بازو موڑنے کے باعث دائیں ہاتھ کی کلائی پر پہنا سیاہ بینڈ نمایاں ہوا تھا.
"آج کی میٹنگ ادھر ہی ختم کرتے ہیں. آپ لوگ منصوبے پر عمل درآمد کرنے کی تیاری کریں. مزید کوئی اپڈیٹ ملے گی تو میں آپ کو انفارم کر دوں گی." اس کی بات سن کر سب کمرے سے باہر نکل گئے. الہان کو اردگرد سے بےگانہ لیپ ٹاپ میں مصروف دیکھ کر حجر بھی باقی سب کی تقلید میں کانفرنس روم سے باہر آ گئی.
اسے اپنے آفس میں آئے کچھ وقت ہوا تھا جب ایک ہاتھ سے لیپ ٹاپ سمبھالے دوسرے ہاتھ سے فون کان سے لگائے الہان دروازہ ناک کرتا ہوا اندر داخل ہوا. لیپ ٹاپ اس کے سامنے میز پر رکھنے کے بعد اس نے بازو پر ڈالا کوٹ کرسی کہ پشت پر رکھا اور مصروف سے انداز میں فون پر بات کرنے لگا.
"پریزنٹیشن دیکھی تھی میں نے. جو کمیاں تھیں میں نے پوری کر دیں ہیں. پریزنٹیشن کی طرف سے بے فکر ہو جاؤ. اب بس اسے اچھے طریقے سے ڈلیور کرنے کی تیاری کرو." خاموشی سے اس کی حرکات و اسناد کا جائزہ لیتی حجر اسے فون میں مصروف دیکھ کر ہاتھ میں پکڑی فائل کی جانب دوبارہ متوجہ ہو گئی مگر الہان کی آواز کے باعث وہ ڈسٹرایکٹ ہو رہی تھی.
"اینڈی نے دینی ہے پریزنٹیشن. تیاری کر رہا ہے وہ باس مگر وہ ذرا کنفیوز ہے." لائن کے دوسری جانب سے سائمن کی آواز گونجی.
"ہماری کمپنی کے لیے یہ پروجیکٹ بہت اہم ہے. ہمیں کسی بھی طرح یہ پراجیکٹ لینا ہے اور اینڈی پہلی مرتبہ پریزنٹیشن تو نہیں دے رہا پھر کیوں کنفیوز ہے؟" وہ حجر کے بالکل سامنے رکھی کرسی پر براجمان تھا.
"آپ کی غیرموجودگی کی وجہ سے ہچکچا رہا ہے اینڈی. ہر دفعہ پریزنٹیشن کے وقت آپ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہم سے کوئی غلطی ہوئی تو آپ سمبھال لیں گے مگر اس بار آپ نہیں ہونگے." سائمن پریشانی سے بولا.
"کم آن سائمن... مجھے یقین ہے کہ تم چاروں میری غیرموجودگی میں بھی یہ پراجیکٹ حاصل کر لو گے." وہ پر یقین انداز میں بولا. سائمن کے نام پر فائل میں رہی سہی حجر کی توجہ بھی مبذول ہو گئی تھی. جھنجھلا کر اس نے فائل بند کی اور ٹیبل پر رکھے لیپ ٹاپ کا رخ اپنی جانب موڑ کر سکرین دیکھنے لگی. کمپیوٹر کی پائیتھن python لینگوج میں لکھے لفظ اس کی سمجھ سے باہر تھے تبھی اس نے بیزاری سے نظریں سکرین سے ہٹا دیں اور اس کے کال سے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگی.
"کیا آپ ایک دو دن کے لیے دبئی نہیں آ سکتے؟"
"میرا آنا بہت مشکل ہے." وہ صاف گوئی سے بولا.
"میٹنگ تین دن بعد ہے. آپ کوشش کریں کہ پہلے نا سہی میٹنگ والے دن ہی آ جائیں." سائمن نے بات پر زور دیا.
"میں دیکھتا ہوں." حجر کو انتظار کرتے دیکھ کر اس نے چند جملوں میں بات سمیٹی اور فون بند کرکے اس کی جانب متوجہ ہوا.
"جس شخص نے وہ دو ای میل فراز کا بھیجی تھیں اس کا نام عتبہ کمال ہے. لوکیشن اس نے پرائیویٹ کی ہوئی ہے اس لیے لوکیشن نہیں پتا چلی تاہم لنکڈان کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ عتبہ کمال نے کچھ عرصہ دبئی میں فیونیرل ڈائیریکٹر کے طور پر کام کیا تھا."
"عتبہ کمال.... عہزب کمال" وہ پرسوچ انداز میں بولی.
"ایک جیسا سر نیم... دونوں بھائی ہیں"." وہ خود کلامی کے انداز میں بولی.
"غالباً" الہان نے تائید کی.
"مدد کے لیے شکریہ" وہ اخلاقاً بولی.
"آپ کی مدد کرکے میں نے احسان نہیں کیا... بلکہ حساب برابر کیا ہے"
"حساب برابر؟" وہ ناسمجھی سے بولی.
"آپ نے کچھ دیر پہلے میرا نام منظر عام سے چھپا کر مجھے فیور دی تھی میں نے بس آپ کی فیور لوٹائی ہے."
"میں نے صرف آپ کی نہیں اپنی بھی پہچان چھپائی ہے کیونکہ میں جانتی ہوں کہ دوسروں کی ترس بھری نگاہیں کتنی تکلیف دیتی ہیں. خیر یہ بتائیں کہ کب سے کر رہے ہیں ہیکنگ؟" کہنیاں میز پر ٹکاتے ہوئے وہ عام سے انداز میں بولی. درحقیقت وہ اس بات کی تصدیق کرنا چاہ رہی تھی کہ اس کا ہنٹر گیم میں اکاؤنٹ اس نے ہیک کیا تھا یا نہیں.
"آپ نے جان کر کیا کرنا ہے؟ کیا کسی کا اکاؤنٹ ہیک کروانا ہے؟" اس نے اسی کے انداز میں بولا.
"میں اس قسم کے الیگل کام کرتی ہوں نہ کرواتی ہوں." صاف گوئی سے کہتے ہوئے وہ اپنا لیپ ٹاپ آن کرنے لگی.
"اچھا.... کچھ دیر پہلے کس نے فراز اور عتبہ کا اکاؤنٹ ہیک کروایا تھا؟" وہ جھٹ سے بولا.
"وہ اکاؤنٹ میں نے لیگل ریزن کی وجہ سے ہیک کروائے تھے سو وہ لیگل ہیکنگ تھی مگر بے وجہ کسی کی پرائیوسی میں دخل اندازی کرنا سراسر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکت ہے." اس نے وضاحت دی.
"بے شک" الہان نے بھرپور تائید کی. الہان اس کی اداکاری سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی.
"ویسے ایک بات کہنے پر میں مجبور ہوں. واقعی ہنٹر گیم بہت کمال ہے." لیپ ٹاپ میں ہنٹر گیم کے ایپ پر نظر پڑتے ہی وہ بولی.
"تعریف کے لیے شکریہ" وہ عاجزی سے بولا.
"میں نے آپ کی نہیں آپ کی گیم کی تعریف کی ہے." کہتے ساتھ ہی اس نے ہونٹوں کے کناروں پر ابھرتی مسکراہٹ چھپانے کے لیے پانی کا گلاس منہ کو لگایا. اس کی بات پر الہان ضبط کا کڑوا گھونٹ بھر کر رہ گیا.
"گیم بھی میں نے ہی بنائی ہے." وہ دانت پیس کر بولا.
"ساری گیم بہت اچھی ہے مگر سکیورٹی سسٹم بالکل اچھا نہیں ہے."
"کیا ہوا ہے سکیورٹی سسٹم کو؟" وہ تعجب سے بولا.
" بڑے آرام سے پلیئر کا اکاؤنٹ ہیک ہو سکتا ہے."
"ہنٹر گیم کے ہر ممبر کا اکاؤنٹ سکیور ہے. کوئی اتنی آسانی سے اسے ہیک نہیں کر سکتا." وہ پر یقین انداز میں بولا.
"اگر ہر ممبر کا اکاؤنٹ سکیور ہے تو پھر میرا کیوں نہیں؟ دو ہفتے پہلے کسی نے میرا اکاؤنٹ ہیک کیا تھا اور میرے اکاؤنٹ سے ہنٹر کی سائٹ پر پوسٹ بھی کی تھی. میں نے میل کی تھی ہیلپ سینٹر کو." وہ جانچتی نگاہوں سے اس کی حرکات و اسناد کا جائزہ لینے لگی.
"اچھا تو وہ آپ تھیں. مجھے میل موصول ہوئی تھی. بے فکر رہیں وہ مسئلہ حل ہو گیا ہے." وہ خود کو مکمل طور پر انجان ظاہر کرنے لگا.
"اچھی بات ہے." وہ بس یہی کہہ پائی تھی.
"پھر کیا سوچا آپ نے؟" اچانک سے الہان نے استفسار کیا.
"کس بارے میں؟" وہ لاعلمی سے گویا ہوئی.
"ہماری شادی کے بارے میں" وہ لمحے کی تاخیر کیے بغیر بولا.
"ہا.... آپ جیسے پڑھے لکھے اور میچورڈ شخص سے مجھے ایسی توقع نہیں تھی." وہ افسوس کن لہجے میں بولی.
"میں نے کون سی ان پڑھ والی حرکت کر دی ہے. کیا پڑھے لکھے لوگ اپنی شادی کے بارے میں بات نہیں کر سکتے؟" وہ حیرانگی سے بولا.
"میں آپ کو انکار کر چکی ہوں, سو دوبارہ پوچھنے کا کوئی جواز نہیں" اس نے اپنی طرف سے بات ختم کی.
"آپ نے انکار کیا تھا مگر انکار کرنے کی وجہ نہیں بتائی" وہ سنجیدگی سے بولا.
"آپ نے بھی تو اقرار کی وجہ نہیں بتائی." حجر نے اسے احساس دلایا.
"آپ نے وجہ پوچھی ہی نہیں." وہ دوبدو بولا.
"چلیں اب پوچھ لیتی ہوں. بتائیں الہان مرتضی علوی کیوں کرنا چاہتے ہیں آپ مجھ سے شادی؟ دنیا کی تین سے چار بلین فی میلز میں سے مجھ سے ہی کیوں شادی کرنا چاہتے ہیں آپ؟" اس نے صاف لفظوں میں سوال کیا. اس کے سوال پر چند ساعتوں کے لیے الہان کچھ بول نہ پایا. ایسا نہیں تھا کہ اس کے پاس جواب نہیں تھا. اس کے پاس جواب تھا مگر وہ جواب دینا نہیں چاہتا تھا.
"میں بتاؤں کیوں کرنا چاہتے ہیں آپ مجھ سے شادی؟" اسے خاموش دیکھ کر حجر بولی.
"کیوں؟" الہان نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا.
"کیونکہ میں آنیہ علوی کی بیٹی ہوں. آپ مجھ سے نہیں آںیہ علوی کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتے ہیں پھر چاہے وہ میری جگہ کوئی بھی لڑکی ہوتی. میں آپ کی پھپھو کی بیٹی ہوں. وہ پھپھو جن سے آپ بہت محبت کرتے ہیں اور آپ کی پھپھو چونکہ اپنی بیٹی یعنی مجھ سے بہت محبت کرتی تھیں سو ان کے لیے آپ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں. یہی ہے نا آپ کے اقرار کی وجہ اور یہی ہے میرے انکار کی وجہ. میں ایسے شخص سے ہرگز شادی نہیں کر سکتی جو میری پہچان کی وجہ سے مجھ سے شادی کرنا چاہے." اس نے دھیمے مگر سخت لہجے میں اپنی بات مکمل کی.
"آپ غلط سمجھ رہی ہیں." اس کی ساری بات خاموشی سے سننے کے بعد وہ بس اتنا کہہ پایا تھا.
"سمجھائیں پھر مجھے کہ سہی کیا ہے."
"آپ صرف اسی وجہ سے انکار کر رہی ہیں نا... اگر میں یہ وجہ ختم کر دوں تو؟ کیا آپ راضی ہو جائیں گی؟" وہ لفظوں سے کھیل کر اسے جیتنے کی کوشش کر رہا تھا. اس کی بات پر حجر ایک لمحے کے لیے ہڑبڑائی.
"نہیں... میرے پاس اور سبب بھی ہی انکار کرنے کے" ہڑبڑاہٹ پر قابو پاتے ہوئے وہ بولی.
"آج آپ مجھے بتا ہی دیں کہ آپ میرے بارے میں کن کن غلط فہمیوں کا شکار ہیں." کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے وہ پرسکون انداز میں بولا.
"آپ.... (اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا بولے)... آپ بہت روڈ انسان ہیں. آپ کو لڑکیوں کو ٹریٹ کرنا نہیں آتا. آپ صرف اپنی رائے کو اہمیت دیتے ہیں دوسروں کی رائے کی آپ کو کوئی پروا نہیں." جب وہ بولنے پر آئی تو بغیر سوچے سمجھے بولنے لگی.
"فارغ وقت میں اپنے کہے گئے الفاظ پر غور کریے گا. کچھ دیر سوچنے سے آپ کو احساس ہو جائے گا کہ آپ کی بات میں کتنی سچائی ہے اور گر آپ ان وجوہات کی بنا پر مجھے انکار کر رہی ہیں تو یقین مانیں پچھتائیں گی." وہ اطمینان سے بولا.
"انکار کی ایک اور وجہ بھی ہے مگر اس کا تعلق آپ کی ذات سے نہیں ہے." حجر کے ذہن میں ایک خرافاطی ائیڈیا آ چکا تھا جس پر وہ اب عمل درآمد کر رہی تھی.
"بتا دیں وہ بھی." وہ بادل نخواستہ بولا.
"دراصل میرا ایک دوست ہے. اس نے کہا تھا کہ میں اسے ڈھونڈوں. وہ یہیں میرے اردگرد موجود ہے مگر میں اسے پہچان نہیں پا رہی." وہ مصنوعی پریشانی کے تاثرات چہرے پر لاتے ہوئے بولی جبکہ دل ہی دل میں وہ خوب محظوظ ہو رہی تھی. اس کی بات سن کر الہان کو شاک لگا. اسے امید نہیں تھی کہ وہ مونسٹر کے قصے کو اتنا سیریس لے جائے گی. سیریس تو خیر حجر نے لیا بھی نہیں تھا مگر اس سے اگلوانے کے لیے ڈراما تو کرنا ہی تھا نا.
"آپ اس کی وجہ سے مجھے انکار کر رہی ہیں؟" وہ شاک سے نکلتے ہوئے بولا.
"جی" اس نے بے جھجھک جواب دیا. اس کا جواب سن کر الہان کا دل کیا اپنا سر دیوار میں مار لے جبکہ اس کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیتی حجر نے بڑی مشکل سے قہقہہ ضبط کیا ہوا تھا.
" کیا یہ وہی دوست ہے جس نے آپ کو کرپٹوگرام بھیجا تھا؟" دل کی تسلی کے لیے اس نے دریافت کیا.
"وہی ہے. پروفیٹک مونسٹر نام ہے مگر میں مونسٹر کہتی یوں. آپ اسے ڈھونڈیں میں میری مدد کریں گے؟" وہ اسے زچ کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی.
"ضرور" بالوں میں ہاتھ پھیر کر خود کو کمپوز کرتے ہوئے وہ بمشکل بولا.
"آپ کی نظر میں... میرا مطلب ہے کہ پولیس فورس میں کوئی ایسا شخص ہے جو ہر وقت میرے اردگرد رہتا ہو؟" وہ خود کو مکمل سنجیدہ ظاہر کر رہی تھی.
"نہیں... میرے علاوہ تو اور کوئی نہیں ہے." الہان نے اسےارادۃً واضح ہنٹ دی مگر وہ اس کی بات ان سنی کرتے ہوئے وہ بولی.
"اچھا"
"ویسے بہت کم ایسے ہوتا ہے کہ آنلائن دوست اصل زندگی میں ملے." مکمل طور پر اپنا انداز لاپرواہ بناتے ہوئے وہ بولا.
"مونسٹر گیم کھیلنے سے پہلے بھی مجھ سے مل چکا ہے." اس نے یوں ظاہر کی جیسے اس کی کو بہت اہم بات بتا رہی ہو.
"واہ... کیا تفاق ہے." وہ جل کر بولا. اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیسے ریایکٹ کرے. اس نے سوچا تھا کہ حجر میسج پڑھنے کے بعد اسے پہچان لے گی. یوں گیمز کھیلنے پر تھوڑا بہت نارض ہو گی پر وہ اسے منا لے گا. مگر یہاں تا گنگا ہی الٹی بہ رہی تھی. اس کی سوچ سے بالکل مختلف رسپونس تھا اس کا. اس کی درست پیشن گوئیوں کی وجہ سے سب اسے پروفیٹک مونسٹر کہتے تھے مگر حجر کے متعلق لگائے گئے اس کے سارے اندازے اول روز سے غلط ثابت ہو رہے تھے.
"کیا آپ کو کسی پر شک ہے؟ کوئی ایسا شخص جسے کرپٹوگرام بنانے آتے ہوں؟" کچھ سوچ کر الہان نے سوال کیا.
"نہیں.. میرا نہیں خیال کہ کسی کو بیورو میں کرپٹوگرام آتے ہیں." اس نے خود کو بے وقوف ظاہر کرنے کی پوری کوشش کی.
"اس کی آواز یاد ہو گی نا آپ کو؟ ہنٹر گیم کے دوران بات کی تھی نا آپ نے؟" الہان اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہا تھا کہ اسے سمجھ آ جائے کہ وہی مونسٹر ہے.
"آپ کو کیسے پتا کہ میری اس سے ہنٹر گیم کے دوران ملاقات ہوئی تھی؟" بھنوئیں اچکاتے ہوئے اس نے سوال کیا. اس کے سوالیہ ایک لمحے کے لیے گڑبڑایا.
"میں نے گیس کیا ہے." اس نے بمشکل بات بنائی. اس کی بات پر حجر اسے مشکوک نظروں سے دیکھنے لگی.
"آپ اس معاملے میں انوالو نہیں ہیں؟" حجر نے آخری مرتبہ تصدیق کرنی چاہی.
"نہیں" اس نے پر اعتمادی سے جھوٹ بولا.
"اچھی بات ہے." کہتے ساتھ ہی اس نے لیپ ٹاپ اٹھایا اور آفس سے نکل گئی. جبکہ وہاں تنہا بیٹھا الہان بے بسی سے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا
She is getting on my nerves
پھر کچھ لمحوں بعد خود بھی کمرے سے نکل گیا.
......................
یہ منظر مارگلہ کی پہاڑیوں میں بنے ایک ہٹ کا تھا. اس ہٹ کے بیرونی حصے کو جھاڑیوں کی مدد سے مکمل طور پر ڈھانپا گیا تھا جس کے باعث کوئی عام شخص یہ اندازہ نہیں کر پاتا تھا کہ وہاں کوئی ہٹ موجود ہے. کسی نے یہ ہٹ بڑے سوچ سمجھ کر بنایا تھا. ہٹ کے اندر جھانکو تو بلب کی سنہری روشنی میں اندر کا منظر واضح تھا. ہٹ کے دروازے کے اس پار ایک کمرہ نما جگہ تھی جس کے وسط میں ایک کرسی رکھی گئی تھی اور اس کرسی پر فصیحہ کو زنجیروں سے باندھ کر بٹھایا گیا تھا. وہ اس وقت بےہوشی کی حالت میں تھی. کمرے کی ایک دیوار پر مختلف اوزار لگائے گئے تھے جبکہ ایک دیوار کے آگے چھوٹا سی ایل سی ڈی رکھی گئی تھی. ایل سی ڈی کے بالکل آگے ایک شخص سفید چمڑی کا ماکس پہنے بیٹھا تھا. نظریں سکرین پر جمائے وہ ہاتھ میں پکڑے ریموٹ سے چینل بدل رہا تھا. ایک آواز سماعت سے ٹکراتے ہی ریموٹ پر چلتی اس کی نگلیاں تھمیں.
"ناظرین.... پچھلے چھ ماہ میں وقتاً فوقتاً بچوں کو اغواہ کرنے والا مجرم حراست میں لے لیا گیا ہے. مجرم کو پولیس کی سپیشل برانچ نے چند گھنٹے پہلے اسلام آباد کے نواحی علاقے میں بنے ایک گاؤں سے پکڑا ہے. پولیس کے تشدد کے باعث کچھ دیر میں ہی مجرم اقرار جرم کرنے پر مجبور ہو گیا." اینکر پرسن کچھ اور بھی کہہ رہا تھا مگر اس شخص نے غصے سے سرخ ہوتی نگاہوں سے ایک آخری نگاہ سکرین پر ڈالی پھر ہاتھ میں پکڑا ریموٹ زور سے سکرین پر مارا. ایل سی ڈی کی سکرین بری طرح ٹوٹ چکی تھی مگر اس شخص کے غصے کا گراف نیچے نہیں آیا.
"تم لوگوں نے اچھا نہیں کیا. وہ سب میرے وکٹم تھے اتنی آسانی سے کوئی میری جگہ نہیں لے سکتا. پہلے تم لوگوں نے میرے أخ کو مجھ سے علیحدہ کیا اور اب تم لوگ میرے وکٹم کو مجھ سے چھین رہے ہو. جس نے أخ کو مارا اس سے بدلہ تو میں لے لوں گا مگر اپنی حرکتوں کے باعث تم لوگ مجھے مجبور کر رہے ہو کہ میں تم لوگوں کا جینا محال کردوں
"I'll make you regret it
اب اس نے ہاتھ مار کر ایل سی ڈی نیچے گرائی. اس کا اگلا نشانہ کتابوں کا ریک تھا. کمرے کی ہر شہ کو اپنے غصے کا نشانہ بنانے کے بعد اس نے کمرے کے وسط میں رکھی کرسی کو ٹھوکر ماری. اپنا توازن کھو دینے کے باعث کرسی زمین پر گری. کرسی پر زنجیروں سے بندھی فصیحہ کی گرنے کے باعث کراہ نکلی. مگر وہ شخص پروا کیے بغیر اب بے چینی سے کمرے میں چکر لگا رہا تھا. اگے کا لائحہ عمل لمحوں میں سوچنے کے بعد اس نے متلاشی نگاہوں سے زمین پر گری چیزوں کی جانب دیکھا. اس کی مطلوبہ چیز اسے کتابوں کی ڈھیر کے قریب پڑی نظر آئی تھی. آگے بڑھ کر اس نے وہ چارٹ زمین سے اٹھایا. وہ سرویلینس کیمروں کی لوکیشن کا چارٹ تھا. جن جگہوں پر کیمرے لگے تھے وہاں سرخ دائرہ بنا تھا. کچھ سوچ کر اس نے اپنی اگلی کاروائی کے لیے جگہ منتخب کی اور میپ واپس بند کرتے ہوئے فصیحہ کے گرے وجود پر نگاہ ڈالے بغیر وہ ہٹ سے باہر نکل گیا. ہٹ کے دروازے کو تالا لگانے کے بعد اس نے ہٹ کو ڈھانپنے کے لیے جھاڑیوں کی تلاش میں اردگرد نگاہ دوڑائی. کچھ فاصلہ پراسے ٹہنیاں دکھیں جن پر ہلکے بنفشہ رنگ کے خوشبو دار پھول لگے تھے. وقت ضائع کیے بغیر اس نے وہ ٹہنیاں اٹھا کر ان سے ہٹ کو اچھی طرح ڈھانپا اور اپنے اگلے شکار کی تلاش میں چل پڑا.
....................
گھڑی کی سوئیاں دس کے ہندسے کو چھو رہی تھیں جب پولیس کی وین اپارٹمینٹل بلڈنگ کے سامنے بنے پارک کے باہر رکی. وہ پولیس کی کرائم برانچ کی وین تھی جس میں آوپریٹنگ سسٹم بنایا گیا تھا. وین کے اندر ایک سکرین لگی تھی جس پر اس علاقے میں لگے سب سی سی ٹی وی کیمروں کی فٹیج نظر آرہی تھی. سکرین کے بالکل سامنے الہان, حجر اور ہاجرہ براجمان تھی. شام کے وقت مجرم ملنے کے نیوز سوشل میڈیا پر پھیل چکی تھی. اب وہ عتبہ کمال عرف انسب کی اگلی کاروائی کے انتظار میں تھے.
"آپ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ عتبہ اس بلڈنگ کی کوئی لڑکی کڈنیپ کرے گا؟" کب سے ذہن میں گردش کرتا سوال الہان پوچھے بغیر نہ رہ سکا.
"پرانے سرویلینس کیمروں کا چارٹ دیکھیں تو یہ وہ واحد رہائشی جگہ ہے جس کے مین روڈ سے راستے میں نہ پولیس کے بیریر barrier ہیں اور نہ ہی کوئی سی سی ٹی وی کیمرا ہے. کوئی بھی شخص اگر مین روڈ کے ذریعے یہاں تک آتا ہے تو وہ کسی بھی مشکل اور کسی بھی کیمرے کی ریکارڈنگ میں آئے بغیر یہاں تک پہنچ سکتا ہے. میرے تجربے کے مطابق عتبہ یہاں کی کسی لڑکی کو ہی اغواہ کرے گا کیونکہ وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ ہم نے یہاں اب کیمرے لگا دیے ہیں. باقی سب جگہوں کو بھی ہماری ٹیم نے کور کیا ہوا ہے مگر اس جگہ سے اغواہ ہونے کا زیادہ خدشہ ہے سو یہاں کی سکیورٹی زیادہ سخت ہے." حجر نے اسے تفصیل بتا رہی تھی جب اس کا فون رنگ کیا. کان میں لگی بلوتوتھ ڈیوائس کا بٹن دباتے ہی وہ وہ بولی
"جی آفیسر بلال! بلڈنگ کے چوکیدار سے بات ہوئی؟"
"جی میم"
"بلڈنگ میں رہنے والی کوئی فیملی یا کوئی لڑکی باہر تو نہیں ہے؟"
"میم! ایک لڑکی باہر ہے."
"کون؟ فیملی ہے یا صرف اکیلی لڑکی ہے؟" اس نے تعجب سے سوال کیا.
" سارہ نام ہے اس کا.اس کی فیملی کسی بیرون ممالک میں مقیم ہے اور وہ یہاں کے اپارٹمنٹ میں رہتی ہے." آفیسر بلال نے وضاحت دی. سارہ نام سن کر اس کے ذہن میں اپنی ہائی سکول کی کلاس فیلو سارہ کا چہرہ ذہن میں آیا تھا. سر جھٹکتے ہوئے اس نے اس خیال سے ہیچھا چھڑایا اور پھر آفیسر بلال سے دریافت کرنے لگی
"کوئی جاب وغیرہ کرتی ہے؟ کب تک آتی ہے واپس؟"
"وہ کسی پرائیویٹ فرم میں جاب کرتی ہے. ساڑھے دس کے قریب وہ جاب واپس آ جاتی ہے."
"ٹھیک ہے. جیسے ہی وہ واپس آئے مجھے انفارم کرنا." مزید چند ہدایات دینے کے بعد حجر نے فون بند کر دیا. ان کی وین بلڈنگ کے بیرونی دروازے سے ذرا ہٹ کر درخت کے سائے میں کھڑی تھی. وین پر پولیس فارس کا کوئی لوگو نہیں لگا تھا سو دکھنے میں وہ ایک عام سی وین لگتی تھی. اس کی ساری ٹیم بھی عام کپڑوں میں ملبوس اس وسیع رقبے پر پھیلی بلڈنگ کے مختلف مقامات پر چوکنا کھڑی تھی. انہیں وہاں کھڑے تقریباً آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا مگر گزرے آدھے گھنٹے میں سب کچھ معمول کے مطابق رہا تھا. وہ سب اسی پوزیشن میں کھڑے تھے جب بلڈنگ کے بیرونی دروازے پر ایک ڈلیوری بوائے آیا جو غالباً پزا دینے آیا تھا. گیٹ پر کھڑے چوکیدار نے اس کا کارڈ چیک کیا پھر اسے اندر جانے کی اجازت دے دی. وین میں بیٹھی حجر سکرین سے مین گیٹ کے کیمرے سے ریکارڈ ہونے والا یہ منظر دیکھنے میں مصروف تھی جب آنکھ کے کنارے سے نظر آتے بیک یارڈ میں لگے کیمرے کی ریکارڈنگ میں کوئی حیولہ واضح ہوا تھا. اپنے شک کی تصدیق کرنے کے لیے حجر نے ریکارڈنگ ریوائنڈ کرکے دیکھی تو واقعی کوئی کالے لباس میں ملبوس شخص بیرونی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوا تھا. وہ ریکارڈنگ دیکھ کر وین سے باہر نکلنے ہی لگی تھی جب ایک دم سے بلڈنگ میں بلیک آؤٹ ہوا. پوری بلڈنگ اندھیرے میں ڈوبی دیکھ کر حجر اور الہان بلڈنگ کے گیٹ کی جانب بھاگے. جس وقت وہ بھاگ رہے ٹھیک اسی وقت سڑک کی دوسری جانب سے آتی ہوئی ایک گاڑی بلڈنگ کے گیٹ کے سامنے رکی. گاڑی پر توجہ دیے بغیر وہ دونوں بلڈنگ کا بیرونی گیٹ پار کرکے اندر آئے جب چاند کی ہلکی روشنی میں سائیکل پر سوار ڈلیوری بوائے بلڈنگ سے باہر نکلتا ہوا دکھائی دیا. ان کے قریب سے گزر کر وہ سر جھکا کر بیرونی دروازہ پار کرگیا. اس کے قریب سے گزرنے پر ایک مہک نے حجر کو اپنے حصار میں لیا. گردن موڑ کر حجر نے ایک نظر سائیکل پر سوار شخص کی پشت کو دیکھا پھر وقت ضائع کیے بغیر اندر بڑھ گئی. بلڈنگ کے گرد بنا باغ پار کرنے کے بعد وہ اندرونی عمارت کے قریب پہنچی ہی تھی جب تمام لائیٹس دوبارہ آن ہوئیں.
"بلیک آؤٹ کیوں ہوا تھا؟" کہتے ساتھ ہی اس نے چھنیک ماری.
"میم! کسی نے مین سوئچ بند کر دیا تھا." ان کے اتنا کہنے کی دیر تھی جب حجر کے ذہن میں جھماکا ہوا. الٹے قدموں وہ واپس بیرونی گیٹ کے قریب آئی مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی.
"ڈیم اٹ" مسلسل چھینکیں آنے کے باعث پانی بھری آنکھوں سے خالی سڑک کو دیکھتے ہوئے وہ بولی. سڑک پر ایک آدمی منہ کے بل گرا تھا قریب ہی ڈلیوری بوائے کی سائیکل پڑی تھی. سڑک پر گرے شخص کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس نے اس شخص کی سانس چیک کی پھر آفیسر نعمان کی جانب دیکھتے ہوئے بولی.
"اسے ہوش میں لائیں."
"آپ ٹھیک ہیں؟" اس مسلسل چھینکیں مارتے دیکھ کر الہان نے استفسار کیا.
"جو ڈلیوری بوئے کچھ دیر پہلے یہاں سے گزرا تھا اس کے پاس سے لیوینڈر lavender کی مہک آ رہی تھی اور مجھے لیوینڈر سے الرجی ہے." بمشکل بولتے ہوئے وہ دوبارہ وین کی جانب بڑھ رہی تھی.
"آفیسر بلال... بلڈنگ کے بیک یارڈ میں ڈلیوری بوائے بے ہوشی کی حالت میں موجود ہو گا. اس کو دیکھیں جا کر اور آفیسر سعد آپ پولیس فارس سے کہیں کہ مین روڈ تک جاتی ہر گاڑی کی چیکنگ کریں." وین میں سارا سسٹم دوبارہ آن کرتے ہوئے وہ بولی.
"میم... ڈلیوری بوائے تو پزا دینے کے بعد واپس چلا گیا تھا." آفیسر بلال بولے.
"وہ ڈلیوری بوائے نہیں تھا. وہ عتبہ کمال تھا. بڑی آسانی سے ہم سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر وہ سارہ کو کڈنیپ کر کے لے گیا ہے. میں سی سی ٹی وی کی ریکارڈنگ سے گاڑی کا نمبر دیکھ کر بتاتی ہوں آپ کو.... جیسے ہی گاڑی کی لوکیشن پتا چلتی ہے مجھے انفارم کریں." سرخ ہوتی آنکھوں سے وہ مین گیٹ کے کیمرے کی ریکارڈنگ دیکھتے ہوئے انہیں آرڈر دے رہی تھی. اس کی بات سن کر آفیسر بلال جلدی سے بیک یارڈ کی طرف گئے جبکہ آفیسر سعد, رضا حمید سے رابطہ کرنے لگے. الہان چند لمحوں سے منظر عام سے غائب تھا مگر اس کی غیر موجودگی کسی نے محسوس نہیں کی تھی.
"چند منٹوں میں عتبہ کمال نے اتنے لوگوں کی موجودگی میں صبا کو کیسے اغواہ کر لیا." ہاجرہ ناسمجھی سے بولی.
"وہ سب کچھ پلین کرکے آیا تھا. بلڈنگ کے پچھلے حصے سے اندر آکر اس نے مین سوئچ بند کیا پھر پزا دے کر واپس آتے ڈلیوری بوائے کو بے ہوش کرکے اس نے اس کا حلیہ اپنایا اور بلڈنگ سے باہر نکلا. اس وقت سارہ کیب کے ذریعے اپنی جاب سے واپس آئی تھی. موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے ڈرائیور کو گاڑی سے نکالا اور خود اس میں سوار ہو کر سارہ کو لے گیا." ہاجرہ کو تفصیل بتانے کے بعد اس نے افیسر سعد کو گاڑی کا نمبر لکھوایا. عتبہ کمال کی چالاکی کی داستان سن کر ہاجرہ حیران رہ گئی تھی جبکہ حجر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر عتبہ کمال کے ہاتھ سے نکل جانے پر افسوس کرنے لگی. اس کی چھینکوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا مگر وہ خود کی پرواہ کیے بغیر رضا حمید کی کال کا انتظار کرنے لگی. اسے اس پوزیشن میں بیٹھے چند ساعتیں ہی گزری تھیں جب الہان وہاں آیا.
"حجر.. یہ کھا لیں" ایک پیکٹ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے وہ بولا.
"یہ کیا ہے؟" اس نے غائب دماغی سے سوال کیا.
"بے فکر رہیں زہر نہیں ہے. اینٹی الرجک میڈیسن ہے." وہ اس کی تفتیش سے تنگ آ کر بولا. اس کی بات پر ححر نے تیز نگاہ اس پر ڈالی. دل تو کیا کہ میڈیسن اس کے منہ پر دے مارے مگر صورت حال کے پیش نظر وہ یہ کر نہیں سکتی تھی کیونکہ اسے اس وقت میڈیسن کی اشد ضرورت تھی.
"شکریہ" وہ بادل نخواستہ بولی. وہ میڈیسن کھا کر فارغ ہی ہوئی تھی جب آفیسر سعد وین کے قریب آئے
"گاڑی کی لوکیشن پتا چل گئی ہے." ٹیبلٹ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے وہ بولے.
"پیچھا کریں گاڑی کا." اس کی بات سن کر وہ فوراً سے ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بڑھے. کچھ لمحوں بعد وہ وین تیز رفتاری سے اپنی منزل کی جانب گامزن تھی. ڈرائیونگ سیٹ پر افیسر سعد براجمان تھے اور پیسنجر سیٹ پر ہاجرہ بیٹھی تھی جبکہ حجر اور الہان بیک سیٹ پر براجمان تھے.
"گاڑی اب ایک جگہ رکی ہوئی ہے." حجر کی بلوتوتھ ڈیوائس پر رضا حمید کی آواز گونجی.
"آپ پہنچیں وہاں... ہم بھی آ رہے ہیں." میڈیسن کے باعث اس کی طبیعت کچھ بہتر تھی. اگلے چند منٹوں میں وہ اس جگہ پہنچ چکے تھے جہاں گاڑی کھڑی تھی. وہ ایک سڑک تھی جس کی ایک جانب پہاڑ تھا اور دوسری جانب کھائی تھی. گاڑی اس سڑک پر پہاڑ کی جانب کھڑی تھی. رضا حمید کی ٹیم نے ایک فاصلے سے گاڑی کو گھیر رکھا تھا. اندھیرا ہونے کے باعث یہ معلوم نہیں ہو پارہا تھا کہ گاڑی کے اندر کوئی موجود ہے یا نہیں. وہاں پہنچتے ہی وہ سب باہر نکلے. ایک ہاتھ سے گن اور دوسرے ہاتھ سے ٹارچ تھام کر حجر گاڑی کے قریب جانے لگی جبکہ الہان بےچینی سے اس کی کاروائی دیکھ رہا تھا. آفیسر سعد اور رضا حمید حجر کی تقلید میں تھے. گاڑی کے قریب جا کر حجر نے جھٹکے سے گاڑی کا دروازہ کھولا. گاڑی خالی تھی اور بیک سیٹ پر باز کی تصویر کے علاوہ ایک اور کاغذ بھی تھا. کاغذ پر لکھے الفاظ پڑھ کر اس کے تاثرات بدلے. وہ کاغذ اس نے مٹھی میں دبوچا اور باقی سب کی جانب مڑی
"گاڑی خالی ہے صرف باز کی تصویر ملی ہے." اس نے باز کی تصویر آفیسر سعد کو تھمائی. الہان نے اس کے چہرے پر چھائے نا قابل فہم تاثرات دیکھے پھر ایک نظر اس کی بند مٹھی کو دیکھا. وہ جان گیا تھا کہ کوئی تو بات ہے جو وہ سب سے چھپا رہی ہے مگر اس وقت اس نے خاموش رہنا بہتر سمجھا.
"گاڑی فارینسک ٹیم کے حوالے کر دیں تاکہ وہ فنگر پرنٹس اکٹھے کر سکیں. باقی کی تفتیش صبح کریں گے." بے دلی سے اتنا کہہ کر وہ واپس وین کی جانب آ گئی. سب نے خاموشی سے اس کی بات پر عمل کیا اور رفتہ رفتہ سب واپس اپنے گھروں کی جانب گامزن ہو گئے.
........................
YOU ARE READING
Siad
Mystery / ThrillerSiad means hunter. It is thriller novel. It is about a girl live in norway and a pakistani boy. Read the novel to know how they came across each other.