صیاد
ازقلم رباب تنویر
آٹھ سال.... آج آٹھ سال بیت گئے تھے اس سانحے کو گزرے ہوئے. کہنے کو تو یہ آٹھ سال تھے مگر مرتضی علوی کی زندگی میں یہ آٹھ سال آٹھ صدیوں کی طرح گزرے تھے. بے کیف اور بے سکون سے دن جو صبح طلوع ہونے کے بعد ڈھلنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے. پچھلے آٹھ سالوں سے وہ ایک ہی مدار میں گردش کر رہا تھا مگر دو دن پہلے اس کا یہ مدار چھن گیا تھا. ہاتھ پہ ہاتھ دھڑے سفید کپڑوں میں ملبوس علوی ہاؤس کے وسط میں بنے ہال میں بیٹھا وہ گزرے سالوں کا تجزیہ کرنے لگا.
آٹھ سال پہلے آج کی ہی تاریخ کو وہ لوگ گوادر گئے تھے. اللہ یار کی حویلی اس سے ملنے. گوادر سے شام کے نکلے وہ اور ان کی بیوی فرح رات کے پہلے پہر گھر واپس پہنچے تھے. گھر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اس کی نظر لاؤنج میں چکر لگاتے عابد علوی پر پڑی. فاریہ بیگم بھی ان کے قریب ہی صوفے پر بیٹھیں منہ میں کوئی ورد کرنے میں مصروف تھیں.
”اسلام علیکم!" گھر میں داخل ہوتے مرتضی اور فرح نے سلام کیا.
”وعلیکم سلام!"
”آپ لوگ سوئے نہیں اب تک؟" فرح ان دونوں کو لاؤنج میں بیٹھے دیکھ کر بولی.
”تم لوگوں کا انتظار کر رہے تھے. الہان نہیں آیا تم لوگوں کے ساتھ" فاریہ بیگم نے الہان کی غیر موجودگی محسوس کرکے سوال کیا.
”وہ ہارون کی گاڑی میں ان لوگوں کے ساتھ آ رہا ہے." مرتضی نے انہیں جواب دیا پھر عابد صاحب کی جانب متوجہ ہوا جو پریشان دکھائی دے رہے تھے.
”کیا بات ہے بڑے بابا؟ اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہیں؟" مرتضی نے سوال کیا.اس کے سوال کرنے پر فرح بھی عابد صاحب کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگی.
”احتشام کے دوست حیدر کی کال آئی تھی." وہ آہستگی سے بولے.
”حیدر کی کال؟ حیدر تو آج صبح کی فلائٹ سے احتشام کے ساتھ دبئی گیا تھا. پھر کال کیوں کی اس نے؟ اپنی خیریت کی اطلاع دینے کے لیے فون کیا ہو گا؟" مرتضی نے خود سے اندازہ لگایا. اس گفتگو کے دوران فاریہ بیگم اور فرح خاموش تھے.
”اس نے خیریت بتانے کے لیے کال نہیں کی تھی بلکہ یہ بتانے کے لیے کال کی تھی کہ احتشام پولیس کی حراست میں ہے." عابد علوی شکستہ لہجے میں بولے.
”کیا؟ پولیس کی حراست میں؟ مگر کیوں؟"یہ خبر مرتضی کے لیے ایک جھٹکے سے کم نہ تھی.
”احتشام کے بیگ سے ڈرگز برآمد ہوئے ہیں اسلیے دبئی ائیرپورٹ کی انتظامیہ نے اسے حراست میں رکھا ہے." ان کے لہجے میں پریشانی واضح محسوس کی جاسکتی تھی.
”احتشام اور ڈرگز؟ ایسا کیسے کو سکتا ہے؟ ضرور کوئی نہ کوئی غلط فہمی ہوئی ہے." مرتضی کا یقین ایک لمحے کے لیے نہ ڈگمگایا تھا. اسے یقین تھا کہ ڈرگز کی سمگلنگ جیسا سنگین جرم احتشام کبھی نہیں کر سکتا.
”میرا بھی یہی خیال ہے کہ یہ سب غلط فہمی ہے مگر ایئرپورٹ کی انتظامیہ کو اس کے بیگ سے ہیروئن کے بہت سے پیکٹ ملے ہیں."
”کسی اور نے ڈالے ہوں گے اس کے بیگ میں ڈرگز. احتشام نے پولیس کو کیا بیان دیا ہے؟" مرتضی نے سوال کیا.
”احتشام کا یہی کہنا ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کے بیگ میں ڈرگز کہاں سے آئے ہیں." عابد علوی نے تفصیل بتائی.
”آپ پریشان نہ ہوں. میں حیدر سے بات کرتا ہوں." ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مرتضی نے انہیں تسلی دی پھر پوکٹ سے فون نکال کر حیدر کا نمبر ملانے لگا.
“ہیلو حیدر! کیا صورت حال ہے وہاں کی؟" دوسری جانب سے کال موصول ہوتے ہی وہ بولا.
”بہت سنگین صورت حال ہے. میں نے بات کرنے کی کوشش کی ہے پولیس سے مگر ان کا کہنا ہے کہ احتشام کے خلاف ان کے پاس ثبوت موجود ہیں. ایف آئی آر بھی کٹ چکی ہے اسلیے اس کیس کا فیصلہ اب عدالت میں ہی ہو گا." حیدر نے اسے تفصیل بتائی.
”میری کسی طرح احتشام سے بات کرواؤ." ماتھے ہر ہاتھ پھیر کر خود کو پر سکون کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مرتضی بولا.
”میں کوشش کرتا ہوں." حیدر بولا اور پھر لائن کے دوسری جانب سے عربی میں کچھ کہے جانے کی آوازیں آنے لگیں. کچھ لمحوں بعد ایک بھاری مردانہ آواز گونجی.
”مرتضی!" یہ آواز احتشام کی تھی.
”مرتضی میرے بھائی! مجھ پر یقین کرو میں نے کچھ نہیں کیا. میں نہیں جانتا کہ ہیروئن کہ یہ پیکٹ میرے بیگ میں کہاں سے آئے. مگر یہ بات یقینی ہے کہ یہ ڈرگز میں نے نہیں رکھے." بات کے اختتام پر احتشام کی آواز رندھ گئی تھی.
”میں جانتا ہوں احتشام کہ یہ سب تم نے نہیں کیا. ہم سب کو تم پر پورا یقین ہے. تمہے کسی بھی قسم کی صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے."
”میں ان لوگوں کو ہزار دفعہ اپنی بے گناہی کے متعلق بتا چکا ہوں مگر یہ یقین ہی نہیں کر رہے." وہ نا امیدی سے بولا.
”تم پریشان نہ ہو. میں حیدر سے کہہ کر کسی اچھے سے وکیل کو ہائر کرتا ہوں. اللہ نے چاہا تو تم بہت جلد پولیس کسٹڈی سے باہر نکل آؤ گے. خود پر یقین رکھو. ہم سب تمہارے ساتھ ہیں. میں خود بھی کل تک دبئی آنے کی کوشش کرتا ہوں." مرتضی نے اسے تسلی دی.
”مرتضی پلیز جلدی آنا. مجھے اس وقت تنہائی کا شدید احساس ہو رہا ہے اور تم سب کی کمی بہت زیادہ محسوس ہو رہی ہے." اس کی آواز میں آنسوؤں کی آمیزش تھی.
”میں بہت جلد آؤں گا اور تمہے بے گناہ ثابت کروں گا." مرتضی جزبات کے ریلے پر قابو پاتے ہوئے بولا.
”میں تمہارا انتظار کروں گا. فی امان اللہ" اتنا کہنے کے بعد احتشام نے فون واپس حیدر کو تھما دیا. مرتضی نے وکیل کی تقرری کے متعلق حیدر سے چند باتیں کرنے کے فون بند کیا.
”مرتضی میرا بچہ کیسا ہے؟" اس کو فون بند کرتا دیکھ کر فاریہ بیگم بے تابی سے بولیں. بے شک احتشام, مرتضی اور آنیہ ان کی اپنی اولاد نہیں تھے مگر انہوں نے کبھی ان تینوں کو ہارون سے الگ نہیں سمجھا تھا. وہ تینوں بھی انہیں اتنے ہی عزیز تھے جتنا انہیں اپنا اکلوتا بیٹا ہارون عزیز تھا.
”ٹھیک ہے وہ بڑی مما. شک کی بنیاد پر اسے کچھ دیر کے لیے زیرِحراست رکھا گیا ہے. جیسے ہی اس کی بے گناہی ثابت ہو جائے گی اس پر سے سارے چارجز ہٹا دیے جائیں گے." مرتضی انہیں مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے صورت حال کی سنگینی ان سے چھپا گیا.
”اگر کچھ دیر کے لیے زیرِحراست رکھا گیا ہے تو پھر وکیل کیوں ہائر کر رہے ہو؟" عابد صاحب اس کی بات سے مطمئن نہیں ہوئے تھے اس لیے انہوں نے سوال کیا.
”کوئی کاغذی کاروائی کرنی ہے بس اسی لیے ہائر کیا ہے وکیل کا. آپ لوگ پریشان نہ ہوں. میں کل دبئی جا کرسب معاملات نمٹا آؤں گا." مرتضی نے انہیں مطمئن کرنے کی پوری کوشش کی اور اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب بھی رہا تھا.
”آنیہ کو فون کریں. ابھی تک آئے نہیں." فرح نے پہلی مرتبہ گفتگو میں حصہ لیا. اس کی بات پر سر ہلاتے ہوئے مرتضی نے آنیہ کا نمبر ملایا.
”فون بند ہے." فون کان سے ہٹاتے ہوئے وہ بولا.
”ہو سکتا ہے چارجنگ ختم ہو گئی ہو فون کی. آپ ہارون بھائی کے نمبر پر کال کر لیں." فرح نے مشورہ دیا جس پر مرتضی نے فورًا عمل کیا.
”ہارون کا فون بھی بند ہے. مجھے لگتا ہے کہ سگنلز کا مسئلہ ہے تبھی دونوں کے فون بند ہیں. خیر آنے والے ہونگے. آپ لوگ سو جائیں جا کر میں ان کے انتظار میں جاگ رہا ہوں." مرتضی فون بند کرتے ہوئے بولا.
”تم جانتے تو ہو مرتضی کہ جب تک تم سب سہی سلامت گھر نہ پہنچ جاؤ اس وقت تک تمہارے بڑے بابا کو اور مجھے نیند نہیں آتی." فاریہ بیگم تسبیح کا دانہ گھماتے ہوئے بولیں.
”اکٹھے نہیں نکلے تھے تم لوگ؟" صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے عابد صاحب نے مرتضی سے سوال کیا. مرتضی اپنی سوچ میں گم تھا تبھی وہ ان کی بات کے جواب میں خاموش رہا.
”نکلے تو اکٹھے ہی تھے مگر مجھے لگتا ہے کہ الہان کی ضد پر وہ لوگ راستے میں کہیں رکے ہوں گے تبھی دیر ہو گئی ہے آنے میں." مرتضی کو سوچ میں گم دیکھ کر فرح نے عابد صاحب کی بات کا جواب دیا.
”میں چینج کر کے آتی ہوں." اتنا کہہ کر فرح اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی. جبکہ وہ تینوں وہیں لاؤنج میں ان کے انتظار میں بیٹھے رہے. رات کی سیاہی صبح کے نور میں تبدیل ہو گئی مگر وہ لوگ گھر نہ پہنچے. گزری رات میں مرتضی کئی مرتبہ ہارون اور آنیہ کے نمبر پر کال ملا چکا تھا مگر ان دونوں کے فون بند تھے. صبح تک جب ان کی کوئی خبر نہ آئی تو ان سب کو پریشانی نے گھیر لیا.
”مرتضی اللہ یار کو فون کرکے وہاں کے حالات کے متعلق پتا کرو. کہیں کوئی مسئلہ نہ ہو گیا ہو." عابد صاحب دھیمے لہجے میں دروازے کے قریب پریشانی سے چکر لگاتے مرتضی کو مخاطب کرتے ہوئے بولے.
”جی بڑے بابا" مرتضی نے ان کے کہنے پر اللہ یار کو فون کیا. چند گھنٹے گزرنے کے بعد اللہ یار نے انہیں بتایا کہ ہائی وے پر ہارون کی گاڑی ملی ہے. درخت سے ٹکرانے کے باعث گاڑی کی حالت نہایت خراب تھی. سوائے اس ٹوٹی ہوئی گاڑی کے وہاں نہ کوئی زندہ جان ملی اور نہ ہی کوئی مردہ لاش. اس دن کے بعد سے آنیہ, ہارون, حجر اور الہان گمشدہ تھے. ان کی گمشدگی کی خبر عابد صاحب اور فاریہ بیگم کا دل دہلانے کے لیے کافی تھی.. خبر سنتے ہی فاریہ بیگم کو ہارٹ اٹیک ہوا. چند دن ہسپتال رہنے کے بعد وہ ہمت ہار گئیں اور اپنے بیٹے کی شکل دیکھنے کی آس لیے دنیا سے رخصت ہو گئیں. عابد صاحب کا حال بھی ان سے کچھ مختلف نہیں تھا. اپنی جان سے پیاری بیوی اور بیٹے کی جدائی وہ زیادہ عرصہ براداشت نہیں کر پائے اور اس سانحے کے چھ ماہ بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا. ان سب حالات میں مرتضی کی توانائیاں نچڑ کر رہ گئی تھیں. ماں باپ جیسے تایا تائی, جان سے پیارا دوست احتشام, بڑے بھائیوں جیسا ہارون, اپنی سگی بہن آنیہ اور سب سے بڑھ کر اپنے بیٹے الہان کی جدائی کا غم اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا. بظاہر وہ حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کر رہا تھا مگر یہ صرف اس کا خدا جانتا تھا کہ وہ ان سب لوگوں کے دور جانے پر کس عذاب سے گزرا ہے. وقفے وقفے سے ہونے والے حادثوں نے اسے اندر تک ہلا کر رکھ دیا تھا. ان چاروں کو ڈھونڈنے کے لیے آئے دن پولیس کے ساتھ مختلف مقامات پر جانا, ہارون کی غیر موجودگی میں کاروبار سمبھالنا, گھر کی معاملات نمٹانا یہ سب ذمہ داریاں اس کے کاندھوں پر تھیں اور ان حالات میں وہ احتشام کے لیے کچھ نہیں کر پایا تھا. حیدر سے اسے احتشام کے کیس کی پہلی سنوائی کا پتا چلا تھا مگر ان دنوں عابد صاحب کی حالت ٹھیک نہیں تھی اور اسی وجہ سے وہ جا نہ سکا. پھر یونہی مصروفیات نے اسے ایسا جکڑا کہ وہ مڑ کر اس کی حانب دیکھ ہی نہ پایا. وقت گزرتا گیا گھاؤ بھرتے گئے مگر نشانات باقی رہ گئے. گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ مرتضی نے بہت حد تک خود کو سنبھال لیا تھا مگر فرح... مگر فرح اپنے بیٹے الہان کی جدائی میں اندر ہی اندر گھلتی جارہی تھی. اس کی جدائی اسے کھائے جا رہی تھی. انہیں ڈھونڈنے کی کوشش میں مرتضی اتنا مصروف ہو گیا کہ وہ فرح کی دن بہ دن خراب ہوتی حالت پر توجہ ہی نہ دے پایا اور پھر جب وہ اس کی گرتی صحت کی جانب متوجہ ہوا تب بہت دیر ہو چکی تھی. فرح کو انسیفلائٹس( انفلامیٹری ڈیزیز) تھی. دماغ میں ہونے والی سوزش کے باعث اس کی صحت بری طرح متاثر ہو رہی تھی. بیماری کی تشخیص کے بعد فرح کا مکمل طور پر علاج شروع ہوا. ڈیڑھ سال تک فرح اپنی بیماری سے لڑتی رہی. مرتضی نے اس عرصہ کے دوران اس کا بھرپور ساتھ دیا. سب کچھ فراموش کیے وہ صرف اور صرف فرح کے علاج کروانے میں مصروف رہا اور دو دن پہلے اس کی یہ مصروفیت بھی اس سے چھن گئی. دو دن پہلے صبح طلوع ہونے والا سورج اس کی جینے کی آخری وجہ, اس کی بیوی فرح کو بھی اپنے ساتھ لے گیا. ڈیڑھ سال انسیفلائٹس سے مقابلہ کرتی فرح نے دو دن پہلے ہمت ہار دی اور اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئی. اس کی موت مرتضی کے لیے دھچکے سے کم نہیں تھی. اپنے بکھرے وجود کو بڑی مشکل سے سمیٹے وہ پچھلے دودن سے فرح کی آخری رسومات ادا کر رہا تھا اور اب جب افسوس کرنے آنے والے سارے افراد رخصت ہوئے تو اسے اس محل جیسے گھر میں اپنی تنہائی کا احساس ہوا. سفید کپڑوں میں ملبوس ہال کے وسط میں سر جھکائے بیٹھا مرتضی حالات کی ستم ظریفی کے ہاتھوں گھائل تھا. فرح اس کی زندگی کا آخری سہارا تھی. پچھلے ڈیڑھ سال میں فرح کا بہترین علاج کروانا ہی اس کی زندگی کا ہدف تھا. اس کے جانے کے بعد اس کی زندگی کا مقصد کھو گیا تھا. وہ تہی داماں ہو کر رہ گیا تھا. اسے اپنی زندگی بے مقصد لگنے لگی تھی. آنسوؤں سے دھندلائی آنکھوں سے اس نے سر اٹھا کر پورے گھر کو دیکھا. ہزاروں منظر رِیل کی طرح اس کی نظروں کے سامنے چلنے لگے.
ساحلی علاقوں کی سیر پر جانے کے لیے عادل صاحب کو مناتی آنیہ........ ہارون کی کوئی چیز خراب کرنے کے بعد اس کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے لاؤنج میں فاریہ بیگم کے گھٹنے سے لگے بیٹھے وہ, احتشام اور آنیہ...... اس کا ہاتھ تھام کر راہدراری میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا الہان.... ستون سے ٹیک لگائے کھڑی الہان کی کسی پرمسکراتی فرح..... ہال کے وسط میں حجر کو گود میں اٹھائے کھڑا ہارون اور ان کو دونوں کو مسکراتی نظروں سے دیکھتی آنیہ..... مسکراہٹوں سے بھرپور یہ سارے منظر انہیں مکمل لگے تھے. بچپن سے جوانی تک ان کی زندگی یونہی قہقہوں سے بھرپور تھی. مگر یہ قہقہے اب صرف ایک حسین یاد بن گئے تھے کیونکہ حقیقت میں تو اسے اب تنہائی کا سامنا کرنا تھا. قطرہ قطرہ آنسو اس کی آنکھوں سے بہنے لگے تھے. اپنے ان خالی ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے مرتضی نم لہجے میں کہنے لگا
”سب چھوڑ کر چلے گئے مجھے ... اکیلا کر دیا سب نے مجھے... کون اپنے ننھے ہاتھوں سے میرے ہاتھ تھام کر چلے گا؟ میرے انتظار میں رات تک جاگ کر میرے حفاظت سے گھر آنے کے لیے ورد کون کرے گا اب بڑی مما؟ بڑے بابا! کسی پریشانی میں میرا کندھا تھپتپھا کر مجھے تسلی دینے کون آئے گا؟ ہارون! تم تو ہمیشہ بڑے بھائی ہونے کی حیثیت سے مجھے مشکلات سے دور رکھتے تھے تو پھر اب کیوں مجھے اکیلا چھوڑ گئے ہو؟ آنیہ! ہم نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا تھا کہ ہم ایک دوسرے کا ہمیشہ ساتھ دیں. ایک دوسرے کے لیے لڑیں گے. ایک دوسرے کو سہارا دیں گے. ایک دوسرے کے درد بانٹیں گے. کہاں ہو تم؟ مجھے تمہاری ضرورت ہے. دیکھو آج میں اکیلا ہوں. کوئی بھی نہیں ہے میرا درد بانٹنے کے لیے. مجھے تسلی دینے والے سب لوگ دور چلے گئے ہیں." اس کے لہجے میں آنسوؤں کی آمیزش تھی. یوں لگتا تھا کہ پچھلے آٹھ سالوں سے وہ آنسو جو اس کے دل پر گر رہے تھے آج انہیں باہر آنے کا راستہ مل گیا ہو. وہ اٹھ سالوں میں دور جانے والے سبھی افراد کو پکارنے لگا مگر اس کی پکار کا جواب دینے کے لیے وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا. آنکھوں سے بہتے والے آنسو خشک ہو گئے مگر اس کی کسی پکار کا جواب نہ آیا. اپنے بکھرے وجود کی کنکریاں سمیٹتے اسے شام ہو گئی تھی. یاسیت اور اندھیرے میں ڈوبے علوی ہاؤس کی درو دیوار پر چھائی خاموشی کال بیل کی آواز پر ٹوٹی. ہال میں فرش پر بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹے شکستہ انداز میں بیٹھا مرتضی کال بیل کی آواز پر فون کی جانب متوجہ ہوا. یاسیت کی اس کیفیت سے بمشکل چھٹکارا پاتے ہوئے اس نے آگے بڑھ کر فون اٹھایا.
”اسلام علیکم!" چکراتے سر کو تھامتے ہوئے وہ بھاری آواز میں بولا.
"مرتضی علوی سپیکنگ" دوسری جانب سے کچھ کہے جانے پر اس نے اپنا تعارف کروایا. لائن کے پار موجود شخص کی بات پر وہ ایک جھٹکے کھڑا ہوا.
”واقعی؟" وہ بے یقینی سے بولا.
”کون سے ہسپتال میں ہیں وہ؟" بے یقینی کی جگہ اب اس کے لہجے میں بے تابی تھی.
”شفا انٹرنیشنل ہسپتال.. ٹھیک ہے میں چند منٹ میں وہاں پہنچ رہا ہوں." ہسپتال کا نام کنفرم کرتے ہی اس نے فون بند کیا اور گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے باہر کی جانب بھاگا. اس جینے کی نئی امنگ مل گئی تھی. اللہ نے اگر اس کا ایک سہارا چھینا تھا تو زندگی گزارنے کے لیے ایک نیا مقصد عطا بھی کیا تھا. اللہ نے ہم سب زندگی میں کوئی کوئی نہ مقصد چھپا رکھا ہوتا ہے ہمیں بس اس مقصد ہہچاننا ہے. جس دن ہم نے اپنی زندگی کا مقصد پا لیا, زندگی آسان لگنے لگے گی.
............................
سبک رفتاری سے دوڑتی گاڑی ایک جھٹکے سے آبادی سے کچھ فاصلے پر بنے دیوسائی ریسٹ ہاؤس کے باہر رکی. ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر بھورے کوٹ میں ملبوس الہان باہر نکلا. اس کا رخ ریسٹ ہاؤس کے اندرونی دروازے کی جانب تھا. دائیاں ہاتھ پینٹ کی پوکٹ میں ڈالے بائیں ہاتھ سے بال درست کرتا وہ پورچ پار کرکے دروازے تک گیا. پینٹ کی پوکٹ سے چابی نکال کر اس نے دروازہ کھولا. لاؤنج میں قدم رکھتے ہی اس کی نظر احتشام پر پڑی جو فون پر کسی سے باتوں میں مصروف تھے.
”اسلام علیکم!" صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھتے ہوئے اس نے سلام کیا.
”وعلیکم اسلام! کیسا گزرا تفتیش کا پہلا دن؟" فون بند کرکے انہوں نے سوال کیا.
”ٹھیک تھا." صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے, سر پیچھے کی جانب گرائے آنکھوں کو مسلتے ہوئے اس نے جواب دیا. کچھ لمحے وہ اسی انداز میں بیٹھا رہا پھر فریش ہونے کے لیے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا. جب وہ واپس آیا تو تو پینٹ کوٹ کی بجائے ٹراؤزر اور فل سلیوز شرٹ میں ملبوس تھا. چہرے سے ٹپکتے پانی کے قطرے ٹاول سے صاف کرتے ہوئے اس نے فون پر مصروف احتشام سے سوال کیا
”ایلکس کہاں ہے؟"
”وہ سٹڈی روم میں ہے." فون سے نظریں ہٹا کر اس کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے احتشام بولے. ان کی بات سن کر الہان سٹڈی روم میں گیا جہاں ایلکس اس کے لیپ ٹاپ پر کھلی ایک فائل سکین کرنے میں مصروف تھا.
”ویلکم بیک ہوم باس" اسے دیکھ کر ایلکس بولا
”ابھی تک ڈراپ ریٹ کیلکولیٹ کیے نہیں تم نے؟"
”نہیں."
"خود کر رہے ہو؟" لیپ ٹاپ سکرین کا رخ اپنی جانب گھماتے ہوے الہان بولا
”جی"
”ہزاروں ریڈنگز ہیں خود ڈراپ ریٹ کیلکولیٹ کرنے بیٹھو گے تو صبح ہوجائے گی. ایپلیٹ بنا لو.... تاکہ تمہارے حصے کا کام کمپیوٹر خود کرے. اس سے تمہارا دماغ.... (وہ ایک لمحے کے لیے رکا پھر ایلکس کی جانب ایک نظر دیکھ کر بولا) دماغ تو تمہارے پاس ہے نہیں اس لیے بیٹری کہنا زیادہ بہتر ہے. ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ایپلیٹ بناؤ اس سے تماری بیٹری بھی استعمال نہیں ہوگی اور کام بھی جلدی ہو جائے گا. جیسے ہی یہ کام ختم ہو لیپ ٹاپ مجھے دے دینا." الہان نے اسے ہدایت دی جس پر ایلکس فورًا عمل کرنے لگا. اپنی بات کہہ کر الہان باہر نکل گیا. فریج سے کپ نوڈلز لے کر وہ وہیں لاؤنج میں بیٹھ کر کھانے لگا. اسے وہاں بیٹھے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی جب ایلکس لیپ ٹاپ اٹھائے وہاں آیا. اس کے ہاتھ سے لیپ ٹاپ لے کر الہان لیپ ٹاپ کی چند کیز دبانے لگا. اس کی ذہین آنکھیں سکرین پر جمیں تھیں جبکہ گیارہ انگلیاں تیزی سے کی بورڈ پر حرکت کر رہی تھیں.
”کیا کر رہے ہو؟" اس کو دلجمی سے لیپ ٹاپ استعمال کرتے دیکھ کر احتشام نے سوال کیا.
”اکاؤنٹ ہیک کر رہا ہوں." وہ عام سے انداز میں بولا.
”کس کا اکاؤنٹ؟" وہ تعجب سے بولے
”آپ کی ڈاؤت فل بھتیجی کا" پر سکون انداز میں جواب آیا.
”ڈاؤٹ فل؟" احتشام نے بھنویں اچکا کا سوال کیا.
”ابھی کنفرم نہیں ہوا کہ وہ آپ کی بھتیجی ہے یا نہیں. اس لیے ڈاؤٹ فل کہا ہے."
”ڈاؤٹ والی کوئی بات نہیں ہے. مجھے پورا یقین ہے کہ حجر ہی میری بھتیجی ہے." وہ پر یقین انداز میں بولے.
”خیر جو بھی ہے. پتا چل ہی جائے گا." ان کا پختہ انداز دیکھ کر الہان یہی کہہ پایا تھا.
”کسی کا اکاؤنٹ ہیک کرنا غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکت ہے." وہ خشمگین نگاہوں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے بولے.
”واقعی؟ مجھے تو پتا ہی نہیں تھا." اس نے بات ہوا میں اڑائی.
”کیوں کر رہے ہو حجر کا اکاؤنٹ ہیک؟" انہوں نے چہرے پر سختی لانے کی ناکام کوشش کی.
”رہنے دیں احتشام چچا آپ سے نہ ہو پائے گا." اس کا اشارہ ان کی غصہ کرنے کی ناکام کوشش کی جانب تھا.
”مجھے باتوں میں لگانے کی کوشش مت کرو. صاف صاف بتاؤ کہ کیوں تانکا جھانکی کر رہے ہو تم حجر کے اکاؤنٹ میں؟" وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولے.
”اسے آن لائن کرنے کے لیے" وہ لیپ ٹاپ کی سکرین ان سے چھپاتے ہوئے بولا.
‘”ا' سے لے کر'ی' تک ساری بات بتاؤ." وہ آگے ہو کر لیپ ٹاپ سکرین دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے.
"ہنٹر کے تیسرے لیول میں ہونے والی تبدیلیاں دیکھنے کے لیے میں نے کچھ دن پہلے تیسرا لیول کھیلا تھا. اس لیول کے دوران مس حجر میری ٹیم میٹ تھیں. گیم ختم ہونے کے بعد میں نے اسے ایک میسج کیا تھا. اس نے ابھی تک وہ میسج نہیں دیکھا اور غالباً اس دن کے بعد سے اس نے گیم آن نہیں کی."
”اب تم چاہتے ہو کہ وہ گیم آن کرے اور تمہارا میسج دیکھے؟" احتشام مسکراتی نظروں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے بولے
”ہمممم"
”کس طرح بلاؤ گے اسے آن لائن؟"
”مشکل کام نہیں ہے. اس کے اکاؤنٹ سے جا کر بس ہنٹر کی ویب سائٹ پر ایک پوسٹ ڈالنی ہے میں نے باقی کا کام خودبخود ہو جائے گا."
”وہ کیسے؟"
”بھئی جب میں پبلک میں پوسٹ ڈالوں گا تو لوگ لائک بھی کریں گے اور کمینٹ بھی کریں گے اور ان لائک اور کمینٹ کی اسے نوٹیفیکیشن ملے گی. ان سب نوٹیفیکیشن سے تنگ آ کر اسے گیم لاگ ان کرنی پڑے گی اور پھر جب وہ گیم آن کرے گی تو میرا میسج بھی دیکھ لے گی."
”اس میسج میں ایسا کیا ہے جو اسے دکھانے کے لیے تم اتنے اُتاولے ہو رہے ہو؟" وہ مشکوک نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے.
”ایٹم بم بنانے کا فارمولا ہے. آپ کو بھی بھیج دوں؟" وہ جل کر بولا.
”سچ سچ بتاؤ الہان" وہ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے بولے.
”بس جتنا بتانا تھا بتا دیا ہے. مزید کچھ نہیں بتاؤں گا اور اس میسج کے بارے میں تو ہرگز نہیں بتانے والا میں" وہ لیپ اٹھا کر اپنے کمرے میں آ گیا. کمرے میں آتے ہی اس نے فون پر ایک نمبر ڈائل کیا.
”اسلام علیکم!" فون موصول ہوتے ہی اس کی گھمبیر آواز کمرے میں گونجی.
”وعلیکم اسلام" لائن کے دوسری جانب سے فریحہ کی آواز آئی.
”مس حجر کیا کر رہی ہیں اس وقت؟" ایزی چیئر پر بیٹھتے ہوئے اس نے سوال کیا.
”مجھے معلوم نہیں ہے سر"
”کیوں؟ کیا آپ اس وقت اپارٹمنٹ میں نہیں ہیں؟" اس نے حیران ہو کر سوال کیا.
”میں تو اپارٹمنٹ میں ہی ہوں مگر وہ اپنے کمرے میں بند ہیں اور مجھے ان کے کمرے میں جانے کی اجازت نہیں ہے." فریحہ بے بس انداز میں بولی.
“دیکھیں مس فریحہ! آپ کو ان کی نگرانی اور حفاظت کے لیے رکھا گیا ہے اس لیے بہتر ہے کہ آپ ان کے آس پاس رہیں." اس نے فریحہ کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلایا.
”سر وہ مجھ سے دس فٹ دور رہتی ہیں. اپنے کسی بھی کام کو ہاتھ نہیں لگانے دیتیں. سارا وقت اپنے کمرے میں بند رہتی ہیں. اب آپ ہی بتائیں کہ میں کیا کروں؟" وہ بے چارگی سے بولی.
”فل حال بس اتنا ہی کریں کہ کوئی بہانہ بنا کر ان کے کمرے میں جائیں اور کسی طرح انہیں لیپ ٹاپ آن کر پر کنونس کریں." وہ حکمیہ لہجے میں بولا.
”میں کوشش کرتی ہوں سر"
”خالی کوشش نہیں کرنی. اگلے پندرہ منٹ میں کام ہو جانا چاہیے." اختتامی کلامات ادا کرنے کے بعد اس نے فون بند کیا اور لیپ ٹاپ کی جانب ایک نگاہ ڈالی جہاں حجر کے اکاؤنٹ سے وہ پوسٹ اپلوڈ ہو چکی تھی. لیپ ٹاپ بند کرکے وہ ایزی چیئر سے ٹیک لگا کر آرام دہ انداز میں بیٹھ گیا. اس کی دائیں ٹانگ مسلسل حرکت کر رہی تھی اور یہ حرکت اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ کسی گہری سوچ میں گم ہے. اس کی سوچوں کی تنابیں دروازے پر ہونے والی دستک کے باعث سمٹیں
”کیا سوچ رہے تھے؟" چوکھٹ پر کھڑے احتشام نے سوال کیا.
”کچھ خاص نہیں. آپ بتائیں کیا کام ہے؟" اس نے بتانے سے گریز کیا.
”قریبی سٹور تک جانا ہے مجھے مگر میرا کریڈٹ کارڈ نہیں مل رہا. اپنا کریڈٹ کارڈ ادھار دے دو."
”والٹ سے لے لیں." اس نے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے والٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا. اس کی بات سن کر احتشام والٹ کی جانب بڑھے. جیسے ہی انہوں نے والٹ کھولا ان کی نظر والٹ میں لگی تصویر پر پڑی. وہ ایک بچی کی تصویر تھی. اس تصویر میں سفید کپڑوں میں ملبوس لگ بھگ دس مہینوں کی بچی برف پر لیٹی تھی. چہرے معصومانہ مسکراہٹ سجائے, برف کے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس وہ بچی برف کا حصہ لگ رہی تھی. احتشام مسکراتی نگاہوں سے اس تصویر کو دیکھ رہے تھے. انہیں مسلسل کسی چیز کی جانب دیکھتا پاکر الہان متوجہ ہوا. وہ احتشام کی توجہ کا مرکز جان گیا تھا تبھی لمحے کی تاخیر کیے بغیر احتشام کی جانب بڑھا اور ان کے ہاتھ سے اپنا والٹ اچک لیا.
”حجر کی یہ تصویر تمہارے پاس؟" وہ حیرانی سے بولے
”سنو کوین کی یہ تصویر بہت عرصے سے میرے پاس ہے." وہ اب رخ موڑ کے گلاس ونڈ سے نظر آتے اندھیرے میں ڈوبے پہاڑوں پر نظریں جمائے کھڑا تھا.
”آج تو تم مجھے حجر کو سنو کوین کہنے کے پیچھے چھپی وجہ بتا ہی دو." احتشام اس کا رخ اپنی جانب موڑتے ہوئے بولے.
”کسی اور دن بتاؤں گا. ابھی آپ یہاں بیٹھیں مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے." الہان ان کے کندھوں پر وزن ڈال کر انہیں بیڈ پر بٹھاتے ہوئے بولا
"کہو کیا کہنا ہے؟" احتشام بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولے. الہان ان کے سامنے ایزی چیئر پر بیٹھ گیا.
”میں نے ایک فیصلہ کیا ہے اور اگر آپ اس فیصلے میں میرا ساتھ دیں گے تو مجھے خوشی ہو گی." وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا.
”کہیں شادی تو نہیں کر رہے تم؟" انہوں نے اندازہ لگایا.
”خدا کا نام لیں احتشام چچا. شادی بھلا بیچ میں کہاں سے آگئی؟" وہ عاجز آ کر بولا
”تمہاری مشکوک حرکتیں دیکھ کر میرے ذہن میں پہلا خیال شادی کا ہی آیا تھا." انہوں نے وضاحت دی.
”اپنے ایسے نیک خیالات کا اظہار کرنے سے گریز کیا کریں اور آپ کو میں نے یہ کہنا تھا کہ میں علوی ہاؤس شفٹ ہو رہا ہوں." وہ سنجیدگی سے بولا.
”تم وہاں گئے تھے؟" لمحے کی تاخیر کیے بغیر انہوں نے سوال کیا.
”آج صبح گیا تھا." اس کی بات کا احتشام نے کوئی جواب نہ دیا تو الہان ایک مرتبہ پھر بولا
”آپ یہاں ہی رہیں گے یا میرے ساتھ وہاں جائیں گے؟"
”کب شفٹ ہو رہے؟" انہوں نے اس کے سوال کو نظر انداز کیا.
”کل صبح" وہ ان کے چہرے کو جانچتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا.
”ٹھیک ہے. میں بھی تمہارے ساتھ ہی چلوں گا." وہ مسکرا کر بولے.
”میرا ساتھ دینے کے لیے شکریہ احتشام چچا" الہان ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا.
”شکریہ کی ضرورت نہیں ہے." وہ اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بولے
”ایک اور بات کہنی تھی آپ سے" وہ جھجھکتے ہوئے بولا.
”ہاں کہو"
”میں بابا کی طرف سے آپ سے معافی مانگنا چاہتا ہوں." وہ نظر جھکائے دھیمی آواز میں بولا.
”معافی؟ مگر کس لیے؟" وہ تعجب سے بولے.
”آپ کو اکیلا چھوڑنے کے لیے. بابا مرتے دم تک آپ سے شرمندہ تھے. انہوں نے آپ سے کہا تھا کہ وہ آپ کو ملنے آئیں گے.آپ کو بے گناہ ثابت کریں گے مگر وہ اپنے الفاظ کا مان نہ رکھ پائے. اپنے دکھوں میں وہ آپ کو فراموش کر گئے. پندرہ سال آپ بے گناہ ہونے کے باوجود جیل میں رہے مگر کوئی آپ کو بچانے نہ آیا. بچانے تو دور کی بات کوئی آپ کا حال پوچھنے بھی نہ آیا. بابا ہمیشہ مجھ سے کہتے تھے کہ ان کے دل پر ایک بوجھ ہے اور وہ بوجھ اس بات کا تھا کہ وہ آپ کے مشکل وقت میں آپ کے ساتھ کھڑے نہ ہو پائے. مشکل وقت میں اپنوں کی بے رخی کے باعث آپ کو جو تکلیف پہنچی میں اس کا مداوا تو نہیں کر سکتا مگر میں بابا کی طرف سے آپ سے معافی مانگتا ہوں. آپ پلیز انہیں معاف کر دیں." اس کے چہرے پر پشیمانی چھائی تھی.
”کیسی باتیں کر رہے کو الہان. معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے. مرتضی نے جو بھی کیا حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر کیا. اس وقت حالات ہی ایسے تھے کہ وہ یہاں سب کچھ چھوڑ کر میرے لیے دبئی نہیں آ سکتا تھا." انہوں نے اس کی تردید کی.
”آپ ان کے منتظر تھے اور ان کے نہ آنے پر آپ کو تکلیف پہنچی ہو گی." وہ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے بولا.
”میں نے مرتضی کا انتظار کیا تھا. اپنے کیس کی ہر سنوائی میں مرتضی کا انتظار کرتا رہا. یہاں تک کہ قاضی نے میرے خلاف فیصلہ سنا دیا مگر میراانتظار ختم نہ ہوا. شروع کہ چند سال میں نے دبئی کی جیل میں گزارے تھے. ان سالوں میں میں یہی سوچ کر خود کو تسلی دیتا رہا کہ شاید ویزے وغیرہ کا کوئی مسئلہ ہے اس لیے کوئی مجھ سے ملنے نہیں آ سکا. مگر پھر جب ہم سب قیدیوں کو دبئی سے بحری جہاز کے ذریعے کراچی بھیجا گیا تو مجھے یقین تھا کہ کراچی میں کوئی نہ کوئی تو مجھ سے ملنے آئے گا پر وہاں بھی مجھے نا امیدی کا سامنا کرنا پڑا. وقت یونہی گزرتا گیا اور رفتہ رفتہ میں نے اپنوں کے آنے کی امید لگانا چھوڑ دی. مجھے سب پر بہت غصہ تھا. میں سب کو اپنے پندرہ سال بے گناہ ہونے کے باوجود جیل میں رہنے کا قصور وار سمجھنے لگا تھا کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ اگر یہ لوگ کوشش کرتے تو مجھے بے گناہی کی سزا بھگتے سے بچا سکتے تھے. اپنوں کے یوں منہ موڑنے پر بہت تکلیف ہوئی تھی مجھے مگر جب میری رہائی سے کچھ دن پہلے تم نے آکر مجھے مرتضی کی وفات کے متعلق بتایا تو وہ تکلیف پندرہ سال بے گناہ ہونے کے باوجود قید کاٹنے کی تکلیف سے کئی گنا زیادہ تھی. میرا سارا غصہ اس کے مرنے کی خبر سن کر جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا. جیل میں میں تم لوگوں کی گمشدگی, بڑی مما, بڑے بابا اور فرح بھابھی کی وفات کی خبر سے لاعلم تھا تبھی ان لوگوں کو قصوروار سمجھتا تھا. تمہارے منہ سے مرتضی پر گزری مشکلات کے متعلق سن کر مجھے اپنی سوچ پر بہت افسوس ہوا تھا. میں نے ان لوگوں کی محبت پر شک کیا جو مجھ سے بے حد محبت کرتے ہیں. مجھے اب تک اس بات کا پچھتاوا ہے کہ مرتضی نے اتنے کٹھن حالات کا اکیلے مقابلہ کیا. کاش میں اس وقت اس کے ساتھ ہوتا. اس کو سہارا دے سکتا." ان کے لہجے میں حسرت تھی.
”جو جیسے ہوا تھا اس کا ویسے ہی ہونا لکھا تھا. وہ سب قسمت کا چکر تھا ہم بندہ بشر کا اس پر کوئی اختیار نہیں. جو چیز ہمارے بس میں نہ ہو اس کے متعلق سوچ کر خود کو پریشان نہیں کرنا چاہیے." ان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے الہان بولا.
”تم ٹھیک کہہ رہے ہو." اتنی سی بات کہہ کر احتشام اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے. ان کے وجود پر افسردگی چھائی تھی. وہ کچھ لمحے اکیلے رہنا چاہتے تھے اس لیے خاموشی سے اپنے کمرے کی جانب جانے لگے جب الہان کی آواز پر ان کے قدم تھمے
”احتشام چچا!"
”ہمم" وہ مڑ کر اس کی جانب دیکھنے لگے جو والٹ میں سے کچھ نکال رہا تھا.
”جو لینے آئے تھے وہ تو لیتے جائیں." کارڈ ان کی جانب بڑھاتے ہوئے وہ بولا
”گروسری سٹور جانے کا ارادہ تبدیل ہو گیا ہے. میرا موڈ نہیں ہے اب کہیں جانے کا."
”رکھ لیں. اگر ارادہ دوبارہ بنا تو مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی." اس کی بات پر انہوں نے خاموشی سے کارڈ تھام لیا. وہ جانے ہی لگے تھے کہ وہ ایک مرتبہ پھر انہیں پکار بیٹھا
”اور ہاں ایک بات اور... کسی کو پتا نہ چلے کہ میں حجر کو سنو کوین کہتا ہوں. یہ بات ٹاپ سیکریٹ ہے اور مس حجر تک تو یہ بات ہرگز نہیں پہنچنی چاہیے." وہ سرگوشی کرنے والے انداز میں بولا. اس کے پہلے جملے میں حجر کے لیے اپنائیت تھی جبکہ دوسرے جملے میں اس کے لیے اجنبیت تھی.
”راجر باس" اتنا کہہ کر احتشام چلے گئے جبکہ وہ خود بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے دوبارہ گلاس ونڈ کے پار دیکھنے لگا.
........................
امن کے شہر اسلام آباد کے گرد موجود پہاڑوں پر رات مکمل طور پر اپنے پر پھیلا چکی تھی. مصنوعی روشنیاں رات کے اس اندھیرے کا مقابلہ نہیں کر پارہی تھیں. ایسی تاریکی میں ایک اپارٹمنٹ کی گلاس ونڈ سے نظر آتا منظر نمایاں تھا. آنکھوں کو خیزہ کرتی روشنی سے جگمگاتے اپارٹمنٹ کے اس کمرے کی دائیں دیوار کے آگے گول بیڈ پڑا تھا. بیڈ سے کچھ فاصلے پر کلوزیٹ تھی اور کلوزیٹ کے ساتھ ڈریسنگ ٹیبل رکھی گئی تھی. کمرے کی بائیں دیوار کے آگے صوفے اور ٹیبل پڑی تھی. ان صوفوں اور میز کے بیچ موجود جگہ پر حجر بیٹھی تھی. ہیڈ بینڈ کی مدد سے بینگز میں کٹے بالوں کو پیشانی پر سے ہٹائے, وہ سر جھکا کر ہاتھ میں پکڑی تصویر پر کچھ لکھ رہی تھی. سفید فل سلیوز شرٹ اور پلازو میں ملبوس میز پر بازو ٹکائے وہ بڑے آرام دہ ااندز میں قالین پر بیٹھی تھی. ایک تصویر پر چند لفظ لکھنے کے بعد اس نے دوسری تصویر پکڑی اور قریب رکھی فائل سے دیکھ کر اس پر بھی کچھ لکھنے لگی. یوں سب بچوں کی تصویروں پر نام لکھنے کے بعد وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر دروازے سے کچھ فاصلے پر رکھے بورڈ کی جانب گئی اور ایک ایک کرکے سب تصاویریں اس پر لگانے لگی. اس کام سے فارغ ہونے کے بعد وہ فائل پر لکھی تفصیلی معلومات میں سے چیدہ چیدہ باتیں بورڈ لکھنے لگی. سب سے آخر میں اس نے اسلام آباد کا نقشہ بورڈ پر لگایا. وہ پیٹ پر ہاتھ باندھے, نظریں بورڈ پر ٹکائے کسی گہری سوچ میں گم تھی جب دروازے پر دستک ہوئی. دستک کی آواز پر اس کی سوچوں خلل پیدا ہوا.
”آ جائیں" صبر کا گھونٹ بھرتے ہوئے وہ بلند آواز میں بولی.
”اگر آپ کوئی ضروری کام کر رہی ہیں تو بتا دیں. میں آپ کو ڈسرب کیے بغیر واپس چلی جاؤں گی. " اس کے ہاتھ میں موجود فائل دیکھتے ہوئے فریحہ بولی.
”ڈسرب تو آپ کر ہی چکی ہیں. خیر بتائیں مس فریحہ کس لیے آئی ہیں آپ؟" وہ چبا چبا کر بولی.
”پہلے یہ کافی تو پکڑلیں باتیں تو ہوتی رہیں گی." وہ کافی حجر کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولی. حجر اس کی اتنی بےتکلفی پر حیران ہوئی تھی.
”کافی کے لیے شکریہ مگر اس وقت میرا کافی پینے کا موڈ نہیں ہے اسلیے آپ اسے واپس لے جائیں." کافی کا مگ واپس ٹرے میں رکھتے ہوئے وہ بولی.
”دیکھیں مس حجر! آپ بھی جانتی ہیں اور میں بھی جانتی ہوں کہ ہمیں ایک ساتھ رہنا ہے. اس لیے بہتر ہے کہ ہم اس اجنبیت کی دیوار کو گرا دیں اور ویسے بھی الہان سر نے مجھے آپ کا خیال رکھنے کہ خاص تاکید کی ہے....."
”مسٹر سی ای او کا ذکر آپ رہنے ہی دیں. اگلی بات کریں" الہان کا ذکر سن کر اسے اس کی ہٹ دھڑمی اور ہمیشہ اپنی مرضی کرنے والی بڑی عادت یاد آئی تھی تبھی وہ اس کی بات کاٹ کر بولی.
”میں کہہ رہی تھی کہ ہم نے جب رہنا یہیں ہے تو کیوں نہ ایک ساتھ اچھا وقت گزاریں." کہتے ساتھ ہی فریحہ نے کافی کا مگ واپس اس کی جانب بڑھایا. اب کی بار حجر نے خاموشی سے مگ تھام لیا کیونکہ درحقیقت اسے اس وقت کافی کی شدید طلب ہو رہی تھی مگر وہ کام بیچ میں چھوڑ کر کافی بنانے جانا نہیں چاہتی تھی.
”بس یہی کہنے آئی تھیں آپ؟" کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے وہ بولی.
”اوہو... باتوں کے دوران میں اصل بات تو بھول ہی گئی. اصل میں میں آپ سے آپ کا لیپ ٹاپ مانگنے آئی تھی." فریحہ سر پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی. اس کی بات پر مزے سے کافی پیتی حجر کو اچھو لگا.
”کیا؟ میرا لیپ ٹاپ؟ مگر کیوں؟" وہ اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے بولی. مغربی ماحول میں پرورش پانے والی حجر کو فریحہ کی یہ بےتکلفی چونکنے پر مجبور کر رہی تھی.
”وہ نہ اصل میں مجھے اپنے شوہر سے ویڈیو کال پر بات کرنی ہے." فریحہ شرمانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولی.
”میں اپنا لیپ ٹاپ نہیں دے سکتی تم فون پر کر لو بات." صوفے پر بیٹھتے ہوئے حجر نے مشورہ دیا.
”فون کی سکرین چھوٹی ہوتی ہے. فون پر میں انہیں ٹھیک سے نظر نہیں آتی. آپ مجھے لیپ ٹاپ آن کرکے دے دیں. یہیں آپ کے سامنے بیٹھ کر بات کر لوں گی."
”عجیب منطق ہے تمہارے شوہر کی. اگر اتنا ہی بات کرنے کا دل کر رہا ہے تو اس کے پاس چلی جاؤ. مجھے تنگ نہ کرو." حجر جان چھڑانے والے ںداز میں بولی.
”ان کے پاس نہیں جا سکتی وہ باہر کے ملک ہوتے ہیں." وہ بے چارگی سے بولی.
”کون سے ملک؟" اس نے بھنویں اچکائیں.
”باہر کے... میرا مطلب دبئی" وہ مسکراتے ہوئے بولی
”اچھا" اتنا کہہ کر حجر میز پر بکھرے صفحے سمیٹنے لگی. اس کام سے فارغ ہو کر وہ مڑی تو فریحہ وہیں کھڑی منتظر نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی.
”ایسے نہیں مانو گی تم؟" حجر نے بیزاری سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کیا.
”نہیں." اس کے ڈھٹائی سے انکار کرنے پر حجر اسے ایک نظر دیکھ کر رہ گئی.
”میں یہیں آپ کے سامنے بیٹھ کر بات کروں. زیادہ وقت نہیں لوں گی آپ کا. پلیز دے دیں." اس کے قریب بیٹھتے ہوئے فریحہ دوبارہ بولی. اس کے بار بار کہنے پر عاجز آ کر حجر نے لیپ ٹاپ آن کیا. اس کے لیپ ٹاپ آن کرنے کی دیر تھی کہ سکرین کے دائیں جانب اسے ہنٹر گیم سے لاتعداد نوٹیفیکیشنز موصول ہونے لگیں. اتنی زیادہ نوٹیفیکیشنز دیکھ کر ایک لمحے کے لیے اس کا دماغ گھوما اور پھر اپنی کسی پوسٹ پر لائک اور کمنٹس کی نوٹیفیکیشن دیکھ کر اس کی حیرانی میں مزید اضافہ ہوا.
”میں نے تو پچھلے ایک ہفتے سے گیم لاگ ان کی ہی نہیں تو پھر یہ پوسٹ کس نے لگا دی. پچھلی دفعہ دبئی سے واپسی پر ائیر پورٹ پر بیٹھ کر گیم کھیلی تھی میں نے اور پھر فلائٹ کی اناؤنسمینٹ ہونے پر جلدی میں گیم بند کر دی تھی. اگر میں نے گیم آن ہی نہیں کی تو پھر پوسٹ کس نے لگائی..... کہیں کسی نے میرا اکاؤنٹ ہیک تو نہیں کر لیا؟" وہ خود کلامی کے انداز میں بولی.
”فریحہ تم کچھ دیرانتظار کرو. میں یہ مسئلہ سلجھا کر تمہے لیپ ٹاپ دیتی ہوں." کی پیڈ پر تیزی سے انگلیاں چلاتے ہوئے وہ فریحہ کو مخاطب کرتے ہوئے بولی.
”ٹھیک ہے میم. آپ اپنا کام کر لیں پہلے. میں انتظار کر لوں گی." قریحہ جس کام کے لیے آئی تھی وہ پورا ہو گیا تھا تبھی صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر آرام سے بیٹھ گئی. جبکہ حجر نے پہلے پوسٹ ڈلیٹ کی پھر ہیلپ سینٹر کو اپنے اکاؤنٹ ہیک ہونے کے متعلق رپورٹ کرنے لگی. اس کام سے فارغ ہو کر اس نے انباکس کھولا تو وہاں پروفیٹک مونسٹر کی جانب سے آنے والا میسج جگمگا رہا تھا. مونسٹر کا نام دیکھ کر اسے مونسٹر کی کہی گئی بات یاد آئی.
"گیم ختم ہونے کے بعد میں تمہے ایک میسج بھیجوں گا اور جس دن تمہے اس پیغام کے معنی سمجھ آگئے تم مجھے پہچان جاؤ گی... میں تمہے پہچان کر بھی انجان بن جاؤں گا اور تمہاری جانب سے پہل کا منتظر رہوں گا." گیم ختم ہونے سے پہلے مونسٹر نے اسے یہ بات کہی تھی. اس کے بعد وہ گیم کی افسانوی دنیا سے باہر نکل آئی تھی. وہ مونسٹر کے میسج کا انتظار کر رہی تھی کہ اتنے میں ہی اس کی فلائٹ کی اناؤنسمینٹ ہو گئی اور اسے لیپ ٹاپ بند کرنا پڑا. یوں وہ اس کا میسج نہیں دیکھ پائی. اس دن کے بعد اس نے دوبارہ گیم آن نہیں کی اور مصروفیات کے باعث وہ مونسٹر اور اس کے بھیجے گئے میسج کو فراموش کر بیٹھی تھی. اب اس کا نام دیکھ کر اسے اپنا بھولا بھٹکا دوست یاد آیا تو مسکراتے ہوئے اس نے پروفیٹک مونسٹر کے نام پر کلک کیا اور میسج کھل گیا. اس میسج میں یہ الفاظ درج تھے.
“M TMTO’D QKOD DN RMFL BNP IB KOB SEPL KYNPD IB MTLODMDB YPD QZLO BNP KCALT KYNPD MD M SNPETO’T GLVPCL. ELD IL DLEE BNP NOL DZMOR FLGB SELKGEB, DZMC ILCCKRL MCO’D VNG BNP, DZMC ILCCKRL MC VNG IB CONQWPLLO. QZMEL GLKTMOR DZMC DLJD, BNP IMRZD DZMOA DZKD MV DZMC ILCCKRL MCO’D VNG BNP, DZLO QZB KI M CLOTMOR MD DN BNP? ( LFLO DZNPRZ M’IO’D OLKG BNP YPD M SKO ZLKG BNPG DZNPRZDC). EMCDLO M’I CLOTMOR MD DN BNP YLSKPCL M DZMOA BNP’GL IB CONQWPLLO. QZLO M SKPRZD VMGCD REMIUCL NV BNP QZLO IB LBLC ILD BNPG’C QZLO I ZLKGT BNPG FNMSL, IB ZLKGD VLED BNPG UGLCLOSL. IB ZLKGD DNET IL DZKD BNP’GL IB CONQWPLLO. M’I VNEENQMOR IB ZLKGD’C FNMSL VNG DZL FLGP VMGCD DMIL MO IB EMVL KOT M YLEMLFL DZKD IB ZLKGD QMEE OLFLG IMCELKT IL MO IKDDLGC GLRKGTMOR DN BNP. SNIMOR VKSA DN DZL IKMO DNUMS, DZKD ZNQ QNPET BNP GLSNROMHL IL. MD’C FLGB LKCB, BNP XPCD ZKFL DN ENNA KGNPOT BNPGCLEY. MO DZNPCKOT NV ULNUEL KGNPOT BNP, DZL ULGCNO CDKOTMOR GMRZD OLJD DN BNP QMEE YL IL. M’EE YL KEQKBC DZLGL VNG BNP. M’EE CDKB YB BNPG CMTL. BNP XPCP ZKFL DN ONDMS IB VGLCLOSL. M ZNUL DZKD IB CONQWPLLO QMEE VMOT ZLG INOCDLG FLGB CNNO. (MO CZK KEEKZ)”
انگلش کے بے ترتیبی سے لکھے یہ حروف دیکھ کر ایک لمحے کے لیے اس کا دماغ ہی گھوم گیا.
”مونسٹر! یہ کیا حرکت کی ہے تم نے؟ اس کرپٹوگرام cryptogram سے بہتر تھا کہ تم مجھے میسج ہی نہ بھیجتے." ان الفاظ سے نظر ہٹا کر وہ بلند آواز میں بولی.
”میم مجھ سے کچھ کہا ہے آپ نے؟" فریحہ مودب انداز سے بیٹھتے ہوئے بولی.
”نہیں. یہ لیپ ٹاپ تم لے لو. صبح ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کروں گی اس میسج کو." لیپ ٹاپ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے حجر بولی.
”مجھے نہیں چاہیے لیپ ٹاپ اب." فریحہ ہاتھ کے اشارے سے منع کر کرتے ہوئے بولی.
”کیوں؟ اب ایسا کیا ہو گیا کہ تم نے اپنا ارادہ بدل لیا." وہ مشکوک نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی.
”ٹائم بہت زیادہ ہوگیا ہے. اب تک میرے شوہر سو گئے ہوںگے. صبح آفس جانا ہوتا ہے انہوں نے اس لیے وہ جلدی سو جاتے ہیں. اس وقت کال کروں گی تو ان کی نیند خراب ہوگی. اب صبح ہی بات ہو پائے گی." فریحہ نے بہانہ بنایا.
”جیسے تمہاری مرضی." حجر کندھے اچکاتے ہوئے بولی.
”میں چلتی ہوں اب. آپ کو کسی کی چیز کی ضرورت تو نہیں." دروازے کی جانب رخ کرتے ہوئے وہ بولی.
”جاتے ہوئے لائٹ بند کر دینا." بیڈ پر نیم دراز ہوتے ہوئے وہ بولی. فریحہ اس کی بات پر عمل کرتے ہوئے لائٹ بند کرکے باہر چلی گئی جبکہ حجر بغیر کسی سوچ کو ذہن میں جگہ دیے لحاف میں منہ چھپا کر سونے کی کوشش کرنے لگی.
…………………….
افق پر چمکتے سورج کی سنہری روشنی چارسو پھیلی تھی. دھند کی چادر میں لپٹی سڑک پر اکا دکا لوگ چہل قدمی کر رہے تھے. سردی کے باعث لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے تھے مگر الہان اس سردی سے بےپروا ٹراؤزرز شرٹ اور سنیکرز پہنے پارک میں جاگنگ کرنے میں مصروف تھا. کانوں میں ہیڈ فون لگائے وہ جاگنگ کے ساتھ ساتھ شستہ انگریزی میں کسی سے فون پر بات کر رہا تھا.
”گیم کے کریکٹرز دیکھے ہیں میں نے. کریکٹرز کے خدوخال ٹھیک ہیں مگر فی میل کریکٹرز کے لباس تبدیل کرو."
”میرے خیال میں سکرٹس ٹھیک ہیں. اگر آپ نے کوئی اور لباس رکھنا ہے تو بتا دیں." لائن کے دوسری جانب سے سائمن کی آواز آئی.
”گاؤنز رکھ لو" اپنے قدم روک کر لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے وہ بولا.
”ہنٹر میں بھی گاؤنز ہی تھیں. اس گیم میں ہنٹر سے مختلف لباس ہونے چاہیے."
”اپنی ویلیوز کی حفاظت کرنا پلیئرز کے مختلف لباس ہونے سے زیادہ اہم ہے. مجھے وہ گیمز سخت ناپسند ہیں جن میں میل پلیئرز کی توجہ حاصل کرنے کے لیے فی میل پلیئرز کے گھٹیا ملبوسات کا سہارا لیا جاتا ہے. میری گیمز میں فی میل پلیئر کی کلوزیٹ میں صرف گاؤنز ہی ہونگی. جس نے کھیلنی ہے گیم کھیلے جس نے نہیں کھیلی نا کھیلے. تم ہنٹر کی کلوزیٹ میں موجود گاؤنز کے ڈیزائن اور کلرز میں تھوڑی بہت تبدیلیاں کرکے اس گیم میں شامل کر دو." وہ پرسکون انداز میں بولا
”ٹھیک ہے باس." سائمن نے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ وہ الہان کی زندگی میں اس کی ویلیوز کی اہمیت سے واقف تھا. اس کی زندگی میں کئی معاملات ایسے تھے جن میں وہ کوئی کمپرومائز نہیں کرتا تھا. حجر کی حفاظت کا شمار بھی انہی معالات میں ہوتا ہے. حجر اس کے توسط پاکستان آئی تھی اس لیے اس کی حفاظت کا ذمہ دار بھی وہ خود کو سمجھتا تھا. وہ یہاں کے لوگوں اور ماحول کو جانتا تبھی حجر کی مرضی کے خلاف جا کر اس نے اس کی سکیورٹی کے لیے ویل ٹرینڈ فی میل میڈ ہائر کی تھی. وہ جانتا تھا کہ اس کی اس حرکت کے باعث حجر کی نظروں میں اس کا امیج خراب ہو گا مگر اپنی امیج کے لیے وہ اس کی زندگی داؤ پر نہیں لگا سکتا تھا.
”ایلکس کی بھیجی ڈارپ ریٹ کی لسٹ مل گئی تھی؟" پیشانی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے سوال کیا.
”جی مل گئی تھی." سائمن مودب انداز میں بولا.
”ٹھیک ہے پھر کریکٹرز فائنل کرنے سے پہلے مجھے دکھا دینا." چند اختتامی کلامات ادا کرنے کے بعد اس نے فون بند کرنے لگا. فون بند کرکے اس نے سر اٹھایا ہی تھا جب اس کی نظر پارک کے گیٹ سے داخل ہوتی شخصیت پر پڑی. کالی پینٹ اور گھٹنوں سے تھوڑا اوپر تک آتے نیلے کوٹ میں ملبوس سر پر بی نی ہیٹ پہنے خراماں خراماں قدم اٹھا کر چلتی حجر اس کی نگاہوں کا مرکز تھی. پاکستان اور ناروے کی ٹائمنگ میں فرق کے باعث اس کی روٹین ڈسرب ہوگئی تھی. روٹین ڈسرب ہونے کے باعث ہی آج وہ خلاف معمول جلدی بیدار ہوگئی تھی. نیند اسے آ نہیں رہی تھی اور بیورو جانے میں ابھی اچھا خاصا وقت پڑا تھا. کیس پر کام وہ رات کو کر چکی تھی اسلیے اپارٹمنٹ میں اس کے کرنے لیے کوئی کام نہیں تھا. بند اپارٹمنٹ میں محسوس ہونے والی گھٹن سے جان چھڑانے کے لیے اس نے سوچا کہ کیوں نہ کھلی فضا میں بیٹھ کر مونسٹر کا بھیجا گیا میسج ڈی کوڈ کرلے. یہ سوچ ذہن میں آتے ہی اس نے اپارٹمنٹ کے قریب بنی پارک کا رخ کیا. کل الہان کے ساتھ بیورو سے واپس آتے ہوئے اس نے یہ پارک دیکھی تھی تبھی با آسانی یہاں آگئی تھی. گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی اس نے بینچ کی تلاش میں نظریں دہرائیں. اسے متلاشی نگاہوں سے اردگرد دیکھتا پا کر الہان فورًا سے درخت کی اوٹ میں چھپ گیا تھا. درخت کے سائے میں پڑے ایک بنچ پر نظر پڑتے ہی وہ اس کی جانب بڑھی. وہ اس بات سے انجان تھی کہ جس درخت کے سائے میں رکھے بنچ پر وہ بیٹھی تھی الہان اسی درخت کی اوٹ میں چھپا ہے. بنچ پر بیٹھتے ہی اس نے کندھے سے پہنے بیگ میں سے نوٹ بک اور پین نکال کر بنچ پر رکھا پھر فون میں ایک تصویر کھولی. یہ مونسٹر کے بھیجے گئے پیغام کی تصویر تھی جو اس نے پارک آنے سے پہلے لیپ ٹاپ سے لی تھی. تصویر سے دیکھ دیکھ کر وہ بے ترتیب الفاظ نوٹ بک پر اتارنے لگی.
”کیا سوچ کر تم نے یہ میسج مجھے بھیجا ہے مونسٹر؟" لکھتے ساتھ ساتھ وہ اپنی عادت کے مطابق بلند آواز میں بولنے میں مصروف تھی. الہان جو اپنی طرف بڑھتے قدموں کی آواز سن کر وہیں کھڑا تھا اس کے بلند آواز میں بولنے اور خاص طور پر مونسٹر کی پکار پر حیران ہوا پھر درخت کی اوٹ سے نکل کر اس کی جانب دیکھنے لگا. وہ اسے بینچ پر بیٹھی ہوئی نظر آئی تھی. حجر کی پشت اس کی جانب تھی اس لیے وہ اسے دیکھ نہیں پائی. اسے خود سے باتیں کرتا دیکھ کر الہان کے عنابی لب مسکراہٹ میں ڈھلے. اپنی اس بے ساختہ مسکراہٹ پر اسے تعجب ہوا. اسے کبھی اینڈی اور جارج کے جاکس پر بھی ہنسی نہیں آئی تھی اور آج سلجھی دکھنے والی حجر کی بچکانہ حرکت پر بےساختہ مسکرانا اس کے اپنے لیے حیران کن بات تھی. اپنی بے ساختہ حرکت پر خفیف انداز میں سر جھٹکتے ہوئے, اس کی پشت پر ایک نگاہ ڈال کر وہ دوبارہ درخت کی اوٹ چھپ گیا. اب وہ بڑے آرام سے درخت سے ٹیگ لگا کر کھڑا تھا. اس کی نظریں پارک کے گرد لگی باڑ سے نظر آتی سڑک پر ٹکی تھیں جبکہ دھیان اس کا بلند آواز میں بولتی حجر کی جانب تھا. ان دونوں کا رخ ایک دوسرے سے مخالف سمت میں تھا.
”کیا میں تمہے اتنی ذہین........ لگتی ہوں؟ ویسے ذہین تو میں ہوں مگر بچپن سے مجھے یہ کرپٹوگرام پزلز زہر لگتی ہیں. فضول میں دماغ کھپاتے جاؤ." بات کے بیچ وہ ایک لمحے کے لیے رکی کیونکہ اسے احساس ہو گیا تھا کہ وہ اپنے بیڈ کمرے میں نہیں پبلک پارک میں بیٹھی ہے. اردگرد دیکھنے پر جب اسے دوردور تک کوئی نظر نہ آیا تو وہ ریلیکس ہوئی اور اپنی بات وہیں سے جوڑی. الہان اس کی باتوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا.
”اتنے سالوں بعد کوئی بندہ مجھے اپنا دوست بنانے کے قابل لگا تھا مگر یہ کرپٹوگرام پزل بھیج کر اس نے میری نظر میں بنا میں امیج خراب کر لیا ہے. اس لیے اب مونسٹر سے دوستی ختم مگر دوستی ختم کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں کرپٹوگرام ڈی کوڈ نہیں کروں گی. چاہے جتنا بھی دماغ کھپانا پڑے مجھے مگر میں اسے ڈیکوڈ ضرور کروں گی." اس کی دوستی ختم کرنے والی بات پر الہان کی مسکراہٹ سمٹی مگر اس کی کرپٹوگرام ڈیکوڈ کرنے والی بات اسے پرسکون کر گئی تھی.
”جہاں تک مجھے یاد ہے ہے کرپٹوگرام سنگل لیٹر سبسٹیٹیوشن سائفر Single letter substituition cipher ہے یہ ایک کوڈ ہوتا ہے جس میں انگریزی کا ایک حروف دوسرے حروف کی جگہ لگتا ہے مگر کوئی حروف کبھی اپنی جگہ پر استعمال نہیں ہوتا." وہ ذہن پر زور ڈالتے ہوئے بولی.
”اسے شروع کہاں سے کرنا ہے؟" صفحے پر کوڈ کی شکل میں لکھے پیغام کو دیکھتے ہوئے اس نے خود سے سوال کیا.
”کیس کا مسئلہ کم تھا جو ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے." پین کو انگلیوں میں گھماتے ہوئے وہ بے چینی سے بولی.
”ویسے سوچنے کی بات ہے اگر کوئی انجان شخص مجھے یہاں خود سے باتیں کرتے دیکھ لے تو وہ یہی کہے گا کہ میں پاگل ہوں. اب بھلا اسے کون بتائے کہ خود سے باتیں کرنا میری پرانی عادت ہے. اس عادت سے چھٹکارہ پانے کی میں نے بہت کوشش کی ہے مگر ناکام رہی ہوں. اب تو تنگ آکر میں نے کوشش کرنا چھوڑ دی ہے. اپنی اس بُری عادت کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے میں نے. دوسروں کی نظر میں یہ عجیب بات ہے مگر میرے لیے یہ عام بات ہے. ہر ایک کو زندگی کے کسی نہ کسی مقام پر ایکسپرٹ ایڈوائس کی ضرورت پڑتی ہے اور اپنی زندگی کے ایکسپرٹ ہم خود ہوتے ہیں. جتنا ہم خود کو جانتے ہیں اتنا کوئی دوسرا نہیں جانتا اسلیے میرے خیال میں خود سے مشورہ کرنا ایک اچھی عادت ہے. ہاں مگر اونچی آواز میں باتیں کرنا تھوڑا سا عجیب ہے مگر خیر ہے اگر میں طرح کمفرٹیبل فیل کرتی ہوں اس میں کوئی بڑائی نہیں ہے." اس نے خود کو جسٹیفائے کیا پھر کرپٹوگرام دوبارہ سے صفحے پر اتارنے لگی. اس کو خود کو جسٹیفائے کرتے دیکھ کر الہان کی مسکراہٹ گہری ہوئی. ریزور اورمیچور دکھنے والی حجر کا یہ روپ اس کے لیے نیا اور غیر متوقع تھا. اسے مصروف دیکھ کر وہ بغیر کوئی آواز پیدا کیے ایک درخت کی اوٹ سے نکل کر دوسرے درخت کی جانب بڑھا اور پھر یونہی چھپتے چھپاتے وہ پارک کے گیٹ کے قریب گیا مگر گیٹ سے باہر جانے کی بجائے وہ پر اعتماد انداز میں واپس اس کی جانب بڑھنے لگا. اب کی بار درختوں کے پیچھے چھپنے کی بجائے وہ پارک کے بیچ و بیچ سے گزر رہا تھا. سر جھکائے کرپٹوگرام فون سے دیکھ کر صفحے پر لکھتی حجر خود سے کچھ فاصلے پر رکتے سفید سنیکرز کی جانب متوجہ ہوئی. سنیکرز سے ہوتی ہوئی اس کی نگاہ آنے والی ہستی کے چہرے تک پہنچی.
........................
YOU ARE READING
Siad
Mystery / ThrillerSiad means hunter. It is thriller novel. It is about a girl live in norway and a pakistani boy. Read the novel to know how they came across each other.