Siad(episode 15)

1K 40 16
                                    

صیاد
ازقلم رباب تنویر
……………
“I believe the only way to reform people is to kill them.”
(Serial killer Carl Panzram)
………………..
سبک رفتاری سے چلتی گاڑی کے ٹائرعلوی ہاؤس کے باہر چڑچڑائے. ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر الہان باہر نکلا جبکہ پیسنجر سیٹ سے حجر باہر نکلی. وہ علوی ہاؤس کی سفید عمارت کو انجان نظروں سے دیکھ رہی تھی. گاڑی پورچ میں کھڑی کرنے کے بعد الہان نے اسے اندر بڑھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی اس سے چند قدم کے فاصلے پر چلنے لگا. وہ لان کراس کر رہے تھے جب لان میں کھڑے ایلکس پر نگاہ پڑتے ہی الہان نے اسے پکارا.
”ایلکس! وہاں کیا کر رہے ہو؟" اس کی آواز پر ایلکس ان کی جانب بڑھنے لگا. اپنی جانب بڑھتے اس روبوٹ کی جانب حجر بھی متوجہ تھی.
”ویلکم ہوم باس!" الہان کو ویلکم کرنے کے بعد ایلکس ححر کو سکین کرنے لگا.
”ایلکس یہ مس...." الہان حجر کا تعارف کروانے ہی والا تھا جب ایلکس اس کی بات کاٹ کر جھٹ سے بولا
”ویلکم ہوم بھابھی!" ایلکس کی منہ سے حجر کے لیے بھابھی کا لفظ سن کر جہاں حجر کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا وہیں الہان بھی ششدر رہ گیا تھا. اسے بھابھی کہنے کے بعد اب ایلکس کے ٹرنک میں لگی سکرین میں سرخ رنگ کا دل واضح ہوا تھا اور ساتھ ہی بیک گراؤنڈ میں سوفٹ سونگ چلنے لگا تھا.
"ایلکس! یہ تم کیا کہہ رہ ہو؟" اس کے قریب جاتے ہوئے الہان نے سخت لہجے میں استفسار کیا.
”باس! آپ ہمارے بھائی کی طرح ہیں اور اس .... " ایلکس کا جواب پورا ہونے سے پہلے ہی ماتھے پر تیوری چڑھاتے ہوئے الہان بولا
”کس نے یہ خناس بھرا تمہارے دماغ میں؟" ان دنوں کی گفتگو کے دوران حجر خاموش تھی درحقیقت اسے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیسے ری ایکٹ کرے.
”باس! سر پیٹر نے میری تھیم چینج کی ہے. بھابھی کا تعارف سر اینڈی نے کروایا تھا جبکہ انہیں دیکھ کر سوفٹ سونگ چلانے کا آرڈر سر جارج نے دیا تھا." ایلکس نے بڑے اطمینان سے سارا ملبہ اینڈی, پیٹر اور جارج پر ڈالا. اس کی بات سن کر الہان کا دل کیا کہ ان تینوں کا سر پھاڑ دے اور اگر وہ اس کے سامنے ہوتے تو یقیناً وہ ایسا کرنے سے گریز نہ کرتا.
”ٹھیک ہے." اتنا کہتے ہی الہان نے ایلکس کا پاور آف کا بٹن دبایا اور دل ہی دل میں ان تینوں کی کلاس لینے کا ارادہ کرتے ہوئے وہ حجر کی جانب مڑا جو کڑی نظروں سے اسے گھور رہی تھی.
”آئی ایم سوری.... یہ سب ایک غلط فہمی کی وجہ سے ہوا ہے." الہان بس اتنا ہی کہہ پایا تھا جبکہ حجر نے اس کی معذرت کے جواب میں کچھ کہنا ضروری نہیں سمجھا اور ایک نظر اس پر ڈال کر خاموشی سے اند بڑھنے لگی. حفیف سے انداز میں سر جھٹکتے ہوئے الہان نے اس کی تقلید کی. وہ اندرونی دروازے کو پار کرنے ہی والے تھے جب دروازے کی دوسری جانب سے احتشام چچا باہر آتے ہوئے دکھائی دیے. کیوئل شرٹ اور کوٹ میں ملبوس احتشام اپنے دوست حیدر سے ملنے جارہے تھے مگر جیسے ہی ان کی نظر الہان کے ہم قدم چلتی حجر پر پڑی انہیں خوشگوار حیرت ہوئی. حجر کے اتنی جلدی علوی ہاؤس آنے کی انہیں بالکل بھی امید نہیں تھی.
”اسلام و علیکم!" دروازے میں کھڑے لگ بھگ پچاس سالہ شخص کو دیکھ کر حجر نے سلام میں پہل کی. سر پر جا بجا سفید بال, چوڑی پیشانی, نظر کے چشمے کے پیچھے چھپی زمانہ شناس آنکھوں والے احتشام چچا حجر کو گریسفل لگے تھے.
”وعلیکم سلام" احتشام چچا نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا. ان کے ہاتھ پھیرنے سے حجر کو فار یاد آئے تھے. فار بھی ہمیشہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس کو ایک سائباں کے موجودگی کا احساس دلاتے تھے.
”مس حجر! یہ احتشام چچا ہیں اور احتشام چچا! یہ مس حجر ہیں. آپ کو بتایا تھا نا میں نے" الہان نے تعارف کی فارمیلٹی ادا کی اور ساتھ ہی ایسے ظاہر کیا جیسے احتشام چچا حجر سے پہلی مرتبہ مل رہے ہوں.
”..... ہاں یاد آیا کچھ دن پہلے ذکر کیا تھا تم نے. بیٹی! کیسی ہیں آپ؟" احتشام چچا نے انجان بننے کی بھر پور ایکٹنگ کی.
”میں ٹھیک ہوں." حجر مسکرا کر بولی. ان کے انداز مخاطب اور ان کے رویے سے حجر کو بہت اپنائیت محسوس ہو رہی تھی.
”ویلکم ہوم...  میرا مطلب ہے ویلکم ٹو آر ہوم" احتشام چچا نے اسے اندر بڑھنے کا راستہ دیا.
”حجر کو یہاں کیوں لائے ہو؟ کوئی خاص بات ہے؟ جب تک کیتھی کنفرم نہیں بتا دیتی تمہے اسے یہاں نہیں لانا چاہیے تھا." دھیمی آواز میں احتشام الہان پر برسے. وہ اردو میں بات کر رہے تھے تاکہ حجر اگر ان کی بات سن بھی لے تو سمجھ نہ پائے.
”آپ کہیں جا رہے تھے احتشام چچا؟" ان کی بات کو نظرانداز کرکے الہان بلند آواز میں شستہ انگریزی لب و لہجے میں بولا. حجر جو ہال کے وسط میں کھڑی علوی ہاؤس کا تفصیلی جائزہ لے رہی تھی الہان کی بات پر ان دونوں کی جانب متوجہ ہوئی.
”حیدر سے ملنے جا رہا تھا." اپنی بات کا نظرانداز کیے جانا ان پر گراں گزرا تھا مگر حجر کو متوجہ دیکھ کر وہ ضبط کر گئے تھے.
”اوہو!... آپ کو تو دیر ہو رہی ہو گی. جائیں حیدر انکل انتظار کر رہے ہونگے." الہان جھٹ سے بولا.
”نہیں نہیں... گھر آئے مہمان کو چھوڑ کر حیدر سے ملنے جاتا میں اچھا لگوں گا بھلا. میں حیدر کو منع کر دیتا ہوں." حجر کو دیکھ کر احتشام نے حیدر سے ملنے جانے کا ارادہ بدل لیا تھا.
” مس حجر کی فکر نہ کریں. میں ان کو کمپنی دے دوں گا. آپ جائیں. ہماری وجہ سے اپنا پلین خراب کرنے کی ضرورت نہیں ہے. کیوں مس؟" الہان انہیں بھیجنے پر بضد تھا.
”ہممم... مسٹر سی ای او ٹھیک کہہ رہے ہیں انکل. آپ اپنا پروگرام خراب نہ کریں میری وجہ سے." حجر نے اصرار کیا.
”تم اور الہان میرے لیے ایک جیسے ہو اور اگر تم بھی الہان کی طرح مجھے احتشام چچا کہو گی تو مجھے بہت خوشی ہو گی." احتشام کا شفیق انداز دیکھ کر حجر منع نہیں کر پائی.
” ٹھیک ہے احتشام چچا" پہلی ملاقات میں احتشام کا حجر کو تم کہہ کر پکارنا اور تو اور اسے انکل کی بجائے احتشام چچا کہنے کی ہدایت دینا.... الہان ان کی بے تکلفی پر حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا. اسنے دل ہی دل میں سوچا تھا کہ ان کی بےتکلفی کے جواب میں حجر انہیں سخت الفاظ کہے گی مگر سوچ کے برعکس جب حجر نے مسکرا کر خامی بھری تو اس کی حیرت دو چند ہوئی. دل ہی دل میں اسے احتشام کی قسمت پر رشک آیا.
”گڈ... میں اب چلتا ہوں. پھر ملاقات ہو گی." اتنا کہہ کر احتشام باہر کی جانب بڑھ گئے مگر جانے سے پہلے وہ الہان پر جتاتی نگاہ ڈالنا نہیں بھولے تھے.
”مس فریحہ!" احتشام کے جانے کے بعد وہ وہیں لاؤنج میں کھڑے تھے جب الہان نے ہانک لگائی. اس کی پکار پر کچن میں کام کرتی فریحہ بوتل کے جن کے طرح حاضر ہوئی. الہان نے علوی ہاؤس کی صفائی کے لیے صبح فریحہ کو بلایا تھا کیونکہ وہ اور احتشام چچا اتنے بڑے گھر کو صاف نہیں کر سکتے تھے. ححر کے بیورو جانے کے بعد فریحہ چند اور میڈز کے ہمراہ علوی ہاٰؤس آگئی تھی. صبح سے اب تک بہت تک صفائی کا کام نمٹ گیا تھا.
“جی سر" وہ مودب انداز میں بولی. فریحہ کو یہاں دیکھ کر حجر کو تعجب ہوا تھا مگر اس نے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا.
”پھپھو کا کمرہ صاف ہو گیا ہے؟" الہان نے دریافت کیا.
“جی" اس نے ایک لفظی جواب دیا.
”ٹھیک ہے... مس حجر! آپ کیا لیں گی؟" فریحہ کو جواب دینے کے بعد اس نے حجر سے استفسار کیا.
”کچھ نہیں." وہ بے تاثر لہجے میں بولی.
”مس فریحہ! کچھ دیر میں دو چائے کے کپ لے کر پھپھو کے کمرے میں آئیں." اس کے منع کرنے کے باوجود الہان نے اس کے لیے چائے بنانے کا آرڈر دیا. الہان کو پہلی ملاقات والی حرکت دہراتے دیکھ کر حجر کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا
”یہ کیا حرکت کی آپ نے؟" وہ چبا چبا کر بولی.
”کیا کیا ہے میں نے؟" الہان نے خود کو مکمل انجان ظاہر کیا.
”جب میں نے آپ کو منع کیا ہے کہ میں نے چائے نہیں پینی تو کیوں منگوائی ہے آپ نے؟ آپ ہمیشہ اپنی مرضی کیوں کرتے ہیں؟ کسی دوسرے کی بات کی آپ کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں؟" ماتھے پر تیوری چڑھائے وہ تیکھے چتونوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی. وہ دونوں راہداری کے اختتام پر بنے آنیہ کے کمرے کی طرف بڑھ رہے تھے.
”آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں. میں نے چائے اس لیے منگوئی ہے کیونکہ مجھے پتا ہے کہ جو میں آپ کو بتانے والا ہوں اسے سن کر آپ کو چائے کی ضرورت پر سکتی ہے." اس کے غصے کے جواب میں الہان نے پرسکون انداز میں وضاحت دی.
”میں آپ کو بالکل سہی سمجھ رہی ہوں. ایک بات اور... مجھے کس چیز کی ضرورت ہے اور کس چیز کی نہیں, اس بات کی فکر آپ نہ ہی کریں تو بہتر ہے." بات کے احتتام میں حجر نے نظریں گھمائیں.
”مس فریحہ! ایک گلاس پانی لائیں. مس حجر اپنا ٹمپرامینٹ لوز کر رہی ہیں اور اس وقت انہیں پانی کی شدید ضرورت ہے." الہان نے اسے چڑایا اور خود آنیہ کے کمرے کا دروازہ وا کرکے اندر چلا گیا. حجر جو اسے کچھ سخت کہنے کے ارادے سے اس کے پیچھے بڑھی تھی, کمرے میں قدم رکھتے ہی اس کی زبان تالو سے جا چپکی. وہ عجیب سی نظروں سے کمرے کی دیوار پر لگی آنیہ کی تصویر دیکھ رہی تھی. اس تصویر سے ہوتے ہوئے اس کی نگاہ اگلی تصویر پر پڑی جس میں آنیہ کے ساتھ ہارون تھا. پھر وہ اس تصویر کو دیکھنے لگی جس میں پانچ افراد تھے. لگ بھگ پچیس سالہ چار لڑکے اور ان کے وسط میں کھڑی لڑکی. اس تصویر میں آنیہ کے دائیں جانب ہارون, ہارون کے ساتھ اللہ یار اور آنیہ کے بائیں جانب مرتضی اور احتشام تھے. چونکہ کچھ دیر پہلے وہ احتشام سے مل چکی تھی اس لیے وہ تصویر میں احتشام کو پہچان گئی تھی. تصویر میں موجود باقی سب افراد اس کے لیے اجنبی تھے. ان سب تصویروں سے ہوتے ہوئے اس کی نگاہ ایک بچی کی تصویر سے ٹکرائی. اس تصویر پر نگاہ پڑتے ہی اسکی آنکھوں کی پتلیاں سکڑیں, نگاہیں ساکت ہوئیں اور حواس منجمند ہونے لگے. بے اختیار اس نے ہاتھ بڑھا کر تصویر کو چھوا. تصویر میں موجود سیاہ چمکتی ہوئی آنکھیں وہ بخوبی پہچانتی تھی. کئی لمحے وہ یونہی ان سیاہ آنکھوں میں جھانکتی رہی پھر اپنے جذبات پر بندھ باندھنے لگی. اپنے آپ کو بمشکل کمپوز کرکے وہ مڑی اور استفہامیہ انداز میں بولی
”یہ.... یہ تو میری...؟" اس کی بات ابھی منہ میں ہی تھی جب الہان بول پڑا.
”جی... یہ آپ کے بچپن کے تصویر ہے."
”میری تصویر یہاں آپ کے پھپھو کے کمرے میں کیا کر رہی ہے؟" وہ تیکھی نظروں سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی. الہان کی پھپھو کے کمرے میں اپنی تصویر دیکھ وہ واقعی شاک میں مبتلا تھی.
”ماں کے کمرے میں اس کے بچے کی تصویر ہونا معیوب بات تو نہیں ہے." اس نے مبہم انداز میں بات کہی.
”کیا مطلب؟" وہ شاید حقیقت سے نظریں چڑا رہی تھی.
“میں آپ کو سب کچھ بتا دوں گا مگر آپ کو میری بات خاموشی سے سننی ہو گی کوئی سوال کیے بغیر" الہان اطمینان سے بولا. اس کی بات پر حجر نے اس پر نگاہ ڈالی تو الہان نے اسے ایک جانب رکھے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا. حجر خاموشی سے وہاں بیٹھ گئی. ذہن میں مختلف سوال گردش کر رہے تھے جن کے جواب صرف اس کے سامنے بیٹھا شخص ہی دے سکتا تھا سو وہ اس کی بات ماننے پر مجبور تھی. اس کے چہرے پر بچھا سوچوں کا جال الہان مرتضی کی زیرک نگاہوں سے مخفی نہیں تھا. وہ خود اس کو سوچنے کا وقت دے رہا تھا کیونکہ وہ چایتا تھا کہ ذہنی طور پر وہ خود کو تیار کرلے. اسی دوران فریحہ چائے اور لوازامات لے کر اندر داخل ہوئی. ٹرے کو میز پر رکھنے کے بعد وہ باہر چلی گئی. جبکہ الہان نے ٹرے میں رکھا پانی کا گلاس حجر کے آگے رکھا جسے حجر نے ہاتھ لگانا گورا نہیں کیا. الہان نے اپنی چوتھی سالگرہ پر اتاری جانے والی ان پانچوں کے تصویر میز پر رکھی پھر اس کے سامنے والے صوفے پر براجمان ہو گیا. حجر سر جھکائے خاموشی سے اس کے بولنے کی منتظر تھی
”یہ علوی ہاؤس جو آج آپ کو ویران لگ رہا ہے نا یہ کسی زمانے میں ایسا نہیں تھا. ایک وقت تھا جب اس کے در ودیوار قہقہوں سے گونجتے تھے. یہاں کی رونقیں اس گھر کے چراغ مرتضی, آنیہ, احتشام اور....ہارون کے باعث تھیں." وہ ہارون پر زور دیتے ہوئے بولا اور پھر حجر کے تاثرات دیکھنے لگا.
”ہارون" چہرے پر بے چینی لیے حجر نے زیر لب دہرایا.
”آنیہ اور مرتضی جڑواں تھے جبکہ ہارون ان کا تایا زاد اور احتشام ان کا چچا زاد بھائی تھا. بچپن کی دہلیز پار کرکے جب انہوں نے جوانی میں قدم رکھا تو مرتضی اور آنیہ کے والد عادل علوی کی بگڑتی صحت کے پیش نظر ان کے بڑے بھائی عابد علوی یعنی ہارون کے والد نے آنیہ کی شادی اپنے بیٹے ہارون جبکہ مرتضی کی شادی اپنی دوست کی بیٹی فرح سے کر دی".
(اس کے منہ سے آنیہ اور ہارون کی شادی کے بابت سن کر حجر نے بے ساختگی سے میز پر رکھی تصویر کے بیچ وبیچ کھڑی اس خوبصورت نقوش والی لڑکی کو دیکھا.)
”ان کی شادی کے کچھ دیر بعد ہی عادل صاحب کی وفات ہو گئی. مرتضی اور آنیہ جو پہلے ہی ماں کے سائے سے محروم تھے باپ کے چلے جانے پر تہی داماں ہو گئے تھے. ان حالات میں عابد صاحب اور ان کی بیوی فاریہ نے ان کو حوصلہ دیا. وقت کے ساتھ ساتھ وہ دونوں باپ کے جدائی کے غم کو بھُلا کر اپنی زندگی میں مصروف ہو گئے تھے. مرتضی اور ہارون اپنے خاندنی بزنس کو سمبھالتے تھے جبکہ احتشام فورن سروس میں جاب کرتا تھا. شادی کے ایک سال بعد مرتضی اور فرح کو اللہ نے ایک بیٹے سے نوازا تھا. آنیہ کی چونکہ اس وقت اپنی کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے اسکی محبت اور توجہ کا مرکز اس کے بھائی کا بیٹا تھا. ہارون اور مرتضی کے فیکٹری جانے کے بعد اس کا پورا دن مرتضی کے بیٹے کے ساتھ ہی گزرتا تھا. اس بچے کو بھی آہستہ آہستہ اس سے انسیت ہو گئی تھی. اپنی ماں کی گود سے زیادہ وہ آنیہ کی گود میں رہتا تھا. شادی کے چار سال بعد آنیہ کو اللہ نے بیٹی عطا کی. اپنی بیٹی کو گود میں بھرتے ہی آنیہ کے دل میں بےولاد ہونے کی آخری کسک بھی دور ہو گئی تھی." الہان نے ایک نگاہ سکارف میں لپٹے اس کے جھکے سر کو دیکھا. اسکے جھکے سر کو دیکھ کر الہان جان گیا تھا کہ وہ اس سے اپنے تاثرات چھپانا چاہ رہی. ایک لمبی سانس بھرتے ہوئے اس نے بات دوبارہ جوڑی.
”وقت پر لگا کر اڑنے لگا. دیکھتے دیکھتے ہی مرتضی کا بیٹا چار سال کا ہو گیا جبکہ آنیہ کی بیٹی ایک سال کی تھی. گزرے سالوں میں مرتضی اور ہارون کا بزبس بہت وسیع ہو گیا تھا. پاکستان کے سبھی بڑے شہروں میں ان کی گارمینٹس کی فیکٹریاں تھیں. گوادر میں فیکٹری کی جگہ کے انتخاب کے لیے انہیں مشکل ہو رہی تھی. بہت سی لوکیشنز دیکھنے کے باوجود انہیں کوئی جگہ مناسب نہیں لگ رہی تھی. کچھ دن خوار ہونے کے بعد انہوں نے آخر ایک جگہ کا انتخاب کیا. یہ جگہ اللہ یار کی تھی اور ان کے اصرار کے باوجود اللہ یار نے انہیں وہ جگہ بیچی نہیں تھی. اس کا کہنا تھا کہ وہ اس کی زمین پر فیکٹری بنا لیں اور ہر مہینے ایک مخصوص رقم اسے دیتے رہیں. ہارون اس کی بات پر شش و پنج کا شکار تھا مگر اس کا رک رکھاؤ اور اخلاق دیکھ کر اس نے خامی بھر لی. یونہی ان کی دوستی اللہ یار سے ہوئی جو وقت کے ساتھ گہری ہوتی گئی. مرتضی کے بیٹے کی چوتھی سالگرہ میں اللہ یار بھی آیا تھا اور اس دن اللہ یار نے ان سب کو اپنے گھر گوادر آنے کی دعوت دی. اس کے اصرار پر ہارون نے گوادر جانے کی خامی بھر لی." وہ آنیہ کے گوادر جانے کے خوف والی بات چھپا گیا تھا.
”ایک ہفتے بعد مرتضی اور ہارون کی فمیلی گوادر روانہ ہوئی جبکہ احتشام جاب کے باعث دبئی روانہ ہوا. گوادر سے واپسی کے وقت مرتضی کا بیٹا اپنی پھپھو آنیہ کے ساتھ ان کے گاڑی میں تھا. ہائی وے پر گاڑی سبک رفتاری سے دور رہی تھی جب گاڑی کے ٹائیر پر بندوق کی گولی لگی. سٹیرنگ پر ہارون کی گرفت کمزور ہونے کے باعث گاڑی آؤٹ آف کنٹرول ہوئی اور بل کھاتی ہوئی ایک درخت سے بری طرح ٹکرائی. اس حادثے کی تباہ کاریوں سے ایک وحود بالکل مخفوظ رہا تھا جبکہ باقی تین نفوس بُری طرح زخمی ہوئے تھے." الہان کے چہرے پر ضبط کی سرخیاں چھائی تھیں.
”جانتی ہیں وہ سہی سلامت بچنے والا وجود کس کا تھا؟" شدت جذبات کے باعث اس کی آواز بھاری ہو رہی تھی.
”وہ وجود آپ کا تھا حجر ہارون علوی. پھپھو نے آپ کو خود سے بھینچ لیا تھا تا کہ آپ کو نقصان نہ پہچے. وہ اپنی بیٹی کو خراش سے بھی مخفوظ رکھنا چاہتی تھیں. جبکہ اس حادثے میں پھپھو, ہارون چچا اور میں... الہان مرتضی علوی شدید زخمی ہوا تھے." وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے اسے حقیقت سے آشکار کر رہا تھا. اس کی بات پر حجر نے اس پر نگاہ ڈالنی چاہی مگر آنکھ میں ابھرتی نمی کے باعث وہ فورا نظر جھکا گئی تھی. پلکیں چھپکتے ہوئے اس نے آنسوؤں کو واپس دکھیلا.
”کیا آنیہ علوی اس دنیا میں ہیں؟" بڑے ضبط سے حجر نے سوال کیا. اس کے سوال پر الہان کی آنکھوں میں سرخی آئی.
”.... نہیں" تکلیف کے احساس سے چور لہجے میں اس نے ایک لفظ کہا تھا. اس کا جواب سن کر ان کالی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے.
”ہارون علوی.....؟" اس کے لہجے کی نمی الہان سے مخفی نہ رہ سکی تھی.
”شاید نہیں" ایک گہری سانس بھرتے ہوئے الہان بولا.
”مجھے واپس احانا ہے." وہ اک جھٹکے سے اٹھی. وہ الہان سے نظریں نہیں ملا رہی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس کی آنکھوں کی نمی دیکھے. وہ اس کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی.
”ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی." عارضوں پر جھکی پلکوں کی جمبش اور ضبط سے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھتے ہوئے الہان بولا.
”میں نے جو سننا تھا سن لیا." اتنا کہہ کر وہ اک جھونکے کی طرح اس کے قریب سے گزر کر کر کمرے کے دروازے کو پار کر گئی. بے بسی سے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے الہان اس کے پیچھے گیا. دھندلی آنکھوں کو صاف کرتی وہ تیز تیز قدم اٹھائے اندرونی دروازے کو پار کرنے ہی والی تھی جب وہ اسے پکار بیٹھا
”حجر!"اس کی پکار پر ناچاہتے ہوئے بھی اس کے قدم تھمے.
”میں آپ کو ڈراپ کر دیتا ہوں."
”میں چلی جاؤں گی." اس کی نظریں ہنوز جھکی ہوئی تھیں.
”اندھیرا زیادہ ہو گیا ہے. اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ اکیلی نہ جائیں. آپ یہاں کے راستوں سے واقف نہیں ہیں." اس کے لہجے میں فکر کا عنصر شامل تھا.
”آپ میری فکر مت کریں." کتنی آسانی سے وہ اسے خود سے لاپرواہ ہونے کا کہہ رہی تھی. اس کی بات پر وہ اسے ایک نظر دیکھ کر رہ گیا.
(کیا اتنا ہی آسان تھا اس کے لیے حجر کے وجود سے لاپرواہ ہو جانا؟) استہزائیہ انداز میں وہ سوچ کر رہ گیا.
”یہاں خاموشی سے کھڑی رہیں. میں گاڑی لے کر آتا ہوں." اب کی بار وہ سختی سے بولا تھا.
”میں اس وقت تنہائی چاہتی ہوں." وہ تھکے ہوئے انداز میں بولی.
”میں آپ کی تنہائی میں خلل نہیں ڈالوں گا. خاموشی سے ڈرائیو کروں گا. آپ میری موجودگی کو فراموش کرکے خود کو تنہا سمجھیے گا."
(کیا آپ کی موجودگی کو فراموش کرنا اتنا ہی ہے؟) وہ بس سوچ کر رہ گئی. جبکہ الہان اپنی بات کہنے کے بعد گاڑی کی جانب بڑھ گیا. جیسے ہی اس نے گاڑی حجر کے آگے روکی وہ خاموشی سے بیٹھ گئی. وہ مزید بحث نہیں کرناچاہتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی مرضی اس نے اپنی ہی کرنی. راستہ خاموشی سے کٹا تھا. اپنی بات پر عمل کرتے ہوئے الہان نے سارے راستے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا تھا. جبکہ حجر سر جھکائے ضبط کی انتہاؤں کو چھو رہی تھی. جس سوچ کے ذہن میں آتے ہی اس کی سانسیں رکنے لگتی تھیں آج وہ سوچ حقیقت کا روپ دھاڑ گئی تھی. اس کا دل چاہ رہا تھا کہ بلند آواز میں روئے, اپنے دکھ کا اعلان کرے مگر وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی اسے کمزور سمجھے. گاڑی اپارٹمنٹ والی بلڈنگ کے باہر رکتے ہی وہ بغیر اختتامی کلامات کہے ایک جھٹکے سے باہر نکلی. الہان سے نگاہ ملائے بغیر ہی وہ تیز تیز قدم اٹھاتے بلڈنگ کے اندرونی دروازے کی جانب بڑھ گئی جبکہ الہان اس وقت تک اس کی پشت کو دیکھتا رہا جب تک وہ اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی. وہ اس سے دو بول تسلی کے کہنا چاہتا تھا مگر اس نے اسے موقع ہی نہیں دیا تھا. درحقیقت الہان کے پاس اسے بتانے کے لیے اور بہت کچھ تھا مگر وہ اس کی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھی. لمبی سانس ہوا کے سپرد کرتے ہوئے اس نے گاڑی واپسی کی جانب موڑی.
........................
شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے پرائیویٹ روم میں ایک عورت بیڈ پر لیٹی تھی.
اس کا جسم مختلف ٹیوبز میں جکڑا تھا. وہ لگ بھگ بتیس تینتیس سال کی تھی .اس کا وجود ہڈیوں کے ڈھانچے کی مانند تھا. وہ دماغی بیماری کی مریضہ تھی. اس کی اس حالت کی وجہ ایک شدید جھٹکا تھا. اس جھٹکے سے اس کے دماغ کے سیلز (حلیے) ختم ہو گئے تھے اور اس کا دماغ سکڑ گیا تھا. وہ عورت کوئی اور نہیں آنیہ علوی تھی اور حجر کی گمشدگی کی خبر اس کے لیے وہ دھچکا تھا جس نے اسے اس حال میں پہنچا دیا تھا. اس پرائیویٹ روم میں بیڈ کے بائیں جانب لگے بینچ پر مرتضی اور الہان بیٹھے تھے. مضبوط و تواناں مرتضی کے کندھے اس وقت جھکے ہوئے تھے. آنیہ سے مشاہبت رکھتے اس کے نقوش پر افسردگی چھائی تھی. الہان کی عمر اس وقت بارہ سال تھی مگر دبلا پتلا سا وجود ہونے کے باعث وہ اپنی عمر سے چھوٹا لگتا تھا. اس کے پاؤں میں گہرا زخم تھا جس میں سے خون رس رہا تھا. مگر اس کے چہرے پر تکلیف کا شائبہ بھی نہیں تھا. وہ ہر احساس سے عاری چہرہ لیے سر جھکائے بیٹھا تھا. مرتضی کئی مرتبہ اسے مرہم پٹی کروانے کے لیے کہہ چکا تھا. مگر وہ اس کی بات کے جواب میں ایک سرد نظر اس پر ڈال کر دوبارہ سر  جھکا لیتا .کچھ لمحوں بعد اس نے سر اٹھایا اور مرتضی سے سوال کیا.
"میری آنی کو کیا ہوا ہے؟"
"وہ آنکھیں کیوں نہیں کھول رہیں؟"
"وہ میری بات کا جواب بھی نہیں دے رہیں. آپ نے ان سے ایسا کیا کہا تھا جو ان کا دماغ قبول نہ کر پایا ." الہان نے آنیہ کے متعلق پے در پے سوالات کیے .اس کی آواز میں اپنی آنی کے لیے فکر تھی. مگر اس کے چہرے پر پریشانی کے کوئی تاثرات نہیں تھے. اس کا چہرہ ہر احساس سے عاری تھا .شاید اسے اپنے جذبات ظاہر کرنے نہیں آتے تھے. مرتضی خاموشی سے اس کے بےحس چہرے کو  دیکھتا رہا. پھر اپنے درد پر قابو پاتے ہوئے بولا .
"آپ کی آنی جلد ٹھیک ہو جائیں گی." اس نے الہان سے زیادہ خود کو تسلی دی.
"آپ ان کے لیے دعا کریں." اس کی بات پر الہان نے نا سمجھی سے اس کی جانب دیکھا .جیسے اس کی بات کا مطلب نہ جان سکا ہو. مرتضی اپنی پریشانی میں اس کی جانب نہ دیکھ پایا تھا. اگر دیکھ لیتا تو شاید اس کی دعا لفظ سے نا واقفیت جان لیتا. کمرے میں دوبارہ سے خاموشی کا راج تھا. وہ پچھلے تین دن ہسپتال میں تھے مگر آنیہ کی حالت سمبھلنے کی بجائے بگڑتی ہی جا رہی تھی. وہ مسلسل بے ہوش تھی. اس دن کے بعد سے اس کی مرتضی اور الہان سے دوبارہ بات نہ ہو پائی تھی.
”کچھ دیر کے لیے میرے ساتھ گھر جا کر کپڑے تبدیل کر آؤ" مرتضی نے کئی مرتبہ کہی جانے والی بات دہرائی.
”مجھے آنی کے پاس ہی رہنا ہے." اس نے وہی جواب دیا جو وہ پچھلے تین دنوں سے دے رہا تھا.
”اگر نہیں جانا تو کم از کم اپنے زخم کی ڈریسنگ کروا آؤ. اس طرح تمہارا زخم خراب ہو جائے گا. جو زخم مرہم لگنے کا وقت کھو دیتے ہیں ان کے نشانات باقی رہ جاتے ہیں." مرتضی نے اسے سمجھانا چاہا.
"مجھے آنی کے پاس رہنا ہے." اس کے جواب پر مرتضی بے بسی سے اسے دیکھ کر رہ گیا. وہ پچھلے تین دنوں سے اس کا غیر معمولی رویہ مرتضی کو کھٹک رہا تھا. نہ وہ ہنستا تھا, نہ ہی زخم لگنے پر درد محسوس کر رہا تھا. بے تاثر اور سرد سا چہرہ لیے وہ کئی کئی گھنٹے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھا رہتا تھا. مرتضی اس کے سرد رویے کی وجہ سمجھنے سے قاصر تھا. دل ہی دل میں اس نے الہان کو جلد کسی سائیکیٹرسٹ کو دکھانے کا ارادہ کیا.

....................
علوی ہاؤس کے گرد بنے لان کے اندھیرے گوشے میں وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا. نگاہیں غیر معینہ نقطے پر ٹکائے وہ اردگرد سے بے نیاز اپنی سوچوں میں گم تھا. حجر کو ڈراپ کرکے آنے کے بعد اس نے احتشام چچا کو حجر کی اصل پہچان کے متعلق بتا دیا تھا. سچائی سننے کے بعد ان کے چہرے پر چھانے والا سکون و اطمینان  ان کے اندرونی حالت کی عکاسی تھا.
”کیا تم خوش نہیں ہو؟" اس کو کسی کشمکش کا شکار دیکھ کر احتشام چچا نے سوال کیا.
”پتا نہیں. ایک بے چینی سی لگی ہے." اس کے ہر انداز سے بے سکونی جھلک رہی تھی.
"جب وہ نہیں تھی تب بھی تم بے سکون تھے اور اب اگر وہ مل گئی تو اب بھی تمہے سکون میسر نہیں." احتشام اس کو زیرک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولے.
”سکون تو مجھے ایک دن ہی آئے گا." وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا
"وہ مبارک دن کون سا ہو گا؟" احتشام نے دلچسپی سے سوال کیا.
”جس دن میں اس کے سارے حقوق اپنے نام لکھوا لوں گا." اس کے لہجے میں یقین تھا.
”ایسا کیوں چاہتے ہو تم؟" وہ اس کے سوچوں میں جھانکنا چاہ رہے تھے.
”میں پھپھو سے کیا اپنا وعدہ نبھانا چاہتا ہوں."
”وہ وعدہ تم اس سے دور رہ کر بھی نبھا سکتے ہو." احتشام نے مشورہ دیا. الہان ان کی بات کے جواب میں خاموش رہا. اس کی خاموشی دیکھ کر احتشام ایک بار پھر بولے
”اگر اس نے انکار کر دیا؟"
”میں اسے راضی کرلوں گا." اس کے انداز سے ظاہر تھا کہ وہ جو کہہ رہا ہے کر کے دکھائے گا.
کس چیز کے زعم میں تم یہ کہ رہے ہو؟ پرسنیلٹی نے؟ یاپھر دولت نے؟"
”وہ جاذب شخصیت سے یا دولت سے متاثر ہونے والی لڑکی نہیں ہے." وہ یقین سے بولا.
”پھر کس سے متاثر ہو گی وہ؟" احتشام نے اس اگلوانے کی پوری کوشش کی.
” وقت آنے پر پتا چل جائے گا آپ کو." اس کی خود اعتمادی سے احتشام متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے.
”سوچو... اگر اس نے انکار کر دیا تو پھر کیا کرو گے؟" احتشام اس کو پرکھ رہے تھے.
”جو بات ممکن ہی نہ ہو اس کے متعلق سوچ کر میں خود کو پریشان نہیں کرتا." اتنا کہہ کر وہ لان میں آ گیا تھا. جب سے وہ اسے ڈراپ کرکے آیا تھا ایک لمحے کا سکون اسے میسر نہیں ہوا. ایک بے سکونی تھی جو اس کے وجود کا احاطہ کیے ہوئے تھی. اپنی اس بے چینی کی وجہ وہ خود سمجھنے سے قاصر تھا.
"کیا ہو گیا ہے تمہے الہان مرتضی؟ یہ بے چینی, بے آرامی کس کے لیے؟ کیا یہ حجر کی وجہ سے؟ کیا اس کی افسردگی مجھے... پریشان کر رہی ہے؟" اس نے خود سے سوال کیا
”نہیں...  ایسا کیسے ہو سکتا ہے." دماغ نے فورًا نفی کی.
”ایسا ہی ہے." کہیں اندر ہی اندر ہلکی سے سرگوشی ہوئی.
”ہاں ہو سکتا ہے کہ میں اس کی وجہ سے پریشان ہوں. آخر کو وہ میری پھپھو زاد ہے. کزن ہے میری اس کو افسردہ دیکھ کر بے چین ہونا معیوب بات نہیں ہے." دماغ نے جھٹ سے چوڑ راہ تلاش کی. دل کی آواز دباتے ہوئے وہ دماغ سے متفق ہوا اور حجر سے متعلق اپنی سوچوں کو جھٹکنے لگا مگر سوچیں تھیں مڑ مڑ کر اس کی جانب کھچی جا رہیں تھیں. وہ اسی جنگ میں مصروف تھا جب اس کا فون رنگ کیا. پوکٹ سے فون نکال کر اس نے سکرین روشن کی. سکرین پر جگمگاتے نمبر کو دیکھ کر بے اختیار اس نے ٹائم دیکھا پھر کال اٹھائی.
”اسلام و علیکم سر!" کال ملتے ہی رضا کی آواز آئی.
”وعلیکم سلام! کیا بات رضا؟" رات کے گیارہ بجے رضا کی کال اس کے لیے باعث تشویش تھی.
”ڈیڈ باڈیز مل گئی ہیں. میم نے کہا تھا میں انہیں انفارم کروں مگر اب وہ فون نہیں اٹھا رہیں." اس کے لہجے میں پریشانی واضح محسوس کی جا سکتی تھی.
”کتنی باڈیز ملی ہیں؟"
”ابھی تک دو ہی باہر نکلی ہیں. جھیل کی سطح میں دبی ہوئی ہیں لاشیں اسلیے انہیں نکلالنے میں مزید چند منٹ درکار ہیں. پانی میں کئی دن رہنے کے باعث ڈیڈ باڈی زیادہ دیر رکھنے کی حالت میں نہیں ہے. آپ کسی طرح میم حجر سے رابطہ کریں کیونکہ ان کی پرمشن کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے. ہم ان کے آرڈر کے منتظر ہیں."
”میں مس حجر سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں."
”سر!.... وہ" رضا حمید ہچکچایا.
”کیا بات ہے؟"
“ میڈیا تک خبر پہنچ چکی ہے. سب نیوز چینلز والے یہاں اکٹھے ہو گئے ہیں. وہ پولیس کے بیان کا تقاضا کر رہے ہیں. آپ میم کو لے کر جلد یہاں پہنچیں کیوں کہ حالات ہماری گرفت سے باہر نکل رہے ہیں." اس کے لہجے میں تشویش تھی.
”کام ڈاؤن. میں مس حجر کو لے کر پہنچتا ہوں. ہمارے آنے تک آپ کسی طرح میڈیا کو کنٹرول کریں." اتنا کہنے کے بعد اس نے فون بند کیا اور گھر کے اندرونی حصے کی جانب بڑھا. چند ضروری چیزیں لینے کے بعد وہ گاڑی تک آیا. اگلے چند منٹوں میں اس کی گاڑی رات کے اندھیرے کو چیڑتے ہوئے منزل کی جانب گامزن تھی. اپارٹمنٹل بلڈنگ کے باہر گاڑی روکنے کے بعد اس نے فریحہ کے نمبر پر کال کی
”مس فریحہ! حجر کہاں ہے؟" فون ملتے ہی اس نے سوال کیا.
”میم حجر؟ وہ تو آپ کے ساتھ نہیں تھیں؟" نیند سے خمار سے نکلتے ہوئے فریحہ نے جواب دیا. فریحہ کی بات پر اس کے تاثرات بدلے.
”شام سات بجے میں نے انہیں واپس ڈراپ کر دیا تھا. کیا وہ اپارٹمنٹ آئی نہیں؟"
”نہیں. وہ تو واپس نہیں آئیں."
”آپ ان کا روم چیک کریں. ہو سکتا ہے کہ آپ کو ان کے آنے کی خبر نہ ہوئی ہو." اس نے جواز پیش کیا.
”میں دیکھتی ہوں." اس بات کے بعد لائن کے دوسری جانب خانوشی چھا گئی جبکہ الہان فون کان سے لگائے بے چینی سے اس کے جواب کا انتظار کر رہا تھا.
”سر! وہ کمرے میں نہیں ہیں." اس کی بات ابھی منہ میں ہی تھی جب فون بند کرکے, الہان گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس بلڈنگ کے اندرونی حصے کی جانب بڑھا. اگلے چند سکینڈز میں وہ اپارٹمنٹ کے دروازے کے باہر کھڑا بیل دے رہا تھا. بیل کی آواز پر فریحہ نے دروازہ کھولا
”کہاں ہے مس حجر کا کمرہ؟" اسے فریحہ کی بات پر یقین نہیں آیا تھا. اس کے سوال پر فریحہ نے ہاتھ کے اشارے سے حجر کے کمرے کے متعلق بتایا. اس کے قدموں کا رخ اب اس کے کمرے کی جانب تھا. دروازہ دھکیل کر اس نے جیسے ہی دہلیز پار کی اس کی نگاہ صاف ستھرہ کمرے اور بے شکن بستر پر پڑی. کمرے کی ترتیبی اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ صبح کی گئی اب تک واپس آئی ہی نہیں. پریشانی سے الہان نے اپنی کنپٹی مسلی پھر چند لمبے سانس لے کر خود کو کمپوز کیا
”گئی تو آپ بلڈنگ کے اندر ہی تھیں." شام کو جب وہ اسے چھوڑنے آیا تھا تو اس نے اسے بلڈنگ کے اندر جاتے دیکھا تھا.
”مگر اپارٹمنٹ نہیں آئیں." وہ پر سوچ انداز میں بول رہا تھا.
”کیا مس حجر کی اس بلڈنگ میں رہنے والی کسی فیملی سے دوستی ہے؟" اس نے فریحہ سے سوال کیا.
”نہیں. اب آپ کہاں ڈھونڈیں گے انہیں؟" فریحہ کے لہجے میں حجر کے لیے فکر تھی.
”یہیں بلڈنگ میں ہے وہ کہیں. فکر نہ کریں آپ میں ڈھونڈ لوں گا." اس نے فریحہ سے زیادہ خود کو تسلی دی.
”کیا آپ اتنی بڑی بلڈنگ میں بنے سب اپارٹمنٹ کی تلاشی لیں گے؟" اس  بے وقوفانہ سوال کیا.
”نہیں" اسے جواب دے کر وہ اپارٹمنٹ سے نکل گیا. لابی میں کھڑا وہ بلڈنگ کی وہ سب جگہیں سوچنے لگا جہاں حجر جا سکتی ہے.
”وہ اس وقت تنہا رہنا چاہتی تھیں اور بلڈنگ میں ایک ہی جگہ ایسی ہے جہاں تنہائی میسر ہو سکتی ہے." ایک نتیجے پر پہنچنے کے بعد اس نے لفٹ کا رخ کیا. ساتویں اور سب سے آخری فلور پر لفٹ رکنے کے بعد اس نے چھت کے دروازے کی تلاش میں نگاہ دوڑائی. جلد ہی اسے دروازہ نظر آ گیا تھا. اس فلور پر چھائی خاموشی میں دروازے کی چڑچڑاہٹ نے خلل ڈالا. دروازہ کھلتے ہی خنک ہوا کا جھونکا اس کے وجود سے ٹکرایا مگر ہوا کی یہ خنکی اس کی قدم روک نہ سکی تھی. چھت پر ایک مدھم بلب جل رہا تھا جس کی روشنی ایک مخصوس حصے کو روشن کر رہی تھی جبکہ باقی ساری چھت اندھیرے میں ڈوبی تھی. چھت کے وسط میں پانی کے ٹینکی اور وینٹیلیشن سسٹم تھا. چھت کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد الہان روشنی سے پرے ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا. اس کے دائیں جانب کچھ فاصلے پر وینٹیلیشن سسٹم کے پائپ تھے جب کہ بائیں جانب کارنر سے کچھ دور گرل تھی جس کے اس پار سڑک پر چلتی گاڑیوں کی سنہری روشنیاں ٹمٹما رہی تھیں.
”مس حجر!" اس نے بلند آواز میں اسے پکارا. اس کی آواز سن کر حجر نے تعجب سے گھٹنوں پر رکھا سر اٹھایا. جس دیوار کے ساتھ الہان ٹیک لگائے بیٹھا تھا اس سے کچھ آگے کارنر تھا اور کارنر کے دوسری جانب بنی دیوار سے حجر ٹیک لگائے بیٹھی. اس کا رخ گرل کے پار موجود سڑک کی جانب تھا. گرل اور اس دیوار میں فاصلہ بہت کم تھا اور اس مختصر سی جگہ پر وہ خود کو سمیٹے بیٹھی تھی. جب الہان اسے چھوڑ کر گیا تھا اپارٹمنٹ میں جانے کی بجائے اس نے چھت کا رخ کیا تھا. وہ اس وقت تنہائی چاہتی تھی اور اپارٹمنٹ میں فریحہ کی موجودگی کی باعث اسے تنہائی میسر نہیں تھی اس لیے اس نے چھت پر آنے میں عافیت جانی. ہوا میں موجود خنکی سے بے پروا  پچھلے چار گھنٹوں سے وہ چھت کے یخ بستہ فرش پر گھٹنوں پر سر ٹکائے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی ان لوگوں کے مرنے پر رونے میں مصروف تھی جن کا لمس بھی اسے یاد نہیں. اپنے باپ کے نام کے علاوہ وہ اپنے والدین کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی مگر اس کے باوجود بھی وہ ان سے محبت کرتی تھی. اس کی یہ محبت فطری تھی. اس کے حمیر میں یہ محبت شامل تھی. اپنے ماں باپ سے محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہی تو وہ کئی سالوں سے انہیں تلاش کر رہی تھی اور آج جب وہ تلاش ختم ہوئی تو.....  روح کو نیا روگ لگ گیا.  اپنے والدین کے ہمیشہ کے لیے دور جانے کا دکھ..... اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنی پہچان مل جانے پر خوش ہو یاں پھر اپنی والدین کے ہمیشہ کے لیے دور جانے پر افسردہ ہو. جب وہ ان سے دور تھی تب ایک امید تو تھی نا کہ وہ دنیا کے کسی گوشے میں پر سکون زندگی گزار رہے ہونگے..... مگر اب..... اب تو وہ امید بھی اس سے چھین لی گئی تھی. قسمت کی ستم ظریفی پر آنسو بہاتے اسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا تھا. کچھ لمحے پہلے دروازہ چڑچڑانے کی آواز سن کر اسے لگا تھا کہ کوئی ورکر آیا ہو گا مگر اب الہان کی پکار نے دکھ کی اتھا گہرائیوں میں ڈوبتے اس کے وجود کو حقیقت کی دنیا میں واپس لا پٹخا تھا.
”مس حجر! میں جانتا ہوں آپ یہیں کسی اندھیرے گوشے میں بیٹھی ہیں." الہان پر یقین انداز میں بولا.
(”ان کو کیسے پتا چلا میں یہاں ہوں؟") اس نے دل میں سوچا. درحقیقت الہان کی ہہاں موجودگی اس کے لیے تعجب کا باعث تھی. رونے کے باعث لگی ہچکی کا گلا گھونٹتے ہوئے وہ کوئی آواز پیدا سے کرنے سے گریز کر رہی تھی تاکہ اس کی موجودگی کی خبر الہان کو نہ ہو. وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اسے یوں بے بسی کی تصویر بنے دیکھے.
”جب میں اوپر آیا تھا تب مجھے شک تھا مگر چھت کے کھلے دروازے کو دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا تھا کہ آپ یہیں ہیں." وہ سوال جو حجر کے لبوں سے ادا بھی نہیں ہوا تھا الہان اس کا جواب دے رہا تھا. اس کی بات سنتے ہوئے حجر اپنے آنسو صاف کرنے لگی.
”آپ کی تنہائی میں خلل ڈالنے کے لیے میں معذرت خواہ ہوں. اگر بات اہم نہ ہوتی تو میں آپ کو ڈسٹرب نہ کرتا." اسے کے لہجے میں پشیمانی تھی.
”ہوا کیا ہے؟" اس نے دل میں سوال کیا.
”ًڈڈ باڈیز مل گئی ہیں. میڈیا کو ڈیڈ باڈیز ملنے کی خبر ہو گئی ہے اس وجہ سے معاملہ خاصا بگڑ گیا ہے. آفیسر رضا حمید آپ کی اجازت کے بغیر کوئی ایکشن نہیں لے سکتے اس لیے آپ کا وہاں ہونا ضروری ہے." الہان نے تفصیل بتائی. بن کہے سوال کا جواب الہان کے منہ سے سن کر وہ حیران ہوئی تھی.
(اس کے کہے بغیر وہ اس کے ذہن میں آنے والے سوالوں کے جوابات کیونکر دے رہا تھا؟) اس نے خود سے سوال کیا. اس کی سوچوں سے انجان وہ گویا ہوا
”ایک طرف آپ کا فرض ہے اور دوسری طرف جذبات... یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کرائم برانچ کا ہیڈ ہونے کی حیثیت سے اپنی ٹیم کے ساتھ کھڑی رہتی ہیں یا...  پھر یہاں دنیا سے چھپ کر جانے والوں کے لیے رونا چاہتی ہیں باوحود یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ کے رونے سے وہ واپس نہیں آنے والے." وہ نرم لفظوں میں اسے تسلی دینا چاہتا تھا مگر چاہنے کے باوجود تسلی کے دو حرف اس کے لبوں سے ادا نہ ہو سکے تھے. حجر کو ایک لمحہ لگا تھا فرض اور جذبات کے بیچ سے کسی ایک کو چننے میں.
“میں پارکنگ لاٹ میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں. اگر فرض کی پکار میں زیادہ طاقت ہوئی تو اگلے دس منٹ میں نیچے آ جائیے گا اور اگر آپ نہ آئیں تو میں سمجھ جاؤں گا رو کر وقت برباد کرنا آپ کے لیے اپنے فرض سے زیادہ اہم ہے." بلند آواز میں اپنا پیغام اس تک پہنچانے کے بعد وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور چھت کے دروازے کی جانب بڑھنے لگا. خود سے دور جاتے اس کے قدموں کی آواز سن کر حجر بھی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی کیونکہ اپنے فرض کو چننے کا فیصلہ وہ کر چکی تھی. کچھ یاد آنے پر دروازے کی جانب بڑھتے الہان کے قدم تھمے. قدموں کا رخ موڑتے نظریں جگمگاتی روشنیوں پر جمائے وہ نرم لہجے اور دھیمی آواز میں بولا
" ایک بات اور... خود کو اکیلا سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے. ہارون چچا اور پھپھو کے نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کی سالوں کی تلاش بے فائدہ گئی. ماں باپ کے علاوہ دنیا میں اور بھی بہت رشتے ہوتے ہیں. جو آپ سے محبت کرتے ہیں آپ کی دکھ میں دکھی اور خوشی میں خوش ہوتے ہیں. جو جا چکے ہیں ان کے دکھ میں جو موجود ہیں انہیں فراموش نہیں کرنا چاہیے. پھپھو کی وفات آج سے بارہ سال پہلے ہوگئی تھی مگر پھپھو کے جانے کے بعد بھی بابا نے آپ کی تلاش کا سلسلہ ترک نہیں کیا. بابا کے بعد احتشام چچا نے آپ تک پہچنے کی ہر ممکن کوشش کی.( حجر کو ڈھونڈنے کے لیے مرتضی اور احتشام سے زیادہ اس نے کوشش کی تھی مگر اپنی کوششوں کا تذکرہ, وہ نظر انداز کر گیا تھا.) یہ سب انہوں نے آپ کی محبت میں کیا ہے. پھپھو کے جانے کے غم میں ہم سب کی محبت کو فراموش مت کریں اور نہ ہی خود کو اکیلا سمجھیں. ہم اس دکھ میں آپ کے ساتھ ہیں." بڑے نامحسوس انداز میں اس کی ڈھارس بندھانے کے بعد وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا. اس کی بات سن حجر کو کچھ دیر پہلے کی سوچوں پر پشیمانی ہوئی.احتشام چچا کا شفیق چہرہ نظروں کے سامنے آیا تو اسے احساس ہوا کہ وہ واقعی کچھ دیر پہلے والدین کے غم میں مصروف ان کے مہرابان سائے کو فراموش کر بیٹھی تھی. احتشام چچا کی محبت کا احساس تو اسے ہو گیا تھا مگر الہان کو موجودگی یا تو اسے محسوس نہیں ہو رہی تھی یاں پھر وہ جان بوجھ کر اس کو نظر انداز کر رہی تھی. ان روشنیوں پر ایک الواداعی نگاہ ڈالنے کا بعد گہری سانس لیتے ہوئے وہ واپسی کی جانب گامزن ہوئی. اپارٹمنٹ پہنچ کر فریحہ کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اس نے منہ دھویا . گرد آلود کوٹ بدل کر اس نے بکٹ ہیٹ سے سر ڈھکا. یہ ہیٹ اس نے رونے کے باعث سوجھی ہوئی آنکھیں چھپانے کے لیے پہنی تھی اور اپنے اس مقصد میں وہ بہت حد تک کامیاب رہی. ان سب سے فارغ ہو کر وہ بلڈنگ کے بیرونی گیٹ کی جانب بڑھی. گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑے الہان نے ایک نظر اسے آتے دیکھ کر بے اختیار ہاتھ پر باندھی گھڑی کی جانب دیکھا. دس منٹ سے بھی کم وقت میں وہ واپس اپنی ازلی روپ کی طرف لوٹ آئی تھی. مضبوطی سے قدم اٹھا کر چلتی حجر اسے ہمیشہ کی طرح باوقار اور پر اعتماد لگی تھی. اس کے قریب آتے ہی الہان نے پیسنجر سیٹ کا دروازہ کھولا تو اس پر نگاہ ڈالے بغیر وہ خاموشی سے بیٹھ گئی. دروازہ بند کرنے کے بعد وہ گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ تک آیا. ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوتے ہی اس نے گاڑی سٹارٹ کی. گاڑی میں چھائی خاموشی نظر انداز کرتے ہوئے حجر نے اپنا بند فون آن کیا. چھت پر جاتے وقت اس نے فون بند کیا تھا کیونکہ وہ اس وقت اکیلے رہنا چاہتی تھی. فون آن کرتے ہی آفیسر رضا حمید اور مور کی ڈھیروں مسڈ کال موصول ہوئیں. مور کو اپنی خیریت کا میسج بیجنے کے بعد اس نے رضا حمید کے نمبر پر کال کی
”بیٹری ڈًیڈ ہونے کے باعث کچھ دیر پہلے فون بند تھا اس لیے آپ کی کال ریسیو نہیں کر سکی." سلام دعا کے بعد حجر نے فون بند ہونے کا جھوٹا جواز پیش کیا. اس کے یوں صفائی سے جھوٹ بولنے پر الہان نے گردن موڑ کر ایک نظر اسے دیکھا اور پھر زیر لب بڑبڑایا
”استغفر اللہ" اس کی یہ بڑبڑاہٹ حجر کے کانوں تک باآسانی پہنچی تھی مگر اس نے اس کی بڑبڑاہٹ کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا.
”جی.. میں آ رہی ہوں آپ فارینسک ٹیم سے کہیں کہ فنگر پرنٹ ریکور کرنے کی کوشش کریں." رضا حمید کے کچھ کہنے پر وہ بولی اور پھر مزید چند باتیں کرنے کے بعد اس نے فون بند کر دیا. کچھ ہی دیر میں وہ لوگ جھیل تک پہنچ گئے تھے. گاڑی رکتے ہی ایک آفیسر ان کے قریب آیا اور ان کی رہنمائی کرنے لگا. میڈیا والوں کے ہجوم سے نکل کر جھیل کے اس حصے تک گئے جہاں آفیسر رضا اور فارینسک ٹیم موجود تھی.
”کتنی ڈیڈ باڈیز ملی ہیں." حجر نے مصنوعی روشنی کے قریب کھڑے آفیسر رضا سے پوچھا.
”میم دو یہاں رکھی ہیں جب کہ تیسری وہ لوگ نکال رہے ہیں ابھی" رضا حمید نے اشارے سے بتایا. حجر نے ان کے اشارے کے تعاقب میں دیکھا و وہاں مردوں والے مخصوص بیگ کڈاور cadaver یا باڈی بیگ میں بچوں کی لاشیں پڑی تھیں. ہاتھوں پر گلوز چڑھانے کے بعد وہ ان لاشوں کی جانب بڑھی. فارینسک فوٹوگرافر مصنوعی لائٹ کی روشنی میں مختلف زاویوں سے ڈیڈ باڈیز کی تصویریں اتارنے میں مصروف تھا. پاؤں کے بل لاش کے قریب بیٹھنے کے بعد اس نے باڈی بیگ ہٹایا. باڈی بیگ ہٹتے ہی لاش کا چہرہ واضح ہوا. اس چہرے کو ایک نظر دیکھتے ہی حجر نے آنکھیں میچیں. صرف اس کا ہی نہیں وہاں موجود ہر فرد کا چہرہ واضح ہونے پر یہی ری ایکشن تھا. اس ری ایکشن کی وجہ اس لاش کے چہرے پر لگے زخم تھے. ڈیڈ باڈی کے چہرے کی دونوں رخساروں پر سے سکن اتاری گئی تھی جس کے باعث لال رنگ کا ماس نظر آ رہا تھا. ایک لمحہ آنکھیں بند کرکے اس نے اپنا حوصلہ جمع کیا پھر آنکھیں وا کیں تو وہاں صرف بے حسی تھی.
”صرف سکن کی اپر لیئر یعنی ایپی ڈرمس epidermis علیحدہ کی گئی ہے اور بڑی مہارت سے ایپی ڈرمس کو ڈرمس سے الگ کیا گیا ہے. خیر یہ لاش سعید انور کی ہے. سب سے آخر پر اغواہ ہونے والا بچہ جو اپنے باپ کی جگہ خط دینے گیا تھا مگر واپس گھر نہ لوٹا." باڈی بیگ میں بند ہونے کے باعث یہ ڈیڈ باڈی گلنے سے بہت حد تک مخفوظ رہی تھی تبھی تو حجر اس لاش کا چہرہ پہچان پائی تھی. جبکہ دوسری لاش کا باڈی بیگ چونکہ کسی جھاڑی سے لگ کر پھٹ چکا تھا تبھی اس ڈیڈ باڈی کی حالت نہایت خراب تھی. پانی میں کئی دن رہنے کے باعث مردہ بچے کی شکل پہچان میں نہیں آرہی تھی. بہت سے پولیس آفیسر ایک نظر پانی کے باعث خراب ہوئی لاش کو دیکھنے کے بعد دوبارہ اس پر نگاہ ڈالنے کی ہمت نہیں کر پائے تھے جبکہ حجر بڑے سکون سے لاش کے چہرے کو ٹھوری سے پکڑ کر اس کا معائنہ کر رہی تھی. دل ہی دل الہان اس کی ہمت کا معترف ہوا.
”کوئی فنرگر پرنٹ ملے؟" حجر نے فارینسک ٹیم کے ایک شخص سے سوال کیا.
”نہیں... پانی میں ڈوبنے کے باعث سارے فنگر پرنٹس مٹ گئے ہیں." وہ شخص بے بسی سے بولا.
”لاش پر سے فنگر پرنٹ ہٹانے کا سب سے آسان طریقے یہی یوتا ہے کہ اسے پانی پھینک دیا جائے. اَنسب unsub (اننان سبیجیکٹ unknown subject) نے بھی یہی طریقہ اپنایا ہے. جس پلاسٹک میں سعید انور کی لاش کو ڈالا گیا تھا اس کے اندرونی حصے سے فنگر پرنٹ لینے کی کوشش کریں." حجر نے انہیں نئی راہ دکھائی.
”اوکے میم" فارینسک ٹیم مستعدی سے کام کرنے لگی جبکہ حجر آفیسر رضا حمید کی جانب مٹی
”ان کو اٹوپسی autopsy ( پوسٹ مارٹم) کے لیے لے کر جائیں." اس نے آرڈر دیا. اتنی دیر میں تیسری لاش بھی وہاں لائی جا چکی تھی. حجر اب اس لاش کی جانب متوجہ تھی. وہ لاش دوسرے نمبر پر اغواہ ہونے والے بچے حمزہ عرفان کی تھی. باڈی بیگ میں بند ہونے کے باعث اس لاش کی حالت بھی بہت حد تک ٹھیک تھی اور حمزہ کے منہ پر سے بھی سعید کی طرح سکن اتاری گئی تھی. باڈی بیگ کو اب پوری باڈی سے ہٹا کر وہ تفصیلی معائنہ کر رہی تھی جب اس کی نظر حمزہ کے دائیں ہاتھ کی کلائی پر پڑی. ایک لمحے کے لیے اس کی آنکھوں میں حیرت آئی. اس کی حیرت کی وجہ حمزہ کی کلائی پر بنا باز کا نشان تھا. حجر نے جلدی سے باقی دو لاشوں کے دائیں ہاتھ دیکھے تو وہاں بھی اسی قسم کے نشان تھے. بے اختیار حجر کی نگاہ الہان تک گئی جو پہلے اس کی جانب متوجہ تھا. وہ دونوں اپنی اپنی جگہ حیران تھے کیونکہ وہ نشان ان دونوں سے جڑا تھا. کوٹ کے بازو سے اپنی کلائی اچھی طرح چھپانے کے بعد وہ ہاجرہ کی جانب متوجہ ہوئی
" ہاجرہ پتا لگاؤ کہ اسلام آباد میں کڈاور کہاں سے ملتا ہیں." اس نے کرائم اینالسٹ ہاجرہ  کو کہا پھر آفیسر سعد کی جانب مڑی
”اس جھیل کے قریب جو پارک ہے اس کے سکیورٹی گارڈز سے پوچھ گچھ کریں. پارک ہی ایسی جگہ ہے جہاں سے لاشیں جھیل میں پھینکی جا سکتی ہیں."
آفیسر بلال! آپ اس لاش کا ڈی این اے کے ذریعے پتا کریں کہ یہ کون سے بچے کی لاش ہے." اس کا شارہ اس لاش کی جانب تھا جو پانی میں زیادہ دیر رہنے کے باعث اپنی شکل کھو چکی تھی.
”آفیسر فاطمہ! آپ اس اوزار کا پتا لگائیں جس کے ذریعے اَنسب نے ان بچوں کی سکن الگ کی ہے." سب کو ذمہ داریاں سونپنے کے بعد وہ خود میڈیا والوں کی جانب بڑھنے لگی. اس کا رخ میڈیا کی جانب دیکھ دیکھ کر الہان نے اسے پکارا
”مس حجر! کیا کرنے جا رہی ہیں آپ؟"
”میڈیا کو بیان دینے لگی ہوں." بغیر قدم روکے اس نے جواب دیا.
”آفیسر رضا میڈیا کو ہینڈل کر لیں گے آپ کو میڈیا کے سامنے جانے کی ضرورت نہیں ہے." الہان نے اسے روکنا چاہا.
”اگر میڈیا کو آفیسر رضا روک سکتے تو میرے پہنچنے سے پہلے ہی وہ انہیں یہاں سے ہٹا چکے ہوتے." وہ مسلسل رپورٹرز کے قریب جا رہی تھی.
”آپ ان کو بیان نہیں دے سکتیں." اس کا راستہ روکتے ہوئے وہ ختمی انداز میں بولا اور ساتھ ہی اس نے وہاں کھڑے آفیسر رضا کو میڈیا کی جانب جانے کا اشارہ کیا.
”کیوں؟" تیکھے چتونوں سے اسے گھورتے ہوئے ححر نے سوال کیا.
”دیکھیں مس.... یہ جو بیان آپ دینے جا رہی ہیں یہ ہر نیوز چینل پر چلے گا اور یقیناً اَنسب تک بھی پہنچے گا. میں نہیں چاہتا کہ اسے آپ کے پاکستان پہننے کی خبر ملے." اس نے اسے نرمی سے سمجھانا چاہا.
”اگر اسے پتا چل جائے گا تو کیا ہوگا؟"
”آپ سمجھ نہیں پا رہی رہیں یا سمجھنا نہیں چاہتی؟" الہان نے بازو باندھتے ہوئے بھنویں اچکا کر سوال کیا.
”کیا مطلب؟" وہ جان بوجھ کر انجان بن رہی تھی.
”آپ کے یہاں آنے کی نیوز لیک ہونے پر اشتعال میں آ کر انسب نے فصیحہ کو اغواہ کیا تھا کیونکہ اس وقت اسے آپ تک رسائی حاصل نہیں تھی. اب اگر آپ پوری دنیا کہ سامنے اعلان کریں گی کہ آپ ہی کریمینل سائیکولوجسٹ حجر ہارون ہیں تو اسے آپ تک پہنچنے کی راہ مل جائے گی اور پھر وہ آپ کو باآسانی نقصان پہنچائے گا." اس نے تفصیل بتائی.
”میں مرنے کے خوف کی شکار نہیں ہوں. " وہ پر سکون انداز میں بولی. وہ دونوں اسی بحث میں مصروف تھے جب الہان کی بات پر عمل کرتے ہوئے آفیسر رضا نے میڈیا کو یہ کہہ کر وہاں سے ہٹایا کہ آٹوپسی رپورٹ آنے سے پہلے وہ کوئی بیان نہیں دے سکتے. ایک نظر میڈیا والوں سے بات کرتے آفیسر رضا کو دیکھنے کے بعد وہ غصے بھری نظر الہان پر ڈالتے ہوئے بولی
”آپ یہ سب حرکتیں کرکے مجھے خود سے متنفر کر رہے ہیں." اپنی بات کہنے کے بعد وہ مڑ کر فاریینسک ٹیم کی جانب چلی گئی. جبکہ الہان اس کی بات پر اسے دیکھ کر رہ گیا. وہ جانتا تھا کہ وہ اس کی ہٹ دھڑمی سے کی وجہ سے اس سے بدظن ہو رہی ہے مگر وہ اس کی سکیورٹی پر کمپرومائز نہیں کر سکتا تھا. وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی طرح مجرم اس تک پہنچے اور اسے مجرم سے بچانے کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کرنا چاہتا تھا چاہے اس کے لیے اسے حجر کی مخالفت ہی کیوں نہ کرنی پڑے. اتنے سالوں بعد اس کی سنو کوین اسے واپس ملی تھی اب وہ دوبارہ اسے کھونا نہیں چاہتا تھا.
…………………..


Share your reviews

SiadWhere stories live. Discover now