Siad (episode 7)

783 24 9
                                    

صیاد
ازقلم رباب تنویر

گیٹ وے بلڈنگ کے باہر کالے رنگ کی لیموزین رکی. وقفے وقفے سے وہ سب گاڑی سے باہر نکلے. الہان نے گاڑی سے نکلتے ہی آفس کا رخ کیا جبکہ باقی سب نے سائمن کے گرد گھیرا ڈالا.
”آج تو تم ہمیں بتا ہی دو کہ باس کس کی تلاش کے لیے سرگراں ہیں" پیٹر بھنویں اچکا کر بولا
”باس ہمیں بتانے سے گریز کر رہے ہیں مگر تم تو بتا سکتے ہو نہ" جارج سائمن کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا
“تم لوگوں کی نامہذب حرکتوں کی وجہ سے ہی باس تم لوگوں کو نہیں بتاتے"
”نامہذب حرکتوں سے کیا مراد ہے تمہاری.... کیا ہم نے بوئے فرینڈ بنائے ہوئے ہیں؟" اینڈی جتانے والے انداز میں بولا
”تم بات کو غلط رخ دے رہے ہو اینڈی..... میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا"
”مطلب چھوڑو...  بس ہمارے سوال کا جواب دو؟" پیٹر نے دھونس جمائی
”مجھے اس بارے میں زیادہ معلوم نہیں ہے.... بس اتنا پتا ہے کہ باس کی کوئی قریبی رشتہ دار ہے جو بچپن میں اغواہ ہو گئی تھی"
”گئی تھی؟ مطلب کہ لڑکی ہے؟"
”ہممم..... لڑکی ہے"
”اسے تلاش کرنے کے لیے باس کی کوششیں دیکھ کر تو لگتا ہے کہ وہ لڑکی باس کی بچپن کی محبت ہے اور اسی کی جدائی نے باس کو اس حال میں پہنچا دیا ہے."
”کم عقل انسان... اغواہ کے وقت اس لڑکی بلکہ بچی کی عمر ایک سال تھی اور باس کی عمر چار سال تھی. چار سال کا بچہ محبت سے واقف نہیں ہوتا اس لیے پہلی محبت اور جدائی کی داستان بند ہی رکھو"
”ویسے اگر باس کی وہ گمشدہ رشتہ دار واپس مل گئی تو ہمارا بڑا فائدہ ہوگا"
”وہ کیسے؟"پیٹر نے استفار کیا
”دیکھو اگر باس کی وہ رشتہ دار واپس مل جاتی ہے تو باس کا دھیان ہماری جانب سے ہٹ جائے گا."
”پہلے کبھی باس کا دھیان ہمارے سے ہٹا ہے؟ نہیں نا تو اس دفعہ بھی نہیں ہٹے گا"
”پہلے کبھی باس کی زندگی میں کسی محترمہ کی انٹری بھی تو نہیں ہوئی نا.... دس سال سے ہم ان پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہی مگر آج تک ہم نے باس کے آس پاس کسی لڑکی کو نہیں دیکھا ہمیشہ چھڑے چھانٹ ہی رہے ہیں....... میری یہ بات لکھ کر رکھ لو جس دن وہ لڑکی مل گئی اس دن سے ہماری آزادی کا ناختم ہونے والا دور شروع ہوگا. ہم آزاد پنچھیوں کی مانند پر پھیلائے آفس میں اڑیں گے" اینڈی نے انھیں رنگین مستقبل کی جھلک دکھائی.
”باس نے کچھ دیر پہلے جو ہمارے پر کاٹے ہیں نہ ان کی تکلیف ہمیں بھولی نہیں ہے. ہم دوبارہ اس درد سے گزرنا نہیں چاہتے اس لیے ہمیں یہ غفلت کے خواب دکھانا بند کرو اور سائمن تم یہ بتاؤ کہ آج باس کی جو میٹنگ ہے کیا وہ بھی اس سلسلے میں ہے؟"
”نہیں وہ میٹنگ تو کیس کے سلسلہ میں ہے."
”محترم سے ہے میٹنگ یا محترمہ سے؟" اینڈی اپنے مطلب کی بات پر آیا.
”محترمہ سے ہی ہے... مگر یہ محترمہ بڑی دبنگ قسم کی ہیں..... تم جیسے چھوٹے موٹے لوگوں سے بات کرنا وہ پسند نہیں کرتی."
”ہم نے کون سی لمبی کہانیاں ڈالنی ہیں اس کے ساتھ... ہماری بس ایک معصومانہ خواہش جسے تم ہی پورا کر سکتے ہو" اینڈی شیریں لہجے میں بولا.
”اپنی اس معصومانہ خواہش پر روشنی ڈالیں ذرا؟" سائمن جل کر بولا
”ہم تینوں کی گزارش ہے کہ جب وہ محترمہ تشریف لائیں تو تم بس اچھے الفاظ میں ہمارا تعارف کروا دینا" جارج اور پیٹر نے بھی چہرے پر معصومیت لانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے سر ہلا کر اینڈی کی تائید کی
”میں ایسا کیوں کروں گا؟"
”کیونکہ تم نہیں چاہتے کہ ہم تینوں کے ہاتھوں تمہاری درگت بنے" جارج نے تنبیہ کی. وہ سب اسی شغل میں مصروف تھے جب سفید رنگ کی کیب ان کے قریب رکی اور بلیک گاؤن پر بلیک ہی سکارف لیے حجر اس کیب سے باہر نکلی. وہ تنقیدی نگاہ سے اردگرد کا جائزہ لینے میں مصروف تھی جب اس کی نظر جارج اینڈی اور پیٹر کے گھیرے میں کھڑے سائمن پر پڑی تو وہ اس کی جانب قدم بڑھانے لگی. اسے اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر وہ چاروں بھی اس کی جانب متوجہ ہوئے. پہلی نظر میں تو سائمن اسے پہچان ہی نہیں پایا مگر جیسے ہی وہ اس سے کچھ قدموں کے فاصلے پر رکی تو سائمن کی آنکھوں میں شناسائی کے رنگ ابھرے
”ہیلو سائمن.... کیا حال ہے؟" امریکن لہجے میں اس نے استفار کیا
”میں تو ٹھیک ہوں..... مگر تم مجھے کچھ بدلی بدلی لگ رہی ہو. اس بدلاؤ کی وجہ جان سکتا ہوں؟" سائمن مسکراتے ہوئے بولا جبکہ باقی تینوں ان دونوں کی شکل دیکھنے میں مصروف تھے.
”جیسا دیس ویسا بھیس ..... بس یہی وجہ ہے اس بدلاؤ کی" سائمن نے اس کی بات کا جواب دینے کے لیے منہ کھولا ہی تھا جب اینڈی نے اس کے پاؤں پر پاؤں مار کر اسے اپنی جانب متوجہ کیا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے اپنا تعارف کروانے کا کہا. اس کی اس حرکت پر سائمن نےایک نظر اپنے چمکتے شوز پر لگے پاؤں کے نشان کو دیکھا پھر دانت پیس کر بولا
”حجر اس سے ملو یہ اینڈی ہے میرا کولیگ اور دور کے دوست"
“Andy Watson...  Computer Programer from University of California and Head of Art department.”
سائمن کے مختصر تعارف سے اینڈی کا دل نہیں بھرا تھا تبھی بتیسی دکھاتے ہوئے اس نے اپنا تفصیلأ تعارف کروایا. حجر نے اس کے تعارف پر رسمی مسکراہٹ چہرے پر سجائی اور سر ہلانے پر اکتفا کیا. جبکہ سائمن نے اس کے طویل تعارف پر اسے گھوری سے نوازا پھر صبر کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولا
”یہ ہے پیٹر... ہیڈ آف ایدمینسٹریشن ڈیپارٹمنٹ" اپنے تعارف پر پیٹر نے بتیس دانتوں کی نمائش کی
”یہ ہے جارج....  ہیڈ آف ٹیسٹنگ ڈیپارٹمنٹ" چند حروف پر مبنی تعارف سن کر جارج کے تاثرات بگڑے پھر خود پر قابو پا کر سائمن پر طنز کرتے ہوئے گویا ہوا
”اور یہ ہے سائمن... ہیڈ تو یہ پلینگ ڈیپارٹمنٹ کا ہیں مگر پلینگ کے علاوہ یہ ہر کام کر لیتا ہے. مثال کے طور پر اگر آپ کا کوئی رشتہ دار گم ہوگیا ہے تو آپ ان سے رابطہ کریں اور اگر آپ کو کسی سے میٹنگ رکھوانی ہے تب بھی ان سے رجوع کریں صرف یہی نہیں آپ کو کوئی بھی مسئلہ پپیش آئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں... کیونکہ سائمن ہے نہ" جارج کے بات پر حجر نے ناسمجھی سے سائمن کی جانب دیکھا
”اس کی باتوں کو سنجیدگی سے نہ لو... بقول ہمارے باس کہ اینڈی اور جارج جب بھی بولتے ہیں فضول ہی بولتے ہیں. تم چلو میٹنگ کا ٹائم ہو گیا ہے باس انتظار کر رہے ہونگے" کہتے ساتھ ہی سائمن نے حجر کو اندر کی جانب بڑھنے کا اشارہ کیا پھر جارج کو آنکھیں دکھاتے ہوئے خود بھی اندر کی جانب بڑھ گیا.
........................
یہ منظر اسلام آباد کے رہائشی علاقے میں بنے ایک گھر کا تھا. تنگ سی گلی کے آخر میں بنے اس گھر کی خستہ حالت اس میں رہنے والے خاندان کی سفید پوشی کا ثبوت تھی. بیرونی دیواروں پر سے رنگ و روغن اکھڑ جانے کے باعث سیمنٹ جھانک رہا تھا. دوسری منزل پر بنے ایک کمرے کی ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے اندر جھانکوں تو معلوم ہوتا ہے کہ گھر کی اندورنی حالت بیرونی حالت سے مختلف نہ تھی. صبح کی سنہری روشنی میں اندر کا منظر واضح تھا. ایک دیوار کے آگے سنگل بیڈ تھا اور بیڈ کے بالکل سامنے ایک خستہ حال ڈریسنگ ٹیبل رکھی گئی تھی. بیڈ کے دائیں طرف ایک استری سٹینڈ تھا جس کے ایک کنارے پر کپڑوں کا ڈھیر لگا تھا. ان کپڑوں کے پرنٹ سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ کسی لڑکی کے ہیں. اس استری سٹینڈ کے آگے ایک لڑکی کھڑی تھی جو سفید رنگ کا یونیفارم  استری کرنے میں مصروف تھی. یونیوفارم استری کرنے کے بعد وہ اسے ہاتھ میں لیے کمرے سے باہر نکل گئی پھر کچھ دیر بعد وہ اس سفید یونیفارم پہنے کمرے میں داخل ہوئی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے بال بنانے لگی. اس لڑکی کے چہرے کی جلد سفید تھی جبکہ اس کے ہاتھوں کا رنگ سانولا سا تھا جس پر سفید دھبے نمایاں تھے. اسے پھلبہری (برص) تھی اور اس مرض کے باعث ہی اس کے سر کے بال بھی سنہری رنگ کے تھے. بالوں کو ہیئر بینڈ میں جکڑنے کے بعد اس نے استری سٹینڈ پر رکھی اپنی سفید رنگ کی شادر اٹھا کر شانوں پر پھیلائی اور کمرے سے باہر نکل گئی. کمرے کے بائیں جانب بنی سیڑھیاں پانگتے ہوئے جیسے ہی وہ نچلی منزل تک پہنچی ایک آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی
“ناظرین بچوں کے اغواہ کے کیسز میں مسلسل اضافہ تشویش ناک ہے. پولیس اغواہ کار کو تلاش کرنے کی جدوجہد میں ہے مگر اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی. اس کیس کو جلد از جلد حل کرنے کے لیے پاکستان کے جانے مانے گیم ڈیویلپر الہان مرتضی نے اپنے اثر وسوخ کا استعال کرتے ہوئے بیرون ممالک سے کریمینل سائیکولوجسٹ کو تقرر کیا ہے. سائیکولوجسٹ کے پاکستان آتے ہی نئے سرے سے اس کیس کی تفتیش کا آغاز کیا جائے گا. تب تک کے لیے آپ سب سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کو اکیلے گھر سے باہر مت بھیجیں اور اگر کہیں بھی مرے ہوئے باز کی تصویر دیکھی جائے تو فوری طور پر پولیس کو اطلاع دیں." یہ آواز نیوز اینکر کی تھی جو کچن کے ساتھ بنے کمرے میں رکھے چھوٹے ٹی وی سے آرہی تھی.
”امی ناشتہ دے دیں" کچن میں جھانک کر اس نے ہانک لگائی.
"تم بیٹھو فصیحہ میں لا رہی ہوں" اس آواز کے کچھ دیر بعد ایک فربہہ مائل عورت ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لیے اس چھوٹی سی لاؤنج نما جگہ میں آئی جہاں لکڑی کا ایک صوفہ رکھا گیا تھا. وہ دیکھنے میں مکمل گھریلو خاتون لگتی تھی.
”امی صبح صبح کیا فضول خبریں لگا کر بیٹھ گئی ہیں.... چینل بدلیں" فصیحہ ٹی وی پر نشر ہونے والی خبر سن کر بیزاری سے بولی.
”تمہے اتنی اہم خبر فضول لگ رپی ہے؟ان ماؤں سے جا کر پوچھو جن کے بچے اغواہ یوئے ہیں"
”امی بچوں کے غائب ہونے کی خبریں کوئی نئی تو نہیں ہیں... ہر سال چھ مہینے بعد کوئی نہ کوئی گروپ شہر میں گھس آتا ہے اور بچے اغواہ کرتا ہے چند دن یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے پھر نہ تو اغواہ کار کا کوئی اتاپتا ہوتا ہے نا ہی بچوں کا. اغواہ کے بہت سے قصے سننے کو ملیں گے مگر کبھی یہ سنا ہے آپ نے کہ کوئی اغواہ ہونے والا بچہ باز یاب ہوا ہو؟.... نہیں نا. ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ جب اغواہ کار پکڑا نہیں جاتا بچوں کی باز یابی ہو نہیں پاتی..  تو پھر یہ تحقیقاتی کمیٹیاں کیوں بنائی جاتی ہیں, صرف عوام کو تسلی دینے کے لیے" اس کے لہجے میں تلخی گھلی تھی
”ایسا نہیں ہے"
”ایسا ہی ہے. دیکھ لیجیئے گا اس دفعہ بھی کوئی بچہ باز یاب نہیں ہوگا اور یہ جو کریمینل سائیکولوجسٹ کو تقرر کیا جا رہا ہے نا یہ بھی عوام کو بہلانے کے لیے ہے."
”اپنے اندازے لگانا بند کرو فصیحہ" وہ سختی سے بولیں.
”امی مجھے لگتا ہے کہ اس کی کیس کی کوئی نہ کوئی کڑی الہان مرتضی سے جڑی ہے. تبھی تو وہ اس کیس کی تفتیش میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے. ورنہ دبئی میں بیٹھے اس شخص کو کیا ضرورت تھی کہ اچانک سے پاکستان کے مسائل میں دلچسپی لے" صبیحہ کو ان کے سخت لہجے کو احساس نہیں ہوا تھا تبھی اپنی ہی دھن میں بولے جا رہی تھی.
”مخص مفروضات کی بنیاد پر کسی کی نیت پر شک مت کیا کرو. دلوں کے حال صرف اللہ ہی جانتا ہے وہی سب کے اعمال ان کی نیتیں دیکھ کر پرکھتا ہے. ہم کون ہوتے ہیں دوسروں کے اعمال جانچنے والے’ دوسروں کی, عبادت, لباس اور رویہ دیکھ کر ان کی نیتیں اخذ کرنے والے’ اپنی تسکین کے لیے دوسروں کو نیچا دکھانے والے؟ کسی اور کے متعلق کچھ کہنے سے پہلے ایک مرتبہ اپنا تجزیہ کر لیا کرو...  ایک دفعہ اپنے اعمال پرکھ لیا کرو... یقین مانو کسی کو کچھ کہنے کے قابل نہیں رہو گی."
وہ ڈپٹ کر بولیں
”صبح صبح تو نہ ڈانٹا کریں امی پورا دن موڈ خواب رہتا ہے پھر" اس دفعہ اس کا لہجہ دھیمہ تھا
”تم صبح صبح ایسی حرکتیں ہی نہ کیا کرو جن کے باعث میں تمہے ڈانٹوں" انہوں نے لاپروہی سے کندھے اچکائے.
”اچھا جا رہی ہوں میں کالج, آج دیر سے آؤں گی میں"
”کیوں؟"
”بتایا تو تھا کل آپ کو کہ کالج میں سپورٹس ڈے کی وجہ سے مقابلہ ہے"
”اچھا... دھیان سے جانا"
”بچے اغواہ ہو رہے ہیں لڑکیاں نہیں جو آپ اتنی فکر مند ہو رہی ہیں. مجھے نہیں کرتا کوئی اغواہ اس لیے آپ بے فکر رہیں" غیر سنجیدگی سے اس نے کہا.
”جو منہ میں آتا ہے بک دیتی ہو. ہزار دفعہ کہا ہے کہ بولنے سے پہلے سوچا کرو کوئی بھی گھڑی قبولیت کی ہو سکتی ہے."
”آپ بس مجھے ڈانٹتی ہی رہتی ہیں. جس دن آپ کی نظروں سے دور چلی جاؤں گی نا پھر آپ کو میری اہمیت کا احساس ہو گا... جا رہی ہوں میں, خدا خافظ" بغیر سوچے سمجھے اس نے اپنی بات کہی اور جواب کا انتظار کیے بغیر گھر سے باہر نکل گئی اس بات کی پروا کیے بغیر کہ اس کے الفاظ اس کی ماں کا دل دہلا گئے تھے. دل ہی دل میں انہوں نے اس کی حفظ و امان کے لیے دعا کی اور پھر اپنے روز مرہ کاموں میں مصروف ہو گئیں.
نوجوان نسل بولنے سے پہلے اگر ایک مرتبہ یہ بات سوچ لے کہ ان کی یہ بات کس پر کس انداز میں اثر انداز ہو گی اور اس بات پر دوسروں کا ردعمل کیا ہوگا تو یقین مانیے ہمارے معاشرے کی بہت سی خرابیاں دور ہو جائیں گی کیونکہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم بولنے سے پہلے نہیں بعد میں سوچتے ہیں اور سوچتے یہ ہیں کہ زبان سے نکلنے والے غلط الفاظ کو کور کس طرح کرنا ہے. اگر کوئی اچھی سی کور سٹوری سمجھ آ گئی تو ویل اینڈ گڈ اور اگر نہ ملی تو وہی روایتی جملہ کہہ دیا جاتا ہے
“It was just a slip of tongue”
بعد میں کور سٹوری سوچنے سے بہتر ہے کہ ہم الفاظ ادا کرنے سے پہلے ایک مرتبہ ان پر غور کر لیں کیونکہ گزرا ہوا وقت اور زبان سے نکلے ہوئے الفاظ واپس نہیں آتے.
............................
سیکنڈ فلور پر قدم رکھتے ہی اس نے اپنا کالے رنگ کا کوٹ اتار کر بائیں بازو پر ڈالا اور مضبوط چال چلتا ہوا ورکنگ ایریا کی جانب بڑھنے لگا. کمپنی کا ورکنگ ایریا اور آفس اس انداز میں بنایا گیا تھا کہ سٹاف کو آفس میں جانے والے کی خبر نہیں ہوتی تھی. یہی وجہ تھی کہ سٹاف اس کے موجودگی سے بے خبر تھا. اچانک سے اسے دیکھ کر سب بوکھلائے پھر اپنی بوکھلاہٹ پر قابو پا کر مودب انداز میں اسے گریٹ کرنے کے بعد اپنے کام میں مصروف ہوگئے. کچھ دیر سٹاف سے بات چیت کرنے کے بعد وہ اپنے آفس آیا. مرکزی چیئر پر بیٹھ کر اس نے کوٹ کی پوکٹ سے فون نکالا. جیسے ہی اس نے فون کی سکرین روشن کی مسیجز اور کال کی تعداد دیکھ کر اس کے ماتھے پر بل نمایاں ہوئے. زیادہ تر مسیجز نیوز چینلز کی جانب سے تھے اور چند ایک فلاحی اداروں کے تھے. یہ وہ ادارے تھے جن سے مسیج آنے کی اسے نا تو توقع تھی اور نہ ہی خواہش. اب اچانک سے ان کے اتنے زیادہ مسیجز اسے کچھ غلط ہونے کا احساس دلا رہے تھے. اپنی سوچ کی تصدیق کرنے کے لیے اس نے ایک میسج کھولا اور اسے پڑھنے لگا. پہلے پہل تو اس کے چہرے پر ناسمجھی کے تاثرات ابھرے جو بہت جلد غصے میں تبدیل ہو گئے. کن پٹی کی رگیں تنیں اور چہرے پر غصے کے باعث سرخی گھلنے لگی. پورا میسج پڑھے بغیر ہی اس نے فون کی سکرین بند کرکے اسے میز پر رکھا اور خود اٹھ کھڑا ہوا. غصے پر قابو پانے کے لیے اس نے پانی پیا پھر گلاس ونڈ کی جانب رخ کر لیا. کچھ لمحوں میں خود کو کمپوز کرنے کے بعد اس نے رخ موڑا تو نگاہ گلاس ڈور کے اس پار ایلیویٹر سے نکلتی شخصیت پر پڑی. کالے گاؤن میں ملبوس, پر اعتماد انداز میں سائمن سے کچھ فاصلے پر چلتی حجر, پہلی نظر میں الہان کو باوقار لگی تھی. ایک نظر اسے دیکھنے کے بعد اس نے نظروں کا رخ موڑ لیا. حجر جو سائمن کی پیروی میں چل رہی تھی ایک آواز پر چونکی. وہ آواز ریسیپشن پر کھڑے لڑکے کی تھی جو غالباً سائمن کو اپنی جانب بلا رہا تھا.
”تم بات سن لو اس کی میں خود چلی جاؤں گی" سائمن کو اس لڑکے کو رکنے کا اشارہ کرتے دیکھ کر حجر بولی
”نہیں میں لے چلتا ہوں تمہے" سائمن نے اس کی بات کی تردید کی جب ریسپشن پر کھڑے حماد نے اسے ایک بار پھر پکارا
”سائمن سر" اس کے دوبارہ پکارنے پر سائمن نے اسے ایک گھوری سے نوازا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے منہ بند رکھنے کی تنبیہ کی
”میں چلی جاؤں گی. تم بس یہ بتا دو کہ جانا کس طرف ہے؟" آنکھوں سے شیڈز اتارتے ہوئے وہ پر اعتماد لہجے میں بولی
”سامنے ہے آفس,باس وہاں ہی ہونگے" سائمن رسانیت سے بولا پھر حماد کی جانب بڑھ گیا. ایک نظر اردگرد دیکھنے کے بعد وہ آفس کی جانب قدم بڑھنے لگی. قریب جانے پر گلاس ڈور کے اس پار ونڈ کی جانب رخ کیے الہان کی پشت حجر کو دکھائی دی. آگے بڑھ کر اس نے دروازہ نوک کیا پھر اجازت ملنے پر اندر بڑھی. دروازہ کھلنے کی آوازہ پر الہان نے رخ موڑا تو حجر اس کو دیکھ کر چونکی. یہ وہ آخری شخص بھی نہیں تھا جس کی توقع وہ سائمن کے باس کی حیثیت سے کر سکتی تھی. جلد ہی اس نے اپنی حیرت پر قابو پایا اور مناسب قدم اٹھاتے ہوئے اس کی ٹیبل سے کچھ فاصلے پر جا رکی.
“Hajjar  Haroon... Criminal psychologist from California  Baptist University”
رسمی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے حجر نے کہا اور ساتھ ہی حجر نے اپنا دائیاں ہاتھ آگے بڑھایا
“Alhan Murtaza.... Computer programmer and CEO of game designer company Neuron”
بے تاثر چہرے سے کہتے ہوئے الہان نے اس کا ہاتھ تھاما مگر جیسے ہی اس کی نظر حجر کے ہاتھ پر پڑی اس کی آنکھوں میں حیرت در آئی. الجھی نظروں سے اس نے حجر کی جانب دیکھا اس کا انداز ایسا تھا جیسے اس کے چہرے میں کسی اور کے نقش تلاش کر رہا ہو. اس کا ہاتھ دیکھ کر چونکی تو حجر بھی تھی. البتہ دونوں نے ہی اپنی حیرانی ایک دوسروے پر ظاہر نہیں ہونے دی.
“Have a seat”
وزیٹر چیئر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے الہان نے کہا. شکریہ کہتے ساتھ ہی وہ کرسی پر براجمان ہوئی.
“What would you like to have?”
الہان نے استفار کیا
“Nothing”
ایک لفظی جواب آیا.
”ٹو کافی پلیز" اس کا منع کرنے کے باوجود الہان نے کارڈلیس پر آرڈر دیا. اس کی اس حرکت پر حجر کے ماتھے پر بل نمایاں ہوئے.اس کا سرد رویہ اور ہٹ دھرم انداز دیکھ کر حجر دل ہی دل کانفرینس ہال میں ملنے والی لڑکیوں سے متفق ہوئی. یہ شخص واقعی میں عجیب تھا عجیب نہیں بلکہ عجیب و غریب تھا.( پہلی ملاقات میں حجر اسے عجیب وغریب کے لقب سے نواز چکی تھی).
”کیس کے متعلق تو سائمن نے آپ کو آگاہ کر ہی دیا ہو گا؟" الہان نے سوال کیا
“ہممم بہت حد تک"
”فائل سٹڈی کی آپ نے؟"
”فائل دیکھی ہے میں نے مگر فائل میں بہت سے پوئنٹ مسنگ ہیں"
”کون سے پوئنٹس؟" الہان کے سوال کرنے پر حجر نے اپنے ٹریولنگ بیگ سے کیس کی فائل نکالی اور جس صحفے پر بچوں کی معلومات لکھی تھی وہ صحفہ کھول کر فائل الہان کی جانب بڑھائی جسے اس نے خاموشی سے تھام لیا.
”اغواہ ہونے والے بچوں کی عمر کے بیچ کے فرق پر غور کریں. ہر اغواہ ہونے والا بچہ پچھلے اغواہ ہونے والے بچے سے دو ماہ بڑا ہے مگر تیسرے اور چھوتھے نمبر پر اغواہ ہونے والے بچوں کی عمر میں چار ماہ کا فرق ہے صرف یہی نہیں تیسرے اور چوتھے کے علاوہ باقی سب کیسز میں بچے تقریباً ایک ماہ کے فرق سے اغواہ کیے گئے ہیں جبکہ تیسرے اور چوتھے کیس میں دس دن کم دو ماہ کا فرق ہے." لمحے کے لیے وہ رکی تو الہان نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا.
”اس دو ماہ کے عرصے کے دوران ایک اور بچہ اغواہ ہوا ہے. اب تک پانچ نہیں چھ بچے اغواہ ہو چکے ہیں جن میں سے پانچ کے متعلق رپورٹ درج کروائی گئی ہے اور ایک بچے کی گمشدگی ابھی منظر عام پر نہیں لائی گئی." اس کی بات ابھی ختم ہی ہوئی تھی جب آفس کا دروازے پر دستک ہوئی. پھر الہان کے اجازت دینے پر ایک شخص ہاتھ میں ٹرے لیے اندر داخل ہوا. اس ٹرے میں کافی کے کپ تھے جس میں ایک اس نے حجر کے سامنے رکھا اور دوسرا الہان کے سامنے رکھ کر وہ شخص خاموشی سے باہر نکل گیا.
”آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہیں؟" الہان نے گفتگو کا سلسلہ دوبارہ جوڑا.
”آپ شاید بھول رہے ہیں کہ میں ایک کریمینل سائیکولوجسٹ ہوں. مجرم کی سوچ, احساسات اور رویہ سمجھ کر ان کا اگلا قدم اخذ کرنا میرا پروفیشن ہے." کندھے اچکاتے ہوئے اس نے جواب دیا.
"ایک بات اور یہ اغواہ کا نہیں سیریل کلنگ کا کیس ہے." پر اعتماد لہجے میں بولتے ہوئے وہ الہان کو ایک لمحے کے لیے ہلا گئی تھی.
”سیریل کلنگ؟ اگر یہ سیریل کلنگ کا کیس ہے تو پھر اب تک کسی بچے کی لاش کیوں نہیں ملی؟"
”لاش تلاش بھی تو نہیں کی گئی..... ہر کوئی بچے تلاش کر رہا ہے تبھی انہیں مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے. پولیس سے کہیں کہ بچوں کی بجائے ڈیڈ بوڈیز تلاش کریں." اس کی بات پر الہان اسے ایک نظر دیکھ کر رہ گیا. بچوں کے مرنے کی بات اس نے کتنی آرام سے کہی تھی جیسے کسی کے مرنے سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا. ( الہان نے دل ہی دل میں اسے بے حس کے لقب سے نوازا). مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ ایسے کیسز ہینڈل کرنا اس کا روز کا کام تھا. وہ اس سب کی عادی تھی اسلیے چند افراد کا مرنا اسے دکھ میں مبتلا نہیں کرتا تھا.
”آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہیں کہ بچوں کا قتل ہو چکا ہے" الہان ایک بار پھر سے خود کو یہ سوال کرنے سے روک نا پایا.
“I am known for my expertise on serial killers.”
"اور ویسے بھی پہلے بچے کو اغواہ ہوئے چھ مہینے ہو چکے ہیں صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے بچے کی زندہ ہونے کی امید رکھنا سراسر بے وقوفی ہے. بھلا کوئی کسی کو چھ ماہ بے فضول قید میں کیوں رکھے گا"
”رکھنے والے تو دوسروں کو آٹھ سال بھی بے فضول قید میں رکھتے ہیں." اس کے خود کلامی کے انداز میں کہنے پر حجر نے بھنویں اچکائیں.
”کیا مطلب؟" حجر کا سوال سن کر اسے نادانستنگی میں کہہ گئی اپنی بات کا احساس ہوا.
”کچھ نہیں"
”کیس کی پروسیڈنگ کب سے شروع کرنی ہے؟" اس کا گریز دیکھ کر حجر نے موضوع بدلنے کی غرض سے سوال کیا.
”کیس کی پروسیڈنگ آپ پر انحصار کرتی ہے کیونکہ اس کیس کو ہینڈل کرنا پولیس کے بس کی بات نہیں. جس دن آپ پاکستان آئیں گی کیس کی کاروائی اسی دن شروع کر دی جائے گی اسلیے آپ بتا دیں کہ کب تک پاکسستان آ سکتی ہیں؟" پاکستان کے نام پر حجر کے چہرے پر خوشگوار حیرت ابھری. اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ کیس پاکستان کا ہے. سائمن سے اس کی اس متعلق بات نہیں ہوئی تھی اور فائل سٹڈی کرتے ہوئے اس نے اسلام آباد کا نام پڑھا تھا مگر اسے یہ پتا نہیں تھا کہ اسلام آباد پاکستان کا شہر ہے. اب اچانک الہان سے پاکستان کا ذکر سن کر اسے خوشی محسوس ہوئی تھی کہ کیس کے بہانے ہی سہی وہ سارہ کے ملک جا سکے گی. اس ملک جس کے باشندوں کی محبت کا ذکر اس نے سارہ کے منہ سے سنا تھا. جہاں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو دوسرے ملکوں میں نہیں. اپنی خوشی پر اس نے جلد ہی قابو پایا.
”میں ایک دو دن میں آجاؤں گی پاکستان .آپ مقامی پولیس سے کہیں کہ بچوں کی لاشیں تلاش کرنا شروع کریں کیونکہ ڈیڈ باڈیز کے ذریعے ہی ہم مجرم تک پہنچ سکتے ہیں"
”ٹھیک ہے. جب دن کنفرم ہو جائے بتا دیجئے گا تاکہ ٹکٹ اور ویزا وغیرہ آپ کو بھجوایا جا سکے"
”کیس کی کاروائی شروع کرنے کے لیے مجھے لیگل پرمٹ اور پولیس فورس پر اتھوریٹی چاہیے ہو گی."
”یہ سب معملات میں سمبھال لوں گا. کیس لینے کے بدلے میں اگر آپ کی کوئی ڈیمانڈز ہیں تو بتا دیں"
”ڈیمانڈز تو کوئی نہیں ہیں مگر چند ایک سوالات ہیں جن کے جواب چاہیں."
”کون سے سوالات؟" الہان نے بھنویں اچکائیں.
”دیکھیں مسٹر سی ای او.... اگر پیشنٹ ڈاکٹر کو اپنی بیماری کے متعلق ٹھیک سے نا بتائے تو ڈاکٹر اس کے مرض کی تشخیص نہیں کر سکتا اور اگر مجرم وکیل کو اپنے جرم کے متعلق سچ سچ نا بتائے تو وکیل کورٹ میں اس کے حق کے لیے نہیں لڑ پاتا" لمحے کے لیے وہ رکی
”بالکل اسی طرح اگر آپ مجھے کیس کے متعلق اور اس کیس سے اپنے تعلق کے بارے میں صاف صاف نہیں بتائیں گے تو کیس کو حل کرنا میرے لیے مشکل ہو جائے گا."
”تو آپ ان ڈائیریکٹلی مجھ سے یہ پوچھ رہی ہیں کہ میرا اس کیس سے کیا تعلق ہے؟"
دونوں کہنیاں میز پر ٹکاتے ہوئے اس نے سوال کیا.
”نہیں... میں آپ سے ڈائیریکٹلی یہ پوچھ رہی ہوں کہ اس کیس میں آپ کی اس قدر انوالومنٹ کی وجہ کیا ہے؟"
”اگر کوئی اور سوال پوچھنا ہے تو وہ بھی پوچھ لیں. ایک دفعہ ہی آپ کے سارے سوالات کے جوابات دوں گا."
”آپ نے مجھے اپروچ کس طرح کیا؟"
”آپ ایک پبلک فگر کی حیثیت رکھتی ہیں. پچھلے کیس کو آپ نے جس ذہانت سے حل کیا ہے اس کے باعث بہت دن تک آپ کا نام نیوز ہیڈ لائنز کا حصہ بنا رہا ہے. اس صورت حال میں میرا اس کیس کے لیے آپ کو اپروچ کرنا کوئی حیران کن بات نہیں ہے."
”اگر یہی بات ہے تو میرے ایک بار منع کرنے پر آپ پیچھے کیوں نہیں ہٹے اور بار بار کیس کی فائل دیکھنے پر زور کیوں دیتے رہے؟ آپ کو کیوں یقین تھا کہ فائل دیکھنے کے بعد میں کیس لینے پر راضامند ہو جاؤں گی؟" اپنے ذہن میں موجود ہر سوال کو الفاظ کی شکل میں ڈھالتے ہوئے وہ گویا ہوئی.
”ویل... یہ کیس صرف آپ ہی حل کرسکتی پیں اس لیے میں چاہتا تھا کہ کسی طرح آپ یہ کیس لینے پر راضی ہوجائیں اور مجھے یقین تھا کہ فائل دیکھنے کے بعد آپ راضی ہو جائیں گی کیونکہ جس طرح ڈاکٹر اپنے مریض کی تکلیف دیکھ کر اس کا علاج کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے. جس طرح وکیل مجرم کی درد بھری کہانی سن کر اس کی سزا کم سے کم کروانے پر راضا مند ہو جاتا ہے اسی طرح آپ بھی معصوم بچوں کو ظالم صیاد کی قید میں  دیکھ کر انہیں بچانے سے خود کو روک نہیں پائیں گی." اس کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے الہان نے جواب دیا. 
”پہلے سوال کا جواب؟"
”میں اپنے ملک سے اور اپنی قوم سے محبت کرتا ہوں تبھی انہیں مشکل میں دیکھ کر ان کی مدد کر رہا ہوں. اپنے ملک کے بچوں کو واپس ان کے گھر تک پہنچانا چاہتا ہوں اس لیے اس کیس میں انوالو ہو رہا ہوں"
”اگر آپ کو اپنے ملک سے اتنی ہی محبت ہوتی تو آپ دبئی کی بجائے اپنی کمپنی پاکستان میں بناتے. خیر آپ نے جو وجوہات بتائیں میں نے سن لیں وہ علیحدہ بات ہے کہ میں ان سے مطمئن نہیں ہوئی." اس کی بات سن کر الہان کو اس بات کا احساس شدت سے ہوا کہ وہ کوئی عام لڑکی نہیں تھی جو آنکھیں بند کرکے اس کی باتوں پر یقین کر لیتی وہ حجر تھی ایک سائیکولوجسٹ.... جو انسان کے تاثرات جانچ کر ان کا دماغ پڑھ لیتے ہیں اور جھوٹ کے لبادھے میں چھپے ہوئے سچ تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں.
”کمپنی پاکستان میں بنانے یا نہ بنانے سے حب الوطنی کا کوئی تعلق نہیں ہے. آپ بھی تو ناروے سے تعلق رکھنے کے باوجود American Psycological Association  سے منسلک ہیں."
”نو ڈاؤٹ میں American Psycological Association سے منسلک ہوں.... مگر میں نے کبھی ناروے سے محبت کا دعوہ نہیں کیا."
”خیر آپ چھپانا چاہتے ہیں تو میں اصرار نہیں کروں گی." (میں خود ہی پتا لگا لوں گی) یہ بات اس نے دل میں کہی تھی.
”چلیں پھر پاکستان میں ملتے ہیں." اپنی سیٹ سے اٹھتے ہوئے وہ بولی. اس کو اٹھتا دیکھ کر الہان بھی اپنی کھڑا ہوا.
”یہ میرا کارڈ ہے. جب پاکستان جانے کے دن کا انتخاب کر لیں تو مجھے بتا دیجئے گا اور اگر کیس کے متعلق کوئی کیوری ہو تو پوچھ لیجیئے گا." کہتے ساتھ ہی الہان نے ہاتھ میں پکڑا کارڈ اس کی جانب بڑھایا جسے اس نے خاموشی سے تھام لیا اور دروازے کی جانب بڑھنے لگی. الہان بھی میزبان کے آداب نبھاتے ہوئے اسے دروازے تک چھوڑنے گیا. دروازے تک پہنچ کر وہ رکا اور ہاتھ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے بے تاثر چہرہ لیے وہ بولا
”آپ سے مل کر خوشی ہوئی. انشاء اللہ جلد ہی دوبارہ ملاقات ہوگی."
”آپ سے مل کر بھی خوشی ہوئی" اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے اس دفعہ وہ بھی بے تاثر چہرہ لیے بولی. ابھی اس کا جملہ مکمل ہی ہوا تھا کہ سائمن ان دونوں کوباہر آتا دیکھ کر ان کی جانب بڑھا.
”ہو گئی میٹنگ؟" سائمن ان دونوں سے مخاطب کیا.
”ہمم" حجر نے جواب دیا جبکہ الہان نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا.
”گڈ... جس کام کے لیے تم دبئی آئی تھی وہ ہو گیا؟" اب کی بار اس نے حجر سے سوال کیا نہیں.
”نہیں"
”تو پھر اب؟ رکو گی یہاں؟"
”نہیں... یہاں سے کچھ حاصل نہیں ہونا مجھے اس لیے جا رہی ہوں واپس" اس کے لہجے میں اداسی تھی. ان دونوں کو باتوں میں مصروف دیکھ الہان نے واپسی کی جانب قدم بڑھائے تھے جب اس کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی. اس کی آواز میں گھلی اداسی سے وہ چونکا ضرور تھا مگر ظاہر کروائے بغیر آفس میں چلا گیا.
”کب کی فلائٹ ہے؟"
”کچھ دیر بعد کی ہے. ائیر ہورٹ ہی جا رہی ابھی"
”چلو میں ڈراپ کر دیتا ہوں تمہے"
”میں چلی جاؤں گی سائمن" اس نے انکار کیا.
”موسم بہت خراب ہے. کیب ملنا مشکل ہے اس لیے ضد نہ کرو میں ڈراپ کر دیتا ہوں تمہے"
”میں کیب کروانے کوشش کرتی ہوئی. اگر کوئی مسئلہ ہوا تو کال کر دوں گی تمہے"
”اپنی مرضی ہی چلانا ہر وقت" سائمن کے جل کر بولنے پر وہ مسکرائی اور اختتامی کلامات کہتے ہوئے ایلیویٹر کی طرف بڑھنے لگی. اسے سی آف کرنے کے بعد سائمن الہان کے آفس میں گیا اور کرسی پر گرنے کے انداز میں بیٹھتا ہوا بولا
”کیسی رہی میٹنگ؟"
”میٹنگ تو ٹھیک تھی مگر سائیکولوجسٹ صاحبہ کچھ بدلی بدلی لگ رہی تھیں." وہ پر سوچ انداز میں بولا. الہان کی بات سن گرنے کے انداز میں بیٹھا سائمن ایک دم سیدھا ہوا پھر جانچتی نظروں سے اس کی جانب دیکھتا ہوا بولا
”بدلی بدلی سے کیا مراد ہے آپ کی؟ کیا آپ پہلے اس سے مل چکے ہیں؟"
”میں نے ایسا کب کہا؟" سائمن کے صحیح اندازے پر وہ چونکا پھر خجل ہو کر بولا
”کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے." لبوں پر شریر مسکراہٹ سجائے سائمن گنگنانے کے انداز میں گویا ہوا.
”پروفیٹک مونسٹر اب آپ مجھ سے چھپائیں گے؟ مجھ سے؟" سائمن نے اسے ایموشنل بلیک میل کرنا چاہا مگر وہ بھی الہان مرتضی تھا. اتنی جلدی کہاں اس نے کسی کے قابو آنا تھا. اسے قابو کرنے والی صرف ایک ہی تھی جو فل حال اسے میسر نہیں تھی.
”چلیں کوئی نہیں نا بتائیں...  مگر ایک بات یاد رکھیے گا حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے" اس کو اگنور کرنے کے لیے اس نے فون کی جانب ہاتھ بڑھایا تو اسے کچھ دیر پہلے موصول ہونے والے پیغمات یاد آئے.
”سائمن" سنجیدگی سے اس نے سائمن کو پکارا
”جی باس" اس کا سنجیدہ چہرہ دیکھ کر وہ بھی شرافت کے جامے میں واپس آتا ہوا بولا
”اس کیس میں انوالو ہونے سے پہلے میں نے تمہے کیا بات کہی تھی؟"
”یہی کہ آپ کی انوالومنٹ کے متعلق کسی نیوز چینل یا اخبار میں کوئی خبر نہ آئے."
”تو پھر یہ کیا ہے؟" فون پر ایک ویڈیو چلا کر اس نے فون سائمن کی جانب بڑھایا. وہ ویڈیو ایک نیوز اینکر کی تھی جو کیس میں اس کی مداخلت اور اس کے اثرو سوخ کی وجہ سے کریمینل سائیکولوجسٹ کی تقرری کے متعلق بتا رہا تھا.
”باس آپ فکر نا کریں یہ ویڈیو میں ابھی ڈلیڈ کروا دیتا ہوں" وہ سب کمپیوٹر پروگرامر تھے اور ان کا گروپ یونیورسٹی میں ہیکرز کے نام سے مشہور تھا. ان سب میں ہیکنگ اور پروگرمنگ سکلز سب سے اچھی الہان کی تھیں.
”یہ نیوز ٹی وی پر ٹیلی کاسٹ ہو چکی ہے اسلیے یہ ویڈیو ڈلیٹ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں"
”سب بڑے بڑے نیوز چینلز کو میں نے آپ کے متعلق کوئی بھی خبر نشر کرنے سے منع کر رکھا ہے. جس نیوز چینل نے یہ خبر لیک کی ہے یہ کوئی چھوٹا سا چینل ہے جو کچھ عرصہ پہلے ہی بنایا گیا ہے."
”جو ہونا تھا ہو گیا مگر آئندہ اس بات کا خیال رکھنا کہ میرے متعلق کوئی بھی نیوز بغیر میری اجازت کے ٹی وی یاں سوشل میڈیا تک نا پہچے." کچھ لمحوں کے لیے وہ رکا پھر دوبارہ گویا ہوا
”اور ایک دفعہ چیک کر لو کہ کہیں نیوز کے ساتھ میری تصویر تو نہیں لگا دی؟"
”باس آپ کی تصویر نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ آپ کی تصویر کسی بھی سوشل سائیٹ پر نہیں ہے."
”اچھا" وہ اپنی ذاتیات میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتا تھا. یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنی ایک بھی تصویر سوشل میڈیا پر نہیں لگائی تھی اور کسی دوسرے شخص کو بھی یہ اجازت نہیں تھی کہ اس کی تصویر کسی سائٹ پر لگائے. اگر کوئی لگا بھی دیتا تو اس کی کمپنی میں موجود ہیکرز اس تصویر کو نا صرف ڈلیٹ کرتے بلکہ اس بندے کے اکاؤنٹ کو بھی بند کر دیتے تھے. اس کے فینز صرف اس کے نام سے واقف تھے.
”خیر.... ڈرائیور سے کہو گاڑی نکالے مجھے ائیرپورٹ کے لیے نکلنا ہے" آفس ٹیبل کے دراز سے اپنا ٹریولنگ بیگ نکالتے ہوئے بولا.
”ڈرائیور کو میں نے واپس بھیج دیا ہے. آپ کو میں خود ڈراپ کر دیتا ہوں." کہتے ساتھ ہی سائمن اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا
”تم نکالو گاڑی میں ذرا اینڈی, جارج اور پیٹر سے مل لوں." اس کی بات پر سر ہلا کر سائمن لفٹ کی طرف بڑھ گیا جبکہ وہ ورکنگ ایریا کی طرف قدم بڑھانے لگا. پارکنگ سے گاڑی نکال کر وہ بلڈنگ کے مین گیٹ کے سامنے لایا ہی تھا جب اس کی نظر حجر ہر پڑی جو غالبا کیب کے انتظار میں کھڑی تھی. ایک نظر گرجتے آسمان کو دیکھنے کے بعد وہ گاڑی سے نکل کر اس کے قریب گیا جو ہاتھ میں پکڑے فون کی جانب متوجہ تھی.
”چلو" اس سے چند قدم کے فاصلے پر رک کر وہ بولا
”میں ابھی تمہے ہی کال کرنے والی تھی."
”نظر آ رہا ہے مجھے. کبھی پہلی مرتبہ میں بھی میری بات سن لیا کرو" سائمن نے شکوہ کیا.
”ویسے تم یہاں کرنے کیا آئے تھے؟"
”باس کو چھوڑنے ائیرپورٹ جا رہا ہوں." باتوں کے دوران ہی وہ گاڑی تک پہنچ گئے تھے. بیک سیٹ کا دروازہ کھول کر سائمن نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا.
”تم نے کبھی بتایا ہی نہیں کہ تم نیورون کمپنی کا حصہ ہو؟" گاڑی میں بیٹھ کر حجر نے سوال کیا.
”کبھی موقع ہی نہیں ملا. کیا تم نے ہماری کمپنی کے متعلق سن رکھا ہے؟"
”ہمم... اپنی کولیگز اور نورہ کے منہ سے سنا تھا میں نے اس کمپنی اور ہنٹر گیم کے متعلق اور پھر کچھ دن پہلے میں نے گیم کی سائٹ وزٹ کی تھی." (گیم کھیلنے والی بات وہ گول کر گئی تھی)
”اگر ٹائم ملے تو کھیلنا ضرور خاص طور پر تیسرا لیول" سائمن نے تاکید کی
”تیسرے لیول میں ایسا کیا ہے؟"
”میری آواز... میرا مطلب جب تیسرا لیول شروع ہوتا ہے تو سپیکرز پر انسٹرکشنز دینے کے لیے جو آواز ابھرتی ہے وہ میری ہے." اس کی بات پر مسکراتے ہوئے حجر نے اچانک گردن موڑی تو اس کی نظر بلڈنگ کے گیٹ پر پڑی جہاں سے الہان چلتا آرہا تھا. ایک نظر اس پر ڈال کر حجر نے نظریں فون پر مرکوز کر دیں. کوٹ بازو پر ڈالے, دائیں ہاتھ سے بال درست کرتا وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے گاڑی کی بیک سیٹ کے قریب آ کر رکا. مگر کھلی کھڑکی سے بیک سیٹ پر حجر کو بیٹھے دیکھ کر وہ نامحسوس انداز میں پیسنجر سیٹ کی جانب بڑھ گیا. اس کی یہ حرکت کسی اور نے نا سہی مگر حجر نے ضرور محسوس کی تھی کیونکہ اس کی نظریں بے شک اپنے فون پر تھیں مگر دھیان اسی کی طرف تھا. ابھی انہیں نکلے کچھ ہی دیر ہوئی تھی جب موسلادھار بارش شروع ہوگئی. پورا راستہ حجر خاموشی سے بادلوں کی اٹھکھیلیاں دیکھنے میں مصروف رہی تھی جبکہ سائمن اور الہان میں چھوٹے موٹے جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا تھا. ایرپورٹ کے قریب پہنچ کر سائمن حجر سے مخاطب ہوا.
”کون سی ایر لائن ہے حجر؟"
”نورویجین ایرلائن" حجر نے فلائٹ کا نام بتایا.
”نورویجین ایر لائن زیادہ تر ٹرمینل ون سے ہی فلائے کرتی ہیں مگر کبھی کبھار ٹرمینل تبدیل بھی ہو جاتا ہے. تم ایک دفعہ ٹکٹ سے ٹرمینل دیکھ لو." اس گفتگو کے دوران الہان نظریں موبائل پر مرکوز کیے ان سے لاتعلق نظر آرہا تھا.
”میں نے دیکھا تھا ٹرمینل ون ہی ہے."
”باس آپ کی کون سی فلائٹ ہے؟" اب کی بار سائمن الہان سے مخاطب ہوا.
”ایمیریٹس"
”آپ کا تو تیسرا ٹرمینل ہو گا."
”ہمم"
”آپ دونوں کی فلائٹس میں چند منٹوں کا ہی فرق ہے. حجر کی فلائٹ پہلے ہے اس لیے پہلے تمہے ڈراپ کر دیتا ہوں میں" سائمن کے بات ہر اس نے سر ہلایا. کچھ دیر بعد سائمن نے گاڑی دبئی ائیر پورٹ کے پہلے ٹرمینل کے قریب روکی. گاڑی کے رکنے پر حجر باہر نکلنے لگی جب سائمن بولا
”مور اور فار کو میری طرف سے گریٹنگز دینا اور ذرا مور کے گھر بھی چکر لگا لیا کرو. جب بھی میری ان سے بات ہوتی ہے وہ یہی کہتی ہیں کہ حجر تو جب سے اپنے گھر میں شفٹ ہوئی ہے ہمیں بھول ہی گئی ہے."
”اور کوئی حکم؟" اس کے حکمیہ انداز پر حجر نے اس پر طنز کیا جس کا پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا تھا.
”ابھی کے لیے اتنا ہی کافی ہے. اپنا خیال رکھنا" اب کی بار اس کی بات پر حجر مخض سر ہلا کر گاڑی سے نکلی اور بارش سے بچنے کے لیے جلدی سے ایئرپورٹ کے اندرونی حصے کی جانب بڑھ گئی. اس کے نکلتے ہی سائمن گاڑی زن  سے بھگا لے گیا.
.......................
ہاتھ میں ٹرے لیے مور لان میں داخل ہوئیں اور لان کے اس حصے کی جانب  بڑھنے لگیں جہاں ایرک پائیپر براجمان تھے. قریب پہنچ کر انہوں ٹرے میں رکھا ایک کافی کا مگ فار کی جانب بڑھایا جسے انہوں نے خاموشی سے تھام لیا.
”کس کا فون تھا ایرک؟" انہوں نے کچھ دیر پہلے موصول ہونے والے فون کے بارے میں استفار کیا.
”سلمان کا" کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے فار نے جواب دیا.
”ایسا کیا کہا ہے اس نے جو آپ سوچ میں ڈوبے ہیں."
”حجر دبئی گئی ہے."
”کیا!!!؟"
”ہمم! آج ہی گئی ہے. وہاں پہنچ کر اس نے سلمان سے رابطہ کیا تھا اور ملنے گئی تھی."
”مگر کیوں؟"
”اپنے خاندان اور اپنے ملک کے بارے میں معلومات لینے." فار کی بات سن کر مور ایک لمحے کے لیے کچھ بول نا پائیں.
”آپ اسے روکتے کیوں نہیں؟"
”میں اسے روکنے کا حق نہیں رکھتا اور وہ کوئی غلط کام تو نہیں کر رہی جو میں اس روکوں. اپنی فیملی کی تلاش کرنا اس کا حق ہے."
”آپ کی انہی باتوں کے باعث وہ اتنی خود سر ہو گئی ہے."
”حجر خود سر نہیں ہے الیکزینڈرہ. وہ ہر چھوٹا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے مجھ سے رائے لیتی ہے."
”تو پھر اس نے دبئی جانے سے پہلے آپ سے کیوں نہیں پوچھا؟ مجھے تو اس لڑکی کی سمجھ نہیں آتی. پتا نہیں کیا کرتی پھر رہی ہے"
”آپ نے کبھی اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی اگر آپ کوشش کرتیں تو جان جاتیں کہ وہ ہمیں بغیر بتائے کیوں گئی ہے؟ آپ نے کبھی وقت کے ساتھ ساتھ اس کے رویے میں آنے والے بدلاؤ پر غور کیا ہے؟"
”کیا ہوا ہے اس کے رویے کو؟ وہ تو شروع سے ہی ایسی ہے تنہائی پسند اور خاموش مزاج"
”وہ ایسی نہیں تھی الیکزینڈرہ.... پہلے وہ بھی شوخ اور چنچل ہوا کرتی تھی اپنی عمر کے دوسرے بچوں کی طرح. اس کے رویے میں بدلاؤ اس دن سے آنا شروع ہوا تھا جب ہم نے اسے یہ بتایا تھا کہ وہ ہماری سگی اولاد نہیں ہے. تیرہ سال کی عمر میں اسے پتا چلا تھا کہ ہم اس کے ماں باپ نہیں ہیں اور جب سے اسے یہ حقیقت معلوم ہوئی وہ اپنے خول میں سمٹنے لگی. اس نے ہم سے فرمائشیں کرنا, ہم سے لاڈ اٹھوانا, اپنی باتیں منوانا ترک کر دیا حتی کہ مجھ سے پوکٹ منی لینا بھی اور اگر میں زبردستی اسے پوکٹ منی دیتا تو وہ اسے اپنی ذات پر خرچ کرنے کی بجائے جمع کرتی تھی پھر ان جمع کیے ہوئے پیسوں کا آپ کے لیے کوئی تحفہ خرید لاتی. اپنا حق سمجھ کر وصول کرنے کی بجائے محبت سے دی گئی ہماری کسی بھی چیز کو وہ خود پر احسان گردانتی تھی. اس نے خود پر یہ بات واضح کر دی تھی کہ اس کا ہماری کسی بھی چیز پر کوئی حق نہیں ہے. اس اجنبی ملک میں وہ اکیلی ہے اس کا کوئی نہیں ہے. تنہائی کے اس احساس نے اسے کے باتیں چھین لیں,اس کے قہقے مسکراہٹ میں سمٹ گئے اور اس شوخی ہوا میں تحلیل ہو گئی. اسے اپنا بوجھ خود اٹھانا ہے اسی دھن میں ہائی سکول میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ اس نے ہمارے منع کرنے کے باوجود بھی پارٹ ٹائم جاب شروع کر دی. ناروے کی یونیورسٹی میں پڑھنے کی بجائے اس نے امریکہ کی یونیورسٹی میں پڑھنے کو فوقیت دی کیونکہ وہاں اسے سکالر شپ پر ایڈمشن ملا تھا اور پھر پڑھائی ختم ہونے کے بعد جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو گئی تو اس نے الگ گھر لے لیا. یہ سب اس نے بڑے نا محسوس انداز میں کیا. اس نے ہمیں خبر تک نہیں ہونے دی اور اپنی ذمہ داری بھی اپنے سر لے لی. آپ جانتی ہیں یہ سب اس نے کیوں کیا؟" کچھ لمحے رک کر انہوں نے مور کے جواب کا انتظار کیا مگر مور تو یہ ساری باتیں سن کر کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں رہی تھیں. ان کی جانب سے کوئی جواب نہ پا کر وہ دوبارہ گویا ہوئے
”یہ سب اس نے ایک خوف کہ زیر اثر کیا ہے اور خوف یہ تھا کہ کہیں ہم اس کی ذمہ داریوں سے تنگ آکر اسے خود سے الگ نہ کر دیں. کہیں ہم اسے دور نا کر دیں اس خوف کے زیر اثر وہ خود ہم سے دور ہوتی چلی گئی. وہ ہماری خود سے محبت کی قدر کرتی ہے مگر وہ خود کو ہم میں سے ایک نہیں سمجھتی. یہ ملک, ہم لوگ اس کے اپنے نہیں ہیں. اسے یہاں کبھی اپنائیت کا احساس نہیں ہوا اور حجر جیسی حساس لڑکی اس اپنائیت کے احساس کی کشش میں اپنے ملک اپنے خاندان کی تلاش میں ہے. کیا آپ نے یہ بات محسوس کی ہے کہ گزرے سالوں میں اس نے کبھی ہمارے سامنے اپنے ماں باپ کا ذکر نہیں کیا کیونکہ اسے لگتا ہے کہ اس ذکر سے ہمیں تکلیف ہوگی. ہمیں یہ احساس ہوگا کہ شاید ہماری محبت میں کوئی کمی رہ گئی ہے تبھی وہ اپنے ماں باپ کے پاس جانا چاہتی ہے اور پچھلے ہفتے بھی اپنی خواہش کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس نے ہم سے ماضی کے متعلق سوال کیا ہے نا کہ اپنے ماں باپ کے متعلق. اتنے سال ہم نے اسے پال پوس کر بڑا کیا اس  لیے وہ ہماری احسان مند, ہماری عزت کرتی ہے اور شاید ہم سے محبت بھی کرتی ہے تبھی ہمیں تکلیف پہنچانے سے گریز کرتے ہوئے اپنے خاندان تک پہنچنے کے لیے کی جانے والی کوششوں سے ہمیں بے خبر رکھ رہی ہے. کہیں ہمیں تکلیف نہ ہو صرف اسی وجہ سے اس نے ہمیں دبئی جانے کے بارے میں نہیں بتایا." کچھ دیر لان میں خاموشی چھائی رہی جسے مور کی آواز نے توڑا
”آپ اتنا سب کچھ کیسے جانتے ہیں؟"
”حجر جب اداس ہوتی ہے تو کیا کرتی ہے؟"
” پہلے میرے سوال کا جواب دیں." 
”بات کے اختتام میں مل جائے گا جواب آپ کو. آپ میرے سوال کا جواب دیں"
”جب وہ اداس ہوتی ہے تو خود سے باتیں کرتی ہے." لمحے کی تاخیر کیے بغیر مور نے جواب دیا.
”بالکل سہی کہا آپ نے.... جب وہ دکھی ہوتی ہے تو خود سے باتیں کرتی ہے. حقیقت میں ہم سب دل ہی دل میں خود سے ہم کلام ہوتے ہیں مگر حجرکا انداز تھوڑسا مختلف ہے وہ دل میں نہیں بلند آواز میں خود سے باتیں کرتی ہے. وہ احساسات جن کا اظہار کرتے ہوئے وہ کسی اور کے سامنے ہچکچاتی ہے وہ خود سے کہتی ہے اور دوسروں کی جن باتوں سے اسے تکلیف پہنچتی ہے ان کی شکایت بھی وہ خود سے کرتی ہے. آپ کو یاد ہے جب حجر نے کریمینل سائیکولوجی میں داخلہ لیا تھا تو آپ نے اسے ڈانٹا تھا"
”یہ بات بھی بھلا بھولنے والی ہے. مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس خطرناک قسم کی فیلڈ میں ایڈمشن لینے پر میں نے اسے پہلی مرتبہ ڈانٹا تھا."
”اور آپ کی ڈاںٹ پر وہ روتی ہوئی کمرے میں چلی گئی تھی. میں اسے چپ کروانے لے لیے اس کے پیچھے گیا تھا اور دروازہ کھلا ہونے کے باعث خود سے کی جانے والی اس کی ساری باتیں میں نے سن لیں تھیں. اس وقت تو میں خاموشی سے واپس مڑ گیا تھا مگر جب اس کی باتوں پر غور کیا تو علم ہوا کہ وہ کتنی گہری اور حساس ہے."
“بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ.... وہ حساس بھی ہے اور ریزور بھی.... دوسروں سے مانوس ہونے میں وقت لگتا ہے اسی وجہ سے اس کا سوشل سرکل بہت کم افراد پر مشتمل ہے. رہی سہی کسر اس کی فیلڈ نے پوری کردی ہے. ہزار دفعہ منع کیا تھا میں نے نہ جائے اس فیلڈ میں جہاں دوستوں سے زیادہ انسان کے دشمن بنیں. ہر وقت مجرموں سے سر کھپائی کرنی پڑے مگر مجال ہے جو باپ بیٹی پر میری باتوں کا اثر ہوا ہو."
”آپ کو سمجھانا میرے بس کی بات نہیں" مور کی سوئی وہیں اٹکی دیکھ کر فار جل کر بولے اور گھر کے اندرونی حصے کی جانب بڑھ گئے.
.............................
دبئی ایر پورٹ کے ویٹنگ ایریا میں بیٹھی حجر اپنی فلائٹ کی اناؤنسمینٹ کا انتظار کر رہی تھی جب ایک آواز گونجی. یہ آواز ائیر پورٹ کریو کے کسی ممبر کی تھی جو فلائٹ ڈیلے ہونے کے متعلق آگاہ کر رہا تھا. تیز بارش اور ہوا کے باعث جہاز کی اڑان ممکن نہیں ہے. جب تک موسم بہتر نہیں ہو جاتا تب تک کے لیے سب فلائٹ ڈیلے کر دی گئی ہیں. فلائٹ ڈیلے ہونے کے متعلق سن کر اس کے چہرے پر بیزاری چھائی. یہ خبر سن کر ایسی ہی بیزاری اسی ائیرپورٹ کے تیسرے ٹرمینل میں بنے بزنس کلاس لاؤنج میں بیٹھے الہان کے چہرے پر بھی چھائی.وہ دونوں اس وقت ڈیپارچڑ ہال میں تھے اور ان کی سکیورٹی سکرینگ ہو چکی تھی اس لیے ائیر پورٹ سے نکلنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا. حجر کا دل تو اتنی دیر یہاں بیٹھنے کا سوچنے سے ہی خراب ہونے لگا تھا. اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ انفارمیشن ڈیسک کی طرف گئی.
”کتنی دیر انتظار کرنا پڑے گا؟" شستہ انگریزی میں اس نے سوال کیا.
”میڈم ابھی کچھ کنفرم نہیں ہتا... ویدر فور کاسٹ کے مطابق کچھ گھنٹوں میں موسم کی صورت حال بہتر ہوجائے گی. امید تو ہے کہ دو تین گھنٹوں میں سب فلائٹ اڑان بھر لیں گیں." ڈیسک پر موجود شخص کی بات پر سر ہلا کر وہ واپس اپنی سٹنگ ایریا کی جانب آئی اور اپنے بیگ سے لیپ ٹاپ نکال کر آن کرنے لگی. لیپ ٹاپ آن کرتے ہی پہلا کام جو اسے سوجھا تھا وہ ہنٹر گیم کھیلنے کا تھا. اس خیال کے ذہن میں آتے ہی ایک شبیہ اس کی ذہن میں ابھری. سر جھٹکتے ہوئے اس نے اس خیال سے پیچھا چھڑایا اور گیم لاگ ان کی. تیسرا لیول جیسے ہی شروع ہوا حقیقی دنیا سے اس کا رابطہ ٹوٹا اور گیم کی طلسمائی دنیا نے اس جکڑا. اس لیول کی شروعات بھی پچھلے لیول کے انداز میں ہی ہوئی تھی. پہلے ایک دم سے اندھیرا چھایا جس میں آہستہ آہستہ روشنی کی کرنیں بکھرنے لگیں. جب اس کی آنکھیں روشنی سے مانوس ہوئیں تو اس نے خود کو ٹرین میں پایا. وہ پھر سے انجان مسافروں کے ساتھ ایک انجان راستے پر گامزن تھی. وہ اس سوچ میں گم تھی کہ اس لیول میں اسے کون سی چنوتی کا سامنا کرنا پڑے گا جب اچانک سے ان کی سیٹوں کے نیچے سے باز نکلے اور فضا میں تحلیل ہو گئے. اچانک سے ان بازوں کو دیکھ کو حجر کے دل دہلا. ابھی وہ اس دھچکے کے حصار میں ہی تھی جب ٹرین میں ایک آواز گونجی. اس آواز کو سن کر اس کر اس کے لبوں پر مسکراہٹ آئی کیونکہ یہ آواز سائمن کی تھی جو اس لیول کے اصول و ضوابط بتا رہا تھا.
”ہنٹر گیم کے لیول تھری "سینٹ " میں آپ سب کو خوش آمدید. یہ لیول پچھلے لیول سے مختلف ہے اور اس لیول کو آپ نے اکیلے نہیں بلکہ ایک پارٹنر کے ساتھ کھیلنا ہے. آپ کے ان پارٹنر کا انتخاب رینڈملی کیا جائے گا. آپ کے منتخب کردہ پارٹنر کے اکاؤنٹ کا لنک آپ کو بھیج دیا جائے گا. لنک میں دیے گئے اکاؤنٹ سے آپ نے پیر اپ کرنا ہے. تیسرے لیول کو پار کرنے کے لیے آپ کو ان علامات کی ضرورت ہو گی جو آپ نے پچھلے لیول میں حاصل کی تھیں. باقی انسٹرکشنز آپ کو مسیجز کی شکل میں موصول ہونگیں. امید ہے آپ اس گیم سے لطف اندوز ہونگے." اس آواز کے بند ہوتے ہی ٹرین والا منظر ہوا میں تحلیل ہوا اور پلک جھپکنے پر اس نے خود کو ایک قدیم قلعے میں پایا. وہ اردگرد کا جائزہ لینے میں مصروف تھی جب اسے میسیج کی نوٹیفیکیشن ملی. اس میسج میں اسے اس کے پارٹنر کے اکاؤنٹ کا لنک دیا گیا تھا. ابھی اس نے پروفائل کھولی ہی تھی جب اس شخص کی جانب سے اسے پیرنگ ریکویسٹ موصول ہوئی. لمحے کی تاخیر کیے بغیر حجر نے پروفیٹک مونسٹر نامی پروفائل کی ریکویسٹ قبول کی.
..........................

SiadWhere stories live. Discover now