صیاد
ازقلم رباب تنویر
“Life is infinitely stranger than anything which the mind of man could invent.”
(Arthur Canon Doyle)
………................
رات کے اندھیرے کو چیڑتی مصنوعی روشنیوں میں مرسڈیز بینز اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی. ٹرٹل نیک شرٹ پر گرے کوٹ پہنے الہان مستعدی سے ڈرائیو کرنے میں مصروف تھا جبکہ پیسنجر سیٹ پر براجماں لانگ کوٹ میں ملبوس حجر اردگرد سے لاپرواہ فائل دیکھنے میں مصروف تھی. آج اس نے سر پر beret cap پہن رکھی تھی. اس کے ہاتھ میں موجود فائل میں چند گھنٹوں پہلے اپارٹمنٹ بلڈنگ کے باہر سسے اغواہ ہونے والی لڑکی سارہ کے متعلق معلومات درج تھیں. فائل کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد اس نے فائل بند کی اور گلاس ونڈ سے باہر دیکھنے لگی.
“کون سی بات پریشان کر رہی ہے آپ کو؟" اس کی خاموشی محسوس کرکے الہان نے دریافت کیا. جب سے وہ خالی گاڑی دیکھ کر آئے تھے وہ یونہی خاموش اور الجھی الجھی سی تھی.
"... کچھ نہیں." وہ چونکتے ہوئے بولی. الہان نے بےبسی سے گہری سانس لی.
"مجھے یہاں ہی ڈراپ کر دیں." چند ساعتوں بعد اس کی جانب رخ کرتے ہوئے حجر بولی.
"مگر کیوں؟" اسکی سڑک پر اترنے کی منطق الہان کی سمجھ سے باہر تھی.
"میں کچھ دیر کھلی فضا میں رہنا چاہتی ہوں. مجھے ابھی اپارٹمنٹ میں نہیں جانا. آپ مجھے یہاں ڈراپ کر دیں. کچھ دیر چہل قدمی کے بعد میں واپس چلی جاؤں گی." اس نے ناچاہتے ہوئے بھی وضاحت دی. الہان نے ایک نظر اس اترے ہوئے چہرے کو دیکھا پھر گاڑی سڑک کی ایک جانب کھڑی کی.
"شکریہ" گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلتے ہوئے وہ بولی. سر ہلا کر اس کا شکریہ وصول کرتے ہوئے الہان بھی گاڑی سے باہر نکلا.
"آپ کہاں؟... آپ میرے ساتھ جا رہے ہیں؟" اسے بھی گاڑی سے نکلتے دیکھ کر حجر تعجب سے بولی.
"ظاہری سی بات ہے." کندھے اچکاتے ہوئے وہ بولا.
"میں آپ کو اپنے ساتھ نہیں لے کر جارہی." اس نے قطعی انداز میں سر ہلایا.
"میں نے آپ سے اجازت نہیں مانگی. رات کے گیارہ بجے اسلام آباد کی سڑکوں پر میں آپ کو اکیلے چہل قدمی کرنے نہیں دے سکتا." وہ دوٹوک انداز میں بولا.
"نہ میں چھوٹی بچی ہوں اور نہ ہی آپ میرے گارڈین ہیں سو برائے مہربانی میرے معاملات میں دخل دینا بند کر دیں."سارے لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے وہ سردمہری سے بولی.
"میں آپ کا گارڈین ہی ہوں. آپ کے فار نے مجھے تاکید کی تھی کہ میں آپ کا خیال رکھوں. پھپھو نے بھی مجھ سے آپ کا خیال دھیان رکھنے کا وعدہ لیا تھا." الہان نے اسے احساس دلایا. اس کی بات پر مٹھیاں بھینچ کر, گہری سانس لیتے ہوئے حجر نے اپنے غصے کو کنٹرول کیا پھر ایک آخری کوشش کرتے ہوئے وہ بولی
"دیکھیں مسٹر... میں اس وقت بہت پریشان ہوں. میری سوچیں الجھی ہوئی ہیں. انہیں یکجا کرنے کے لیے مجھے کچھ وقت درکار ہے. آپ کی موجودگی میں ٹھیک سے سوچ نہیں پاؤں گی اس لیے کچھ دیر کے لیے مجھے اکیلا چھوڑ دیں. میں اپنا دھیان رکھ سکتی ہوں."
"میں آپ کو ڈسرب نہیں کروں گا. جو کرنا چاہتی ہیں کریں. جہاں جانا ہیں جائیں. میں آپ روکوں گا نہیں میں بس ایک فاصلے سے آپ کا تعاقب کروں گا." وہ مستحکم انداز میں بولا.
"جو کرنا ہے کریں." ناگواری سے کہتے ہوئے حجر ہلکی ہلکی دھند میں لپٹی سڑک پر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے لگی. کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے, وہ اردگرد سے بےنیاز اپنی سوچوں میں گم فٹ پاتھ چل رہی تھی. اس سے چند قدم پیچھے الہان بھی سردی سے بچنے کے لیے کوٹ کے جیبوں میں ہاتھ ڈالے سست رفتاری سے قدم اٹھا رہا تھا. اس کی سوچوں کا محور حجر کی ذات تھی. وہ جانتا تھا کہ وہ کچھ چھپا رہی ہے, کوئی چیز اسے پریشان کر رہی ہے مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ اسے نہیں بتائے گی. چونکہ یہ شہر کی مین شاہراؤں میں سی تھی سو اس پر ٹریفک معمول کے مطابق تیز تھی آنکھوں کو چیڑتی ہیڈ لائیٹس, سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے منچلے , گاڑیوں کا شور ان سب میں سے کوئی چیز بھی حجر کی سوچوں میں خلل کا موجب نہیں بن پائی تھی. تقریباً آدھا گھنٹہ یونہی سڑکیں ماپنے کے بعد وہ پیڈسٹرین بریج pedestrian bridge کی سیڑھیاں چڑھنے لگی. رات کے اس پہر بریج پر لوگوں کی چہل پہل نہ ہونے کے برابر تھی سو وہ آرام سے پل کے وسط میں لوہے کی سلاخوں سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی. نظریں پل کے نیچے سڑک پر دوڑتی گاڑیوں پر جمائے وہ کچھ دیر یونہی کھڑی رہی پھر گردن موڑ کر الہان کو دیکھا جو اس سے کچھ دور کھڑا فون پر کسی سے بات کرنے میں مصروف تھا. گاڑیوں کے شور کے باعث حجر اس کی بات ٹھیک سے سن نہ پائی. چند لمحے بات کرنے کے بعد الہان نے فون بند کیا تو اسے خود کو دیکھتے پا کر استفہامیہ انداز میں بھنویں اچکائیں. اس کا سوالیہ انداز دیکھ کر حجر نے نفی میں سر ہلایا اور پھر گردن واپس موڑ لی. یخ بستہ ہوا کے دوش پر اس کے بال حرکت کر رہے تھے.
"میرے خیال سے اب آپ کو واپس چلے جانا چاہیے." ہوا میں خنکی محسوس کرکے الہان بولا. وہ ابھی بھی اس سے دور کھڑا تھا سو وہ قدرے اونچی آواز میں بولا تاکہ حجر تک اس کی آواز با آسانی پہنچ جائے.
"میں ابھی کچھ وقت مزید یہاں رہنا چاہتی ہوں اگر آپ نے جانا ہے تو شوق سے جائیں." ہنوز اسی پوزیشن میں کھڑے رہے حجر بھی بلند آواز میں بولی.
"اتنی سردی میں یہاں احمقوں کی طرح کھڑے رہنے کی منطق میری سمجھ سے باہر ہے. اگر آپ کچھ سوچنا چاہتی ہیں تو آپ کو کسی خاموش اور پرسکون جگہ پر جانا چاہیے. اتنی نوئسی پلیس پر کیوں آئی ہیں؟"
"اپنے اندر کے شور سے پیچھا چھڑانے کے لیے کبھی کبھی انسان کو باہر کے شور کا سہارا لینا پڑتا ہے." اس نے رنجیدگی سے کہا تو الہان نے الجھ کر اس کی جانب دیکھا.
"خود پر الزام عائد نہ کریں آپ کی غلطی نہیں تھی." اس کا چہرہ پڑھنے کے بعد وہ بولا.
"وہ میری کلاس فیلو تھی. سارہ وہ پہلی لڑکی تھی جس نے مجھے حب الوطنی کے جذبے سے روشناس کروایا تھا. پاکستان کا نام میں نے اس کے منہ سے سنا تھا اور اس کی پاکستان سے محبت دیکھ کر مجھے اس ملک پر رشک آیا جس کے لوگ اس کے لیے جان قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے. اس دن مجھے پہلے دفعہ احساس ہوا تھا کہ اپنے ملک کا مان کیا ہوتا. انسان کتنے فخر سے سر اٹھا کر کہہ سکتا ہے کہ یہ ملک میرا ہے. سارہ کی پاکستان سے محبت سے متاثر ہوکر میں نے ارادہ کیا تھا کہ میرے والدین چاہیں ملیں یا نہ ملیں مگر میں آپ ملک ضرور ڈھونڈ لوں گی. اس کا رول میری زندگی میں مختصر اور مینگ فل تھا تبھی تو اتنا وقت گزرنے کے باوجود وہ میری یادوں کا اہم حصہ ہے." وہ ایک لمحے کے لیے ٹہری
"اس کی زندگی داؤ پر لگنے کی قصوروار میں ہوں کیونکہ میں اپنی ٹیم کو سہی سے لیڈ نہیں کر پائی. ہیڈ ہونے کے لحاظ سے مجھے چاہیے تھا کہ میں اپنی ٹیم کو سہی سے گائیڈ کرتی, ٹیم ورک سٹارنگ کرتی مگر عتبہ کمال سے نفرت میں, اسے اس کے اعمالوں کی سزا پہنچانے کی دھن میں, میں باریکیوں پر غور ہی نہ کر پائی. محبت ہو یا نفرت دونوں ہی انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتے ہیں. (کہتے ہوئے اس نے افسوس سے سر جھٹکا.)
میری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ میں کسی کیس سے جذباتی طور پر منسلک نہ ہوں. ہمیشہ نیوٹرل رہ کر کام کروں مگر اس کیس سے ناچاہتے ہوئے بھی میں جذباتی طور پر وابستہ ہوں. سارہ اور فصیحہ کو تو میں عتبہ کمال سے نجات دلا لوں گی مگر اس شخص سے نفرت کرنے سے خود کو روک نہیں سکتی جس نے میرے ماں باپ کو تکلیف پہچائی ہو, جس نے انہیں مجھ سے دور کیا ہو پھر چاہے وہ اللہ یار یو,عہزب کمال ہو یا عتبہ کمال" اس کے الفاظ سخت تھے مگر لہجے ہمیشہ کی طرح دھیمہ تھا.
"میرے خیال سے آپ کو اللہ یار انکل کو معاف کر دینا چاہیے." الہان نے اسے قائل کرنا چاہا.
"معاف کرنا اور معافی مانگنا میرے لیے دنیا کے سب سے مشکل کام ہیں." وہ قدرے بے بسی کے عالم میں بولی.
"او.. تو آپ یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ اگر آپ مستقبل میں کوئی غلطی کریں تو میں آپ سے غلطی پر معافی مانگنے کی امید نہ رکھوں." ماحول کی سنجیدگی کو کم کرنے کے لیے وہ گویا کوا.
"نہیں... میں کہنا چاہ رہی ہوں کہ اگر مستقبل میں آپ کوئی غلطی کریں گے تو مجھ سے معافی کی امید مت رکھیے گا. میں قطعاً آپ کو معاف نہیں کرنے والی." وہ قطعی لہجے میں بولی تو الہان اسے گھور کر رہ گیا. اب ان دونوں کے درمیان خاموشی حائل تھی. کچھ سوچ کر الہان نے ایک فیصلہ کیا پھر اس کی جانب قدم بڑھانے لگا.
"عتبہ کمال کے دوسرے میسج میں کیا تھا؟" چند قدم کے فاصلے پر رک کر اس نے استفسار کیا.
"کون سا میسج؟" اس نے خود کو انجان ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کی.
"کیا ہم کچھ دیر ایک دوسرے کے اونسٹ نہیں ہو سکتے."
"میں تو اونسٹی سے جواب سے دوں گی مگر اونسٹ ہونا آپ کو مہنگا پر سکتا ہے مسٹر..." اس کی بات کاٹ کر الہان بولا.
"الہان"
"وٹ ایور" اس نے نظریں گھمائیں.
"اگر کوئی جواب مشکل ہوا تو میں کوئٹ کر دوں گا."
"جو پہلے کوئٹ کرے گا اسے پینلٹی سہنی ہڑے گی." حجر نے اسے گیم کی شرط سے آگاہ کیا.
"ٹھیک ہے. پہلے سوال میں کروں گا." وہ دونوں اب ایک دوسرے کے روبرو تھے.
"کریں سوال" وہ پر اعتمادی سے بولی.
"میسج میں کیا تھا؟" الہان پوچھا.
"H" اس نے بلا تامل جواب دیا. کہتے ساتھ ہی اس نے وہ صفحہ اس کی جانب بڑھایا جو اسے گاڑی میں سے ملا تھا. الہان نے صفحہ پر لکھے ایچ کو الجھی نظروں سے دیکھا.
“پروفیٹک مونسٹر کون ہے؟" ہونٹوں کے کناروں پر ابھرنے والی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے بولی. اس کے سوال پر الہان چونکا. مسکراہٹ ضبط کرتے اس کے چہرے کو دیکھ کر اسے احساس ہو گیا تھا کہ وہ جان چکی ہے سو اس نے مزید تردید کرنا ضروری نہ سمجھا.
"تو آپ کو پتا چل گیا ہے"
"ہممم.... مگر پھر بھی میں آپ کے منہ سے سننا پسند کروں گی. کون ہے مونسٹر ہے؟"
“میں ہوں پروفیٹک مونسٹر" اس کے جواب پر حجر کی مسکراہٹ گہری ہوئی.
"کب سے جانتی ہیں آپ؟" اپنی ٹرن پر الہان نے سوال کیا.
"میسج پڑھنے کے پانچ منٹ بعد مجھے معلوم ہو گیا تھا."
"آپ میرے ساتھ گیمز کھیل رہی تھیں." وہ خفگی سے بولا.
"شروع آپ نے کیا تھا میں تو بس حساب برابر کر رہی تھی." وہ شان بے نیازی سے بولی.
"کیوں شروع کیا تھا آپ نے؟ کس مقصد کے تحت آپ نے یہ سب کیا؟" اب کی بار حجر نے سنجیدگی سے سوال کیا.
"میں نے ارداۃً کچھ نہیں کیا. میں صرف آپ کے متعلق جاننا چاہتا تھا سو میں نے گیم کا سہارا لیا." وہ صاف گوئی سے بولا.
"اب میری ٹرن ہے. تو بتائیں مجھے کہ آپ کیوں انکار کر رہی ہیں؟" الہان نے سوال کیا.
"میں آپ کو بتا چکی ہوں." وہ نظریں چڑاتے ہوئے بولی.
"نو لائز.... اگر آپ جواب نہیں دینا چاہتی تو کوئٹ کر دیں مگر جھوٹ مت بولیں اور میرے روڈ اور ایروگینٹ ہونے والا جواز میں بالکل تسلیم نہیں کروں گا."
"میں اس لیے انکار کر رہی ہوں کیونکہ آپ اپنی پھپھو کی وجہ سے...." اس کی بات کاٹ کر الہان بولا.
"میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ میں پھپھو کی وجہ سے آپ سے شادی نہیں کر رہا, میرے اقرار کی وجہ کچھ اور ہے سو آپ بھی انکار کا کوئی اور جواز تلاش کریں." اس کی بات پر حجر ایک لمحے کے لیے خاموش ہوئی.
"کیا ساری رات یہیں کھڑے رہنے کا ارادہ ہے؟ جلدی بتائیں کہ کس وجہ سے انکار کر رہی ہیں آپ؟" اسے سوچ میں ڈوبے دیکھ کر الہان جل کر بولا. حجر نے ایک چبھی نگاہ اس پر ڈالی.
"میرے پاس فل وقت کوئی مناسب جواب نہیں ہے." اس نے آخر ہار مانی.
"یہ تو خوش آئندہ بات ہے کہ آپ کے پاس انکار کا سبب نہیں ہے. پتھر میں شگاف پر رہا ہے." پینٹ کی پوکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے وہ آخری بات دھیمی آواز میں بولا.
" فل حال کوئی اور وجہ نہیں ہے مگر میں جلد کوئی وجہ تلاش کر لوں گی." وہ مستحکم لہجے میں بولی.
"میرے خیال میں اب آپ انکار کی بجائے اقرار کی وجہ تلاش کریں. آپ پہلے ہی دو دفعہ مجھے انکار کر چکی ہیں تیسری دفعہ انکار میرا ناتوان دل برداشت نہیں کر پائے گا. اتنے ڈیسینٹ, ایلیگینٹ بندے کو کسی لڑکی کا تین دفعہ انکار سراسر ناانصافی ہے."
"آپ سمجھ کیوں نہیں رہے. ہم دونوں الگ جگہوں سے تعلق رکھتے ہیں." وہ جھنجھلا کر بولی.
"ہم ایک ہی فیملی کے ہیں."
"ہماری سوچ مختلف ہے."
"مجھے conflict resolution strategies معلوم ہیں اگر کبھی مخلتف سوچ ہونے کے باعث ہم میں آرگیومینٹ ہوا تو میں ہینڈل کرلوں گا." الہان نے ترکی بہ ترکی کہا.
"ہم ایک دوسرے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے."
"میں آپ کے بارے میں آپ کے سالوں پرانے دوستوں سے زیادہ جانتا ہوں." وہ پر یقین لہجے میں بولا.
"مثلاً کیا ایسا جانتے ہیں آپ جو میرے دوست نہیں جانتے." بازو سینے پر باندھے ہوئے وہ چیلنجنگ انداز میں بولی.
"یہی کہ آپ اکثر خود سے باتیں کرتی ہیں." مسکراتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے الہان بولا. اس کی بات سن کر حجر جی بھر کر شرمندہ ہوئی مگر اپنی شرمندگی اس پر ظاہر نہیں کروائی.
"آپ... آپ میری جاسوسی کر رہے ہیں؟" وہ دانت پیس کر بولی.
"نہیں" اس نے نفی میں سر ہلایا.
"خیر... اگر آپ کو پتا چل بھی گیا ہے تو کوئی بڑی بات نہیں. میں بھی جانتی ہوں کہ آپ کو ایس پی ڈی ہے اور یقیناً آپ نے یہ بات اپنے دوستوں سے چھپائی ہوگی." اس نے خود کو لاپرواہ ظاہر کیا.
"یہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں کہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں دوسروں کی نسبت زیادہ جانتے ہیں. عہزب کی قید میں رہنا اور ایس پی ڈی یہ دو میرے سیکریٹ ہیں. اگر یہ کیس سے جڑے نہ ہوتے تو کبھی میں آپ کو بھی ان کے متعلق نہ بتاتا. چند ایک باتوں کے علاوہ آپ میرے ماضی سے واقف ہیں اور بہت حد تک میں بھی آپ کے ماضی کے متعلق جانتا ہوں.
We share the same pain
الہان نے اپنا نقطہ نظر واضح کیا تو حجر لاجواب ہوئی.
"ہم میں کوئی ایک بات بھی مشترک نہیں ہے." اس نے ایک آخری کوشش کی.
"ایک بات ہے مشترک ہے."
"کیا؟" وہ استفہامیہ انداز میں بولی.
"ہم دونوں بہت ہٹ دھڑم ہیں."
" میرا آپ کا کوئی مقابلہ نہیں, آپ مجھ سے کہیں زیادہ ہٹ دھڑم ہیں." وہ جل کر بولی.
"نوازش." سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے سر جھکا کر کہا.
"میں اس موضوع پر آپ سے مزید بحث نہیں کر سکتی. آپ بس مجھے یہ بتائیں کہ آپ کیوں مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟" اس نے تپ کر کہا تو الہان نے ایک گہری سانس لی
You are very dear to me. I don't want to let you go and Nikah is the only way through which we can bound together
اس نے اعتراف کیا تو حجر حیرانی سے اسے دیکھنے لگی. پھر آنکھیں سکیٹرتے ہوئے اس کی لہجے کی سچائی جانچنے لگی.
”اپنی سائیکولوجی مجھ پر آزمانے کی ضرورت نہیں میں نے کوئی جرم نہیں کیا جو آپ مجھے مشکوک نظروں سے دیکھ رہی ہیں." وہ تپ کر بولا تو حجر نے گھورا.
“آپ کی ٹرن ہے اب." اسے خاموش دیکھ کر حجر بولی.
“میرے ذہن میں مزید کوئی سوال نہیں ہے. آپ کچھ پوچھنا چاہتی ہیں تو پوچھیں." سڑک کی جانب رخ موڑتے ہوئے وہ بولا.
"آپ کو کب پتا چلا تھا کہ میں آنیہ علوی کی بیٹی ہوں؟"
"شک تو مجھے پہلی ملاقات میں ہی ہو گیا تھا مگر کیتھی سے اسی پتا چلا تھا تھا جس دن میں آپ کو بتایا تھا."
”ایس پی ڈی کو آپ نے کیسے اورکم کیا؟" حجر اپنی مطلب کی بات پر آئی.
”آپ کے ذریعے" وہ بےتردد بولا تو حجر ناسمجھی سے دیکھنے لگی.
”اگلا سوال کریں؟" الہان کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اسے اس بارے میں تفصیلات نہیں بتانے والا.
“آپ میری مدر کو آنی کہتے تھے؟" اس کا گریز دیکھ کر حجر نے زور دینا مناسب نہ سمجھا اور اگلا سوال کیا. اس کے سوال پر الہان نے تعجب سے اس کی جانب دیکھا. اس شاید حجر سے اس سوال کی توقع نہیں تھی.
“ہممم"
“تو پھر آپ نے انہیں آنی کہنا کیوں چھوڑا؟" اس کے سوال پر الہان نے لب بھینچے.
“میں جواب نہیں دینا چاہتا... پنیلٹی بتا دیں." وہ دوٹوک انداز میں بولا.
"پنیُلٹی کے طور پر آپ کو مجھے اردو سکھانی ہے تاکہ آئندہ مجھے یہاں کے لوگوں کی بات سمجھنے کے لیے آپ کی مدد نہ لینی پڑے." کہتے ساتھ ہی حجر سیڑھیوں کی جانب بڑھنے لگی.
"ٹھیک ہے." الہان نے اس کی تقلید کی. اب وہ دونوں واپسی کے سفر پر گامزن تھے.
.....................
"میم! رپورٹرز آ گئے ہیں." دروازہ ناک کرکے آفیسر رضا نے وہیں کھڑے کھڑے اطلاع دی.
"میں.آ رہی ہوں کچھ دیر میں." اپنے آفس میں رکھی مرکزی کرسی پر بیٹھی حجر نے جواب دیا.
"میم! آپ ایک مرتبہ پھر سوچ لیں. الہان سر نے مجھے منع کیا ہے کہ آپ کو میڈیا کے سامنے نہ جانے دوں مگر آپ بضد ہیں" آفیسر رضا نے اسے پریس کانفرنس میں جانے سے روکنے کی آخری کوشش کی.
" ان کی آپ فکر نہ کریں میں انہیں ہینڈل کر لوں گی اور ویسے بھی ان کے واپس آنے سے پہلے پریس کانفرنس ختم ہو جائے گی." حجر لاپرواہی سے بولی. اسکا جواب سن کر رضا حمید اثبات میں سر ہلا کر واپس چلے گئے جبکہ حجر کے ذہن میں صبح ہونےوالی الہان اور اپنی گفتگو گردش کرنے لگی.
"میں آج ہاف ڈے لیو پر ہوں." وہ لوگ بیورو آرہے تھے جب ڈرائیونگ کرتے الہان بولا.
”کیوں؟" حجر نے استفسار کیا.
"کہیں جانا ہے مجھے. دوپہر تک بیورو آ جاؤں گا." نگاہیں سڑک پر مرکوز رکھتے ہوئے اس نے جواب دیا.
"ٹھیک ہے." اس نے کندھے اچکائے.
"سارہ کو کیسے ڈھونڈنا ہے اب؟" اس نے سرسری انداز میں پوچھا.
"عتبہ کمال سے وائلڈ لیونڈر( پرپل رنگ کے پھول) کی خوشبو آئی تھی. وہ کسی ایسی جگہ قیام پزیر ہے جہاں آس پاس بہت سے درخت ہیں اور غالباً یہ جگہ مارگلہ ہلز ہیں." وہ پرسوچ انداز میں بولی.
"یہ سب تو ٹھیک ہے مگر خود کو خطرے میں ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے. ضروری نہیں کہ وہ میسج آپ کے لیے ہو."
"اس وقت یہ اہم نہیں ہے کہ وہ میسج میرے لیے تھا یا نہیں. اہم یہ ہے کہ ٹیم میں صرف میرا نام ایچ سے شروع ہوتا ہے اسلیے مجھے رسک لینا ہی پڑے گا اور تو اور میں عتبہ کمال کی وکٹم بھی ہوں. اسی نے مجھے زخمی حالت میں دبئی میں پھینکا تھا اور سائیکوپیتھ اپنے وکٹم کے لیے بہت پوزیسو ہوتے ہیں. میرے ہاتھ پر بنے باز کے آدھ کٹے پر اس بات کا ثبوت ہے کہ مجھے واپس اس کی قید میں جانا ہے. سارہ اور فصیحہ کو بچانے کے لیے مجھے خود کو پیش کرنا پڑے گا." وہ قطیعت سے بولی.
"اسے کیسا پتا چل سکتا ہے کہ آپ اس کی وکٹم تھیں؟"وہ قدرے تعجب سے بولا.
"اسی طرح جیسے اسے پتا تھا کہ میں پاکستان آرہی ہوں."
"وہ اتنی کوئی بڑی خبر نہیں تھی. ساری پولیس فارس کو آپ کے آنے کی خبر ملی تھی ہوسکتا ہے کہ اس نے کسی کے منہ سے یہ بات سن لی ہو مگر آپ کے وکٹم ہونے کی بات صرف آپ کو اور مجھے معلوم ہے. یہ بات اس تک پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا." وہ کسی بھی طرح اسے خود کو خطرے میں ڈالنے سے باز رکھنا چاہتا تھا.
"وہ مجھے میرے نام سے پہچان سکتا ہے."
"اس نیوز میں آپ کا نام نہیں بتایا گیا تھا اور عتبہ نے فراز کو جو میل بھیجی تھی اس میں بس اس نے یہی کہا کہ کریمینل سائیکولوجسٹ بیرون ملک سے آرہی ہے. اگر اسے آپ کا نام معلوم ہوتا تو وہ آپ کا نام بھی فراز تک پہنچا دیتا اور ویسے بھی جس وقت اس نے آپ کو زخمی کیا تھا اس وقت وہ بچہ تھا اور بچوں کو اتنی تفصیلات یاد نہیں رہتی."
"بچپن کے کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو ہمارے دماغ پر نقش ہو جاتے ہیں. ہم ساری زندگی انہیں نہیں بھول پاتے. مجھ پر اپنی فرسٹریشن نکالنا بھی ہو سکتا ہے عتبہ کمال کے زندگی کا کوئی ایسا ہی واقع ہو."
"اگر اسے آپ سے غزض ہوتی تو کل سارہ کی بجائے وہ آپ پر حملہ کرتا. بغیر کچھ کہے وہ آپ کے پاس سے گزر گیا تھا. اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسے آپ سے مطلب نہیں ہے."
"میں اس کے اگلے اغواہ کا انتظار نہیں کر سکتی." وہ قطیعت سے بولی.
"حجر! کیا کرنے والی ہیں آپ؟" الہان نے گردن موڑ کر اس کی جانب دیکھا.
"آپ کو جلد پتا چل جائے گا."
"مخص قیاس کے پیش نظر کوئی بھی قدم مت اٹھائیے گا. اپنا نہیں تو اپنے سے جڑے لوگوں کے متعلق ایک مرتبہ سوچ لیجیے گا." اس کے لہجے میں حجر کے لیے فکر تھی. حجر نے اس کی بات پر سر ہلایا اور ونڈ سکرین سے نظر آتی سڑک کو دیکھنے لگی. کچھ دیر بعد گاڑی بیورو کے سامنے روکنے کے بعد کے الہان نے ایک مرتبہ پھر اسے مخاطب کیا.
"حجر!" اس کی پکار کر گاڑی سے باہر نکلتی حجر نے مڑ کر سوالیہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا.
"خطرے کو دعوت مت دینا" اس نے اسے روکنے کی ایک آخری کوشش کی مگر وہ تو ٹھان چکی تھی سو بغیر کوئی جواب دیے وہ بیورو میں داخل ہو گئی.
یہ ساری گفتگو اس کے ذہن کے پردے پر حرکت کر رہی تھی. جیسے ہی گفتگو ختم ہوئی گہری سانس لیتے ہوئے وہ اپنی نشست سے اٹھ کھڑی ہوئی. مناسب چال چلتے ہوئے وہ مرکزی ہال کی جانب جانے لگی. اسے وہاں جاتے دیکھ کر اس کی ٹیم کے باقی افراد بھی اس کے ہم قدم ہوئے. رپورٹرز سے کچا کچ بھرے ہال کے وسط میں پہنچ کر ان سب کے قدم تھمے تو وہاں ایک لمحے کے لیے خاموشی چھائی. چند خیر مقدمی جملوں کے تبادلے کے بعد ایک رپورٹر نے حجر کا تعارف پوچھا.
"میں حجر ہارون ہوں. جرائم برانچ کی ہیڈ" اس نے پر اعتمادی سے جواب دیا.
"کیا آپ وہی کریمنل سائیکولوجسٹ ہیں جو بیرون ملک سے آئی تھی؟" ایک رپورٹر نے سوال کیا جس کے جواب میں حجر نے اثبات میں سر ہلایا پھر سوالات جوابات کا یہ سلسلہ کچھ دیر چلتا رہا. حجر اور اس کی ٹیم انہیں کیس اور عتبہ کمال کی تفصیلات سے آگاہ کرنے میں مصروف تھی. پریس کانفرنس جب اختتام کو پہنچی تو ان سب نے واپس اپنے آفس کا رخ کیا.
......................
"تو میرے فون کرنے کے بعد یاد آ گیا تمہے میری خبر لینا؟" کرسی پر بیٹھی ساٹھ سالہ عورت خفگی سے بولیں. گول شیشوں والی عینک سے جھانکتی ان کی زمانہ شناس آنکھیں الہان پر ٹکی تھیں.
"ایسی بات نہیں ہے. اگر آپ کل رات فون نہ بھی کرتی تب بھی میں نے آپ سے ملنے آنا تھا." ان کے سامنے صوفے پر بیٹھے الہان نے دھیمی آواز مں احتجاج کی.
"جیسے پچھلے بارہ سالوں میں تم مجھ سے ملنے آتے رہے ہو ایسے ہی تم نے اس بار بھی آنا تھا." سائیکولوجسٹ امبرین فاروقی نے طنز کیا.
"میں گزرے سالوں میں ایک مرتبہ بھی اسلام آباد نہیں آیا تھا اگر میں یہاں آتا تو ضرور ملتا آپ سے." الہان نے وضاحت پیش کی.
"تقریباً ایک مہینے سے تم اسلام آباد میں تھے مگر میری خبر گیری نہیں کی تم نے." انہوں نے شکوہ کیا.
"اب تو آ گیا ہوا نا"
"میرے فون کرنے پر"
"اچھا اب ڈانٹنا بند کر دیں. بارہ سال کا بچہ نہیں رہا اب میں" الہان نے انہیں احساس دلایا.
"میرے لیے تم ہمیشہ وہی بچے رہو گے جسے مرتضی زبردستی میرے پاس لایا کرتا تھا. ہاں مگر گزرے سالوں میں تمہارے مزاج کی سرد مہری اور آنکھوں کی بے حسی ختم ہو گئی ہے." اس کے رویے کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ بولیں.
"آپ کے سیشنز کا کمال ہے آخر آپ میری سائیکوجسٹ رہی ہیں." وہ مسکراتے لہجے میں بولا.
"نہیں... میرے سیشنز کے باعث نہیں ہوا. مرتضی کے وفات کے بعد جب تم امریکہ گئے تھے تب تم نے ایس پی ڈی کو اورکم کر لیا تھا مگر پھر بھی ریزرو رہتے تھے. لوگوں کی اپنے اردگرد موجودگی تمہارے لیے قابل برادشت تھی مگر ان سے بے تکلف ہو کر بات تم نہیں کرتے تھے. ایس پی ڈی کے اثرات تب بھی تمہاری شخصیت میں موجود تھے. مگر اب تم ایک مکمل طور پر مختلف انسان لگ رہے ہو. ایک ہنستا مسکراتا نارمل شخص.. کیا وجہ ہے اس سب کی؟" انہوں نے کافی دیر اس کا علاج کیا تھا سو وہ اس کی شخصیت کے ہر پہلو سے واقفیت رکھتی تھیں. اس میں آنے والے کوئی بھی تبدیلی ان کی نگاہوں سے چھپی نہیں رہ پائی تھی.
"کوئی خاص وجہ نہیں ہے." اس نے تردید کی.
"اب تم مجھ سے چھپاؤ گے؟ کیا حجر کے ملنے کی وجہ سے ہے یہ تبدیلی؟" وہ جانچتی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھیں.
"آپ کو کس نے بتایا اس کے ملنے کا؟ یہ ضرور احتشام چچا کا کارنامہ ہو گا. سہی کہہ رہا ہوں نہ میں؟" اس نے اندازہ لگایا. وہ ان کی فیملی فرینڈز میں سے تھیں سو احتشام چچا بھی ان سے واقف تھے.
"ہمم... اسی نے بتایا ہے. مگر تم بتانے والے کو چھوڑو... میرے سوال کا جواب دو." انہوں نے زور دیا.
" اپنے رویے میں تبدیلی خود بھی محسوس کی ہے میں نے مگر میں وجہ نہیں جانتا." وہ بے بسی سے بولا.
"زندگی ساکن نہیں ہے. سمندر کی لہروں کی طرح یہ مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہے. ساحل کو ٹکرانے والی ہر لہر ایک تجربہ ہے اور ہر تجربہ پچھلے سے مختلف ہے. چند لہریں تباہی کا موجب بنتی ہیں جبکہ چند ہمیں تروتازگی فراہم کرتی ہیں اس طرح کچھ تجربات اچھے ہوتے ہیں جبکہ کچھ ہمیں تکلیف دیتے ہیں. دکھ کو یا سکھ کوئی بھی تاعمر نہیں رہتا." وہ رسانیت سے بولیں.
"بری یادیں تو ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں نا." وہ مدھم آواز میں بولا
"The best to way to eraise bad memories is,collecting new ones
ان کی بات سن کر الہان نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا. ان کے دوران گفتگو کا سلسلہ کچھ دیر یونہی چلاتا رہا. وہ پچھلے بارہ سالوں کی چیدہ چیدہ واقعات انہیں بتانے لگا جبکہ امبرین فاروقی مسکراہٹ چہرے پر سجائے توجہ سے باتیں سن رہی تھی اور وقفے وقفے سےٹکرے لگا رہی تھیں. گھڑی کی سوئیاں ایک کے ہندسے سے ٹکراتے دیکھ کر الہان اپنی نشست سے کھڑے ہوتے ہوئے بولا
"اب مجھے اجازت دیں."
"ایک ہی شرط پر جانے دوں گی میں تمہے" بیساکھی کے سہارے کھڑے ہوتے ہوئے وہ بولیں.
"حکم کریں" اس نے سعادت مندی سے کہا.
"اب جب بھی آؤں گے حجر کو اپنے ساتھ لے کر جانا اور ذرا جلدی چکر لگا لینا." انہوں نے اسے ہدایت دی.
"ٹھیک ہے." وہ مودب انداز میں بولا.
"خوش رہا کرو." اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ گویا ہوئیں. چند الودائیہ کلمات ادا کرنے کے بعد اس نے واپسی کا رخ کیا.
.....................
بیورو کے باہر گاڑی روکتے ہوئے وہ باہر نکلا. ایک ہاتھ سے بالوں کو درست کو کرتے ہوئے وہ بیورو کے داخلی دروازے کی جانب بڑھا. اندر قدم رکھتے ہی اسے ماحول میں غیرمعمولی ہلچل محسوس ہوئی تھی مگر توجہ دیے بغیر حجر کے آفس کی جانب آیا.
"مس ہاجرہ! حجر آفس میں ہیں؟" دروازہ ناک کرنے کے بعد جب کچھ دیر جواب نہ ملا تو اس نے قریب سے گزرتی ہاجرہ سے حجر کے متعلق دریافت کیا.
"میم تو ہال میں ہیں. آنے ہی والی ہونگی آپ آفس میں ویٹ کر لیں ان کا" وہ مصروف سے انداز میں بولی تو الہان کندھے اچکاتے ہوئے آفس میں آ گیا. اسے وہاں بیٹھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی جب حجر اندر داخل ہوئی. ایک نظر الہان پر ڈالنے کے بعد وہ مرکزی کرسی کی جانب بڑھی. پانی گلاس میں انڈیل کر وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے سست روی سے پانی کے گھونٹ بھرنے لگی.
"سب ٹھیک ہے؟" اس کا بوجھل انداز دیکھ کر الہان نے دریافت کیا.
"ہممم"حجر نے جواب دیا تو وہ دوبارہ ہاتھ میں پکڑے فون کی جانب متوجہ ہوگیا جبکہ حجر اس کا رویہ ملاخظہ کرنے لگی. اس کا نارمل رویہ دیکھ کر حجر کو اندازہ ہو گیا تھا کہ پریس کانفرنس کی خبر اب تک اس کے کانوں تک نہیں ہہنچی.
"نیوز دیکھی آپ نے؟" کچھ سوچتے ہوئے حجر نے پوچھا.
"نہیں. کیوں کیا ہوا ہے؟" وہ تعجب سے بولا. بات کے دوران ہی اس کا فون رنگ کیا. سکرین پر احتشام چچا کا نام جگمگاتے دیکھ کر اس نے کال ریسیو کی.
"تم حجر کو ایسا کرنے کی اجازت کیسے دے سکتے ہو؟" کال چھوٹتے ہی احتشام چچا نے سخت لہجے میں دریافت کیا.
"کیا کیا ہے اس نے؟" ایک نظر حجر پر ڈالنے کے بعد وہ حیرانی سے بولا.
"پریس کانفرنس. تمہے اسے روکنا چاہیے تھا...." ابھی احتشام چچا کی بات منہ میں ہی تھی جب ان کی بات کاٹتے ہوئے وہ بولا
"میں آپ سے بعد میں بات کرتا ہوں." ان کے جواب کا انتظار کیے بغیر اس نے کال کاٹی اور ریموٹ پکڑ کر دیوار پر لگی ایل ای ڈی آن کرنے لگا. نیوز چینل لگا کر وہ ہیڈلائنز دیکھنے لگا. چینل پر آج کی کانفرنس کی ویڈیوز دکھائی جا رہی تھیں. ایک نظر انہیں دیکھنے کے بعد وہ حجر کی جانب مڑا جو خود کو آنے والے حالات کے لیے ذہنی طور پر تیار کر رہی تھی
"یہ سب کیا ہے حجر؟ میں نے آپ کو منع کیا تھا نا؟" وہ مشتعل انداز میں بولا.
"میرے پاس یہی آپشن تھا یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ میسج میرے لیے تھا یا نہیں" اس نے دھمیے لہجے میں وضاحت دی.
"آپ کو اندازہ بھی ہے کہ آپ کی حرکت کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے. اس پریس کانفرنس کی ویڈیوز اب ہر نیوز چینل پر دکھائی جائیں گی. لازمی بات ہے کہ عتبہ کمال تک یہ بھی خبر پہنچے گی اور اسے جیل میں ڈالنے کے جو دعوے آپ کرکے آئی ہیں انہیں سننے کے بعد وہ خاموش نہیں بیٹھے گا. اگر آپ اس کا ٹارگٹ نہیں بھی تھیں نا تو اب وہ ضرور آپ کو نشانہ بنائے گا." وہ غصہ بھرے لہجے میں بولا.
"میں عتبہ کمال سے خوف زدہ نہیں ہوں." اس نے اسے بتانا ضروری سمجھا.
"آپ اتنی بےخطر کیسے ہو سکتی ہیں؟ اپنی نہیں تو اپنے سے جڑے لوگوں کی پرواہ کر لیں. آپ کی زندگی پر صرف آپ کا حق نہیں ہے ان پر آپ کے اردگرد موجود لوگوں کا حق ہے. اپنے لیے نہیں تو کم از کم ان کے لیے یہ قدم اٹھانے سے پہلے ایک مرتبہ سوچ لیتی جن کے لیے آپ اہم ہیں." وہ تلخی سے بولا
"میں نے سوچ سمجھ کر ہی یہ فیصلہ کیا تھا اور ویسے بھی یہ کوئی اتنی بری بات نہیں ہے. آپ اور پروٹیکٹو ہو رہے ہیں." اس نے احتجاج کی. اس کی بات سن کر وہ چڑ گیا
"اور پروٹیکٹو؟ آپ کے نزدیک میرا کنسرن ہونا اور پروٹیکو ہے؟ ٹھیک ہے..... جو مرضی کریں میری بلا سے. میں اب آپ کے راستے میں نہیں آؤں گا. آئندہ نہ میں آپ کو کسی چیز سے روکوں گا اور نہ ہی میں آپ کے معاملات میں دخل اندازی نہیں دوں گا." اپنی بات کہہ کر وہ اس کی سنے بغیر لمبے لمبے ڈگ بھرتا آفس سے باہر نکل گیا تو حجر بے بسی سے اس کی پشت کو دیکھتی رہ گئی. اسکی ستائیس سالہ زندگی میں کبھی کسی مرد نے اس پر اتنا غصہ نہیں کیا تھا. اس کی قریب تھا ہی کون صرف فار... جو ایک نرم خو شخص تھے. اس کے علاوہ اس کے دوست تھے اور کولیگز تھے مگر اس کے اکڑ رویے کی وجہ سے سب سوچ سمجھ کر ہی اسے مخاطب کرتے تھے اسلیے کبھی یہ نوبت نہیں آئی تھی کہ کوئی اس کو سخت لہجے میں مخاطب کرے. شروع میں الہان کو اس نے اپنے کولیگ کی طرح ہی ٹریٹ کیا تھا مگر جب سے اسے الہان کی آنیہ سے وابستگی کے متعلق معلوم ہوا تو اس کا انداز اس کے ساتھ ذرا نرم ہو گیا تھا. اس کے نرم لہجے کے بدلے میں وہ بھی اس سے نرمی سے ہی بات کرتا تھا. آج پہلی مرتبہ الہان نے اس سے سخت لہجے میں اور مشتعل انداز میں بات کی تھی اس کا غصہ حجر کو بوکھلانے پر مجبور کر گیا تھا. آفیسر رضا حمید کو اس نے کہہ تو دیا تھا کہ وہ اسے ہینڈل کر لے گی مگر اب اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے. کچھ دیر اس کے رویے کو سوچنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ فلحال اسے خاموشی سے الہان کا غصہ ختم ہونے کا انتظار کرنا چاہیے. اس نتیجے پر پہنچ کر اس نے اپنا دھیان اس سے ہٹا کر وہ فائل پڑھنے میں مگن ہو گئی. یہ اغواہ ہونے والے بچوں کی فائلز تھی وہ انہیں اس نیت سے دوبارہ پڑھ رہی تھی کہ کہیں کوئی چیز ان سے مس نہ کو گئی ہو.
......۔..............
رات مکمل طور پر ڈھل چکی تھی جب فائل کا آخری صفحہ پڑھنے کے بعد اس نے فائل بند کی. وال کلاک پر سوئیاں آٹھ کے ہندسے سے ٹکراتے دیکھ کر وہ چونکی. فائل پڑھتے ہوئے اسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا تھا. اپنی نشست سے اٹھ کر اس نے ونڈو بلائنڈ ہٹا کر باہر دیکھا تو اکا دکا افراد کے علاوہ باقی سب گھروں کو جا چکے تھے. کسی ایمرجینسی نہ ہونے کی صورت میں سب سات بجے تک فری ہو جاتے تھے اب چونکہ آٹھ بج رہے تھے تو بیورو کا خالی ہونا کوئی تعجب کی بات نہ تھی. ایک نظر باہر دیکھنے کے بعد وہ واپس ٹیبل کے قریب آئی اور اپنی چیزیں سمیٹنے لگی. کرسی سے کوٹ اٹھا کر بازو پر ڈالنے کے بعد وہ فون ہاتھ لیے آفس سے باہر نکلی. خارجی دروازے تک پہنچنے تک وہ بازو میں ڈالا کوٹ پہن چکی تھی. پارکنگ ایریا میں قدم رکھتے ہی اس نے عادت کے مطابق اردگرد الہان کی گاڑی کی تلاش میں نظریں دوڑائیں مگر نظریں ناکام پلٹ آئیں. آج وہ اس کے لیے موجود نہیں تھا. ایسا پہلی دفعہ ہوا تھا کہ وہ اکیلی بیورو سے واپس جا رہی تھی نہیں تو ہر روز الہان ہی اسے ڈراپ کرتا تھا. اس کی غیر موجودگی اسے بری طرح محسوس ہوئی تھی. لمبی سانس لیتے ہوتے ہوئے اس نے موبائل آن کیا اور بیورو کے اردگرد موجود کیب ڈھونڈنے لگی. وہ اسی کام میں مصروف تھی جب اس کے قریب گاڑی کے ٹائیر چڑچڑائے. چونک کر اس نے سر اٹھایا تو ڈرائیونگ سیٹ بیٹھے احتشام چچا کو دیکھ کر اسے خوشگوار حیرت ہوئی.
”اسلام علیکم!" حجر نے سلام میں پہل کی.
"وعلیکم سلام! آؤ بیٹھو" گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ بولے.
"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟" سیٹ بیلٹ باندھتے ہوئے حجر نے دریافت کیا.
"ایک کام کے سلسلے میں گیا تھا واپسی پر یہاں سے گزر رہا تھا جب آپ پر نظر پڑی. سوچا آپ سے مل لوں." انہوں نے وضاحت دی.
"اچھا کیا آپ نے"
"آپ یہاں اکیلی کیوں کھڑی تھیں؟ الہان کہاں ہے؟ آپ کو تو وہی ڈراپ کرتا ہے نا؟" احتشام چچا نے خود کو انجان ظاہر کرنے کی کوشش کی.
"ڈراپ تو وہی کرتے ہیں. مگر آج دوپہر میں وہ بیورو سے چلے گئے تھے تو سوچا میں خود ہی کیپب کروا کر چلی جاتی ہوں." زیادہ تفصیل بتانا اس نے ضروری نہیں سمجھا.
"اچانک سے بتائے بغیر چلے جانا نہایت غلط حرکت ہے. الہان کو ایسے نہیں جانا چاہیے تھا میں گھر جا کر بازپرست کروں گا." مہارت سے گاڑی چلاتے ہوئے وہ بولے.
"نہیں... کوئی مسئلہ نہیں ہے احتشام چچا. میں بچی نہیں ہوں میں خود چلی جایا کروں گی." حجر نے انہیں روکنا چاہا.
"میرے ہوتے ہوئے آپ کو اکیلے جانے کی کیا ضرورت ہے. میں روز آپ کو خود پک اینڈ ڈراپ کر دیا کروں گا." ان کی بات پر حجر نے کچھ کہنا کے لیے منہ کھولا ہی تھا جب وہ بول اٹھے
"میں کوئی بہانہ نہیں سن رہا." ان کے بات سن کر حجر خاموش ہو گئی.
"اتنے دن ہو گئے آپ کو حقیقت پتا چلے مگر ایک مرتبہ بھی آپ اپنے چچا سے ملنے نہیں آئیں." گاڑی میں چھائی خاموشی کو احتشام چچا کی شکوہ کناں آواز نے توڑا.
"آئی ایم سوری احتشام چچا.... کیس کی وجہ سے بہت مصروف تھی." وہ واقعی شرمندہ ہوئی تھی.
"کوئی بات نہیں. آئندہ خیال رکھنا." وہ رسانیت سے بولے. کچھ دیر میں وہ اپارٹمینٹل بلڈنگ کے سامنے پہنچ گئے تھے.
"اندر آ جائیں احتشام چچا. ڈنر میرے ساتھ کر لیں آج" گاڑی رکتے ہی حجر نے انہیں اندر آنے کی دعوت دی.
"ڈنر تو نہیں کروں گا... اگر چائے پلاؤ گی تو ضرور آؤں گا." وہ غیر سنجیدگی سے بولے.
"آ جائیں پھر." اس نے انہیں کے انداز میں جواب دیا.
"ویسے میں نے انداز لگایا ہے کہ پاکستانی عوام کو چائے بڑی پسند ہے. جہاں مرضی چلے جاؤں پینے کو صاف پانی ملے یا نہ ملے, چائے کا کپ ضرور مل جائے گی." وہ دونوں اندر کی جانب بڑھ رہے تھے جب حجر نے اپنا تجزیہ بیان کیا.
"چائے ہمیں واقعی بری مرغوب ہے. یہ ہمارے لیے اس حسینہ مہ جبینہ کی مانند ہے جس کے بغیر ہمارا ایک دن بھی نہیں گزرتا." احتشام چچا نے مسکراتے ہوئے بتایا. یونہی باتیں کرتے ہوئے وہ دونوں بلڈنگ کے اندر بڑھ گئے.
........................
"یہ کوئی وقت ہے آپ کے گھر آنے کا." دروازہ کھولتے ہی الہان کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی.
" تم میرے باپ ہو یا میں تمہارا باپ ہوں؟" احتشام چچا نے مصنوعی غصے سے سوال کیا.
"نہ آپ میرے باپ ہیں نہ میں آپ کا باپ ہوں. شرافت سے میرے سوالوں کے جواب دیں. کہاں تھے اتنی دیر تک؟ ساڑھے سات بجے میں نے آپ کو فون کرکے حجر کو پک کرنے کا کہا تھا اور اب رات کے دس بج رہے ہیں. بیورو, اپارٹمنٹ اور علوی ہاؤس آنے, جانے میں ڈھائی گھنٹے ہر گز نہیں لگتے." وہ مشکوک نگاہوں سے انہیں گھورتے ہوئے بولا مگر وہ اس کا گھورنا نظر انداز کرتے ہوئے اسے زچ کرنے کے لیے بولے
"تم میرے انتظار میں یہاں بیٹھے ہو؟" اس کا لیپ ٹاپ لاؤنج کے صوفے پر پڑا تھا اسلیے انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ پچھلے ڈھائی گھنٹے اپنے کمرے میں جانے کی بجائے وہیں بیٹھا تھا.
"احتشام چچا!" وہ اب کی وارنگ دینے والے انداز میں بولا.
"بتا رہا ہوں بھائی. اتنے اتاولے کیوں ہو رہے ہو؟" ان کی بات
پر وہ سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگا.
"پچھلے دو گھنٹے میں حجر کے اپارٹمنٹ تھا. اب الہان مرتضی تھوڑی گیا تھا جسے حجر دروازے سے ہی واپس بھیج دیتی, احتشام علوہ بذاتِ خود اسے اپارٹمنٹ تک چھوڑنے گئے تھے اور ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ انہیں سوکھے منہ واپس بھیج دے." جلے پر نمک چھڑکنے والے انداز میں وہ بولے تو الہان واقعی ضبط کا کڑوا گھونٹ بھر کر رہ گیا.
"کیا کھا پی کر آئے ہیں؟" فریج سے انرجی ڈرنک لیتے ہوئے اس نے سرسری لہجے میں سوال کیا.
"میں تو حجر کے ہاتھ کی بنی چائے پینے کی غرض سے گیا تھا مگر حجر کے اصرار کرنے پر کھانا بھی کھا کر ہی آیا ہوں." وہ اسے جلانے کی پوری کوشش کر رہے تھے.
"خود تو وہاں سے کھانا کھا کر آ گئے ہیں اور یہ پھیکی بریانی میرے لیے رکھ دی ہے." وہ جل کر بولا.
"ایک تو میں روز ماؤں کی طرح تمہارے آنے سے پہلے تمہارے لیے کھانا تیار کرکے رکھتا ہوں اور تم ہو کے سو سو نقص نکالتے ہوئے میرے بنائے کھانے میں. کیا ہوا جو نمک ڈالنا بھول گیا میں بریانی میں؟ نمک کے بغیر بھی اچھی بنی تھی." انہوں نے خود کو سہی ثابت کرنے کی پوری کوشش کی.
"بہت اچھی تھی... بہت" وہ طنزاً بولا. وہ دونوں اب کچھ فاصلے پر ہاتھ میں انرجی ڈرنک لیے لاؤنج میں بیٹھے تھے.
"اتنا مسئلہ ہے تو خودد بنا لیا کرو کھانا." احتشام چچا دانت پیس کر بولے.
"کل میں خود ہی بناؤں گا." اس نے انہیں اطلاع دی.
"کیا تم نے کل بیورو نہیں جانا؟" انہوں نے حیرانی سے استفسار کیا.
"نہیں" وہ بے تاثر چہرے سے بولا.
"کیوں؟"
"چھوڑیں اس بات کو آپ یہ بتائیں کہ اسے شک تو نہیں ہوا کہ آپ کو میں نے بھیجا ہے." وہ متجسس ہوا.
"بالکل نہیں.... میری ایکٹنگ کا تو تمہے پتا ہی ہے." وہ فخریہ انداز میں بولے.
"جی جی بالکل پتا ہے ....اوسکر آپ کو ہی ملا تھا پچھلے سال." وہ چڑ کر بولا. اس کی بات پر احتشام چچا نے اسے گھورا جس کا اس پر کچھ اثر نہیں ہوا تھا.
"ویسے آج اچانک تمہارا فون پر حجر کو پک کرنے کا کہنے پر میں حیران ہوا تھا مگر فون پر تم سے استفسار کرنے مناسب نہیں لگا اس لیے اس وقت خاموشی سے تمہاری بات مان کر میں اسے لینے چلا گیا تھا مگر میں دل میں سوچا تھا کہ گھر جا کر تم سے وجہ ضرور پوچھوں گا. بتاؤ کیا بات ہے؟ نا تم اسے لینے گئے تھے اور نا ہی کل بیورو جانے کا ارادہ ہے تمہارا؟ کیا پریس کانفرنس کی وجہ سے خفا ہو اس سے؟" احتشام چچا اب سنجیدہ اور ان دونوں کے لیے فکرمند تھے.
"کوئی بات نہیں ہے." اتنا کہہ کر اس نے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا اور اپنے کمرے کہ جانب بڑھنے لگا.
"ایک خوشخبری ہے تمہارے لیے" انہوں نے ہانک لگائی.
"آج دوپہر جو آپ نے خوشخبری سنائی تھی وہ کیا کم تھی جو اب نئی خبر سنانے لگے ہیں." اس کا اشارہ پریس کانفرنس کی خبر کی جانب تھا.
"سن لو ورنہ بعد میں پچھتاؤ گے." انہوں نے تجسس ہیدا کرنا چاہا.
"سنائیں" وہ بادل نخواستہ بولا.
"نہیں رہنے دو اب... کل بتا دوں گا." وہ اسے زچ کر رہے تھے.
"مرضی ہے آپ کی." کندھے اچکاتے وہ مڑ گیا.
................................
رات کا تیسرا پہر اپنے اختتام کے قریب تھا جب گلا خشک ہونے کے باعث اس کی نیند میں خلل پیدا ہوا. آنکھوں پر سے آئی ماسک ہٹاتے ہی بلب کی تیز روشنی سے بچنے کے لیے اس نے اپنا ہاتھ آنکھوں پر رکھا. جیسے ہی آنکھیں روشنی سے مانوس ہوئی اس نے بوجھل آنکھوں سے سائیڈ ٹیبل پر رکھے جگ سے گلاس میں پانی انڈیلنا چاہا مگر خالی جگ دیکھ کر اس نے بیزاری سے سر جھٹکا. گرم بستر سے نکلنے کا دل تو نہیں کر رہا تھا مگر ہلق میں چھبنے والے کانٹوں کے باعث اسے یہ کڑوا گھونٹ بھرنا پڑا. ہیڈبینڈ میں بندھے بال درست کرتے ہوئے وہ جگ ہاتھ میں لیے کمرے سے نکلی. کچن میں جا کر وہ پیوریفائر سے ل پانی بھرنے لگی. اسی دوران فریحہ کچن میں داخل ہوئی. بڑی سی چادر میں لپٹے اس کے وجود کو دیکھ کر حجر نے سوال کیا
"تم اس وقت کیوں جاگ رہی کو؟"
"وہ میں نماز کے لیے اٹھی تھی." فریحہ نے وضاحت دی.
"نماز؟" اس نے زیر لب دہرایا.
"آپ بھی نماز پڑھنے اٹھی ہیں؟" فریحہ نے دریافت کیا.
"نہیں... میں نماز نہیں پڑھتی" وہ قدرے شرمندگی سے بولی. اس کی بات سن کر فریحہ کوشاک لگا.
"کیوں؟ کیا آپ مسلمان نہیں ہیں؟"
"میں مسلمان ہوں مگر مغربی ماحول میں رہنے کے باعث میں مذہب سے بہت دور ہوں."
"مذہب کا تعلق تو دل سے ہوتا ہے ماحول سے بھلا کیا لینا دینا."
"مذہب کا تعلق دل سے ہوتا ہے میں مانتی یوں مگر ماحول بھی ایک بہت بڑا فیکٹر ہے. انسانی فطرت ہے کہ وہ دیکھ کر سیکھتا ہے. آبزورویشنل لرنگ بہت اہم ہے. تمہے کوئی لاکھ دفعہ بھی نماز پڑھنے کا کہے گا تم نہیں پڑھو گی مگر جب تم اپنے سامنے کسی کو نماز پڑھتا ہوا دیکھو گی تب تمہارا دل بھی نماز کی جانب راغب ہوگا. تمہارا بھی دل کرے گا کہ تم بھی اس کی طرح نماز پڑھو. میں خود کو ڈیفینڈ نہیں کر رہی مگر میں جنرل بات کر رہی ہوں کہ ہم اپنے ماحول سے اثر لیتے ہیں. میں جس ملک میں رہی ہوں وہاں کی آبادی کا صرف ایک فیصد حصہ مسلمان ہے. میرے فوسٹر پیرینٹس بھی کرسچن ہیں وہ الگ بات ہے کہ انہوں نے مجھے کبھی میرے مذہب کی پیروی کرنے سے نہیں روکا. میرے جاننے والوں میں سب کرسچنز ہیں ایسے ماحول میں رہنے والی لڑکی سے اگر تم پانچ وقت کی نمازیں پڑھنے کی امید رکھتی ہو تو یہ سرار بے وقوفی ہے."
" کیا آپ نے کبھی اپنے ماں باپ کو مسلمان کرنے کی کوشش نہیں کی؟" فریحہ نے دلچسپی سے سوال کیا.
"وہ دونوں اپنے عقائد میں بہت کھڑے ہیں. ان کے نزدیک مذہب بدلنا باپ بدلنے کے برابر ہے. وہ کرسچن ہیں مگر پھر بھی انہوں نے مجھے اسلام کے بنیادی باتیں سکھائی ہیں مثلا شراب نہ پینا, حرام گوشت نہ کھانا,پورے کپڑے پہننا, غیر محرموں سے دور رہنا وغیرہ. میرے لیے انہوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں. مجھے الکاہل اور حرام گوشت سے دور رکھنے کے لیے انہوں نے میرے سامنے کبھی ان چیزوں کو ہاتھ نہیں لگایا ان کی دیکھا دیکھی میں, میں بھی ساری عمر ان چیزوں سے دور رہی. جب میں چھوٹی تھی تو میری وجہ سے وہ کبھی بھی گھر میں الکاہل نہیں لائے نہ ہی حرام گوشت. میں نہیں جانتی کہ میری غیر موجودگی میں وہ یہ سب چیزیں کھاتے ہیں یا نہیں, میرے لیے یہ جاننا اہم بھی نہیں ہے کیونکہ میرے لیے ان کی قربانیاں اہم ہیں. انہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ ان کی طرح میں بھی اپنے عقائد, اپنے مذہب پر یقین رکھوں اور بہت حد تک وہ اس کوشش میں کامیاب بھی رہے ہیں. میں عملی طور پر اسلام کی جتنی پیروی کرتی ہوں وہ ان کی وجہ سے ہی ہے. اپنے طور پر میں نے صرف اسلام کے متعلق معلومات اکٹھی کہ ہے مگر کوشش کے باوجود بھی میں ان تعلیمات پر عمل نہیں کر پائی." وہ بےچارگی سے بولی.
"آپ ایک بار پھر اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کریں. اللہ نے چاہا تو اس مرتبہ آپ ثابت قدم رہیں گی."
"تمہارے منہ سے نماز کا سن کر میں بہت متاثر ہوئی ہوں. اب تم سے متاثر ہو کر میں بھی نماز پڑھنے کی کوشش کروں گی."اس نے تحیہ کیا.
"جائیں پڑھیں پھر.انتظار کس چیز کا ہے."اسے وہیں کھڑے دیکھ کر فریحہ بولی.
"ابھی؟" وہ حیرانی سے بولی.
"ہمم.... ابھی سورج طلوع نہیں ہوا. فجر کی نماز کا وقت ہے جائیں جا کر نماز پڑھیں." اس ہچکچاتے دیکھ کر فریحہ دوبارہ بولی
"اللہ کی جانب واپس لوٹتے وقت جھجھکنا نہیں چاہیے. جب تک سانس کی ڈور سلامت ہے تب تک ہمارے پاس توبہ کا وقت ہے. جسم سے آّخری سانس جب تک علیحدہ نہیں ہو جاتی توبہ کے دروازے کھلیں ہیں. اپنا وقت ضائع نہ کریں زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں. جائیں جا کر اپنے رب سے معافی مانگیں." اس نے زور دیا.
"شکریہ" وہ تشکر آمیز لہجے میں بولی.
"میرے لفظ کسی کے دل پر اثرانداز ہوں, دل پر لگے سیاہ دھبے ہٹانے کا موجب بنیں اس سے بڑھ کر مجھے اور کیا چاہیے." اس کی بات سر ہلا کر اس نے خالی گلاس شلف پر رکھا اور کمرے کی جانب بڑھ گئی. کچھ دیر بعد وہ وضو کرکے جائے نماز پر کھڑی تھی. وضو کا طریقہ,نماز کا طریقہ سب اسے معلوم تھا. ایک دو دفعہ اس نے کوشش بھی کی تھی نماز پڑھنے کی مگر کبھی ہمت نہیں ہو پائی. آج فریحہ کے اصرار پر اس نے اپنے رب کے خضور کھڑے ہونے کی ہمت کر لی تھی مگر اس دل ابھی نرم نہیں ہوا تھا, آنکھیں ابھی خشک تھیں, زبان پر روانی سے رب کی تعریف کے کلمات تھے مگر ذہن بھٹک بھٹک کر دنیا کی جانب مائل ہو رہا تھا. ابھی اس کا دل نرم ہونے میں کچھ وقت لگنا تھا. صحبت نور اس نے اپنا لی تھی مگر نور نے اسے ابھی اپنے حصار میں نہیں لیا تھا. صراط مستقیم کی تلاش میں نکل پڑی تھی مگر وہاں پہنچتے ہہنچتے اسے وقت لگنا تھا. ہر چیز کے حصول کے لیے کوشش درکار ہے اب یہ حجر پر منخصر تھا کہ وہ اپنے رب کو پانے کے لیے کتنی جد وجہد کرتی ہے. اپنا دھیان اللہ کی جانب راغب کرنے کی پوری کوشش کرتے ہوئے اس نے نماز ادا کی پھر دونوں ہاتھ بلند کرتے ہوئے وہ یہ سوچنے لگی کہ اللہ سے کیا مانگے. زندگی کی ساری ضروریات تو اس کی دسترس میں تھیں مگر ذہنی سکون کچھ دنوں سے میسر نہیں تھا. پچھلے کچھ دنوں سے وہ ایک کشمکش کا شکار تھی سو لمحوں میں فیصلہ کرنے کے بعد ذہن میں اس مسئلے کو رکھتے ہوئے وہ بولی
"اے اللہ! میں تجھ سے اپنے معاملات میں رشد وہدایت کی طلب گار ہوں. میرے معاملات درست کردے اور میری سہی رہنمائی فرما اور مجھے نفس کے شر سے مجھے بچا." گنے چنے لفظ بولنے کے بعد اس نے دونوں ہاتھ منہ پر پھیرے اور جائے نماز اٹھانے لگی. اللہ کے نام سے اس کے اس دن کی شروعات ہو چکی تھی جس دن اس نے اپنی آئندہ زندگی کے بارے میں ایک اہم فیصلہ کرنا تھا مگر اسے یقین تھا کہ اللہ کے خضور جو درخواست اس نے جمع کروائی ہے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اس کی سہی رہنمائی فرما دیں گے.
......................
YOU ARE READING
Siad
Mystery / ThrillerSiad means hunter. It is thriller novel. It is about a girl live in norway and a pakistani boy. Read the novel to know how they came across each other.