Siad episode 11

879 27 24
                                    

صیاد
ازقلم رباب تنویر
…………………..
“Once you eliminate the impossible, whatever remains, no matter how improbable, must be truth.” (Arthur Canan Doyle)
(ایک دفعہ جب ناممکنات کا خاتمہ کر دیا جائے, تو جو بچے گا ,چاہے کتنا بھی خلاف قیاس کیوں نہ ہو, سچ ہوگا.)
…………………….
برقی قمقمقوں سے جگمگاتے ایئرپورٹ پر وہ دونوں ایک دوسرے کے روبرو کھڑے تھے. کالی آنکھیں, ڈارک براؤن آنکھوں سے ٹکرائیں تو ان میں شناسائی کے رنگ ابھرے. ماتھے پر بکھرے بال, ڈارک براؤن آنکھیں, عنابی لب جو مسکرانا بھول چکے تھے, بڑھی ہوئی شیو, بے تاثر چہرہ اور کوٹ کی جیب میں چھپا دائیاں ہاتھ۔ اس کی شخصیت میں کچھ ایسا تھا جو حجر کو ٹھٹکنے پر مجبور کرتا تھا. ان دونوں سے چند قدم کے فاصلے پر رک کر الہان بولا
”ہیلو لیڈیز! کیسی ہیں آپ دونوں؟" اس کی آواز پر کیتھی اس کی جانب متوجہ ہوئی.
”ایک دم فٹ... آپ حجر کو جانتے ہیں؟" اس کے سوال کا جواب دینے کے بعد کیتھی نے سوال کیا
”تھوڑا بہت" اسے جواب دینے کے بعد وہ حجر کو مخاطب کرتے ہوئے بولا
مس حجر! کیسی ہیں آپ؟" حجر جو اس کے بےتاثر چہرے کو جانچتی نظروں سے دیکھنے میں مصروف تھی اس کی آواز پر متوجہ ہوئی
” بالکل ٹھیک"
”فلائٹ میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا؟" اس نے اگلا سوال کیا
”نہیں" حجر نے ایک لفظی جواب دیا. اس کی بات پر سر ہلاتے ہوئے وہ پارکنگ کی جانب بڑھنے لگا. وہ دونوں بھی اس کے پیچھے پیچھے قدم اٹھا رہی تھیں. چلتے چلتے ایک دم سے وہ رکا اور پھر مڑا. اس کے رکنے پر وہ دونوں بھی رک کر سوالیہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھنے لگیں.
”یہ مجھے دے دیں." الہان سوٹ کیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا. اس کی بات پر ایک لمحے کے لیے حجر کو سمجھ نہ آئی کہ وہ کیا کرے. شروع سے ہی وہ اکیلی ٹریول کرتی آئی تھی اسلیے وہ ان سب کی عادی نہیں تھی.
”میں خود پکڑ لوں گی." حجر نے انکار کیا.
”یقین کریں لے کر نہیں بھاگوں گا." الہان بولا
”دے دو حجر ہمارے باس بڑے نفیس انسان ہیں. ان کو یہ قطعاً گوارا نہیں کہ وہ خالی ہاتھ ہوں اور ایک لڑکی اتنا بھاری سوٹ کیس لے کر چلے. تم دے دو انہیں" اسے شش و پنج کا شکار دیکھ کر کیتھی مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی. اس کے اصرار پر حجر نے سوٹ کیس اس کی جانب بڑھا دیا.
”تم تو مجھے باس مت کہا کرو" الہان اس کے باس کہنے پر چڑ کر بولا
”پیٹر اور سائمن آپ کو باس کہتے ہیں. ان کے منہ سے باس سن سن کر میں بھی باس کہنے لگ گئی ہوں." کیتھی مسکراتے ہوئے بولی. سائمن کے نام پر حجر متوجہ ہوئی. وہ کیتھی سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ الہان اور سائمن کو کیسے جانتی ہے مگر پھر اپنے سوال کو دبا گئی.
”ویب سائٹ کا کام کیسا چل رہا ہے؟" اس نے بکھرے بال ہاتھ سے ٹھیک کرتے ہوئے سوال کیا.
”اچھا چل رہا ہے. آپ کے دیے کیس پر بھی کام ہو رہا ہے. آپ بتائیں کہ یہ ہنٹر گیم کیا سوچ کر بنائی تھی آپ نے. دھوم مچی ہوئی ہے ہر جگہ اس گیم کی. مگر یہ آٹھ گھنٹوں والی قید کا کیا چکر ہے؟" کیتھی کی بات پر حجر کے کان کھڑے ہوئے.
”پلیئر کی اڈکشن بریک کرنے کے لیے ہے یہ قید" الہان کے جواب سے کیتھی تو مطمئن ہو گئی تھی مگر یہ جواب حجر کو مطمئن نہ کر پایا تھا. باتوں کے دوران وہ لوگ گاڑی تک پہنچ گئے تھے. گاڑی کا لاک کھول کر انہیں بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ خود سامان ٹرنک میں رکھنے لگا. وہ دونوں پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئیں.
”تم سائمن کو جانتی ہو؟" حجر نے سوال کیا
”ہممم! یونیورسٹی فیلو ہے وہ میرا. باس کے گروپ کا ہی ہے وہ بھی. یونیورسٹی میں ہمارے ڈیپارٹمنٹ ایک ساتھ تھے اور اگر کبھی ہمارے لیپ ٹاپ میں کوئی مسئلہ ہو جاتا تو ہم کمپیوٹر پروگرامنگ یعنی باس کے ڈیپارٹمنٹ کے طلباء سے ٹھیک کروانے جاتے تھے. باس کا گروپ چونکہ پراگرامنگ میں ایکسپرٹ تھا اس لیے زیادہ تر یہ لوگ ہی ہماری مدد کرتے تھے اور یوں ہماری ان سے جان پہچان ہو گئی. یونیورسٹی ختم ہونے کے بعد ہمارا ایک دوسرے سے رابطہ برقرار رہا. کئی مرتبہ ہم ایک دوسرے کو فیورز دے دیتے ہیں. اب بھی ایک سنگین مسئلہ حل کرنے کے لیے مجھے باس کی مدد کی ضرورت تھی اس لیے ان سے ملنے پاکستان آئی ہوں." کیتھی نے تفصیل بتائی اور ساتھ ہی سوال کیا
”تم باس اور سائمن کو کیسے جانتی ہو؟"
”سائمن اور میں سکول کے دوست ہیں. سائمن کے توسط ہی میری مسٹر سی ای او (الہان) سے ایک کیس کے سلسلے میں دبئی میں ملاقات ہوئی تھی. اسی کیس کی پروسیڈنگ کے لیے میں پاکستان آئی ہوں." حجر کی بات کے دوران ہی الہان نے ڈرائیونگ سیٹ سمبھال لی تھی.
”تم نے واپس کب جانا ہے کیتھی؟" الہان نے سوال کیا.
”ابھی تو مجھے پاکستان آئے ایک گھنٹہ نہیں ہوا اور آپ کو میرے جانے کی پڑ گئی ہے. حد ہے بھئی. میں نے تو سنا تھا کہ پاکستانی بڑے مہمان نواز ہوتے ہیں مگر آپ کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ میں نے غلط سنا ہے." وہ نارضگی سے بولی. ان کی گفتگو کے دوران حجر کھڑکی کے اس پار دوڑتے مناظر دیکھنے میں مصروف تھی. سڑکوں پر پھڑتے لوگ اور وہ خوبصورت شہر حجر کی آنکھوں کو بہت بھا رہا تھا. اسے پہاڑوں کے بیچ بنا یہ شہر بہت پسند آیا تھا.
”ہماری مہمان نوازی پر شک مت کرو اور سیدھی طرح میرے سوال کا جواب دو کہ پاکستان میں کتنے دنوں کا سٹے ہے تمہارا؟"
”آج رات ہی واپس جانا ہے مجھے. بس آپ سے دو گھڑی بات کرنے کے لیے آئی ہوں کیونکہ فون پر تو آپ اویلیبل نہیں ہوتے. جب بھی فون کرو سائمن ہی فون اٹھاتا ہے اور ایک ہی بات کہتا ہے کہ باس ابھی مصروف ہیں." وہ جل کر بولی
”سائمن کو یہ آرڈر میں نے ہی دیا ہے. خیر تم یہ بتاؤ کہ تم ہوٹل جاؤ گی نا؟"
”ہممم! کچھ دیر آرام کروں." کیتھی کی بات پر اس نے سر ہلانے پر اکتفا کیا.
”آپ کا شہر بہت خوبصورت ہے باس. کیوں حجر؟" کیتھی نے حجر کو بھی گفتگو میں شامل کیا.
”ہممم!" حجر نے اس کی بات کی تائید کی.
”اگر میرے پاس وقت ہوتا تو میں ضرور اس شہر کے خوبصورت مقامات کو دیکھتی." کیتھی کے لہجے میں حسرت تھی. اس دوران وہ ہوٹل پہنچ گئے تھے.
”ہوِٹل آ گیا ہے کیتھی." گاڑی پارکنگ میں کھڑی کرتے ہوئے الہان بولا
” دو تین گھنٹے تک پک کر لیجیئے گا مجھے." اس نے الہان کو ہدایت دی.
”اوکے" الہان نے جواب دیا
” اب جانے ہماری کب ملاقات ہوگی. ہوگی بھی یا نہیں. خیر تم اپنی دوست والے کیس کے لیے بے فکر رہنا میں دیکھ لونگی وہ کیس." اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کیتھی بولی. الہان خاموشی سے ان دونوں کی گفتگو گوش گزار کررہا تھا.
”جیسے ہی مجھے ٹائم ملے گا میں تفصیلات بھیج دوں گی. اپنا خیال رکھنا. بائے" حجر نے چند اختتامی کلامات کہے اور پھر وہ گاڑی سے نکل گئی. کیتھی کے ہوٹل میں داخل ہوتے ہی الہان نے گاڑی واپس موڑی. ان دونوں کے دوران خاموشی حائل تھی. حجر فون میں مصروف تھی جبکہ الہان مستدی سے ڈرائیو کر رہا تھا. اس خاموشی کو الہان کے فون کی رنگ ٹون نے توڑا. کان میں لگی بلوتوتھ ڈیوائس کا بٹن دباتے ہوئے الہان نے فون اٹھایا
”اسلام و علیکم!" اس کی گھمبیر آواز گاڑی میں گونجی. حجر اس کے سلام کی آواز پر متوجہ ہوئی. وہ اس لفظ اور اس کے معنی سے واقف تھی.
”خیریت؟ کیا کوئی لاش ملی ہے؟" لائن کے دوسری جانب سے کچھ کہے جانے پر وہ سوالیہ انداز میں بولا. حجر اس کی گفتگو سن رہی تھی مگر سمجھ نہیں پارہی تھی کیونکہ الہان اردو میں بات کر رہا تھا.
” لڑکی کڈنیپ ہوئی ہے؟ کب اور کیسے؟ کیا اس کے پاس سے بھی مرے ہوئے باز کی تصویر ملی ہے؟" چہرے پر پریشانی کے تاثرات لیے اس نے پے در پے سوالات کیے. اس کے لہجے میں چھپی پریشانی اور کڈنیپ لفظ سن کر حجر کو اندازہ ہوگیا تھا کہ کیس کے متعلق بات ہے.
”ٹھیک ہے. میں کچھ دیر میں تم سے رابطہ کرتا ہوں. تم تب تک اس لڑکی کے متعلق ساری معلومات اکٹھی کرو." کہتے ساتھ ہی اس نے فون بند کیا.
”کیس کے متعلق کوئی بات ہے؟" اس کو فون بند کرتا دیکھ کر حجر شستہ انگلش میں بولی.
”ہممم! ایک لڑکی دو دن پہلے اغواہ ہوئی ہے." اس کے جواب پر حجر کے چہرے پر تشویش چھائی.
”مجھے اس لڑکی کے گھر جانا ہے." کچھ دیر سوچنے کے بعد حجر بولی. الہان اس کی بات سن کر حیران ہوا. پوری رات سفر کرنے بعد وہ کچھ دیر پہلے پاکستان پہنچی تھی اور آتے ہی کرائم سین پر جانے کو تیار تھی.
”ابھی نہیں جا سکتے اس کے گھر. آپ کچھ دیر آرام کرلیں. کیس کے متعلق شام کو ڈسکس کریں گے." اس نے اسے سمجھانا چاہا
”میرے آرام سے زیادہ اہم اس لڑکی جان ہے. اپنے آرام کی خاطر میں اس کی زندگی داؤ پر نہیں لگا سکتی. آج اس اغواہ کار نے ایک لڑکی اغواہ کی ہے کل وہ کسی دوسری کو بھی اغواہ کرسکتا ہے. ہمیں جتنی جلدی ہو سکے اسے روکنا ہے." اس کے لہجے میں جانے ایسا کیا تھا جس نے الہان کو چپ ہونے پر مجبور کر دیا. بغیر کچھ کہے اس نے سڑک کی ایک جانب گاڑی کھڑی کی اور فون پر ایک نمبر ملایا. حجر خاموشی سے اس کی کاروائی دیکھ رہی تھی.
”اسلام و علیکم! مجھے اس لڑکی کے گھر کا ایڈریس سینڈ کرو." دھیمے لہجے میں فون کے دوسری جانب موجود شخص سے کہا.
”ٹھیک ہے. میں انتظار کر رہا ہوں." کہتے ساتھ اس نے فون بند کیا.
”کوئی لاش ملی اب تک؟" حجر نے سوال کیا
”نہیں. پولیس نے سارا شہر چھان مارا ہے مگر کہیں سے کچھ نہیں ملا." بات کے دوران ہی اس کے فون پر میسج آیا جس میں غالباً اس لڑکی کے گھر کا ایڈریس بھیجا گیا تھا. ایڈریس موصول ہوتے ہی الہان نے گاڑی دوبارہ سٹارٹ کی. کچھ دیر میں وہ لوگ اس لڑکی کے گھر کے باہر موجود تھے. خستہ سے اس دو منزلہ مکان کے باہر میڈیا والوں کا جمگھٹا جمع تھا. الہان نے گاڑی وہاں سے کچھ فاصلے پر کھڑی کی. آنکھوں پر شیڈز اور منہ پر ماسک لگا کر حجر کو مخاطب کرتے ہوئے
”مس حجر آپ کچھ دیر یہاں انتظار کریں." اسے ہدایت دے کر جواب کا انتظار کیے بغیر وہ گاڑی سے باہر نکلا گیا. لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ رپورٹر کے ہجوم سے گزر کر بلو رنگ کے پولیس یونیفارم میں ملبوس ایک شخص کے پاس گیا. اسے دیکھ پولیس یونیفارم میں ملبوس اس شخص کی نگاہوں میں شناسائی کے رنگ آئے
”یہ سب کیا ہے رضا؟ ان میڈیا والوں کو کس نے بلایا ہے؟ انہیں ہٹاؤ یہاں سے" قریب جا کر وہ اس اے ایس پی رضا حمید کو مخاطب کرتے ہوئے بولا
”سر.... ہم انہیں ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں. مگر یہ بضد ہیں کہ اغواہ شدہ لڑکی کے لواحقین کا انٹر ویو لے کر جائیں گے."  رضا نے وضاحت دیتے ساتھ ہی وہ ایک فائل الہان کی جانب بڑھاتے ہوئے بولا
”یہ فائل ہے اس میں اس لڑکی کے متعلق ساری معلومات درج ہیں."
”مس حجر میرے ساتھ ہیں. انہوں نے لڑکی کے گھر والوں سے بات چیت کرنی ہے. کسی طرح ان میڈیا والوں کا دھیان بٹاؤ میں نہیں چاہتا کہ ان کے پاکستان پہنچنے کی خبر میڈیا تک پہنچے." اس کے ہاتھ سے فائل لیتے ہوئے وہ بولا
”میں ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کرتا ہوں. آپ اس دوران انہیں اندر لے جائیں." اس کی بات پر الہان سر ہلاتے ہوئے دوبارہ گاڑی کی طرف آیا. حجر اسے میڈیا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پولیس سے کچھ کہتے ہوئے دیکھ رہی تھی. اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ رپوٹرز کو ہٹانے کا کہہ رہا ہے. اس نے کندھے پر پہنے بیگ میں سے ماسک اور سرجیکل گلوز نکالے. کسی ہنگامی صورت حال کے پیش نظر وہ یہ سب چیزیں ہر وقت اپنے بیگ میں رکھتی تھی. ماسک سے منہ چھپانے کے بعد اس نے گلوز کوٹ کی پوکٹ میں ڈال لیے. ماسک سے چھپا اس کا چہرہ دیکھ کر الہان نے تشکر آمیز سانس لی کیونکہ وہ خود بھی یہی چاہتا تھا. بیک سیٹ کا دروازہ کھول کر ہاتھ میں پکڑی ہوئی فائل اس کی طرف بڑھاتے ہوئے الہان بولا
”اس فائل میں اغواہ ہونے والی لڑکی کے متعلق ساری معلومات درج ہے. اسے ایک نظر دیکھ لیں پھر اس کے گھر والوں سے ملتے ہیں." حجر فائل کھول کر پڑھنے لگی.
”دیکھ لی ہے فائل اب چلیں؟" چند لمحوں بعد وہ بولی
”میڈیا والوں کے کیمروں سے بچنے کی کوشش کریے گا."
”ٹھیک ہے." اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے حجر گاڑی سے باہر نکلی. اس کے باہر آتے ہی الہان نے قدم بڑھائے. وہ اس کے دائیں جانب ایک قدم کے فاصلے سے چل رہی تھی. انہیں گاڑی سے باہر نکلتا دیکھ کر وردی میں ملبوس رضا رپورٹرز کو مخاطب کرتے ہوئے بولا
”جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ آج صبح ہی فصیحہ جمیل کے اغواہ کی رپورٹ درج کروائی گئی ہے. اغواہ کے اس کیس میں بھی مرے ہوئے باز کی تصویر برآمد ہوئی ہے اور اس تصویر سے صاف ظاہر ہے کہ یہ اغواہ کا کیس پچھلے کیسز سے جڑا ہوا ہے. فصیحہ جمیل  کی عمر لگ بھگ بیس سال کے قریب تھی. سنہری بال اور ہاتھوں پر پھلبہری کے باعث دھبے تھے. اگر آپ کو ان خدوخال کی کوئی لڑکی ملے تو جلد از جلد پولیس کو اطلاع دیں. فصیحہ جمیل کے گھروالے اس وقت کوئی بھی بیان دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں. باقی اپڈیٹس آپ کو وقتا فووقتاً ملتی رہیں گی." تمام رپورٹرز اور کیمرا مین اے ایس پی رضا حمید کے بیان ریکورڈ کرنے میں مصروف تھے. اسی دوران وہ دونوں سر جھکائے اس بوسیدہ سے مکان کے اندر چلے گئے. ان کے ساتھ ایک پولیس انسپیکٹر بھی تھا جو شاید رضا حمید کے کہنے پر ان کے ساتھ آیا تھا. گھر میں داخل ہوتے ہی حجر کی نگاہ سب سے پہلے فربہہ مائل فصیحہ کی ماں سے ٹکرائیں. وہ لاؤنج نما جگہ میں رکھے واحد لکڑی کے صوفے پر بیٹھی تھیں. انہیں اندر آتا دیکھ کر وہ انجان نظروں سے ان کی جانب دیکھنے لگیں.
”مسز جمیل(فصیحہ کی ماں) میں حجر ہوں. اس کیس کو حل کرنے کے لیے آئی ہوں. آپ کی بیٹی  فصیحہ کے متعلق سن کر بہت افسوس ہوا ہے مجھے مگر آپ بے فکر رہیں میں پوری کوشش کروں گی کہ وہ سہی سلامت آپ تک واپس پہنچ جائے." حجر ان کے قریب بیٹھ کر ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے انہیں تسلی دینے لگی. انگلش میں کہی گئی اس کی بات سمجھ تو نہیں پائی تھی مگر اس کا انداز اور فصیحہ کے نام پر ان کی آنکھوں سے آنسوں کی برسات ہونے لگی تھی. الہان حجر کے اپنائیت بھرے انداز پر حیران ہوتا ہوا تھا مگر اپنی حیرانی کا اظہار کرنے سے گریز کرتے ہوئے وہ حجر کو مخاطب کرتے ہوئے بولا
”مس حجر!انہیں انگلش نہیں آتی."
”او... یہ تو بہت بڑا مسئلہ ہے. اگر یہ میری بات سمجھ نہیں پائیں گی تو جواب کیسے دیں گی." اس نے افسوس سے سر جھٹکا پھر کچھ سوچتے ہوئے بولی
”مسٹر سی ای او! آپ ایسا کریں کہ میری بات ٹرانسلیٹ کرکے ان تک پہنچا دیں اور ان کی بات مجھ تک" اس کی بات پر الہان نے سر ہلایا اور اس کی انگلش میں کہی گئی بات کا اردو ترجمہ مسز جمیل کو بتانے لگا.
”کیا یہ وہی سائیکولوجسٹ ہے جس نے باہر کے ملک سے آنا تھا؟" الہان کی بات سن کر مسز جمیل نے سوال کیا
”ہمم... یہ وہی ہے." الہان نے جواب دیا. اس دوران حجر جو خاموشی سے ان دونوں کے تاثرات کا جائزہ لے رہی تھی الہان کو مخاطب کرتے ہوئے بولی
”مسٹر سی ای او! ان سے پوچھیں کہ اغواہ سے چند دن پہلے انہوں نے فصیحہ کے رویے میں کوئی تبدیلی محسوس کی تھی؟" الہان نے اس کی بات مسز جمیل تک پہنچائی
”نہیں فصیحہ کا رویہ نارمل تھا." مسز جمیل کی کہی گئی بات پھر الہان نے حجر تک پہنچائی.
”آخری بار آپ کب اس سے ملی تھیں؟" حجر نے سوالات کا سلسلہ شروع کیا اور الہان ٹرانسلیٹر کے فرائض سر انجام دینے لگا.
”دو دن پہلے صبح کے وقت میری اس سے بات ہوئی تھی. اس کے بعد وہ کالج چلی گئی تھی. جاتے وقت وہ مجھے کہہ کہ گئی تھی کہ کالج میں منعقد ہونے والے کسی فنکشن کے باعث وہ لیٹ گھر آئے گی. میں دوپہر سے اس کے انتظار میں بیٹھی تھی. دوپہر سے شام ہوئی اور شام سے رات مگر صبح کی گھر سے نکلی میری بیٹی واپس نہ آئی." بات کے اختتام پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں. انہیں روتے دیکھ کر حجر ان کے ہاتھ کی پشت سہلا کر انھیں تسلی دینے دی.
”اس کے واپس نہ آنے پر آپ نے فورًا پولیس سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟" اس نے اگلا سوال کیا.
”میں اس وقت گھر میں اکیلی تھی."
”آپ کے شوہر اور بیٹا اس وقت کہاں تھے؟" حجر کا انداز پروفیشنل تھا.
”میرے شوہر کی چند سال پہلے وفات ہو گئی تھی اور میرا بیٹا اپنے سسرال گیا تھا."
”اس کا سسرال کہاں ہے؟ آپ نے اسے فون کرکے فصیحہ کی گمشدگی کے متعلق کب بتایا تھا؟"
”پشاور میں ہے اس کا سسرال. فصیحہ کے واپس نہ آنے پر شام کے وقت میں نے اسے فون کیا تھا اور رات میں وہ واپس آگیا تھا."
”اپنے بیٹے کے واپس آجانے کے بعد آپ نے رپورٹ درج کیوں نہیں کروائی؟ دودن بعد رپورٹ درج کیوں کروائی ہے؟"
”بیٹا! ہم سفید پوش لوگوں کے پاس صرف عزت ہی ہوتی ہے جس کے سہارے ہم اپنی زندگی گزارتے ہیں. اپنی عزت بچانے کے لیے ہم دو دن خاموش رہے اور اس امید پر بیٹھے رہے کہ وہ شاید خود ہی واپس آ جائے. مگر آج صبح جب میرے بیٹے کو خبر ملی کہ دو دن پہلے گلی کے کنارے پر مرے ہوئے باز کی تصویر ملی ہے تو وہ مزید خاموش نہ رہ سکا." الہان نے ان کے سارے جوابات حجر تک پہچائے. اس گفتگو کے دوران پولیس انسپیکٹر خاموش تھا.
”کیا میں فصیحہ کا کمرہ دیکھ سکتی ہوں؟ حجر نے اجازت مانگی.
”ضرور. صمد جاؤ انہیں بہن کے کمرے میں لے جاؤ" وہ اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے بولیں جو کچھ دیر پہلے ہی گھر میں داخل ہوا تھا. بتیس سالہ صمد ماں کی بات پر عمل کرتے ہوئے خاموشی سے انہیں دوسری منزل پر بنے فصیحہ کے کمرے میں لے آیا. کمرے میں داخل ہوتے ہی حجر نے طائرانہ نگاہوں سے اردگرد کا جائزہ لیا. ایک دیوار کے آگے پڑا بیڈ, خستہ سی ڈریسنگ ٹیبل اور کپڑوں کے ڈھیر سے بھرا استری سٹینڈ. اس کمرے میں گنتی کی چیزیں تھیں. حجر نے پوکٹ سے سرجکل گلوز نکال کر ہاتھوں پر چڑھائے اور ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی چیزوں کا جائزہ لینے لگی. صمد انہیں اوپر چھوڑ کر واپس چلا گیا تھا جبکہ الہان اور پولیس انسپیکٹر کمرے کے دروازہ کے قریب کھڑے خاموشی سے اس کی کاروائی دیکھ رہے تھے. وہ بڑی باریک بینی سے ایک ایک چیز دیکھ کر تھی. ڈریسنگ ٹیبل کی سطح پر اسے چند سنہری رنگ کے بال ملے تھے جنہیں پولیس انسپیکٹر کی جانب بڑھاتے ہوئے وہ بولی
”انھیں کسی پیکٹ میں ڈال لیں." انسپیکٹر نے خاموشی سے وہ بال اس سے لے کر پلاسٹک بیگ میں ڈال لیے. ڈریسنگ ٹیبل کی اشیاء دیکھنے کے بعد وہ کھڑکی کی جانب بڑھی. اس کھڑکی کا شیشہ ٹوٹا ہونے کے باعث اسے باہر کا منظر صاف نظر آرہا تھا اور باہر والوں کو اندر کا منظر واضح نظر آرہا تھا. اس گھر کے سامنے چھوٹی سی پارک تھی اور پارک کے اس پار اونچی بلڈنگ تھی.
”سامنے والی بلڈنگ کمرشل ہے یا رہائشی ہے؟" اس نے سوال کیا. الہان نے اس کا سوال انسپیکٹر تک پہنچایا
”رہائشی ہے. اس میں بہت سے اپارٹمنٹ ہیں جن میں لوگ کرائے پر رہتے ہیں." پولیس انسپیکٹر نے جواب دیا.
”پتا کرو کہ اس کمرے کے باکل سامنے جو اپارٹمنٹ ہے اس میں کون مقیم ہے." اس نے آرڈر دیا اور پھر کمرے پر ایک آخری نگاہ ڈالنے کے بعد وہ سیڑھیاں اتر کر نچلی منزل میں آئی. الہان اور انسپیکٹر نے بھی اس کی تقلید کی.
”آخری مرتبہ فصیحہ سے آپ کی گفتگو کس موضوع پر ہوئی تھی؟" ححر نے مسز جمیل سے سوال کیا
”اغواہ والے دن صبح ناشتے کے وقت میری اس سے بات ہوئی تھی. اس دن ٹی وی پر الہان مرتضی کے توسط آپ کے پاکستان آنے کی خبر نشر ہوئی تھی. اسی موضوع پر ہماری بات ہوئی تھی." ان کی بات سن کر الہان کے چہرے کے تاثرات میں کھچاؤ آیا اور جب اس نے یہ بات حجر تک پہنچائی تو حجر کے بھی تاثرات بدلے
”حرف بہ حرف وہ گفتگو بتائیں." حجر کی بات کے جواب میں مسز جمیل نے اس دن فصیحہ سے ہونے والی گفتگو بتائی. وہ جیسے حیسے بتاتی جا رہی تھی الہان کی آنکھوں میں برہمی بڑھتی گئی. اسے غصہ فصیحہ پر نہیں اس نیوز چینل پر آرہا تھا جس نے یہ خبر لیک کی تھی. حجر وقتًا فوقتًا اس کے تاثرات جانچ رہی تھی. ان کی بات ختم ہوتے ہی حجر نے واپسی کی راہ لی. گھر کے دروازے کے باہر سے رپورٹر کا ہجوم ختم ہو چکا تھا. وہاں اب صرف چند پولیس والے کھڑے تھے.

”سامنے والی بلڈنگ کے اپارٹمینٹ میں رہنے والے تمام خاندان کے ریکارڈ ایک گھنٹے کے اندر اندر مجھے بھیجیں." گھر کے دروازے کے باہر رک کر وہ اے ایس پی رضا حمید کو مخاطب کرتے ہوئے بولی.
”ٹھیک ہے میم" وہ مودب انداز میں بولا.
”باز کی تصویر کہاں سے ملی تھی.؟" اس نے اگلا سوال کیا
”اگلی گلی کی دیوار پر چسپاں تھی باز کی تصویر" رضا نے جواب دیا. اس گفتگو کے دوران الہان خاموش تھا کیونکہ رضا کو انگلش بولنی آتی تھی.
”کہاں ہے وہ گلی؟ مجھے وہاں تک گائیڈ کریں" اس کی بات پر رضا اسے اس جگہ تک لے گیا جہاں باز کی تصویر چسپاں تھی. وہ جگہ زیادہ فاصلے پر نہیں تھی اس لیے وہ لوگ چلتے چلتے چند منٹوں میں وہاں تک پہنچ گئے تھے. اس دیوار پر باز کی تصویر اسی انداز میں چسپاں تھی جیسے وہ اغواہ کار لگا کر گیا تھا. حجر غور سے اس تصویر کو دیکھنے لگی.
”کیا آپ نے غور کیا ہے کہ اس تصویر میں اور پچھلے جتنی تصویریں ملی تھیں ان سب میں فرق ہے.؟" حجر بغیر کسی کو مخاطب کیے بولی. اس کی بات پر الہان بھی متوجہ ہوا
”کیا فرق ہے؟" لمحے کی تاخیر کیے بغیر الہان نے سوال کیا.
”اس ڈرائنگ میں اس باز کی آنکھیں کھلی ہیں. جب کہ پچھلی تمام ڈرائینگز میں آنکھیں بند تھیں." اس نے انھیں باز کی آنکھوں کی جانب متوجہ کیا. وہ تصویر ہاتھ سے بنائی گئی تھی. ایک باز جس کے جسم میں تیر لگنے کے باعث وہ نڈھال تھا. اس کی بات سن کر الہان کے چہرے کے تآثرات بدلے. وہ شاید باز کی کھلی ہوئی آنکھوں کا مطلب جان گیا تھا. جان تو حجر بھی گئی تھی مگر ان دونوں نے ظاہر نہیں کیا کہ وہ مطلب جان گئے ہیں.
”فصیحہ کا کالج کس طرف ہے؟" حجر نے سوال کیا.
”یہاں سے مزید چند منٹوں کے فاصلے پر ہے."
”کالج جاتے وقت اغواہ کیا گیا تھا اسے یا کالج سے واپسی پر؟"
”کالج کی ٹیچرز کا کہنا ہے کہ وہ کالج آئی تھی اور کلاس کی لڑکیوں کے مطابق وہ سب اکٹھی ہی کالج سے واپسی کے لیے نکلی تھیں."
”کالج کے گیٹ کے باہر لگے کیمروں کی فوٹیج نکلوائیں اور دیکھیں کی کوئی مشکوک شخص کالج کے اردگرد تھا یا نہیں. لڑکیوں سے بھی پوچھ گچھ کریں کہ کالج جاتے وقت یا واپسی کے وقت کوئی مشکوک شخص یا کوئی غیر معمولی چیز تو محسوس نہیں کی انہوں نے." حجر نے رضا کو ہدایت دی. اب وہ لوگ واپس گاڑی کی جانب آرہے تھے.
”اوکے میم"
”ڈیڈ باڈیز کی تلاش کہاں تک پہنچی؟" اس نے اگلا سوال کیا.
”میم شہر کی گلی گلی چھان ماری ہے مگر کہیں سے کوئی ڈیڈ باڈی نہیں ملی. کیا آپ کو یقین ہے کہ بچے مر گئے ہیں؟"
”میں ہنڈرڈ اینڈ ٹین پرسنٹ شور ہوں کہ بچے مر گئے ہیں. آپ مجھے اسلام آباد کا میپ دیں. میں آپ کو چند جگہیں ہائی لائٹ کر دیتی ہوں. ڈیڈ باڈیز ان میں سے کسی جگہ پر موجود ہونگی." وہ پر اعتماد انداز میں بولی.
”آج کے لیے اتنا ہی بہت ہے. کل سے پروپر انویسٹیگیشن کا آغاز کریں گے. کیوں مس حجر؟ اب تو کسی کی جان کو خطرہ نہیں ہے نا؟ الہان کی بات پر حجر نے چبھی ہوئی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا.
”سر ٹھیک کہہ رہے ہیں میم! کل آئی جی سے میٹنگ کے بعد ہی کیس کی کاروائی شروع کریں گے." رضا نے بھی مشورہ دیا.
”ٹھیک ہے." وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولی. اس کی بات سنتے ہی الہان نے رضا سے ہاتھ ملایا اور گاڑی کی جانب بڑھ گیا حجر نے بھی اس کی تقلید کی. انہیں وہاں سے نکلتے نکلتے دو پہر ہو گئی تھی. گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے الہان بولا
”مس حجر! آئی ایم ایسٹریملی سوری فار دیٹ. میں نے پوری کوشش کی تھی کہ آپ کے پاکستان آنے کی کوئی خبر میڈیا تک نہ پہنچے مگر کسی لوکل سے چینل نے یہ خبر لیک کر دی تھی." وہ واقعی شرمندہ تھا.
”مجھ سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے. معافی فصیحہ سے مانگیں جس کی جان اس خبر کے لیک ہونے سے خطرے میں پڑ گئی ہے." اپنی بات مکمل کرکے حجر ہاتھ میں پکڑی فائل کی جانب دوبارہ متوجہ ہو گئی.
”کیا مطلب؟" وہ ناسمجھی سے بولا
”بہت جلد مطلب پتا چل جائے گا." اب کی بار وہ فائل سے نظریں ہٹائے بغیر بولی. اس کا انداز دیکھ کر الہان نے ہونٹ بھینچ کر خود کو مزید کچھ کہنے سے باز رکھا. باقی کا راستہ خاموشی سے کٹا تھا. ایک بلڈنگ کے باہر گاڑی روکنے کے بعد وہ باہر نکلا اور ٹرنک سے سوٹ کیس نکالنے لگا. گاڑی رکتے ہی حجر بھی فائل بند کرتے ہوئے باہر نکلی. بلڈنگ کا مین گیٹ پار کرکے وہ لوگ پورچ میں آئے تھے جب الہان حجر کی جانب مڑا جو چھوٹے چھوٹے قدموں سے اس کے پیچھے آرہی تھی.
”مس حجر! یہ اپارٹمنٹ کی چابیاں ہیں. سیکنڈ فلور پر دائیں جانب بنا تیسرا اپارٹمنٹ ہے." اسے مخاطب کرتے ہوئے اس نے چابیاں بڑھائیں اور سوٹ کیس اس کی جانب بڑھایا.
”آپ یہاں آرام سے رہیں. اپارٹمنٹ میں ضرورت کی سب چیزیں موجود ہیں اور شام تک فل ٹائم میڈ  اور ڈرائیور بھی آجائے گا. اگر آپ کو کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو آپ مجھے کہہ سکتی ہیں." دھوپ کی تمازت سے چمکتے اس کے چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے الہان بولا. آب وتاب سے چمکتا ہوا سورج الہان کی پشت پر تھا. سورج کی تیز روشنی کے باعث وہ اس کی جانب دیکھ نہیں پا رہی تھی. دائیں ہاتھ سے آنکھوں کو چھبنے والی دھوپ کو روکتے ہوئے وہ بمشکل بولی
"مجھے میڈ کی ضرورت نہیں ہے. میں اکیلے رہنے کی عادی ہوں اس لیے آپ اس میڈ کو آنے سے منع کر دیں." اسے سورج کی روشنی کہ وجہ سے ڈسٹرب ہوتا دیکھ کر الہان گھوم کراس کی پشت کی جانب گیا. اسے مڑتے دیکھ کر حجر نے بھی رخ موڑا. اس سے ان دونوں کی پوزیشن swap ہو گئی تھی. اب سورج حجر کی پشت پر تھا اور الہان کا رخ سورج کی جانب تھا مگر آنکھوں پر لگے شیڈز کے باعث وہ تیز روشنی سے ڈسٹرب نہیں ہو رہا تھا.
”شکریہ" سورج کی روشنی سے بچانے کے لیے اس نے الہان کا شکریہ ادا کیا.
”شکریہ کی ضرورت نہیں ہے اور رہی بات میڈ کی تو میں اس کو نہیں ہٹا رہا. یہ ناروے نہیں ہے جہاں آپ اکیلی سہولت سے رہ رہیں تھیں. ہہ پاکستان ہے جہاں ایک لڑکی کا اکیلے رہنا بہت مشکل ہے بلکہ ناممکن ہی کہہ لیں. وہ میڈ ویل ٹرینڈ ہے اور درحقیقت اسے آپ کی سکیورٹی کےلیے رکھا گیا ہے." کندھے اچکاتے ہوئے اس نے اپنی بات مکمل کی. اس کا ہٹ دھڑم انداز حجر کو ایک آنکھ نہ بھایا تھا.
”مجھے اپنی حفاظت کرنا اچھے سے آتا ہے اس لیے بہتر ہے کہ آپ اسے ہٹا دیں ورنہ میں خود اس کا انتظام کر لوں گی." وہ دانت پیس کر بولی.
”آپ اسے جو مرضی کہہ لیں وہ یہاں سے کہیں نہیں جائے گی. کل صبح آپ کی آئی جی کے ساتھ میٹنگ ہے. میٹنگ کے بعد آپ کو پولیس فورس اور اس کیس کو اپنے طریقے سے حل کرنے کی اختیارات دے دیے جائیں گے. میں کل صبح آپ کو دس بجے پک کروں گا." وہ سہولت سے بولا
”میں خود چلی جاؤں گی."
”آپ کے لیے یہی بہتر ہے کہ آپ اکیلی گھر سے باہر نہ نکلیں. صبح میرا ویٹ کیجیے گا." اپنی بات کہہ کر وہ مڑنے لگا تھا مگر حجر کی پکار نے اس کے قدم روک لیے
”مسٹر سی ای او! صبح آئی جی سے میٹنگ کے بعد, میں آپ سے انٹیروگیشن کروں گی."
”آپ مجھے شک کے کٹھرے میں کھڑا کر رہی ہیں؟" وہ دائیں آبرو اٹھا کر سوالیہ انداز میں بولا.
”بالکل نہیں... میں بس وہ بات جاننا چاہ رہی ہوں جسے آپ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں. دبئی میں جو سوالات میں نے کیے تھے کل ان کے جوابات سوچ کر آئیے گا اور اس دفعہ کوشش کریے گا جوابات ایسے ہوں جن سے میں مطمئن ہو جاؤں." اس کے انداز میں کوئی رعایت نہیں تھی.
”میں آپ کے سوالات کے جواب دے چکا ہوں." وہ بے تاثر چہرے اور سرد لہجے میں بولا.
”یہ بات آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی کہ وہ جوابات جھوٹ تھے. امید ہے کہ کل آپ مجھے سچ بتائیں گے اور بے فکر رہیں میں آپ کے راز کسی کو نہیں بتاؤں گی." وہ جتانے والے انداز میں بولی اور بلڈنگ کے اندرنی گیٹ کی جانب بڑھ گئی. پیچھے کھڑا الہان اس وقت تک اس کی پشت کو دیکھا رہا جب تک وہ گیٹ کہ اس پار گم نہ ہو گئی.
"کیوں مجھے گھسیٹ رہی ہے یہ اس کیس میں؟ یہ اتنی ہٹ دھڑم کیوں ہے پھپھو؟ کس پہ چلی گئی ہے ؟ آپ اور ہارون چچا تو ایسے نہیں تھے." وہ منہ میں بڑابڑایا. پھر منہ سے نکلے لفظوں پر غور کیے بغیر بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا وہ گاڑی کی جانب بڑھ گیا. اسے اس بات کا احساس نہیں ہوا تھا کہ بے دھیانی میں ہی سہی وہ اس حقیقت کو مان گیا تھا کہ وہ ہارون اور آنیہ کی بیٹی ہے.
....................
1990 ماڈل کی سوزوکی اپنی منزل کی جانب رواں تھی. ڈرائیونگ سیٹ پر ہارون بیٹھا تھا اور پیسنجر سیٹ پر آنیہ براجمان تھی. آنیہ کی گود میں حجر سوئی ہوئی تھی.
”اپنا موڈ ٹھیک کر لو آنیہ. ہم بس پہنچنے والے ہیں." آنیہ کو منہ بنائے بیٹھے دیکھ کر ہارون بولا.
”کچھ نہیں ہوا میرے موڈ کو" وہ اس کی جانب رخ کرتے ہوئے بولی
”سارا راستہ ایک لفظ نہیں کہا تم نے اور تمہاری یہ خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ تمہارا موڈ خراب ہے."
”آپ کو کون سا فرق پڑ گیا ہے میرے خراب موڈ سے"
”آنیہ! تم جانتی ہو کہ تمہارے خراب موڈ سے سب سے زیادہ فرق مجھے ہی پڑتا ہے." اس کی بات کے جواب میں وہ خاموش رہی.
”کچھ نہیں ہو گا آنیہ! اتنے سالوں سے اس انجان شخص کے خوف کے زیراثر تم نے گوادر میں قدم نہیں رکھا. اپنے اس خوف کو ختم کرو اور میری بات سمجھنے کی کوشش کرو. اللہ یار بزنس پارٹنر کے علاوہ میرا دوست بھی ہے اور بہت عرصے سے وہ ہمیں اپنی حویلی بلا رہا ہے. پچھلے ہفتے الہان کی برتھ ڈے پارٹی پر بھی اس نے کتنا اصرار کیا تھا. چند گھنٹوں کے لیے ہی تو آئے ہیں گوادر اور اب تم اکیلی نہیں ہو. میں مرتضی اور الہان تمہارے ساتھ ہیں. ان تین جوانوں کی موجودگی میں تمہے کسی سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے." اس کا ہاتھ تھام کر ہارون نے اسے یقین دلایا.
”مجھے لگ رہا کہ کچھ برا ہونے والا ہے."
”تمہارا وہم ہے آنیہ"
”جو میں محسوس کر رہی ہوں آپ وہ نہیں سمجھ سکتے" اس کے چہرے پر پریشانی تھی.
”الٹی سیدھی باتیں مت سوچا کرو. اچھی اچھی باتیں سوچا کرو" ہارون نے مشورہ دیا
”مثلاً کون سی اچھی باتیں؟" وہ بھنویں اچکاتے ہوئے بولی
”ماضی کی بجائے تم مستقبل کے بارے میں سوچو. حجر کے بارے میں سوچا کرو. اس کو مستقبل میں کس مقام پر دیکھنا چاہتی ہو؟" ہارون نے اس کا دھیان بٹانے کے لیے سوال کیا.
”میں بس اسے اپنے آس پاس دیکھنا چاہتی ہوں. اپنی نظروں کے سامنے."
”محترمہ بیٹیاں پرائی ہوتی ہیں. ایک نہ ایک دن اس نے ہم سے دور چلے جانا ہے." ہارون مسکراتے ہوئے بولا
”ابھی ایک سال کی ہے حجر اور آپ کو ابھی سے اس کی شادی کی ٹینشن پڑ گئی ہے. بے فکر رہیں آپ, میں نے اس کی شادی کا بھی سوچ رکھا ہے. شادی کے بعد بھی میرے پاس ہی رہے گی یہ." سوئی ہوئی حجر کو محبت بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے وہ بولی
"ایک تو تم خواتین کی پلینگز... زندگی کے اگلے لمحے کا بھروسہ نہیں اور تم سالوں کی پلینگ کیے بیٹھی ہو." ہارون کی بات کے جواب میں آنیہ نے مسکرانے پر اکتفا کیا. اپنی مسکراہٹ سے اس نے ہارون کو تو مطمئن کر دیا تھا مگر اس کا دل مطمئن نہیں ہو رہا تھا. گوادر کی فضائیں اس کا دل ہولا رہی تھیں, اسے اندیشہ دے رہی تھیں کہ کچھ برا ہونے والے ہے. وہ چاہ کر بھی اپنے اس وہم سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پارہی تھی. وہ اسی کشمکش کا شکار تھی جب ہارون نے اللہ یار کی حویلی کے باہر گاڑی روکی. حجر کو کندھے سے لگاتے ہوئے وہ گاڑی سے باہر نکلی اور اس حویلی کا جائزہ لینے لگی. مغلیہ فن تعمیر پر بنی وہ حویلی آنیہ کی توجہ کا مرکز تھی. خوبصورت باغ کے بیچ و بیچ بنے راستے سے گزرتے ہوئے وہ حویلی کے اندرونی حصے کی جانب بڑھے. اندرونی گیٹ کے پار اللہ یار ان کے استقبال کے لیے کھڑا تھا. سفید شلورا قمیض میں ملبوس وہ کندھوں پر روایتی اجرک اوڑھے ہوئے تھا. انہیں آتا دیکھ کر اللہ یار نے شعر بولا
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
”اسلام و علیکم!" اس کے شعر پر مسکراتے ہوئے ہارون بولا.
”وعلیکم سلام! سفر کیسا رہا؟ بھابھی کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟" ہارون سے گلے مل کر اس نے سوال کیا
”نہیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی." آنیہ مسکراتے ہوئے بولی
”تشریف لائیں" اس نے انہیں اندر کی جانب بڑھنے کا اشارہ کیا. بڑے سے صحن کے چاروں طرف کمرے تھے. اللہ یار انہیں دائیں جانب بنے دوسرے کمرے میں لے گیا. وہ مہمان خانہ تھا جہاں لکڑی کے صوفوں کے بیچ ٹیبل رکھی گئی تھی. وہاں مرتضی کی فیملی پہلے ہی براجمان تھی.
”پھپھو! دیکھیں ہم آپ سے جیت گئے ہیں. ہم پہلے آئے ہیں." الہان آنیہ کی طرف بڑھتے ہوئے بولا.
"الہان! پھپھو کو بیٹھ تو لینے دو" فرح دھیمے لہجے میں بولی.
”کوئی بات نہیں بھابھی" اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھتے ہوئے آنیہ بولی.
”بڑی دیر کر دی تم لوگوں نے آنے میں" مرتضی ہارون کو مخاطب کرتے ہوئے بولا.
”راستے میں سٹے کیا تھا اس لیے دیر ہو گئی." ہارون نے جواب دیا.
”ہارون چچا واپسی پر میں آپ کی گاڑی میں بیٹھوں گا." الہان ہارون کو مخاطب کرتے ہوئے بولا
”ابھی سے جانے کی فکر پڑ گئی ہے آپ کو." اللہ یار مسکراتے ہوئے بولا. اسی دوران ایک عورت اور بچہ اندر داخل ہوا. بچے کی عمر لگ بھگ چھ سال تھی جبکہ وہ عورت تقریبا آنیہ کی ہی عمر کی تھی. اس عورت نے روایتی بلوچی چادر اوڑھ رکھی تھی.
”اسلام و علیکم!" اندر آتے ہی اس عورت اور بچے نے سلام کیا.
”یہ میری بیوی ہے کنول" اللہ یار نے اس عورت کا تعارف کروایا. آنیہ اور فرح آگے بڑھ کر کنول کے گلے لگیں.
”اور یہ میرا بیٹا ہے بہرام" اپنی بیوی کا تعارف کروانے کے بعد اللہ یار نے بہرام کا تعارف کروایا. بہرام کو دیکھ کر الہان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی. وہ وہاں بڑوں میں بیٹھا بور ہو رہا تھا تبھی اپنی عمر کے بچے کو دیکھ کر اسے خوشی محسوس ہوئی.
”بہرام جاؤ الہان کے ساتھ پچھلے باغ میں کھیلو اور اس کا خیال رکھنا" اللہ یار کی بات پر الہان مسکراتا ہوا بہرام کے پاس گیا.
”جی بابا سائیں" بہرام سر ہلاتا ہوا الہان کو لے کر باہر نکل گیا.
”احتشام چلا گیا واپس؟" اللہ یار نے سوال کیا.
”ہمارے ساتھ ہی وہ بھی گھر سے ایئرپورٹ کے لیے نکل گیا تھا. اس دفعہ بہت کم وقت کے لیے آیا تھا ورنہ عام طور پر تو ایک مہینے کی چھٹی پر آتا ہے." مرتضی نے تفصیل بتائی
”سہی" اللہ یار نے جواب دیا. باتوں کا سلسلہ یونہی ہی چلتا رہا. کچھ دیر بعد الہان اور بہرام بھی واپس آگئے تھے. کھانے کے بعد چائے کا دورچلا اور پھر شام ہوتے ہی انہوں اللہ یار سے اجازت چاہی
” اللہ یار اب ہمیں اجازت دو. سفر خاصا لمبا ہے اسلیے ہمیں اب نکلنا چاہیے." مرتضی بولا.
”آج کی رات یہاں ہی رہ لو. اندھیرا ہونے والا ہے اس وقت جانا مناسب نہیں." اللہ یار نے مشورہ دیا
”نہیں یار... میری بہن اسی شرط پر آئی ہے کہ ہم آج یہاں رکیں گے نہیں. تم بے فکر رہو ہم چلے جائیں گے." مرتضی مسکراتے ہوئے بولا.
”مرضی ہے تم لوگوں کی. خیر آنے کے لیے بہت بہت شکریہ" چند مزید اختتامی کلامات ادا کرنے کے بعد وہ لوگ گاڑیوں میں بیٹھے. آنیہ حجر کو لے کر پیسنجر سیٹ پر بیٹھی تھی, ہارون ڈرائیو کر رہا تھا جبکہ الہان اپنے ماں باپ کے ساتھ بیٹھنے کی بجائے ان کی گاڑی میں بیک سیٹ پر بیٹھا تھا. ہارون کے گاڑی ریورس کرنے کے دوران الہان کی نظریں حویلی کی بیک سائیڈ پر بنے باغ پر ٹکی تھیں.
”کہاں دیکھ رہے ہو الہان؟" اس کو مسلسل باغ کی طرف دیکھتا پا کر آنیہ نے سوال کیا.
”کہیں نہیں." اس نے جواب دیا. اسی دوران ہارون نے گاڑی چلائی تو حویلی اور وہ باغ بہت پیچھے رہ گیا.
”الہان!!! اچھے بچے جھوٹ نہیں بولتے. سچ سچ بتاؤ کیا بات ہے؟" آنیہ اس کے ہر انداز سے واقف تھی کیونکہ وہ شروع سے ہی اس سے اٹیچ تھا.
”پھپھو! جب میں بہرام کے ساتھ حویلی کے باغ میں کھیلنے گیا تھا نا تب میں نے وہاں ایک انکل کو دیکھا تھا. وہ پہلے کتنی دیر مجھے گھورتے رہے پھر.." وہ ہچکچاتے ہوئے کہتے کہتے رک گیا
”پھر.. " آنیہ کا دل کانپا تھا مگر اس نے اپنا خوف ظاہر نہیں ہونے دیا.
”اس نے کچھ کہا تو نہیں آپ کو؟" آنیہ نے ایک بار پھر سوال کیا
”کہا تو کچھ بھی نہیں تھا اور ان کے گھورنے کی وجہ سے میں اندر آگیا تھا. پھر کھانے کے بعد جب میں ڈرائینگ روم میں بنی کھڑکی سے باہر دیکھا تو وہ انکل وہاں ہی کھڑے تھے. اسی پوزیشن میں کھڑے تھے وہ مگر اب وہ مجھے نہیں دیکھ رہے تھے."
”کس کو دیکھ رہے تھے وہ؟" وہ اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے بولی. ہارون ان کی گفتگو خاموشی سے سن رہا تھا.
”وہ.... آپ دونوں کو گھور رہے تھے."
”آپ کو کیسے پتا چلا کہ وہ ہمیں دیکھ رہے تھے؟" اب کی بار ہارون نے سوال کیا
”وہ میرے پیچھے کسی کو دیکھ رہے تھےاور میرے پیچھے آپ اور پھپھو کھڑے تھے."
”آنیہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے. ضروری نہیں کہ وہ وہی شخص ہو." ہارون نے آنیہ کو تسلی دی. اس کی بات کے جواب میں آنیہ غیرمرئی نقطے پر نگاہ جمائے خاموش بیٹھی رہی. اس کو سوچ میں ڈوبا دیکھ کر ہارون نے ایک ہاتھ سے سٹیرنگ سمبھالتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اس کی آنکھوں کے آگے چٹکی بجائی اور یہی وہ موقع تھا جب بندوق چلنے کی آواز آئی. بندوق کی گولی آکے ان کی گاڑی کے ٹائیر میں لگی جس سے ٹائیر پھٹا اور سٹیرنگ پر گرفت مضبوط نہ ہونے کے باعث گاڑی آؤٹ آف کنٹرول ہوئی. گاڑی تیز رفتار سے ایک درخت کی جانب بڑھتے دیکھ آنیہ نے زور سے حجر کو خود سے لگا لیا. گاڑی درخت سے ٹکرائی اور ساتھ ہی آنیہ کی چیخ گونجی. اس کے بعد اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا. بند ہوتی آنکھوں سے جو آخری چہرہ اس نے دیکھا تھا وہ ہارون کا تھا. سٹیرنگ پر ٹکا خون سے بھرا چہرہ. رات کے اندھیرے میں ڈوبی اس سڑک پر اب خاموشی چھا گئی. اس خاموشی میں ایک حیولہ ہاتھ میں گن اٹھائے دبے قدموں سے ان کی گاڑی کی جانب بڑھا.
……………………
حجر کو ایک نظر دیکھنے کے بعد احتشام ایئرپورٹ سے واپس آگئے تھے. انہیں واپس آئے کئی گھنٹے بیت گئے تھے مگر الہان تھا کہ واپس آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا. وہ کب سے لاؤنج میں بیٹھے اس کا انتظار کر رہے تھے. ایلکس بھی ان سے کچھ فاصلہ پر کھڑا اپنا سسٹم اپ ڈیٹ کرنے میں مصروف تھا. فراغت کے اس وقت کو گزارنے کے لیے انہوں نے ایل ای ڈی اون کی اور خبروں والا چینل لگایا. ہیڈ لائن پر نظر پڑتے ہی انہیں پتا چل گیا تھا کہ اسے واہس آنے میں اتنی دیر کیوں لگ رہی ہے. ٹی وی یونہی چلتا چھوڑ کر کچن میں جاکر دوپہر کا کھانا بنانے لگے. دوپہر تک وہ کچن میں مصروف رہے. کھانا کھانے کے بعد وہ قیولہ کرنے کے لیے اپنے کمرے میں چلے گئے. مغرب کے ٹائم وہ باہر نکلے تو الہان انہیں کچن میں کھانا کھاتے ہوئے دکھا
”برخودار! صبح سے کیا آوارہ گردی کر رہے ہو؟"
”خدا کا نام لیں احتشام چچا. صبح سے گھن چکر بنا اسلام آباد کی سڑکیں ناپ رہا ہوں اور آپ کو میری مشقت آوارہ گردی لگ رہی ہے."
”تمہے کس نے کہا تھا کہ سڑکیں ناپو؟" احتشام مسکراتے ہوئے بولے
”کچھ مت پوچھیں مجھ سے پہلے اس سر پھڑی لڑکی نے آتے ہی میٹر گھوما دیا ہے میرا." وہ جل کر بولا
”اس بیچاری نے ایسا کیا کہہ دیا ہے جس سے تم جل بھن گئے ہو؟"
”کہنا کیا ہے. وہی سوالوں کے جواب چاہیے محترمہ کو. یہ تو میں بتا دوں گا کہ میں نے اسے کیسے اپروچ کیا مگر یہ نہیں بتا سکتا میں اسے کہ میرا اس کیس سے کیا تعلق ہے." کھانے سے انصاف کرتے ہوئے وہ بولا
”بھئی یہ تمہارا اور اس کا معاملہ ہے میں بھلا کیا کہہ سکتا ہوں."
”ایئرپورٹ جاتے وقت آپ کو یہ خیال نہیں آیا کہ یہ میرا معاملہ ہے. تب تو ٹانگ اڑانے پہنچ گئے تھے." وہ دانت پیستے ہوئے بولا
”میں ایئرپورٹ نہیں گیا" احتشام نے سہولت سے جھوٹ بولا
”اتنا بھی بے وقوف نہیں ہوں میں. دیکھ لیا تھا میں نے آپ کو وہاں"
”ایک نظر دیکھنے گیا تھا اسے" احتشام نے جواز پیش کیا.
”وہ کیا عید کا چاند ہے جسے آپ دیکھنے گئے تھے. حد کرتے ہیں آپ بھی احتشام چچا. اگر وہ ہم میں سے ہوگی تو دنیا کے جس مرضی کونے میں چلی مڑ کر ہمارے پاس ہی آئے گی." وہ زچ ہو کر بولا
”مجال ہے جو تم میری ذرہ سی بھی عزت کرتے ہو. تمہارے باپ کی عمر کا ہوں میں اور باتیں تم مجھے ایسے سناتے ہو جیسے تمہارے بچپن کا دوست ہوں." احتشام مصنوعی غصے سے بولے. وہ جان بوجھ کر اسے زچ کرتے تھے. وہ چاہتے تھے کہ وہ بولے. اپنے غصے کا اظہار کرے. وہ اسے اس کے خول سے باہر نکالنا چاہتے تھے.
”شکر ہے آپ مانے تو سہی کہ آپ بابا کی عمر کے ہیں."
”میری عمر کا تذکرہ تو تم رہنے ہی دو. یہ بتاؤ کہ کیتھی نے کب جانا ہے؟"
”ایئرپورٹ چھوڑ کر آیا ہوں اسے. رات کی فلائٹ ہے اس کی."
”پیٹر کے متعلق کیا مشورہ دیا تم نے اسے؟"
”حقیقت ہی بتائی ہے. یہی کہا ہے کہ بندہ اچھا ہے. اسے پسند بھی کرتا ہے, کمپیوٹر پروگرامنگ کے ساتھ ساتھ روبوٹکس بھی پڑھ رکھی ہے, جاب بھی اچھی ہے مگر.... زندگی کو لے کر سیریس نہیں ہے. ہر وقت اینڈی اور جارج کے ساتھ ہنسی مزاق میں لگا رہتا ہے."
”آخری والی بات بتانا ضروری تھا کیا؟"
”میں اسے اندھیرے میں نہیں رکھ سکتا تھا."
”کیا لگتا ہے تمہے مان جائے گی وہ؟"
”مان جائے گی کیوں کہ میں نے اسے امید دلائی ہے کہ مستقبل میں اس جیسی سخت گیر بیوی پا کر اس کے سدھڑنے کے قوی امکانات موجود ہیں."
”یہ تو اچھی بات ہے. اپنی شادی کے بارے میں بھی کچھ سوچ لو." احتشام نے مشورہ دیا.
”سوچا ہوا ہے میں نے" اس نے سہولت سے جواب دیا
”کیا سوچا ہے؟" احتشام نے پرجوش انداز میں پوچھا.
”وقت آنے پر بتاؤں گا."
”وہ وقت کب آئے گا؟" وہ ترکی بہ ترکی بولے
” بہت جلد" وہ پر اعتماد انداز میں بولا
” اللہ تمہاری زبان مبارک کرے. ویسے تم اتنے پر یقین کیسے ہو؟"
”کیونکہ فٹی پرسںٹ کام ہو گیا ہے."
”وہ کیسے؟" احتشام نے بھنویں اچکا کر سوال کیا.
”لڑکا راضی ہے بس اب لڑکی کو راضی کرنا ہے." اپنی بات کہہ کر وہ کمرے میں چلا گیا جبکہ اس کی بات سن کر بے ساختہ امڈنے والی مسکراہٹ روک نہ پائے.
.............................
کچھ دیر پہلے ہی اس نے اپارٹمنٹ میں قدم رکھا تھا. شاور لینے کے بعد اب وہ سوٹ کیس سے اپنا سامان نکال کر واڈروب میں سیٹ کر رہی تھی. اسی دوران بیل بجنے کی آواز آئی تو کپڑے وہیں چھوڑتے ہوئے وہ دروازے کی جانب بڑھی. راہداری پار کرتے ہوئے وہ دروازے تک پہنچی. پیپ ہول سے اس نے دروازے کے اس پار دیکھا. وہاں پینتیس سال کی مضبوط ڈیل ڈول کی ایک عورت کھڑی تھی. حجر کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ میڈ ہے. بیزار سے تاثرات چہرے پر سجاتے ہوئے اس نے دروازہ کھولا
”اسلام و علیکم! میں فریحہ ہوں. الہان صاحب نے مجھے آپ کی مدد کے لیے رکھا ہے." حجر پر نگاہ پڑتے ہی فریحہ بولی. اسے ٹوٹی پھوٹی سہی مگر انگلش میں بات کرتا دیکھ کر حجر نے دل میں شکر ادا کیا.
”مجھے آپ کی مدد کی ضرورت نہیں ہے اس لیے آپ واپس چلی جائیں" حجر دھیمے مگر سخت لہجے میں بولی
”میم سر نے کہا تھا آپ اگر مجھے دھکے مار کر بھی یہاں سے نکایں تب بھی میں یہاں سے نہ جاؤں."
”آپ کے سر کو تو میں صبح انٹیروگیشن کے وقت بتاؤں گی. تشریف لے آئیں اندر کیونکہ واپس تو آپ جائیں گی نہیں." وہ چبا چبا کر بولی. اس کء کہنے پر وہ اند آئی اور اپارٹمنٹ کا جائزہ لینے لگی. دو بیڈ رومز اور خوبصورت لاؤنج پر مشتمل اس اپارٹمنٹ کی ہر چیز نفیس تھی.
”فیمیل بوڈی گارڈ والی کون سی ٹرینگ حاصل کی ہے آپ نے؟" حجر نے سوال کیا
”ان آرمڈ کومبیٹ سیکھا ہے میں نے."
”ٹھیک ہے. ایک بیڈ روم میں اپنا سامان رکھ لیں. آرام سے رہیں مگر غلطی سے بھی میرے معاملوں میں دخل اندازی کرنے کی کوشش مت کریے گا. میں اپنے سارے کام خود کروں گی اس لیے آپ کے لیے یہی بہتر ہے کہ میری کسی چیز کو ہاتھ مت لگائیں اور جب میں کام کر رہی ہوں مجھے ڈسٹرب نہیں کرنا. جس دن آپ نے کوئی غلطی کی میں اس دن آپ کو یہاں سے نکال دوں گی. میں آپ کہ غلطی کی منتظر رہوں گی." اس کو وارننگ دے کر وہ اپنے کمرے میں گم ہو گئی. ابھی اس نے کمرے میں قدم رکھا ہی تھا جب اسے رضا حمید کی کال موصول ہوئی.
”میم بلڈنگ میں رہنے والے خاندان کا ریکارڈ دیکھا ہے میں نے. ایک ہفتے پہلے ایک شخص نے وہاں اپارٹمنٹ رینٹ پر لیا تھا اور فصیحہ کے اغواہ والے  دن سے وہ شخص غائب ہے. اس نے دوبارہ اپارٹمنٹ کا رخ نہیں کیا." اس کے کال اٹھاتے ہی رضا حمید کی آواز گونجی.
”بلڈنگ کے مالک سے اس اپارٹمنٹ کی چابیاں لے کر اپارٹمنٹ کی تلاشی لو اور اس شخص نے اپارٹمنٹ رینٹ پر لیتے وقت جو انفارمیشن دی تھی وہ سب مجھے بھیجو."
”میم دراصل بلڈنگ کے ریکارڈ میں صرف اس شخص کا نام درج ہے اور کوئی معلومات نہیں ہے." 
”آئی ڈی کارڈ نمبر, پرانا ایڈریس یاں فون نمبر؟ کچھ تو لکھا ہو گا"
”صرف نام درج ہے." 
”بلڈنگ کی انتظامیہ ایسے کیسے کسی کو رکھ سکتی ہے." حجر بے یقینی سے بولی.
”اب کیا کرنا ہے؟" رضا نے سوال کیا
”کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ تو لگا ہو گا نا بلڈنگ میں؟ آپ ان کیمروں کی فوٹیج دیکھیں." اس نے حکم صادر کیا.
”بلڈنگ کے باہر ایک کیمرہ لگا تھا جو ایک ہفتے سے خراب ہے." وہ ہچکچاتے ہوئے بولا.
”ڈیم اٹ" وہ کچھ دیر سوچتی رہی.
”بلڈنگ سے لے کر فصیحہ کے گھر تک اور اس کے گھر سے لے کالج کے راستے میں جتنے سکیورٹی سرویلینس کیمرے لگے ہیں ان سب کی فوٹیج دیکھو." اس نے اگلا حکم دیا.
”اوکے میم" رضا نے چند اختتامی کلام ادا کرنے کے بعد فون بند کر دیا. اس کام سے فارغ ہو کر حجر نے وادڈروب سے فار کی دی گئی فائل نکالی. اس میں لکھی معلومات کاپی کرکے کیتھی کو بھیجنے لگی. اب کی بار اس نے اپنا نام چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ ساری درست انفارمیشن بھیجی تھی. فائل پر لکھے اپنے سر نیم پر نظر پڑتے اسے عجب احساس نے گھیرا. اسے اس نام سے بہت اپنائیت محسوس ہوتی تھی. اکثر وہ سوچتی تھی کہ اس کے ماں باپ کیسے ہونگے؟ جتنا وہ انہیں یاد کرتی ہے کیا وہ بھی اسے اتنا ہی یاد کرتے ہونگے؟ جانے کس حادثے کے باعث وہ ان سے علیحدہ ہوئی تھی؟ کیا انہوں نے کبھی اسے ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی؟ اگر انہوں نے اسے تلاش کیا بھی ہو گا تو اپنے ملک میں کیا ہو گا کیونکہ وہ تو اس بات سے لاعلم تھے کہ اغواہ کار اسے دبئی لے گیا تھا اور پھر مور اور فار اسے دبئی کے فضاؤں سے نکال کر ناروے لے گئے تھے. انہوں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ دنیا کے آخری کونے ناروے میں مقیم ہے. اس کی لامحدود سوچیں اسی بات پر آکر تھم جاتی تھیں کہ جانے وہ اس دنیا میں ہیں بھی یاں نہیں اور یہ خیال ذہن میں آتے ہی اس کی آنکھیں نم ہونے لگتی تھیں. اپنے ہوش میں کبھی اس نے انھیں نہیں دیکھا تھا مگر پھر بھی اس کا دل ان کے لیے یونہی حساس تھا.
..........................



SiadWhere stories live. Discover now