Siad (epi 10)

777 27 13
                                    

صیاد
ازقلم رباب تنویر

رات کے تیسرے پہر, حجر تاجکستان کے دارلحکومت دوشنبہ کے ایئرپورٹ پر بیٹھی اپنی فلائٹ کی اناؤنسمینٹ کا انتظار کر رہی تھی. بلیک لانگ کوٹ میں ملبوس,سر پر بی نی ہیٹ اور منہ پر ماسک لگائے وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی. اس کے انداز سے ظاہر تھا کہ وہ بہت تھکی ہوئی ہے کیونکہ آدھے گھنٹے پہلے ہی ایک لمبی فلائٹ کے بعد وہ ناروے سے تاجکستان پہنچی تھی اور اب مزید کچھ دیر میں اس نے تاجکستان سے پاکستان کی فلائٹ میں سوار ہونا تھا. دل ہی دل وہ اپنے کنیکٹنگ فلائٹ کے ذریعے پاکستان جانے کے فیصلے پر پچھتا رہی تھی. خود کو ملامت کرتے ہوئے وہ اس لمحے کو سوچنے لگی جب اس نے یہ فیصلہ کیا تھا. کل صبح کی ہی بات تھی جب مور کی تاکید پر عمل کرتے ہوئے کے وہ اوسلو کے ہیراینڈ بیوٹی سلون میں موجود تھی. ہیر سٹائلسٹ اس کی دی گئی ہدایات کے مطابق اس کے بالوں پر سے بلونڈ ڈائے ہٹانے کے بعد انہیں میڈیم لینتھ بینگز ہیر کٹ medium length with bangs hair cut میں سٹائل کرنے میں مصروف تھی. ڈائے ریموو ہونے کے باعث اس کے بالوں کا کالا رنگ نمایاں تھا جو اس کی سرخ و سفید رنگت پر بہت جچ رہا تھا. ہیر سٹائلسٹ ابھی اپنے کام سے فارغ ہوئی ہی تھی جب اس کا فون بجا. تنقیدی نگاہوں سے کندھوں تک آتے اپنے بالوں کا جائزہ لینے کے بعد اس نے ایک نظر فون کی سکرین کو دیکھا جس پر انٹرنیشنل نمبر لکھا تھا. بھنویں اچکاتے ہوئے اس نے کال ریسیو کی
”ہیلو... حجر ہارون ؟" کال ریسیو کرتے ہی گھمبیر آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی. ایک لمحے کہ لیے اسے لگا کہ لائن کی دوسری جانب مونسٹر ہے. بھاری گھمبیر لہجہ جس میں بیک وقت نرمی اور سرد پن موجود تھا, بالکل مونسٹر کی طرح .....
(بھلا میرا نمبر اس کے پاس کیسے جا سکتا ہے؟ وہ تو میرا نام بھی بھول گیا ہو گا اب تک ) دوسرے ہی لمحے دل ہی دل میں خود کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے اپنے خیال کی تردید کی اور پر اعتماد لہجے میں بولی
”جی... آپ کون؟"
”الہان مرتضی" دیوسائی ریسٹ ہاؤس کے لاؤنج میں لیپ ٹاپ سکرین کے سامنے بیٹھے الہان نے اپنا تعارف کروایا. اس کی بات سن کر حجر کو تعجب ہوا
”کل رات آپ نے پاکستان آنے کے متعلق میسج کیا تھا. میں نے اسی سلسلے میں بات کرنے کے لیے فون کیا ہے." اسے کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر اس نے فون کرنے کا مقصد بتایا.
”کہیں کیا کہنا ہے؟" سلون کا خارجی دروازہ پار کرتے ہوئے اس نے جواب دیا.
”اگلے دو تین دنوں میں ناروے سے پاکستان کی کسی بھی ڈائیریکٹ فلائٹ میں سیٹ موجود نہیں ہے. تاہم آج رات ایک کنیکٹنگ فلائٹ میں سیٹ موجود ہے. آپ بتا دیں کہ آپ کی تین دن بعد کی ڈائیریکٹ فلائٹ کی ٹکٹ بک کروں یا پھر آج رات کی کنیکٹنگ فلائٹ کی ٹکٹ بک کروں؟" لیپ ٹاپ پر کھلی فلائٹ ڈیٹیلز پر نظر ڈالتے ہوئے اس نے سوال کیا.
”کنیکٹنگ فلائٹ میں سٹے کتنی دیر کا ہے؟ اور سٹے کس جگہ ہے؟" پارکنگ ایریا میں کھڑی اپنی کار کی جانب بڑھتے ہوئے اس نے استفار کیا.
”تاجکستان میں ہے سٹے اور تقریباً آدھے گھنٹے کا ہے."
”کنیکٹنگ فلائٹ ہی ٹھیک ہے." کچھ لمحے سوچنے کے بعد اس نے جواب دیا.
”کنفرم ٹائمنگ اور فلائٹ ڈیٹیلز میں آپ کو بھیج دوں گا."
”ٹھیک ہے." کوئی اختتامی کلام بولے بغیر حجر نے فون بند کیا اور جلدی سے گاڑی گھر کی طرف جانے والی سڑک پر ڈالی. اگلے چند گھنٹوں میں اس نے بمشکل پیکنگ کی اور پھر ناروے کی فضاؤں کو غیر معینہ مدت کے لیے الوداع کہتے ہوئے جہاز میں سوار ہو گئی. فلائٹ کے دوران زیادہ تر وقت اس نے سوتے ہوئے گزارا تھا. کچھ دیر پہلے ہی اس نے وسطی ایشیائی ملک تاجکستان میں قدم رکھا تھا اور اب دوشنبہ کے ایئرپورٹ پر بیٹھی وہ اگلی فلائٹ کا انتظار کر رہی تھی. کچھ منٹوں پہلے چائنہ سے آنے والی فلائٹ لینڈ ہوئی تھی اس لیے ایئرپورٹ پر گہماگہمی تھی. ہاتھ میں پکڑے میگزین پر عدم توجہی سے نگاہ ڈالنے کے بعد اس نے ایف آئی ڈی ایس FIDS سکرین پر اپنی فلائٹ کی ٹائمنگ دیکھی اور پھر فون کی سکرین روشن کرکے ٹائم دیکھا. پچھلے دس منٹوں میں وہ بیس مرتبہ یہ عمل دہرا چکی تھی مگر وقت تھا کہ کچھوے کی رفتار سے گزر رہا تھا. تنگ آکر وہ سفید ٹائلوں سے مزین ایئرپورٹ پر بیٹھے مسافروں کا جائزہ لینے لگی. وہ مختلف مسافروں اور کریو ممبران پر سرسری نگاہ ڈالنے میں مصروف تھی جب اس کی نظر ایک لڑکی پر پڑی. اس لڑکی کی چھوٹی چھوٹی سوجھی ہوئی آنکھیں اس بات کا ثبوت تھیں کہ وہ چائنہ سے تعلق رکھتی ہے. گرے رنگ کی ہوڈ اور لائٹ بلو جینز پہنے وہ اردگرد سے بےنیاز کسی سے فون پر باتیں کرنے میں مصروف تھی.  فاصلہ کم ہونے کے باعث حجر کو اس کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی.
”میں نے ایک دفعہ کہا ہے نا تمہے کہ باس سے مشورہ کرکے جواب دوں گی پھر بار بار فون کرنے کی کیا منطق ہے؟" انگلش لب ولہجے میں وہ فون کے دوسری جانب موجود شخص سے مخاطب تھی. (حجر اس چائنیز نقوش والی لڑکی کے منہ سے شستہ انگلش سن کر حیران ہوئی تھی.)
”میں فلحال تمہاری کوئی بات سننے کے موڈ میں نہیں ہوں."
”اور ایک بات کان کھول کر سن لو۔ غلطی سے بھی پاکستان میں قدم رکھنے کی کوشش نہ کرنا. اگر تم مجھے پاکستان میں نظر آئے تو اسی وقت میں نے تمہارے پرپوزل سے انکار کر دینا ہے." دوسری طرف موجود شخص کو کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر اس نے فون بند کیا اور پھر جیسے ہی سر اٹھایا تو اس کی نگاہ حجر سے ملی. اسے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر اس لڑکی کو اپنی بلند آواز کا احساس ہوا تو اس کے چہرے پر شرمندگی کے تاثرات ابھرے. حجر نے اسے شرمندگی کے احساس سے نکالنے کے لیے اپنی نظروں کا رخ میگزین کی جانب موڑ لیا. کچھ دیر بعد اس کی فلائٹ کا اعلان ہوا تو اپنا ہینڈ کیری اٹھا کر وہ پلین کی جانب بڑھنے لگی. پلین میں سوار ہوتے ہی اس نے اپنی نشست تلاش کی. ابھی وہ اپنی نشست پر بیٹھی ہی تھی جب اسے وہ لڑکی اسے اپنی جانب بڑھتی ہوئی دکھائی دی. چند قدم کا فاصلہ عبور کرکے وہ اس کے ساتھ والی سیٹ پر آبیٹھی.
”کچھ دیر پہلے والی حرکت کے لیے سوری. مجھے پبلک پلیس پر اونچی آواز میں نہیں بولنا چاہیے تھا یقیناً آپ میری اونچی آواز کی وجہ سے ڈسٹرب ہوئی ہونگی." بیٹھتے ساتھ ہی اس نے اپنی حرکت پر معافی طلب کی.
”سوری کہنے کی ضرورت نہیں ہے. اٹس اوکے" حجر نے اس کی معافی قبول کی.
”نام کیا ہے آپ کا؟" وہ لڑکی خاصی باتونی تھی اس لیے اس نے باتوں کا سلسلہ جوڑا
”حجر... آپ کا نام؟"
”کیتھرائن ہونگ... کیتھرائن خاصا لمبا ہے اسی لیے آپ مجھے کیتھی کہہ لیں." اس کی بات پر سر ہلا کر حجر خاموش ہو گئی.
”کیا کرتی ہیں آپ؟ میرا مطلب سٹوڈینٹ ہیں؟ ہاؤس وائف ہیں؟ یاں پھر بزنس وومین ہیں؟" کیتھی نے خاموشی کو توڑتے ہوئے استفار کیا.
”میں سائیکولوجسٹ ہوں." حجر نے رسانیت سے جواب دیا.
”گریٹ"
”آپ کا کیا پروفیشن ہے؟" حجر نے اخلاقاً پوچھا
”میں باؤ بےہوئیجیا Bao bei huijia چیرٹی سروس گروپ کی ممبر ہوں." اس نے ایک چائنیز ویب بیسڈ نیٹ ورک کا نام لیا.
”کون سا گروپ؟" حجر اس گروپ کا نام سمجھ نہیں پائی تھی اس لیے اس نے استفار کیا.
”باؤ بے ہوئیجیا... مطلب بےبی بیک ہوم"
”بےبی بیک ہوم ..... کس قسم کا گروپ ہے یہ؟" حجر نے باؤ بے ہوئیجیا کا مطلب منہ میں دہرایا پھر اس گروپ کے متعلق مزید سوال کیا کیونکہ اس کے نام کا مطلب اسے دلچسپ لگا تھا.
”باؤبےہوئیجیا ایک چائینز وولنٹیر volunteer (رضاکار) نیٹ ورک ہے جو گمشدہ بچوں کو ان کی فیملی سے ملواتا ہے. میں اس گروپ کی ممبر ہوں." کیتھی نے مختصر تعارف کروایا. اس کی بات سن کر حجر کی دلچسپی بڑھی.
”کیا آپ اس گروپ کی مزید تفصیلات بتا سکتی ہیں؟"
”ضرور... باؤبےہوئیجیا اصل میں ایک ویب سائٹ ہے جس کی بنیاد چائنہ کے ایک شخص نے رکھی ہے اور اس کا مقصد گمشدہ بچوں کو ان کے خاندانوں سے ملوانا ہے. دراصل چائنہ میں بچوں کے اغواہ کے کیسز بہت زیادہ ہیں. ایک اندازے کے مطابق ہر سال چائنہ سے تقریباً بیس ہزار بچے اغواہ ہوتے ہیں. ان میں چند بچے بیرون ملک ایکسپورٹ کیے جاتے ہیں. بچوں کے اغواہ کی اس کثیر تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ویب سائیٹ تشکیل دی گئی ہے."
”یہ ویب سائٹ کس طرح کام کرتی ہے؟" حجر کے انداز سے ظاہر تھا کہ وہ بہت غور سے اس کی تفصیل سن رہی ہے.
”جن خاندانوں کے بچے اغواہ ہوتے ہیں وہ اپنے بچے کی عمر, تصویر اور باقی معلومات اس ویب سائٹ پر بھیج دیتے ہیں اور دوسری جانب اگر کسی کو راہ چلتے کوئی اجنبی بچہ ملتا ہے تو وہ اس کی معلومات بھی ویب سائٹ کو بھیج دیتا ہے. یہ ویب سائٹ ان دونوں معلومات کو سکین کرتی ہے اور اگر معلومات ایک جیسی ہوں تو یہ ویب سائٹ اغواہ شدہ بچے کو اس کے گھر والوں کے دوبارہ ملوا دیتی ہے."
”اگر اغواہ ہونے والے بچے سے متعلق کسی نے بھی کوئی معلومات ویب سائٹ کو نہ بھیجی ہو تو ؟"
”اگر بچے کے متعلق کوئی بھی معلومات نہ ملے تو وولنٹیر(رضا کار) چائنہ کے مختلف حصوں میں جا کر بچہ تلاش کرتے ہیں. دو لاکھ سے زائد وولنٹیر اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں اور یہ وولنٹیر جگہ جگہ پھیلے ہوئے ہیں."
”اگر کوئی کیس ایسا ہو جس میں بچے کا اغواہ بچپن میں کیا گیا ہو اور اب وہ جوان ہو گیا ہو. ایسی صورت میں اسے کس طرح تلاش کیا جاتا ہے؟" حجر اپنے مطلب کی بات پر آئی
”فیشل ریکوگنیشن ٹیکنالوجی facial recognition technology کے ذریعے.... جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے اس کے چہرے پر تبدیلیاں آتی ہیں اور ان میں سے کچھ تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں جبکہ ہمارے سکیلیٹن میں آنے والی تبدیلیاں مبہم ہوتی ہیں. مثال کے طور پر جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے ہیں ہماری ہڈیوں کا وولیم کم ہونا شروع ہو جاتا ہے, آئی سوکٹ اور اپر جا میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اس کے علاوہ چہرے کی شیپ بھی تبدیل ہوتی ہے. بچپن سے جوانی کے سفر میں اغواہ شدہ بچے کی شکل پر ہونے والی تبدیلیوں کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور پھر کراس ایج فیشل ریکوگنیشن کے ذریعے اس تک رسائی حاصل کی جاتی ہے."
”کیا فیشل ریکوگنیشن ٹیکنالوجی سو فیصد درست ہوتی ہے؟"
”عام طور پر اس ٹیکنالوجی کا نتیجہ سو فیصد درست نہیں ہوتا تاہم چائنہ کی سب سے بڑی سرچ انجن کمپنی بیدو Baidu نے اپنی کراس ایج فیشل ریکوگنیشن ٹیکنالوجی cross age facial recognition technology باؤبےہوئیجیا کو فراہم کی ہے اور اس کراس ایج ٹیکنالوجی کا نتیجہ 99 پرسنٹ درست ہے. ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعہ بعد میں اس ٹیکنالوجی کا نتیجہ کنفرم کیا جاتا ہے."
”کتنے بچے اس ویب سائٹ کے ذریعے اپنے ماں باپ سے ملے ہیں؟"
”باؤبےہوئیجا دو ہزار سے زیادہ ریونین کروا چکا ہے. دو ہزار سے زیادہ بچے اس ویب سائٹ کے ذریعے اپنے والدین سے ملے ہیں."
”کیا باؤبےہوئیجیا انٹرنیشل ہے؟"
”ہممم! یہ انٹرنیشل ہے. بہت سے وولنٹیر بیرون ممالک میں مقیم ہیں اور ان ممالک کے کیسز وہ سمبھالتے ہیں. خوش آئندہ بات یہ ہے کہ بہت جلد سب ایئرپورٹ پر فیشل ریکوگنیشن کیمرے لگ جائیں گے اور اس کے بعد اغواہ شدہ بچوں کو تلاش کرنے بہت آسانی ہو جائے گا."
”یہ واقعی خوش آئندہ بات ہے. خیر ڈیٹیلز بتانے کے لیے شکریہ" حجر مسکرا کر بولی.
”شکریہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے." اس کی مسکراہٹ کے جواب میں کیتھی نے بھی مسکراہٹ اچھالی.
”کیا میں جان سکتی ہوں کہ باؤبےہوئیجیا میں آپ کی اس قدر دلچسپی کی وجہ کیا ہے؟" کیتھی باؤبےہوئیجیا کے موضوع پر حجر کی غیر معمولی دلچسپی بھانپ گئی تھی.
”دراصل میری ایک دوست ہے. وہ اڈاپٹڈ ہے. وہ اپنے فوسٹر پیرنٹس کو سڑک پر زخمی حالت میں ملی. اس وقت اس کی عمر ایک سال کے قریب تھی. پولیس کے مطابق اسے اغواہ کیا گیا تھا مگر صد افسوس کہ اغواہ کار کا کوئی سراغ نہیں مل سکا. کچھ دن پہلے میری اس سے ملاقات ہوئی تھی تب اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کو تلاش کر رہی ہے. آپ کے منہ سے اس ویب سائٹ کا ذکر سن کر میرے ذہن میں اس کا خیال آیا  تھا. اس ویب سائٹ کے ذریعے اسے اپنے ماں باپ تلاش کرنے میں مدد ملے گی صرف اسی لیے میں اس میں دلچسپی لے رہی تھی." حجر نے وجہ تو سہی بتائی تھی مگر اپنی جگہ اپنی کسی دوست کا حوالہ دے کر.
”اگر ایسی بات ہے تو آپ بے فکر رہیں. آپ اپنی اس دوست کے بچپن کی تصویر, کہاں اور کس حالت میں وہ اپنے فوسٹر پیرنٹس کو ملی تھی اور باقی ڈیٹیلز مجھے بھیج دیں. میں اور میری ٹیم پوری کوشش کریں گے کہ ہم اسے اس کے اصلی ماں باپ تک پہنچا سکیں." اپنی بات مکمل کرکے وہ ٹہری پھر کچھ یاد آنے پر دوبارہ گویا ہوئی
”اور ہاں یہ بات میں آپ کو بتاتی چلوں کہ اس ویب سائٹ پر وقت کی کوئی لمٹ نہیں ہے. کچھ کیسز ایسے ہوتے ہیں جن میں بچہ بہت جلد اپنے گھر والوں کو مل جاتا ہے اور کچھ کیس ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں سالوں گزرنے کے بعد بھی فیملی اپنے گمشدہ بچے سے مل نہیں پاتی یا پھر بچہ اپنے ماں باپ سے نہیں مل پاتا. میں آپ کو یہ کہنا چاہوں گی کہ اگر آپ ہم پر اعتماد کر رہی ہیں تو صبر بھی کریں. یقین مانیں کہ ہمارے وولنٹیر دن رات بچوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں صرف اس لیے کہ اغواہ ہونے والے بچوں کے والدین ان سے امید لگائے بیٹھے ہیں. وہ ہم پر اعتماد کرتے ہیں کہ اگر ان کا بچہ زندہ ہوا تو ہم ایک نہ ایک دن ان کا بچہ ڈھونڈ نکالیں گے. آپ کو بس امید کا دامن تھامے رکھنا ہے."
”بے فکر رہیں آپ مجھے ہمیشہ پرامید پائیں گی." اس کے لہجے میں پختگی تھی.
”آپ کی دوست کے ذکر سے مجھے یاد آیا کہ میرے دوست نے بھی کسی بچی کے اغواہ ہونے کی تفصیلات بھیجیں تھیں مجھے."
”آپ کے دوست والے کیس میں بچے اور ماں باپ کا ریونین ہو گیا ہے؟"
”نہیں. خیر چھوڑیں اس موضوع  کو آپ یہ بتائیں کہ آپ کہاں سے ہیں؟" کیتھی نے سوال کیا
”اوسلو, ناروے" حجر نے لفظی جواب دیا.
”میں چین سے ہوں. میرے والد چین سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ میری ماما امریکہ سے ہیں."
”او... تو اسی وجہ سے آپ کا انگریزی لب لہجہ امریکن ہے. میں کب سے سوچ رہی تھی کہ آپ دکھنے میں چائنیز لگتی ہیں اور لہجہ آپ کا امریکن ہے." حجر کی بات پر کیتھی کا قہقہہ بلند ہوا
”اکثر لوگ میرا ایکسینٹ سن کر یہی کہتے ہیں." حجر اس کی بات سن کر مسکرائی. پھر یونہی ان کے درمیان باتوں کا سلسلہ چلتا رہا.
......................
جیل نما کمرے میں بنے روشندان سے صبح کی ہلکی ہلکی روشنی اندر داخل ہوئی. اس ہلکی ہلکی روشنی میں اندر کا منظر واضح ہوا. وہ عورت اور بچہ اسی بوسیدہ سے ٹیبل کے گرد بیٹھے تھے. ٹیبل پر ڈکشنری کھلی تھی اور ڈکشنری پر لکھے لفظوں پر وہ بچہ اپنا چھ انگلیوں والا ہاتھ پھیر رہا تھا. وہ عورت بظاہری طور پر اس کے قریب بیٹھی تھی مگر اس کی ذہن کہیں اور تھا. اس عورت کے چہرے پر سوچ کی پرچھائیاں تھی جبکہ وہ بچہ بے تاثر چہرہ لیے کتاب پر لکھے لفظوں کو تک رہا تھا. بہت سے لمحے یونہی سرک گئے مگر وہ دونوں اسی پوزیشن میں بیٹھے رہے. کہنے کو بہت کچھ تھا ان کے پاس مگر الفاظ کی ترتیب وہ بھول گئے ہیں. اس خاموشی میں پانی کی لہروں کی آواز گونج رہی تھی. لہروں کا شور سن کر ایسا لگتا تھا کہ جس جگہ انھیں قید کیا گیا ہے وہ جگہ سمندر کے بہت قریب ہو یا شاید سمندر کے بیچ و بیچ.
”آنی!" آخر کار بچے نے اس خاموشی کو توڑا
”ہممم!" آنی نے بے دھیانی میں جواب دیا.
”کیا سوچ رہی ہیں آپ؟"
”سوچ رہی ہوں کہ اس جیل میں قید ہوئے ہمیں آٹھ سال بیت گئے ہیں. آج کے طلوع ہوتے سورج نے مجھے خبر دی ہے کہ اب یہ قید جلد ختم ہونے والی ہے. میں بہت جلد آزاد ہو جاؤں گی  پچھلے آٹھ سال جس اذیت میں گزرے ہیں وہ اذیت بہت جلد ختم ہو جائے گی. میرا مسیحا مجھے بچانے آ رہا ہے وہ اس صیاد کی قید سے مجھے نکال لے گا. چیخوں اور سمندر کی لہروں کی آواز سے میں بہت جلد پیچھا چھڑا لوں گی."
”کیا واقعی ہم آزاد ہونے والے ہیں؟" بچے نے تعجب سے سوال کیا
”ہاں ہم آزاد ہونے والے ہیں. یہ ہمارا اس سمندر میں آخری سفر ہے."
”مجھے باہر نہیں جانا. مجھے یہ اندھیرا, یہ بوسیدہ کمرا اچھا لگنے لگا ہے."
”اندھیرا بڑی ظالم چیز ہے یہ انسان سے اس کا سب کچھ چھین لیتا ہے یہاں تک پرچھائی بھی. کبھی اندھیرے کو اپنا ساتھی مت بنابا" اس نے بچے کو تاکید کی
”باہر کی دنیا بھی تو ظالم ہے."
”باہر کی دنیا بہت اچھی ہے." انہوں نے دھیمے لہجے میں اس بچے کو سمجھانا چاہا.
”ہمیں اس قید میں ڈالنے والا صیاد باہر کی دنیا کا باسی ہے اور صیاد کی دنیا کبھی اچھی نہیں ہو سکتی."
”باہر کی دنیا میں بہت سے لوگ ہیں. جن میں سے چند لوگ اچھے ہیں جبکہ چند لوگ برے  ہیں. جس نے ہمیں یہاں قید کیا ہے اس کا شمار بُرے لوگوں میں ہوتا ہے اور صرف اس ایک شخص کے باعث جس نے ہمارے ساتھ برا کیا ہے, ہم باقی ساری دنیا کو بُرا نہیں کہہ سکتے نا."
”مگر آنی..." اس بچے کی بات کاٹ کر عورت بولی
”اس موضوع پر بحث اس وقت کریں گے جب ہم باہر نکل جائیں گے. آپ خاموشی سے پڑھو"
”ہر روز آپ مجھے ایک ہی چیز بار بار پڑھاتی ہیں. مجھے یاد ہو گیا ہے یہ سب اس لیے اب میں اسے دوبارہ نہیں پڑھوں گا." چہرے پر بیزاری لیے اس نے کتاب بند کی.
”صرف یاد نہیں کرنا تھا اسے سمجھنا بھی تھا."
”سمجھ بھی آگئی ہے مجھے ساری" وہ بچہ پراعتماد تھا
”چلو پھر میں آپ کا ٹیسٹ لیتی ہوں." اس کے ہاتھ سے کتاب پکڑتے ہوئے وہ بولی
”لے لیں ٹیسٹ مگر پہلے یہ بتائیں کہ اگر میں نے سارے جواب درست دیے تو مجھے کیا ملے گا؟"
”اگر آپ نے سب سہی بتایا تو میں آج آپ کو ایک نئے احساس کے متعلق بتاؤ گی."
”آپ ہمیشہ مجھے فیلنگز کے متعلق ہی کیوں بتاتی ہیں؟"
”احساسات کو پہچاننا اور ان کا اظہار کرنا, یہ وہ دو چیزیں ہیں جو آپ کی کمزروی ہیں. میں چاہتی ہوں کہ آپ اپنی اس کمزوری پر قابو پالیں اس لیے آپ کو احساسات کے متعلق بتاتی ہوں."
”مجھے ساری فیلنگز کے نام یاد ان کا مطلب بھی پتا ہے مگر اس کے باوجود بھی میں اپنے احساسات نہیں پہچان پاتا."
”بہت جلد وہ دن آئے گا جب آپ اپنے احساسات پہچاننے لگو گے."
”آپ کو اتنا یقین کیسے ہے؟"
”بس مجھے پتا ہے اور آپ شاید مجھے ٹیسٹ دینے لگے تھے." آنی نے اس کی توجہ ٹیسٹ کی جانب مبذول کروائی تو اس بچے نے منہ بنایا. اس کے بگڑے تاثرات کی پرواہ کیے بغیر آنی نے اس سے سوال کیا
”بتاؤ اینگر کیا ہوتا ہے؟"
”اینگر مطلب غصہ. جب کوئی کام ہماری مرضی کے خلاف ہوتا ہے تو ہمیں غصہ آتا ہے. یہ ایک منفی احساس ہے اور ہمیں چاہیے کہ جتنا ہو سکے اپنے غصے پر قابو رکھیں کیونکہ غصے میں صرف ہم اپنا نقصان کرتے ہیں. غصے کو قابو کرنے کے لیے ہمیں پانی پیناچاہیے, اگر کھڑے ہوں تو بیٹھ جانا چاہیے اور اگر بیٹھے ہوں تو لیٹ جانا چاہیے." رٹے رٹائے طوطے کی طرح اس بچے نے جواب دیا.
”بہت اچھے آپ کو تو سب یاد ہے." آنی چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ لاتے ہوئے بولیں پھر انہوں نے مزید چند سوالات کیے. بچے نے پر اعتماد انداز میں بغیر ہچکچائے ان کے جواب دیے.
”سارے جواب میں نے سہی دیے ہیں چلیں اب مجھے ایک نئے احساس سے متعارف کروائیں." سارے جواب سہی دینے کے بعد کے بعد وہ بچہ بولا. اس کا چہرہ ہنوز سرد تھا.
”آج کا نیا احساس جاؤسکا jouska ہے."
”جاؤسکا" اس بچے نے نام دہرایا.
” جاؤسکا کی دو صورتیں ہیں. کئی واقعات لمحوں میں گزر جاتے ہیں مگر ان کی چھاپ عرصے تک ہمارے ذہن پر جمی رہتی ہے. گفتگو کی مثال لے لیتے ہیں. کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی گفتگو کے دوران کوئی ہم سے کچھ پوچھتا ہے یا کچھ کہتا ہے تو ہم سہی سے جواب نہیں دے پاتے اور پھر جب وہ لمحہ گزر جاتا ہے تو ہم سوچتے ہیں کہ اس کی بات کے جواب میں ہمیں یہ کہنا چاہیے. اگر ہم ایسا کہتے تو دوسرا شخص ہم سے متاثر ہو جاتا. ہم پچھتاتے ہیں کہ کاش ہم نے اس وقت کوئی اور جواب دیا ہوتا. اصل میں ہم اپنے جواب سے مطمئن نہیں ہوتے اس وجہ سے وہ گفتگو کئی دنوں تک ہماراے ذہن میں گونجی رہتی ہے. یہ جاؤسکا کی پہلی صورت تھی. اس کی دوسری صورت ہے کسی لڑائی جھگڑے یا پھر کسی اہم گفتگو کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کرنا. مثال کے طور پر کسی اہم انٹرویو سے پہلے یہ سوچنا کہ اگر انٹرویوو نے ہم سے یہ سوال پوچھا گیا تو ہم یہ جواب دیں گے. اگر انٹرویور نے یہ کہا تو ہم جواب میں ایسے کہیں گے. ہم ممکنات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر اینگل سے سوچتے ہیں اور خود کو تیار کرتے ہیں. اس احساس کا نام جاؤسکا ہے. مختصراً جوسکا وہ فرضی گفتگو جسے ہم بار بار اپنے ذہن میں دہراتے ہیں." دھیمے لہجے میں آنی نے اپنی بات مکمل کی
”یہ احساس تو بہت دلچسپ ہے."
”جاؤسکا دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ کومن بھی ہے. تقریباً ہر ایک شخص اس احساس سے گزرتا ہے مگر اسے بیان کرنا مشکل ہے. آپ نے کبھی اسے محسوس کیا ہے؟" انہوں نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا
”ہمم! کئی مرتبہ"
”کیا فرض کرتے ہو آپ؟"
”یہی کہ وہ ظالم صیاد مجھ سے زندگی کی بھیگ مانگ رہا ہو اور میں بے رحموں کی طرح اسے مار دوں." اس کے لہجے میں نفرت اس شخص کے لیے نفرت تھی. بچے کی بات سن کر عورت کے چہرے کا رنگ فق ہوا
”کئی مرتبہ میں سوچتا ہوں کہ جب وہ ہمیں کھانا دینے آتا ہے تب پیچھے کی طرف سے اس پر حملہ کروں مگر کبھی ہمت نہیں ہوئی ایسا کرنے کی"
”تم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے" آنی نے اس کی ہمت کم کرنی چاہی
”آنی! میں بارہ سال کا ہو گیا ہوں اور وہ بتیس سال کا. اگلے چند سالوں میں میری طاقت بڑھ جائے گی اور اس طاقت کم ہوتی جائے گی کیونکہ اس کی زندگی کا الٹاچکر یعنی بڑھاپے کی جانب سفر شروع ہو جائے گا اور پھر ایک دن ایسا آئے گا جب میں اس پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاؤں گا. وہ دن اس کا اس دنیا میں آخری دن ہو گا."
”تم ایسا نہیں کرو گے تمہاری پرورش میں نے کی ہے اور میں نے تمہے دوسروں کی جان لینا نہیں سکھایا."
”آنی دیکھ لیجئے گا ایک دن میں اسے مار دوں گا. اگر زور بازو سے اس کا مقابلہ نہ کر پایا تو موقع ملنے پر گولی سے مار دوں گا میں اسے اور گولی بھی سیدھا دل میں ماروں گا تاکہ اگلی سانس نہ لے سکے وہ" آنی اس کے لہجے کی مضبوطی اور آنکھوں کا سردپن دیکھ کر ششدر رہ گئیں. بچے کو تکتی ان کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے جو ان کے ہاتھ میں پکڑی کتاب میں جذب ہونے لگے. جلد ہی وہ آنسوں سسکیوں میں بدلے. بچہ جو اپنی نفرت میں اس عورت کو فراموش کیے بیٹھا تھا سسکیوں کی آواز پر ان کی جانب متوجہ ہوا
”آپ کیوں رو رہی ہیں؟" انہیں روتے دیکھ کر وہ تشویش سے بولا
”اپنی ناکامی پر رو رہی ہوں. میں تمہاری اچھی پرورش کرنے میں ناکام رہی ہوں یہ دکھ مجھے رلا رہا ہے. تین سال تم مجھ سے الگ اس کی قید میں رہے ہو اور ان تین سالوں میں اس نے تمہے اپنی طرح بنا دیا ہے بے حس, سرد اور بے رحم. تمہارا بچپن, تمہاری ہنسی اور تمہارے اندر کی انسانیت چھین لی اس نے. آج مجھے احساس ہوا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں تمہے زندگی کی طرف لانے کی جو کوششیں کی ہیں میں نے وہ سب بے کار گئی ہیں. اس شخص کا رنگ تم پر اتنا گہرا چڑھا ہے کہ پانچ سالوں میں بھی اتر نہ سکا. مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ گزرے سالوں میں پتھر کو سکھاتی رہی ہوں. پتھر کو بتاتی رہی کہ مسکراتے کس طرح ہیں, دوسروں کی پروا کیسے کرتے ہیں, ان کو تکلیف نہیں پہنچاتے... کتنی پاگل ہوں نہ میں؟" آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کرتے ہوئے وہ خود پر ہنسیں. ان کی ہنسی بھی تکلیف دہ تھی.
”اس نے تمہے اپنی طرح حیوان بنا لیا جو دوسروں کو تکلیف دیتے ہیں, ان کو قید کرتے ہیں اور پھر... پھر انہیں مار دیتے ہیں. یہی اس کا مقصد تھا. کامیاب ہو گیا ہے وہ اپنے مقصد میں اور میں ناکام ہو گئی ہوں, میں تمہے زندگی کی طرف نہیں لا پائی. میں ہار گئی ہوں" شکستہ, آنسوؤں سے نم لہجے میں انہوں نے اپنی بات مکمل کی.
”میں آپ کو کبھی ہارنے نہیں دوں گا." اس نے اپنی آنی کے آنسو صاف کیے
”آپ جو کہیں گی میں وہی کروں گا. میں اس جیسا نہیں بنوں گا, نہ کسی کو تکلیف پہنچاؤں گا اور نہ کسی کو قید کروں گا. آپ پلیز روئیں مت" اس نے التجا کی
”تم وعدہ کرو کہ تم کسی کی جان نہیں لو گے اس شخص کی بھی نہیں"
”آنی اس نے ہمارے ساتھ اتنا بُرا کیا ہے. صرف ہمیں ہی نہیں اور بہت سے لوگوں کو تکلیف پہنچائی ہے اس نے, بہت سے لوگوں کو مارا ہے اس نے. اس لیے اس کا دنیا سے چلے جانا ہی بہتر ہے."
”تم مجھے اس شخص کی لاکھ بُرائیاں بھی گنوا دو گے میں تب بھی تمہے اس مارنے کی اجازت نہیں دوں گی. زندگی اور موت کا اختیار صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے. اگر اس نے اس شخص کی رسی دراز کر رکھی ہے تو وقت آنے پر وہ کھنیچ بھی لے گا."
”مگر آنی" اس نے احتجاج کرنی چاہی
”اگر مگر کچھ نہیں. تم اس کے خون سے اپنے ہاتھ نہیں رنگو گے. وعدہ کرو مجھ سے." انہوں نے بچے کی احتجاج رد کی.
”میں وعدہ کرتا ہوں." اس نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا
”اگر تم نے اپنا یہ وعدہ توڑا تو میں تم سے ناراض ہو جاؤں گی. کبھی بات نہیں کروں گی تم سے" انگلی اٹھا کر آنی نے دھمکی دی
”ایسے تو نہ کہیں. واحد آپ ہی تو ہیں جو مجھ سے محبت کرتی ہیں اور میری پرواہ کرتی ہیں." وہ بچہ آنی کی گود میں سر رکھ کر وہیں زمین پر لیٹ گیا.
”میرے علاوہ اور بہت سے لوگ ہیں جو آپ سے محبت کرتے ہیں. وہ تو شاید مجھ سے بھی زیادہ آپ سے محبت کرتے ہیں."
”آپ سب سے زیادہ کس سے پیار کرتی ہیں آنی؟" اس کے سوال پر آنی کی آنکھوں میں چمک آئی
”آپ جیلس تو نہیں ہو گے؟"
”آپ بتا دیں میں جیلس نہیں ہونگا. میں سب سے زیادہ آپ سے پیار کرتا ہوں اس لیے آپ جس سے پیار کرتی ہیں میں بھی اس سے محبت کرتا ہوں." اس نے یقین دلایا
”میں سب سے زیادہ پیار اپنی بیٹی سے کرتی ہوں. وہی تو میرے جینے کی وجہ ہے اور اس ملنے کی امید ککےباعث ہی میں یہ قید کاٹ رہی ہوں."
”آج سے میں بھی آپ کی بیٹی سے محبت کرنے لگا ہوں." اس کی بات سن کر آنی کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی.
”محبت کرو یا نہ کرو مگر اس کا خیال ضرور رکھنا" انہوں نے بچے کے بکھرے بال سنوارتے ہوئے کہا. پھر ہاتھ میں پکڑی کتاب کھولی. کتاب کے چند صحفے ان کے آنسوں کے باعث تر تھے. آخری صحفہ کھولنے کے بعد وہ اس پر کچھ لکھنے لگیں. انہیں کتاب پر کچھ لکھتے دیکھ کر بچے نے سوال کیا
”کیا لکھ رہی ہیں آنی؟"
”تمہارے لیے ایک پیغام لکھ رہی ہوں اور اس کو تم نے اس وقت پڑھنا ہے جب میں تم سے دور چلی جاؤں گی."
”آپ کہاں جانے کی بات کر رہی ہیں؟" اس نے تعجب سے اپنی آنی کی جانب دیکھا. اسے آج ان کا رویہ بہت عجیب لگا تھا.
”کہیں نہیں" اپنی بات کہہ کر وہ خاموش ہو گئیں. وہ بچہ بھی جواب میں کچھ نہ بولا تو قید خانے میں خاموشی چھا گئی اور اس خاموشی میں لہروں کا شور بلند ہوا.
”آنی آپ کو پتا ہے کہ ہم کس جگہ قید ہیں؟"
”ہمم..."
”آپ کو کیسے پتا ہے؟ کیا آپ نے کبھی یہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تھی؟ مجھے بتائیں کہ کیسے بھاگی تھیں آپ؟" اس کے پہ در پہ سوال کرنے پر وہ عورت ماضی کی کتاب کے اوراق پلٹنے لگی. ایک ورق پر رک کر وہ ورق پر درج حروف بلند آواز میں پڑھنے لگی. اس صفحے پر چھ سال پہلے کے واقعات درج تھے. چھ سال پہلے وہ یہاں اس قید خانے میں اکیلی قید تھیں. اس وقت وہ بچہ الگ قید خانے میں تھا اور وہ اس کی موجودگی سے بے خبر تھیں. معمول کی طرح وہ بکھرے بال, سوکھے ہونٹ اور بے تاثر چہرہ لیے اس قید خانے کے یخ بستہ فرش پر بیٹھی تھیں جب انھیں بھاری قدموں کی آواز سنائی دی. وہ بھاری قدموں کی آواز ان کے لیے کوڑوں کی مانند تھی. دو سالوں سے وہ یہ آواز سنتی آ رہی تھیں مگر جانے کیوں آج بھی اس آواز سے ان کا دل ہول اٹھتا تھا. ان کی دھڑکنوں کی رفتار تیز تھی مگر چہرا ہنوز بے تاثر تھا. وہ صیاد معمول کی طرح کھانا دینے کے لیے آیا تھا. اس کا منہ سفید چمڑی سے بنے ماسک سے ڈھکا تھا. وہ ماسک ایسا تھا کہ سر کے بال سے لے کر گردن تک کا حصہ چھپا تھا سوائے ان دو سرد آنکھوں کے. وہ دیکھنے والے کو پہلی نظر میں خوف زدہ کرتا تھا مگر آنی چونکہ اسے روز دیکھتی تھیں اس لیے اس کی طرف نگاہ ڈالے بغیر بےحس و حرکت بیٹھی رہیں. ٹِک کی آواز کے ساتھ اس نے سلاخوں کی دوسری جانب لگا تالا کھولا اور کھانے کی پلیٹ پھینکنے کے انداز میں رکھنے کے بعد واپس چلا گیا. جب وہ چلا گیا تو انہوں نے تعجب سے سر اٹھایا کیونکہ آج وہ قید خانے کو باہر سے تالا لگائے بغیر گیا تھا. پہلے کچھ دیر وہ شاک کہ کیفیت میں بیٹھی رہیں. گھر والوں سے ملنے کی امید, یہاں سے آزاد ہونے کی خوشی, پکڑے جانے کا ڈر, وہ بیک وقت ہزاروں جذبات محسوس کر رہی تھیں. ان ملے جُلے جذبات کے طوفان پر قابو پاتے ہوئے وہ اٹھیں اور دبے قدموں سے باہر کی جانب بڑھیں. اس قید خانے سے باہر قدم رکھتے ہوئے انہیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ اپنے گھر والوں سے بس چند قدم دور کھڑی ہیں. ادھر ادھر دیکھتے ہوئے وہ اختیاط سے آگے بڑھنے لگیں. چاروں طرف لوہے کی سلاخوں والے قید خانے تھے اور بیچ میں صحن نما جگہ تھی جس کی چھت خاصی اونچی تھی. ان قید خانوں میں مختلف عورتیں اور بچے قید تھے. ان کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمایاں تھے اور دھڑکنوں کی رفتار نہایت تیز تھی. خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے انہوں نے محتاط انداز میں قدم صحن میں ایک جانب رکھی لکڑی کی سیڑھی کی طرف بڑھائے. وہ سیڑھی دیورا کے ساتھ آڑھی لگی تھی. اس صحن نما حصے میں ایک یہی سیڑھی تھی جس کے ذریعے باہر جایا جا سکتا تھا کیونکہ باقی چاروں طرف تو قید خانے تھے. سیڑھی کا آخری سرا اندھیرے میں تھا اسی وجہ سے وہ دیکھ نہیں پا رہی تھیں کہ اوپر کیا ہے. اندھیرے میں تیر مارنے کے مترادف وہ سیڑھی چڑھنے لگیں. سیڑھی کا آخری سرا چھت کے قریب تھا. وہاں کوئی دروازہ نا پا کر وہ حیران ہوئیں پھر کچھ سوچتے ہوئے وہ چھت کی سطح کو ہاتھ سے ٹٹولنے لگیں. چھٹ پر ایک چکور نما حصہ کی سطح انہیں تھوڑی الگ محسوس ہوئی. اللہ کا نام لیتے ہوئے انہوں نے اس حصے کو اوپر کی جانب دکھا دیا تو چڑچڑاہٹ کے ساتھ وہ باہر کی جانب کھل گیا. چڑاچڑاہٹ کی آواز اتنی بلند تھی کہ انہیں لگا کہ ابھی وہ صیاد آ جائے گا اور انہیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹے ہوئے واپس اس قید خانے میں بند کر دے گا. آنکھیں میچ کر وہ اس شخص کے آنے کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کرنے لگیں. کئی لمحے گزر کے باوجود بھی جب انھیں کسی کے قدموں کی آواز سنائی نہ دی تو حیرانی سے وہ آنکھیں کھول کر دروازے کے اس پار دیکھنے لگیں. وہاں شفاف نیلا آسمان تھا. ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرنے لگیں. دھندلائی ہوئی آنکھوں سے مڑ کر ایک نظر انہوں اس ہولناک تہہ خانے کو دیکھا پھر وہاں سے باہر نکل آئیں. باہر نکل کر جیسے ہی ان کی نگاہ اردگرد پڑی ان کے آنسو تھمے, چہرے پر حیران چھائی جس کی جگہ بعد میں نا امیدی نے لے لی. ان کا خاندان جو انہیں کچھ دیر پہلے چند قدم دور لگ رہا تھا ایک دم سے میلوں دور لگنے لگا. وہاں تاحدِ نگاہ پانی ہی پانی تھا. اس سمندر میں خشکی کے کسی خطے کا نام و نشان بھی نہیں تھا. شاک کی کیفیت کے باعث ان کے تھمے ہوئے آنسو پھر سے بہنے لگے. روتے ہوئے وہ وہیں بیٹھتی چلیں گئیں. انہیں لگا تھا کہ کسی نے ٹھنڈا پانی ڈال کر انہیں یہاں سے فرار ہونے کے خواب سے جگا دیا ہو کیونکہ فرار کی کوئی راہ تو وہاں تھی ہی نہیں. وہ کوئی بحری جہاز تھا جس کے تہہ خانے میں انہیں قید کیا تھا. سمندر کی لہروں کا شور انہوں بہت بار سنا تھا مگر انہیں لگا تھا کہ سمندر سے قریب کسی جگہ پر انہیں بند کیا گیا ہے. کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا انہوں نے کہ وہ پچھلے دو سالوں سے ایک بحری جہاز میں سوار ہیں. اب انہیں سمجھ آیا تھا کہ وہ شخص تالا لگائے بغیر کیوں گیا تھا. شکستہ وجود, بکھرا حوصلہ اور ٹوٹی امیدوں کے کانچ سمبھالتے وہ واپس تہہ خانے کے اندر چلیں گئی. اس دن کے بعد انہوں نے دوبارہ کبھی یہاں سے فرار ہونے کی کوشش نہیں کی کیونکہ وہ جان گئی تھی کہ جب پر کٹے ہوں تو کھلے دروازے بھی کام نہیں آتے.
واقعہ ختم ہوتے ہہ انہوں نے ماضی کی وہ کتاب بند کی اور حال کی دنیا میں واپس لوٹیں. بچہ جو تجسس سے کہانی سننے میں مصروف تھا کہانی کا اختتام سن کر ناامید ہوا. اس قید خانے میں پھر خاموشی چھا گئی کیونکہ ماضی کے اوراق پلٹ کر آنی سر جھکائے افسردہ سی بیٹھی تھیں. اس قید میں ان دونوں کے شب و روز یونہی بے کیف گزرتے تھے. چند لمحے وہ روشن مستقبل کے خواب دیکھتے اور باقی سارا وقت ان خوابوں کے پورا ہونے کا انتظار کرتے رہتے. ہر صبح سورج کی پہلی کرن کے ساتھ وہ یہ امید لے کر جاگتے تھے کہ شاید آج کا دن ان کا اس قید میں آخری دن ہو گا. پورا دن وہ امید کے اس پودے کو روشن مستقبل کے خوش کن خیالوں سے سیراب کرتے رہتے پھر رات کو آزادی کی امید جب ٹوٹ جاتی تو اس امید کے ٹوٹے کانچ کی کنکریاں خود ہی چنتے ہوئے سو جاتے.
....................
دیوسائی ریسٹ ہاؤس اندھیرے میں ڈوبا تھا سوائے ایک کمرے کے. وہ کمرہ جم کی طرز کا تھا. صبح کے پانچ بجے کا وقت تھا دور دور مسجدوں سے  فجر کی اذان کی ہلکی ہلکی آواز آ رہی تھی. ہر کوئی خواب خرگوش میں گم تھا سوائے اس ایک شخص کہ جو رات کے اس پہر ٹریدمل پر بھاگنے میں مصروف تھا. کن پٹن کی رگیں تنی تھیں اور جسم پسینے سے شرابور تھا مگر اسے تو جیسے پروا ہی نہیں تھی. آنکھوں کے سرخ ڈورے شب بیداری کا اعلان تھے. شدت جذبات کے باعث چہرہ سرخ اور دھڑکن بے ربط تھی. وہ اس وقت بالکل ہسٹیرک کیفیت میں لگ رہا تھا. وہ اپنے آپ کو تھکا کر جانے خود کو کس چیز کی سزا دے رہا تھا. اگلا آدھا گھنٹہ وہ یونہی پندرہ ایم پی ایچ کی سپیڈ پر ٹریڈمل پر بھاگتا رہا. احتشام جو نماز سے فارغ ہو کر واک پر جانے کے لیے باہر نکلے تھے اس کمرے کی لائٹ روشن دیکھ کر ادھر چلے آئے.
”تم اتنی صبح یہاں کیا کر رہے ہو؟" کمرے میں داخل ہوتے ہی احتشام اس کی پشت کو دیکھ کر بولے
”مجھے چھوڑیں آپ اپنا بتائیں." اس کے لہجہ سرد تھا.
”فجر کے لیے اٹھا تھا. نماز پڑھ کر کمرے سے واک پر جانے کے لیے باہر نکل تھا مگر یہاں کی لائٹ جلی دیکھی تو یہاں چلا آیا. کیوں صبح صبح اپنا خون جلا رہے ہو؟" اس کے جانب قدم بڑھاتے کوئے انہوں نے کہا
”کچھ لوگ جم میں خون جلاتے ہیں اور کچھ لوگ یادیں جلاتے ہیں. میرا شمار دوسری کیٹاگری میں ہوتا ہے."
”یادیں اگر جلائی جاتیں تو میں تم سے پہلے انہیں راکھ میں تبدیل کر چکا ہوتا. یادیں جلائی نہیں بھولائی جاتی ہیں. خود کو اذیت دینے کی بجائے انہیں بھولنے کی کوشش کرو." اس کی ٹریڈمل بند کرتے ہوئے وہ سخت لہجے میں بولے
”بھولا سکتا تو کب کا بھولا چکا ہوتا. اٹھاراں سالوں سے ان یادوں اور خوابوں سے پیچھا چھڑا رہا ہوں مگر کیا حاصل ہوا مجھے؟ صرف اور صرف تنہائی. جانے کب میں سکون کی نیند سو پاؤں گا" وہ شکستہ انداز میں بولا
“خود کو معاف کر دو الہان" ان کی بات سن کر اسے تعجب ہوا
”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟"
”تم بہتر جانتے ہو." اپنی بات کہہ کر وہ کمرے سے نکل گئے جبکہ پیچھے کھڑا الہان کئی لمحوں تک اپنی جگہ سے ہل نہ پایا. اس کے چہرے پر ناقابلِ فہم تاثرات تھے. چہرے پر ہاتھ پھیر کر اس نے خود کو کمپوز کرنا چاہا اور پھر وہ بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا. کچھ دیر بعد جب وہ باہر آیا تو اس کے چہرے پر کسی پریشانی کا شائبہ تک نہ تھا. فریش سا چہرہ لیے وہ کچن میں گیا اور اپنے لیے ناشتہ بنانے لگا. وہ ناشتہ کرنے میں مصروف تھا جب احتشام واک سے واپس آئے
”تم نے کہیں جانا ہے؟"اسے اتنی صبح ناشتہ کرتے دیکھ احتشام نے سوال کیا
”ہممم! ایئرپورٹ جانا ہے ابھی کچھ دیر میں نکلوں گا."
”کیتھی اور پیٹر آرہے ہیں؟" ان کی پرسوں کی گفتگو کو مد نظر رکھتے ہوئے سوال کیا
”پیٹر نہیں آرہا."
”کیوں؟"
”کیتھی نے اسے منع کر دیا ہے کہ اس کی موجودگی میں وہ ہاکستان نہ آئے. اگر وہ یہاں ہو گا تو وہ یکسوئی سے فیصلہ نہیں کر پائے گی." انھیں وضاحت دیتے ساتھ ہی وہ کافی کا گھونٹ بھرنے لگا.
”کیتھی وہی لڑکی ہے نا جس نے تمہے ویب سائٹ کے متعلق بتایا تھا؟"
“ہمم! کیتھی نے ہی باؤبےہوئیجیا ویب سائٹ کے متعلق بتایا تھا اور اسی کے توسط ہی میں نے معلومات بھیجی ہیں ویب سائٹ کو"
”احتشام چچا! کریمینل سائیکولوجسٹ بھی آ رہی ہے آج پاکستان" اس نے انہیں بتایا.
”تمہے مجھے پہلے بتانا چاہیے تھا."
“کیوں آپ نے اسے پھولوں کہ ہار پہنانے تھے جو میں آپ کو سب سے پہلے بتاتا."
”اب ایسا بھی نہیں کہا میں نے." احتشام حجل ہو کر بولے تو الہان نے مزید کچھ نہیں کہا
”کیا ان دونوں کی فلائٹ کی ٹائمنگ ایک ہی ہے؟" انہوں نے سوال کیا.
”جی ان کی فلائٹ ایک ہی ہے. دونوں کی کنیکٹنگ فلائٹ تھی اور تاجکستان میں سٹے تھا."
”ویسے کریمینل سائیکولوجسٹ کا نام کیا ہے؟" احتشام نے اچانک سے سوال کیا
“حجر ہارون" اپنی بات کہہ کر الہان نے ان کے چہرے کی جانب دیکھا. حجر ہارون نام سنتے ہی احتشام کے چہرے پر حیرانی چھائی
”کیا یہ وہی ہے جس کا تم نے مجھ سے ذکر کیا تھا؟" انہوں نے تعجب سے پوچھا
”جی وہی ہے." کافی کا آخری گھونٹ بھرتے ہوئے اس نے جواب دیا.
”میں بھی تمہارے ساتھ ایئرپورٹ چلوں؟" انھیں اسے دیکھنے کی جلدی تھی اس لیے انھوں نے سوال کیا
”بالکل بھی نہیں" اس نے صاف انکار کیا
“اور ہاں اس کے سامنے ذرا محتاط رہیے گا." الہان نے انھیں تاکید کی
”کیا مطلب؟" انہوں نے بھنویں اچکائیں
”ذرا سوچ سمجھ کر بولیے گا."
”کیوں؟"
”سائیکولوجسٹ ہے وہ احتشام چچا. ذہن پڑھنا جانتی ہے اور ویسے بھی اسے شک بلکہ اسے یقین کا میرا کیس سے کوئی نہ کوئی ذاتی تعلق ہے."
“جب تک کنفرم نہیں ہو جاتا کہ اس کی اصلی شناخت کیا ہے تم اسے ماضی کے بارے میں کچھ مت بتانا."
”بے فکر رہیں آپ. میں کچھ نہیں بتاؤں گا مگر وہ ہماری اس کیس میں دلچسپی کی وجہ جاننے کی کوشش ضرور کرے گی. اس لیے آپ کو محتاط رہنے کا کہا ہے."
”اتنی آسانی سے اپنے راز ہم اس تک پہنچنے نہیں دیں گے آخر ہم بھی اس کے چچا ہیں." احتشام مسکراتے ہوئے بولے
”احتشام چچا! فضول رشتہ داریاں نہ جوڑیں. ابھی کچھ کنفرم نہیں ہے. کیتھی سے کہوں گا میں کہ کراس ایج فیشل ریکوگنیشن کے ذریعے پتا لگائے"
”اس کی رہائش کا انتظام کر لیا ہے تم نے؟"
”ہمم.... اپارٹمنٹ لیا ہے یہاں سے قریب ہی ہے." ٹہرے ہوئے لہجے میں کہتے ہوئے وہ اپنے ناشتے کے برتن اٹھا کر کچن کی جانب بڑھ گیا جبکہ احتشام کاؤئچ پر بیٹھ کر اخبار ہڑھنے لگے.
”مجھے علوی ہاؤس کی چابیاں دے دیں." کچن میں برتن دھوتے ہوئے اس نے کہا
”جاتے ہوئے لے لینا مجھ سے. ویسے الہان تم ان کاموں کے لیے کوئی میڈ کیوں نہیں رکھ لیتے؟" ان کا اشارہ برتن دھونے کی جانب تھا
”مجھے اپنے کام خود کرنے کی عادت ہے. امریکہ میں میڈ رکھنے کا رواج نہیں ہے وہاں سن اپنے کام خود ہی کرتے ہیں اور وہاں رہ کر مجھے بھی اپنے کام خود کرنے کی عادت پر گئی ہے. دبئی میں بھی ہم اپنے کام خود ہی کرتے ہیں."
”ہم سے کیا مراد ہے تمہاری؟ کیا تم وہاں شادی کر رکھی ہے؟"
”استغفر اللہ... ہم سب سے مراد میں, پیٹر سائمن, اینڈی اور جارج ہیں ... امریکہ میں بھی ہم سب کا ایک ہی کمرہ تھا پھر جب دبئی گئے تب بھی ہم سب نے ایک ہی گھر میں رہنے کو ترجیح دی تھی. ہم سب وہاں ایک ہی گھر میں رہتے ہیں اور گھر کے سارے کام ہم نے آپس میں بانٹے ہوئے ہیں."
”تمہارے ذمے کون سا کام ہے؟" احتشام نے سوال کیا
”رات کے کھانے کے برتن روز میں دھوتا ہوں." الہان نے فخر سے اپنی ذمہ داری بتائی. اس کی بات پر احتشام کا قہقہہ بلند ہوا
”ویسے برتن دھونا تمہاری شخصیت پر جچ نہیں رہا."
”مردوں کو کام کرنا منع تو نہیں ہے. ہمارے نبی حضرت محمد (صلی اللہ وعلیہ وسلم) بھی اپنے کام خود کیا کرتے تھے." اس کے منہ سے آپ (صلی اللہ وعلیہ وسلم) کا ذکر سن کر احتشام حیران ہوئے.
”کیا تم نے اسلام کو سٹڈی کیا ہے؟" انہوں نے سوال کیا.
”ہممم....بابا جب بیمار تھے تو ان کے کہنے پر میں اکثر انہیں اسلامی کتابیں پڑھ کر سناتا تھا."
”مرتضی کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا. جبکہ آنیہ ریسرچ آرٹیکلز پڑھا کرتی تھی. کوئی نیا آرٹیکل پڑھنے کے بعد وہ سب گھر والوں کو فردًا فردًا اس آرٹیکل میں لکھی تحقیق کے متعلق بتای تھی. مجھے اور مرتضی کو اس جدید علوم سے فیض یاب ہونے میں ذرا بھی دلچسپی نہیں ہوتی تھی مگر وہ ہمیں زبردستی بٹھا کر اس کے متعلق بتاتی تھی. مرتضی تو کئی مرتبہ اس کی اس عادت سے چڑ جاتا تھا. ایک ہارون ہی تھا جو خاموشی اور دلچسپی سے اس کی ساری کہانیاں سنتا تھا." ماضی کو یاد کرکے ان کے لبوں پر دھیمی مسکراہٹ اور آنکھوں میں نمی تھی. جبکہ الہان کا چہرہ ہمیشہ کی طرح بے تاثر تھا.
”خیر....تم جاؤ جا کر ایئرپورٹ جانے کے لیے تیار ہو, ماضی کو کسی اور دن یاد کریں گے." سرد آہ بھرتے ہوئے انہوں نے کہا پھر اپنے کمرے میں چلے گئے. الہان بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھا. ایک نظر آئینے میں اپنے حلیے کو دیکھنے کے بعد اس نے واڈروب میں سے لانگ کوٹ نکال کے بازو پر ڈالا اور بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا باہر نکلا
”الہان! یہ لو علوی لاؤس کی چابیاں" وہ گھر کے خارجی دروازے کے قریب کھڑا شوز پہننے میں مصروف تھا جب احتشام نے اسے متوجہ کر کے چابیاں اس کی جانب پھینکیں اور بلند آواز میں بولے
”ہم سب کی کچھ تصویریں لیتے آنا وہاں سے."
”اگر وہاں جانے کی ہمت کر پایا تو تصویریں بھی ضرور لے آؤں گا." کوٹ پہنتے ہوئے اس نے کہا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا. اس کے جانے کے دس منٹ بعد احتشام بھی گھر سے نکل گئے. ان کی گاڑی کا رخ بھی ایئرپورٹ کی ہی جانب تھا. الہان نے منع کیا تھا مگر وہ اسے ایک نظر دیکھنا چاہتے تھے. پتا نہیں کیوں الہان کے منہ سے اس کا ذکر سن کر انہیں لگا تھا کہ وہ وہی ہے. اپنے شک کی تصدیق کرنے کے لیے وہ جارہے تھے. ان کا ارادہ تھا کہ بغیر الہان کی نظروں میں آئے  بغیر وہ بس دور سے اسے دیکھ کر واپس آجائیں گے.
.....................
کچھ لمحے پہلے ہی ان کی فلائٹ لینڈ ہوئی تھی. پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی اسے عجیب سے احساس نے گھیر لیا تھا. اسے کبھی ناروے میں ایسی اپنائیت محسوس   نہیں ہوئی تھی. وہ اپنے احساسات خود ہی سمجھنے سے قاصر تھی. حیرانی سے اردگرد اپنے جیسے ایشین نقوش کے لوگوں کو دیکھتے ہوئے وہ یہ سوچنے میں مصروف تھی کہ وہ سب اس کے جیسے ہیں شاید تبھی اسے اجنبیت محسوس نہیں ہو رہی تھی. حجر نے منہ پر سے ماسک ہٹا دیا اور سر سے ہیٹ بھی غائب تھی. بینگز میں کٹے اس کے بال اس کے ماتھے پر بکھرے تھے. ان بالوں سے اس کی بھنویں مکمل طور پر چھپ گئی تھیں. بینگز اور شولڈر کٹ اس کے بیضوی چہرے پر بہت اچھا لگ رہا تھا. ایک ہاتھ سے سوٹ کیس کو گھسیٹتی وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے باہر کی جانب جا رہی تھی.
”حجر!" کیتھی کی آواز پر وہ جو اردگرد دیکھنے میں مصروف تھی اس کی جانب متوجہ ہوئی
”ہممم" فلائٹ کے دوران ان دونوں میں اچھی خاصی دوستی ہو گئی تھی اس لیے اب وہ انفارمل انداز میں ایک دوسرے کو مخاطب کر رہی تھیں.
”یہ میرا نمبر ہے. تم لے لو. اپنی دوست کے متعلق ڈیٹیلز تم اس نمبر پر بھیج دینا." کارڈ پر نمبر لکھنے کے بعد وہ کارڈ حجر کی جانب بڑھاتے ہوئے بولی
”ٹھیک ہے. ویسے تم پاکستان کس لیے آئی ہو؟" کارڈ تھام کر حجر نے سوال کیا
”ایک دوست سے ملنے آئی ہوں. تم کیوں آئی ہو؟"
”میں کریمینل سائیکولوجسٹ ہوں اور یہاں ایک کیس کے سلسلے میں آئی ہوں."
”اچھا سہی" باتوں کے دوران وہ پبلک ایریا میں آگئی تھیں. وہ دونوں سب سے پہلے نکلنے والی مسافر تھیں. کیتھی اردگرد دیکھ رہی تھی غالباً وہ اپنے دوست کو تلاش کر رہی تھی. جبکہ حجر کسی ایسے فرد کی تلاش میں نظریں دوڑا رہی تھی جس کے ہاتھ میں اس کے نام کا بورڈ ہو. یہ اس کا پہلا کیس تھا جو کہ پرائیویٹ کنسلٹری private consultary تھا ورنہ آج سے پہلے اس نے جتنے بھی کیس لیے تھے وہ سب اس ادارے کی جانب سے اسے دیے گئے تھے. پہلا تجربہ ہونے کے باعث وہ اندازہ نہیں لگا پا رہی تھی کہ ایئرپورٹ پر اسے ریسیو کرنے کون آئے گا.
”پتا نہیں باس اب تک کیوں نہیں آئے. تمہے بھی اپنے جاننے والا کوئی نہیں دکھا؟" کیتھی کے سوال کے جواب میں حجر نے نفی میں سر ہلایا.
”تیز رفتار سے گاڑی ڈرائیو کرکے وہ ایئرپورٹ پہنچا اس کے پہنچنے تک فلائٹ لینڈ ہو چکی تھی. ایک ستون کے پاس کھڑا ہو کر وہ آنے والے مسافروں کو دیکھنے لگا. ایک کے بعد ایک مسافر آ رہے تھے مگر وہ دونوں تھیں کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں. اسے کے چہرے پر بیزاری کے تاثرات تھے. زندگی میں پہلی مرتبہ وہ کسی کو ریسیو کرنے آیا تھا اور جنہیں وہ ریسیو کرنے آیا تھا وہ دونوں باہر آ ہی نہیں رہی تھیں. ان کی تلاش میں نظریں دوڑاتے ہوئے وہ تھوڑا آگے بڑھا تو وہ دونوں اسے دوسرے ستون لے قریب ایک ساتھ کھڑی نظر آئیں. کیتھی کو تو وہ پہلی نظر میں پہچان گیا تھا مگر حجر کو پہچاننے میں اسے دقت ہوئی تھی کیونکہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی وہ اسے مختلف حلیے نظر آئی تھی. مضبوط قدم اٹھاتا ہوا ہوا وہ ان دونوں کے قریب گیا. کسی کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر حجر اس کی جانب متوجہ ہوئی. الہان کی طرف نظر پڑتے ہی اس کے چہرے پر حیرانی چھائی کیونکہ اسے امید نہیں تھی کہ وہ اسے ریسیو کرنے آئے گا. کیتھی کا رخ حجر کی جانب تھا اس لیے وہ الہان کو دیکھ نہیں پائی تھی.
الہان کے آنے کے کچھ دیر بعد ہی احتشام ایئرپورٹ آگئے تھے اور وہ دور سے اس پر نظر رکھے ہوئے تھے. پہلے تو وہ بیزار چہرہ لیے متلاشی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا مگر ایک جانب نگاہ پڑتے ہی اس کی آنکھوں میں شناسائی کے رنگ ابھرے. الہان کے قدموں کے رخ دو لڑکیوں کی جانب دیکھ کر وہ ان دونوں کی طرف متوجہ ہوا. ان کی نظریں ان میں سے ایک لڑکی پر ٹک گئیں. بلیک لانگ کوٹ میں ملبوس بیضوی چہرے, کالی آنکھوں اور سرخ و سفید رنگ والی حجر میں انہیں آنیہ کا عکس نظر آیا تھا. اسے ایک نظر دیکھ کر انہیں یقین ہو گیا تھا کہ وہ ہارون اور آنیہ کی بیٹی ہے.
........................

Must give your feedback

SiadWhere stories live. Discover now