Siad (episode 12)

842 29 12
                                    

صیاد


ازقلم رباب تنویر


................


"When there is a pain, there are no words, all pain is the same"


(Toni Morrison)


.........................


اوائل دسمبر کی ایک صبح اسلام آباد پر دھند کی چادر نے سایہ پھیلا رکھا تھا. سحر کے سورج کی سرمئی روشنی چا سو پھیلی تھی. اس دوران دھند کی چادر کو چیڑتے ہوئے ایک گاڑی سبک رفتاری سے سکردو روڈ اسلام آباد پر رواں دواں تھی. ڈرائیونگ سیٹ پر بھورے رنگ کے کوٹ میں ملبوس ایک شخص براجمان تھا. اس نے سر پر بیز بال کیپ اور منہ پر ماسک پہن رکھا تھا جس کے باعث اس کا چہرہ مکمل طور پر چھپا ہوا تھا. سٹیرنگ پر مضبوطی سے جمے اس کے دائیں ہاتھ کی چھ انگلیاں تھیں. کوٹ کی سلیوز اوپر ہونے کے باعث اس کی دائیں ہاتھ کی کلائی واضح تھی. اس کی کلائی پر ایک نشان بنا تھا , باز کا نشان مگر اس باز کو مارا نہیں گیا تھا اس کے پر کاٹے گئے تھے. وہ نشان اس کی چمڑی کو جلا کر بنایا گیا تھا اور وہ شخص چاہ کر بھی اپنے وجود سے اس نشان کو مٹا نہیں پایا تھا. سبک رفتاری سے چلتی گاڑی ایک جھٹکے سے اپنی منزل پر رکی. اس کی منزل شہر کے وسط میں بنی وہ سفید عمارت تھی جو گردش دواں کے باعث اپنی اصلی شکل کھو چکی تھی. وہ درودیوار اب چھبیس سال پہلے والی چمک و دمک سے محروم تھے. وہاں اب ویرانی اور یاسیت کے بادل چھائے تھے. گاڑی گیٹ کے باہر کھڑی کرنے کے بعد وہ شخص گیٹ پر لگا تالا کھولنے لگا. زرد پتوں کو کچلتے ہوئے وہ سنسان لان عبور کرکے اندرونی دروازے کی جانب بڑھا. اس دروازے کا تالا بھی سہولت سے کھولنے کے بعد اس نے علوی ہاؤس کے اندر قدم رکھا. دنیا بھر کی خاک چھاننے کے بعد گیاراں سالوں بعد وہ قدم اس دہلیز پر واپس آئے تھے. اندر قدم رکھتے ہی اس نے ایک نگاہ گرد سے اٹے ہال پر ڈالی. اس ایک نگاہ میں ہال سے جڑے ہزاروں منظر اس کی آنکھوں کے سامنے ابھرے. سر جھٹک کر اس نے یادوں سے پیچھا چھڑایا اور پھر راہداری کے اختتام میں بنے ایک کمرے تک گیا. لمبی سانس ہوا کے سپرد کرتے ہوئے اس نے دروازہ دھکیلا تو وہ کھلتا ہی چلا گیا. صبح کی سنہری روشنی کے باعث اندر کا منظر واضح تھا. اس نے آگے بڑھ کر کھڑکیوں کے پردے برابر کیے اور پھر بیڈ سے کچھ فاصلے پر بنی کلوزیٹ کھولی. ایک ڈرار کے اندر سے اس نے بوسیدہ کتاب نکالی. وہ کتاب درحقیقت انگلش سے اردو ڈکشنری تھی جو سالوں پرانی تھی. ڈکشنری کو دیکھ کر اس شخص کی آنکھوں میں نمی آئی. گھٹنوں کے بل وہ گرد آلود فرش پر بیٹھا اور کتاب پر نگاہ ٹکائے خود کلامی کے انداز میں بولنے لگا


"آپ کو مجھ سے دور گئے بہت عرصہ بیت گیا ہے. میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ آپ کے بغیر جی پاؤں گا مگر آپ سے کیے گئے وعدے کو پورا کرنے کے لیے اب تک زندہ ہوں....." وہ ماضی میں گم ہونے لگا


"اس دن ہمارے مسیحے نے ہمیں بچا لیا تھا. ہم اس قید سے آزاد ہوگئے تھے. اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے آپ کس قدر خوش تھیں.... پھر جب آپ کو بتایا گیا کہ آپ کی بیٹی لاپتا ہے تو آپ کی ہمت ٹوٹ گئی. وہ عورت جو آٹھ سال قید میں رہنے کے باوجود بھی باہمت رہی اپنی بیٹی کے اغواہ کا سن کر وہ ہمت ہار گئی..... آپ صرف اپنی بیٹی سے ملنے کی امید میں قید کی سختیاں برادشت کرتی آئیں تھیں اور اس کے اغواہ کا سن کر آپ کی امید ٹوٹ گئی. ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ آپ کے دماغی سیلز ختم ہوگئے ہیں اور آپ کا دماغ سکڑ گیا جس کی وجہ سے آپ کی موت واقع ہوئی مگر میں جانتا ہوں کہ امید ٹوٹنے کے باعث آپ کی سانسوں کی ڈور بھی ٹوٹ گئی تھی. آپ مجھے چھوڑ گئی یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ دنیا میرے لیے اجنبی تھی. قید سے پہلے جو چار سال میں نے اس دنیا میں گزارے تھے ان کے متعلق مجھے کچھ یاد نہیں. میری فرسٹ میمری اس قید خانے کی ہے جہاں مجھے زنجیریں ڈال کر رکھا گیا تھا جہاں اس شخص نے میری جلد جلا کر یہ باز کا نشان میری کلائی پر بنایا تھا. ایسا ہی ایک نشان آپ کے ہاتھ پر بھی تھا بلکہ یہ نشان ہر اس قیدی کے ہاتھ پر تھا جس کا اس شخص سے واسطہ پڑا تھا. وہ شخص واپس آگیا ہے مگر وہ واپس کیسے آ سکتا ہے وہ تو مر... وہ تو مر گیا تھا. ہے نا؟ پھر یہ کون ہے؟" یہ وہ سوال تھا جس کے ذہن میں آتے ہی اس کا دماغ ماؤف ہو جاتا تھا کیونکہ اس سوال کا جواب اس کے پاس نہیں تھا. ڈکشنری پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ پھر سے بے ربط انداز میں بولنے لگا

SiadWhere stories live. Discover now