Siad (episode 16)

979 33 21
                                    

صیاد
ازقلم رباب تنویر

یہ منظر اسلام آباد کے جی 8 مرکز میں بنے کلینک کا تھا. تین منزلہ عمارت کی نچلی منزل پر بنے ایک کمرے کے باہر سائیکولوجسٹ امبرین فاروقی کے نام کی نیم پلیٹ لگی تھی. کمرے میں جھانکو تو وسط میں پڑی ٹیبل کے اس پار رکھی گئی سربراہی کرسی پر ایک چالیس سالہ عورت براجمان تھی. آنکھوں پر نظر کے چشمے لگائے دبلی پتلی سی وہ عورت وزیٹر چیئر پر براجمان مرتضی علوی کی جانب متوجہ تھی.
”آپ کو کیوں لگتا ہے کہ الہان کے ساتھ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے؟" سائیکولوجسٹ امبرین فاروقی نے سوال کیا.
”چھ ماہ پہلے ہونے والی آنیہ کی ڈیتھ کے بعد میں الہان کو علوی ہاؤس لے آیا تھا. پچھلے چھ ماہ سے وہ میرے ساتھ ایک چھت تلے رہ رہا ہے مگر پھر بھی وہ مجھ سے مانوس نہیں ہو پایا. مانوس تو وہ تب ہو گا نا جب مجھ سے بات کرے گا مگر وہ تو میری جانب رخ کرنا بھی پسند نہیں کرتا. صرف مجھ سے نہیں وہ کسی سے بھی بات نہیں کرتا. سارا سارا دن اپنے کمرے میں بند رہتا ہے. نہ کمرے سے باہر نکلتا ہے اور نہ ہی اپنے کمرے میں کسی کی موجودگی برداشت کرتا ہے. اس کا یہ سرد اور بے گانہ انداز میری سمجھ سے باہر تھا تبھی تو ایک مہینہ پہلے اس کی مرضی کے خلاف جاکر میں اسے آپ کے پاس لایا تھا. گزرے مہینے میں آپ ٹاک تھیرپی کے لیے تین بار اس سے مل چکی ہیں. کیا ان ٹاک تھیرپیز میں آپ اس کے نفسیاتی مسئلے کی تشخیص کرنے میں کامیاب رہی ہیں؟" اس کے لہجے میں الہان کے لیے محبت واضح محسوس کی جا سکتی تھی.
”ہمم... اس کے رویے کو جانچنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ الہان کو سیزوڈ پرسنیلٹی ڈساوڈر Schizoid personality disorder ہے." دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنساتے ہوئے امبرین فاروقی بولیں.
”سیزوڈ پرسنیلٹی ڈساوڈر؟" مرتضی نے ناسمجھی سے ان کے الفاظ دہرائے.
"سیزوڈ پرسنیلٹی ڈساوڈر (ایس پی ڈی). یہ ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جس میں انسان اکیلا رہنا پسند کرتا ہے اور دوسروں کی موجودگی میں بے آرامی محسوس کرتا ہے. ایس پی ڈی سے متاثرہ لوگ عام طور پر بےحس لگتے ہیں. اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں دقت محسوس کرتے ہیں. خود کو دوسروں سے فاصلے پر رکھتے ہیں,نہ کسی سوشل اکٹیوٹی میں حصہ لیتے ہیں نہ ہی اس قسم کی ایکٹیوٹیز سے لطف اندوز ہوتے ہیں. ان کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ سماج سے کٹ کر رہتے ہیں. حتی کہ یہ اپنے ماں باپ سے بھی فاصلے پر رہتے ہیں. ان کی زندگی میں رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی. دوسروں کی رائے سے بے پروا یہ لوگ اپنے خول میں رہنا پسند کرتے ہیں .الہان میں اس بیماری کی ساری علامات موجود ہیں." ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے امبرین فاروقی مرتضی کو الہان کی نفسیاتی بیماری سے آگاہ  کر رہی تھیں.
”مگر ایس پی ڈی اسے کیوں ہے؟" اس کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات تھے.
”عام طور پر ایس پی ڈی ماں باپ کی جانب سے مسلسل سردمہری اور نظر انداز کیے جانے سے یا پھر کسی ٹروما, ڈپریشن خاص طور پر ذہنی یا جسمانی ابیوز, ڈرگزکے غلط استعمال کرنے کے سبب ہوتی ہے. اب یہ آپ بتائیں کہ ان تمام وجوہات میں سے الہان نے بچپن میں کس کا سامنا کیا ہے؟" امبرین فاروقی سے الٹا مرتضی سے سوال کیا.
”میں نہیں جانتا کہ اس کا بچپن کہاں اور کن حالات میں گزرا ہے. الہان چار سال کا تھا جب ایک حادثے کے باعث مجھ سے علیحدہ ہو گیا تھا. صرف وہی نہیں میری بہن آنیہ کی فیملی بھی اس حادثے کے بعد گمشدہ تھی. کئی سال میں نے انہیں تلاش کیا مگر کوئی سرا نہیں ملا. تقریباً چھ ماہ پہلے ایک شام مجھے ہسپتال سے فون آیا تھا کہ آنیہ وہاں ایڈمٹ ہے. جب میں وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ آنیہ کے ساتھ الہان بھی وہیں ہسپتال میں ہے." وہ بے بسی سے بولا.
”کیا آپ نے آنیہ سے پوچھا نہیں کہ گزرے آٹھ سال وہ کہاں رہی؟ اور کس نے اسے ہسپتال پہنچایا؟" امبرین فاروقی نے بھنویں اچکائیں.
”زندگی نے اسے اتنی مہلت ہی نہ دی کہ وہ مجھے کچھ بتا پاتی. جس دن وہ ملی تھی اسی دن ہم میں چند جملوں کا تبادلہ ہوا تھا اس کے بعد وہ تین دن مسلسل بے ہوشی میں رہی اور جب آنکھیں کھولیں تو اکھڑی سانسوں سے الہان سے اپنی بیٹی ڈھونڈنے اور اس کی حفاظت کرنے کا وعدہ لینے کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو گئی." چھ مہینے پہلے کا واقع یاد کرکے مرتضی کے چہرے پر افسردگی چھا گئی تھی.
”کیا الہان سے آپ نے پوچھا کہ وہ آٹھ سال کہاں تھا؟"
“میں نے اس سے پوچھنے کی کوشش کی تھی مگر اس نے جواب نہیں دیا. آپ اس سے پوچھ کر دیکھیں ہو سکتا ہے آپ کو کچھ بتا دے." مرتضی نے اپنی رائے دی.
”اس موضوع پر میری اس سے بات ہوچکی ہے."
”کیا اس نے آپ کو کچھ بتایا ہے؟"
”الہان کی پہلی میموری ایک اندھیرے کوٹھری نما کمرے کی ہے. اس کا کہنا ہے کہ اس نے وہاں بہت سے دن گزارے تھے پھر اسے بیڑیاں ڈال کر دوسرے جیل نما کمرے میں منتقل کیا گیا تھا. اسی کمرے میں اس کی ملاقات اپنی آنی یعنی آنیہ سے ہوئی تھی. باقی سارا وقت وہ اور آنیہ اکٹھے رہے تھے." کچھ دن پہلے ٹاک تھیرپی کے دوران الہان سے ہونے والی باتیں دہراتے ہوئے امبرین فاروقی ایک لمحے کے لیے رکیں پھر پرسوچ انداز میں بولیں
”جو وقت اس نے بند کمرے میں اکیلے رہ کر گزرا ہے اسی دوران اس کے اندر اس بیماری نے جنم لیا تھا. پھر جب وہ آنیہ سے ملا تو اس کے رویے کا غیر معمولی پن آنیہ محسوس کر گئی تھی اس لیے اس نے حتی المکاں الہان کو اس فیز سے نکالنے کی کوشش کی تھی. پچھلی ٹاک تھیرپی کے دوران الہان نے بتایا تھا کہ آنیہ نے اسے ڈکشنری کی مدد سے احساسات کی پہچان کروائی تھی. حالات کے مطابق خوش یا دکھی سکھایا تھا. اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار کرنے میں آنیہ اس کی مدد کیا کرتی تھی. اس نے اسے اپنی بیماری سے لڑنا سکھایا تھا اورساتھ ہی اس نے اسے اپنے ساتھ کا یقین بھی دلایا تھا. آنیہ کی صحبت میں الہان بہت حد تک نارمل ہوتا جا رہا تھا. اپنے گرد آنیہ کی موجودگی اسے بے آرام نہیں کرتی تھی. آنیہ اس کی زندگی کا پہلا رشتہ تھی جس سے وہ مانوس ہوا تھا. آنیہ وہ ذریعہ تھی جس کے باعث وہ اس دنیا سے دوبارہ جڑا تھا اور اس کے جانے کے بعد الہان کا دنیا سے تعلق پھر سے ٹوٹ گیا ہے. آنیہ کی غیر موجودگی کے باعث وہ واپس اسی فیز میں چلا گیا ہے جس میں وہ اس سے ملنے سے پہلے تھا." انہوں نے بڑے صاف لفظوں میں الہان کی نفیساتی کنڈیشن مرتضی کے سامنے رکھی.
”ایس پی ڈی کا علاج کیا ہے؟"
”نفسیاتی بیماریوں کا کوئی مکمل علاج نہیں ہوتا. ان کا علاج پیشینٹ کی وِل پر انحصار کرتا ہے. مریض میں نارمل ہونے کی جتنی تمنا ہوگی اتنی ہی جلدی وہ اپنی بیماری پر قابو پائے گا. خیر نفسیاتی طور پر بیمار لوگ بظاہری طور نارمل ہوتے ہیں مگر اندر ہی اندر یہ ذہنی بیماریاں انہیں دیمک کی کھاتی رہتی ہیں اور ایک بات میں آپ جو بتاتی چلوں کہ
"Schizoid personality disorder is poorly studied disorder"
اس کا مطالعہ کم ہونے کی دو وجوہات ہیں. پہلی تو یہ ہے کہ یہ ایک انکومن بیماری ہے. دنیا کی آبادی کے آدھ فیصد سے بھی کم لوگوں کو ایس پی ڈی ڈساوڈر ہے. دوسری وجہ یہ ہے کہ ایس پی ڈی سے اثرانداز لوگ بہت کم سائیکولوجسٹ یا سائیکیٹرسٹ کا رخ کرتے ہیں. دوسری نفسیاتی بیماریوں کے برعکس ایس پی ڈی سے متاثر لوگ مطمئن زندگی گزارتے ہیں تبھی یہ سائیکیٹرسٹ کو کنسلٹ نہیں کرتے. چند ایک جو کیسز سامنے آئے ہیں ان میں بھی متاثرہ فرد کے گھر والے اسے زبردستی علاج کے لیے لاتے ہیں. آپ اپنا کیس ہی دیکھ لیں. آپ بھی تو الہان کو زوز زبردستی لائیں ہیں ورنہ وہ تو اکیلے پن اور بے حسی کے زندگی گزارتے ہوتے پرسکون تھا. خیر ایس ٹی ڈی کا علاج تین طریقوں سے کیا جاتا ہے.... ٹاک تھیرپی.... گروپ تھیرپی... اور میڈیکیشن... ٹاک تھیرپی کے ذریعے علاج کا آغاز تو میں تین ہفتے پہلے ہی کر چکی ہوں. جلد ہی گروپ تھیرپی بھی شروع کریں گے اور اینٹی ڈپریشن میڈیسنز میں لکھ دیتی ہوں. اس کے علاوہ میں بس آپ سے یہی کہوں گی کہ آنیہ کے جانے کے باعث الہان کی زندگی میں جو خلا آیا ہے اسے پر کرنے کی کوشش کریں. اس کی زندگی میں آنیہ کی جگہ لینے کی کوشش کریں. اس کا خود سے تعلق مضبوط کریں تاکہ وہ خود کو تنہا محسوس نہ کرے. اسے اپنے احساسات سمجھنے اور ان کا اظہار کرنے کا موقع دیں. اسے سکھائیں کہ حالات کے مطابق رسپونس کیسے دیتے ہیں. مجھے امید ہے کہ وہ جلد نارمل لوگوں کی طرح جینا سیکھ جائے گا." بات کے اختتام میں امبرین فاروقی نے مرتضی کو امید دلائی.
”نارمل نہیں ہوگا؟ بس نارمل لوگوں کی طرح جینا سیکھے گا؟" مرتضی نا امیدی سے بولا.
”ہر شخص کی نفسیات دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں اس لیے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتی. ہو سکتا ہے اس کی ساری زندگی یوںہی گزر جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ زندگی کے کسی موڑ پر آنیہ کی طرح کی کوئی سیویئر Saviour آئے جو اسے دوبارہ جینا سکھا دے. جس کے سامنے الہان بے جھجھک اپنے جذبات کا اظہار کر سکے, اسے کسی مصنوعی تاثرات کا سہارا نہ لینا پڑے, جس کی باتوں پر اس کی روٹھی ہوئی مسکراہٹ واپس آجائے.... خیر ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے اس لیے آپ نا امید نہ ہوں. ایک دن الہان نارمل ہو جائے گا."
”انشا اللہ" مرتضی صدق دل سے بولا.
”ویسے یہ آنیہ کی بیٹی کا کیا قصہ ہے؟" امبرین فاروقی دلچسپی سے بولیں.
”حجر.. حجر بھی الہان کے ساتھ ہی منظر عام سے غائب ہوئی تھی. الہان اور آنیہ تو واپس آ گئے ہیں مگر حجر اور ہارون ابھی بھی پس پردہ ہیں. آنیہ نے آخری وقت میں الہان سے حجر کو ڈھونڈنے کا وعدہ لیا تھا...." بات کرتے ہوئے مرتضی ایک لمحے کے لیے رکا پھر کچھ سوچتے ہوئے بولا
".... حجر کو ڈھونڈنا... الہان کا دھیان آنیہ سے ہٹانے کا سب سے اچھا طریقہ یہی ہے کہ ہم اس کی سوچوں کا رخ حجر کی جانب مائل کردیں. کیا خیال ہے؟" اس نے پر جوش انداز میں امبرین فاروقی سے استفسار کیا
”اگر اس طریقے سے اس کی کنڈیشن بہتر ہوتی ہے تو یہ طریقہ اپنانے میں کوئی حرج نہیں." وہ مسکراتے لہجے میں بولیں.
”چلیں ٹھیک ہے. اب میں چلتا ہوں. اپنے قیمتی وقت سے میرے لیے ٹائم نکالنے کا شکریہ" مزید چند اختتامی کلمات کا تبادلہ کرنے کے بعد مرتضی نے باہر کا رخ کیا.
......................
کرائم برانچ بیورو میں اس وقت گہماگہمی مچی تھی. صبح کے نو بجے کے وقت وہاں موجود ہر فرد کے چہرے پر تروتازگی کی بجائے تھکن نمایاں تھی کیونکہ وہ سب کل رات ڈیڈ باڈیز ملنے کے بعد سے کام کر رہے تھے. اس دوران حجر اپنے آفس میں لگی سکرین پر ابھرتی تصویروں کی جانب متوجہ تھی. کل رات ڈیڈ باڈیز آٹوپسی کے لیے بھجوانے کے بعد سپیشل برانچ کے سب افراد بیورو آ گئے تھے. حجر بھی کل رات سے ہی کام میں مصروف تھی. باقی سب افراد کے برعکس اس کے چہرے پر تھکن کا شائباں تک نہ تھا. شاید وہ مختلف کیسز کے دواران یونہی بے وقت کام کرنے کی عادی تھی تبھی تو کل کے مصروف دن کے بعد ساری رات جاگ کر گزارنے کے باوجود بھی وہ فریش تھی.  گزری رات میں وہ دس کافی کے کپ پی چکی تھی اور گیارواں کپ ہاتھ میں لیے اس وقت وہ فارینسک ٹیم کی لی گئی ڈیڈ باڈیز کی تصویروں کو ہر زاویے سے دیکھ رہی تھی. الہان اسے کافی کی زیادہ مقدار پینے سے روکنا چاہتا تھا مگر وہ اسے کچھ کہنے کا اختیار نہیں رکھتا تھا تبھی اس کی آفس میں لگی گلاس ونڈ سے خاموشی سے اسے یہ زہر  اپنے اندر انڈیلتے دیکھ رہا تھا. حجر اس کی ذات اور اس کے نظروں سے لا پرواہ کیس کے ہر نقطے کو مد نظر رکھتے ہوئے جوڑ توڑ کرنے میں مصروف تھی. کافی کا کپ ختم ہوتے ہی اس کی سوچوں کو بریک لگا. چہرے پر بیزاری لیے وہ آفس کے دروازے کی جانب بڑھی. دروازہ کھولتے ہی سب سے پہلی اس کی نگاہ الہان سے ٹکرائی جو اس کے آفس کے باکل سامنے بنے وزٹنگ ایریا میں کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا. اسے مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے حجر نے آفس بوائے کی تلاش میں نظریں دوڑائیں. کرائم اینالسٹ حاجرہ کے کیبن کے قریب کھڑے آفس بوئے کو کافی کو آرڈر دینے کے بعد وہ دوبارہ آفس میں آگئی. اسے آئے ایک منٹ ہی ہوا تھا جب دروازہ ناک ہوا.
”کم ان" دروازے کی جانب رخ کیے بغیر وہ بولی. لمحے بعد الہان دروازہ دھکیلتے ہوئے اندر داخل ہوا.
”میں بہت دیر سے آپ کو ان تصویروں کی جانب متوجہ دیکھ رہا ہوں. ان ڈیڈ باڈیز کی تصویروں میں ایسا کیا چھپا ہے جسے آپ مسلسل تلاش کر رہی ہیں؟" ذہن میں ابھرتے سوال کو الفاظ کا روپ دیتے ہوئے اس نے کل رات کی جھڑپ کے بعد ان دونوں کے درمیان حائل خاموشی کو توڑا.
"مجرم کی انٹرنل ڈزائرز؟... اپیل؟... اسکا ایم؟ ..وہ کیا چاہتا ہے؟ ...کس چیز نے اسے قتل کرنے پر ابھارا... یہ سب ان ڈیڈ باڈیز سے جھلک رہا ہے." بغیر اس کی جانب رخ کیے حجر بولی. اس کی بات پر الہان کو تعجب ہوا. وہ وہیں دروازے کے قریب کھڑا تھا آفس بوئے کافی کا کپ تھامے اندر داخل ہوا.
”میم! کافی" وہ لڑکا ابھی اتنا ہی کہہ پایا تھا جب الہان نے اس کے ہاتھ سے کافی کا کپ لے لیا
”کافی کے لیے بہت شکریہ... اس وقت کافی کی شدید طلب ہو رہی تھی." اسے واپس جانے کا اشارہ کرکے وہ مزے سے کافی کے گھونٹ بھرنے لگا. حجر جو آفس بوئے کی آواز پر کافی لینے کے لیے مڑی تھی اس کی کاروائی دیکھ کر رہ گئی.
”یہ میری کافی تھی." وہ خود کو یہ کہنے سے روک نہ پائی.
”آپ پہلے ہی حد سے زیادہ کافی پی چکی ہیں اور نہ ہی پیئں تو اچھا ہے. ایک انسان کے لیے روزانہ کی چار سو ایم ایل کیفین سیف ہوتی ہے اس لمٹ سے زیادہ کافی پینا مضر ہے. چار سو ایم ایل تقریباً تین سے چار کپ بنتے ہیں جبکہ آپ رات سے دس کپ پی چکی ہیں." اس نے اسے کافی پینے سے باز رکھنا چاہا.
”میرے کافی پینے یا نہ پینے سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے." دھمیے مگر سخت لہجے میں حجر بولی.
”میں تو انسانیت کے ناطے آپ کو روک رہا تھا ورنہ مجھے کیا پروا... میری طرف سے جتنی مرضی پیئں." اس نے خود کو لا پروا ظاہر کیا. اس نے اپنی بات کہی ہی تھی جب کرائم اینالسٹ حاجرہ ناک کرکے کے اندر داخل ہوئیں.
”جی مس حاجرہ! پتا چلا کہ کڈاور cadaver کہاں کہاں سے ملتا ہے؟" مس حاجرہ کے اندر آتے ہی حجر نے سوال کیا.
”اسلام آباد میں کڈاور بنانے کی کوئی فیکٹری نہیں ہے. سرجیکل کی کچھ دکاندار دوسرے شہروں سے کڈاور لا کر یہاں بیچتے ہیں. جن دکانوں پر کڈاور دستیاب ہے ان سب کے ایڈریس نکال لیے ہیں میں نے." ہاجرہ نے تفصیل بتائی.
”آفیسر نعمان اور آفیسر بلال کو سرجیکل مارکیٹ بھیجیں."
”میم! گواہ کا بیان سننے کے بعد آپ نے کہا تھا کہ اسلام آباد میں موجود پرانے ماڈل کی آلٹو گاڑی کا پتا کروں. میں پچھلے دو دن سے سرچ کر رہی ہوں مگر پرانے ماڈل کی کوئی بھی گاڑی نہیں ملی. سب سے پرانی گاڑی بھی دو ہزار ایک ماڈل کی ہے."
”ہو سکتا ہے کہ انسب unsub کسی دوسرے شہر سے وہ گاڑی لایا ہو." حجر نے دوسرا پہلو واضح کیا.
”نہیں میم…. پچھلے ایک پفتے میں کوئی بھی پرانی آلٹو گاڑی اسلام آباد کی حدود میں داخل نہیں ہوئی." وہ پر یقین انداز میں بولی.
”اس کا مطلب میرا شک سہی نکلا." حجر پر سوچ انداز میں بولی.
”کیسا شک؟" اب کی بار سوال الہان نے کیا تھا.
”یہی کہ امجد نامی گواہ غلط بیانی کر رہا ہے." اس کے چہرے پر سوچوں کا جال تھا.
”آپ کو کیسے پتا؟"
”اگر آپ امجد کا بیان غور سے سنتے تو آپ کو محسوس ہوتا کہ وہ بہت کانفیڈینس سے بات کر رہا تھا. یوں جیسے وہ کوئی رٹا رٹایا جواب دے رہا ہو. عام طور پر کسی حادثے کے بعد کوئی گواہ سامنے آتا ہے تو وہ بہت گھبرایا ہوتا ہے... ذہن پر زور ڈال کر, سوچ سوچ کر پولیس کے سوالوں کے جواب دیتا ہے مگر امجد کا انداز اس کے برعکس تھا. صرف یہی نہیں اس کا کہنا تھا کہ ہڑبڑاہٹ میں وہ گاڑی کا نمبر نہیں دیکھ پایا مگر گاڑی کا ماڈل اسے یاد ہے. کسی بھی شخص کو اتنی عقل تو ہوتی ہے کہ ایسی صورت حال میں وہ گاڑی کا نمبر نوٹ کرے. چلو مان لیتے ہیں کہ وہ صورت حال دیکھ کر بھوکھلا گیا تھا مگر اس بھوکھلاہٹ میں گاڑی کا ماڈل دیکھنا یاد رہا مگر نمبر نہیں." بات کے اختتام میں وہ طنزاً مسکرائی.
”مگر اس نے غلط بیان کیوں دیا؟" الہان نے استفسار کیا.
”ہمیں گمراہ کرنے کے لیے. امجد کی بتائی گاڑی کا ماڈل تلاش کرنے میں مس ہاجرہ نے کتنے گھنٹے لگائے ہیں مگر ان کا وہ قیمتی وقت ضائع گیا کیوں کہ اغواہ کار نے وہ گاڑی استمال ہی نہیں کی تھی جو امجد نے ہمیں بتائی تھی." کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر پر سکون انداز میں بیٹھتے ہوئے وہ بولی.
”میم! اب کیا کرنا ہے؟" ہاجرہ کے چہرے پر پریشانی رقم تھی کیونکہ امجد اس کیس کا واحد گواہ تھا اور ان کے نزدیک اغواہ کار تک پہنچنے کا واحد ذریعہ بھی.
”امجد نے ہمیں گمراہ کیا ہے تو صحیح راہ بھی وہی دکھائے گا." وہ پراعتماد انداز میں بولی.
”وہ کیسے؟" ہاجرہ ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے بولی
”ویسے تو مجھے پورا یقین ہے کہ امجد اب تک روپوش ہو گیا ہوگا مگر پھر بھی آپ آفیسر رضا حمید سے کہیں کہ اس کے دیے گئے ایڈریس پر جائیں. اگر وہ وہاں ملتا ہے تو اسے بیورو لے آئیں اگر نہیں تو پھر وہاں کے مقامی لوگوں سے اس کے متعلق تفتیش کریں." وہ پروفیشنل انداز میں بول رہی تھی.
”ٹھیک ہے میم" ہاجرہ اتنا کہہ کر مڑی جب حجر کا فون رنگ کیا. فون پر ابھرنے والا نمبر آفیسر سعد کا تھا.
”جی آفیسر سعد! پوسٹ مارٹم ہوگیا؟" فون کان سے لگاتے ہی اس نے دریافت کیا.
”جی میم! ہو گیا ہے. یہی کہنے کے لیے فون کیا تھا. آپ آ جائیں میڈیکل اگزیمینر ساری صورت حال بتا دیں گے آپ کو." آفیسر سعد مودب انداز میں بولے.
”ٹھیک ہے. میں آ رہی ہوں." اس نے فون بند کیا اور دروازے کی جانب بڑھی. الہان نے بھی اس کی تقلید کی.
”آپ میرے ساتھ جا رہے ہیں؟" اسے ساتھ چلتے دیکھ کر حجر نے سوال کیا.
”نہیں... آپ میرے ساتھ جا رہی ہیں." آنکھوں پر شیڈز لگاتے ہوئے اس نے جواب دیا.
”مطلب تو ایک ہی ہوا نا. ویسے آپ کا میرے ساتھ جانا بنتا بھی ہے آخر آپ میرے اسٹینٹ ہیں." وہ جلانے والی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بولی.
”میرا خیال میں ٹرانسلیٹر کہنا بہتر ہوگا حجر" حجر کی سوچ کے برعکس اس نے پر سکون انداز میں جواب دیا. اس کا طرز مخاطب دیکھ کر تیزی سے چلتے حجر کے قدموں کو بریک لگا.
”کیا ہوا؟" اسے رکتے دیکھ کر الہان نے دریافت کیا.
”کیا میں آپ کی بچپن کی دوست ہوں؟" بھنویں اچکاتے یوئے حجر نے سوال کیا.
”نہیں.." اس کے بے تکے سوال پر الہان نے تعجب سے جواب دیا.
”تو پھر آپ مجھے حجر کہہ کر کر مخاطب کیوں کر رہے ہیں؟" بازو سینے پر باندھتے ہوئے اس نے استفسار کیا.
”کیا آپ کے دوست صرف آپ کو حجر کہتے ہیں؟" الہان نے الٹا اس سے سوال کیا.
”ہمم" ہوا کے باعث منہ پر آتے بال ایک ہاتھ سے ہٹاتے ہوئے وہ بولی.
”احتشام چچا بھی تو آپ کو حجر کہہ کر مخاطب کرتے ہیں. کیا وہ آپ کے بچپن کے دوست ہیں؟ الہان نے دلیل دی.
”احتشام چچا کو بیچ میں مت لائیں. وہ بڑے ہیں مجھ سے اور ویسے بھی وہ میرے چچا لگتے ہیں." حجر ترخ کر بولی.
”بڑا تو خیر میں بھی ہوں اور کزن تو میں ہوں آپ کا " اس کی عجیب سی منطق کے جواب میں الہان بولا
”ابھی میں نے آپ کو اپنا رشتہ دار تسلیم نہیں کیا اس لیے بہتر ہے کہ آپ مجھے حجر کی بجائے مس حجر کہہ کر مخاطب کریں." تیکھے چتونوں سے اسے دیکھتے ہوئے حجر نے تاکید کی.
”آپ ایکسیپٹ کریں یا نہ کریں مگر ہیں تو آپ میری پھپھو زاد.... اور میں اپنی پھپھو زاد کو مس کہہ کر مخاطب ہرگز نہیں کر سکتا. آپ بھی مجھے مسٹر سی ای او کہنا بند کر دیں. لوگ تو اپنے دور کے رشتے دار کو یوں مخاطب نہیں کرتے جیسے آپ اپنے سگے ماموں کے بیٹے کو مخاطب کرتی ہیں." اس کی بات رد کرتے ہوئے وہ جل کر بولا. اس کا انکار سن کر حجر غصے سے اسے گھورتے ہوئے واک آوٹ کر گئی. اس کو یوں چڑتے دیکھ کر الہان دل ہی دل میں محظوظ ہوا.
……………………….
یہ منظر اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں بنے مردہ خانے کا تھا. داہنی دیوار پر لگے بلب کی سنہری روشنی میں اندر کا منظر واضح تھا. خنک ماحول میں مختلف سٹیچرز پر سفید رنگ کے کپڑے سے ڈھکی لاشوں کو ترتیب سے رکھا گیا تھا. کمرے کے وسط میں چھ لاشیں رکھی گئی تھیں یہ وہ لاشیں تھیں جو کل رات جھیل سے برآمد ہوئی تھیں. کچھ دیر پہلے ہی ان کی آٹوپسی کے بعد انہیں یہاں منتقل کیا گیا تھا. کمرے میں موجود خاموشی میں دروازے کے دوسری طرف سے اس جانب بڑھتے قدموں کی آواز واضح سنائی دے رہی تھی. چند لمحوں بعد کلک کی ساتھ دروازہ کھلا اور دو نفوس اندر داخل ہوئے. ان میں سے ایک قریباً پینتالیس سالہ آدمی تھا جس نے لیب کوٹ پہن رکھا تھا جبکہ دوسرا وجود حجر کا تھا جو چہرے پر میڈیکل ماسک لگائے اس آدمی سے کچھ قدم کے فاصلے پر چلتی کمرے کے وسط میں رکھی لاشوں کے قریب آئی.
”اس بچے کو تقریباً چھ ماہ پہلے قتل کیا گیا تھا." ایک ڈیڈ باڈی کے سر والا جانب سے سفید کپڑا ہٹاتے ہوئے میڈیکل اکزیمینر بولا.
”چھ ماہ پہلے, یعنی جون میں... اس کا مطلب ہے یہ سب سے پہلے اغواہ ہونے والے بچے علی ریاض کی لاش ہے؟" حجر نے اندازہ لگایا.
"جی بالکل... ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد یہ کنفرم ہو گیا ہے کہ یہ لاش علی کی ہی ہے." ہاتھ میں پکڑی فائل کے صفحے پلٹتے ہوئے میڈیکل اگزیمینر بولا.
”علی کو 20 مئی کو اغواہ کیا گیا جبکہ اسے جون میں قتل کیا گیا. اس کا مطلب ہے کہ علی تقریباً ایک ماہ انسب کی قید میں رہا ہے."
”ہمم"
”کیا باقی سب بچوں کے ڈی این اے میچ کر گئے ہیں؟" حجر نے سوال کیا.
"پانچ بچوں کے ڈی این اے سیمپل دیے گئے تھے مجھے. وہ پانچ کے پانچ ان ڈیڈ باڈیز کے ڈی این اے سے میچ کر گئے. بس اس باڈی کا سیمپل کسی سے میچ نہیں ہوا." انہوں نے چوتھے نمبر پر رکھی گئی لاش کی جانب اشارہ کیا.
”میرے خیال سے یہ وہ بچہ جس کی رپورٹ درج نہیں کروائی گئی. اس بچے کے والدین کی وفات ہوگئی تھی اور یہ ایک یتیم خانے میں قیام پزیر تھا. یتیم خانے میں پوچھ گچھ کرنے کے بعد اس کے اغواہ کی خبر ملی تھی. چونکہ اس کے والدین حیات نہیں تھے تو ڈی این اے سیمپل نہیں مل سکا." حجر نے انہیں تفصیل بتائی.
”اوکے" کہتے ساتھ ہی میڈیکل اگزیمینر نے ہاتھ میں پکڑی پوسٹ مارٹم کی فائل حجر کی جانب بڑھائی. حجر خاموشی سے فائل پر درج ڈیٹیلز پڑھنے لگی.
"Cause of death : Ketamine overdose"
سطر میں لکھے الفاظ اس نے زیر لب دہرائے پھر میڈیکل ایگزیمینر کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے سوالیہ انداز میں بولی
”کیٹامین؟ یہ تو ایک اینستیٹک ڈرگ anesthetic ہے نا؟"
”جی... مگر کلینیکل ڈوز ایک سے دو ملی گرام پر کےجی  ہوتی ہے. اس سے زیادہ مقدار خطرناک ہے اور گیارہ ملی گرام پر کے جی محلق ہے. ان ڈیڈ باڈیز کے بلڈ میں کیٹامین کی بڑی مقدار موجود ہے اور اس ڈرگ کی زیادہ مقدار کے باعث ہی ان بچوں کی موت واقعہ ہوئی ہے. کیٹامین باڈی میں انجیکٹ کرنے کے تین طریقے ہیں. اس کی پاؤڈر فارم کو کسی ڈرنک کے ساتھ نگلنا, لکویڈ فارم میں مسلز میں انجیکٹ کرنا  اور وین میں انجیکٹ کرنا. پاؤڈر فارم میں نگلنے کی صورت میں یہ ڈرگ پانچ سے پندرہ منٹ کے دوران اثر کرنا شروع کرتا ہے. جب اسے مسل میں انجیکٹ کیا جاتا تو ایک سے پانچ منٹ میں کیٹامین کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور اگر اسے سب سے خطرناک طریقے یعنی وین انجیکٹ کیا جائے تو صرف تیس سیکنڈ کے اندر اندر یہ ڈرگ اپنا اثر دکھانا شروع کر دیتا ہے. ان ڈیڈ باڈیز میں یہ ڈرگ ڈائیریکٹ وین میں انجیکٹ کیا گیا ہے جس کے باعث ان کی فوری موت واقع ہوئی ہے." کہتے ساتھ ہی میڈیکل اگزیمینر نے ایک لاش کے بازو پر سے سفید کپڑا ہٹایا اور کہنی پر بنے چھوٹے سے سرخ نشان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ دوبارہ گویا ہوا
”یہ رہا انجیکشن کا نشان. ایسا نشان ہر ڈیڈ باڈی پر موجود ہے."
”مرنے کے سبب تو واضح ہو گیا ہے مگر ان ڈیڈ باڈیز کے چہرے پر موجود نشانات؟" حجر ان نشانات کی جانب دیکھتے ہوئے بولی
”سکیلپل scalpel کے ذریعے کاٹا گیا ہے سکن کو"
”ایپی ڈرمس کی موٹائی تقریباً 0.1 ملی میٹر ہوتی ہے. کیا اتنی باریک لیئر کو الگ کرنا ممکن ہے؟" حجر نے تعجب سے پوچھا.
”ممکن ہے تبھی تو انسب نے ایسا کیا ہے. اصل میں ایپی ڈرمس کو ڈرمس سے الگ کرنے کا تجربہ چوہے کی سکن پر کیا جاتا ہے. چوہے کی سکن پر دس سیکنڈ کے لیے مائیکرو ویوز ڈالی جاتی ہیں جس کے باعث ایپی ڈرمس اور ڈرمس علیحدہ ہو جاتے ہیں. بعد ازاں سکیلپل کے ذریعے کھرچ کر انہیں مکمل طور پر لگ کر لیا جاتا ہے. سکن کی لیئر کو الگ کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے. انسب نے یہ طریقہ انسانی جلد پر اپلائے کیا ہے." اس نے تفصیل بتائی.
”ان نشانات کی تصویریں دیکھتے ہوئے ایک چیز نوٹس کی ہے میں نے. یہ دیکھیں جس بچے کو سب سے پہلے قتل کیا گیا تھا اس کے چہرے پر نشانات صفائی سے نہیں بنائے گئے. ایک دفعہ دیکھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی نا تجربہ کار شخص کا کام ہے. اس سے اگلے نمبر پر قتل ہونے والے کے بچے کے چہرے کے نشانات پچھلے کی نسبت بہتر ہیں. اس سے اگلے بچے کے اس کی نسبت صفائی سے بنائے گئے ہیں اور پھر سب سے آخری بچے کے نشان بڑی مہارت سے بنائے گئے ہیں. دیکھنے میں لگتا ہے کہ کسی تجربہ کار شخص نے انھیں بنایا ہے. میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شروع میں اس نے کلمسی clumsy مرڈر کیے مگر اب وہ اس کام میں مہارت حاصل کر چکا ہے. اپنی پچھلی غلطیوں سے سیکھ کر خود کو امپرو کرتا گیا اور آخر میں وہ اس کام میں ایکسپرٹ ہو گیا." حجر کی بات سن کر پینتالیس سالہ میڈیکل ایگزیمینر نے اسے توصیفی نگاہوں سے دیکھا.
”منہ کے نشانوں کے بارے میں آپ ایسا کہہ سکتی ہیں مگر یہ باز کے ٹیٹو نما نشان بنانے میں وہ پہلے دن سے ایکسپرٹ تھا. پہلے قتل ہونے والے بچے کے ہاتھ پر بھی یہ نشان اتنی ہی مہارت سے بنایا گیا ہے جتنی مہارت سے حال ہی میں اغواہ ہونے والے بچے کے ہاتھ پر." ان کے منہ سے باز کے نشان کا ذکر سن کر حجر بے آرام ہوئی تھی.
”ہمم" وہ بس اتنا ہی کہہ پائی.
”ان ڈیڈ باڈیز سے برآمد ہونے والی سب سے اہم چیز تو میں آپ کو دکھانا بھول ہی گیا." ان کی بات پر حجر نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا جو اب فائل کے صفحے تیزی سے پلٹ رہا تھا. فائل میں رکھے گئے دو صفحے نکالنے کے بعد انہوں نے سر اٹھایا.
”یہ ان ڈیڈ باڈیز سے برآمد ہوئے ہیں." وہ صفحے حجر کی جانب بڑھاتے ہوئے وہ بولا. حجر نے خاموشی سے وہ صفحے تھامے اور انہیں دیکھنے لگی. ان صفحوں پر کرپٹو گرام درج تھے. ان بے ترتیب الفاظ کو ایک نظر دیکھتے ہی اس کے ماتھے پر بل نمایاں ہوئے. کچھ دیر انھیں دیکھنے کے بعد اس نے سر اٹھایا اور میڈیکل اگزیمینر کی جانب دیکھتے ہوئے بولی
”یہ میں حل کر لوں گی." کہتے ساتھ ہی اس نے وہ صفحے فائل میں رکھے اور فائل لے کر دروازے کی جانب چل دی. راہداری کراس کرنے کے وہ ہسپتال کے بیرونی دروازے کی جانب بڑھنے لگی. دروازے سے کچھ فاصلے پر آفیسر رضا حمید اور الہان کھڑے جانے کون سے راز و نیاز کرنے میں مصروف تھے. اسے قریب آتا دیکھ کر وہ دونوں خاموش ہو گئے تھے.
”مل گئی آٹوپسی رپورٹ؟" الہان نے سوال کیا
”ہممم" اسے جواب دے کر وہ آفیسر رضا کی جانب متوجہ ہوئی.
”ڈیڈ باڈیز کو ان کی فیملیز کے سپرد کر دیں."
”ٹھیک ہے میم." مودب انداز میں کہنے کے بعد آفیسر رضا وہاں سے چلے گئے.
" آپ کو کرپٹوگرام سولو کرنے آتے ہیں نا؟" اب کی بار وہ الہان سے مخاطب تھی.
”جی.... مگر آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟ کیا اس دن والا کرپٹوگرام حل کروانا ہے؟" وہ پرجوش انداز میں بولا
”نہیں... وہ والا میں خود کر لوں گی. آپ یہ انسب کے دیے گئے کرپٹو گرام جلدی سے حل کریں." اس نے فائل میں سے وہ دو صفحے نکال کر الہان کی جانب بڑھائے.
”ٹھیک ہے. انھیں میں حل کر لوں گا. یہ لیں گاڑی کی چابی." اس نے چابی اس کی جانب بڑھائی تو حجر ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھنے لگی.
”میں یہ کرپٹوگرام حل کروں گا تو ظاہر سی بات ہے کہ آپ گاڑی ڈرائیو کریں گی. اب ایک وقت میں دو کام تو میں کر نہیں سکتا." اس کے تاثرات دیکھ کر الہان نے تفصیل بتائی. اس کی بات سن کر حجر گاڑی کی چابی تھام کر کندھے اچکاتے ہوئے ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بڑھ گئی.
......................
کرائم برانچ کی ساری ٹیم ایک بار پھر کانفرس روم میں جمع تھی. سکرین کے آگے کھڑی حجر انہیں آٹوپسی رپورٹس میں لکھی گئی تفصیلات بتا رہی تھی.
”آج کے لیے اتنا بہت ہے. آپ سب کل رات سے آن ڈیوٹی ہیں اس لیے اب سب اپنے اپنے گھر جا کر آرام کریں. کل صبح تفتیش کا سلسلہ دوبارہ  یہیں سے جوڑیں گے." اس کی بات سن کر وہاں موجود سب افراد کے مرجھائے چہروں پر مسکراہٹ آئی.
”شکریہ میم" وہ سب ایک ساتھ بولے. حجر نے سر کے اشارے سے ان کے شکریہ کا جواب دیا. ایک ایک کر کے وہ سب کانفرس روم سے نکل گئے ان کے جاتے ہی الہان بھی جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا
”آپ کدھر جا رہے ہیں؟" اسے دروازے کی جانب بڑھتے دیکھ کر حجر نے سوال کیا.
”خود ہی تو آپ نے کہا ہے کہ گھر جائیں اور آرام کریں." الہان نے جواب دیا.
”میں نے آپ سے نہیں کہا. آپ یہاں تشریف رکھیں." اس کا اشارہ کرسی کی جانب تھا. اس کی بات سن کر الہان کندھے اچکاتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گیا.
”کرپٹوگرام ڈیکوڈ ہو گئے؟" الہان کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس نے سوال کیا.
”ہمممم... یہ لیں" کہتے ساتھ ہی الہان نے وہ صفحے اس کی جانب بڑھائے. حجر نے خاموشی سے ان کو تھاما اور ایک نظر دیکھے بغیر فائل میں رکھ دیا.
”آپ کو یاد ہو تو کچھ دن پہلے میں نے آپ سے سوال کیا تھا جس کے جواب میں آپ نے کچھ وقت مانگا تھا. میرے خیال میں جتنا وقت آپ کو مل چکا ہے وہ انف ہے." ٹیبل پر رکھی کرسٹل بال ہاتھ میں گھماتے ہوئے حجر بولی.
”ٹھیک ہے. پوچھیں جو پوچھنا ہے." دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنستانے ہوئے وہ بولا.
”آپ نے اس دن چھبیس سال پہلے والے ایک کیس کا ذکر کیا تھا جس میں مجرم نے وکٹم کے ہاتھ پر باز کا نشان بنایا تھا. کیا آپ اس کیس میں وکٹم تھے؟" اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے حجر نے سوال کیا.
”صرف میں ہی نہیں آپ بھی اس کیس کی وکٹم ہیں. تبھی تو یہ نشان آپ کے ہاتھ پر ہے." الہان نے انکشاف کیا. اس کی بات پر حجر ایک لمحے کے لیے کچھ بول نہ پائی.
”کیا آپ اس کیس کی تفصیل بتانا پسند کریں گے؟"
”میں نہیں جانتا اس کیس کا آغاز کب ہوا تھا. اپنی چند دھندلی یادوں کے علاوہ مجھے اتنا ہی معلوم ہے جتنا بابا نے بتایا تھا." الہان کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر آرام دہ انداز میں بیٹھتے ہوئے بولا.
”آپ کے بابا کی بتائی گئی معلومات سے شروع کرتے ہیں." وہ پرسوچ انداز میں بولی. اس کے پوچھنے پر الہان نے مرتضی کی گوادر سے واپسی پر احتشام کے ڈرگ کیس میں انوالو ہونے سے لے آنیہ کی ڈیتھ تک ساری بات اسے بتائی. آنیہ کی وفات کا سن کر وہ افسردہ ہوئی تھی مگر جلد ہی اپنے جذبات پر قابو پا کر اس نے اگلا سوال کیا
”اب آپ اپنی سائیڈ والی بات بتائیں. بتائیں کہ آپ کی فرسٹ میموری کب کی ہے؟"
”اندھیرے میں ڈوبی کال کوٹھری کی. مجھے وہاں بیڑیاں ڈال کر رکھا گیا تھا." بے تاثر چہرہ لیے وہ یوں بتا رہا تھا جیسے وہ اپنی نہیں کسی اور کی بات کر رہا ہو.
”کس نے قید کیا تھا آپ کو وہاں؟" اس کی بات سن کر تعجب سے حجر نے سوال کیا.
”وہ شخص خود کو 'صیاد' کہتا تھا اور اپنے ہر وکٹم کے ہاتھ پر باز کا نشان بناتا تھا اس سے زیادہ میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا." اس شخص کا ذکر کرتے ہوئے اس کے لہجے میں ایک عحیب سی سردمہری تھی.
”کیا آپ نے اس کا چہرہ دیکھا تھا؟"
”وہ ہمشیہ چمڑی کا ماسک پہنتا تھا اس لیے کسی نے بھی اس کا چہرہ نہیں دیکھا." اس کی دائیں ٹانگ اب مسلسل حرکت کر رہی تھی. اس کی ٹانگ کی وائبریشن اس کی بے سکونی کا ثبوت تھی.
”کتنا عرصہ آپ وہاں رہے تھے؟" حجر اس کے چہرے کے تاثرات کا بڑے غور سے جائزہ لے رہی تھی.
”تقریباً تین سال میں اکیلا وہاں رہا تھا." اس کی نظریں میز کی سطح پر جمی تھیں.
”اس عرصے کے دوران کبھی اس شخص نے آپ کو ذہنی یا جسمانی طور پر ٹورچر کیا؟" حجر اس کے سرد چہرے کے پیچھے چھپی تکلیف محسوس کر رہی تھی.
“I tried so hard to forget all that and now you are bringing that up.”
وہ شکوہ کناں لہجے میں بولا.
”میں جانتی ہوں کہ اپنی کمزری تسلیم کرنا, اپنی زندگی کی تلخ یادیں ڈسکس کرنا آسان نہیں ہوتا مگر یہ سب بتانے سے اگر کسی کی جان بچ جائے تو سودا گھاٹے کا نہیں ہے." حجر نے نرم لہجے میں اسے کنونس کرنا چاہا.
”وہ شخص سائیکوپیتھ psycopath تھا. اپنے اندر کی فرسٹریشن وہ دوسروں پر نکالتا تھا. وہ مجھے اپنی طرح بنانا چاہتا تھا اس لیے وہ مجھے ڈارک سٹوریز پڑھنے کے لیے دیتا تھا. جسمانی تشدد کے علاوہ وہ مجھے ذہنی طور پر بیمار کرنا چاہتا تھا." یہ اس کی ذات کا وہ حصہ تھا جس کے متعلق آنیہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا.
”اسی ٹرومہ کے باعث آپ کو ایس پی ڈی ہوا تھا؟" اس کے منہ سے ایس پی ڈی کے متعلق سن کر الہان کو شاک لگا.
”آپ کو کیسے پتا؟" حیرت پر قابو پاتے ہوئے اس نے استفسار کیا.
”میں نے آپ کی گاڑی میں پڑی ڈکشنری دیکھی تھی. ڈکشنری میں ہائی لائیٹ ہوئے الفاظ دیکھ کر مجھے پتا چلا تھا کہ آپ کو ایس پی ڈی ہے.اس کے علاوہ آپ کی شخصیت میں بھی اس بیماری کے چند اثرات محسوس کیے ہیں میں نے." اس کی بات سن کر الہان کو شدت سے احساس ہوا کہ اس کے لیے حجر سے کوئی بات چھپانا بہت مشکل ہے. اس کے سامنے بیٹھی لڑکی واقعی دوسرے کی ذات کے اندر جھنکنا جانتی تھی. وہ بڑی آسانی سے اس کا وہ راز پا گئی تھی جسے وہ سب کی نظروں سے چھپاتا آیا. اس کے دوست جو دس سال سے اس کے ساتھ قیام پزیر تھے آج تک انھیں بھی اس کی سرد مہری کے پیچھے چھپی وجہ معلوم نہیں ہوئی تھی اور وہ چند ملاقاتوں میں ہی جان گئی تھی.
”مجھے ایس پی ڈی ہے نہیں.... تھا." الہان نے تصیح کرنا ضروری سمجھا.
”مجھے معلوم ہے کہ آپ ایس پی ًی ہر قابو پاچکے ہیں. میرا یہ سوال کیس سے جڑا تو نہیں ہے مگر پھر بھی میں جاننا چاہتی ہوں کہ آپ نے اس بیماری کو اورکم کیسے کیا؟ میں نے نفسیاتی بیماریوں سے متاثر لوگ دیکھے ہیں اور ایسے لوگ کبھی نارمل زندگی نہیں گزار پاتے مگر آپ غیر معمولی طور پر ایک نارمل زندگی گزارہے ہیں. چند ایک باتوں کے علاوہ آپ کا رویہ بالکل عام لوگوں جیسا ہے. اگر میں سائیکولوجسٹ نہ ہوتی تو شاید ساری زندگی یہ جان نہ پاتی کہ آپ کو ایس پی ڈی تھا. میں واقعی وہ وجہ جاننا چاہتی ہوں جس نے آپ کو کیور کیا ہے؟" حجر نے دلچسپی سے سوال کیا.
”اگر میں آپ کے سوال کا جواب نہ دینا چاہوں تو؟" اپنے جھکا سر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے وہ بولا.
”تو میں بالکل بھی مائنڈ نہیں کروں گی. آپ کی مرضی ہے میں آپ کو مجبور نہیں کر سکتی. اگلے سوال کی جانب بڑھتے ہیں. تین سال سال قید میں رکھنے کے بعد کیا صیاد نے آپ کو آزاد کر دیا تھا؟" الہان کا گریز دیکھ کر اس نے کندھے اچکاتے ہوئے اگلا سوال کیا.
”نہیں... تین سال بعد اس نے میرا پنجرا تبدیل کیا تھا. جانے اس کو کیا سوجھی تھی کہ ایک دن اس نے مجھے اس کوٹھری میں منتقل کر دیا جہاں اس نے پھپھو کو قید کیا تھا."
”آپ کی پھپھو؟ یعنی آنیہ علوی؟ کیا اس شخص نے ان کو بھی وہاں بندی بنا کر رکھا تھا؟" اب کی بار حجر کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا.
”ہممم...  شروع کے تین سال میں اور پھپھو الگ الگ قید تھے بعد میں اس نے ہمیں ایک کوٹھری میں بند کر دیا تھا. میں صرف چار سال کا تھا جب میں ان سے الگ ہوا تھا اسلیے مجھے ان سے اپنا رشتہ یاد نہیں تھا. میرے لیے وہ اجنبی تھیں مگر وہ پہلی نظر میں مجھے پہچان گئی تھیں. مجھے اس حال میں دیکھ کر انہیں بہت تکلیف ہوئی تھی. میرے غیرمعمولی رویے اور تنہائی پسند طبیعت دیکھ کر سب سے پہلے انہوں نے میری بیماری کی تشخیص کی تھی اور مجھے تنہائیوں سے نکالنے کی سب سے پہلی کوشش بھی انھوں نے ہی کی تھی. وہ ڈکشنری جو آپ نے گاڑی میں دیکھی تھی اس سے پھپھو مجھے پڑھاتی تھیں. جذبات سے متعلق الفاظ ہائی لائیٹ کرکے وہ مجھے ان کی پہچان اور ان جذبات کا اظہار کرنے کے متعلق بتاتی تھیں. بیماری سے متاثر ہونے کے بعد آنی وہ پہلا نفوس تھیں جس سے میں مانوس ہوا تھا. آپ کو معلوم ہو گا سیزوڈ پرسنیلٹی ڈساوڈر کے مریض اپنے اردگرد موجود لوگوں سے انٹریکٹ نہیں کرتے. میں بھی ایسا ہی تھا مگر پھپھو کی توجہ نے مجھے اس فیز سے نکلنے میں مدد دی." اس کے لہجے میں آنیہ کے لیے محبت حجر واضح محسوس کر رہی تھی.
”کیا وہ شخص آپ کی پھپھو کو بھی ٹارچڑ کرتا تھا؟" ماں کہہ کر آنیہ علوی کا حوالہ دینا اسے عجیب لگ رہا تھا اس لیے اس نے الہان کی پھپھو کہنا بہتر سمجھا.
”نہیں.... وہ صیاد آپ کہ مدر کو ٹارچڑ نہیں کرتا تھا." الہان 'آپ کی مدر' پر زور دیتے ہوئے بولا. حجر اس کے 'مدر' پر زور دینے کا مطلب جان کر بھی انجان بن گئی.
”کتنی عجیب بات ہے نا کہ وہ شخص آپ کو تکلیف پہنچاتا تھا مگر آپکی پھپھو کو نہیں"
”پہلی بات تو یہ کہ وہ صرف میری پھپھو نہیں, آپ کی مدر بھی ہیں اسلیے آپ اپنا طرز مخاطب بدلیں. رہی بات انھیں تکلیف نہ پہنچانے کی تو یہ بات میری سمجھ سے بھی باہر ہے.  صرف پھپھو کو ہی نہیں وہ وہاں موجود دوسری عورتوں کو کچھ نہیں کہتا تھا. ظلم کا نشانہ بنتے تھے تو صرف بچے."
”کیا وہاں آپ دونوں کے علاوہ اور بھی لوگ تھے؟" اس کے ہاتھ میں موجود کرسٹل اب دوبارہ حرکت کرنے لگا تھا.
”سلاخوں کے اس پار اندھیرے میں آٹھ سال کے طویل عرصے کے دوران صیاد کے علاوہ مجھے کبھی کوئی اور نظر نہیں آیا. مگر بعض اوقات لہروں کے شور کے ساتھ چیخوں کی آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں. ان آوازوں سے محسوس ہوتا تھا کہ وہاں ہمارے علاوہ کوئی اور بھی موجود ہے."
”لہروں کا شور؟" حجر نے بھنویں اچکائیں.
”ہم بحری جہاز میں تھے." الہان نے وضاحت دی. بحری جہاز کا لفظ سن کر حجر کے دماغ میں جھماکا ہوا.
”آپ لوگ بحری جہاز میں تھے اور جب میں مور اور فار کو ملی تھی تو تب میرے قریب بھی انھیں کارگو کروس شپ کا ٹکٹ ملا تھا." وہ خود کلامی کے انداز میں بول رہی تھی مگر خاموشی کے ہونے باعث اس کی دھیمی آواز الہان کے کانوں تک با آسانی پہنچ گئی تھی.
”میں, آپ, پھپھو اور ہارون چچا ایک ساتھ غائب ہوئے تھے. پھپھو اور مجھے تو اس شخص نے قید کر لیا تھا. آپ کو وہ شپ کے ذریعے دبئی لے گیا تھا. پر اگر اس نے آپ کو وہاں جا کر مارنا ہی تھا تو یہاں پاکستان میں کیوں نہیں مارا؟" الہان نے چونکتے ہوئے پوچھا.
”جو شخص مجھے کارگو شپ کے ذریعے لے کر گیا تھا اس نے مجھے مار کر نہیں پھینکا تھا. مجھے یہاں سے لے کر جانے والا کوئی اور تھا اور زخمی حالت میں پھینکنے والا کوئی اور تھا." حجر نے اسے تفصیل بتائی.
”آپ کو یہ سب کیسے معلوم ہے؟"
”جب میں فار کو ملی تھی تب میرے زخمی وجود پر ناخنوں کے نشان ملے تھے. وہ نشان کسی بچے کے ناخنوں کے تھے. اس کے علاوہ جہاں مجھے پھینکا گیا تھا صبح کی روشنی میں وہاں جوتوں کے نشان بھی ملے تھے. وہ نشان بھی کسی بچے کے پیروں کے تھے. صرف یہی نہیں اس بچے کے دونوں پیروں میں فرق تھا. دائیں پاؤں کا سائز بڑا تھا جبکہ بائیں پاؤں کا سائز چھوٹا تھا." حجر نے فار کی دی گئی فائل میں لکھی معلومات اسے بتائی.
”صیاد ہی آپ کو پاکستان سے لے کر دبئی گیا تھا مگر دبئی جا کر اس نے آپ کو کسی بچے کے حوالے کر دیا تھا اور پھر اس بچے نے آپ کو زخمی حالت میں سڑک کنارے چھوڑا. میرے خیال میں وہ بچہ پچھلے چھبیس سال میں بڑا ہو گیا ہے اور اب وہ پاکستان آ کر بچے اغواہ کر رہا ہے." الہان نے دونوں کیس کی کڑیاں جوڑیں.
”ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ صیاد نامی شخص ہی اب بچے اغواہ کر رہا ہو کیونکہ باز کا نشان صیاد ہی اپنے وکٹمز پر بناتا تھا اور چمڑی کا ماسک بھی وہی پہنتا تھا." حجر نے اپنی رائے کا اظہار کیا.
”صیاد ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ وہ مر گیا تھا."
”کب؟ کس طرح؟" اس نے پے در پے سوالات کیے.
”ہمیں اس قید میں آٹھ سال گزارے چند ہی ہوئے تھے. اس دن آنی کی طبیعت خراب تھی. وہ صبح سے نیم بے ہوشی میں تھیں. میں ان کے بستر کے قریب بیٹھا ان کا سر دبا رہا تھا جب مجھے سلاخوں کے اس پار آہٹ محسوس ہوئی. آہستہ آہستہ وہ آہٹ قدموں کی آواز میں بدلنے لگی پھر گن کے فائر کے ساتھ کالے ماسک سے چہرہ ڈھانپے ایک شخص نے اس کال کوٹھری کے دروازے پر لگا تالا توڑا. فائز کی آواز پر سہم کر میں پھپھو کے بے ہوش وجود کے ساتھ لگ گیا تھا. مجھے خوف زدہ دیکھ کر وہ شخص میرے قریب آ کر گویا ہوا
”ڈرو نہیں. میں تمہے اس قید سے نکالنے آیا ہوں. جلدی سے اپنی پھپھو کو یہاں سے باہر نکالنے میں میری مدد کرو کیونکہ وہ صیاد کچھ دیر میں واپس آ جائے گا." اتنا کہہ کر اس شخص نے میرا پاؤں بیڑی سے آزاد کیا اور مجھے پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ آنی کو بازوؤں میں اٹھا کر جہاز سے باہر لانے لگا. جس بحری جہاز میں ہم تھے وہ اس وقت گوادر پورٹ پر کھڑا تھا. وہ شخص ہمیں جہاز سے نکال کر کچھ فاصلے میں کھڑی اپنی گاڑی میں بٹھا رہا تھا جب وہ صیاد واپس آیا. ہمیں فرار ہوتا دیکھ کر اس نے بندوق کی نال ہم پرتانی مگر اس کے فائر کرنے سے پہلے ہی اس شخص نے صیاد کے دل کا نشانہ لے کر اس پر فائر کیا. گولی لگنے سے وہ وہیں ڈھیر ہو گیا اور ہم اس شخص کے ساتھ اپنی منزل پر گامزن ہو گئے. پھپھو کی حالت کے پیش نظر وہ شخص ہمیں ہسپتال کے باہر چھوڑ کر چلا گیا تھا. لاوارث بےہوش عورت اور بچے کو دیکھ کر ہسپتال کا گیٹ کیپر ہمیں اندر لے گیا. بعد میں جب پولیس آئی تو وہ پھپھو کو پہچان گئی تھی کیونکہ بابا نے ہماری گمشدگی کا کیس فائل کیا ہوا تھا. ہسپتال کی انتظامیہ نے بعدازاں بابا کو بلایا تھا." بغیر سوچے سمجھے وہ رٹا رٹایا جواب دے رہا تھا. سوچوں میں الجھی حجر اس کے انداز پر غور ہی نہ کر پائی. اگر غور کر لیتی تو جان جاتی کہ وہ کتنا سچ کہہ رہا ہے.
”صیاد اس دن مر گیا تھا اب وہ بچہ جو کہ پچھلے چھبیس سال میں جوان ہو چکا ہے صیاد کا انداز اپنا کر اغواہ کر رہا ہے. صیاد ہی کی طرح وہ بھی اپنے وکٹمز کے وجود پر باز کا ٹیٹو بنا رہا ہے." اس کی بات ختم ہونے پر حجر بولی.
”کیا آپ نے مختلف وکٹمز کے وجود پر بنے باز کے نشان میں فرق محسوس کیا ہے؟" الہان نے اس کی توجہ باز کے نشان کی جانب مبذول کروائی.
”ہممم.... ان باز کے نشان سے ہر وکٹم کا مستقبل ظاہر ہوتا ہے. آپ کے ہاتھ پر جو نشان ہے اس میں باز کے پر نہیں ہیں جس کا مطلب ہے کہ آپ قید میں رہیں گے. میرے ہاتھ پر جو نشان ہے اس میں باز کے پر آدھے کٹے ہوئے ہیں یعنی میں آڑنے کی کوشش کر سکتی ہوں مگر لوٹ کر مجھے اپنے صیاد کی قید میں ہی آنا ہے. جو بچے مر چکے ہیں ان کے ہاتھ پر جو باز بنا ہے اس کی آنکھیں بند ہیں جبکہ فصیحہ کے اغواہ کے وقت جو باز ملا تھا اس کی آنکھیں کھلی تھیں. ان کھلی آنکھوں کا مطلب ہے کہ وہ فصیحہ کو مارے گا نہیں." حجر پہلے دن سے باز کے نشان میں فرق محسوس کر چکی تھی تبھی بےجھجک بولی.
”بالکل" الہان نے تائیدی انداز میں سر ہلایا. اس کے چہرے پر کچھ دیر پہلے والا سرد پن اب ختم ہو چکا تھا.
”مگر ایک بات میری سمجھ نہیں آرہی کہ صیاد نے ہماری گاڑی پر کیوں حملہ کیا تھا؟ آپ کے بابا کی گاڑی بھی تو اسی ہائی وے سے گزری تھی پھر اس نے آپ کے بابا کی گاڑی پر فائیرنگ کیوں نہیں کی؟ ہماری گاڑی پر ہی فائیرنگ کیوں کی تھی؟ کیا آپ کے ہارون چچا کی دشمنی تھی کسی کے ساھ؟" حجر نے اس سے استفسار کیا.
"ہارون چچا کی تو کسی سے دشمنی نہیں تھی مگر..."
"مگر کیا؟" وہ بے چینی سے بولی.
”مگر کار ایکسیڈینٹ سے کچھ سال پہلے پھپھو دادا جان( عادل علوی) کے ساتھ گوادر گئی تھیں اور تب ساحل سمندر پر ان کا ایک عجیب سے شخص سے ٹکراؤ ہوا تھا. اس شخص کی سرد آنکھوں اور چہرے پر چھائی بے حسی کی وجہ سے پھپھو اس سے خوف زدہ ہوگئی تھیں. اس سفر کے دوران ہی دادا جان کی طبیعت خراب ہوئی تھی اور ایمرجنسی میں انہیں واپس آنا پڑا تھا. ان دو بُرے واقعات کے باعث اگلے چند سال پھپھو نے دوبارہ گودار کا رخ نہیں کیا. چھیبیس سال پہلے بھی وہ گودار نہ جاتیں اگر اللہ یار انکل کے اصرار کے باعث ہارون چچا انہیں مجبور نہ کرتے. پھپھو کو یقین تھا کہ ساحل پر ملنے والا شخص صیاد ہی تھا. وہ ماسک پہنتا تھا مگر اس کی آنکھوں کے سرد تاثر سے وہ اسے پہچان گئی تھیں." ایک لمحے کے لیے وہ رکا پھر ایک اور بات ذہن میں آتے وہ دوبارہ گویا ہوا
”ایک بات اور... مجھے یاد نہیں ہے مگر پھپھو نے بتایا تھا کہ میں نے اللہ یار انکل کی حویلی کے بیک یارڈ میں صیاد کو دیکھا تھا. اللہ یارانکل کے کہنے پر میں ان کے بیٹے کے ساتھ وہاں کھیل رہا تھا جبکہ باقی سب ڈرائنگ روم میں تھے جس کی کھڑکی بیک یارڈ میں کھلتی تھی. میں نے صیاد کو کھڑکی سے نظر آتے پھپھو اور ہارون چچا کے عکس کو گھورتے دیکھا تھا. یہ ساری بات مجھے پھپھو نے بتائی تھی." اس نے بات کے اختتام پر آنیہ کا حوالہ دیا.
”صیاد اللہ یار انکل کے گھر میں تھا. اس کا مطلب کہ وہ اسے جانتے ہونگے یا پھر ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ہی صیاد کو وہاں بلایا ہو." وہ دونوں بڑے نامحسوس انداز میں ماضی کی گھتیاں سلجھانے میں ایک دوسرے کی مدد کر رہے تھے.
"میرا نہیں خیال کہ وہ صیاد کے ساتھ ملے ہونگے. وہ بابا اور ہارون چچا کے دوست تھے اور ہمیں ڈھونڈنے میں بھی انہوں نے بابا کی مدد کی تھی." الہان نے اسے احساس دلانا چاہا.
”مجھے سو فیصد یقین ہے کہ کہیں نہ کہیں اللہ یار نامی شخص صیاد سے جڑا ہے. اس کا اصرار کر کے ہمیں گوادر بلانا, آپ کو لان میں بھیجنا اور وہاں صیاد کی موجودگی.... یہ سب چیزیں اسے مشکوک ظاہر کر رہی ہیں. کیا وہ اب تک آپ سے رابطے میں ہیں؟" وہ استفہامیہ انداز میں بولی.
”نہیں... بابا کچھ عرصہ ان سے رابطے میں رہے تھے مگر جب انھیں پیرالیسز ہوا تو رابطہ ختم ہو گیا تھا." الہان نے اسے آگاہ کیا.
”سہی... "
”اب آگے کیا کرنا ہے؟" الہان نے کیس کے حوالے سے اس کا اگلا قدم جاننا چاہا.
”ایک بات تو یقینی ہے کہ ماضی کے صیاد کا, حال کے انسب کے ساتھ کوئی گہرا اور قریبی رشتہ ہے. ہمیں ان دونوں کے درمیان موجود کنیکشن کا پتا لگانا ہے. اس کے علاوہ ہم نے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ اللہ یار کا ان دونوں سے کیا تعلق ہے."  حجر نے لائحہ عمل بتایا.
”کیسے پتا چلے گا ان تینوں کا آپس میں تعلق؟" الہان دلچسپی سے بولا.
”گوادر جا کر" وہ اس کی آنکھوں میں چمک آئی.
”سہی"
”گوادر جا کر کم اللہ یار انکل کی حویلی جائیں گے. وہ پیرالائزڈ ہیں مگر کوئی تو ہوگا نا ان کی فیملی میں جو ہماری مدد کر سکے." حجر نے مزید تفصیلات بتائیں.
”ہممم.... ویسے آپ نے ایک بات محسوس کی ہے؟"
”کیا؟"
”یہی کہ ہم دونوں اگر مل کر کام کریں تو بہت جلد یہ کیس حل ہو سکتا ہے. یہ قول تو آپ نے سنا ہی ہو گا
Team work makes  The dream work
میری ذہانت اور آپ کا کریمینولوجی میں ایکسپیرینس ایک اچھا کومبو ثابت ہوگا."
”باکل... اگر آپ چاہیں تو ہم ایک ٹیم کی حیثیت سے کام کر سکتے ہیں." حجر نے آفر دی.
”وہ کیسے؟" وہ دلچسپی سے بولا.
”آپ میرے سیکرٹری بن جائیں." وہ مزے سے بولی. اس کی آفر سن کر الہان تپ اٹھا.
”بہت شکریہ... میں ٹرانسلیٹر کی جاب سے مطمئن ہوں." وہ چبا چبا کر بولا.
”جیسے آپ کی خوشی" حجر ہونٹوں پر ابھرتی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے بولی. اسے جواب دے کر حجر نے جونہی گردن موڑی اس کی نظر ونڈ سے نظر آتے ڈوبتے سورج کی جانب گئی.
”ماضی کے اوراق پلٹتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا." موبائل سکرین روشن کرکے چھ بجاتی گھڑی کو دیکھتے ہوئے وہ بولی.
”ہمممم... چلیں اب؟" اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے الہان نے دریافت کیا
”جی" اس کا جواب سن کر الہان کانفرس روم سے باہر نکل گیا. میز پر سے چند اہم فائلز اٹھانے کے بعد حجر نے بھی اس کی تقلید کی.
…………………………


Sorry for uploading it too late...

SiadWhere stories live. Discover now