صیاد
ازقلم رباب تنویر“Not every heart is capable to find secret of God’s love. There are not pearls in every sea. There is not gold in every mine.”
(Baba Farid)
……………….
سبک رفتاری سے چلتی گاڑی کے ٹائر الرفا پولیس سٹیشن کے سامنے چرچرائے۔ آج صبح آئی جی پولیس نے انہیں انٹرپول کے توسط دبئی پولیس سے رابطہ ہونے کے متعلق بتایا تھا. یہ خبر ملتے ہی حجر اور الہان نے پولیس سٹیشن کا رخ کیا تا کہ پولیس سے عتبہ کمال پر لگے الزام کے متعلق جان سکیں. پولیس سٹیشن کے اندر قدم رکھتے ہی انہوں نے انسپکٹر کے دفتر کا رخ کیا.
"تشریف رکھیں." سلام دعا اور تعارف کے بعد انسپکٹر وزیٹر چیئر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا.
"مجھے آپ کی آمد کے متعلق مطلع کیا گیا تھا. عتبہ کمال کے بارے میں معلوم کرنا چاہتے ہیں آپ؟" ان کے بیٹھنے کے بعد انسپکٹر دوبارہ گویا ہوا.
"ہممم... پاکستان میں بچوں کے قتل اور دو لڑکیوں کے اغواہ کا سسپیکٹ عتبہ کمال ہے اسلیے ہم اس کے متعلق جاننا چاہتے ہیں." حجر رسانیت سے بولی.
"دبئی میں عتبہ کمال ٹول باکس کلر toolbox killer کے نام سے جانا جاتا ہے. پہلی دفعہ ایک وارڈ بوائے پر اٹیمٹ ٹو مرڈر کے جرم میں اسے پولیس سٹیشن لایا گیا تھا. جائے وقوعہ پر موجود سب افراد نے بیان دیا تھا کہ پہلے حملہ عتبہ نے کیا تھا. اس کے گھر کی جب تلاشی لی گئی تب فریج میں سے انسانی جسم کے اعضا مثلاً آنتئن اور انگلیاں وغیر برآمد ہوئے تھے مزید برآں عتبہ کمال کی گاڑی سے رسی, آئسپکس, سلیج ہیمر, پلائرز ملے تھے ان سب ٹول کی موجودگی کی بنا پر اسے ٹول باکس سائیکوپیتھ کلر کہا جاتا ہے. عتبہ کمال نے کسی بھی جرم کا اعتراف نہیں کیا تھا اور اس کے وکیل کا کہنا تھا کہ کسی اور نے اس کو پھنسانے کے لیے یہ چیزیں اس کی گاڑی اور گھر میں رکھی ہیں. اس کا کیس ابھی ٹرائل میں ہی تھا جب ایک رات اپنے جیل کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر عتبہ نے گارڈ کو مارا اور جیل سے فرار ہو گیا. کسی ایئرپورٹ پر اسے دیکھا نہیں گیا تھا اسلیے ہمیں لگا تھا وہ دبئی میں ہی ہے اس لیے پچھلے سات ماہ سے ہم اسے دبئی میں ہی تلاش کر رہے تھے." انسپکٹر نے انہیں تفصیل بتائی اور ساتھ ہی ٹول باکس سائیکوپیتھ کیس کی فائل حجر کی جانب بڑھائی.
"وہ پاکستان ہوائی جہاز سے نہیں بحری جہاز سے آیا تھا تبھی کسی ایئرپورٹ پر اس دیکھا نہیں گیا." حجر نے انہیں مطلع کیا.
"جو اعضا عتبہ کمال کے گھر میں رکھی فریج سے ملے تھے معلوم ہوا وہ کس کے تھے؟" حجر نے استفسار کیا.
"نہیں" انسپکٹر نے مایوس کن انداز میں جواب دیا. حجر اب فائل دیکھنے میں مصروف تھی. اچانک اس کی پیشانی پر بل پڑے. فائل میز پر رکھتے ہوئے اس نے الہان کا دیا ریزیوم نکالا اور اور فائل اور ریزیوم پر لکھا عتبہ کمال کا ہوم ایڈریس میچ کرنے لگی.
"کیا ہوا ؟" اس کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیتے ہوئے الہان نے دریافت کیا.
"ایڈریس الگ الگ ہیں." حجر نے اسے بتایا پھر انسپکٹر کی جانب دیکھتے ہوئے بولی
"آپ کو یہ ایڈریس کس نے بتایا تھا؟"
"عتبہ کے آئی ڈی کارڈ پر یہی ایڈریس لکھا تھا." انسپیکٹر نے جواب دیا.
"اس ریزیوم پر لکھا ایڈریس اس وقت کا ہے جب عتبہ نے ہسپتال میں جاب شروع کی تھی. تقریباً سات سال اس نے ہسپتال میں جاب کی ہے. ہوسکتا ہے اس عرصے کے دوران اس نے اپنی رہائش گاہ بدل کر لی ہو تبھی تو آئی ڈی کارڈ کا پتہ مختلف ہے." الہان نے اپنی رائے کا اظہار کیا.
"ہمیں ایک دفعہ اس ایڈریس پر جانا چاہیے." وہ فیصلہ کن انداز میں بولی. الہان نے اس کی بات کی مخالفت نہیں کی تھی اور پولیس انسپکٹر نے بھی تعاون کی یقین دہانی کروائی اور عتبہ کمال تک پہنچنے میں ہر ممکن مدد کرنے کا وعدہ کیا. ان کی اگلی منزل اب عتبہ کمال کا گھر تھا جہاں پولیس کی نفری کے ہمراہ وہ دوپہر کے وقت پہنچے تھے. گرد سے اٹا گھر دیکھ کر انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ پچھلے کچھ عرصے سے یہ گھر زیر استعمال نہیں تھا. پولیس آفیسرز لاکڈ دروازے کو توڑنے میں مصروف تھے جبکہ حجر طائرانہ نگاہوں سے چاروں اطراف سے گھر کا جائزہ لے رہی تھی. گھر کے عقبی حصے میں اسے ایک شیشے کی کھڑکی نظر آئی. متلاشی نگاہوں سے اس نے پورچ میں دیکھا. چند ساعتوں بعد ہی اسے پورچ میں پتھر پڑا دکھائی دیا. آگے بڑھ کر اس نے پتھر اٹھایا اور پوری قوت سے کھڑکی پر مارا. کھڑکی کے شیشے پر دراڑیں نمایاں ہوئیں. ایک دو مزید ضربوں کے بعد شیشے کا کچھ حصہ ٹوٹ کر زمین پر گرا. شیشے میں ہونے والے سوراخ سے ہاتھ ڈال کر اس نے اندر کی جانب سے لاک کھولا اور کھڑکی کی پٹ وا کیے. اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا الہان قدرے حیرت سے اس کی کاروائی ملاحظہ کر رہا تھا. کھڑکی پھلانگ کر اندر جانے کے بعد اس نے الہان کو اندر بڑھنے کا اشارہ کیا.
"کب سے کر رہی ہیں یہ کام؟" اس کا اشارہ کھڑکی کا شیشہ توڑ کر گھر میں داخل ہونے کی جانب تھا. الہان نے کھڑکی پھلانگ کر اندر آنے کی زخمت نہیں کی تھی. وہ اب بھی پورچ میں کھڑکی کے قریب کھڑا استفسار کر رہا تھا.
"کیا میں آپ کو ایسی لڑکی دکھائی دیتی جو کھڑکیوں کے شیشے طور کر دوسروں کے گھروں میں گھسے؟" وہ مصنوعی خفگی سے بولی.
"نہیں نہیں... اگر آپ میری نظروں کے سامنے بھی کوئی ایسی حرکت کریں گی تب بھی میں یقین نہیں کر پاؤں گا. بھلا آپ جیسی لڑکی ایسی غیر اخلاقی حرکت کیسے کر سکتی ہے " الہان نے طنز کیا جس کا برا منائے بغیر وہ تنقیدی نگاہوں سے اردگرد دیکھتے ہوئے گھر کے بیرونی دروازے کی جانب بڑھی جسے باہر کی جانب سے دکھے مار کر پولیس آفیسر توڑنے میں مصروف تھے. ہاتھوں پر گلوز پہننے کے بعد حجر پر سکون انداز میں آگے بڑھ کر اندر سے لاک کھولنے لگی. جیسے ہی دروازہ کھول کر وہ سائیڈ پر ہوئی تیزی سے دروازے کو دھکا مارنے کے لیے بھاگتے ہوئے آتا پولیس آفیسر دھڑام سے اس کے قدموں کے قریب زمین بوس ہوا. اس اچانک افتاد پر حجر بھوکھلا کر دو قدم پیچھے ہٹی.
"سوری میم" اسی دوران دوسرا آفیسر معذرت کرتے ہوا آگے بڑھ کر زمین بوس ہوئے آفیسر کو اٹھانے لگا. الہان جو کھڑکی کی بجائے مین گیٹ سے اندر جانے کے لیے اس طرف آیا تھا اس منظر کو دیکھ کر اس نے بے ساختہ ابھرنے والے قہقہے کا بمشکل گلا گھونٹا پھر تیز تیز قدم اٹھاتا حجر کے قریب آیا جو شاک سے نکلنے کے بعد اب ایک کمرے کی جانب بڑھ رہی تھی. گراؤنڈ فلور پر انہیں کوئی خاص چیز نہیں ملی تھی کیونکہ سارا گھر تقریباً خالی تھا. اب حجر کے قدموں کا رخ بیسمینٹ کی جانب تھا. دروازہ کھولنے کے بعد وہ جیسے ہی بیسمینٹ کی جانب جاتی سیڑھیاں اترنے لگی, ایک عجیب سی بدبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی مگر قدم روکے بغیر وہ ایک ہاتھ میں گن تھامے دوسرے سے فلیش لائٹ پکڑے چوکنا انداز میں سیڑھیاں اترتی رہی. آخری سیڑھی پر قدم رکھتے ہی اس نے فلیش لائٹ کی روشنی میں ادھر ادھر دیکھا. سیڑھیوں کے قریب ہی اسے ایک سوئچ بورڈ نظر آیا تھا. آگے بڑھ کر اس نے لائٹس آن کی تو بیسمینٹ کا منظر واضح ہوا. سارا بیسمینٹ خالی تھا. حجر وہاں بنے واحد دروازے کی جانب بڑھی اور دروازے کو ایک جھٹکے سے کھولا. وہ ایک چھوٹا سا سیلن زدہ کمرہ تھا جس کی ایک دیوار کے آگے بوڑھے رنگ کا تابوت پڑا تھا جبکہ ایک دیوار پر بک شیلف بنائی گئی تھی جو اس وقت خالی تھی. حجر نے گن واپس رکھی اور تابوت کے قریب آئی جس پر مرجھائے ہوئے پھولوں کا گلدستہ پڑا تھا. حجر نے پھول اٹھائے تو اس کی نظر پھولوں کے درمیان لگے کارڈ پر پڑی.
"آئی ول مس یو.. اخ " حجر نے تعجب سے الفاظ پڑھے. الہان جو اس کے چند قدم دور کھڑا تھا الفاظ دیکھنے کے بعد بولا
"اخ یعنی بھائی... عربی زبان میں اخ بھائی کو کہتے ہیں." اس کی بات سن کر حجر نے پھول ایک جانب رکھے اور تابوت پر لگے ٹرانسپیرنٹ شیشے سے اندر جھانکے لگی. وہاں پالسٹک بیگ کے اندر ایک گلی سڑی لاش رکھی گئی تھی. لاش کی حالت نہایت خراب تھی اور لیڈ لائنڈ کوفن بھی لاش سے آنے والی بدبو کو اردگرد پھیلنے سے روک نہ پایا تھا.
"تابوت میں موجود لاش کو اگزیمینیشن کے لیے لے جائیں اور اگزیمینیشن رپورٹ مجھے بھیج دیجئے گا." حجر نے پولیس آفیسرز سے کہا پھر طائرانہ نگاہ کمرے پر ڈالی مگر وہاں تابوت اور پھولوں کے علاوہ کوئی اور چیز موجود نہیں تھی. بک شیلف اور کوفن سے کچھ سیمپل اکٹھے کرنے کے بعد اس نے واپسی کی جانب قدم بڑھائے
"جس وقت عہزب کمال مرا تھا کیا اس وقت وہاں کوئی اور موجود تھا؟" اس نے الہان سے پوچھا.
"مجھے یاد ہے کہ وہاں کوئی نہیں تھا مگر ہو سکتا ہے کہ ہمارے جانے کے بعد وہاں کوئی آیا ہو." اس نے صاف گوئی سے جواب دیا تو حجر مزید کچھ نہ بولی. وہ شاید کچھ سوچنے میں مصروف تھی.
"کیا آپ کو بھی یہی لگ رہا کہ یہ لاش عہزب کمال کی ہے؟" الہان نے مستحکم لہجے میں سوال کیا.
"مجھے یقین ہے کہ یہ لاش اسی کی ہے." اس نے تصدیق کی.
"مگر کوئی شخص لاش دفنانے کی بجائے اسے اپنے پاس کیوں رکھے گا؟" الہان نے استفسار کیا.
"سائیکوپیتھ کچھ بھی کر سکتے ہیں. ان کے ذہن پر کوئی بھی دھن سوار ہو سکتی ہے. عتبہ کمال بھی نارسسسٹک سائیکوپیتھ ہے اس لیے اس کا لاش کو سالوں اپنے پاس مخفوظ رکھنا, انسانی اعضاء کو فریز میں کرنا تعجب کی بات نہیں ہے." وہ مستحکم لہجے میں بولی.
"فیونیرل ڈائریکٹر کی جاب سے حاصل ہونے والے تجربے کی بدولت ہی وہ اتنے سال عہزب کی لاش کو اپنے پاس رکھ پایا ہے ورنہ امبامنگ میتھڈ استعمال کرنا کسی عام بندے کی بس کی بات نہیں ہے."
"اس لاش کو دیکھنے کے بعد معلوم ہوا ہے مجھے کہ عتبہ اتنے سال خاموش کیوں رہا؟
پھر سالوں بعد اچانک سے کس چیز نے اسے بدلہ لینے کے لیے ٹرگر کیا؟
عہزب کو مرے اٹھارہ سال ہو گئے ہیں مگر اتنے سالوں بعد وہ بدلہ لینے کے لیے پاکستان واپس کیوں آیا؟ جانتے ہیں کیوں؟" وہ ایک لمحے کے لیے رکی پھر دوبارہ گویا ہوئی
کیونکہ اس کے پاس عہزب کی لاش تھی اور لاش کی موجودگی سے اسے لگتا تھا کہ اس کا بھائی اس کے پاس ہے تبھی اپنی زندگی کے اٹھارہ سال اس نے سکون سے گزارے مگر اب چونکہ یہ لاش عتبہ کمال کی کوششوں کے باوجود ڈیکے کے آخری دہانے پر موجود ہے, سو اپنے بھائی کے صفا ہستی سے مٹ جانے کا خوف اس کا ٹرگر بنا ہے. نرس نے جو عتبہ کے بڑھتے ہوئے غصے کے متعلق بتایا تھا وہ اگریشن اصل میں اس کی بےبسی تھی جو وہ اپنے بھائی کو نہ بچا پانے کی وجہ سے محسوس کر رہا تھا. جیسے جیسے عہزب کی ڈیڈ باڈی ڈیکے ہوتی جا رہی تھی ویسے ویسے اس کے اگریشن میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا. اپنے بھائی کو بچانے کا جب کوئی طریقہ اسے سمجھ نہ آیا تو اس نے اس سب کا قصوروار دوسروں ٹہرانا شروع کر دیا اور ان لوگوں کو قتل کیا جن کے اعضاء اس کے فریز سے ملے تھے. سائیکوپیتھ کی ایک خصوصیت ہے کہ یہ اپنی زندگی میں موجود کمیوں سے سمجھوتہ کرنے کی بجائے وہ ان کمیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹہرانا شروع کر دیتے ہیں. جاب سے نکالے جانے کا قصوروار وارڈ بوائے کو ٹہرانے والے واقع سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بھی اپنی غلطیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹہراتا ہے. عہزب کے کیس میں بھی اس نے یہی کیا ہے. جب عہزب کی لاش کو بچانے کے لیے اسے کوئی طریقہ سمجھ نہ آیا تو اس نے بے بسی کے احساس سے پیچھا چھڑانے کے لیےعہذب کے قاتل سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا. اسی نیت سے وہ پاکستان گیا اور اس کے قاتل کو ڈھونڈنے لگا. مگر صرف اپنے اّخ کے قاتل کو مارنے کی سوچ سے اس کے اندر کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو رہی تھی. وہ چاہتا تھا کہ اس کی طرح باقی سب بھی اپنے پیاروں کے دور جانے کے دکھ کو محسوس کریں اسلیے اس نے بچے اغواہ کیے. دوسروں کو زندگی کی بھیک مانگتے دیکھ کر اسے لطف ملتا تھا اور یہ سب جسم میں موجود ڈوپامین کے ہائی لیول کے باعث تھا. جگہ جگہ سے بچے اغواہ ہونے کے باعث لوگ خوف زدہ ہونے لگے تھے. سب نیوز چینل پر اغواہ کی خبریں چلتی تھیں. اچانک سے اسے اہمیت ملنے لگی تھی. بری ہی سہی مگر شہرت اس کے مقدر کا حصہ بن گئی تھی. عہزب کے قاتل کو تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس شہرت سے خاصا لطف اندوز ہو رہا تھا. سب کچھ اس کی پلینگ کے مطابق تھا مگر پھر بیچ میں, میں آگئی. میرے آنے کی خبر سے لوگوں پر اس کا خوف کم ہوا اور اس سے یہ برداشت نہ ہوا اور پھر اس نے فصیحہ کو اغواہ کیا. اور جب نقلی مجرم کی خبر چلی تب بھی اپنی شہرت برقرار رکھنے کے لیے اس نے سارہ کو اغواہ کیا اور اس ایچ حرف کے دو مطلب ہو سکتے ہیں
یا تو وہ ایچ حرف سے میری جانب اشارہ کر رہا تھا.
یا پھر ایچ سے مراد عہزب کمال کا قاتل ہے." الہان نے بے چینی سے پہلو بدلا.
"پہلے والا پوائنٹ ڈاؤٹ پر ہے کیونکہ پریس کانفرنس ہوئے کئی روز بیت چکے ہیں اگر اس نے مجھ پر حملہ کرنا ہوتا تو اب تک کر چکا ہوتا اور اگر ایچ سے مراد عہزب کا قاتل ہے تو ہمیں عتبہ تک پہنچنے کے لیے پہلے اسے ڈھونڈنا ہو گا. کون ہو سکتا ہے ایچ؟ وہ جس نے آپ کی مدد کی عہذب کمال کے خلاف جا کر... خطرہ مول لیتے ہوئے اس نے آپ لوگوں کو بچایا.... وہ جو کوئی بھی ہے وہ ایک اچھا انسان ہے اور ہمارا خیر خواہ ہے. عتبہ کمال کے اس تک پہنچنے سے پہلے ہمیں اس تک پہنچنا ہے اور اس میں صرف آپ مدد کر سکتے ہیں میری." وہ امید بھری نظروں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے بولی. وہ دونوں اب واپس گھر جا رہے تھے.
"میں کیسے؟" وہ جانتے بوجھتے انجان بنا.
"آپ نے ایچ کو دیکھا تھا. اس نے آپ کی مدد کی تھی. اس کی کوئی غیر معمولی بات, کوئی حرکت یا پھر کوئی بھی چیز ایسی آپ کو یاد ہے جو اس تک پہنچنے میں ہماری مدد کر سکے." حجر نے زور دیا.
"مجھے اتنی زیادہ تفصیلات یاد نہیں ہیں." وہ نظریں چڑاتے ہوئے بولا.
"یاد کرنے کی کوشش تو کریں.... اس سارے واقعے کو ذہن میں لائیں.... باریک بینی سے سوچیں." حجر نے اسے مشورہ دیا.
"فلحال مجھے ڈرائیو کرنے دیں." اس نے حجر کو ٹالا تو وہ خاموش ہو گئی مگر یہ خاموشی صرف کچھ دیر کے لیے ہی تھی. ولے کے اندر قدم رکھتے ہی وہ ایک بار پھر شروع ہو چکی تھی.
"ادھر آئیں بیٹھیں..." حجر نے لاؤنج میں رکھے صوفے کی جانب اشارہ کیا. الہان خاموشی سے اس کی بات پر عمل کرتے ہوئے وہاں بیٹھ گیا.
"بالکل پرسکون ہو جائیں... ہر فکر سے آزاد... ہر مسئلے سے دور... بس یکسوئی سے اس واقعے کو سوچیں."
"رات کو فلائٹ ہے ہماری... مجھے پیکنگ کرنی ہے." الہان نے وہاں سے فرار ہونے کا جواز پیش کیا.
"ابھی بہت وقت ہے پیکنگ ہو جائے گی. پہلے میں جو کہہ رہی ہوں آپ وہ کریں. اس خاموش فضا میں بیٹھ کر آپ دھیان سے سوچیں." وہ اسے سوچنے ہر مجبور کر رہی تھی.
"مجھے نہیں سوچنا اس واقعے کو"
"کیوں؟" حجر نے تیوری چڑھائی.
"بس نہیں سوچنا." وہ بضد تھا.
"آپ کچھ چھپا رہے ہیں؟" اس کے رویے کو جانچتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے حجر بولی.
"میں کچھ نہیں چھپا رہا" اس نے تردید کی تو حجر اسے مشکوک نظروں سے دیکھنے لگی.
"میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ اس شخص نے ماسک پہن رکھا تھا اس لیے میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا اور ویسے بھی میں اس وقت بارہ سال کا تھا. میری یادیں دھندلی ہو چکی ہیں." الہان نے بادل نخواستہ وضاحت دی.
"ٹھیک ہے." وہ مطمئن تو نہیں ہوئی تھی مگر اس کا گریز دیکھ کر حجر نے مزید اصرار نہ کیا.
"کہاں جا رہی ہیں؟" اس مڑتے دیکھ کر الہان نے استفسار کیا.
"کمرے میں." وہ رخ موڑے بغیر بولی.
"کیا آپ نے کوئی ضروری کام کرنا ہے اس وقت؟" اس نے دوبارہ پوچھا.
"نہیں... کوئی کام نہیں ہے اس لیے سوچ رہی ہوں وقت گزاری کے لیے آپ کی گیم کھیل لوں." اس کے قدم ابھی بھی نہیں رکے تھے.
"وہ آپ سے اکیلے نہیں کھیلی حائے گی وہ اسکواڈ راؤنڈ ہے. چار سے دس پلیئرز کا اسکواڑ ہی اسے کھیل سکتا ہے." اب کی بار اس کے قدم تھمے تھے.
"کیا واقعی؟" حجر نے تعجب سے پوچھا.
"ہممم.... ویسے اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے اسکواڈ میں شامل ہو سکتا ہوں." الہان نے خوش دلی سے پیش کش کی.
"وہ تو ٹھیک ہے مگر باقی کے پلیئر کا کیا کرنا ہے؟" وہ تفکر آمیز لہجے میں بولی تو الہان نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے.
"میں اپنے دوستوں سے پوچھتی ہوں. نورہ تو ضرور کھیلے گی میرے ساتھ... آج کل ویسے بھی ونٹر ہولیڈیز ہیں فارغ ہی ہو گی... اور آپ بھی اپنے دوستوں سے پوچھ لیں." وہ کچھ توقف کے بعد بولی.
"وہ اس وقت آفس میں مصروف ہونگے اور میں نہیں چاہتا کہ وہ کام چھوڑ کر گیم کھیلیں." وہ دوٹوک انداز میں بولا.
"آپ کے چاہنے نا چاہنے سے کیا فرق پڑتا ہے. اگر آپ انہیں نہیں کہیں گے تو میں خود فون کرکے کہہ دوں گی اور میری بات نہیں ٹالیں گے وہ کیونکہ کل رات ہی میں نے انہیں آپ کی ڈانٹ سے بچایا تھا." وہ پراعتمادی سے بولی اور اپنے کمرے میں چلی گئی. پیچھے بیٹھا الہان اسے گھور کر رہ گیا.
"زندگی آسانی سے نہیں گزرنے والی مسٹر الہان.... اب روز روز اپنی مرضی کے خلاف فیصلے برداشت کرنے پڑیں گے." بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے خود کو مستقبل کے لیے تیار کیا.
......................
"ہنٹر گیم کے چوتھے لیول 'The Saviour' میں آپ سب کو خوش آمدید." سائمن کی آواز ٹرین میں گونجی جس پر سوار ہو کر وہ لوگ چوتھا لیول کھیلنے جا رہے تھے. وہ کل پانچ افراد تھے.... حجر, الہان, نورہ, ایما اور اینڈی. حجر کے کہنے پر وہ سب اس کا گیم میں ساتھ دینے کے لیے موجود تھے. لیول شروع کرتے ہی عمدہ گرافکس کی بدولت حجر ایک مرتبہ پھر سے اردگرد سے بے نیاز ہو گئی تھی. حجر اور الہان اس وقت لاؤنج میں ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر اپنے اپنے لیپ ٹاپ پر گیم آن کیے براجمان تھے.
"مونسٹر! تم اور اینڈی چونکہ گیم سے واقف ہو اس لیے تم لوگ ہماری کوئی مدد نہیں کرو گے. تم دونوں بس خاموشی سے کھیلو گے." وہ ٹرین میں ہی سوار تھے جب اپنے پرانے انداز میں لوٹتے ہوئے حجر نے الہان کو تنبیہ کی. الہان نے اپنا مائیک آف کر رکھا تھا جبکہ حجر کا مائیک آن تھا جس کے ذریعے ان دونوں کی آواز باقی سب تک با آسانی جا رہی تھی. الہان نے اپنے لیپ ٹاپ سے حجر کو میوٹ کیا تھا کیونکہ قریب بیٹھے ہونے کی بدولت وہ اس کی آواز باآسانی سن پا ریا تھا.
"مرضی ہے تمہاری." الہان نے کندھے اچکائے. اسی دوران ٹرین کے ٹائر چرچرائے. ریل گاڑی سے نکلتے ہی ہمیشہ کی طرح انہوں نے خود کو انجان جگہ پر پایا. وہاں تیز روشنی تھی جس کے باعث ان کی آنکھیں چندھیانے لگی تھیں. آنکھوں کے آگے ہاتھ رکھ کر انہوں نے روشنی کو روکنا چاہا. جب روشنی کی شدت کم ہوئی تو ان سب نے آنکھوں پر سے ہاتھ ہٹائے اور ساتھ ہی ان کی نظروں کے سامنے پیغام ابھرا.
"جہاں پنچھی پر پھیلائے
عکس اپنا روپ دکھلائے
سارا جہاں نظر آئے
جو بادلوں میں چھپ جائے" حجر نے صفحے پر لکھے الفاظ پڑھے پھر مڑ کر باقی سب کی جانب متوجہ ہوئی.
"اینڈی! مونسٹر کہاں ہے؟" وہاں سب موجود تھے سوائے الہان کے اسلیے حجر نے اس کے متعلق استفسار کیا.
"بھابھی آپ نے کہا تھا کہ کوئی مدد نہیں کرنی اسلیے میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتا." اینڈی نے اسے یاد دہانی کروائی تو وہ خاموش ہو گئی.
"کہاں ہے آپ کا پلیئر؟" اب کی بار حجر نے قریب بیٹھے الہان سے سرگوشی کرنے والے انداز میں پوچھا تاکہ باقی سب سن نہ پائیں مگر کوئی نہ سہی پر اینڈی کے کانوں تک اس کی آواز باآسانی پہنچ گئی تھی.
"میری سکرین پر اب تک اندھیرا چھایا ہے." الہان نے اسے اپنے لیپ ٹاپ کی سکرین دکھائی.
"بھابھی ویسے یہ چیٹنگ ہے." اینڈی بولا.
"چپ کرو تم.... " الہان نے اسے ڈپٹا پھر حجر کو مخاطب کرتے ہوئے بولا
"میرا پلیئر اس وقت قید ہے آپ نے مجھے آزاد کروانا ہے. یہ جو رڈل آپ کو دی گئی اس کو کریک کریں. اس میں اس جگہ کا بتایا گیا ہے جہاں میرا پلیئر قید ہے. مجھے یہاں سے باہر نکالا اس لیول میں آپ کا مشن ہے." الہان نے اسے صورتحال کے متعلق آگاہ کیا.
".... ٹھیک ہے." حجر نے سر ہلایا. ایما اور نورہ خاموش تھیں کیونکہ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ حجر کن لوگوں سے اتنی بے تکلفی سے بات رہی ہے.
"حجر! یہ پروفیٹک مونسٹر اور اینڈی واٹسن نامی پروفائل کس کی ہے؟" جب ایما کو کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نارویجین زبان میں حجر سے پوچھا تاکہ الہان اور اینڈی اس کی بات سمجھ نہ پائیں.
"پروفیٹک مونسٹر الہان ہیں اور اینڈی ان کا دوست ہے." حجر نے جواب دیا تو نورہ اور ایما نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا.
"بھابھی یہ انتہائی غیر اخلاقی حرکت ہے. میری موجودگی میں آپ نوریجین زبان میں بات نہیں کر سکتی. باس خود تو قید ہو گئے ہیں اور مجھے تن تنہا انجان لوگوں بلکہ انجان لڑکیوں میں چھوڑ گئے ہیں." اینڈی ڈرامائی انداز میں بولا.
"تم فکر مت کرو اینڈی ویلیم کچھ دیر میں تمہے جوائن کر لے گا." حجر نے اسے تسلی دی.
"چلو پھر مونسٹر کی تلاش شروع کرتے ہیں." حجر ان سب کی جانب دیکھتے ہوئے بولی اور پھر پہیلی کی پہلی سطر پڑھنے لگی
"جہاں پنچھی پر پھیلائے"
"پنچھی کب پر پھیلاتا ہے؟" حجر سوالیہ انداز میں بولی. وہ چاروں اس وقت جنگل میں کھڑے تھے.
"جب سورج کی روشنی میں وہ باسک کرتے ہیں." ایما نے رائے پیش کی. اب کی بار وہ انگلش میں بولی.
"مگر پرندوں کت باسک کرنے کی کوئی خاص جگہ نہیں ہوتی." حجر نے جواب دیا.
"پرندے اپنے پر تب بھی پھیلاتا ہے جب اسے اپنے پر خشک کرنے ہوتے ہیں." نورہ گویا ہوئی.
"جب پرندے اپنے شکار کی تلاش میں پانی میں غوطہ لگاتے ہیں تو ان کے پر گیلے ہوجاتے اور پھر اپنے پروں کو سکھانے کے لیے وہ اپنے پر پھیلاتے ہیں. اس مطلب ہے کہ مونسٹر کو کسی ایسی جگہ قید کیا گیا ہے جو پانی کے قریب ہے." حجر پر سوچ انداز میں بولی. اینڈی خاموشی سے ان کی گفتگو سن رہا تھا. الہان بھی ان کی گفتگو سن سکتا تھا کیونکہ صرف اس کا پلیئر قید تھا اس کا مائیک آن تھا. وہ ان کی باتیں سن بھی سکتا تھا اور انہیں جواب بھی دے سکتا تھا مگر وہ انہیں اپنی لوکیشن نہیں بتا سکتا تھا کیونکہ اسے خود بھی معلوم نہیں تھا کہ اسے کہاں رکھا گیا ہے.
"عکس اپنا روپ دکھلائے" حجر نے اب اگلی سطر پڑھی.
"عکس یعنی رفلیکشن..." ایما خود کلامی کے انداز میں بولی.
"رفلیکشن تو پانی شیشے یا کسی ہموار پولش سطح پر ہی نظر آتا ہے." نورہ نے ٹکرا لگایا.
"پانی کی ہنٹ پہلے مل چکی ہے اسلیے دوسری سطر میں عکس سے مراد شیشہ ہو سکتا ہے." حجر رسانیت سے بولی.
"سارا جہاں نظر آئے" اب کی بار نورہ نے حجر کے ہاتھ سے صفحہ لے کر اگلی سطر پڑھی.
"سارا جہاں تو صرف آسمان سے ہی نظر آ سکتا ہے." ایما نے اپنی رائے دی.
"اس سطر کا مطلب واضح نہیں ہے اس لیے اسے رہنے دو. اگلی سطر پڑھتے ہیں." کچھ دیر بعد سطر پر غور وفکر کرنے کے بعد حجر بولی اور ساتھ ہی اگلی سطر پڑھنے لگی.
"جو بادلوں میں چھپ جائے"
"بادلوں میں تو وہی چیز چھپتی ہے جو بلندی پر ہو. مثلا پہاڑ, بلند بلڈنگز وغیرہ" نورہ بولی.
" بلندی سے باقی سب چیزیں بھی نظر آتی ہیں." ایما نے پچھلی سطر کا مطلب بھی واضح کیا.
"اس کا مطلب یہ ہوا کہ مونسٹر کو کسی ایسی جگہ قید کیا گیا ہے جو بلندی پر ہے, جس کے قریب پانی اور شیشے ہیں. اس جگہ پر بلڈنگز ہو نہیں سکتی تو پہاڑ ہی ایسی جگہ جہاں مونسٹر کو قید کیا جا سکتا ہے." حجر نے ان دونوں کی مدد سے پہیلی سلجھائی.
"پہاڑ کی چوٹی پر بنا شیش محل" نورہ کی بات پر حجر نے خوشگوار حیرت سے اس کی جانب دیکھا.
"تم اس گیم میں بہت اچھی ہو." حجر نے اسے سراہا.
"میں یہ لیول کھیل چکی ہوں. حلاںکہ میری پہیلی مختلف تھی مگر بھی پھر میں اپنے تجربے سے اندازہ لگا سکتی ہوں کہ برور(بھائی) کو کسی آئی لینڈ کے پہاڑ کی چوٹی پر بنے شیش محل میں قید کیا گیا ہے." نورہ نے مسکراتے ہوئے تفصیل بتائی.
"چلو اچھا ہوا جو تم اسکواڈ کا حصہ ہو." حجر خوش دلی سے بولی.
"چلو اب شیش محل ڈھونڈتے ہیں." ایما نے ان کی توجہ مبذول کروائی.
"میں میپ سے شیش محل کی لوکیشن ڈھونڈتی ہوں." کہتے ساتھ ہی حجر نے اہنا ہاتھ فضا میں بلند کیا. لمحے کے ہزارویں حصے میں اس کے ہاتھ پر نقشہ آ گیا تھا. میپ کھولنے کے بعد اس نے جلد ہی شیش محل تلاش کر لیا تھا. اب وہ چاروں اس آئی لینڈ کی جانب بڑھنے لگے جس پر شیش محل واقع تھا.
"آئی لینڈ سے یاد آیا حجر... میں کچھ دن پہلے لنڈورا آئی لینڈ گئی تھی اور وہاں ٹک شاپ پر موجود لڑکی مجھ سے تمہارے بارے میں پوچھ رہی تھی."اچانک یاد آنے پر ایما نے اسے بتایا.
"شاید اس نے تمہے میرے ساتھ دیکھا ہو گا تبھی تو اسے معلوم ہوا کہ تم میری دوست ہو.... خیر کیا پوچھ رہی تھی وہ؟" حجر نے دلچسپی سے سوال کیا. وہ لوگ اب میپ کے مطابق شیش محل کہ جانب بڑھ رہے تھے.
"پوچھ رہی تھی کہ آپ کی دوست نے اپنی زندگی کی سب سے خوبصورت خواہش پوری کر لی؟ کیا اس نے آئی لینڈ پر گھر لے لیا؟" ایما نے اس کی خواہش کا ذکر کیا تو الہان بھی متوجہ ہوا. اپنی خواہش یوں سب کو معلوم ہونے پر حجر جزبز ہوئی.
"یاد داشت خاصی اچھی یے اس لڑکی کی تبھی تو اسے میری باتیں ابھی تک یاد ہیں." حجر نے مبہم انداز میں جواب دیا.
"بھابھی یہ سب کیا ہے؟ آپ اپنی دوستوں کے ساتھ باتوں میں لگی ہیں. باس بھی خاموش ہیں اور میرے بولنے پر آپ نے پابندی لگا دی ہے. اس طرح تو میں بور ہو گیا ہوں. کیا اس لیے آپ نے مجھے گیم میں شامل ہونے کو کیا تھا؟ کیا فائدہ میرا باس کے خلاف جاکر گیم جوائن کرنے کا؟ اچھا ہوتا میں بھی جارج, پیٹر اور سائمن کی طرح باس کی بات مان کر کام کرتا رہتا." اینڈی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا
"بہت ہی اچھا ہو رہا تمہارے ساتھ اینڈی... میری بات نہ ماننے کی سزا ہے یہ بوریت." الہان نے جتایا. اسی دوران ان سب کی سکرینز پر ویلیم کے جوائن کرنے کی نوٹیفکیشن واضح ہوئی.
"ہالو! لیڈیز اینڈ جنٹل مینز" ویلیم کی آواز ان سب کے کانوں میں لگے ہیڈ فونز میں گونجی.
"ہالو" حجر, نورہ اور ایما نے جواب دیا جبکہ اینڈی اور الہان گیم میں شامل ہونے والی کی پروفائل دیکھنے میں مصروف تھے.
"نورہ اور ایما تو ٹھیک ہی ہوگی. تم بتاؤ حجر کیسی ہو تم؟" اس نے خوشدلی سے پوچھا.
"میں ٹھیک ہوں." حجر نے دھیمے لہجے میں جواب دیا.
"نکاح کی بہت مبارک ہو تمہے. مور نے بتایا تھا مجھے مگر مصروفیت کے باعث نکاح والے دن فون نہیں کر سکا." ویلیم نے وضاحت دی.
"کوئی بات نہیں."
"اپنے شوہر کے بارے میں بتاؤ حجر... کیا کرتا ہے؟ کہاں رہتا ہے؟ مور نے تو بس یہی بتایا تھا کہ تمہارا کزن ہے." ویلیم نے استفسار کیا.
"مور نے ہمیں بھی بس یہی بتایا تھا. باقی تفصیلات تم بتا دو حجر" ایما نے زور دیا. ان کی بات سن کر حجر کی نگاہ بے اختیار کچھ فاصلے پر بیٹھے الہان پر پڑی جس کے کانوں میں لگے ہیڈ فونز اس بات کا ثبوت تھے کہ وہ ان کی گفتگو سے فیض یاب ہو رہا ہے. الہان نے ابھی اسی لمحے اس کی جانب دیکھا. نگاہیں ملنے پر حجر نے فوراً نظریں سکرین پر جما دیں اور ان کے سوال کا کوئی مناسب جواب سوچنے لگی.
"اگر آپ میرے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں تو مجھ سے ڈائیریکٹ پوچھ سکتے ہیں." حجر کو تذبذب کا شکار دیکھ کر الہان بولا تو حجر نے تشکر آمیز نظروں سے اسے دیکھا.
"آپ کا تعارف؟" ویلیم نے پوچھا.
"میں حجر کا شوہر ہوں.... الہان مرتضی" وہ مضبوط لہجے میں بولا.
"الہان مرتضی... نام جانا پہچانا سا ہے. کیا کرتے ہیں آپ؟" اس کا نام زیر لب دہراتے ہوئے ویلیم استفہامیہ انداز میں بولا.
"نیورون کمپنی کے سی ای او ہیں." اب کی بار جواب حجر نے دیا تھا.
"او... تو آپ مشہور گیم ڈیلویلپر الہان مرتضی ہیں. آپ سے حجر کے نکاح کا سن کر خوشی ہوئی." ویلیم خوشگوار حیرت سے بولا.
"مجھے بھی" الہان بادل نخواستہ بولا ورنہ اسے ویلیم کچھ خاص پسند نہ آیا تھا.
"یہ الہان مرتضی تمہارا کزن کب سے بن گیا؟" نورہ نے الہان کی موجودگی کے باعث نارویجین زبان میں دریافت کیا. مور کے منہ سے انہوں نے حجر کے شوہر کا نام الہان سن رکھا تھا مگر انہیں پورا نام نہیں معلوم تھا. اب الہان کا تعارف سن کر ان دونوں کو شاک لگا تھا.
"بڑی لمبی کہانی ہے سناؤں گی کسی اور دن." حجر نے انہیں ٹالا. وہ لوگ سمندر کنارے پہنچ گئے تھے مگر سمندر کے درمیان بنے آئی لینڈ تک جانے کا کوئی ذریعے انہیں سمجھ نہیں آیا تھا. وہ سب وہیں کھڑے تھے جب اچانک سے جنگل میں ہلچل مچی. بھاری قدموں کی آواز کے ساتھ ہی لمبے قد کی عجیب مخلوق ان کی جانب بڑھتی ہوئی دکھائی دی.
"یہ Minotaur ہے." نصف انسان اور نصف بیل کے طرز کی مخلوق کو دیکھ کر ویلیم گویا ہوا.
"یہ ہماری طرف آرہا ہے اس سے بچنے کے لیے چھپنے کی جگہ تلاش کرو." ان سب کو وہیں کھڑے دیکھ کر اینڈی بولا. سب نے اس کی بات پر عمل کیا اور درختوں کی اوٹ میں چھپ گئے. Minotaur اب ساحل کے قریب کھڑا ان سب کو تلاش میں اردگرد دیکھ رہا تھا.
"میرے خیال سے یہ بھوکا ہے اور پیٹ بھرنے کے لیے یہ ہمیں کھانا چاہتا ہے." نورہ نے تجزیہ کیا. وہ مخلوق اب اردگرد تباہی مچانے میں مصروف تھی. الہان کا پلیئر چونکہ قید تھا اس لیے اندھیرے میں ڈوبی سکرین دیکھنے کی بجائے وہ حجر کے لیپ ٹاپ پر نگاہ جمائے گیم سے لطف اندوز ہو رہا تھا.
"چھپنے سے کچھ نہیں ہوگا. ہمیں اس کو مارنا چاہیے." ایما بولی اسی دوران Minotaur اس درخت کی جانب بڑھا جس کے پیچھے حجر چھپی تھی. اسے اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر حجر بوکھلائی.
"اپنی تلوار سے مقابلہ کرو اس کا حجر" الہان نے اسے بتایا. اس کی بات پر فوراً عمل کرتے ہوئے حجر نے تلوار نکالی اور اپنی جانب بڑھتے Minotaur کے بازو پر وار کیا. اس کے وار سے Minotaur کو کچھ خاص فرق نہ پڑا تھا. وہ اب پہلے سے زیادہ غصے سے اس کی جانب بڑھا تھا. اپنے بچاؤ کے لیے حجر نے الٹے قدم اٹھاتے ہوئے مزید دو تین حملے کیے جو بے فائدہ گئے. لیپ ٹاپ سکرین پر نظر آتی اس کی پاور ختم ہونے کو تھی جب الہان نے لیپ ٹاپ کا رخ اپنی جانب کیا اور تیزی سے کی پیڈ پر انگلیاں چلاتے ہوئے Minotaur پر پے در پے وار کرنے لگا. تزی سے ضربیں لگنے کے باعث اس مخلوق کے قدم تھمے تھے.
"باقی سب بھی حملہ کرو اس پر. ویلیم اور اینڈی تم لوگ پچھلی جانب سے حملہ کرو جبکہ ایما اور نورہ تم لوگ دائیں اور بائیں جانب سے." حجر نے باقی سب سے کہا تو باقی سب بھی تلواریں اٹھائے میدان میں آئے. ان پانچوں کے ایک ساتھ حملہ کرنے سے مینوتھور کی پاور کم ہوتی جاری تھی. آخر میں حجر کے پلیئر کو کنٹرول کرتے الہان نے ایک ضرب مینوتھور کی طاقت یعنی اس کے سینگ پر ماری جس سے اس کی رہی سہی پاور بھی ختم ہوئی اور وہ زمین پر ڈھیر ہو گیا. اس کے مرے ہوئے وجود سے اب پروں والے گھوڑے پیگاسس pegasus نکلنے لگے تھے. مینوتھوڑ کے مرتے ہی الہان نے لیپ ٹاپ اسے واپس کیا اور خود صوفے سے اٹھ کر کچن کی جانب چلا گیا. حجر دوبارہ گیم کی جانب متوجہ ہوئی جہاں سب پیگاسس پر سوار ہو کر سمندر عبور کرکے آئی لینڈ کی جانب بڑھ رہے تھے. حجر نے بھی ان سب کی تقلید کی.
"ویسے بہت اچھا کھیلا ہے تم نے حجر.. " نورہ اس کے پلیئر کے مینوتھوڑ کو مارنے سے قدرے متاثر ہوئی تھی. پہلے حجر نے سوچا کہ اسے بتا دے کہ وہ نہیں, الہان کھیل رہا تھا اس کے لیپ ٹاپ سے مگر پھر ان سب کی معنی خیز مسکراہٹوں کا سوچ کر اس نے ارادہ ترک کر دیا اور نورہ کی تعریف کے جواب میں بولی.
"شکریہ" وہ سب اب بڑے پروں والے پیگاسس کی پشت پر سوار سمندر کے اوپر سے گزر رہے تھے. حجر کو یہ سفر خاصا پسند آیا تھا.
"اینڈی!" حجر نے ویلیم سے باتیں کرتے اینڈی کو پکارا.
"جی بھابھی" وہ مودب انداز میں بولا.
" قید ہونے والے پلیئر کی سلیکشن رینڈم ہوتی ہے؟" حجر نے اپنے شک کی تصدیق کے لیے پوچھا.
"جی بالکل" اینڈی کے جواب پر حجر نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا. اینڈی واپس ویلیم کی جانب متوجہ ہو گیا تھا. کچھ ہی دیر میں وہ لوگ آئی لینڈ پر پہنچ گئے تھے. پیگاسس کو وہیں چھوڑنے کے بعد ان کا رخ آئی لینڈ کے سب سے بلند پہاڑ کی چوٹی بنے شیش محل کی جانب تھا. الہان اسی دوران کافی کے دو مگ ہاتھ میں اٹھائے کچن سے واپس آیا. ایک مگ اس نے حجر کی جانب بڑھایا.
"شکریہ" کہتے ساتھ حجر نے مگ تھاما تو الہان اپنا مگ لے کر اس سے کچھ فاصلے پر براجمان ہو گیا. ہیڈ فوبز لگانے کے بعد وہ اب اپنے لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ تھا.
"جلدی آزاد کرواؤ مجھے... میں زیادہ دیر اس قید میں نہیں رہ سکتا." الہان کی آواز گونجی.
"ہم کوشش کر رہے ہیں باس" اینڈی نے جواب دیا. وہ لوگ اب محل تک پہنچ گئے تھے. اینڈی نے آگے بڑھ کر محل کا دروازہ دکھیلا تو وہ چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ وہ کھلتا چلا گیا. اندر قدم رکھتے ہی وہ سب ہر جگہ اپنا عکس دیکھ بوکھلائے. محل کے ساری دیواریں شیشے کی بنی تھیں اسی لیے انہیں آگے کا راستہ تلاش کرنے میں خاصی مشکل ہو رہی تھی. ان کے محل میں قدم رکھتے ہی الہان کی سکرین پر چھایا اندھیرا ختم ہو گیا تھا. اب اس کا پلیئر ایک کمرے میں بند تھا جس کی دیواریں محل کی باقی دیواروں کی طرح شیشے کی تھیں. الہان کا پلیئر چونکہ یہاں سے اس وقت تک باہر نہیں نکل سکتا تھا جب تک کوئی باہر سے آ کر اسے بچا نہ لیتا اسلیے اس نے اپنا لیپ ٹاپ ایک طرف رکھا اور خود پھر سے حجر کے لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ ہو گیا. وہ پانچوں اب محل کی دیواریں ٹھٹھولنے میں مصروف تھے. ایما دیواروں پر تیزی سے ہاتھ پھیر رہی تھی جب اچانک سے اس دیوار پر لگا شیشہ سلائڈ ہوا
"واہ... محترمہ آپ نے تو کمال کر دیا" راہ کھلتے دیکھ کر اینڈی ایما کو مخاطب کرتے ہوئے خوش دلی سے بولا اور اس اندھیرے راستے پر گامزن ہو گیا. باقی سب نے بھی اس کی تقلید کی. چند قدم چلنے کے بعد انہیں وہاں ایک دروازہ دکھا تھا. نورہ نے آگے بڑھ کر دروازہ کا ہینڈل گھمایا تو وہاں انگریزی حروف پر مبنی ایک ڈائل باکس آیا.
"پہلے ہمیںکڈوڈ ملانا ہے پھر دروازہ کھلے گا." اینڈی نے انہیں اطلاع دی جس پرسب نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا.
"کوڈ کیسے پتا چلے گا؟" حجر تفکر آمیز انداز میں بولی
"غور سے دروازے کی سطح کو دیکھیں. اس پر کچھ تصویریں بنی ہیں. ان تصویروں میں ایک پیغام چھپا ہے اور وہ پیغام لاک کا کوڈ ہے." الہان رسانیت سے بولا. اس کی بات سن کر وہ دروازے کے قریب جا کر اسے غور سے دیکھنے لگے.
"یہ تو ہائروگلیفکس hieroglyphic ہے." دیوار پرندے, بازو اور گول دائرہ نما اشکال بنی دیکھ کر نورہ جھٹ سے بولی.
"ہائروگلیفکس یعنی تصویری تحریر نا؟ قدیم مصر کی تحریر جو بجائے حروف کے تصویروں کے ذریعے لکھی جاتی تھی؟" حجر نے استفسار کیا.
"ہاں وہی... ہائروگلیفکس میں ہر شکل ایک خاص ساؤنڈ کو ظاہر کرتی ہے." نورہ نے جواب دیا.
"بھلا ان شکلوں کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ یہاں تو ایک پرندہ, پھر ایک پاؤں, گول دائرہ, ہاتھ, آنکھ نما نشان اور پھر سیمی سرکل بنا ہے." ایما ناسمجھی سے بولی.
"پاؤں دیکھ کر لگتا ہے کہ کہیں جانے کا تذکرہ کیا گیا ہے اور ہاتھ سے لگتا ہے کہ کسی چیز کو تھامنے کا ذکر کیا گیا ہے." ویلیم ان اشکال کو دیکھتے ہوئے پرسوچ انداز میں بولا.
"اس دروازے کا جو کوڈ ہے اس میں کہیں بھی جانے یا کسی کسی بھی چیز کو تھامنے کا ذکر نہیں ہے." اینڈی قطعیت سے بولا.
"پھر پرندوں کے بارے میں بتایا گیا ہوگا." ایما نے اندازہ لگایا.
"نہیں" اس نے قطعی انداز میں سر ہلایا.
"پھر کیا مطلب ہو سکتا ہے اس جملے کا؟" حجر ناسمجھی سے بولی.
"چلیں بھابھی میں آپ کو ہنٹ دیتا ہوں..... دیوار پر بنی شکلوں میں جو گول دائرہ ہے اس کا کوئی ساؤنڈ نہیں ہے یہ صرف تحریر کا معنی واضح کرنے کے استعمال ہوا ہے " اینڈی نے خوش دلی سے ہںٹ دی مگر اس کی ہنٹ سے انہیں کوئی خاصی مدد نہیں ملی تھی.
"اس سے بہتر تھا کہ آپ نہ ہی کوئی ہنٹ دیتے." ایما جل کر بولی.
"ایک تو میں آپ کی مدد کر رہا ہوں اور باتیں بھی آپ مجھے ہی سنا رہی ہیں.... ماننا پڑے گا بھابھی دودستیں آپ کی انتہائی بےمروت ہیں." اینڈی نے حساب برابر کیا.
"جتنی اہم بات آپ نے ہمیں بتائی ہے اگر وہ آپ نہ بھی بتاتے تب بھی ہم نے اشکال کے معنی سمجھ جانے تھے." ایما دانت پیس کر بولی.
"میں گیرنٹی دے سکتا ہوں کہ میری یا باس کی مدد کے بغیر آپ یہ ہائروگلیفکس کا مطلب نہیں سمجھ سکتی." وہ پر اعتمادی سے بولا. ان دونوں کی بحث گوش گزار کرتے الہان اور حجر نے بےچارگی سے ایک دوسرے کو دیکھا پھر الہان ان کی بحث ختم کرنے کے لیے اینڈی کو مخاطب کرتے ہوئے ڈپٹ کر بولا
"اینڈی بس کر دو.... ہر جگہ اپنی زبان کے جوہر دکھانا ضروری نہیں ہے."
"باس آپ ان محترمہ کو بھی منع کریں. میری مدد کے جواب میں دیکھیں کیسے باتیں سنا رہی ہیں." اینڈی نے ایما کو گھسیٹا.
"میں نے کون سی باتیں سنا دی... " ایما نے اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہا مگر حجر اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی
"ایما... بس اس بحث کو یہیں ختم کرو." حجر کی بات پر ایما خاموش ہو گئی.
"میرے خیال میں یہ جو پہلی تین اشکال پرندہ, پاؤں اور زگ زیگ کا مجموعہ ہے یہ WBN ساؤنڈ ہے جس کا مطلب چمکنا ہے." نورہ پرسوچ انداز میں بولی.
"اور اگر یہ گول دائرے تحریر کے معنی واضح کرنے کے لیے ہیں تو چمکنے لفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے میرے خیال میں ان گول دائروں کا مطلب سورج ہو سکتا ہے." حجر نے تجویز پیش کی.
"کیا ہم سہی سمت کا رہے ہیں؟" حجر الہان کی جانب دیکھتے ہوئے استفہامیہ انداز میں بولی.
"ہممم" الہان نے اثبات میں سر ہلایا تو مطمئن ہوتے ہوئے حجر واپس گیم کہ جانب متوجہ ہوئی.
"یہ جملہ بہت کومن ہے." اینڈی نے انہیں ایک اور ہنٹ دی.
"چمکنا اور سورج.... دونوں لفظ ایک جملے میں استعمال ہوں اور ان جملہ بھی عام ہو... ایسا کون سا جملہ کو سکتا ہے؟"
"سورج چمکتا ہے." ایما بولی.
"سورج آسمان پر چمکتا ہے." حجر گویا ہوئی.
"ہر صبح سورج چمکتا ہے." نورہ نے اپنی رائے دی.
"اس ہائروگلیفکس کا مطلب ہے
"The sun shine in the sky
اینڈی کے تصدیق کرنے پر حجر مسکراتے ہوئے آگے بڑھی اور کوڈ ملانے لگی. ٹک کی آواز سے دروازہ کھلا اور شیشے کی دیواروں سے بنے کمرے سے الہان کا پلیئر آزاد ہوا. ہنٹر گیم کے چوتھے لیول 'دا سیویر' میں ملنے والا ان کا مشن ختم ہو چکا تھا اس لیے اب ان کی سکرین پر محل کی بجائے menu کھل چکا تھا.
”آخرکار... آپ سب مجھے آزاد کروانے اور اپنا مشن پورا کرنے میں کامیاب رہے. آپ سب کے ساتھ کھیل کر اچھا لگا." الہان خوش دلی سے بولا.
“ہمیں بھی آپ کے ساتھ کھیل کر اچھا لگا. امید ہے کہ جلد آپ سے فیس ٹو فیس ملاقات ہو گی." ویلیم نے جواب دیا.
”ویسے ناروے کب تک آنے کا ارادہ ہے آپ لوگوں کا؟" نورہ نے استفسار کیا.
”کیس ختم ہونے کے بعد انشاء اللہ ہم چکر لگائیں گے ناروے کا." الہان نے جواب دیا تو حجر اسے دیکھ کر رہ گئی. چند اختتامی کلمات ادا کرنے کے بعد ان دونوں نے گیم بند کر دی تھی.
“کیا سوچ رہی ہیں؟" اسے سوچ میں ڈوبا دیکھ کر الہان نے دریافت کیا.
”یہی کہ کیس ختم ہونے کے بعد ہم نے ناروے جانے کی پلینگ کب کی تھی." حجر طنزاً بولی تاکہ الہان کو احساس ہو کہ اس دفعہ پھر وہ اس کی مرضی جانے بغیر فیصلہ کر رہا ہے.
”پلینگ ہم نے کی ہو یا میں نے... بات تو ایک ہی ہے آخر آپ کے اور میرے فیصلے الگ الگ تھوڑی نہ ہیں." وہ شرمندہ ہوئے بغیر بولا.
“میں آپ کے ساتھ ناروے نہیں جاؤں گی." وہ دانت پیس کر بولی.
”کوئی مسئلہ نہیں... میں آپ کے ساتھ چلا جاؤں گا." وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولا تو حجر اسے گھور کر رہ گئی.
“ناروے جانے یا نا جانے کا بعد میں فیصلہ کرلیں گے فلحال پاکستان جانے کی تیاری کریں." اپنی بات کہنے کے بعد الہان لیپ ٹاپ اٹھا کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا.
……………………
ارائیول کونکورس ہال سے ہابر نکلتے ہی حجر نے اپنا فون آن کیا. فون پر موصول ہونے والے میسجز دیکھتے ہوئے وہ الہان کے ہمراہ پارکنگ ایریا کی جانب بڑھ رہی تھی جب اسے خود پر کسی کی نظریں محسوس ہوئیں. سر اٹھا کر اس نے اردگرد دیکھا مگر وہاں اسے کوئی شخص ایسا نہیں دکھا جو اس کی جانب متوجہ ہو. اپنا وہم سمجھ کر اس نے سر دوبارہ فون کی جانب جھکا لیا. اسی وقت اسے ایک میل موصول ہوا. حجر نے میل باکس کھولا تو حال ہی میں آنے والی میل 'ایچ' کی جانب سے تھی. حجر کے چلتے قدم تھمے اور لمحے کی تاخیر کیے بغیر اس نے میل کھولا. میل میں یہ الفاظ درج تھے
”یہ عتبہ کمال کی لوکیشن ہے" میسج کے ساتھ ہی لوکیشن بھیحی گئی تھی. حجر نے کوکیشن کھولی تو وہ جگہ تقریباً یہاں سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر تھی.
”کیا ہوا ہے؟" اسے کھڑا دیکھ کر الہان نے پوچھا. حجر نے کچھ کہنے کی بجائے فون اس کی جانب بڑھا دیا.
”یہ trap بھی ہو سکتا ہے." میل دیکھنے کے بعد الہان بولا.
”ایچ ہمارا خیر خواہ ہے. اس نے ہماری مدد کرنے کے لیے عتبہ کمال کے لوکیشن بھیجی ہے." حجر دوٹوک انداز میں بولی اس بات سے انجان کہ اس کے ٹریولنگ بیگ پر لگے ریکارڈر کے ذریعے کوئی شخص ان کی بات حرف بہ حرف سن رہا تھا.
“ہمیں اس جگہ جانا چاہیے." حجر خود کلامی کے انداز میں بولی اور الہان کے ہاتھ سے فون واپس لے کر آفیسر رضا حمید کو کال کرنے لگی.
”حجر یہ لوکیشن غلط بھی ہو سکتی ہے. ہمیں پہلے کنفرم کر لینا چاہیے." الہان نے اسے روکنا چاہا.
”ہم جب وہاں جائیں گے تو کنفرمیشن ہو جائے گی." اس نے الہان کی بات رد کی. اسی وقت آفیسر رضا حمید فون اٹھایا تو وہ ان کی جانب متوجہ ہو گئی
”میں آپ کو لوکیشن بھیج رہی ہوں. جلد از جلد پولیس فارس کے ہمراہ اس جگہ پر پہنچیں." خیر مقدمی جملوں کے تبادلے کے بعد وہ بولی.
”سب ٹھیک ہے میم؟" وہ تفکر آمیز لہجے میں بولے.
”سب ٹھیک ہے آپ بس جلد از جلد اس جگہ پر پہنچیں." کہتے ساتھ حجر نے فون بند کیا اور لوکیشن انہیں بھیجی. پھر اس نے کرائم برانچ کی ٹیم کو اس جگہ پہنچنے کا کہا اور خود بھی تیز قدموں سے پارکنگ کی جانب بڑھنے لگی جہاں ڈرائیور ان کے انتظار میں کھڑا تھا. الہان نے حجر سے ٹریولنگ بیگ لے کر اس کا اور اپنا بیگ ٹرنک میں رکھا پھر وہ دونوں گاڑی کی بیک سیٹ پر براجمان ہو گئے. حجر نے لوکیشن ڈرائیور کو بتائی تو اس نے گاڑی سٹارٹ کی.
”اگر لوکیشن سہی بھی ہے تب بھی رات کے اندھیرے میں وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں ہے." الہان نے اسے تنبیہ کی.
“میں اکیلی نہیں جا رہی... پولیس فارس اور میری ٹیم میرے ساتھ ہے." حجر نے اسے تسلی دی.
“اگر کچھ ہوا تو میرا انتظار کریے گا. میں آپ کو بچانے آ جاؤں گا." کچھ توقف کے بعد جانے کس احساس کے زیر اثر الہان بولا.
”میں نہیں چاہتی کہ آپ مجھے بچانے آئیں. مجھے ہمیشہ سے اپنے لیے خود سٹینڈ لینا پسند ہے." حجر رساں سے گویا ہوئی.
”اپنے لیے سٹینڈ لینا اچھی بات ہے مگر کبھی کبھار خود کو دوسروں کے سپرد کر دینا چاہیے.... اگر کبھی خود کو مشکل میں پائیں تو میری مدد کا انتظار کرنا" وہ دھیمے اور پر یقین لہجے میں بولا تو حجر سمجھ نہ پائی کہ اس کا لہجہ حکمیہ تھا التجائیہ. وہ یہی سمجھنے میں مصروف تھی جب اس کے کہیں اندر سے آواز آئی کہ نہ وہ اسے حکم دے رہا تھا, نہ ہی درخواست کر رہا تھا, وہ بس اس پر حق جتا رہا تھا. اسے اپنا پابند کرنا چاہ رہا ہے اور حجر چاہتے نا چاہتے بھی اس کی پابند ہو گئی تھی. باقی کا سارا سفر خاموشی میں کٹا تھا. وہ دونوں اپنی سوچوں میں گم تھے جب گاڑی کے ٹائر چرچرائے.
”گاڑی یہاں تک ہی جا سکتی تھی. آگے کا سفر آپ کو پیدل طے کرنا پڑے گا." پہاڑ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ڈرائیور نے انہیں اطلاع دی. اس کی بات پر سر ہلاتے ہوئے وہ دونوں گاڑی سے باہر نکل آئے. ایک نظر فون سکرین پر دکھتی لوکیشن دیکھنے کے بعد حجر بلند پہاڑ کو دیکھنے لگی جو رات کے اندھیرے میں خاصا ہولناک دکھ رہا تھا. انہیں وہاں کھڑے کچھ ہی دیر گزری تھی جب آفیسر رضا حمید اور اس کی ٹیم وہاں آئی.
”اس پہاڑ پر عتبہ کمال چھپا ہے. اس کی لوکیشن ہمیں معلوم ہے سو ہمیں جلد از جلد اس تک پہنچنا ہے. یاد رہے کہ ہمارا اصل مقصد سارہ اور فصیحہ کو سہی سلامت اس کے قبضے سے نکالنا ہے." سلام دعا کے بعد حجر پرعزم انداز میں بولی اس کی بات پر سب نے سر ہلایا پھر وہ لوگ پہاڑ چڑھنے لگے. رات کے اندھیرے میں چڑھائی کرنا مشکل تھا مگر وہ سب ہمت اور حوصلے سے کام لیتے آگے بڑھ رہے تھے. فلیش لائٹ کی روشنی میں چوکنا انداز میں قدم اٹھاتے ہوئے انہیں چند منٹ گزرے تھے جب وہ لوگ 'ایچ' کی بھیجی گئی لوکیشن پر پہنچے. لوکیشن پر تو وہ پہنچ گئے تھے مگر انہیں وہاں کوئی گھر وغیرہ نہیں دکھا تھا.
“میم! میرے خیال سے لوکیشن غلط ہے کیونکہ یہاں تو کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں عتبہ کمال ..... " ابھی آفیسر رضا حمید کی آواز منہ میں ہی تھی جب انہیں دوسرے پولیس آفیسر کی آواز آئی
”سر! یہاں کچھ ہے." وہ سب آواز کے تعاقب میں بڑھے تو انہیں معلوم ہوا جسے وہ پتوں اور جھاڑیوں کا ڈھیر سمجھ رہے تھے اصل میں وہ ایک چھوٹا سا ہٹ تھا جسے پتوں اور جھاڑیوں کی مدد سے چھپایا گیا تھا. حجر کے اشارہ کرنے پر ان سب نے ہٹ کو چاروں طرف سے گھیرا اور حجر بلند آواز میں بولی
“عتبہ کمال! پولیس تمہے چاروں طرف سے گھیر چکی ہے. اگر تم زندہ رہنے چاہتے ہو تو سیرینڈر کر دو. میں تین تک گنوں گی اگر تم نہ باہر نہ آئے تو تمہارے ٹھکانے پر فائرنگ شروع کر دی جائے گی." فائرنگ کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں تھا کیونکہ ہٹ کے اندر سارہ اور فصیحہ بھی ہو سکتی تھیں. صرف عتبہ کو تنبیہ کرنے کے لیے حجر نے ایسا کیا تھا.
”ایک" حجر کے ایک کہنے پر ہٹ کے اندر سے کوئی ہلچل نہ ہوئی تو وہ سب ایک قدم ہٹ کے قریب بڑھے.
”دو"
”تین" اس کے تین کہنے کی دیر تھی کہ ایک دم سے ہٹ کا دروازہ کھلا. الہان نے بے اختیار اپنے ساتھ کھڑی حجر کا ہاتھ تھاما. ٹھیک اسی وقت ہٹ کے کھلے دروازے سے ایک گیس نکل کر فضا میں پھیلنے لگی. تیزی سے پھیلتی آنسو گیس کے باعث انہیں کچھ نظر نہیں آرہا تھا. بائیں ہاتھ سے آنکھوں میں جاتی گیس روکنے میں مصروف الہان کے دائیں ہاتھ سے حجر نے اپنا ہاتھ چھڑوایا تو وہ چونکا. بمشکل آنکھیں کھولتے ہوئے اس نے حجر کی تلاش میں نگاہیں اردگرد گھمائیں مگر گیس کے باعث وہ اسے دیکھ نہ پایا. اب کی بار اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کی موجودگی محسوس کرنی چاہی مگر وہ کہیں نہیں تھی. اپنے وہم کے سچ ہونے کے ڈر سے وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہٹ کی جانب بڑھا
"حجر!" اس نے بلند آواز میں اسے پکارا. ہٹ اب گیس نکلنا بند ہو چکی تھی. فضا میں بھی گیس کی مقدار اب کم ہونے لگی تھی جس کے باعث سارا منظر واضح ہونے لگا تھا. آنکھوں میں ہوتی جلن کی پرواہ کیے بغیر الہان نے ہٹ کے اندر جھانکا جہاں فصیحہ اور سارہ کو باندھ کر رکھا گیا تھا مگر جس کی اسے تلاش تھی وہ وہاں بھی نہیں تھی. تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے وہ باہر آیا اور اردگرد متلاشی نگاہوں سے دیکھا
”حجر....." جب وہ کہیں نہ ملی تو ایک آخری کوشش کرتے ہوئے الہان نے اسے بلند آواز میں پکارا مگر جواب ندارد تھا.
.....................
YOU ARE READING
Siad
Mystery / ThrillerSiad means hunter. It is thriller novel. It is about a girl live in norway and a pakistani boy. Read the novel to know how they came across each other.