صیاد
ازقلم رباب تنویر"To get what you love, you must first be patient with what you hate
(Al-Ghazali)
....................
"میں نے الہان کو بلایا ہے." کال پر مصروف احتشام چچا کی آواز علوی ہاؤس کی سٹڈی میں گونجی.
"کیوں؟" لائن کی دوسری جانب سے حجر کی مصروف سی آواز آئی.
"کل آپ کے فوسٹر پیرنٹس سے مشاورت کرنے کے بعد یہی طہ پایا تھا کہ ایک دفعہ الہان سے اس کے مستقبل کے پلینز جاننے کے بعد ہی انکار یا اقرار کا فیصلہ کیا جائے گا. اس کے پلینز جاننے کے لیے ہی بلایا ہے میں نے اسے." کل رات احتشام چچا جب حجر کو ڈراپ کرنے گئے تھے تب ان کی مور اور فار سے بات ہوئی.
"تو ٹھیک ہے. آپ پوچھ لیں پلینز اور پھر جواب دے دیں انہیں." وہ لاپرواہی سے بولی.
"حجر! یہ آپ کی زندگی کا فیصلہ ہے." انہوں نے اسے احساس دلایا.
"میں نے آپ کو کل ہی بتا دیا تھا کہ میرے پاس نہ انکار کا جواز ہے اور نہ ہی اقرار کا حوصلہ. اسلیے میں نے فیصلہ آپ کے سپرد کر دیا ہے چونکہ آپ مجھے بھی جانتے ہیں اور مسٹر الہان کو بھی سو آپ بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں." اس نے انہیں کل رات کہی گئی اپنی بات یاد دلائی.
"آپ ابھی مطمئن نہیں ہیں." انہوں نے اسے احساس دلایا.
"خود کو مطمئن کرنا میرا کام ہے. آپ جو بھی فیصلے کریں گے میں اس پر خود کو مطمئن کر لوں گی."
"ٹھیک ہے. ابھی آپ لائن پر موجود رہیں میں الہان سے بات کرنے لگا ہوں. ہو سکتا ہے اس کی جواب سن کر آپ مطمئن کو جائیں" وہ مدھم آواز میں بولے. اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا جب دروازے کی جانب بڑھتے قدموں کی آواز سن کر احتشام چچا دوبارہ گویا ہوئے
"میرے خیال میں الہان آ رہا ہے. آپ لائن پر ہی موجود رہیے گا." کہتے ساتھ ہی احتشام چچا خود سٹڈی میں رکھے ایک صوفے پر بیٹھے اور فون میز پر الٹا کرکے رکھ دیا.
آؤ بیٹھو" اسے اندر قدم رکھتے دیکھ کر وہ بولے.
"میرا اپنا گھر ہے بیٹھ تو میں جاؤں گا مگر پہلے آپ یہ بتائیں کہ مجھ سے دس قدم کے فاصلے پر موجود ہونے کے باجود آپ نے کال کرکے مجھے بلانے کی زخمت کیوں کی؟" اس نے تعجب سے چند منٹ پہلے موصول ہونے والی احتشام چچا کی کال کا مقصد پوچھا.
"میں چاہ رہا تھا کہ میٹنگ ذرا فارمل طریقے سے ہو.... تمہے میں نے کہا تھا نہ کہ فارمل حلیے میں آنا مگر میرے کہنے کے باجود تم رف حلیے میں میرے سامنے کھڑے ہو." وہ ڈپٹ کر بولے.
"کون سی میٹنگ؟ کیا کوئی آ رہا کے؟" صوفے پر ان کے سامنے آرام دہ انداز میں بیٹھتے ہوئے وہ بولا.
"نہیں... میں تمہاری اور اپنے درمیان ہونے والی میٹنگ کی بات کر رہا ہوں." وہ سنجیدگی سے بولے تو الہان نے ٹھٹک کر ان کی جانب دیکھا. فارمل کپڑوں میں ملبوس, بال ایک جانب اچھے سے سیٹ کیے وہ یوں تیار تھے جیسے کسی اہم میٹنگ میں آئے ہوں. جبکہ ان کے سامنے بیٹھے الہان کا حلیہ ان کے برعکس تھا. وہ رف ٹراؤزر اور شرٹ میں ملبوس تھا, بائیں ہاتھ سے عادتاً بال درست کرتا وہ آرام دہ انداز میں بیٹھا تھا.
"کون سی میٹنگ؟ اور یہ آپ میرا تنقیدی نگاہوں سے جائزہ کیوں لے رہے ہیں؟ کیا آج زیادہ اچھا لگ رہا ہوں؟" انہیں مسلسل خود کو گھورتا دیکھ کر اس نے استفسار کیا.
"برخودار... سنجیدگی کے جامے میں آجاؤ. مجھے تم سے چند اہم سوالات کرنے ہیں." انہوں نے وارننگ دی.
"ایک تو یہ سوالات... تنگ آ گیا ہوں میں آپ کو اور آپ کی بھتیجی کو جوابات دے دے کر." وہ بیزاری سے بولا.
"اب ایسے کاموں میں یہ سلسلہ تو چلتا رہتا ہے."
"کون سے کام؟ کیا آپ پہلیاں بھجوانا بند کر دیں؟" وہ جھنجھلا کر بولا.
"چلوں پھر مدعے پر آتے ہیں...." وہ ایک لمحے کے لیے ٹہرے پھر گویا ہوئے.
"مستقبل کے لیے تمہارے پرسنل اور پروفیشنل گول کیا ہیں؟" ان کے لہجے میں مذاق کا شائبہ تک نہ تھا.
"یہ آج آپ کیا بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں. کچھ الٹا سیدھا تو نہیں کھا لیا؟" وہ تعجب سے بولا.
"جو میں نے پوچھا ہے اس کا جواب دو." وہ رعب دار انداز میں بولے.
"میرے پرسنل اور پروفیشنل گول کیا ہیں ان کے بارے میں آپ کو کیوں بتاؤ؟" وہ استفہامیہ انداز میں بولا.
"کیونکہ میں اس لڑکی کا سرپرست ہوں جس سے شادی کرنے کے تم خواہشمند ہو. میرے ہر سوال کا جواب دینا لازم ہے. ہماری میٹنگ کو تم وہ انٹرویو سمجھ لو جو مشرقی گھرانوں میں شادی سے پہلے لڑکی کا باپ لڑکے سے لیتا ہے. اسلیے ذرا سنجیدگی سے جواب دے کر مجھے متاثر نہیں تو کم از کم مطمئن کرنے کی کوشش کرو." انہوں نے اسے تفصیل بتائی.
"اگر میں آپ کو متاثر نہ کر پایا تو؟"
"تو پھر رشتے سے انکار ہی سمجھو کیونکہ حجر نے ساری ذمہ داری مجھ پر ڈال دی ہے. اس کا کہنا ہے کہ وہ میرے فیصلے پر راضی ہے." انہوں نے انکشاف کیا.
"ذمہ داری تو بندہ کسی ذمہ دار بندے پر ڈالتا ہے" الہان منہ میں بڑبڑایا.
"بتاؤ کیا انٹرسٹ ہیں تمہارے؟" انہیں سنجیدہ دیکھ کر الہان نے مذاق کا ارادہ ترک کیا اور صاف گوئی سے انہیں جواب دینے لگا.
"Philanthropy اور گیمنگ" اس کا جواب سن کر احتشام چچا کی آنکھوں میں ستائش کے رنگ ابھرے.
"اگلے دس سالوں میں تم خود کو کس مقام پر دیکھنا چاہتے ہو."
"ورلڈ بیسٹ گیم ڈیویلپر"
"زندگی سے کیا چاہتے ہو؟"
"سکون"
"مہینہ میں کتنا کما لیتے ہو؟"
"آپ سے زیادہ" اس کا جواب سن کر احتشام چچا نے اسے گھورا.
"حجر کو خوش رکھ پاؤ گے؟"
"جتنی وہ اب خوش ہے اس سے زیادہ ہی خوش رکھوں گا."
"کون کون سے گھریلو کام کر لیتے ہو؟"
"گھر کے تو پتا نہیں مگر اپنے سارے کام کر لیتا ہوں."
"تمہاری زندگی میں سب سے اہم کیا ہے؟"
"مذہب"
"کس چنز پر تم سمجھوتہ نہیں کر سکتے؟"
"ویلوز"
"بس اب ایک اور سوال نہیں." احتشام چچا کو اگلے سوال کے لیے منہ کھولتا دیکھ کر وہ دوٹوک انداز میں بولا.
"ٹھیک ہے تم جاؤ. کچھ دیر میں تمہے جواب مل جائے گا."
"سوچ سمجھ کر جواب دیجیئے گا کیونکہ کہ میں اب بھی وہی اورپروٹیکٹو شخص ہوں." وہ میز پر رکھے فون کی جانب دیکھ کر بولا.
"کس سے مخاطب ہو تم؟"
"اسی سے جو خاموشی سے گفتگو سن رہی تھی." کہتے ساتھ ہی وہ کمرے نکل گیا. اس کے جانے کے بعد انہوں نے فون سیدھا کیا تو وہاں حجر سے کال ہنوز کنیکٹڈ تھی.
"زندگی میں مجھے کبھی اتنی شرمندگی محسوس نہیں ہوئی جتنی اس وقت ہو رہی ہے. منع بھی کیا تھا میں نے آپ کو کہ مجھے نہ انوالو کریں خود ہی کوئی فیصلہ کرلیں. مگر آپ بضد تھے کہ مجھے مطمئن کرکے ہی دم لیں گے. اب مطمئن کی بجائے شرمندہ ہو گئی ہوں میں." جیسے ہی انہوں نے فون کان سے لگایا حجر کی آواز گونجی.
"شرمندہ ہونے والی کوئی بات نہیں ہے. تم بتاؤ پھر کیا خیال ہے تمہارا؟" انہوں نے استفسار کیا.
"جو مرضی کریں." وہ لاپرواہی سے بولی.
"چند ایک باتوں کے علاوہ الہان ایک اچھا انسان ہے اور میرے خیال سے تمہارے لیے الہان سے بہتر اور کوئی نہیں ہے. " انہوں نے فیصلہ سنایا.
"مجھے آپ پر یقین ہے آپ میرے حق میں بہتر فیصلہ ہی کیا ہو گا." حجر نے کہتے ساتھ ہی فون بند کیا. ایک لمبی سانس لیتے ہوئے احتشام چچا الہان کے کمرے کی جانب بڑھے. دروازہ ناک کرتے ہی وہ اندر گئے اور بیڈ کے ایک کنارے بیٹھ گئے. کاؤچ پر بیٹھا الہان اب سوالیہ نگاہوں سے ان کی جانب دیکھ رہا تھا.
"حجر سے مشاورت کرنے کے بعد میں اس فیصلے پر پہنچا ہوں کہ حجر کے لیے تم مناسب ہو. کیس ختم ہونے کے بعد تم دونوں منگنی کی کوئی مناسب تاریخ رکھ لو." احتشام چچا نے مشورہ دیا.
"جتنی من مرضی آپ اور آپ کی بھتیجی نے کرنی تھی کر لی اب آگے سب کچھ میں ڈیسائیڈ کروں گا." وہ ایک لمحے کے لیے رکا پھر فیصلہ کن انداز میں بولا.
"کل جمعے کے بعد نکاح ہو گا. بتا دیجیے گا اپنی بھیتجی کو."
"کل؟ اتنی جلدی؟" احتشام چچا حیرت پر قابو پاتے ہوئے بولے.
"کوئی جلدی نہیں ہے. چوبیس گھنٹے رہتے ہیں ابھی" وہ پر سکون تھا.
"حجر نہیں مانے گی.اس کے فوسٹر پیرنٹس بھی یہاں موجود نہیں ہیں. ان کی غیر موجودگی میں وہ شادی پر راضی نہیں ہو گی."
"میں نے صرف نکاح کی بات ہے. رخصتی اور ولیمہ اس کے پیرنٹس کی موجودگی میں ہو جائے گا اور حجر کو کنونس کرنا آپ کہ ذمہ داری ہے."
"اتنی جلدی کیوں مچا رہے ہو؟" وہ جھنجھلا کر بولے.
"کل رات میں دبئی جا رہا ہوں. چونکہ حجر نے بھی عتبہ کمال کی تفتیش کے لیے دبئی جانا ہے اسلیے وہ میرے ساتھ ہی جائے گی." اس نے وضاحت دی.
"کتنے دن سٹے کرنا ہے تم نے دبئی میں؟"
"پرسوں واپس آجاؤں گا."
"تو پھر دبئی سے آنے کے بعد رکھ لو نکاح. اتنی جلدی کس بات کی ہے؟"
"میں جو بھی کر رہا ہوں حجر کی سکیورٹی کے لیے کر رہا ہوں اس لیے بہتر ہے کہ آپ میرا ساتھ دیں اور اسے کنونس کریں." وہ رسانیت سے بولا.
"تم بندوق میرے کندھے پر رکھ کر چلانا چاہتے ہو؟" وہ بےچارگی سے بولے.
"جو مرضی سمجھ لیں" وہ بےنیازی سے بولا تو احتشام چچا دانت پیستے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے.
...........................
"یہ وہ سڑک ہے جہاں ہمیں خالی گاڑی ملی تھی." گاڑی کے بونڈ پر نقشہ پھیلائے وہ نشاندہی کر رہی تھی. بھوڑے رنگ کے کاڑڈیگن میں ملبوس, سر پر بیزبال کیپ اور پاؤں میں لانگ بوٹس پہنے وہ ہلکا سا جھک کر میپ پر نشانات لگا رہی تھی. اس کے گرد اس کی ٹیم نے کھڑی تھی. وہ سب اسی سڑک پر موجود تھے جہاں پرسوں رات گاڑی ملی تھی.
"مارگلہ ہلز بارہ سو ہیکٹرز سے زیادہ رقبے پر پھیلی ہیں اور اتنے بڑے رقبہ پر ہم چاہ کر بھی عتبہ کمال کو تلاش نہیں کر سکتے اسلیے ہم شارٹ کٹ لیں گے. اس دن گاڑی اس نے یہاں چھوڑی تھی اور قوی امکان ہے کہ وہ جگہ جہاں اس نے فصیحہ اور سارہ کو قید کیا وہ یہاں سے قریب ہو اسلیے ہم تلاش یہاں سے شروع کریں گے." وہ ان سب کو بریفنگ دے رہی تھی.
"میم! ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ عتبہ کمال نے ہمیں گمراہ کرنے کے لیے گاڑی یہاں چھوڑی ہو." آفیسر سعد نے اپنی رائے کا اظہار کیا.
"وہ ایسا کر سکتا ہے میں جانتی ہوں مگر اس وقت ہمارے پاس کوئی اور اوپشن نہیں ہے. تفتیش کے لیے ہمارے پاس صرف یہی ایک راستہ ہے. یہ راستہ ہمیں گمراہ کرتا ہے یا راہ دکھاتا ہے اس کا تعین کرنے میں ہم وقت ضائع نہیں کر سکتے." وہ ایک لمحہ رکی پھر رسانیت سے گویا ہوئی.
"ہماری ٹیم دو گروپ میں تقسیم ہو کر تلاش کرے گی جبکہ ایک ٹیم پولیس کی ہو گی جن کے ساتھ ٹرینڈ کتے ہونگے. ان کتوں کو سارہ کے کپڑوں سونگوائے گئے ہیں. چونکہ ہر شخص کی الگ مہک ہوتی ہے اسلیے ہم پرامید ہیں کہ کپڑوں کے ذریعے سارہ کی مہک پہچاننے کے بعد کتے اس تک پہنچنے میں ہماری مدد کریں گے..... اور سب سے اہم بات ہمیں اندھیرا ہونے سے پہلے اس جگہ دوبارہ موجود ہونا ہے. اس وقت بارہ بج رہے ہیں. تین بجتے ہی ہم جس جگہ پہنچیں ہونگے وہاں باؤنڈری بنا کر ہمیں واپسی کی جانب مڑنا ہے تاکہ شام سے پہلے ہم جنگل سے نکل آئیں. باؤنڈری کے بعد والی جگہ سے کم کل کنٹنیو کریں گے."
"اوکے میم" وہ سب بلند آواز میں بولے.
"آفیسر سعد, آفیسر فاطمہ اور آفیسر نعمان آپ دائیں جانب سرچ کریں گے. آفیسر بلال, آفیسر فجر اور میں بائیں جانب جبکہ آفیسر رضا حمید پولیس کی ٹیم کو لیڈ کریں گے اور وہ سیدھا جائیں گے. کوئی مسئلہ؟" اس نے استفسار کیا.
"میم! کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ میں آپ کے ساتھ چلا جاؤں اور آفیسر بلال پولیس فورس کے ساتھ چلے جائیں." آفیسر رضا حمید نے اپنا مدعا بیان کیا.
"ہو تو سکتا ہے مگر آپ کیوں میرے ساتھ آنا چاہتے ہیں؟" اس نے جانچتی نگاہوں سے دیکھا تو ایک لمحے کے لیے رضا حمید گڑبڑا گئے.
"میں آپ کا کیس ہینڈل کرنے کے طریقے کا تجزیہ کرنا چاہ رہا ہوں تاکہ میں آپ سے کچھ سیکھ سکوں." رضا حمید نے بمشکل بہانہ بنایا.
"ویسے پہاڑ پر سرچ کرنے کے دوران میں نے کوئی راکٹ سائنس تو نہیں لگانی جسے سیکھ کر آپ کو فائدہ پہنچے گا مگر آپ میری ٹیم آنا چاہتے تو آجائیں." وہ کندھے اچکا کر بولی.
"چلیں پھر شروع کرتے ہیں. بیسٹ آفس لک" اتنا کہنے کے بعد وہ سڑک کے کنارے بنی ڈھلون چڑھنے لگی. اس کے ٹیم میٹس نے اس کی تقلید کی جبکہ باقی ٹیمز اس کی بتائی گئی سمت میں بڑھنے لگے. پہاڑ کی سطح زیادہ سٹیپ نہیں تھی سو اس لیے انہیں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑ رہی تھی. جھاڑیوں سے خود کو بچاتے ہوئے وہ سب چوکنا انداز میں آگے بڑھ رہے تھے. ان کی تلاش کے دوران ہی سر پر کھڑا سورج رفتہ رفتہ مغرب کی جانب جانے لگا. سورج کو مغرب کی جانب بڑھتا دیکھ کر انہوں نے تلاش بیچ راہ میں چھوڑی اور واپسی کا رخ کیا. ڈوبتے سورج کی زردی مائل روشنی میں وہ سڑک پر واپس پولیس وین کے قریب موجود تھے. وہیں کھڑے کھڑے آپس میں چند تفصیلات ڈسکس کرنے کے بعد ان سب نے واپسی کی راہ لی.
........................
وہ اس وقت اپاٹمنٹ کی بالکونی میں لگے سونگ پر ہاتھ میں چائے کا کپ تھامے بیٹھی تھی. بالوں کو ہیڈ بینڈ کے ذریعے اس نے پیشانی پر سے ہٹایا ہوا تھا. فضا میں خنکی کے باعث اس نے خود کو بلینکٹ سے اچھے سے لپیٹ رکھا تھا. اپارٹمنٹ کی چاردیواری محسوس ہونے والی گھٹن سے تنگ آ کر وہ کچھ دیر پہلے یہاں آئی تھی. نگاہیں غیر مرئی نقطے پر جمائے وہ اپنی سوچوں میں گم تھی. اس کی سوچوں کا محور الہان کی ذات تھی. آج پورا دن وہ اسے نظر نہیں آیا تھا. نہ وہ اسے پک کرنے آیا تھا نہ ڈراپ مگر احتشام چچا سے کال کے دوران وہ اس کی آواز سن کی چکی تھی. اس کے لہجے کی بیگانگی کا اسے فون پر بھی احساس ہو گیا تھا. فون پر کہی جانے والی الہان کی اورپروٹیکٹو شخص والی بات ذہن میں آتے ہی اس نے سختی سے لب بھینچے. وہ اس کے کہے گئے لفظ کا غلط معنی اخذ کر گیا تھا اور وہ چاہ کر بھی اس کی غلط فہمی دور نہیں کر پائی تھی. وہ یونہی سوچوں کے ناختم ہونے والے جال میں گم تھی جب اچانک سے الہان کی بات اس کے ذہن میں گونجی
"فارغ وقت میں اپنے کہے گئے الفاظ پر غور کریے گا. کچھ دیر سوچنے سے آپ کو احساس ہو جائے گا کہ آپ کی بات میں کتنی سچائی ہے" یہ وہ الفاظ تھے جو اس نے حجر کے روڈ, لڑکیوں کو اچھے سے ٹریٹ نہ کرنے اور اپنی مرضی کو اہمیت دینے والے الزامات کے جواب میں کہے تھے. اس کے کہے پر عمل کرتے ہوئے وہ اب اپنے الفاظ پر اور پہلی ملاقات سے لے کر اب تک اس کے رویے پر غور کرنے لگی تھی. اس نے کہا تھا کہ الہان روڈ ہے مگر الہام سے ہوئی ساری ملاقاتوں کو سوچنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ پہلی ملاقات کے علاوہ , اس نے کبھی سے اس سے کھڑدرے لہجے میں بات نہیں کی تھی اور شاید پہلی ملاقات میں بھی وہ اس لیے روڈ تھا کیونکہ وہ اجنبیوں سے یونہی بات کرتا ہے. حجر نے چند ایک بار اسے بیورو کے افراد سے بات کرتے دیکھا تھا اور وہ ہمیشہ ان کے ساتھ قدرے سردمہری سے بات کرتا تھا اور یہ سردمہری ایک عرصے سے اس کے مزاج کا حصہ رہی تھی. دوسرا الزام جو اس نے الہان پر عائد کیا تھا وہ یہ تھا کہ اسے لڑکیوں کو ٹریٹ کرنا نہیں آتا. اب وہ اس نقطے پر غور کرنے لگی تھی. دبئی سے واپسی پر الہان کا اس کے ساتھ بیک سیٹ پر بیٹھنے کی بجائے فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کو ترجیح دینا, اسلام آباد ایرپورٹ پر اس کا لگیج کیری کرنا, اس دھوپ سے بچانے کے لیے پوزیشن swap کرنا, الرجک ریایکشن ہونے پر اسے دوا لا کر دینا ... یہ سب واقعات اسے یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر رہے تھے کہ الہان سے بہتر اسے پہلے کبھی کسی نے ٹریٹ نہیں کیا. وہ ہمیشہ غیر محسوس انداز میں اس کی پرواہ کرتا تھا. دوسری بات غلط ثابت ہونے کے بعد وہ اب تیسرے الزام کی جانب بڑھی. الہان کا ہمیشہ اپنی رائے کو اہمیت دینا,اپنی مرضی کرنا... یہ بات بہت حد تک درست تھی مگر صرف ان معاملات میں جو اس کی سکیورٹی سے جڑے تھے. وہ اپنی مرضی سے کیس ہینڈل کر رہی تھی اور الہان نے میڈیا کے سامنے جانے سے روکنے کےعلاوہ اس کے کسی دوسرے معاملے میں دخل اندازی نہیں کی تھی. اس نے کبھی اس کے کہیں آنے جانے پر پابندی نہیں لگائی تھی ہاں مگر وہ اسے تنہا جانے سے روکتا تھا کیونکہ وہ اپنے ملک کے ماحول اور حالات سے واقف تھا. الہان کے رویے کا تجزیہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ الہان اس کے لیے پوزیسو اور پروٹیکٹو ہے. وہ اس سے خفا تھا مگر لاتعلق نہیں ہوا تھا. خفگی کے باوجود اس نے احتشام کو اسے پک کرنے بھیحا تھا. خفگی کے باوجود اس نے آفیسر رضا حمید کو انویسٹیگیشن کے دوران اس کی حفاظت کے لیے ہر وقت اس کے ساتھ رہنے کا کہا تھا. خفگی کے باوجود اس نے گھر میں فریحہ کو ہر وقت اس کا دھیان رکھنے کے سخت احکامات جاری کیے تھے. (ایک نظر ونڈ سکرین کے اس پار لاؤنج میں نیند کی بند ہوتی آنکھوں سے اسے گھورتی فریحہ کو دیکھتے ہوئے اس نے سوچا.)
"پریس کانفرنس کے بعد سے نگرانی زیادہ سخت کر دی گئی ہے میری." وہ خود کلامی کے انداز میں بولی. الہان نے پوری کوشش کی تھی کہ اس کے اقدامات کے متعلق حجر کو شک نہ ہو مگر وہ بے وقوف نہیں تھی جو اچانک سے احتشام چچا کی آمد,رضا حمید کی ساتھ جانے کی ضد اور فریحہ کی خود پر ٹکی نظروں کو محسوس نہ کر پاتی. وہ اس کے انداز کو اچھے سے سمجھ رہی تھی اور کہیں نہ کہیں الہان کا یہ انداز اس کے دل کو بھا رہا تھا. اس کے ذہن میں بنا الہان کا نیگیٹو امیج, پوزیٹو ہو گیا تھا. احتشام چچا کو فیصلے کا اختیار دینے کے بعد جس بے چینی نے اس اپنے حصار میں لیا تھا کچھ دیر یکسوئی سے سوچنے کے بعد وہ بے چینی ختم ہو گئی تھی. ذہنی طور پر پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد اس نے ایک گہری سانس لی پھر اٹھ کر اندر جانے لگی جب اس کا فون بج اٹھا. سکرین پر احتشام چچا کا نمبر جگمگاتا دیکھ کر اس نے کال ریسیو کی.
"بیٹا! میں نے الہان کو ہاں کرنے کے علاوہ ایک اور فیصلہ کیا ہے." چند خیر مقدمی جملوں کے تبادلے کے بعد احتشام چچا دھیمی آواز میں بولے.
"کیا؟" لاؤنج سے گزر کر کچن کی جانب جاتے ہوئے اس نے سوال کیا.
"میں چاہتا ہوں کہ جتنا جلدی ہو سکے تمہارا اور الہان کا نکاح ہو جائے." یہ سوچ کر کہ کہیں الہان کا نام سن کر وہ ہتھے سے نہ اکھڑ جائے انہوں نے سارا ذمہداری اپنے سر لی.
"کتنا جلدی؟" گلاس میں پانی انڈیلئے ہوئے وہ سرسری انداز میں بولی.
"کل جمعے کا مبارک دن ہے تو میں نے سوچا کہ کل ہی رکھ لیا جائے تم دونوں کا نکاح." انہوں نے جھجھکتے ہوئے بتایا تو پانی پیتی حجر کو اچھو لگا.
"کل؟" کھانسی پر قابو پاتے ہوئے وہ بمشکل بول پائی تھی.
"جی کل. میں نے بڑے مان سے تم دونوں کے متعلق فیصلہ کیا ہے اور مجھے امید ہے کہ تم مجھے انکار نہیں کرو گی." انہوں نے اسے جذباتی طور بلیک میل کرنا چاہا تو حجر نے ایک لمحے کے لیے ہونٹ بھینچے.
"پہلی بات تو یہ کہ میں جانتی ہوں کہ فیصلہ آپ کا نہیں ہے اسلیے بہتر ہے کہ ذمہ داری اپنے سر نہ لیں. رہی بات کل نکاح کی تو میں پہلے آپ کو فیصلے کا اختیار دے چکی ہوں. اس وقت آپ ہی وہ شخص ہیں جس پر میں ریلائے کر سکتی ہوں اگر آپ اس فیصلے کے حق میں ہیں تو مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں."
"الہان نے یہ فیصلہ تمہاری بہتری کے لیے لے اسلیے میں بھی کل نکاح کے حق میں ہوں." انہوں نے اسے آگاہ کیا اور پھر چند الوداعی کلامات ادا کرنے کے بعد اس نے فون بند کر دیا.
"یہ شخص میری نظر میں اپنا اچھا امیج برقرار رہنے نہیں دے گا. جب بھی میں اس کے بارے میں کچھ اچھا سوچنے لگتی ہوں یہ کوئی نہ کوئی حرکت کرکے مجھے خود سے بدزن کر دیتا ہے." اپنے کمرے کی جانب جاتے ہوئے وہ زیر لب بڑبڑائی.
.........................
اسلام آباد کے وسط میں بنے علوی ہاؤس میں آج بہت سالوں بعد چہل پہل تھی. یہ چہل پہل گھر کے روشن چراغ کے نکاح کی تقریب کے باعث تھی. سورج کی سنہری روشنی سے منور لان سے گزر کر داخلی دروازے کی جانب بڑھیں تو وہاں ایلکس اور اس کے ٹرنک میں لگی سکرین سے جھانکتے پیٹر, سائمن, اینڈی اور جارج مہمانوں کو ویلکم کرنے کے لیے موجود تھے. مہمان اتنے زیادہ نہ تھے. الہان اور حجر کے سب دوست بیرون ممالک تھے سو وہاں زیادہ تر احتشام چچا کے جاننے والے اور فیملی فرینڈز انوائٹڈ تھے. احتشام چچا کیٹرر کو ہدایت دینے میں مصروف تھے جبکہ الہان منظر عام سے غائب تھا. راہداری کے اہتتام پر بنے آنیہ کے کمرے کا دروازہ وا کریں تو وہاں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے خوبصورت نقوش اور کالی آنکھوں والی لڑکی براجمان تھی. وہ اس وقت سفید انارکلی فراک میں ملبوس تھی, جس کے دامن اور گلے پر سنہری رنگ کی کٹ ورک امبروئڈری ہوئی تھی. زندگی میں پہلی مرتبہ اس نے روایتی کپڑے پہنے تھے اور فریحہ کے بقول اس پر یہ کپڑے اچھے لگ رہے تھے. تقریباً دو گھنٹے پہلے احتشام چچا اسے اپاٹمنٹ سے علوی ہاؤس لے کر آئے تھے. اسے آنیہ کے کمرے میں چھوڑنے کے بعد وہ خود کہیں چلے گئے تھے. چونکہ وہ الہان کے ساتھ پہلے اس کمرے میں آچکی تھی سو اس لیے وہ جان گئی تھی کہ یہ آنیہ کا کمرہ ہے. وہ کمرے کی دیواروں پر آویزاں تصویریں دیکھنے میں مصروف تھی جب فریحہ اور احتشام چچا اندر داخل ہوئے. فریحہ کے ہاتھ میں شاپنگ بیکز تھے جبکہ احتشام چچا کے ہاتھ میں جویلری کیس تھے.
"یہ آنیہ کے تھے سو اب ان پر آپ کا حق ہے." احتشام چچا کیس اس کی جانب بڑھاتے ہوئے بولے. حجر انہیں لینے کے لیے ہچکچائی تھی مگر احتشام چچا نے زبردستی وہ سب باکسز اسے تھما دیے.
"سب سے اوپر والے باکس میں جو سیٹ ہے وہ ہارون نے تمہاری پیدائش پر آنیہ کو گفٹ کیا تھا." ان کی بات سن کر حجر نے باکس کھولا تو اس کے اندر نفیس سا وائیٹ گولڈ کا سیٹ تھا.
"ان میں کوئی آج پہننے کے لیے منتخب کرلو اور فریحہ کے پاس کپڑے ہیں. کچھ دیر میں میک اپ آرٹسٹ آ کر آپ کو تیار کرے گی." انہوں نے جلدی سے بات مکمل کی پھر کچھ یاد آنے پر حجر کی سنے بغیر کمرے سے باہر نکل گئے.
ان کے جانے کے بعد حجر نے باقی کیس کھولے بغیر واڈروب میں رکھے کیونکہ وہ ایک نظر دیکھنے کے بعد ہی آج کے لیے اس کی پیدائش پر ہارون کا آنیہ کو دیے جانے والا سیٹ منتخب کر چکی تھی. جویلری رکھنے کے بعد اس نے کپڑے تبدیل کیے اور اب وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سفید فراک میں ملبوس بیٹھی تیار ہو رہی تھی. فریحہ نے اسے کہا تھا کہ میک اپ آرٹسٹ تھوڑی دیر تک آ کر اس کو تیار کر دے گی مگر اس نے منع کر دیا تھا. اپنا ہلکا ہلکا میک اپ کرنے کے بعد اس نے فریحہ کی مدد سے بال بنائے اور ڈوپٹہ سیٹ کیا. وہ دونوں اس کام میں مصروف تھیں جب کمرے کا دروازہ ناک ہوا. فریحہ نے آگے بڑھ کر تھوڑا سا دروازہ کھولا تو وہاں الہان کھڑا.
"یہ حجر کو دے دیں." وہیں دہلیز پر کھڑے کھڑے اس نے لیپ ٹاپ فریحہ کی جانب بڑھایا. دروازہ پورا نہیں کھلا تھا اور حجر دروازے کے پچھلی طرف کھڑی تھی اس لیے نہ حجر کی نظر اس پر پڑی تھی اور نہ ہی الہان اسے دیکھ پایا تھا. لیپ ٹاپ فریحہ کو دینے کے بعد وہ دہلیز سے واپس مڑ گیا. فریحہ نے لیپ ٹاپ لا کر حجر کو تھما دیا. لیپ ٹاپ پر ملٹپل ویڈیو کال آن تھی. مور اور فار کے علاوہ حجر کی دوستیں بھی کال پر موجود تھیں. ان سب کو دیکھ کر حجر کو خوشگور حیرت ہوئی.
"ہالُو حجر!" نورہ, جولیا, ایما اور جینی ایک ساتھ بولیں.
"کیسے ہو تم سب ؟" حجر مسکراتے ہوئے بولی. پاکستان آنے کے بعد اس کی ایک دو بار بات ہوئی تھی سب سے مگر اس کے نکاح کے متعلق کسی کو نہیں پتا تھا.
"ہماری چھوڑو تم اپنی بتاؤ, چپکے چپکے نکاح کر رہی تھی یہ تو اچھا ہوا کہ مور نے ہمیں بتا دیا ورنہ تم نے تو ہمیں بھنک نہیں پڑنے دی." نورہ نے شکوہ کیا.
"جلدی جلدی سب کچھ ہوا ہے اس لیے بتانے کا وقت نہیں ملا... مگر مور نے اچھا کیا جو تم سب کو بتا دیا. اولیویا کیسی ہے؟" انہیں وضاحت دینے کے بعد حجر نے اولیویا کے بارے میں پوچھا جس کی حال ہی میں شادی ہوئی تھی.
"ٹھیک ہے وہ." جینی نے جواب دیا پھر ان سب نے اسے مبارک باد دی. ان سے بات کے دوران ہی حجر نے سنہری باڈر والا ڈوپٹہ سیٹ کیا. کچھ دیر بات کرنے کے بعد اس کی دوستوں نے کال بند کر دی تھی اب صرف مور اور فار ہی لائن پر موجود تھے. اسی دوران حجر کے فون پر ہاجرہ کی کال موصول ہوئی.
"کچھ ملا؟" سلام دعا کے تبادلے کے بعد حجر نے استفسار کیا. اس کی ٹیم آج بھی مارگلہ ہلز پر سرچ کرنے میں مصروف تھی.
"ایک جگہ بلڈ سیمپل ملے ہیں جنہیں لیباٹری بھیج دیا ہے." ہاجرہ نے اطلاع دی.
"ٹھیک ہے. مزید کوئی بھی چیز ملے تو مجھے انفارم کر دینا." حجر کو کیس کے متعلق بات کرتے دیکھ کر لیپ ٹاپ سکرین پر نظر آتی مور کی پیشانی پر بلوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا.
"حجر آج کے دن تو کام کی جان چھوڑ دو." اسے ہاجرہ کو مزید تفصیلات بتاتے دیکھ کر مور ڈپٹ کر بولیں. مور کی خفگی کے پیش نظر حجر نے مختصراً بات کی اور فون بند کر کے مور کی جانب متوجہ ہوئی
"ضروری بات تھی. پہلے ہی میرا بیورو سے آف ہو گیا. سرچ اوپریشن کے لیے جانا تھا مجھے." اس نے افسوس کن انداز میں سر جھٹکا.
"نکاح سے زیادہ ضروری نہیں ہے حجر" وہ ڈپٹ کر بولیں. حجر نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا جب فریحہ اندر آئی اس کے پیچھے احتشام چچا بھی نکاح خواں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے. حجر کی سائیڈ پر بیٹھ گئی تھی جبکہ فریحہ اس کے قریب کھڑی تھی. نکاح خواں کے ساتھ احتشام چچا صوفے پر براجمان تھے.
"شروع کریں مولانا صاحب." احتشام چچا نے نکاح خواں سے بولے.
"مسمات حجر ہارون دختر ہارون علوی آپ کو باعوض شرعی حق مہر کے مسمّی الہان مرتضی ولد مرتضی علوی کے نکاح میں دیا جاتا ہے. کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟" نکاح خواں کی بھاری مردانہ آواز کمرے میں گونجی.
".... جی قبول ہے." وہ سر جھکائے دھیمی آواز میں بولی. دو مرتبہ مزید نکاح خواں نے یہ سوال دہرایا جس کے جواب نے حجر نے قبول ہے کہا. پھر احتشام چچا نے نکاح نامہ اس کی جانب بڑھایا جسے تھام کر اس نے دستخط کیے. فائل اس کے ہاتھ سے واپس لے کر, احتشام چچا اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نکاح خواں کے ہمراہ باہر نکل گئے.
.........................
"آئیں آئیں پروفیٹک مونسٹر... تشریف رکھیں." سفید شلوار قمیض میں ملبوس الہان کو لاؤنج میں قدم رکھتے دیکھ کر ویڈیو کال پر موجود اینڈی بلند آواز میں بولا.
"تم لوگوں نے اس وقت کیوں کال کی ہے؟" وہ تعجب سے بولا. وہ پچھلے کچھ وقت سے اپنے کمرے میں فلائٹ کی بکنگ کرونے میں مصروف تھا اس لیے اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ سب کال پر موجود ہیں.
"آپ کے نکاح کی تقریب دیکھنے کے لیے کال کی ہے. آپ ہم سے پردہ پوشی کر رہے تھے مگر ہم بھی اپنے نام کے ایک ہیں سائمن سے ا سے ے تک ساری بات اگلوا لی ہے ہم نے." جارج نے فخریہ انداز میں اپنا کارنامہ بتایا. ان کی بات سن کر الہان نے سائمن کو گھورا. اسی دوران احتشام چچا حجر سے دستخط کروانے کے بعد واپس آئے. اب نکاح خواں نے الہان کے قریب بیٹھتے ہوئے اس سے سوال کیا.
"مسمی الہان مرتضی ولد مرتضی علوی, مسمات حجر ہارون دختر ہارون علوی کو باعوض شرعی مہر آپ کے نکاح میں دیا جاتا ہے. کیا آپ کو قبول ہے؟" لاؤنج میں اب خاموشی چھائی تھی اور سب کی نگاہ الہان پر ٹکی تھیں.
"قبول ہے." الہان نے جواب دیا تو نکاح خواں نے یہی الفاظ دو دفعہ پھر دہرائے. الہان کے دونوں دفعہ قبول ہے کہنے کے بعد لاؤنج میں مبارک باد کا شور گونجا. ان آوازوں میں سب سے بلند آواز اینڈی اور جارج کی تھی جو ایک دوسرے کے گلے لگے آپس میں مبارک باد کا تبادلہ کر رہے تھے. احتشام چچا سے گلے ملنے کے بعد الہان سائیکولوجسٹ امبرین فاروقی سے ملا جنہیں اس نے خاص طور نکاح کی دعوت دی تھی. کچھ دیر مبارک باد کا سلسلہ چلتا رہا پھر احتشام چچا کے ہمراہ سفید فراک میں ملبوس حجر لاؤنج میں آتی ہوئی دکھائی دی. مناسب چال چلتے ہوئے وہ الہان کے ساتھ آکھڑی ہوئی. احتشام چچا اسے سب رشتہ داروں سے ملوا رہے تھے سب سے آخر میں ڈاکٹر امبرین فاروقی سے ملوانے کی باری آئی تو احتشام چچا بولے
"حجر! یہ امبرین فاروقی ہیں. یہ ہماری فیملی فرینڈ اور الہان کی سائیکولوجسٹ ہیں." ڈاکٹر امبرین فاروقی نے آگے بڑھ کر حجر کو گلے لگایا
"میں الہان کی سائیکولوجسٹ تھی... اب سے تم اس کی سائیکولوجسٹ ہو. اپنا پیشنٹ میں نے تمہارے حوالے کر دیا ہے. کیا تم اس کے ذہنی پروزوں کی مرمت کر پاؤگی؟" وہ مزاخیہ خیز انداز میں بولیں تو حجر نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا. سب سے ملنے کے بعد وہ دونوں صوفے پر بیٹھ گئے تھے.
"احتشام چچا کتنی غلط بات آپ نے سب مہمانوں کا بھابھی سے تعارف کروایا سوائے ہمارے. مانا کے ہم جیسی ہستیاں تعارف کی محتاج نہیں مگر پھر آپ کو اخلاقاً تعارف کروانا چاہیے تھا نا آخر ہم بھی اپنے ضروری کام چھوڑ کر تقریب میں شرکت کر رہے ہیں." جارج نارضگی سے بولا.
"احتشام چچا نے نہیں کروایا تو کیا ہوا.... ہم خود اپنا تعارف کروا لیتے ہیں. مجھ سے ملیں بھابھی میں ہوں آپ کا وہ دیور جس نے پہلی بار آپ دیکھتے ہی یہ پیشن گوئی کر دی تھی کہ آپ ہی وہ معتبر ہستی ہیں جو پروفیٹگ مونسٹر جیسے بے لگام گھوڑ..." اس سے پہلے کہ اینڈی کی بات پوری ہوتی الہان نے ٹوک دیا
'"اینڈی.... زبان کو بریک لگا لو" الہان نے تنبیہ کی. حجر خاموشی سے ان کی گفتگو سن رہی تھی.
"میں تو بس تعارف کروا رہا تھا." الہان کی وارننگ دیتی نگاہوں کے نتیجے میں وہ واپس لائن پر آ گیا تھا.
"ہالو حجر! کیسی ہو؟" سائمن نے پہلی دفعہ گفتگو میں حصہ ڈالا تھا.
"بھابھی کہو بھابھی." جارج نے سائمن کی تصیح کرنا ضروری سمجھا. اسکی بات کے جواب میں سائمن نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا.
"میں ٹھیک ہوں." حجر نے سائمن کی بات کا جواب دیا.
"نکاح پر بہت بہت مبارک ہو." حجر نے سر ہلا کر نکاح کی مبارک باد وصول کی.
"پروفیٹک مونسٹر!" اینڈی سے زیادہ دیر خاموش نہیں رہا گیا.
"ہممم" الہان نے بادل نخواستہ جواب دیا.
"ذرا ایلکس کے سپیکرز کے قریب آکر میری بات سنیں." اردگرد موجود لوگوں کے پیش نظر وہ رازدانہ انداز میں بولا.
"جو کہنا ہے ایسے ہی کہہ دو." الہان لاپرواہی سے بولا.
"باس نہیں یہاں آرہے تو ایلکس تم ذرا باس کے پاس جاؤ." اینڈی نے اب ایکس کو حکم صادر کیا جس پر فوری عمل کرتے ہوئے ایلکس الہان کے صوفے کے قریب جا کھڑا ہوا.
"باس آپ نے بھابھی کو نکاح کا گفٹ نہیں دینا." اینڈی نے قدرے دھیمی آواز میں استفسار کیا مگر پھر بھی اس کے آواز الہان کے ساتھ بیٹھی حجر کے کانوں تک باآسانی پہنچ گئی تھی.
"کون سا گفٹ؟" الہان نے خود کو لاعلم ظاہر کرنے کی پوری کوشش کی.
"وہی بلو..." اینڈی راز فاش کرنے ہی لگا تھا جب اس کی بات کاٹ کر الہان سائمن کومخاطب کرتے ہوئے بولا
"سائمن کیا کوئی بات ایسی ہے جو تم ان تینوں چھپا پائے ہو" وہ طنزاً بولا تو سائمن نے شرمندہ ہوا.
"سائمن کی بھلا کیا غلطی ہے اس میں. اس نے ارادۃً نہیں بتایا ہو گا." سائمن کو شرمندہ دیکھ کر حجر نے فوراً اس کی طرف داری کی. الہان نے گردن موڑ کر اس کی تعجب سے اس کی جانب دیکھا. یہ پہلی دانستہ نگاہ تھی جو آج کے دن الہان نے حجر پر ڈالی تھی.
"بھابھی بالکل سہی کہہ رہی باس. سائمن نے ہمیں نہیں بتایا ہم نے تو آپ کی اور سائمن کی گفتگو سنی تھی اس لیے ہمیں معلوم ہو گیا تھا." پیٹر نے بھی سائمن کی طرف داری کی.
"ٹھیک ہے. مان لیا سائمن کی غلطی نہیں ہے. اب تم لوگ یہ بتاؤ کہ مجھ سے کیا چاہتے ہو؟" وہ سرینڈر کرنے والے انداز میں بولا.
"ہم بس کہ چاہتے ہیں کہ آپ بھابھی کو وہ گفٹ دیں جو آپ نے لے کر رکھا ہوا ہے." جارج نے مطالبہ پیش کیا.
"مگر وہ تو میری واڈروب میں رکھا ہے...."
"آپ بے فکر رہیں. ہم نے آپ کی واڈراب سے پہلے ہی نکلوا لیا ہے." اینڈی نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا تھا تو دانت پیس کر رہ گیا.
"ایلکس چلو, وہ گفٹ باس کو دو جو تم ان کی واڈراب سے نکال کر لائے تھے." پیٹر نے ایلکس کو حکم دیا جس پر عمل کرنے ہوئے ایلکس نے اپنا ہاتھ الہان کے آگے کیا اور مٹھی کھولنے لگا. اس کی ہتھیلی پر ایک سیاہ رنگ کا رنگ کیس رکھا تھا.
"چلیں باس رنگ پہنائیں." ان سب نے زور فیا تو الہان نے رنگ کیس ایلکس کی ہتھیلی سے اٹھایا اور اسے کھولنے لگا. الہان کے ہاتھ میں رنگ کیس دیکھ کر ان چاروں نے شور مچایا تو باقی سب افراد بھی ان کی جانب متوجہ ہو گئے. رنگ باکس سے میں بلو ڈائیمنڈ کی رنگ نکالنے کے بعد الہان نے حجر کی جانب ہاتھ بڑھایا. حجر نے اپنا بائیاں ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا. رنگ فنگر میں آنکھوں کو خیزہ کرتی بلو ڈائیمنڈ رنگ پہنانے کے بعد الہان نے آہستگی سے اس کا ہاتھ آزاد کیا. ایک نظر الہان کو دیکھنے کے بعد حجر نے اپنے ہاتھ میں چمکتے نیلے رنگ کے ڈائیمنڈ کو دیکھا جو اپنے نایاب رنگ اور پاکیزگی کی علامت ہونے کے باعث دنیا کے سب سے قیمتی ہیروں میں شمار ہوتا تھا.
......................
"احتشام چچا! میں چینج کر لیتی ہوں تو مجھے اپاٹمنٹ ڈراپ کر آئیں." لاؤنج میں رکھے صوفے سے اٹھتے ہوئے حجر نے ہانک لگائی. مہمان سب جا چکے تھے اور اس وقت احتشام چچا اور الہان کے علاوہ وہ اور فریحہ ہی موجود تھے. چائے کپ میں انڈیلنے کے بعد احتشام چچا کپ ہاتھ میں اٹھائے کچن سے باہر نکلے.
"پہلے چائے پی لو." اسے صوفے سے اٹھتے دیکھ کر احتشام چچا بولے.
"شکریہ" ان کی بات پر عمل کرتے ہوئے وہ کپ لے کر دوبارہ وہیں براجمان ہو گئی. وہ اب تک نکاح کے کپڑوں میں ہی ملبوس تھی. وہ وہیں بیٹھی چائے پی رہی تھی جب ڈرائیور ایک سوٹ کیس لیے اندر داخل ہوا.
"یہ میرا سامان ہے؟" وہ اپنا سوٹ کیس پہچان گئی تھی مگر پھر بھی اس نے تصدیق کرنا ضروری سمجھا.
"غالباً" چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے احتشام چچا بولے.
"میرا سامان یہاں کیا کر رہا ہے؟" اس نے حیرت سے سوال کیا.
"تم جانو اور تمہارا شوہر جانے." کہتے ساتھ احتشام چچا چائے کا کپ اٹھا کر اپنے کمرے کی جانب چلے گئے. ان کا انداز دیکھ کر ایک لمحہ لگا تھا حجر کو بات کی تہہ تک پہنچنے میں. غصے سے مٹھیاں بھینجتے ہوئے وہ سب سے پہلے کچن میں کام کرتی فریحہ کی جانب گئی.
"میرا سامان تم نے پیک کیا تھا؟" اس نے تصدیق کرنی چاہی.
"الہان سر نے کہا تھا اسلیے...." سر جھکائے فریحہ نے اپنی غلطی تسلیم کی.
"تمہارے الہان سر کو تو میں ابھی دیکھ لیتی ہوں تم بس یہ بتاؤ کہ ان کا کمرہ کس جانب ہے؟" وہ برہمی سے بولی. فریحہ نے اشارہ سے کمرے کا بتایا تو وہ اس بتائی گئی سمت میں بڑھنے لگی. کمرے کے دروازے پر پہنچ کر اس نے دروازہ ناک کیا.
"کم ان" گھمبیر آواز گونجی تو وہ دروازہ وا کرتے ہوئے اندر داخل ہوئی. الہان واڈروب کی جانب رخ کیے اپنے کپڑے نکالنے میں مصروف تھا اس لیے وہ دروازے پر اس کی موجودگی سے لاعلم تھا.
"مسٹر الہان!" دہلیز پر کھڑے کھڑے اس نے اسے پکارا.
"فرمائیں مسز الہان" رخ اس کی جانب موڑتے ہوئے وہ غیر سنجیدگی سے بولا. اس کی بات سن کر حجر نے تذبذب ہوئی.
"میرا سامان علوی ہاؤس کیوں لایا گیا ہے؟" وہ سخت لہجے میں بولی.
"او... تو سامان آگیا ہے. اچھی بات ہے. آپ اپنے لیے کسی کمرے کا انتخاب کرلیں." وہ مصروف سے انداز میں بولا.
"وجہ؟" اس نے بھنویں اچکائیں.
"اب سے آپ اسی گھر میں رہیں گی." وہ دو ٹوک انداز میں بولا.
"مجھے آپ کے گھر میں نہیں رہنا." وہ قطیعت سے بولی.
"یہ میرا نہیں آپ کے والدین کا گھر ہے." اس نے جتایا.
"مجھے پھر بھی یہاں نہیں رہنا." وہ ہنوز اپنی بات پر ٹکی ہوئی تھی.
"میں نے آپ کی رائے نہیں مانگی." اس کی بات سن کر حجر نے اسے غصے سے گھورا مگر الہان اسے کے غصے کو نظر انداز کیے اپنے کام میں مصروف رہا. بےبسی کے احساس کے زیر اثر وہ واپس مڑنے لگی جب الہان ایک بار پھر پکار بیٹھا
"آج رات آپ کی دبئی کی فلائٹ ہے. سات بجے نکلنا ہے." الہان نے اسے اطلاع دی.
"مجھے نہیں جانا." لمحے کی تاخیر کیے بغیر اس نے انکار کیا.
"ٹھیک ہے میں فلائٹ کینسل کروا دیتا ہوں. اگر آپ دبئی جا کر عتبہ کمال کے متعلق انفارمیشن نہیں لینا چاہتی تو آپ کی مرضی ہے." وہ بے نیازی سے بولا. وہ جانتا تھا کہ عتبہ کمال کا نام سن کر وہ ضرور مان جائے گی مگر حجر بغیر اسے کوئی جواب دیے واپس مڑ گئی.
"پھر میں فلائٹ کیسنل کرواؤں کا نہیں؟"اسے زچ کرنے کے لیے الہان بولا مگر وہ اسے نظر انداز کرکے چلی گئی تھی. سٹڈی کی جانب بڑھتے احتشام چچا نے حجر کو غصے سے الہان کے کمرے سے نکلتے دیکھا تو الہان سے بازپرست کرنے کے لیے اس کے کمرے میں آئے.
"یہ تم اچھا نہیں کر رہے الہان."
"حجر پر یوں اپنے فیصلے مسلط کرکے مجھے بھی اچھا نہیں لگ رہا مگر میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے." وہ قدرے بے بسی سے بولا.
"تم نرمی سے بھی اسے سمجھا سکتے تھے." انہوں نے اسے مشورہ دیا.
"میں نے اسے میڈیا کے سامنے جانے کے لیے نرمی سے ہی منع کیا مگر سنی اس نے میری بات؟ نہیں نا... اب میں جو کر رہا ہوں مجھے کرنے دیں. نکاح بھی میں نے اس لیے جلدی کروایا ہے تاکہ وہ علوی ہاؤس قیام کر سکے ورنہ بغیر کسی شرعی رشتے کے اس کا یہاں رہنا معیوب ٹہرایا جاتا."
"اگر وہ اپاٹمنٹ میں رہنا چاہتی ہے تو رہ لینے دو اسے وہاں." احتشام چچا نے حجر کی طرف داری کی.
"وہ اپاٹمنٹ میں سیف نہیں ہے. مانا کہ فریحہ وہاں موجود ہوتی ہے مگر اس کی موجودگی زیادہ معنی نہیں رکھتی. اگر وہ یہاں رہے گی تو کم از کم یہ اطمینان تو ہو گا نا کہ وہ نظروں کے سامنے موجود ہے."
"پریس کانفرنس کو گزرے دو دن ہو گئے ہیں مگر عتبہ کمال نے کوئی جوابی کاروائی نہیں کی. میرے خیال سے اب وہ کچھ نہیں کرے گا." وہ رسانیت سے بولے.
"عتبہ کمال خاموش بیٹھنے والوں میں سے نہیں ہے. پریس کانفرنس کے بعد پچھلے دو دن سے اس کی جانب سے کوئی جوابی کاروائی نہیں کی گئی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کچھ کرے گا نہیں. اس کی خاموشی کو ہلکا مت لیں یہ طوفان کے آنے سے پہلے والی خاموشی بھی ہو سکتی ہے اسلیے میں کوئی رسک نہیں لے سکتا. جب تک یہ کیس ختم نہیں ہو جاتا حجر علوی یہیں رہے گی." وہ دوٹوک انداز میں بولا. اس کی بات سن کر احتشام چچا نے ایک گہری سانس لی
"جو جی میں آئے کرو." اس کو اپنی بات پر ٹکے دیکھ کر احتشام چچا جھنجھلا کر کہتے ہوئے کمرے سے نکل گئے.
........................
وہ اس وقت اسلام آبد ایئرپورٹ کے ڈیپارچر ایریا میں کھڑی الہان کا انتظار کرنے میں مصروف تھی. الہان انکوائری سے فلائٹ کے متعلق پوچھنے گیا تھا. کچھ دیر انتظار کرنے کے باوجود جب وہ نہ آیا تو وہ متلاشی نگاہوں سے اردگرد دیکھنے لگی جب عقب سے آتا کوئی شخص اس سے ٹکرایا
"سوری" ٹکرانے کے فوری بعد وہ شخص اس کی جانب رخ کیے بغیر سوری کہتا ہوا اس کے قریب سے گزر کر آگے بڑھ گیا. حجر نے تعجب سے کالے کپڑوں میں ملبوس اس شخص کی پشت کو دیکھا جو اب لوگوں کے ہجوم میں نظروں سے اوجھل ہو رہا تھا.
"کیا ہوا ہے؟" اسے لوگوں کے ہجوم کو دیکھتے پا کر اس کی جانب بڑھتے الہان نے سوال کیا.
"کچھ نہیں." وہ چونکتے ہوئے بولی.
"چلیں پھر" الہان نے اسے بڑھنے کا اشارہ کیا تو وہ دونوں کندھوں پر پہنے ٹریولنگ بیگ کے سٹریپس میں انگلیاں پھساتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے لگی.
.....................
"پہنچ گئے ہیں دبئی؟" لائن کے دوسری جانب موجود اینڈی نے استفسار کیا.
"ہمم پہنچ گئے ہیں اور اب ہوٹل جا رہے ہیں." الہان نے جواب دیا. وہ کچھ دیر پہلے دبئی پہنچے تھے. ائیرپورٹ پر الہان کا ڈرائیور پہلے ہی انہیں پک کرنے کے لیے موجود تھا اور اب وہ دونوں ڈرائیور کے ہمراہ ہوٹل جارہے تھے. شام میں ہونے والی جھڑپ کی بعد ان دونوں میں ایئرپورٹ پر ہونے والے دو جملوں کے تبادلے کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہوئی تھی. حجر کا دوپہر کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا اس لیے اس نے فلائٹ کے دوران الہان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا تھا. عتبہ کمال کی متعلق تفتیش کرنے کا سن کر وہ دل پر پتھر رکھ کے اس کے ہمراہ آ گئی تھی ورنہ وہ کبھی آنے آمادہ نہ ہوتی.
"ہوٹل جانے کی ضرورت نہیں ہے آپ بھابھی کو لے کر اپنے گھر آئیں." اینڈی کے ہاتھ سے فون اچک کر جارج گویا ہوا.
"مگر..." الہان نے کچھ کہنا چاہا
"اگر مگر کچھ نہیں جلدی آئیں ہم آپ کے انتظار میں پلکیں بچائے بیٹھے ہیں." یہ جملہ پیٹر نے بولا تھا اور غالباً فون اب اس کے ہاتھ میں تھا.
"جلدی جلدی آئیں باس" اینڈی نے زور دیا اور ساتھ ہی فون بند کر دیا. ایک نظر فون سکرین کو دیکھنے کے بعد الہان نے ڈرائیور کو گھر چلنے کی ہدایت دی. کچھ دیر بعد گاڑی دبئی کے پوش علاقے میں بنے ولے کے پورچ میں رکی. الہان اپنی جانب کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور حجر کا انتظار کرنے لگا. حجر کو اندر بڑھنے کا اشارہ کرتے ہوئے اس نے خود بھی اس کی تقلید کی. پورچ سے گزر کر وہ اندرونی دروازے کی جانب بڑھے جہاں کیتھی اور وہ چاروں ان کے استقبال میں کھڑے تھے.
"ویلکم بھابھی!" بکے اس کی جانب بڑھاتے ہوئے وہ سب ایک ساتھ بولے. حجر نے کچھ جھجھکتے ہوئے بکے تھاما.
"کبھی میرا استقبال تو تم لوگوں نے اتنی گرمجوشی سے نہیں کیا." جل کر کہتے ہوئے الہان ان کے قریب سے گزر کر اندر بڑھ گیا.
"بھابھی تو پہلی دفعہ آئیں ہیں جبکہ آپ تو پہلے دن سے ہمارے سر پر مسلط... میرا مطلب ہے کہ ہمارے ساتھ رہ رہے ہیں." اینڈی نے بمشکل بات سمبھالی. حجر اب کیتھی سے مل رہی تھی جو آج کل پیٹر اور اپنی شادی کی تیاری کے سلسلے میں دبئی میں قیام پزیر تھی.
"تم چاروں ذرا میرے ساتھ آؤ." ان سب کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ خود سٹڈی میں چلا گیا.
"لو جی آگئی وہ گھڑی جب ہمیں پچھلے پندرہ دنوں میں آفس ٹائم میں ضائع کیے گئے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہے." جارج بڑبڑایا.
"چلو.... اب باس سے ڈانٹ کھانے کے لیے تیار ہو جاؤ." حجر کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھتے ہوئے کیتھی مزے سے بولی تو ان چاروں نے اسے سخت نگاہوں سے گھورا.
"بھابھی! پورے پانچ منٹ بعد آپ سٹڈی میں آ جائیے گا پلیز" جارج نے دراخوست کی.
"مگر کیوں؟" حجر نے استفسار کیا.
"کیونکہ آپ ہماری بھابھی اور ہمیں جلاد میرا مطلب ہے باس سے بچانا آپ پر فرض ہے." اینڈی نے وجہ بتائی.
"تم لوگ آئے نہیں ابھی تک" سٹڈی کے دروازے پر نمودار ہوتے ہوئے الہان بولا.
"بس آگئے باس" سائمن نے جواب دیا پھر اینڈی اور جارج کو گھسیٹتے ہوئے سٹڈی میں چلا گیا. پیٹر نے بھی ان کی تقلید کی.
"یہ سب جانے سے اتنا گھبرا کیوں رہے ہیں؟" ان کے رویہ دیکھ کر حجر نے کیتھی سے دریافت کیا.
"ڈرامے کر رہے ہیں. پہلے خود ہی آفس میں بیٹھ کر وقت ضائع کرتے رہتے ہیں پھر جب باس انہیں ڈانتے ہیں اور سزا کے طور پر ان سے آور ٹائم کرواتے ہیں تو ان کی دہائیاں شروع ہو حاتی ہیں. ان کی فضول بولنے والی عادت کے باعث بھی اکثر و بیشتر ان کی باس کے ہاتھوں بے عزتی ہوتی ہے." کیتھی ان سب کو عرصے سے جانتی تھی تبھی ان کے حرکتوں سے بخوبی واقف تھی. اس کی بات سن کر حجر نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا.
"کب سے جانتی ہو تم انہیں؟"حجر نے سرسری لہجے میں سوال کیا.
"تقریباً دس سال ہو گئے ہیں. ہم سب ایک یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے ہیں. میں ان سے جونیر تھی اور چونکہ یہ سب کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ کے تھے اس لیے جب کبھی لیپ ٹاپ میں کوئی مسئلہ ہوتا ہم لوگ انہی سے مدد لیتے تھے. یونہی جان پہچان ہوئی تھی میری ان سب سے." کیتھی نے اسے تفصیل بتائی پھر ان کی باتوں کا سلسلہ یونہی چلتا رہا. کیتھی اسے اب اپنی اور پیِٹر کی شادی کے متعلق بتانے لگی تھی.
"لگتا ہے آج لمبی کلاس لگ رہی ہے ان کی." باتوں کے دوران کیتھی کو ان پانچوں کی غیر موجودگی کا احساس ہوا تو وہ بولی. اس کی بات سن کر حجر کو تشویش نے گھیرا.
"میرے خیال سے تمہے جا کر انہیں بچانا چاہیے." حجر نے کیتھی کو مشورہ دیا.
"میں اندر گئی تو باس نے مجھے بھی گھسیٹ لینا ہے بیچ میں. ہاں اگر تم جاؤ گی تو یقیناً باس آج کی بے عزتی ملتوی کر دیں گی." کیتھی گویا ہوئی.
"میں نہیں جا رہی." حجر نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی.
"آؤ ذرا دیکھیں تو سہی کہ باس تمہاری کتنی بات مانتے ہیں." اس کا ہاتھ پکڑ اسے صوفے سے اٹھاتے ہوئے کیتھی بولی. اب وہ اسے گھسیٹنے کے انداز میں سٹڈی کی جانب لے جا رہی تھی. سٹڈی کے دروازے پر پہنچ کر حجر نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا مگر اس کی بات کہ پرواہ کیے بغیر کیتھی نے سٹڈی کا دروازہ ناک کیا.
"کم ان" اندر سے الہان کی آواز آئی.
"تم انہیں بچاؤ تب تک میں کھانا لگاتی ہوں." اتنا کہہ کر کیتھی کچن کی جانب بڑھ گئی. اس کی بات سن کر حجر کو سٹڈی میں جانے کا بہانہ سوجھا. ایک لمحے میں اس نے اپنا اعتماد بحال کیا اور دروازہ کھولا. اسے دروازے میں کھڑا دیکھ کر الہان نے استفہامیہ انداز میں آبرو اچکائی جبکہ الہان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے باقی چاروں نے شکر کا سانس لیا.
"آئیں بھابھی... میں آپ کو باس کی سٹڈی دکھاتا ہوں. اینڈی فوراً اس کی جانب لپکا اور جھک کر اس نے حجر کو اندر آنے کا راستہ دیا.
"اینڈی! واپس آؤ" الہان نے سخت لہجے میں اینڈی کو پکارا.
"دیکھ لیں بھابھی... آپ کا شوہر یہ سلوک کرتا ہے ہمارے ساتھ." بے چارگی کے تاثرات منہ پر لاتے ہوئے اینڈی دھیمی آواز میں بولا پھر الہان کا حکم مانتے ہوئے واپس جارج کے ساتھ جا کر کھڑا ہو گیا.
"کیا بات ہے حجر؟" اس ہنوز وہاں کھڑے دیکھ کر الہان سے استفسار کیا.
"کیتھی کھانے کے لیے سب کو بُلا رہی ہے." حجر نے بہانہ پیش کیا.
"آ رہے ہیں ہم لوگ." الہان اسے جواب دے کر واپس ان چاروں کی جانب متوجہ ہوا.
"آئندہ تم لوگوں کی شکایت مجھ تک نہ پہنچے اور اینڈی تم اپنی زبان کو لگام دو. جارج اور تم ہر وقت فضول بولتے رہتے ہو..." دہلیز سے واپس مڑتی حجر کے کانوں سے الہان کی آواز ٹکرائی تو اس ضبط جواب دے گیا
"بس کر دیں. پچھلے آدھے گھنٹے سے مسلسل انہیں لیکچر دیے جا رہے ہیں. اگر وہ کبھی کبھی آفس میں ٹائم پاس کر بھی لیتے ہیں تو یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہیں اور اگر وہ آپس میں ہنسی مذاق کر لیتے ییں تو اس میں بھی کوئی برائی نہیں ہے." حجر کی بات سن الہان نے تعجب سے اور ان چاروں نے تشکر آمیز نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا.
"ٹھیک ہے جاؤ تم لوگ." کچھ سوچ کر الہان نے انہیں جانے کی اجازت دی تو وہ سب سر جھکا کر حجر کے قریب سے گزرتے ہوئے باہر نکلنے لگے.
"آپ ان معاملات میں دخل نہ ہی دیں تو بہتر ہیں." ان سب کے جانے کے بعد الہان بولا.
"جس دن آپ میرے معاملات میں دخل دینا بند کردیں اس دن میں بھی باز آجاؤں گی ورنہ جس طرح میں آپ کو برداشت کر رہی ہوں آپ بھی مجھے برداشت کرتے رہیں." وہ تڑخ کر بولی اور اس کو کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر باہر نکل گئی. کھانا ان سب نے خاموشی سے کھایا تھا.
"کل میٹنگ کتنے بجے ہے؟ اور اینڈی پریزنٹیشن تیار ہے تمہاری؟" الہان نے سنجیدگی سے سوال کیا.
"میٹنگ گیارہ بجے ہے اور پریزنٹیشن بھی تیار ہے." اینڈی نے جواب دیا پھر کیتھی اور وہ چاروں جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے.
"اب ہمیں جانیں کی اجازت دیں باس" سائمن گویا ہوا.
"تم چاروں کہاں جا رہے ہو؟" الہان نے حیرانی سے استفسار کیا کیونکہ وہ چاروں اسی کی گھر قیام پزیر تھے.
"اس گھر میں ہمارا دانہ پانی ختم ہو گیا ہے اب وقت آ گیا ہے ہم سب اپنا کوئی اور گھونسلہ ڈھونڈیں." اینڈی افسردگی سے بولا.
"کبھی سنجیدہ بھی ہو جایا کرو اینڈی." الہان برہمی سے بولا.
"باس! دراصل ہم آپ کی تنہائی کے پیش نظر آپ کے ساتھ رہتے تھے مگر اب بھابھی آ گئی ہیں تو اس لیے ہم اپنے اپنے گھر جا رہے ہیں." پیٹر نے سنجیدگی سے جواب دیا. اس کی بات سن کر الہان نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا جب جارج بول اٹھا
"ہمیں روکیے گا مت پروفیٹک مونسٹر. ہماری رخصت ہونے کا وقت آ گیا ہے." جارج ڈرامائی انداز میں بولا.
"تمہے کس نے کہا میں تم لوگوں کو روکنے والا تھا میں تو بس یہ کہہ رہا تھا کہ جاتے ہوئے دروازہ بند کر دینا." الہان بے مروتی سے بولا.
"یہ آپ اچھا نہیں کر رہے باس. ہم اتنے سالوں سے آپ کے تنہائی بانٹتے آئے ہیں اور آج بیوی کے آ جانے پر آپ ہماری عظیم قربانیوں کو فراموش کر رہے ہیں." پیٹر نے گفتگو میں حصہ ڈالا.
"کیتھی! تم اسے سمجھاتی کیوں نہیں؟" پیٹر کی اورایکٹنگ دیکھ کر الہان کیتھی کو مخاطب کرتے ہوئے بولا.
"زبانی کلامی سمجھانے سے کیتھی, پیٹر کو اثر نہیں ہونے والا میری مانو تو دو ڈنڈے لے کر اس کی اچھے سے دھلائی کرو پھر شاید اس کی دماغی حالت کچھ بہتر ہو جائے." جارج نے کیتھی کو مخلصانہ مشورہ دیا. اس کی بات کے جواب میں پیٹر کوئی جوابی کاروائی کرنے ہی لگا تھا جب اینڈی حجر کو مخاطب کرتے ہوئے بولا
"بھابھی ہمارے گھونسلے کے کل پانچ چِڑوں میں سے ایک مکمل طور پر اڑ چکا ہے جبکہ ایک اڑان کی تیاری میں مصروف ہے. آپ سے گزارش ہے کہ آپ اپنے اس دیور کو یہ دعا دیں کہ اگلا نمبر اس کا آئے." اینڈی نے اپنی عرضی پیش کی.
"چلو تم دونوں" ان سب کو فضول گوئی میں مصروف دیکھ کر سائمن جارج اور اینڈی کو لے کر دروازے کی جانب بڑھنے لگا.
"کیتھی اپنے والے پیس کو تم خود لے آؤ." سائمن کا اشارہ پیٹر کی جانب تھا. سائمن کی بات پر فوراً عمل کرتے ہوئے کیتھی بھی حجر سے ملنے کے بعد پیٹر کے ساتھ دروازے کی جانب بڑھی.
"بائے باس... بائے بھابھی." دروازہ پار کرتے ہوئے اینڈی اور جارج بولے.
"دائیں جانب بنے تیسرے کمرے میں چلی جائیں." ان کے جانے کے بعد الہان گیسٹ روم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا تو حجر سر ہلاتے ہوئے صوفے پر رکھا اپنا بیگ اٹھا کر اس کے بتائے گئے کمرے کی جانب بڑھ گئی. لاؤنج کی لائٹس آف کرکے الہان نے بھی اپنے کمرے کا رخ کیا.
..................
YOU ARE READING
Siad
Mystery / ThrillerSiad means hunter. It is thriller novel. It is about a girl live in norway and a pakistani boy. Read the novel to know how they came across each other.