ہانی خوش تھی اسکا تمتماتا ہوا چہرہ دیکھ کر آفان بھی خوش تھا۔وہ اس کو اپنے فلیٹ میں لےآیا۔اب وہ مطمئن تھا کہ اس نے ہانی کو اس کے بابا اور حسن سے بچا لیا۔۔۔حسن جو انتہائی درجے کا غیر اخلاق انسان تھا۔۔۔اس کے روز مرہ کے قصے پورے گاؤں میں پھیلے ہوئے تھے۔گاؤں کی لڑکیوں کو تنگ کرنا۔۔۔۔جوا کھیلنا اور شراب نوشی جیسی لغو چیزیں اس کے روز مرہ کا معمول تھیں۔
ملک احسان کو جب پتہ چلا کہ ہانی گھر پر نہیں ہے تو وہ بہت غصے میں آگئے۔ملک احسان کے بڑے بھائی ملک سبحان چونکہ اس وقت ان کے گھر رشتہ پکا کرنے آئے تھے اس وقت وہ بھی ان کےگھر پر تھے اور ان کے ساتھ حسن بھی تھا۔انہوں نے جب ہانی کو بلانے کے لیئے بولا تو احسان صاحب کی بیگم نے کہا کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔پہلے تو وہ سمجھے کہ کسی سہیلی کے گھر گئی ہوئی ہے لیکن جب ان کی بیگم نے بتایا کہ وہ کل شام سے گھر پر نہیں تو وہ غیض و غضب کے عالم میں دھاڑے۔
”اگر اس سب میں چوہدری یاور کے بیٹے کا کام ہوا تو میں اس کو چھوڑوں گا نہیں۔“
ملک سبحان نے چونک کر اپنے بھائی کو دیکھا۔۔۔پریشان تو وہ بھی تھے آخر کو ایک ہی بھتیجی تھی وہ بھی بے حد عزیز۔۔۔ایسے کیسے وہ گھر چھوڑ کر چلی گئی۔حسن کے فعال سے وہ اچھی طرح واقف تھے۔۔۔۔دل سے وہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ ہانی حسن کی بیوی بنے۔۔۔ لیکن اسکی ضد کہ شادی کروں گا تو صرف ہانی سے۔۔۔بقول حسن کے اس کو ہانی سے شدید قسم کی محبت تھی۔۔۔۔اس کی بات مان کر وہ بھائی کے گھر ہانی کے لیئے آئے۔
باپ چچا دونوں ہانی کو اندھے کنویں میں دھکیلنا چاہتے تھے۔
”چوہدری یاور کے بیٹے کا یہاں کا ذکر؟“ملک سبحان نے پوچھا۔
”بھائی صاحب چوہدری یاور اپنے بیٹے آفان کے لیئے ہانی کا رشتہ مانگنے آیا تھا۔پر میں نے انکار کر دیا اور ہانی بھی چاہتی تھی کہ اس کی شادی آفان سے ہوجائے۔“
انہوں نے بغیر لگی لپٹی بات بتا دی۔
”تو تم نے انکار کیوں کیا؟“
انہوں نے حیران ہو کر بھائی کو دیکھا۔
”بھائی صاحب کیا کہہ رہے ہیں آپ۔۔۔آپ کو نہیں یاد کیا کِیا تھا اس کے بڑوں نے۔“
”احسان تم شاید بھول رہے ہو جو کچھ بھی ہوا تھا بہت پہلے ہوا تھا اب کوئی تک نہیں بنتی تھی انکار کی۔اور ویسے بھی کب تک اس نام نہاد جھگڑے کے پیچھے اپنے بچوں کی ذندگی خراب کرتے۔۔۔رشتہ سے انکار ہی ہوا تھا کون سا کسی نے قتل کر دیا تھا۔اور رہی بات آفان کی تو بہت اچھا سلجھا ہوا لڑکا ہےاگر تم ہانی کی اس سے شادی کر دیتے تو وہ ہمیشہ اس کو خوش رکھتا۔“
”پر بھائی صاحب میں نے تو اس لیئے انکار کیا کہ آپ کو برا نہ لگے۔حسن میرا اپنا بیٹا ہے۔“
”ہنہنہ۔۔۔بیٹا۔۔یہ بیٹا کہلانے کے لائق ہے؟“
انہوں نے جیسے حسن کے منہ پر تمانچہ مار دیا تھا۔
YOU ARE READING
سزاءِوصل(مکمل)
Fantasyانسان سےغلطی ہوجاتی ہے۔لیکن اس غلطی کی سزااور جزاکااختیار صرف اور صرف ایک ذات کےپاس ہے اور وہ ذات ہے اللہ ربلعزت کی۔۔۔وہ جس کو چاہے سزادے۔۔۔جس کو چاہے جزادے اور جس کو چاہے اس غلطی کی سزادے۔ لیکن انسان سمجھتاہے کہ وہ کسی کو اسکی غلطی کی سزادےکر بہت ا...