”ثانیہ جلدی کرو یار۔۔۔ٹائم نہ نکل جائے۔“نیچے سیڑھیوں کے قریب کھڑا واجد پچھلے دس منٹ میں تقریبا پچاس بار یہ جملہ دھرا چکا تھا۔ثانیہ کمرے میں تھی وجہ اسکا تیار ہونا نہیں تھی۔۔۔وجہ اس کا کمرے کو اچھی طرح صاف کرنے کی تھی۔۔۔اسکا بیٹا جو اپنے کھلونے اِدھر ادھر پھینک دیتا تھا وہ ان کو سمیٹ رہی تھی۔۔۔کیونکہ اسکو پھیلاوا بالکل بھی پسند نہ تھا۔
واجد اور ثانیہ نے شہر جانا تھا۔۔ثانیہ کے بیرونِ ملک جانے کے لیئے کچھ کاغذات بنوانے تھے۔۔۔ہاں ثانیہ جارہی تھی اپنا خواب پورا کرنے کے لیئے۔۔۔ہاں واجد اس کا خواب پورا کرنے والا تھا۔واجد ہی نے تو اس کا ادھورا خواب پورا کرنا تھا۔وہ واجد تھا ثانیہ کا ہر خواب پورا کرنے والا۔۔وہ جو اس نے سوتی آنکھوں سے دیکھے تھے یا وہ جو اسنے جاگتی آنکھوں سے دیکھے تھے۔”آرہی ہوں واجد۔“ثانیہ نے جواب دیا۔۔۔خوشی اس کی انگ انگ سے واضح تھی۔
”جلدی آجاؤ نہ۔“واجد نے پھر سے دھائی دی۔
”لیں آ گئی۔“
کمرے کا درواذہ بند کرتے ہوئے وہ سیڑھیوں تک آئی۔اور سیڑھیاں اترنے لگی۔نیلے آسمانی رنگ کے جوڑا پہنے کالی چادر لیئے ہوئے وہ نیچے آرہی تھی۔واجد جو نیچے کھڑا تھا اسکو دیھ کر مسمیرائز ہوا۔۔۔۔وہ ہمیشہ مسمیرائز ہو جاتا تھا۔۔۔ثانیہ کو دیکھنے کے بعد وہ ایسا ہی ہو جاتا تھا۔
ثانیہ جب سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی تو واجد نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔ایک ہاتھ میں اسکے بیٹے کا ہاتھ تھا اور دوسرے ہاتھ میں ثانیہ کا ہاتھ۔۔وہ پرفیکٹ فیملی تھے۔۔۔وہ پرفیکٹ کپل تھے۔۔جسٹ میڈ فور ایچ ادراک(.Just Made For Each Other) انکا بیٹا انکی طرح پرسکون۔۔۔پراعتماد۔۔۔ذہین اور ماں باپ سے بےحَد پیار کرنے والا۔
اگر دیکھنے والا یہ کہے کہ اللہ نے ان دونوں میں محبت بہت رکھی ہے تو واقع وہ دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے۔
”واجد مجھے بہت گبھراہٹ ہو رہی ہے۔“گاڑی مں بیٹھنے کے بعد ثانیہ بولی۔
یہ سنتے ہی واجد نے اسکو مسکراتی آنکھوں سے دیکھا کیونکہ صبح سے پتہ نہیں وہ کتنی بار یہ جملہ دہرا چکی تھی۔اور واجد ہر بار اس سے وجہ پوچھتا اور وجہ وہ جانتا تھا۔اس بار بھی اس نے وجہ پوچھی۔”کیوں؟“
”اگر میرے ڈاکومنٹس اپرؤ نہ ہوئے تو؟“
”ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو ثانیہ۔۔۔۔تم نے محنت کی ہے تمہارے مارکس بھی بہت اچھے ہیں۔۔۔پھر ٹینشن نہ لو اور سب اللہ پر چھوڑ دو۔“اس بار واجد کا جواب مختلف تھا۔۔۔پہلے وہ کہتا کچھ نہیں ہوتا اس بار اس نے کہا سب اللہ پر چھوڑ دو تو واقع ثانیہ نے پھر سب اللہ پر چھوڑ دیا۔
”جی۔“ثانیہ نے سر ہلا دیا۔
________________
محمد نے گاڑی پارک کی اور ہسپتال کا مرکزی دروازہ پار کر کے سیدھا لفٹ کے پاس گیا۔سیکنڈ فلور پر پہنچ کر سامنے ہی اسے نانا جان دکھے۔ناناجان نڈھال سے کرسی پر بیٹھے تھے۔وہ سیدھا جا کر انکے پاؤں میں بیٹھ گیا۔کوئی کہہ سکتا تھا وہ بلیک ٹو پیس سوٹ میں ملبوس لمبا چوڑا مرد ایسے بھی ٹوٹ سکتا ہے۔
اس نے نانا جان کے ہاتھ تھام کر بہت بیتابی سے پوچھا۔
YOU ARE READING
سزاءِوصل(مکمل)
Fantasyانسان سےغلطی ہوجاتی ہے۔لیکن اس غلطی کی سزااور جزاکااختیار صرف اور صرف ایک ذات کےپاس ہے اور وہ ذات ہے اللہ ربلعزت کی۔۔۔وہ جس کو چاہے سزادے۔۔۔جس کو چاہے جزادے اور جس کو چاہے اس غلطی کی سزادے۔ لیکن انسان سمجھتاہے کہ وہ کسی کو اسکی غلطی کی سزادےکر بہت ا...