باب نمبر:١٤

1K 56 16
                                    


امانہ کمال صاحب اور انکی بیگم کے ساتھ رہ رہی تھی۔۔۔جب دو دن تک آفان اور ہانی واپس نہ آئے تو کمال صاحب نے اپنے اسرو رسوخ سے پتہ کروایا اور ان دونوں کی موت کا جب پتہ چلا تو اس کشکمکش میں تھے کہ امانہ کو کیسے بتائیں۔
امانہ خاموش طبیعت تھی اسنے کوئی شور شرابہ نہیں مچایا تھا لیکن پھر بھی وہ اپنے ماں باپ کو مِس کر رہی تھی لیکن بولتی کچھ نہ تھی کیونکہ جانے سے پہلے ہانی نے اسکو سمجھایا تھا۔

"امانہ۔۔میں اور آپ کے پاپا گاؤں جارہے ہیں۔ہمیں نہیں پتہ کتنے دن رکنا پڑے لیکن آپ نے انکل،آنٹی کو تنگ نہیں کرنا اور ہمیشہ گڈ گرل بن کر رہنا ہے۔اوکے؟"

"اوکے مما۔"

"گڈ۔۔اور آپ نے ہمیشہ اپنے پاپا اور مما کا مان رکھنا ہے۔۔۔آپ کو اپنے نام کا مطلب پتہ ہے نہ؟"

امانہ نے سر ہلا دیا۔

"امانت دار۔۔۔آپ نے ہمیشہ اپنے گھر والوں کی عزت کا خیال رکھنا ہے۔۔گھر والوں کی عزت امانت ہوتی اور اس میں کبھی خیانت نہیں کرنی۔"

پتہ نہیں اس وقت امانہ کو یہ باتیں سمجھ آئیں تھیں یا نہیں لیکن اسنے اثبات میں سر ضرور ہلایا تھا۔کیونکہ اسکو اپنی مما کی ہر بات ماننی ہوتی تھی۔
جاتے وقت آفان اور ہانی نے اسکو ڈھیر پیار کیا تھا کیونکہ وہ پہلی مرتبہ اسکو ایسے اکیلا چھوڑ کر جارہے تھے۔

_____________

محمد کی حالت دیکھ کر نانا جان نے نانی جان کو خود کو سنبھالنے کے لیئے کہا اور نانی جان نے بھی محمد کی خاطر خود کو سنبھالنے کے لیئے کوشش کی لیکن کچھ دکھ اتنے ناسور ہوتے ہیں کہ ذندگی بھر نہیں ٹھیک ہوتے۔

ناناجان نے شہر جانے کے لیئے کہا کیونکہ محمد حد سے ذیادہ خاموش ہوگیا تھا۔۔۔کسی کے بلائے بغیر وہ کوئی جواب نہ دیتا۔۔۔اسکو اس ماحول سے دور رکھنے کے لیئے وہ شہر چلے گئے وہاں اسکو پڑھایا لکھایا اور پھر اسنے اپنی ماں،ثانیہ کا خواب پورا کیا۔اسنے اسکول بنایا۔

نانا جان اکثر اسکو شادی کرنے کا کہتے لیکن وہ ٹال دیتا۔اسنے نے اپنے باپ،ماں کی محبت دیکھی تھی۔۔۔۔وہ کیا کہتا شادی سے اسکو ڈر لگتا ہے۔۔۔۔اسکی ماں اسکے باپ کی محبت کے لیئے اسکو چھوڑ گئی تھی۔لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ انکا وقت بھی مکمل ہوچکا تھا لیکن ڈر تو لگتا ہے نہ۔۔سب کو ڈر لگتا ہے۔

___________

آنسو تواتر سے اسکی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ہاسپٹل کے پرائیویٹ روم میں اس وقت چوہدری یاور ان دونوں کو واجد ، ثانیہ اور آفان ، ہانی کی کہانی سنا رہے تھے۔امانہ انکے ساتھ لگی سسک رہی تھی۔اپنے ماں ، باپ کی محبت کی وہ خود بھی گواہ تھی۔لیکن اپنے باپ آفان کی اداسی وہ اب سمجھی تھی۔۔وہ اپنی بہن کو مِس کرتا تھا۔

"دادا جان۔لوگ کیوں دوسروں کے بارے میں نہیں سوچتے۔"امانہ نے بھیگی آواز کے ساتھ پوچھا۔

سزاءِوصل(مکمل)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora