Aakhri Hissa

890 60 62
                                    

*اَلسَـلامُ عَلَيْـڪُم وَرَحْمَـةُ اَلــلّــهِ وَبَـرَڪاتُـهُ‎

یہ ناول کا حصہ نہیں بلکہ کچھ مسائل لکھ رہی ہوں..

ناول میں.. میں نے نوٹ کیا کچھ لوگ عَلِیقہ کو عقیلہ پڑھ رہی ہیں.. حالانکہ صحیح نام(ALEEQA) ہے

اسی طرح جَزیلہ کو جُزیلا حالانکہ صحیح نام(JAZEELA) ہے..

خیر اب بات ناموں کی آئی ہے تو یہ بات ذہن نشین کرئیے ﷲ تعالیٰ کے بعض اسما یعنی کے نام کا اطلاق بغیر عبد کے بندوں پر کرنا حرام ہے..

جیسے کہ رحمٰن (نہایت مہربان، بہت مہربان) یہ صفت ﷲ تعالیٰ کی ہے بندوں کی نہیں تو اب کسی کو رحمٰن بلایا گناہ ہوا..

یا تو عبد الرحمن،، یا عتیق الرحمن،، یا عبید الرحمن کہنا چاہیے..

عبد(جسکا معنیٰ بندہ ہوتا ہے) یہ نسبت ضرور لگانی چاہیے..

آج کل صرف اسٹائیل دیکھ کر نام رکھتے ہیں معنیٰ کا کچھ پتہ نہیں ہوتا..

بہارِ شریعت ‘‘ حصّہ 16 صَفْحَہ 245پر صدرُ الشَّریعہ فرماتے ہیں   : بعض اَسماء اِلٰہیہ جن کا اِطلاق(بولا جانا ) غیرُ اللہ  پر جائز ہے ان کے ساتھ نام رکھنا جائز ہے ، جیسے علی، رشید، کبیر، بدیع، کیونکہ بندوں   کے ناموں   میں   وہ معنی مُراد نہیں   ہیں   جن کا ارادہ اللہ  تعالیٰ پر اِطلاق کرنے (بولنے ) میں   ہوتا ہے اور ان ناموں   میں   الف ولام ملا کر بھی نام رکھنا جائز ہے ، مَثَلاً العَلی، اَلرَّشید ۔  ہاں   اس زمانہ میں  چُونکہ عوام میں   ناموں   کی تَصغیر کرنے کا بکثرت رواج ہوگیا ہے ، لہٰذا جہاں   ایسا گمان ہو ایسے نام سے بچنا ہی مناسب ہے ۔ خُصُوصاً جب کہ اسماء اَلٰہیَّہ کے ساتھ عبد کا لفظ ملا کر نام رکھا گیا، مَثَلاً عبدالرحیم، عبدالکریم، عبدالعزیز کہ یہاں   مُضاف اِلَیہ سے مُراد اللہ  تعالیٰ ہے اور ایسی صورت میں   تصغیر(نام چھوٹا کرنا) اگر قصداً ہوتی تو معاذ اللہ  کفر ہوتی، کیونکہ یہ اس شخص کی تَصغیر نہیں   بلکہ معبودِ برحق کی تَصغِیر ہے مگر عوام اور ناواقِفوں   کا یہ مقصد یقینا نہیں   ہے ، اِسی لیے وہ حکم نہیں   دیا جائے گا بلکہ اُن کو سمجھایا اور بتایا جائے اور ایسے موقع پر ایسے نام ہی نہ رکھے جائیں   جہاں   یہ اِحتمال (گمان)ہو ۔  (دُرِّمُختار، رَدُّالْمُحتارج۹ص۶۸۸)

عبدالقادر کو قادر کہنا کیسا ؟

سُوال :   عبدُالقادِر، عبدالقدیر، عبدالرَّزَّاق وغیرہ نام والے افراد کو قادِر، قدیر  اور رزّاق کہ کر پکارنا کیسا ہے ؟

جواب : اِس طرح کے ایک سُوال کا جواب دیتے ہوئے شہزادۂ اعلیٰ حضرت حُضُور مفتیٔ اعظم ہند مولیٰنا محمد مصطَفٰے رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ المَنّان فرماتے ہیں  : ایسے ناموں   سے لفظ عبد کا حَذْف(یعنی الگ کر دینا) بَہُت بُرا ہے اور کبھی ناجائز و گناہ ہوتا ہے اور کبھی سرحدِ کفر تک بھی پہنچتا ہے  ۔ قادِر کا اِطلاق توغیر پر جائز ہے ۔  اس صورت میں   عبدُا لقادِر کو قادِر کہہ کر پکارنا بُرا ہے ۔ مگر قدیر کا اِطلاق غیرِ خدا پر ناجائز  ۔ کمافِی الْبَیْضاوی (جیسا کہ بَیضاوی میں   ہے ) اور اگر کسی کا نام عبدالقدوس، عبد الرحمٰن ، عبدالقیوم ہے تو اسے قدوس،  رحمٰن، قیوم کہنا ایسا ہی ہے جیسے اُسے (کہ) جس کانام عبداللہ ہو(اُس کو) ’’  اللہ  ‘‘ کہنا بَہُت سخت بات ہے ۔  والعِیاذُ بِااللّٰہ تعالٰی ۔  جس کا نام عبدُالقادِر ہو اُسے بھی عبدُالقادِر ہی کہا جائے ، جس کا عبدُالقدیر اسے عبدُالقدیر ہی کہنا ضَرور ہے ۔  عبدُالرَّزّاق کو عبدُالرّزّاق، عبدُالمُقْتَدِر کو عبدُالمُقتَدِر ۔  غیر پر اطلاقِ قَدیر و مُقتَدِر(یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کسی غیر کو قدیر اور مقتدر کہہ سکتے ہیں   یا نہیں   اِس مسئلے ) میں   عُلما کااِختِلاف ہے ۔ کَمَافِی غَایَۃِ الْقاضی حاشیہ شَرحُ الْبَیْضاوی ۔ (فتاوٰی مصطفویہ ص۸۹ ۔ ۹۰)

 مکمل☑️✔♡اسیـرِ شُمـا دلِ مَـن♡از:سیدہ احتشام aseere Shuma Dile Man By Sayyida Where stories live. Discover now