دانیا کو آج زندگی محسوس ہو رہی تھی ۔ وہ کتنے دنوں بعد فزا میں سانس لے رہی تھی کوڈ کی دنیا سے دور وہ آج صرف دانیا تھی یہ لمحے اسے بہت کم نصیب ہوتے تھے۔ بائک کی تیز رفتار کی وجہ سے ہوا کا رخ ان کی طرف تیز ہو رہا تھا اور دانیا کے پونی میں بندھے بال بار بار اس کے چہرے پر آ رہے تھے پیچھے بیٹھی ماہم ہوا کو محسوس کرتے لطف اندوز ہو رہی تھی وہ بھی آج کتنے دنوں بعد زندگی کے مسائل بھول کر زندگی کے دو دن جینے کو نکلی تھی ۔
کہاں چلنا ہے اب ۔ دانیا نے ماہم کو مخاطب کیا یہ صبح حلوہ پوری اور چنے کا ناشتہ کرنے کے بعد لاہور کی گلیوں کی خاک چھانتے اب بادشاہی مسجد کے راستے میں تھے مگر آج صرف ماہم کی چلنے والی تھی اسی وجع سے دانیا کسی بھی جگہ جانے سے پہلے ماہم سے پوچھ رہی تھی ۔
ہممم ۔ ایسا کریں حویلی ریسٹورینٹ چلیں ویسے بھی وہ بادشاہی مسجد کے ساتھ ہی ہے بادشاہی مسجد بھی گھوم لیں گے ۔ ویسے تو ماہم نے لاہور کا چپا چپا گھوم رکھا تھا اس کا بچپن جوانی لاہور کی ہی گلیوں میں گزرا تھا مگر آج وہ دانیا کے ساتھ گھوم رہی تھی تو لگ رہا تھا کہ کسی نئی ہی دنیا میں نکل آئی ہے اس کے ساتھ ایک قدم چلنا کتنا اچھا لگتا تھا اسے اتنا اچھا لگ رہا تھا تو اسے کتنا اچھا لگے گا جس کے نصیب میں دانیا لکھی ہو گی یہ خیال آتے ہی ماہم نے خیال چھٹک دیا کیا دانیا کی زندگی میں بھی کوئی آ سکتا ہے یہ سوال کرتے اس کے منہ سے بےساختہ "ناممکن" نکلا تھا ۔
کیا ہوا کیا ناممکن ہے ؟ دانیا نے ماہم کی آواز سنتے ہی کہا تھا ۔
کچھ نہیں کوڈ کچھ نہیں ۔ ابھی اسے اپنی زندگی پیاری تھی تو فر فر کہتی ٹال گئی ۔
نہ ڈرو تمہیں کچھ نہیں کہتی میں ۔ ۔ اتنی بری بھی نہیں ہوں اب ۔ دانیا نے دوستانہ لحجے میں کہا دانیا اس واقعے کے بعد سے ماہم سے نرم لحجے میں بات کر رہی تھی شاید اپنی غلطی کا ازالہ کرنا چاہتی تھی ۔
بالکل بھی نہیں کوڈ آپ تو بہت اچھی ہیں مجھے گونگا بہرا بنا سکتی ہیں کھڑکیوں سے نیچے بلکہ زمین سے بھی نیچے کا سفر کروا سکتی ہیں تو آپ بری کیسی ہو گئی ۔
اس کی بات پر دانیا مسکرا گئی مگر چہرے آگے ہونے کے بعض ماہم دیکھ نہ پائی تھی ۔
روکیں روکیں ۔ ۔ ۔ ماہم نے ایک دم شور کیا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہوا ۔ دانیا اس کے اس طرح شور کرنے پر بائک کو بریک دیتی پریشانی سے بولی ۔
گولا گنڈا ۔ ماہم نے سڑک کے ایک طرف پیچھے کھڑے گولا گنڈے والے کی طرف اشارہ کرتے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماہم تم نے اس لیے مجھے روکا ۔ دانیا حیرت زدہ ہوتے بولی ۔
ہاں ناں کوڈ اسی لیے تو بولا (اس نے کوڈ آہستگی سے بولا اتنا آہستہ کہ کوئی سن نہ لے وہ اکثر باہر اسی طرح اسے مخاطب کرتی تھی ورنہ آپ کہہ دیا کرتی تھی) مجھے گولا گنڈا بہت پسند ہے ۔
اف ماہم تم ۔ دانیا ہیلمٹ اتارتی بائک سے اتری بائک سائڈ پر کھڑی کی اور دونوں گولا گنڈا والے کے پاس آ گئے ۔
دو گولا گنڈا دے دیں ۔ ماہم سامنے کھڑے شخص سے مخاطب ہوئی ۔
نہیں ایک میں نہیں کھاؤں گی ۔ دانیا قریب آتی بولی ۔
کھائیں ناں بہت مزے کا ہوتا ہے ۔ ماہم کو یوں اکیلا کھانا اچھا نہیں لگا تھا ۔ سامنے کھڑے شخص نے ایک گولا گنڈا ماہم کے ہاتھ میں پکڑوایا ۔
نہیں تم کھاؤ مجھے زکام ہو جاتا ہے ۔ ماہم نے صاف جھوٹ بولا تھا ۔
ماہم مطمئن ہو گئی اور اب گولا گنڈا کھانے میں مصروف تھی ۔ ہائے کتنا ٹھنڈا ہے ۔ماہم کھاتے کھاتے خود سے مخاطب ہوئی ۔
اسے کھاتا دیکھ دانیا کو شدت سے کسی کی یاد آئی ۔
ارے اتنی سردی میں کون کھاتا ہے یہ ۔ وہ چڑ کر بولا تھا ۔
میں کھاتی ہوں اب تمہیں بھی کھانا پڑے گا ورنہ میں دوبارہ تمہارے ساتھ کہیں نہیں آؤں گی ۔ دانیا نے انگلی سے اشارہ کرتے کہا تھا ۔
اچھا ٹھیک ہے ٹھیک ہے چلو ۔۔۔۔ بھائی دو گولا گنڈا بنا دیں ۔ وہ سامنے کھڑے شخص سے مخاطب ہوا تھا ۔
ہائے اتنی سردی ہے اوپر سے یہ گولا گنڈا اتنا ٹھنڈا ۔ وہ منہ میں ڈالتے ہی بولا تھا ۔
ہاہاہاہا گولا گنڈا ٹھنڈا ہی ہوتا ہے ۔ اور ساتھ ہی دانیا نے اس کے ہاتھ میں پکڑا گولا گنڈا اس کے منہ پر لگایا ۔
اف ۔ اس نے اپنا ہاتھ دانیا کے ہاتھ سے چھوڑاتے کہا تھا ۔
اب میں کیسے کھاؤں اسے گندا کر دیا تم نے ۔ اس نے گولا گنڈا ٹھیلے پر رکھ دیا ساتھ ہی دانیا نے بھی گولا گنڈا رکھ دیا ۔
یہ کیا ہے ۔ ۔۔۔
جب تک تم نہیں کھاؤ گے میں بھی نہیں کھاؤں گی ۔ دانیا ضد کرتی بولی ۔
مت کھاؤ میں تو نہیں کھا رہا ۔ اور اس کے بعد دانیا نے کبھی گولا گنڈا نہیں کھایا ۔
چلیں ۔ ماہم کے مخاطب کرنے پر وہ اس کے خیالوں سے لوٹی ۔
ہاں چلو ۔ ماہم کو دانیا کے چہرے پر کچھ ادھورا پن محسوس ہوا مگر وہ خاموش رہی ۔
*************************************
صبح کے پانچ بج رہے تھے جب کامران یاور لاکھانی کے کمرے میں داخل ہوا ۔
یہ کیا طریقہ ہے ۔ یاور اونچی آواز میں غصہ میں بولا تھا بنا کامران کی عمر کا خیال کیے جو وہ اکثر کر لیا کرتا تھا اپنے باقی نوکروں کی نسبت کامران کو وہ عزت دیتا تھا مگر اسے اپنی نیند میں کسی کا خلل برداش نہیں تھا ۔
سر وہ سر ۔ کامران ہڑبڑایا ہوا تھا اور سانس پھولی ہوئی تھی اپنی عمر کے بعض اکثر تیز سیڑھیاں چڑھتے اس کی سانس پھول جایا کرتی تھی ۔
کیا ہوا کامران ۔ اس بار وہ نرمی سے بولا تھا ۔
سر وہ مال پکڑا گیا ۔ کامران اسی لہجے میں ہڑبڑاتا بولا ۔
واٹ ۔ یاور لاکھانی بیڈ سے ایک دم اٹھا ۔
سر مال پولیس نے پکڑ لیا ہے اور وہ چاروں ہسپتال میں ہیں حالت ناساز ہے ۔
بھاڑ میں جائیں وہ مجھے یہ بتاؤ مخبری کس نے کی جگہ کا تو مجھے تک نہیں پتا تھا ۔ یاور لاکھانی صدمے سے بولا ۔
سر کوڈ کی حرکت ہے کل شام وہ انہیں وہاں باندھ گیا تھا اور ابھی ایک گھنٹہ پہلے کسی نے پولیس کو خبر کر دی یقیناً یہ بھی کوڈ کی ہی حرکت ہے ۔
بہت بڑی غلطی کر دی کوڈ نے انہیں بتانا ہی پڑے گا کہ انہوں نے کس سے ٹکر لے لی ہے اب یاور لاکھانی انہیں بتائے گا کہ یاور لاکھانی کا نقصان کرنے والوں کی سزا کیا ہوتی ہے ۔ یاور آنکھوں میں شدید غصہ لیے بولا ۔
سر میرے لیے کیا حکم ہے ۔ کامران یاور کو اتنے غصے میں دیکھ کر ہمت کر کے بولا ۔
تم نے لاہور میں ایک لمبا عرصہ گزارا ہے ڈیڈ کے ساتھ لمبا عرصہ وفاداری برتی ہے کوڈ کے بارے میں ایک ایک بات پتا لگاؤ کوئی کمزوری کوئی راز کچھ بھی مجھے ہر حال میں کوڈ کو سبق سیکھانا ہے ۔
او کے سر ۔ کامران کہتا ہوا باہر نکلا جب کسی خیال کے تحت اس کے قدم رک گئے ۔
کامران نے مڑ کر یاور کو دیکھا ۔
سر دانیا ۔ کامران کا الفاظ تھے کہ جادو کہ یاور کی آنکھیں چمکی تھی ۔
*************************************
صائم زین اور فخر یونیورسٹی کی کینٹین میں بیٹھے تھے اور انہیں اکثر یہیں پایا جاتا تھا اگر ان کی کلاس نہ ہو رہی ہو تو انہیں ڈھونڈنا مشکل نہیں تھا تینوں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے اور ساتھ فرائز کھا رہے تھے کہ صائم کو اپنے کندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا تو صائم نے اپنے کھانا کھاتے ہاتھ روک کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی شخص موجود تھا جس سے زین کی لڑائی ہوئی تھی اور صائم سے اچھی خاصی بحث ۔
یہ تم نے اچھا نہیں کیا ۔ وہ لڑکا دبی آواز مگر غصے میں بولا ۔
ارے ایسا کیا کر دیا میں نے ۔ صائم نے ہاتھ ٹیشو سے صاف کیے جن سے وہ ابھی فرائز کھا رہا تھا ۔
تم نے میرے ساتھ جو کیا ہے بہت غلط کیا ہے وہ غنڈے بھیجوا کر تم نے اچھا نہیں کیا ۔ وہ پھر سے اسی لہجے میں بولا ۔
دیکھ بھائی مجھے نہیں پتا کہ تم کیا کہہ رہے ہو اور رہی بات تمہاری اس حالت کی (صائم نے انگلی سے اس کی گال پر پڑے نشان کو دیکھتے کہا ) تو خدا جانے کتنے لوگوں سے تمہاری لڑائی ہے اور کون تمہاری اس حالت کا ذمہ دار ہے اور ہاں اگر میں ایسا کرتا تو یقیناً تم یہاں کھڑے نظر نا آتے ۔
میں اچھے سے جانتا ہوں کہ یہ تمہاری ہی حرکت ہے ۔ وہ پھر سے غصے سے بولا ۔
دیکھو بھائی مجھے معاف کرو اور جا کر کسی اور گھر کی گھنٹی بجاؤ ۔ صائم کہتا کرسی پر بیٹھ گیا فلحال صائم کا اس کے منہ لگنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔
یاد رکھنا تمہیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔ یاد رکھنا ۔ وہ انگلی کا اشارہ کرتا بولا۔
صائم اسے پوری طرح نظر انداز کئے بیٹھا رہا اور وہ شخص لمبے قدم لیتا وہاں سے چلا گیا ۔
صائم سچ بتا یہ تیری حرکت ہے ناں ۔ زین غصیلی آواز میں بولا ۔
او نہیں بھائی میرا اس میں کوئی عمل دخل نہیں اور دوسری بات اپنے بڑے بھائی سے ایسے بات کرتے شرم نہ آئی تجھے ۔
بڑا بھائی تو دیکھو ۔ فخر نے اس کا مزاق اڑایا ۔
فخر یہ نا کر میں اس کا پورا ۔۔۔۔
ہاں ہاں توں اس کا پورا آدھا گھنٹا بڑا بھائی ہے اب خوش ۔ فخر نے اسے بیچ میں ہی روک دیا ۔
صائم مجھے بتا دے اگر یہ تیری حرکت ہے تو ہم کچھ کر لیتے ہیں ۔ زین اس بار فکرمندی سے بولا ۔
میرے چھوٹے بھائی چوہدری زین ظفر میں چوہدری صائم ظفر چوہدری خاندان کا چراغ ( ناکارہ چراغ فخر نے بیچ میں لقمہ دیا جس پر صائم نے اسے ایک گھوری کرائی اور پھر بات شروع کی) ہاں چوہدری خاندان کا چراغ اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ( آخری الفاظ اس نے زور دیتے کہے)
تو کس نے کی اس کی یہ حالت ۔ فخر فکرمندی سے بولا ۔
کیا پتا خود ہی نے کروائی ہو کون جانے کس کے دل میں کیا چھپا ہے ۔ صائم لاپروائی سے کہتا کرسی کی پچھت سے ٹیک لگا گیا ۔
************************************
عالیان بہت سکون سے اپنے کمرے میں بیٹھا تھا اس نے صبح چار بجے پولیس کو اطلاع دی تھی حالانکہ اس کا ارادہ تو انہیں ابھی کچھ اور وقت ویہیں بندھے رہنے دینے کا تھا مگر وہ کوئی رسک نہیں لے سکتا تھا کیونکہ زیادہ دیر ہونے پر ان کا بوس ان تک پہنچ جاتا تو اس نے یہی بہتر سمجھا کہ انہیں پولیس کے حوالے کر دے ۔
وہ بیٹھا کافی پینے میں مصروف تھا جب ایک شخص دوڑتا ہوا اندر آیا ۔
کوڈ پولیس نے چھایا مارا ہے ۔
واٹ ۔ عالیان کہتا کھڑا ہوا ۔
کوڈ میں خود دیکھ کر آ رہا ہوں پولیس اسی طرف آ رہی تھی نیچے والے ورکر کو تو میں نے بھگا دیا (ہر ایک کو پولیس کے آتے ہی بھاگ جانے کا حکم تھا کسی کا بھی پکڑا جانا افورڈ نہیں کیا جا سکتا تھا ) ۔
تم نکلو میں زرا اندر سے فائل لے آؤں ۔ عالیان نے اس شخص کو حکم دیا وہ کسی قسم کا کوئی راز یا ثبوت یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا ۔ سب لوگ دور سے ہی پولیس کو آتا دیکھ خفیہ راستے سے نکل چکے تھے یہاں موجود لوگوں کی کل تعداد چار تھی ایک عالیان دو ورکرز اور ایک عالیان کا سیدھا ہاتھ جیسے دانیا کے لیے اکرم ہے تینوں نکل چکے تھے سوائے عالیان کے اس سے پہلے عالیان نکلتا پولیس اندر آ چکی تھی عالیان نے منہ پر رومال باندھ لیا تاکہ کوئی اس کا چہرا نہ دیکھ پائے ۔ وہ اوپر کی منزل پر کھڑا نیچے دیکھ سکتا تھا عالیان نے کھڑکی سے چھلانگ لگائی اور نیچے کود گیا ایک پولیس والے کی نظر اس پر پڑی تو وہ بھی اس کے پیچھے بھاگا ۔
باقی پولیس کے لوگ اس جگہ کی تلاشی لے رہے تھے ۔
عالیان پوری رفتار سے بھاگ رہا تھا اور اسی رفتار سے پولیس آفیسر بھی اس کا پیچھا کر رہا تھا عالیان ایک گلی میں داخل ہو چکا تھا گلی آگے سے بند تھی عالیان نے اپنی کم عقلی پر ماتم کیا اس کے دماغ سے کیسے نکل گیا کہ اسے دوسری گلی میں جانا تھا ۔
ایک طرف بند گلی اور دوسری طرف سامنے کھڑا پولیس آفیسر ۔
عالیان نے گہری سانس لی سامنے کھڑے پولیس آفیسر پر نظر ڈالی تو وردی پر چوہدری محد کے حرف جگمگا رہے تھے آج وہ پہلی بار اسے دیکھ رہا تھا ورنہ نام تو کافی سن رکھا تھا اس نے مگر کبھی دیکھنے کا اتفاق نہ ہو سکا اور یہ تو وہ جانتا ہی تھا کہ یہ چوہدری محد ظفر اس کا بھائی محد ہی ہے ۔
سوری محد بھائی ۔ عالیان نے زیر لب کہا اور اس سے پہلے محد گولی چلاتا عالیان نے گولی چلا دی ۔
محد زمین پر گر گیا سینے سے خون نکل رہا تھا ۔ عالیان چاہ کر بھی اپنے قدم آگے نہ بڑھا سکا تھا ۔
عالیان توں پٹے گا مجھ سے ۔ بچپن میں کہے گئے محد کے الفاظ اس کے کانوں میں گونجے ۔
آپ نہیں مار سکتے مجھے ۔ عالیان بھاگتے ہوئے بول رہا تھا ۔
آج تو توں مار کھائے گا مجھ سے ۔ محد نے ہاتھ میں پکڑا بیٹ اس کی طرف کرتے کہا تھا ۔
کیا ہوا عالیان لگی کیا دیکھ کر چلا کر دیکھ لگ گئی ناں ۔ عالیان پاؤں پھسلنے سے گر گیا اور محد دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا اور فکرمندی سے بولا تھا اور اسے سینے سے لگا لیا ۔
کیسے اس کے ہاتھ نہیں کانپے تھے سہارا دینے والے سے زندگی کا سہارا چھینتے ہوئے کیسے اس نے محد پر گولی چلا دی ۔
محد نیم بےہوشی میں جا چکا تھا اسے اگر کچھ سنائی دے رہا تھا تو بس اتنا کہ کوئی اس کا نام لے رہا ہے ۔
عالیان محد کو اٹھائے گلی سے باہر نکل رہا تھا کچھ دیر میں وہ پولیس کی گاڑی تک پہنچ گیا محد کو اندر لیٹاتے اس نے زور سے تین بار ہارن مارا اور ساتھ ہی گاڑی کا سئرن بجا دیا جس سے پولیس کے لوگ باہر آئے ۔
عالیان انہیں محد کے پاس دیکھ کر چھپ گیا ۔
*************************************
عفاف کی آج ایک ہی کلاس تھی تو وہ بعد میں زوہیب کے ساتھ یونیورسٹی جانے والی تھی جب اسے لائنچ سے گزرتے ہوئے لینڈ لائن پر کال آتی سنائی دی اس نے دو رنگ بعد ہی کال اٹھا لی ۔
دوسری طرف اسے چوہدری محد کو گولی لگنے کی خبر دی گئی تھی ۔
امی ابو طائی طایا ۔ وہ سب کو آواز دے رہی تھی ۔
جب سب لاؤنچ میں پہنچے تو عفاف کو روتا ہوا بے حال پایا ۔
کیا ہوا بیٹا رفیق صاحب نے عفاف کو سینے سے لگاتے سہلایا تھا عفاف چھوٹی چھوٹی باتوں پر رو دیا کرتی تھی کسی ڈرامے کا کردار ہو یا ناول کا ہیرو کوئی مر جائے تو عفاف کے دو دن آنسو نہیں رکتے تھے ۔
ابا جی وہ وہ ۔۔۔ عفاف کی گلے میں آنسوں کی گلٹی بنی ۔
کیا ہو گیا عفاف کیوں روئے جا رہی ہو ۔ سدرہ نے اس کی حالت دیکھتے کہا ۔
امی وہ بھائی کو گو۔۔۔ولی لگی ہے ۔ عفاف مشکل سے اٹکتے ہوئے بولی ۔
کون سے ہسپتال میں ہے وہ ۔ اباجی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے کہا ۔
ابا جی وہ تو میں پوچھنا ہی بھول گئی ۔ عفاف آنسو صاف کرتے بولی ۔
زوہیب بیٹا زرا چیک کرو کس کی کال آئی تھی کہیں کسی نے مزاق تو نہیں کیا ۔ ابا جی نے پاس ہی کھڑے زوہیب کو کہا ۔
جی ابا جی ۔
زوہیب لینڈ لائن پر کھڑا معلومات لے رہا تھا ۔
اباجی محد شفاع ہسپتال میں ہے ۔
ہممم اچھا ہم ظفر کے ساتھ چلے جاتے ہیں تم عنایہ لوگوں کو یونیورسٹی سے پک کرتے ہوئے آنا ۔
جی بہتر ۔ زوہیب کہتا باہر کی طرف دوڑا ۔
*************************************
زوہیب یونیورسٹی کے باہر گاڑی میں بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا اس نے ان سب کو کال کر کے بلا لیا تھا ۔
کیا ہوا ہے آپ نے اتنی جلدی میں بلوایا ۔
ہاں وہ محد کو گولی لگی ہے ہسپتال جانا ہے ۔
کیا ۔ عنایہ حیرت سے بولی ۔
یااللّٰہ میرے محد کی حفاظت کریں ۔ عنایہ دل میں بولی ۔
چاروں گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے اور عنایہ کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھی اور آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔
زوہیب کی نظر شیشے پر پڑی تو آنکھوں کے سامنے عنایہ کا چہرہ آیا اس کا روتا ہوا چہرہ وہ دیکھ نا سکا تھا اور نظریں ونڈ سکرین کی طرف موڑ لی ۔
محبت بھی عجیب چیز ہے محبوب روئے یہ دیکھ نہیں سکتی اور کسی اور کے لیے روئے یہ سہہ نہیں سکتی ۔
*************************************
محد ہسپتال میں موجود تھا اس کا اوپریشن شروع تھا اس کے گھر اطلاع دے دی گئی تھی عالیان بھی ہسپتال میں ہی تھا وہاں سوائے محد کے کسی کی اس پر نظر نہیں پڑی تھی پھر بھی وہ سب سے چھپ کر کھڑا تھا کہ کہیں کسی پولیس والے کی نظروں میں نہ آ جائے ۔
اس کا دل چاہ رہا تھا وہ خود کو فنا کر دے زمین پھٹے اور وہ اس میں دفن ہو جائے اسے خود کے وجود سے کوفت محسوس ہو رہی تھی نفرت اندر تک پھیل رہی تھی ۔
اب وہ ٹھیک ہیں گولی نکال لی گئی ہے اب وہ خطرے سے باہر ہیں ۔ ڈاکٹر نے باہر آتے سب کو آگاہ کیا تھا عالیان نے گولی مہارت سے ماری تھی وہ محد کی جان نہیں لینا چاہتا تھا ۔
عالیان محد کی خبر سنتے ہسپتال سے نکل آیا سامنے سے اسے چوہدری خاندان کا مجمع آتا دیکھائی دیا ۔
عالیان انہیں دیکھ کر رخ موڑ گیا ۔
بھائی ۔ اسے عمارہ کی آواز کانوں میں آتی محسوس ہوئی تو جیسے کسی نے زندگی لوٹا دی ہو ۔
زوہیب بھائی ۔ عمارہ نے پھر سے کہا تھا مگر عالیان کے لیے عمارہ کے منہ سے بھائی سننا ہی کافی تھا ۔
سب ہسپتال میں داخل ہو چکے تھے اور عالیان بھی کیبب میں بیٹھ چکا تھا ۔
کیا میں انسان ہوں ۔ عالیان نے خود سے سوال کیا جواب ميں اسے خاموشی کے سوائے کچھ نہ ملا ۔
*************************************
کل کی طرح آج بھی ماہم اور دانیا تفریح کو نکلے ہوئے تھے مگر آج یہ دونوں ایک عام سے ڈھابے پر بیٹھے ہوئے تھے ۔
جب ٹی وی پر محد کو گولی لگنے کی خبر ان کی نظروں سے گزری تھی ۔
کوڈ مجھے یہ ہمارے کسی بندھے کی حرکت لگتی ہے ۔ ماہم نظریں جھکائے دیھمی آواز میں بولی کیونکہ جس جگہ محد کو گولی لگنے کی خبر چل رہی تھی وہ جگہ اس گھر کے قریب ہی تھی جہاں ماہم سورنگ کے ذریعے گھسی تھی اور دانیا نے ہی بتایا تھا کہ یہ کسی کوڈ کی جگہ ہے ۔
ہاں ہمارا ہی کام لگتا ہے مگر ہمیں کیا تم کھانا کھاؤ ۔
کوڈ وہ عفاف کا بھائی ہے ۔ ماہم نے افسردگی اور ناراضگی دیکھاتے ہوئے کہا ۔
عفاف کا بھائی ہے تمہارا تو نہیں ہے ناں چپ کر کے کھانا کھاؤ ۔
میرے بھی بھائیوں کی طرح ہی ہیں بہت عزت کرتی ہوں میں ان کی ۔ ماہم نے جتاتے ہوئے کہا ۔
ٹھیک ہے کھانا ختم کرو ۔
کوڈ ان کو گولی نہیں مارنی چاہیے تھی ۔ ماہم شکوہ کرتی بولی ۔
کس کے ساتھ کیا ہونا چاہیے کیا نہیں یہ تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں تمہاری پہلی اور آخری ترجیح کوڈ ہے بس ۔ ماہم اور دانیا جان بوجھ کر کونے میں بیٹھے تھے تاکہ ان کی آواز کسی تک نہ پہنچ سکے ۔
جی کوڈ ۔ ماہم سر ہلاتی خاموش ہو گئی ۔
اور ویسے بھی آج آخری دن ہے کل سے پھر سے کام پر جانا ہے تو آج کوئی کام کے بارے ميں بات نہیں ۔ دانیا نے تلمہی کی جس پر ماہم نے سر ہاں میں ہلا دیا ۔
*************************************
سب محد کی خیرت معلوم کرتے گھر جا چکے تھے اب ہسپتال میں صرف صباء اور عنایہ موجود تھے وہ ان دونوں کی زندگی تھا تو اپنی زندگی کو چھوڑ کر وہ کیسے جا سکتی تھی اور ساتھ ہی زوہیب بھی روک گیا ۔
خدا پوچھے اسے جس نے میرے بچے کی یہ حالت کی ہے ۔ صباء روتے ہوئے بولی ۔
مامی اللّٰہ بہتر کرے گا محد ٹھیک ہو جائے گا اور جس نے اس کے ساتھ ایسا کیا وہ بھی خوش نہیں رہے گا ۔ عنایہ نے صباء کے کندھا تپھکاتے کہا ۔
زوہیب ڈاکٹر کے پاس کھڑا محد کی صحت کے بارے ميں دریافت کر رہا تھا ۔
***************************************
کمرہ سگریٹ کے دھوئے میں غرق ہو رہا تھا یہاں تک کسی کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہو جائے جب سے عالیان ہسپتال سے آیا تھا سگریٹ پر سگریٹ جلا رہا تھا محد بچ گیا تھا مگر عالیان کو سکون کہاں ملنے والا تھا بار بار اس کا چہرہ عالیان کے آنکھوں کے سامنے آ جاتا بار بار وہ آنکھیں بند کر کے منظر چھٹکتا مگر محد کا زخمی وجود اس کی آنکھوں کو چھلنی کر دیتا کبھی بچپن کی یادیں آنکھوں کی زینت بن جاتی کبھی خود کا بندوق پر رکھا ہاتھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا وہ چاہ کر بھی پر سکون نہیں ہو پا رہا تھا شاید سکون اب نہیں ملنے والا تھا اپنے بڑے بھائی پر گولی چلانے کے بعد کون سکون میں رہ سکتا تھا پھر عمارہ کی بھائی کہتی آواز اور پھر عمارہ کی زوہیب بھائی کہتی آواز کانوں میں گھل رہی تھی ایک وقت تھا وہ عمارہ کو کسی کے قریب بھی نہیں جانے دیتا تھا بھائی کہنا تو دور کی بات تھی ۔
آنکھوں کے سامنے ایک اور منظر دوڑا تھا ۔
بھائی بھائی ۔ ایک چھوٹی سی نو سال کی بچی ہاتھ میں گڑیا پکڑے داخل ہوئی تھی ۔
کیا ہوا عمارہ رو کیوں رہی ہو ۔ عالیان نے عمارہ کی گال پر پھسلتے آنسو اپنی انگلی کے پوروں سے صاف کیے تھے۔
بھائی وہ زوہیب بھائی نے میری گڑیا توڑ دی ۔
عالیان کی آنکھوں میں غصہ اتر آیا ۔
عمارہ ایک تو وہ تمہاری گڑیا توڑتا ہے اور تمہیں اسے بھائی بھی کہتی ہو تمہارا صرف ایک بھائی ہے چوہدری عالیان پندرہ سال کے عالیان نے اسے دوبارہ یاد دلایا تھا ۔
بھائی میری گڑیا ۔ عمارہ نے ہاتھ میں پکڑی ٹوٹی ہوئی گڑیا اس کے سامنے کی جو عالیان نے تھام لی ۔
چلو زرا ! میں دیکھتا ہوں زوہیب کو کیسے میری بہن کی گڑیا توڑی اس نے ۔ عمارہ کے معملے میں تو وہ بھول جاتا تھا سب کچھ ۔
کچھ دیر میں وہ عمارہ کے ساتھ زوہیب کے پاس پہنچا تھا ۔
کیوں توڑی تم نے عمارہ کی گڑیا ۔ عالیان غصے سے بولا ۔
میں نے جان بوج کر نہیں توڑی غلطی سے ٹوٹ گئی ۔
مجھے پتا ہے جان بوجھ کر توڑی ہے تم نے ۔ عالیان اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا تھا ۔
عالیان عفاف اور عمارہ لڑ رہی تھی تو میں نے دونوں سے گڑیا چھین لی اسی دوران گڑیا ٹوٹ گئی میں نے جان بوجھ کر نہیں توڑی ۔ زوہیب اپنی صفائی دیتے بولا ۔
آپ کے پاس اپنی بہن ہے ناں تو آپ میری بہن سے دور رہیں ۔ عالیان جتاتے بولا ۔
عالیان بات کہاں سے کہاں لے جا رہے ہو چھوٹی سی بات ہے کیوں اسے اتنا لمبا کر رہے ہو ۔
اور اس سے پہلے لڑائی زیادہ بڑھتی محد بیچ میں آ گیا اور سب سنبھال لیا ۔
ایک وہ وقت تھا جب عالیان عمارہ کا کسی کو بھائی کہنا برداش نہیں کر سکتا تھا اور آج وہ اس کے سوا ہر ایک کو بھائی کہتی ہے اور یہ تکلیف اسے اندر تک زخمی کیے ہوئے تھی ۔
اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھی اور سر درد سے پھٹا جا رہا تھا اور ٹیبل پر پڑا فون پچھلے پندرہ منٹ سے مسلسل بج رہا تھا مگر وہ فلحال کسی سے بات کرنے کی حالت میں نہیں تھا ۔
بھائی مجھے چوکلیٹ چاہیے ۔ عمارہ کی آواز کانوں میں گونجی تھی تو عالیان نے یک دم ادھر ادھر دیکھا مگر کوئی نہیں تھا اور پھر دروازہ کھولتا کوئی اندر داخل ہوا ۔
دھوئے کی وجع سے اس نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا ۔
کوڈ یہ کیا حالت بنا رکھی ہے آپ نے ۔
مجھے کسی سے بات نہیں کرنی تم جاؤ یہاں سے ۔
کوڈ بوس نے بلایا ہے اور میں آپ کو ساتھ لے کر ہی جاؤں گا یہ بوس کا حکم ہے ۔
عالیان نے گھورتے ہوئے اسے دیکھا اور سگریٹ ساتھ پڑی ڈس بن میں ڈال دی ۔
موبائل ٹیبل سے اٹھایا جس کی سکرین پر بوس کے نام سے بیس مس کالز جگمگا رہی تھی ۔
**************************************
محد کو گولی لگنے کی خبر یاور لاکھانی تک پہنچ چکی تھی اور اسے اس خبر نے کافی خوشی بخشی تھی آخر محد بھی اس کے دشمنوں میں سے تھا اصل مقصد تو کوڈ کو پکڑوانا تھا جو اس نے کوڈ کے علاقے کی خبر پولیس کو دے کر اسے پکڑوانا چاہا تھا مگر ناکام ہو گیا تھا اسے ابھی بہت کچھ کرنا تھا کوڈ سے تو پورانے حساب بھی پورے کرنے تھے جو وقت کی دھول میں کھو گئے تھے اور آج ایک دم یاد آئے تھا یاور نے کامران سے کوڈ تک ملاقات کی خواہش پہنچانے کو کہا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ کس سے کیسے نمٹنا ہے ۔
*************************************
بوس عالیان کے سامنے بیٹھا تھا اور دونوں کے بیچ خاموشی گفتگو کر رہی تھی نا بوس کو سمجھ آ رہا تھا کہ وہ عالیان سے کیا بات کرے اور نا عالیان کو کہ وہ اس خاموشی میں کئے گئے سوالوں کا کیا جواب دے ۔
اتنے میں اندر اکرم داخل ہوا عالیان کی اکرم کی طرف پیٹھ تھی تو وہ دیکھ نہیں سکتا تھا کہ سامنے بیٹھا شخص کون ہے ۔
ہاں کچھ پتا چلا کہ مخبری کس نے کی ہے ۔
جی بوس کوڈ نے جن لوگوں کو باندھا تھا فیکٹری پر انہی کا سربراہ ہے اور وہ کوڈ سے بات کرنا چاہتا ۔ اکرم نے خبر بوس تک پہنچائی ۔
کیوں کرنا چاہتا ہے وہ بات ۔ بوس نے ٹیبل پر کوہنی ٹکاتے کہا ۔
بوس ۔ اکرم نے آنکھوں میں اشارہ کیا جو بوس سمجھ گیا کہ وہ سامنے بیٹھے شخص کی وجع سے نہیں بتا سکتا ۔
ہاں تم جاؤ پندرہ منٹ میں واپس آنا ۔ بوس نے ساتھ ہی اسے آنکھوں سے جانے کا اشارہ کیا ۔
عالیان کیا میں جان سکتا ہوں کہ تم نے محد پر گولی کیوں چلائی ۔ بوس نے نرم لہجے میں کہا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ عالیان کے لیے یہ آسان نہیں رہا ہو گا ۔
بوس کوئی راستہ نہیں بچا تھا ۔ عالیان نے سرد آواز میں کہا ۔
جانتا ہوں مگر کنگ بہت غصے میں ہیں ۔ بوس نے اسے باخبر کیا ۔
بوس کنگ سے میری طرف سے معافی مانگ لیجیے گا ۔
وہ تو میں مانگ لوں گا مگر کنگ کی ناراضگی اتنی آسانی سے نہیں ختم ہونے والی تمہیں ان کی دی سزا تو کاٹنی ہو گی ۔
بوس میں سزا کے لیے تیار ہوں ۔
ہممم۔ ابھی کے لیے جاؤ آرام کرو تمہاری حالت مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی ۔ بوس نے اسے جانے کا اشارہ کیا اور عالیان ماسک پہنتا باہر نکل گیا اور اس کے نکلتے ہی اکرم اندر داخل ہوا ۔
ہاں اکرم بولو ۔ بوس نے اسے ہاتھ کے اشارے سے سامنے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
بوس وہ لوگ کوڈ دانیا سے ملنا چاہتے ہیں ۔
دانیا سے! کیوں ۔
بوس مجھے نہیں معلوم مگر خبر یہی ہے کہ وہ ملنا چاہتے ہیں اور ان کے پاس کوئی راز ہیں ہمارے گینگ کا ۔
کیسا راز ۔ بوس آگے کو ہوتا بولا ۔
سر گیارہ فروری کا کوئی راز ہے ۔ اکرم کا اتنا کہنا تھا کہ بوس کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزرا ۔
مجھے نمبر چاہیے اس شخص کا ۔ بوس پہلی بار ہڑبڑایا تھا ۔
جی میں نکلواتا ہوں ۔ اکرم کہتا اٹھ کھڑا ہوا ۔ جرم کی دنیا میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کسی کے نہیں ہوتے اور ہر کسی کے بھی ہوتے ہیں وہ صرف پیسے کو مانتے ہیں اور اسی کو جانتے ہیں اور یہی لوگ دو گینگ کے بیچ پیغام رسانی کا کام کرتے ہیں ان کا نام راز میں رکھا جاتا ہے اور یہ ایک شخص کا راز دوسرے کو نہیں بتاتے اور یہی وجع ہوتی ہے کہ سب ان کے محافظ ہوتے ہیں ۔
بوس پیچھے سر گرائے آنکھیں بند کر گیا یہی راستہ فرار تھا جو وہ سوچ رہا تھا وہ ہونا نہیں چاہیے تھا ورنہ زندگی میں پہلی بار کوڈ کو جھکنا پڑ سکتا تھا ۔
*************************************
ہائے محد چوہدری تم نے تنگ کر رکھا ہے مجھے ۔ عنایہ نے اس کی گال کھینچتے ہوئے کہا ۔
عنایہ بندہ کچھ تو خیال کر لیتا ہے یار گولی لگی ہے پکنک پر نہیں آئے ہم ہسپتال ۔ محد چڑ کر بولا ۔
دیکھیں مامی اپنے بیٹے کو کوئی قدر ہی نہیں ہے میری ۔ عنایہ نے ساتھ کھڑی صباء کو شکایت لگائی ابھی ایک گھنٹہ پہلے ہی اسے ہوش آیا تھا اور ڈاکٹر معائنہ کر کے گئے تھے اور اب عنایہ اسے بیٹھی سوپ پلا رہی تھی ۔
محد قدر کرو عنایہ کی، ایسی لڑکیاں مشکل سے ملتی ہیں ۔ صباء نے عنایہ کی سائڈ لیتے کہا ۔
ہاں ہاں ایسی لڑکیاں سچ میں مشکل سے ملتی ہیں دس بےشرموں کو مارنے کے بعد ایسی ایک ملتی ہے ۔ عنایہ نے اس کی بات پر اس کے بازو پر مکا مارا ۔
آآآ ۔ عنایہ شرم کرو گولی لگی ہے مجھے ۔
سوری ۔۔۔۔۔ ویسے گولی سینے پر لگی ہے بازو پر نہیں ۔ عنایہ گھورتی بولی ۔
امی اسے لے جائیں ورنہ آپ کا بیٹا شہید ہو جائے گا ۔
شرم کرو محد شام کے وقت کیسی باتیں منہ سے نکال رہی ہو ۔ سدرہ غصے میں بولی ۔
ارے امی آپ اور آپ کے وہم ایسے بولنے سے کچھ تھوڑے ہو جاتا ہے اور شہادت تو مقدر والوں کے حصے میں آتی ہے ۔
جو بھی ہے مگر تم انسان بنو اور ایسی بات منہ سے نہ نکالنا دوبارہ ۔
ٹھیک ہے ٹھیک ہے میری پیاری امی ۔ محد پیار سے بولا ۔
ویسے محد چوہدری تم بھول کیوں رہے ہو کہ ڈاکٹر نے تمہیں کم بولنے کو کہا ہے ۔ عنایہ جتاتی بولی ۔
ہاں مجھے کم بولنے کو کہا ہے اور تمہیں تو یہاں وہ تقریری مقابلہ کرنے کو چھوڑ کر گئے ہیں ناں ۔
عنایہ نے ہاں میں سر ہلا دیا اور تینوں ہنس پڑے ۔
*************************************
دانیا آج بوس کے آفس میں موجود تھی اور ماہم قریشی باہر بیٹھی ہوئی تھی اسے بوس نے باہر بیٹھنے کا حکم دے رکھا تھا ۔
ہمارا راز کسی کے ہاتھ لگ گیا ہے ۔ بوس نے بنا سلام دعا کہے بنا کہا تھا ۔
کون سا راز بوس ۔ دانیا بےفکری سے بولی
گیارہ فروری کا راز ۔ اس بار دانیا ایک پل کو سانس نہیں لے پائی تھی کرسی پر گرتے ہوئے بیٹھی تھی ۔
کس کے ہاتھ ۔ دانیا بامشکل بول پائی تھی ۔
جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ وہی ہو سکتا ہے ۔ بوس کنپٹی پر ہاتھ رکھے بولا ۔
کون ۔ دانیا جاننے کو بےقرار ہوتے کرسی سے اٹھی تھی ۔
لاکھانی خاندان کا چشم و چراغ یاور لاکھانی ۔ بوس کی آواز اسے کھائی سے آتی محسوس ہوئی ۔
وہ کرسی پر ڈھیر ہوئی تھی آج اس واقعے کے اتنے برسوں بعد لاکھانی خاندان کا نام سن رہی تھی شاید وہ بھول گئی تھی کہ ابھی یاور لاکھانی باقی ہے وہ کیسے بھول گئی تھی کیسے ۔
دانیا ہمت کرو ہمیں مل کر مقابلہ کرنا ہے مل کر سامنا کرنا ہے تم میں اور کنگ سب سنبھال لیں گے ۔
بوس میں ہمت نہیں ہارنے والی یہ میری غلطی ہے کہ میں آج کے دن کے لیے تیار نہیں تھی مگر اب میں تیار ہوں یاور لاکھانی شاید بھول گیا ہے کہ دانیا کوڈ اتنی کمزور نہیں کہ اتنی آرام سے ہار مان لے ۔
یہ ہوئی ناں بات اب لگ رہی ہوں تم پہلی کوڈ کی سی باہمت ۔ بوس نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے بولا ۔
بوس آپ نے یاور لاکھانی سے بات تو نہیں کی ۔
ابھی تو نہیں کی مگر جلد کرنے والا ہوں ۔
ابھی نہیں کرنا ہم کسی صورت اسے یہ لگنے نہیں دے سکتے کہ اس کہ کسی بھی بات نے ہمیں متاثر کیا ہے اگر اسے ہمارا راز کھولنا ہوتا تو ہم سے رابطہ کرنے کی کوشش نہ کرتا ابھی اسے تڑپنے دوں پانی میں موجود مچھلی کو سمندر کی تلب تو ہوتی ہی ہے اور ہم اتنی آسانی سے اس کی تڑپ نہیں ختم کر سکتے ۔
میں اکرم سے کہتا ہوں ابھی پیغام ناں بھیجوائے ۔
ہاں اور اگر اس نے پیغام بھیجوا دیا ہے تو بھی خیر ہے مگر ابھی اس سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ۔
مگر بوس اگر وہ یاور لاکھانی نہ ہوا تو ۔ دانیا نے ایک شک کے تحت کہا ۔
دانیا وہ یاور لاکھانی ہی ہے کیونکہ اس دن کے راز کے بارے ميں صرف یاور لاکھانی کے باپ اور اس کے خاص ملازم کو ہی پتا تھا ۔
ہممم آپ رلیکس کریں فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے اور ویسے بھی آج سے کام پر بھی واپسی ہے تو میں سب دیکھ لوں گی ۔
ہاں جانتا ہوں تم سب دیکھ لو گی ۔
اچھا بوس میں چلتی ہوں زرا کام نپٹا لوں کچھ لوگوں کے ۔
نہیں تمہیں ان کا کچھ کرنے کی ضرورت نہیں جس کے خلاف اس نے مخبری کی ہے وہ خود ہی دیکھ لے گا ۔
بوس جیسا آپ بہتر سمجھیں ۔ دانیا یہ کہتی کمرے سے باہر نکل گئی ۔
************************************
عفاف آپی یہ کوڈ کون ہے ۔ عمارہ نے ٹی وی پر نظریں جمائے کہا جو کب کی چل رہی تھی اور دونوں اسے دیکھ بھی رہے تھے مگر دھیان ٹی وی پر دونوں کا ہی نہیں تھا ۔
مجھے کیا پتا کون ہے یہ کوڈ منحوس مجھے کہیں مل جائیں تو قسم سے انہیں میں قتل کر ڈالوں ۔ عفاف غصے سے بولی ۔
دل تو میرا بھی یہی کرتا ہے زندگی عزاب کر رکھی ہے ہمارے بھائی کی ۔ عمارہ بھی اسی غصے سے بولی ۔
ویسے کیسے دکھتے ہوں گے یہ کوڈ ( عفاف نے عمارہ کو گھور کر دیکھا) میرا مطلب ہے کہ ابھی تک پکڑے نہیں گئے ناں ۔ عمارہ ہونٹ دانتوں میں دبائے بولی ۔
جیسے بھی ہوں میں نہیں ڈرتی ان سے جس دن مجھے پتا چلا کہ کون ہے جس نے میرے بھائی پر گولی چلائی ہے خدا کی قسم قتل نا سہی ایک آدھا تھپڑ ضرور ماروں گی ۔ عفاف دونوں ہاتھ جھاڑتے ہوئے بولی ۔
آپی آپ ( عمارہ نے عفاف کو حیرت سے دیکھا جیسے کہنا چاہ رہی ہو کہ جس نے آج تک مچھر نا مارا ہو وہ ایک بندے کو تھپڑ مارے گی) ۔
ہاں اور جب ماروں گی تو تمہیں بھی ساتھ ہی بلا لوں گی تم بھی لائو کوریج دینا اسے ۔ عفاف وسوک سے بولی ۔
ٹھیک ہے آپی میں انتظار کروں گی ۔ عمارہ کہتی دوبارہ انہی سوچوں میں ڈوب گئی جن میں وہ کچھ دیر پہلے ٹی وی دیکھتے ہوئے گم تھی ۔
*************************************
نورین میں اندر آ سکتا ہوں ۔ چوہدری اصغر نے نورین کے کمرے میں داخل ہوتے کہا ۔
ہاں بھائی آئیں ناں کھڑے کیوں ہیں ۔ نورین جو بیٹھی رسالہ پڑھنے میں مصروف تھی رسالہ دوسری سائیڈ پر رکھتے کھڑی ہوئی ۔
اصغر اس کے پاس آ کھڑا ہوا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
کیا ہوا بھائی کوئی مسئلے کی بات ہے کیا ۔ نورین فکرمندی سے بولی ۔
نہیں نہیں کچھ فکرمندی کی بات نہیں تم آرام سے بیٹھو ۔
اس کے کہنے پر نورین بیڈ پر بیٹھ گئی ۔
عالم خان کا فون آیا تھا ۔ اصغر کی بات پر نورین نے نظریں بیڈ کی طرف موڑ لی ۔
آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ۔
میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ تم اس سے بات کرو کہ وہ مجھے تھوڑا وقت اور دے دے ۔
کس چیز کا وقت ۔
وہ چاہتا ہے کہ میں ابا جی کو اس کے یہاں رہنے پر رضامند کروں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ عنایہ کی شادی سے پہلے کچھ دن یہاں رہنا چاہتا ہے ۔
بھائی وہ عنایہ کا باپ ہے میں اسے کیسے عنایہ سے ملنے سے روک سکتی ہوں ۔
روکنا نہیں ہے بس اسے کہو کہ وہ کچھ دن انتظار کر لے میں ابا جی سے بات کر لوں انہیں منا لوں ۔
بھائی آپ جانتے ہیں ۔
ہاں میں جانتا ہوں مگر یہ میری درخواست سمجھ لو یہ میرے جڑے ہوئے ہاتھ ہیں ۔ چوہدری اصغر نے ہاتھ جوڑتے کہا ۔
بھائی ایسے مت کریں ۔
تم نہیں سمجھ سکتی بہت عرصے سے اس کی مجھے کالز آ رہی ہیں اور آج بھی آئی تھی اور اس نے کہا ہے کہ میں بات کروں ورنہ وہ خود آ جائے گا ۔
بھائی آپ فکر نہ کریں میں بات کروں گی ۔
بہت بڑا احسان ہو گا نورین ۔
بھائی کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ ۔
اچھا یہ نمبر ہے عالم خان کا ۔ چوہدری اصغر نے اس کے ہاتھ میں نمبر پکڑا جو اس نے تھام لیا۔
چوہدری اصغر جا چکے تھے اور نورین اب ہاتھ میں پکڑے نمبر کو دیکھ رہی تھی ۔
************************************
عمارہ اپنے کمرے میں کھڑی کچھ ڈھونڈ رہی تھی جب نادیہ اندر داخل ہوئی ۔
کیا کر رہی ہیں یہاں ۔ عمارہ غصے میں بولی ۔
بیٹا میں تو بس ۔۔۔۔۔
میں تو بس کیا ، کس نے آپ کو اجازت دی میرے کمرے میں داخل ہونے کی ۔ عمارہ کی آواز بلند ہوئی ۔
ماں ہوں میں تمہاری ۔ نادیہ بھی اونچی آواز میں بولی ۔
مائیں ایسی نہیں ہوتی آپ کو تو ماں کہنا بھی ماں لفظ کی توہین ہے ۔
عمارہ ۔ چوہدری حماد نے عمارہ کی منہ پر تھپڑ مارا جو عمارہ کی اونچی آواز سنتے اندر آئے تھے ۔
مار لیں بس اسی کی کمی رہ گئی تھی اور سب تو آپ دونوں پہلے ہی کر چکے ہیں ۔
کیا کیا ہے ہم نے گھر چھوڑ کر عالیان گیا اور اس کی سزا نو برس ہم بھگتے رہے ہیں ہمیں بھی تو پتا چلے کہ ہم نے کیا کیا ہے گناہ کیا ہے ہمارا ۔
عمارہ نے ایک نظر اپنی ماں پر ڈالی اور دوسری نظر باپ پر اور قدم بڑھاتی ان کے قریب آئی ۔
اگر میں بول دوں تو شاید آپ لوگوں کی نظریں کبھی اٹھ نہ پائیں ۔ عمارہ ایک ایک لفظ چباتے کہتی کمرے سے باہر نکل آئی ۔
ابا جی سے بات کرنی پڑے گی صرف انہی کے سر پر اس کی اتنی جرت ہو گئی ہے ۔ چوہدری حماد غصے سے مٹھیاں دباتے بولے ۔
*************************************
عالیان کمرے میں بیٹھا تھا جب اسے بوس کی کال آئی بوس کا جگمگاتا نمبر دیکھ کر عالیان کو حیرت ہوئی کیونکہ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی بوس سے مل کر آیا تھا تو دوبارہ بوس کا فون آنا کچھ غیر متوقع تھا ۔
جی بوس ۔ عالیان نے فون اٹھاتے ساتھ کہا۔
تمہاری مخبری حیدر نے کی تھی ۔ بوس نے بنا کسی سلام دعا کے کہا اور فون کاٹ دیا ۔
حیدر ۔ عالیان نے غصے سے اس کا نام دہرایا ۔
حیدر عالیان کے ساتھ کام کرنے والا ورکر تھا جس کے بارے میں انہیں خبر ملی تھی کہ اس کے بینک اکاؤنٹ میں دس لاکھ منتقل کئے گئے تھے اور یہ رقم اتنی معمولی رقم نہ تھی ۔
خدا جانے لوگ اپنی قبر خود کھودنے کو تیار کیوں رہتے ہیں ۔ عالیان نے کہتے فون جیب میں ڈال گیا اور گھر سے باہر نکل آیا ۔
*************************************
نورین اب تک اپنے ہاتھ میں پکڑے نمبر کو دیکھ رہی تھی اب اس نے کاغذ پر لکھا نمبر فون پر ملایا دوسری بل پر ہی کل مصول کر لی گئی تھی ۔
کیسی ہو ۔ دوسری طرف بھاری مردانہ آواز میں کوئی بولا تھا ۔
نورین کے تو تمام الفاظ ہی ختم ہو گئے تھے ۔
ایسے نہ کرو گل ( عالم خان پیار سے اسے گل کہا کرتا تھا) اتنے عرصے بعد کال کر کے اپنی آواز سے محروم رکھو گی کیا ۔
نورین کو تو کسی نے نئی زندگی دے دی ہو اس کی آواز پھر اس کا اسے گل کہنا زندگی ملنے برابر تھا ۔
لمبا وقت انتظار کیا ہے اب بھی نہ بولی تو پکا تمہارا خان اللّٰہ کو پیارا ہو جائے گا ۔ عالم خان کو تو اس کی خاموشی سے بھی عشق تھا ۔
خان ۔ نورین کے لب بےساختہ کھلے تھے اور انہوں نے اپنا پسندیدہ حرف ادا کیا تھا ۔
ہائے خان کی گل ۔ عالم خان اسے محبت کا احساس دلائے بغیر نہیں رہ سکا تھا ۔
میں نے ایک ضروری کام کے لیے فون کیا ہے ۔
جانتا ہوں گل اتنے عرصے بعد میری محبت میں تو تم مجھے کال ملانے سے رہی مگر کیا ہے اگر میں چند لمحے اسی خوش فہمی میں جی لوں کہ تم میری محبت سے مجبور مجھے کال کر بیٹھی ہو ۔
عالم خان اگر دل سے بولتا تھا تو صرف اپنی گل کے لیے ورنہ بولتا تو وہ بہت تھا مگر دل سے نہیں بولتا تھا ۔
مجھے عنایہ کے بارے میں بات کرنی ہے ۔
کر لیں گے گل ابھی تم خاموش رہو بس مجھے تمہاری خاموشی سننی ہے ۔
میں کال کاٹ دیتی ہوں پھر سنتے رہنا میری خاموشی ۔ نورین خشتگی سے بولی ۔
ہاہاہا ۔ اتنی دیر سے انتظار کر رہا تھا کہ کب تمہاری غصے میں ڈوبی ہوئی آواز میرے کانوں کو سننے کو ملے گی ۔ ۔ ۔ یاد ہے جب تم غصے میں کہتی تھی خان انسان بن جاؤ ورنہ مجھے انسان بنانا آتا ہے اور میں کہتا تھا کہ بنا دو انسان ہاہاہا کیا دن تھے ۔
عالم خان میں عنایہ کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں ۔
تم نہیں آؤ گی باز چلو کر لو بات کیا بولنا تھا۔
تم نے بھائی سے کیا کہا ہے ۔
کیا کہا ہے کچھ بھی نہیں کہا وہ معصوم بنتا بولا ۔
یہی کہ تم یہاں آ کر رہنا چاہتے ہو ۔
ہاں تو اس میں کیا غلط ہے مت بھولو تم آج بھی میری بیوی ہو اور عنایہ عالم خان میری بیٹی ہے ۔
یاد ہے مجھے کچھ نہیں بھولی میں سب یاد ہے مجھے، تمہیں کسی نے نہیں روکا مگر کچھ وقت انتظار کر لو کوئی تمہیں نہیں روک رہا عنایہ سے ملنے سے ۔
اور تم سے ۔ آگے سے اسے خاموشی سننے کو ملی ۔
اچھا اب نہیں کرتا میں تمہارے بھائی کو فون کبھی تمہاری کوئی خواہش ہے جو میں نے پوری نہ کی ہو ۔
عالم خان تم میری خواہش پوری کر دیتے تو آج ہم ساتھ ہوتے اور کہتے ہی نورین فون کاٹ گئی اور آنسو بےساختہ آنکھوں سے بہہ گئے ۔
عالم خان کاش تم تم نہ ہوتے ہم ہم نہ ہوتے کاش عالم خان مجھے تم سے محبت نہ ہوتی کاش مگر محبت محبت ہوتی ہے اور وہ کسی کاش کو نہیں سنتی بس اپنی سنتی ہے ۔
الفاظ غم میں ڈوبے ہوئے تھے اور پلکھیں بھیگ رہی تھی ۔ نورین نے آنکھ سے نکلتے آنسو صاف کیے ۔
*************************************
ابا جی مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے ۔ حماد جلد بازی میں آتا رفیق صاحب کے سامنے آ کھڑا ہوا ۔
کیا ہوا برخوردار ۔ رفیق صاحب دوستانہ انداز میں بولا۔
ابا جی آپ کی وجع سے عمارہ بہت بدتمیز ہو گئی ہے صرف آپ کی شہ پر وہ نادیہ سے بدتمیز کرتی ہے وہ اس کی ماں ہے مگر عمارہ کو اس کا کوئی احترام نہیں وہ بےلحاز ہو گئی ہے ۔
حماد میاں وہ جو کرتی ہے نہیں کرتی مگر شاید تم بھول رہے ہو کہ تم کس کے سامنے کھڑے ہو اور کس سے بات کر رہے ہو ۔
ابا جی معافی مگر عمارہ کو سمجھائیں وہ بہت بدتمیز ہو رہی ہے ۔
چوہدری حماد رفیق آپ اور آپ کی بیوی نادیہ حماد یہ بات کان کھول کر سن لیں کہ آپ دونوں عمارہ سے دور رہیں وہ اگر چپ ہے تو وہ بھی میری ہی وجع سے ورنہ آپ دونوں اپنی ہی نظروں سے نظریں نہ ملا سکیں تو آئندہ اس بات کا خیال رکھیں ۔ یہ کہتے رفیق صاحب نے حقہ منہ کو لگا لیا ۔
حماد کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس سے کیا گناہ ہو گیا جو ابا جی بھی عمارہ کا ساتھ دے رہے ہیں اب تو نو سال ہو چکے ہیں عالیان کو ان سے جدا ہوئے مگر اب بھی وہ اس کی سانسوں میں بستا تھا وہ اس کا اکلوتا بیٹا تھا اس کا چشم و چراغ تھا اسے بھی عالیان سے اتنی ہی محبت تھی جتنی عمارہ کو عالیان سے تھی مگر وہ مرد تھا اور مرد رویا نہیں کرتے اور وہ اپنے غم کو اپنے دل میں چھپا چکا تھا ۔
*************************************
شام کی سرخی پھیل رہی تھی اور عالیان گلی میں چھوٹے چھوٹے قدم لیتا اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا پچھلے کچھ گھنٹے اس پر بہت بھاری گزرے تھے نا چین نصیب میں تھا اور نا ہی سکون اور دل بھاری ہو رہا تھا ۔
اب وقت آ گیا تھا کہ وہ ان کی زندگی بےسکون کرے جنہوں نے اس کی زندگی میں طوفان لانا چاہا ہے اور یہی وجع تھی کہ وہ اس شخص کی تلاش میں تھا جس نے پولیس کو عالیان کی مخبری کی اور کافی دیر سوچنے سمجھنے کے بعد اب عالیان اس شخص تک پہنچ چکا تھا کچھ قدم چلنے کے بعد وہ ایک گھر کے باہر کھڑا تھا عالیان نے دروازے پر دستک دی تو گھر کے مکین نے دروازے میں بنے سوراخ کے ذریعے دیکھنا چاہا کہ دروازے کے باہر کون موجود ہے مگر عالیان اس طرح کھڑا تھا کہ اس کا چہرہ دیکھا جانا ناممکن تھا ۔
دروازے کھلا تو سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی ۔
جی آپ کون ۔ لڑکی نے عالیان کو وہاں خاموش کھڑے دیکھا تو بولی ۔
میں ۔۔۔ وہ مجھے حیدر سے ملنا ہے ۔
جی بھائی وہ حیدر تو گھر پر نہیں ہیں کل رات کے وہ گھر نہیں آئے ۔
یعنی حیدر روپوش ہو چکا ہے ۔ عالیان منہ میں بڑبڑایا ۔
جی بھائی کچھ کہا آپ نے ۔
نہیں آپ حیدر کو اتنا کہہ دینا کہ ۔۔۔۔ کوڈ کی آنکھیں موت بن کر اس کی حفاظت کریں گی ۔
جی بھائی ۔ لڑکی پریشانی اور بے یقینی کے عالم میں گویا ہوئی ۔
وہ حیدر کی جان کو خطرہ ہے بس اسے کہنا اپنا دھیان رکھے۔ یہ کہتا عالیان واپس مڑا وہ جانتا تھا حیدر گھر پر ہی تھا اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ حیدر نے ہی اس لڑکی سے کہہ کر جھوٹ بلوایا تھا اگر عالیان چاہتا تو ویہیں گھس کر حیدر کو سبق سکھا دیتا مگر عالیان کسی بےگناہ عورت کو کسی قرب میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا تھا اور یہ بات حیدر اچھے سے جانتا تھا اور ویسے بھی عالیان ابھی حیدر کو خوف کے سائے میں زندگی گزارتا دیکھنا چاہتا تھا ۔
*************************************
عنایہ کچن میں کھڑی اپنے لیے کافی بنا رہی تھی جب وہاں زوہیب آ کھڑا ہوا ۔
عنایہ عفاف کہاں ہے ۔
وہ تو کوئی کام کر رہی ہے کیوں آپ کو کوئی کام ہے ۔
کام تو ہے مگر۔۔۔۔۔۔
آپ مجھے بتائیں میں کر دیتی ہوں ۔ عنایہ زوہیب کی ادھوری بات سمجھتے بولی ۔
نہیں تم سے نہیں ہو گا رہنے دو ۔
آپ کام تو بتائیں ۔ عنایہ کے بقول وہ سب کر سکتی ہے تو وہ کیسے برداش کر لیتی کہ کوئی اسے یہ کہے کہ اس سے کام نہیں ہو پائے گا ۔
چائے پینی ہے سر میں درد ہو رہا ہے ۔
میں کافی بنا دیتی ہوں اس سے سر درد ختم ہو جائے گا ۔
ایک تو چوہدری خاندان میں کافی نامی بیماری پتا نہیں کہاں سے آ گئی ۔ زوہیب منہ میں بڑبڑایا ۔
آپ نے کچھ کہا ۔ عنایہ اس کے آدھے ادھورے الفاظ ہی سن پائی تھی تو اس سے کہے بنا رہ نہ سکی ۔
کچھ نہیں میں نے کہا تھا ناں کہ تم سے نہیں ہو گا رہنے دو ۔ زوہیب اکتائے ہوئے لہجے میں بولتا جانے لگا ۔
میں نے کب کہا کہ میں نہیں بنا سکتی وہ تو میں بس اپنی رائے دے رہی تھی میں نے سوچا اپنے لیے ایک کپ بنا رہی ہوں تو آپ کے لیے بھی بنا دیتی ہوں اور ویسے بھی میں کافی بہت اچھی بناتی ہوں ۔
اچھا اچھا ٹھیک ہے ۔ زوہیب اس سے جان چھڑاتا جانے لگا ویسے بھی ان دونوں کی خاص نہیں بنتی تھی اور بات چیت بھی بہت کم ہوتی تھی تو وہ فلحال اس سے کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
آپ بیٹھے میں لاتی ہوں چائے ۔ عنایہ نے بنا سوچے سمجھے کہہ دیا زوہیب نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر صوفے پر جا بیٹھا ۔
عنایہ کیا ضرورت تھی کہنے کی اچھا بھلا جا تو رہا تھا اف اف عنایہ اب بھگت ۔ عنایہ خود کو کوستی چائے کے لیے پانی رکھ رہی تھی اس نے کئی بار عفاف اور عمارہ کو چائے بناتے دیکھا تھا ویسے تو عمارہ کم ہی کچن میں گھستی تھی مگر اسے زیادہ تر چیزیں بنانی آتی تھی عنایہ دماغ پر زور ڈالتے سوچ سوچ کر چائے بنا رہی تھی ۔
کچھ دیر میں زوہیب کے سامنے پڑے ٹیبل پر چائے کا کپ پڑا تھا ۔
زوہیب نے کپ منہ کو لگایا اور جیسے کپ اٹھایا تھا ویسے واپس رکھ دیا عنایہ نے چائے بھی کافی کی طرح بنائی تھی پتی بہت کم چونکہ کافی میں بہت کم کافی ڈلتی ہے اس کی کڑواہٹ کی وجع سے اور چائے میں دودھ کچا تھا ۔
عنایہ کپ رکھ کر جا چکی تھی ۔
عنایہ عنایہ ۔ زوہیب نے اونچی آواز لگائی ۔
ہاں کیا ہوا ۔ عنایہ جلدی میں واپس آئی ۔
تم اپنی چائے کی تعریف سنے بغیر ہی چلی گئی ۔ زوہیب طنز سے بولا تھا ۔
عنایہ جانتی تھی اب وہ اسے بےعزت کرنے والا ہے ۔
تم کافی ہی بنایا کرو ۔ زوہیب کہتا سیڑھیاں چڑھتا اوپر چلا گیا ۔
اور ہاں میرے لیے کافی پہنچاؤ میرے کمرے میں ۔ زوہیب چڑھتا ہوا بولا ۔
اب اسے کیا ہو گیا ۔ عنایہ اسے جاتے دیکھتے بولی ۔
*************************************
یاور لاکھانی بیٹھا کامران کے انتظار میں تھا کہ کب وہ آئے اور اسے خوش خبری سنائے ۔
اتنے میں کامران گاڑی کا دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا ۔
ہاں کامران کیا بنا ۔ یاور بےچینی سے بولا ۔
سر ان تک پیغام پہنچ چکا ہے مگر ان کی طرف سے کوئی مثبت ردِعمل نہیں آیا ۔
یاور نے ہاتھ مکے کی صورت زور سے سیٹ پر مارا ۔
سر ہم ان کا انتظار ہی کیوں کر رہے ہیں یہ راز اگر دنیا کو پتا چل گیا تو کوڈ بہت کمزور پڑ جائے گا ۔
کامران اگر یہ راز کھل گیا تو ہمارے پاس کوڈ کی کوئی کمزوری نہیں بچے گی جس کے ذریعے ہم ان سے اپنی بات منوا سکیں ۔
کامران نے بات سمجھتے ہوئے سر ہاں میں ہلا دیا ۔
بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی کوڈ کو میرے آگے جھکنا ہی ہو گا ۔
*************************************
تو جی آپ کی پیاری سی رائٹر ( جھوٹ زیادہ ہو گیا) تھوڑی کم پیاری رائٹر اور بہت ہی السی اور نکمی لڑکی ایپیسوڈ لکھ کر آپ کی خدمت میں پیش کر رہی ہے سب مجھے معاف کریں اور ایپسوڈ پڑھیں اور رائے گا اظہار کریں کیونکہ جب آپ کیمنٹ نہیں کرتے تو بہت دکھ ہوتا ہے اصلاح کریں میری غلطیاں بتائیں تاکہ میں انہیں سدھار سکوں ۔باقی یہ بتائیں کہ ناول کیسا لگ رہا ہے اور عالیان کا محد کو گولی مارنا درست تھا یا نہیں ۔ ۔۔ ۔
YOU ARE READING
حیات المیراث Completed
General Fictionکہانی نئے کرداروں کی، محبتوں کی ان کہے جزباتوں کی، رشتوں کی ،مرادوں کی ۔ کہانی ایک شخص نہیں بلکہ کئی لوگوں کے گرد گھومتی ہے کہانی محبت قربان کرتے لوگ دیکھاتی ہے اپنے سے آگے اپنوں کو دیکھاتی ہے خوابوں کو دیکھاتی ہے ۔ کہانی ہے دانیا کے جنون کی لوگوں ک...