قسط ۱۴

235 18 9
                                    

عنایہ اور زوہیب پیرس کے لیے اڑان بھر چکے تھے اور اس وقت جہاز میں بیٹھے تھے عنایہ شیشے کی طرف اور زوہیب اس کے ساتھ بیٹھا تھا زوہیب تو سو گیا تھا مگر نیند عنایہ سے ابھی کوسوں دور تھی ۔ عنایہ نے اپنے ساتھ نیند کی وادیوں میں ڈوبے زوہیب کو خالی نظروں سے دیکھا نا ہی اسے کوئی شکن نظر آئی نا ہی کوئی پچھتاوا وہاں صرف سکون تھا ۔
میں بھائی کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں اور مجھے امید ہے آپ انہیں خوش رکھیں گی ۔ عمارہ کے کہے الفاظ اس کے کانوں میں گونجے تھے جو اس نے آج دوپہر میں اسے کہے تھے ۔ عمارہ اپنے بھائی کی محبت میں عنایہ کے پاس آئی تھی اس سے کچھ سوال کرنے ۔ عنایہ اس وقت سامان پیک کر رہی تھی جب عمارہ کمرے میں داخل ہوئی زوہیب اس وقت کمرے میں موجود نہیں تھا اور عمارہ بھی عنایہ سے اکیلے میں ہی بات کرنا چاہتی تھی ۔
کیسی ہیں آپی ۔ عمارہ نے اندر آتے کہا تھا اور ساتھ ہی کپڑے پیک کرنے میں اس کی مدد کرنے لگی تھی ۔
ٹھیک ہوں میں ۔ عنایہ نے سادہ سے لہجے میں کہا تھا ۔
آپی آپ نے زوہیب بھائی سے شادى کیوں کی ہے ۔ عمارہ نے سیدھا مدع پر آتے کہا ۔
کیونکہ ابا جی نے کہا تھا ۔ عنایہ نے جھوٹ بولنے کی کوشش کی نہیں کی تھی اور وہ جھوٹ بھی کیا ہی بولتی ۔
اور ابا جی نے ایسا کیوں کہا (عنایہ نے کپڑے تہ کرتے ہوئے نظریں اٹھا کر عمارہ کو دیکھا ) میرا مطلب ہے ابا جی ایسا کیوں کریں گے جب کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں ۔
وہ سب جانتے ہیں اسی لیے تو انہوں نے ایسا کیا ۔ عنایہ نے نظروں کا رخ دوبارہ کپڑوں کی طرف موڑ لیا ۔
آپی آپ نے محد بھائی سے شادى سے انکار کیوں کیا آپ تو ان سے محبت کرتی ہیں ناں ۔ عمارہ نے دماغ میں الجھا اگلا سوال عنایہ کے سامنے رکھا ۔
محبت کرتی تھی ۔ عنایہ نے تھی پر زور دیا ۔
آپی کیا محبت کو بھول جانا اتنا آسان ہوتا ہے ۔ عمارہ حیرانگی سے بولی ۔
نہیں محبت کو بھولنا آسان نہیں ہوتا مگر کبھی کبھار اپنی زندگی کی کتاب پر ویسا ہی ایک اور صفحہ تحریر کرنے سے آسان پیچھلے ویسے ہی صفحہ کو پھاڑ دینا ہوتا ہے میں نے بھی وہی کیا زندگی کا ایک صفحہ پھاڑ دیا ۔
آپی صفحہ پھاڑنا آسان تھا کیا ۔
نہیں ہرگز نہیں ایک لمحے کو بہت تکلیف ہوئی بہت درد ہوا مگر میں جانتی تھی اسے صفحہ کو پھاڑ دینے کے بعد مشکلات میں کمی آ جائے گی نا بھی آئے مگر زندگی اتنی مشکل نہیں رہے گی جتنا اگلا ویسا ہی صفحہ لکھنے میں ہونے والی تھی ۔
آپی بھائی بہت اچھے انسان ہیں وہ آپ کو خوش رکھیں گے ۔ عمارہ نے معصومیت سے کہا تو عنایہ نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا ۔
جانتی ہوں کہ وہ اچھا انسان ہے اگر برا ہوتا تو کوئی موقع نہیں تھا جہاں اس کے پاس مجھے بےعزت کرنے کا جواز موجود نہیں تھا وہ مجھ سے سوال کرتا مجھے تزلیل کرتا سوال کرنا تو اس کا حق تھا ساری حقیقت جاننا مگر کبھی بھی اس نے سوال نہیں کیا مجھے اپنی زندگی میں ایسے ہی قبول کیا جیسے کوئی بھی عزت دار شخص کرتا ۔
بھائی آپ سے محبت کرتے ہیں ناں (عنایہ نے حیرت بھری نظروں سے عمارہ کو دیکھا) آپ نے کی بیوی ہیں ناں ان کا آپ سے محبت کرنا ہی بنتا ہے اور کسی سے تھوڑی ۔
عنایہ کے پاس جواب ميں کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں وہ کیا کہتی بس خاموش کھڑی رہی ۔
آپی ۔ عمارہ نے کہتے عنایہ کو اپنی طرف متوجع کیا ۔
ہاں ۔ عنایہ نے عمارہ کی طرف دیکھتے کہا ۔
میں بھائی کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں اور مجھے امید ہے آپ انہیں خوش رکھیں گی ۔ عمارہ کہتی کمرے سے باہر نکل گئی وہ فلحال عنایہ کو اکیلا چھوڑ دینا چاہتی تھی اور کوئی سوال تھا بھی نہیں جو وہ عنایہ سے پوچھتی ۔
عنایہ اس وقت اپنے ساتھ بیٹھے شخص کو دیکھ رہی تھی جو اس کا شوہر تھا جس سے اس کا نکاح ہوا تھا عنایہ کو تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ یہ نکاح اس کی مرضی سے بھی ہوا ہے کہ نہیں مگر وہ شخص اپنی کسی حرکت کسی بات سے یہ ظاہر نہیں کرتا تھا کہ اس پر کوئی زبردستی کی گئی ہو یا وہ اس رشتہ سے پچھتا رہا ہے ۔
کب تک مجھے دیکھتی رہو گی سو جاؤ ۔ زوہیب عنایہ کے مطابق سو رہا تھا آنکھیں بند کئے ہی بولا وہ اتنی دیر سے صرف آنکھ بند کئے بیٹھا ہوا تھا اور عنایہ کب سے اسے ہی دیکھے جا رہی تھی اور کتنی دیر وہ ایسی ہی باتیں سوچتے اسے دیکھتی رہتی اگر زوہیب کچھ دیر اور نہیں بولتا ۔
***************************************
عنایہ اور زوہیب کو پیرس گئے دوسرا دن تھا محد نے بھی دوبارہ کام پر جانا شروع کر دیا تھا اور چھٹی ختم کرا دی تھی کم از کم اس طرح وہ گھر والوں کی نظروں میں اٹھتے سوالات سے تو بچا ہوا تھا عالم خان بھی واپس جا چکا تھا جو صرف عنایہ کی شادی کے لیے آیا تھا اور عنایہ اور زوہیب کے پیرس جاتے ہی اگلے دن وہ بھی واپس چلا گیا وہ چاہتا تھا کہ نورین اسے روک لے وہ ابھی کچھ دن نورین کے پاس رہنا چاہتا تھا اور نورین بھی چاہتی تھی کہ وہ چند دن رک جائے مگر نا ہی نورین نے اسے جانے سے روکا نا ہی اس کے پاس روکنے کے لیے کوئی جواز بنا اس کے جانے کے بعد نورین گھنٹہ کمرے میں بیٹھے اسے یاد کرتی رہی ساتھ ساتھ آنکھوں کو بھی نم کرتی رہی وہ عالم خان سے ایک وقت میں عشق کرتی تھی آج بھی کرتی تھی سب کے خلاف جا کر اپنے کزن سے عین نکاح والے دن نکاح سے انکار کر کے عالم خان کو اپنی زندگی کا ساتھی چنا تھا مگر عالم خان نے اس کے ساتھ اچھا نہیں کیا اس نے نورین پر کوڈ کو ترجیح دی نورین کو شادی کے ایک سال بعد پتا چل گیا تھا مگر وہ عالم کی محبت میں اس کے ساتھ زندگی گزارتی رہی ساتھ ساتھ اسے کوڈ چھوڑنے پر رضامند کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر نا مانا یہاں تک نورین نے خود جا کر ولی خان سے براہِ راست اس موضوع پر بات کی اس کا یہی کہنا تھا کہ وہ عالم کو کوڈ چھوڑنے کو نہیں کہہ سکتا وہ اگر خود چھوڑ کر جانا چاہے تو اسے کوئی جانے سے نہیں روکے گا مگر ولی خان خود سے اسے نہیں کہہ سکتا ۔ پھر عنایہ بڑی ہو گئی مگر عالم نے کوڈ نہیں چھوڑا اور ایک دن ان کے گھر پر حملہ ہو گیا جس میں جانی نقصان تو کوئی بھی نہیں ہوا مگر نورین بہت زیادہ ڈر گئی تھی کوڈ کے سایے اس کی بچی پر پڑنے جا رہے تھے اس بات کا احساس اسے شدت سے ہوا تھا اور اس دن اس نے عالم سے آر یا پار کی بات کی اور عالم اسے اور عنایہ کو چوہدری حویلی چھوڑ آیا نورین کو آج بھی یاد ہے کہ وہ کیسے دانیا کو دیکھ دیکھ کر روتی تھی اور ناز کو بار بار کہتی تھی کہ وہ دانیا کو بھی اس کے ساتھ ہی بھیج دیں ۔ دانیا بھی بلق بلق کر روئی تھی جب اسے کہا گیا کہ عنایہ اور نورین سے اچھے سے مل لے پھر جانے کب ملاقات ہو اسے پہلے تو یہی لگ رہا تھا کہ سب مزاق کر رہے ہیں مگر جب اسے یقین آیا تو اس کے آنسو نہیں رک رہے تھے اور آج وہی دانیا اس کے اتنی بڑی ہو کر آ گئی تھی اب وہ رونے والی بچی نہیں تھی اب تو وہ لوگوں کو رلا دیا کرتی تھی اور آج پھر سے وہ نورین سے دور جانے کی بات کر رہی تھی مگر نورین کیسے سب جانتے بوجھتے اسے خود سے دور جانے دیتی جب کہ وہ جانتی تھی کہ کوڈ جب گھر سے باہر نکلتا ہے تو موت سر پر سائے کی طرح منڈلاتی ہے جب وہ عالم کے لیے ڈرا کرتی تھی تو عالم کہتا تھا کہ موت تو خود زندگی کی محافظ ہے اس کی بہت اچھے سے حفاظت کرتی ہے مگر دانیا کے معملے میں وہ کیسے موت کے منہ میں جانتے بوجھتے اسے ڈال دیتی وہ تو اسے بچپن میں بھی وہاں چھوڑنے کو تیار نہیں تھی تو اب کیسے جانے کی اجازت دے دیتی نورین نے بہانے بنا کر اسے اموشنلی بلیک میل کر کہ روک لیا اور وہ کچھ اور دنوں کے لیے چوہدری حویلی میں ٹھہرنے کو تیار ہو گئی مگر نورین جانتی تھی کہ وہ تب تک اسے یہاں سے جانے نہیں دینے والی جب تک دانیا کوڈ کو چھوڑ کر کسی اچھے لڑکے سے شادى پر رضامند نا ہو جائے ۔
***************************************
آج موسم خوشگوار تھا ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی تو دانیا کافی کا کپ لے کر چھت پر آ گئی صائم اور زین کے پیپر ہو چکے تھے اور اب وہ دونوں فارغ تھے بار حال عفاف یونیورسٹی گئی ہوئی تھی عمارہ کے امتحانات نزدیک تھے وہ امتحانات کی تیاری میں مصروف تھی محد بھی آفس گیا ہوا تھا باقی سب بھی اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے دانیا خاموشی سے چھت پر آ گئی اور اب دیوار سے ٹیک لگا کر نیچے کا منظر دیکھ رہی تھی جہاں مالی کام میں مصروف تھا ۔ ابھی وہ کافی پی رہی تھی کہ کوئی اس کے ساتھ آ کھڑا ہوا ۔
تم تو پولیس اسٹیشن نہیں گئے تھے ۔ دانیا نے اس کی طرف رخ موڑتے ہوئے کہا ۔
ہاں گیا تو تھا مگر جلدی آ گیا ۔ محد نے سادہ لہجے میں جواب دیا ۔
ہاں اسی لیے ہمارے ملک کا یہ حال ہے اور پولیس کا تو حال ہی بےحال ہے ۔
مجھے لگتا تھا تم بہت بدل گئی ہو مگر نہیں تمہاری باتیں آج بھی شارقہ کی جھلک دیکھاتی ہیں ۔
بدل گئی۔۔۔۔ ہاں شاید بدل گئی ہوں ۔
ہاں نا ہی تمہارے چھوٹے بال جس میں تم بار بار ہاتھ پھیرا کرتی تھی( دانیا نے لاشعوری میں اپنے پونی میں بندھے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا) نا ہی تمہاری وہ پورانی موٹرسائیکل جسے صاف کرتے تمہارے ہاتھ گریس میں رنگ جایا کرتے تھے(دانیا کو اپنی موٹربائیک یاد آئی تھی) نا ہی پورانا لباس جس کے علاوہ تمہیں کچھ بھی پہننا عزاب لگتا تھا(سچ ہی تو کہہ رہا تھا وہ آج بھی اسے اس طرح کا لباس پہننا کتنا مشکل لگتا تھا) نا ہی منہ میں ببل جو ہر وقت تمہارے منہ میں ہوا کرتی تھی( کتنے دن ہو گئے اس نے ببل نہیں کھائی تھی اور کہاں منہ میں ہر وقت ببل ہوا کرتی تھی اس نے دل ہی دل میں خود سے کہا تھا) سچ میں مجھے لگا تم بدل گئی ہو مگر نہیں تمہاری آواز میں آج بھی وہ روب قائم ہے تمہارے انداز میں وہی وقار تمہاری چال میں وہی پھرتی تمہارا اعتماد تمہارا غصہ تمہارا اگلے کو حد میں رکھ دینے والا لہجہ سب ویسا کا ویسا ہی تو ہے تم کہاں بدلی ہو ۔ محد کے لیے وہ زندگی کا وہ باب تھی جسے وہ کبھی بھولا ہی نہیں تھا نا بھول سکتا تھا ۔
کیا کرنے آئے ہو یہاں ۔ دانیا نے موضوع بدلتے کہا ۔
تمہیں ڈھونڈتا ہوا آ گیا تھا اور کیا کرنے آنا ہے مجھے ۔ محد نے صاف گوہی سے کہا ۔
تم کبھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑ سکتے ۔
نہیں اور کوئی فرمائش ۔ محد نے اسے تنگ کرتے کہا ۔
افف میں جا رہی ہوں تم یہاں کھڑے ہو کر فرمائشیں پوری کرو ۔ دانیا نیچے جانے لگی تھی کہ محد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا دانیا نے مڑ کر اسے دیکھا ۔
مجھے چھوڑ کر مت جاؤ میری زندگی میں شامل ہو کر اسے مکمل کر دو ۔ محد نے اس کا ہاتھ پکڑے کہا تھا ۔
میرے شامل ہونے سے وہ نامکمل ہو جائے گی ۔ دانیا ہاتھ چھڑا کر بولی تھی ۔
سب نامکمل ہیں مگر نکاح کا رشتہ لوگوں کو مکمل کر دیتا ہے ۔ محد نے اسے قائل کرنا چاہا تھا ۔
ہاں جیسے عنایہ کی زندگی مکمل ہو گئی زوہیب کے شامل ہونے سے ۔ دانیا نظریں محد پر جماے بولی تھی ۔
ہم پوری زندگی اسی مقام پر تو کھڑے نہیں رہ سکتے زندگی میں آگے بڑھنا شرط ہے کوئی کسی بھی مقام پر مقررہ مدت سے زیادہ نہیں ٹھر سکتا ۔ دانیا کے پاس اس کی باتوں کا جواب نہیں تھا مگر وہ یہ کیسے بھول جاتی کہ اس شخص کا چند دن پہلے اس کی بہن سے نکاح ہونے والا تھا ۔
اسے سب معلوم تھا کہ دانیا اس سے دور رہنے کی کوشش کیوں کرتی ہے مگر اسے یہ بھی معلوم تھا کہ عنایہ نے شادی سے انکار کس وجع سے کیا تھا جو دانیا کو نہیں معلوم تھا اور معلوم ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ یہ نا ہی دانیا کے لیے سہی تھا نا عنایہ کے لیے نا ہی اس کے لیے ۔ وہ ایک بار دانیا کو کھو چکا تھا اب دوبارہ کھونا نہیں چاہتا تھا ۔
****************************************
رات کے آٹھ بج رہے تھے اور عفاف کچن میں کھڑی کیک بیک کر رہی تھی اسے کیک بناتے تقریباً ایک گھنٹہ ہو چکا تھا اب تو بس کیک کی ڈیکوریشن باقی تھی وہ بھی اس نے جلدی جلدی کرنا شروع کر دی تھی اتنے میں اسے سیڑھیوں سے نیچے اتر کر آتا وہ شخص دیکھائی دیا جس کے لیے وہ اتنی محنت کر رہی تھی ۔
عالیان آپ کہاں جا رہے ہیں ۔ عفاف نے عالیان کو سیڑھیاں اتر کر باہر کے گیٹ کی طرف جاتا دیکھائی دیا تو کچن میں کھڑی کھڑی بولی ۔
میں ۔۔۔۔۔ میں کسی ضروری کام سے باہر جا رہا تھا ۔ کیوں کوئی کام کیا ؟ عالیان کچن کی طرف آ گیا ۔
وہ میں نے تمہارے لیے تمہارا فیورٹ کافی کیک بیک کیا ہے ۔ عفاف خوشی سے کیک اس کے سامنے کرتی بولی جو بادام اور اخروٹ سے آدھا سجا ہوا تھا ۔
واہ یہ کس خوشی میں ۔ عالیان نے کیک کی شکل دیکھتے متاثر ہوئے بغیر کہا کیونکہ وہ عفاف کی قابلیت سے تو واقف تھا ہی ۔
وہ آپ ہی تو چچی کو کہہ رہے تھے کہ آپ کا کیک کھانے کا دل کر رہا ہے ۔
او ہو تو میڈم ہماری باتوں پر اتنی توجع دیتی ہیں ۔ عالیان نے اس انداز میں کہا کہ وہ شرما گئی ۔ اچھا تم یہ سنبھال کر رکھ دینا میں آ کر کھاؤں گا ۔ جس پر عفاف تھوڑی اداس ہو گئے تھی ۔
یار میں ضرور کھا کر جاتا مگر ابھی بہت ضروری کام سے جانا ہے مجھے ۔ عالیان نے اس کا اداس ہوتا چہرہ دیکھتے کہا ۔
ہاں تو آپ کھا لیں ناں ویسے بھی تیار ہے آپ ۔۔۔ آپ یہ اس والے حصے سے لے لیجئے (عفاف نے سجے ہوئے حصے کی طرف اشارہ کیا)
یہ خراب ہو جائے گا ناں ۔
نہیں ہوتا اور ویسے بھی جس کے لیے بنایا ہے وہ خراب بھی کر دے تو کچھ نہیں ہوتا ۔
عالیان نے عفاف کو محبت بھری نظروں سے دیکھا اور کیک کا پیس کاٹ کر ہاتھ میں پکڑ لیا ۔
واہ کیا ذائقہ ہے تمہارے ہاتھ میں ۔ عالیان نے وہاں کھڑے کھڑے جلدی میں وہ پیس ختم کرتے کہا ۔
ارے آرام سے ۔ عفاف نے اسے جلدی جلدی کھاتے دیکھا تو بولی ۔
اچھا میرے لیے باقی بھی چھپا دینا میں آ کر کھاؤں گا ۔
اچھا کب تک آئیں گے ۔ عفاف نے اسے باہر کی طرف مڑتا دیکھا تو بولی ۔
ہممم ۔ کام زیادہ نہیں ہے زیادہ لیٹ بھی ہوا تو گیارہ بجے تک آ جاؤں گا ۔ اچھا الله حافظ ۔ عالیان کہتا باہر کی طرف دوڑا اس پاس واقعی وقت بہت کم تھا مگر عفاف کی خوشی کہ لیے وہ کچھ لمحے کی دیری برداش کر سکتا تھا ورنہ عفاف کا دل دکھ جاتا جو اسے ہرگز گوارہ نہیں ہوتا ۔
****************************************
عالیان کو نیاء کام سونپ دیا گیا تھا کنگ کی طرف سے اسے گھنے درختوں اور جھاڑوں میں گیری پورانی فیکٹری جانے کا حکم ملا تھا فیکٹری کی حالت ایسی ہی تھی جیسے کہ ابھی گر جائے کیونکہ سالوں ہو گئے تھے اس کی باہر سے مرمت نہیں کرائی گئی تھی نا ہی کوئی رنگ و روگن کرایا گیا تھا جگہ جگہ سے پینٹ اکھڑ رہا تھا کنگ کی طرف سے اسے کہا گیا تھا کہ یہاں بھاری مقدار میں اسلحہ رکھا گیا ہے جو سمگل کیا جانا تھا اکثر ایسی ہی جگہوں پر سمگلنگ کا سامان رکھا جاتا ہے سنسان تاریک علاقے جہاں کسی کا گزر نہیں اور پولیس کو تو اپنی جیبوں میں رکھتے ہیں آج رات ہی یہ سامان گاڑیوں میں لوڈ کیا جانا تھا اور عالیان کو اس سے پہلے پہلے اپنا کام مکمل کرنا تھا عالیان نے آنکھوں پر لنز لگائے ہوئے تھے اور چہرہ بھی ایک کپڑے کی مدد سے ڈھکا ہوا تھا گیس کین بھی پاس ہی موجود تھی جس کی مدد سے وہ اکثر ایسی جگہوں پر اپنا کام کیا کرتا تھا ۔
****************************************
عفاف پریشان ٹی وی لاؤنچ میں ٹہل رہی تھی رات کے ساڑھے بارہ بج چکے تھے مگر عالیان کا اتا پتا معلوم نہیں تھا وہ کہاں ہے کب آئے گا کچھ معلوم نہیں تھا اسے گئے ہوئے چار گھنٹے گزر چکے تھے پہلے تو عفاف اسے پچھلے آدھے گھنٹے میں بیسیوں کالز کر چکی تھی مگر اس نے ایک کال نہیں اٹھائی تھی حالانکہ اس کا فون مسلسل بجے جا رہا تھا مگر آگے سے کوئی کال نہیں اٹھا رہا تھا یا تو موبائل سائلنٹ پر تھا یا پھر عالیان جان بوجھ کر اس کی کال نہیں اٹھا رہا تھا ۔ عالیان اسے کہہ کر گیا تھا کہ وہ گیارہ سے پہلے پہلے آ جائے گا وہ گیارہ تک انتظار کرتی رہی مگر وہ نہیں آیا گیارہ بجے پھر بارہ اس کے دل کو بے چینی محسوس ہو رہی تھی وہ کب سے دل کو یہی کہہ کر بہلا رہی تھی کہ شاید کام بڑھ گیا ہو شاید ٹریفک میں پھنس گیا ہو مگر رات کے اس وقت تو ٹریفک بھی نہیں ہوتی پھر اسے اتنی دیر کیوں ہو گئی وہ ابھی تک کیوں نہیں آیا عفاف نے محد کو ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا عمارہ بھی اس سے پوچھ چکی تھی مگر وہ عمارہ کو کیا جواب دیتی وہ اسے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی اور محد نے ببھی اسے فلحال کسی کو بھی کچھ بھی بتانے سے منع کیا تھا اور ویسے بھی عمارہ عالیان کے بارے میں بہت حساس تھی زرا زرا سی بات پر پریشان ہو جاتی تھی اس نے عمارہ کو کہہ کہ سونے کہ لیے بھیج دیا کہ عالیان سے رابطہ ہو گیا ہے ۔
اس کے دل میں بار بار عجیب عجیب خیال آ رہے تھے ۔ عفاف نے ایک اور بار عالیان کا نمبر ملایا تھا اس بار بھی ہر بار کی طرح کال بجی تھی مگر اس بار آگے سے کسی نے کال اٹھا لی تھی ۔
عالیان ۔۔۔۔ عالیان ۔ عفاف بوکھلائے ہوئے بولی تھی ۔
جی میں عالیان نہیں ہوں میرا نام قاسم ہے مجھے یہ فون جھاڑوں میں ملا کافی دیر سے بجنے کی آواز آ رہی تھی میں نے غور سے دیکھا تو یہ موبائل پڑا ملا ۔
عالیان۔۔۔۔۔ عالیان کہاں ہے ۔ عفاف تقریباً رونے والی ہو رہی تھی ۔
جی یہاں پر تو کوئی بھی نہیں ہے بس یہ موبائل جھاڑیوں میں پڑا ملا ۔ دوسری طرف موخاطب شخص نے جواب دیا تھا عفاف نے کال کاٹ دى اور محد کو فون ملایا محد کو گھر سے نکلے پندرہ منٹ ہو گئے تھے عفاف نے پندرہ منٹ پہلے محد کو بتایا تھا عفاف کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے کس کو بتائے کس کو نہیں کہیں سب یہ ہی نا سمجھے کہ وہ اوور ریکٹ کر رہی ہے مگر جب کافی دیر ہو گئی اور عالیان سے رابطہ نہیں ہوا تو اس نے محد کو بتانا مناسب سمجھا ۔
بھائی بھائی وہ عالیان کو کچھ ہو گیا ہے وہ کسی مشکل میں ہیں ۔ عفاف نے محد کے فون اٹھاتے ہی روتے ہوئے کہا تھا جس پر محد نے مکمل بات پوچھی تھی جو اس نے سب حرف با حرف بتا دیا ۔
عفاف تم فکر مت کرو عالیان کو کچھ نہیں ہو گا میں ڈھونڈ نکالوں گا اسے تم ابھی جا کر سو جاؤ ۔
بھائی آپ وعدہ کریں آپ عالیان کو سہی سلامت گھر واپس لے آئیں گے ۔
عفاف میں وعدہ کرتا ہوں تم فکر مت کرو اور رونا بند کرو اور دعا کرو کہ وہ سہی سلامت ہو ۔ محد نے کہتے فون کاٹ دیا تھا ۔ عفاف کمرے میں آ گئی بیڈ کی ٹیک سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور اسی حالت میں اس کی آنکھ لگ گئی ۔
***************************************
صبح نو بجے محد نے سب کو بتایا کہ عالیان رات بھر غائب رہا تھا اور صبح سات بجے پارک میں زخمی حالت میں پڑا ملا تھا سب کو جھٹکا لگا تھا کسی کہ وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ عالیان کو کچھ ہوا ہو سکتا ہے وہ سب تو چین کی نیند سوتے رہے تھے اگر کوئی جانتا تھا تو صرف عفاف اور محد ۔
کیا ہوا بھائی کو ۔ عمارہ فکرمندی سے بولی تھی ۔
کچھ نہیں کچھ ڈاکوں نے لوٹ کر زخمی کر کے پارک میں پھینک دیا تھا صبح گارڈ نے پارک کھولا تو اسے زخمی حالت میں دیکھ کر ہمیں اطلاع دی ۔ محد نے کچھ سچ اور کچھ جھوٹ کی ملاؤٹ کر کے بتا دیا تھا ۔
بھائی ٹھیک تو ہیں ناں ۔ عمارہ کا دل بےچین ہو رہا تھا ۔
بہتر ہے وہ ۔ محد نے نظریں چھپاتے کہا تھا ۔
ابھی کہاں ہے وہ ۔ ابا جی بولے تھے ۔
وہ ہسپتال میں ہے ابا جی آج شام تک آ جائے گا ۔ محد سے انہیں مطمئن کرتے کہا ۔
***************************************
زوہیب اور عنایہ ہوٹل کے کمرے میں موجود تھے کمرے میں لمبے سفید رنگ کے خوبصورت پردے لٹک رہے تھے بیڈ پر سفید ہی رنگ میں خوبصورت چادر بچھی ہوئی تھی کمرہ ایک عالی شان محل کے کسی کمرے سے کم نہیں تھا ۔ زوہیب اور عنایہ کو یہاں آئے آج تیسرا دن تھا پہلے دن انہوں نے کمرے میں آرام کرنا مناسب سمجھا جب دونوں کمرے میں پہنچے تو دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا تھا تو دوپہر کا کھانا انہوں نے کمرے میں ہی منگوایا تھا رات کا کھانا کھانے دونوں نیچے ریسٹورنٹ آ گئے تھے پھر عنایہ کو معلوم ہوا کہ یہاں کافی ایرایا بھی ہے جہاں آپ بیٹھ کر کافی بنا اور پی سکتے ہیں موسم خوشگوار تھا تو عنایہ اور زوہیب کافی ایرایا میں آ گئے زوہیب نے کافی کا گھونٹ تک نہ بھرا تھا کیونکہ وہ کافی نہیں پیتا تھا مگر وہ عنایہ کا ساتھ دینے کے لیے وہاں بیٹھا رہا اِدھر ادھر کی باتیں کرتا رہا عنایہ کو یہاں آ کر بہتر محسوس ہو رہا تھا ارد گرد کا ماحول لوگ رویہ طبیعت پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں اور ایسا ہی عنایہ کے ساتھ بھی ہو رہا تھا آج تیسرا دن تھا اسے سب کو دیکھے ہوئے خاص کر محد چوہدری کو دیکھے ہوئے ۔
دوسرا دن صبح اٹھ کر انہوں نے ناشتہ کیا فرانس کا ناشتہ کافی مشہور ہے اور کھا کر انہیں یقین بھی ہو گیا کہ یہ غلط مشہور نہیں دونوں کا آج ہوٹل سے باہر جانے کا ارادہ تھا۔ پاس ہی ایک ڈانس فیسٹیول منعقد کیا گیا تھا جس کے بارے میں انہیں کچھ خاص معلومات نہیں تھی تو دونوں نے جا کر دیکھنے کا فیصلہ کیا مگر ان کی نا علمی اور کم معلومات نے انہیں گھاٹے کے سوا کچھ نہیں دیا تھا وہ فیسٹیول فیملی کے دیکھنے والا نہیں تھا دونوں آدھا گھنٹہ پہلے ہی باہر نکل آئے تھے زوہیب کو کافی شرمندگی ہو رہی تھی کیونکہ یہاں عنایہ کو لانے کا فیصلہ زوہیب کا ہی تھا ۔
آج تیسرا دن تھا اور آج یہ ایفل ٹاور اور سینٹِ کاپیلی جانے والے تھے پہلے سینٹ کاپیلی اور ایفل ٹاور ان کی منزل تھے ۔
***************************************
دانیا محد کو اکیلے پاتے ہوئے اس کے پاس آ گئی تھی ۔
محد کیا ہوا تم پریشان لگ رہے ہو ۔
نہیں بس عالیان کے حوالے سے پریشان ہوں ۔
کیوں عالیان کے حوالے سے کیوں پریشان ہو ۔ دانیا جو جاننے چاہتی تھی وہ اسے محد ہی بتا سکتا تھا کیونکہ جو کہانی محد نے سب کو سنائی تھی اس پر دانیا کو یقین نہیں آیا تھا ۔
کوڈ ۔ ( محد کے منہ سے کوڈ سن کر اسے حیرت ہوئی تھی مگر اس نے اپنی حیرت محد پر عیاں نہیں ہونے دی تھی)
کوڈ ۔ دانیا نے بنا کسی تاثر کے کہا تھا ۔
ہاں عالیان کی اس حالت کے پیچھے کوڈ کا ہاتھ ہے (اس بات میں ذرا دانے کے برابر بھی سچائی نہیں تھی اس پر دانیا کے مکمل ایمان تھا) بہت بری حالت میں ملا ہے وہ ہمیں پورا جسم پر زخموں کے نشان تھے اور جگہ جگہ سے ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہیں ۔
تم نے سب سے جھوٹ کیوں بولا اور تمہیں کیسے پتا کہ کوڈ ہی ہے اس سب کے پیچھے ۔
کیا کہتا کہ عالیان ہمیں اس حالت میں ملا ہے کہ اسے دیکھا بھی نہ جائے چہرہ اتنا زخمی کہ پہچاننا مشکل ہو جائے اور ویسے بھی کوڈ کا نام سنتے ہی سب ڈر جاتے ہیں میں فلحال ایسا کچھ نہیں چاہتا ۔
کیا معلوم یہ حرکت کوڈ کی نا ہو کسی اور کی ہو ۔ دانیا جانتی تھی کہ یہ حرکت کوڈ کی نہیں ہو سکتی مگر یہ جاننا ضروری تھا کہ محد کو ایسا کیوں لگ رہا کہ یہ سب کوڈ نے کیا ہے ۔
مجھے پورا یقین ہے کیونکہ خود عالیان نے مجھے بتایا کہ یہ حرکت کوڈ کی ہے ۔ محد نے غصے اور نفرت سے کہا تھا دانیا کچھ سمجھتے ہوئے خاموش ہو گئی ۔
چار سال پہلے کوڈ نے مجھ پر حملہ کیا تمہیں مجھ سے چھین لیا اور پھر چند ماہ پہلے دوبارہ مجھے گولی مار کر مارنے کی کوشش کی اور کل عالیان کو اغوا کر کے اس کی یہ حالت کر دی ۔
دانیا خاموش اسے سنتی رہے ۔
شارقہ ۔ محد کے منہ سے بےاختیار نکلا تھا ۔
ہن ۔ دانیا نے بھی اسے ردِ عمل دیا تھا ۔
تم اس دن کہاں چلی گئی تھی ۔
اس دن جب انہوں نے ہم پر حملہ کیا تو میں تمہیں ہسپتال لے گئی وہاں تمہارے نمبر پر عنایہ کی کال آئی تھی اور مجھے سب معلوم ہو گیا اور میں اپنی موت ظاہر کر کے وہاں سے چلی گئی ۔ دانیا کے لیے محد کو اس وقت کوئی نا کوئی کہانی بنا کر سنانا ضروری تھا ورنہ شاید اس کا شک کسی اور طرف نکل جاتا جو وہ اس موڑ پر اس کے لیے قابلِ قبول نہیں تھا ۔
****************************************
ایفل ٹاور ہوٹل سے پندرہ منٹ کے فاصلے پر تھا اور سینٹ چاپیل(Sainte chapelle ) ہوٹل سے بیس منٹ کے فاصلے پر تھا اس لیے زوہیب نے اونلائن کیب بک کی تھی جو کہ آ چکی تھی پہلے یہ ایفل ٹاور اور پھر وہاں سے ہوتے ہوئے سینت چاپیل جانے والے تھے ۔
عنایہ نے کالے رنگ کی شورٹ فراک جس کے گلے پر ہلکی کڑہائی ہوئی تھی اور کالے ہی رنگ کی جینز پہن رکھی تھی بال سیدھے کیے گئے تھے اور شانوں پر پھیلے ہوئے تھے ۔ ہلکے رنگ کی لپ اسٹک اور خوبصورت چھوٹے چھوٹے جھمکے بے شک زوہیب کو وہ ایسے ہی وہ بہت پیاری لگتی تھی تو آج نا لگتی یہ کہاں ممکن تھا عنایہ نے آتے ہوئے زیادہ طر جینز اور شورٹ شڑٹ ہی رکھی تھی جو وہ ویسے بھی کبھی کبھار پہن لیا کرتی تھی ۔
زوہیب نے اسے کیب کے آنے کا بتایا اور پھر دونوں ہوٹل کے کمرے سے باہر نکل آئے ۔
پورا راستہ وہ گاڑی کے شیشے سے باہر دیکھتی رہی تھی اور زوہیب اسے دیکھتا رہا زوہیب کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ خوش ہے یہاں آ کر پچھتا نہیں رہی اس سے اچھے بات کرتی ہے مگر عنایہ کس طرح خوش رہنے کی کوشش کر رہی تھی یہ صرف وہ ہی جانتی تھی پر سکون رہنا مشکل تھا مگر وہ زندگی کے جس موڑ سے مڑ آئی تھی اس پر واپس جانا تو دور وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی اس نے زندگی کا ہر فیصلہ خدا پر چھوڑ دیا تھا یہ زندگی اس کے لیے کیا لے کر آتی ہے اس زندگی نے اس کے لیے کیا تیار کر رکھا تھا اب سب اسی پر منحسر تھا ۔
کیب ایفل ٹاور کے آگے تھی زوہیب عنایہ کو ایک جگہ بیٹھا کر ٹکٹ لینے کے لیے لائن میں کھڑا ہو گیا یہاں اسے اس اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا کہ اس نے ٹکٹ آئن لائن کیوں نہیں لی اتنی لمبی لائن میں کھڑے ہو کر لائن لینا واقعی صبر کی آزمائش تھی بار حال لمبی لائن میں کھڑے رہنے کے بعد وہ دو ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو ہی گیا تھا ایک ٹکٹ اوپر کی منزل کی تھی جس کی رقم تھوڑی زیادہ تھی دوسری نیچے کی منزل کی جس کی کم تھی زوہیب نے دو اوپر کی منزل کی ٹکٹ لی تھی کیونکہ اوپر کی منزل کی ٹکٹ کا فائدہ یہ تھا کہ وہ نیچے کی منزل پر بھی رک سکتے تھے ۔
دونوں ایفل ٹاور کی دوسری منزل پر کھڑے تھے ایک طرف پانی کے خوبصورت منظر ایک طرف اونچی عمارتیں اور ایک طرف ہریالی کا منزل نظر آتا تھا یہاں آنے سے پہلے عنایہ کا ایفل ٹاور کے بارے میں ایک ہی رائے تھی اور وہ تھی اوور ریٹیڈ بھلا ایک عمارت میں ایسا کیا ہی ہو سکتا ہے کہ دنیا دیوانی ہو جائے مگر یہ جگہ واقعی قابلِ ستائش تھی وہاں کھڑے ہو کر دونوں نے کچھ تصاویر بنائی تھی کچھ عنایہ اور زوہیب کی اکیلے اکیلے کی کچھ دونوں کی ساتھ ۔ وہاں کھڑے ایک شخص سے کہہ کر دونوں نے ساتھ دو تصاویر کھنچوائی تھی جو انہیں گھر والوں کو بھیجنی تھی عفاف عمارہ صائم زین چاروں نے انہیں تاقید کر کے بھیجا تھا کہ ایک ایک جگہ کی تصویر انہیں چاہیے ورنہ ان سے برا کوئی نہیں ہونے والا ۔
یو بوتھ آر اسٹینڈنگ ٹو فار ۔ ۔۔۔ کوم کلوزر ۔ تصویر کھینچتا شخص انہیں میلوں کے فاصلے پر کھڑا دیکھ بولا تھا جس پر دونوں تھوڑا ساتھ کھسکے تھے ۔
یہ بھی دن دیکھنا تھا کہ اس الله دین کے چراغ سے نکلے جن کے ساتھ تصویر. بنوانی پڑے گی مگر ساتھ ہی عنایہ کو زوہیب کے ساتھ کھڑے تحفظ کا احساس ہوا تھا جیسے وہ اس کا نگہبان ہو اور یہ احساس ہی پچھلے احساس کو جھٹکنے کے لیے کافی تھا اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اسے اپنی زندگی ممیں شامل کرنے والی وہ خود تھی ۔
تصویر کھینچتے ہی دونوں دوبارہ فاصلے پر کھڑے ہو گئے تھے ۔
دونوں کچھ دیر دوسری منزل پر کھڑے رہے اس کے بعد لفٹ میں پہلی منزل پر آ گئے وہاں زیادہ دیر کھڑے نہیں ہوئے اور نیچے آ گئے ایفل ٹاور کے آگے کھڑے ہو کر بھی کچھ تصاویر بنائی اور کیب میں بیٹھ گئے اور اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہو گئے ۔
***************************************
عالیان ہسپتال کے بستر پر پڑا ہوا تھا درد کی شدت سے ہلکی ہلکی آوازیں بھی نکل رہی تھی آنکھ کے نیچے زخم سے نیل کا نشان بن چکا تھا سر پر بھی پٹی بندھی ہوئی تھی ہاتھ بازو اور ٹانگوں پر بھی زخموں کے نشان تھے بازو کی ہڈی میں ہلکا سا فرکچر بھی آیا ہوا تھا اسے کل رات جس بےدردی سے مارا گیا تھا شاید کوئی اور ہوتا تو زندہ بھی نہ بچتا ۔ نیم بیہوشی میں کراہنے کی آواز کبھی کبھی نمایہ ہو جاتی اور پھر خاموشی چھا جاتی ڈاکٹر نے درد کے ٹیکے لگائے تھے مگر وہ زیادہ دیر تک اثر قائم نہ رکھ سکے تھے اتنے میں دروازہ کھلا تھا اور اندر تین لڑکیاں داخل ہوئی تھی عمارہ دانیا اور عفاف ۔ عمارہ محد کو کئی مرتبہ ہسپتال لے جانے کا بول چکی تھی مگر محد کی ٹال مٹول تھی کہ ختم ہی نہیں ہو رہی تھی زوہیب یہاں ہوتا تو وہ لے جاتا پھر دانیا نے اسے کہا کہ وہ لے جائے گی اسے ہسپتال اور پھر ساتھ عفاف بھی تیار ہو گئی ۔ عفاف عمارہ عالیان کے قریب کھڑی ہو گئی جبکہ دانیا دور سے ہی اس کی حالت دیکھ کر اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی تھی عالیان کے چہرے کی حالت دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ اسے مکوں سے مارا گیا ہو گا اور بازو اور ٹانگوں پر بندھی پٹیاں یہ بتا رہی تھی کہ کسی روڈ یا ڈنڈے کا استعمال کیا گیا تھا یہ کوڈ کی حرکت ہو سکتی تھی اگر یہاں بستر پر عالیان کے علاوہ کوئی اور ہوتا شاید حالت اس سے بھی بتر ہوتی کسی چور ڈاکو کی حرکت نہیں ہو سکتی اگر ہوتی تو وہ مزحمت پر اسے سیدھا گولی مارتے نہ کہ اس طرح تشدد کا نشانا بناتے پولیس کی ہوتی تو محد کے تاثرات ایسے ہرگز نہیں ہوتے گویا دانیا اپنے دماغ میں مکمل تصویر کھینچ چکی تھی کہ کیا ہوا ہو گا اور کیسے اور سارے اشارے اسی طرف رخ کرتے تھے کہ اسے کسی دشمن نے اس حال تک پہنچایا ہے مگر اس کے دماغ میں ایک بات نہیں آ رہی تھی کہ عالیان رات کو ادھر کرنے کیا گیا تھا کیونکہ اس نے تو عالیان کو کوئی کام نہیں دیا تھا اور نا ہی بوس نے دیا تھا اگر دیا ہوتا تو یقیناً اسے اس بارے میں اگاہی ضرور ہوتی ۔
عمارہ نے عالیان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا تھا اور اپنے چہرے کے قریب لاتے بوسہ دیا تھا اور پھر اپنی آنکھوں پر رکھ دیا تھا ۔
بھائی یہ کیا ہو گیا آپ کو محد بھائی تو کہہ رہے تھے ہلکی سی چوٹ ہے مگر دیکھیں آپ نے تو خود کو کس حال میں پہنچا دیا ہے ۔ عمارہ کی آواز بھیگ گئی تھی ۔
عمارہ ہمت کرو ایسے عالیان کے سامنے رونا نہیں ہے ہمیں ۔ عفاف خود بہت کمزور پڑ گئی تھی عالیان کو اس حالت میں دیکھنا اس کے لیے بھی اتنا ہی مشکل تھا جتنا عمارہ کے لیے تھا مگر اسے عمارہ کو بھی سنبھالنا تھا وہ فلحال رو نہیں سکتی تھی آج اسے سمجھ آیا تھا کہ رونے سے زیادہ مشکل اپنے آنسوں کو روکنا ہوتا ہے ۔
آپی میں کیسے نہ روں بھائی کو دیکھو کہاں سے یہ میرا بھائی عالیان لگ رہا ہے ۔ عمارہ نے عالیان کے ماتھے پر ہاتھ پھیرتے کہا تھا ۔
عمارہ عالیان جلد ٹھیک ہو جائے گے ۔ عفاف اس کے دونوں کاندھوں پر ہاتھ رکھتے بولی تھی ۔
مگر وہ اس حال تک پہنچے ہی کیوں میں انہیں اس حال میں نہیں دیکھ سکتی اگر بھائی کو کچھ ہو جاتا تو میں کیا کرتی آپی ۔ عمارہ کی رونے میں اضافہ آیا تھا ۔
عمارہ عفاف تم دونوں خاموشی سے کھڑے ہو جاؤ ڈاکٹر نے منع کیا ہے ناں ۔ دانیا انہیں کہتی خاموش کرا گئی ۔
الله غرق کرے جس نے میرے بھائی کے ساتھ ایسا کیا ہے ۔ عمارہ ہلکی آواز میں بولی تھی ۔
آمین ۔ عفاف نے اس کے الفاظ سنتے جواب ميں کہا تھا ۔
عمارہ کچھ دیر اور ایسے ہی اس کا ہاتھ سینے سے لگائے بیٹھی رہی ساتھ عفاف بھی عالیان کو بیٹھے دیکھتی رہی دانیا البتا کچھ کام کے سلسلے میں باہر چلی گئی اور پھر کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے آ کر ان دونوں کو بھی کمرے سے باہر نکال دیا ۔
****************************************
زوہیب اور عنایہ ایفل ٹاور سے ہوتے ہوئے اب سینٹ چپیل(Sainte chapelle ) کی طرف روانہ تھے سینٹ چپیل ایفل ٹاور سے سات منٹ کے فاصلے پر تھا مگر انہیں سینٹ چیپل پہنچنے میں کافی وقت لگ گیا اس کی وجع یہ تھی کہ ایفل ٹاور طسے سینٹ چیپل آتے ہوئے وہ راستے میں ایک کیگے میں رک گئے جہاں انہوں نے فرانس کی مشہور چاکلیٹ سوفلی اور ٹارٹے ٹیٹن آرڈر کیا زوہیب کو ٹارٹے ٹیٹن کافی پسند آیا تھا پھر دونوں سینٹ چیپل کی طرف روانہ ہو گئے ۔ سینٹ چیپل کو گوتھک فن تعمیر کے ریونینٹ دور کی اعلی کامیابیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسے فرانس کے بادشاہ لوئس IX نے اپنے جذبہ آثار کے ذخیرے کو سونپ دیا تھا ، اسے جذبہ مسیح کے آثار رکھنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا تھا ۔ سینٹ چیپل پہلے کیرولینجین شاہی چیپلوں سے متاثر ہوا تھا ، خاص طور پر وہ چارلمین کے اپنے محل آکس این چیپل (اب آچین) میں۔ یہ تقریبا 800 میں تعمیر کیا گیا تھا ، اور شہنشاہ کی تقریر کے طور پر کام کیا گیا تھا۔ چیپل کی سب سے مشہور خصوصیات ، جو دنیا میں اپنی نوعیت کی بہترین ہیں ، اوپری چیپل کے نوا اور اپس میں پندرہ عظیم داغے ہوئے شیشے کی کھڑکیاں ہیں۔
اس کے شاندار داغے ہوئے شیشے کے ساتھ ، سینٹ چیپل پیرس کے قلب میں گوتھک فن تعمیر کا جوہر ہے۔ ہر سال 900،000 سے زیادہ زائرین کا استقبال کرتے ہوئے ، قرون وسطی کا چیپل پیرس کے سب سے جادوئی مقامات میں سے ایک ہے۔ اس کی شاندار داغ شیشے والی کھڑکیاں پیرس کی قدیم ترین میں سے ہیں۔ بادشاہت کی ایک حقیقی علامت ، سینٹ چیپل 1789 میں فرانسیسی انقلابیوں کے اولین اہداف میں سے ایک تھا۔ جبکہ اس کے دو تہائی داغے ہوئے شیشے کی کھڑکیاں اصل ہیں ، چیپل کی تاریخ میں مختلف بحالیوں نے اس کے کچھ پینلز کو ہٹا دیا ہے۔ سینٹ چیپل کے اندرونی حصے میں نیلا یاقوتی اور جامنی رنگ نمایا ہے ۔ راہداری ایسے جیسے استعمال کرتی ہو خوبصورت نقش و نگار  اور بہترین فنِ تعمیر خود میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ عنایہ نے پیرس آنے سے پہلے سینٹ چیپل کو صرف تصویروں میں دیکھ رکھا تھا اور وہ تصویر دیکھتے ہی اس جگہ کی دیوانی ہو گئی تھی یقیناً اس سے زیادہ خوبصورت اور اعلیٰ مقامات موجود ہوں گے مگر اس جگہ میں اسے عجیب کشش محسوس ہوئی تھی اور اس نے فیصلہ کر لیا تھا جب بھی پیرس آئی یہاں ضرور آئے گی وہ الگ قصہ تھا کہ اس کے تصورات میں اس کے ساتھ سینٹ چیپل آنے والا اس کا ساتھی بندل گیا تھا پہلے وہ چوہدری محد ظفر ہوتا تھا اب وہ چوہدری زوہیب اصغر تھا قسمت نے کتنا کچھ بدل دیا تھا ۔
زوہیب یہ بات محسوس کر رہا تھا کہ عنایہ ایفل ٹاور سے زیادہ خوش اس جگہ کو دیکھ کر ہوئی تھی اس سے رہا نہیں گیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو سوال کرنے سے روک سکتا ۔
عنایہ تمہیں یہ جگہ بہت پسند آئی ہے ۔ زوہیب نے عام سے لہجے میں کہا تھا ۔
ہاں مجھے ہمیشہ سے سینٹ چیپل آنے کا شوق تھا میں تو محد کو ۔۔۔۔ وہ کہتے کہتے رک گئی تھی ۔
عنایہ اس کا نام لینا کفر تو نہیں ہے تم اگر زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی ہو تو کچھ چیزوں کو عام بنا لو یا عام بنانے کی کوشش کرو جیسے پچھلی باتیں دہرانا اس میں کوئی بری بات نہیں وہ یادیں تھی اور یادیں ہی تو یاد آتی ہیں ایک دن عام ہو جائیں گی ۔ اتنے دنوں میں زوہیب نے پہلی بار اس کے اور محد کے بارے ميں کچھ کہا تھا یا اسے کوئی مشورہ دیا تھا ورنہ زوہیب نے تو اس سے نکاح سے انکار کی وجہ تک نہیں پوچھی تھی ۔
ہاں میں وہ محد کو کہتی تھی کہ ہم جب گھومنے آئیں گے تو سینٹ چیپل ضرور آئے گے ۔
پھر تو تمہیں ڈھیر ساری تصویریں بنانی چاہیے  یادیں بنانی چاہیے جو عمر بھر ساتھ چلیں ۔ زوہیب مسکراتے ہوئے بولا اسے خوشی تھی کہ وہ عنایہ کی کوئی تو خواہش پوری کرنے میں کامیاب رہا ۔ زوہیب کے کہنے پر عنایہ نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ زوہیب نے کمرے کی آنکھ سے عنایہ کی ڈھیر ساری تصویریں بنائی ۔ کچھ دونوں نے ساتھ بنائی کچھ سینٹ چیپل کی بنائی وہ سینٹ چیپل کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی تھی خوش ہونے سے زیادہ خوش ہونے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ وہ اپنے کئے گئے فیصلے پر پچھتانا نہیں چاہتی تھی ۔
تقریباً ساڑھے سات بج رہے تھے جب دونوں سینٹ چیپل سے ہوٹل کے لیے نکلے ہوٹل پہنچ کر وہ رات کا کھانا کھا کر آرام کرنے والے تھے ۔
****************************************
دانیا گھر پہنچی تو رات کے آٹھ بج رہے تھے وہ دوپہر ساڑھے تین بجے ہسپتال کے لیے نکلے تھے واپسی پر وہ کچھ اور کام بھی نپٹا آئی تھی اور پھر راستے میں محد سے بحث بھی ہو گئی کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ عمارہ یا کوئی بھی عالیان کو اس حالت میں دیکھیں ایک بار اسے ہوش آ جاتا بولنے کے قابل ہو جاتا تو سب مل لیتے لیکن دانیا عفاف اور عمارہ کو ملانے لے گئی جو کہ اسے ایک بیوقوفانہ حرکت لگی تھی مگر دانیا کو کہیں سے یہ بےوقوفی نہیں لگی تھی اس کے نزدیک یہ عمارہ کا حق تھا کہ وہ اپنے بھائی کے بارے میں جان سکے وہ کس حال میں ہے اسے دیکھنے کا عمارہ کو مکمل حق تھا ۔ 
ابھی کمرے میں آ کر بیٹھی ہی تھی اپنے بیگ سنبھال کر رکھا ہی تھا کہ اس کے فون پر کسی کی کال آئی نمبر نامعلوم تھا مگر دانیا نے کال اٹھا لی ۔
ہلو کون ۔ اس نے فون اٹھاتے ہی پوچھا تھا ۔
ہم جناب پہچانا نہیں ۔ آگے سے ایک جانی پہچانی آواز میں ایک شخص بولا تھا ۔
تم ۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی ۔ دانیا غصے میں بولی تھی ۔
ارے جناب دل کا عزاب عرقِ گلاب ہمت ہماری تو نا ہی پوچھیں آپ ہماری ہمت تو بستر پر دیکھ ہی آئیں ہیں آپ ۔ وہ شخص کمینگی سے مسکراتا بولا تھا ۔
یاور لاکھانی یہ تم نے اچھا نہیں کیا تمہیں اس کی بھاری قیمت چکانی ہو گئی ۔
ہاہاہا ۔ یاور لاکھانی ہنسا تھا ۔
یہ تو ہم بےاصولوں کے بھی کچھ اصول ہیں جناب ورنہ حسن تمہارے گھر میں کم تو نہیں ۔ یاور لاکھانی کا اشارہ دانیا سمجھ گئی تھی جس پر غصے سے اس کے ماتھے پر سلوٹیں آ گئی ۔
یاور لاکھانی میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں تمہیں برباد کر دوں گی میں ۔
ارے ہم تو پہلے ہی برباد ہیں آپ اپنی فکر کرو جناب اپنے کوڈ کی فوج کو زرا سنبھال کر رکھنا جانے اگلا نمبر کس کا ہو خدا کو ہی بہتر پتا ۔ یاور لاکھانی نے کہتے کال کاٹ دی ۔
دانیا نے موبائل بیڈ پر پھینکا تھا غصے میں اپنی بال ہاتھوں میں لیے تھے اور بیڈ پر بیٹھ گئی تھی ۔
یاور لاکھانی یہ تم نے اچھا نہیں کیا تم نے دانیا کے اندر بیٹھے کنگ کو جگایا ہے اور اسے جگانے والوں کا انجام دیکھ کر تو کنگ خود بھی ڈر جاتا ہے ۔ دانیا غصے میں خود سے مخاطب تھی ۔
پھر اس نے سب کوڈز کو الگ الگ نمبر سے الگ الگ آواز سے کال ملائی تھی ہر کوڈ کا ایک خاص نام تھا جب تک وہ نام نہیں پکارا جاتا کوئی کوڈ کنگ کو جواب نہیں دیتا تھا ۔
کنگ نے ہر کوڈ کو اس کا حاص کام بتایا تھا کچھ کو یاور کا پتا لگانا تھا کچھ کو اس کے بعد کی تیاریاں کرنی تھی اس کی موت کی تیاریاں اور کچھ کو ابھی خاموشی سے تماشا دیکھنا تھا انہیں مکمل خاموش رہنے کا حکم ملا تھا کچھ عرصے کے لیے روپوشی اختیار کرنے کو کہا گیا تھا ۔ آخر میں اس نے بوس کو فون ملایا مگر ایک کنگ کی حیثیت سے عالم خان اور دانیا ولی خان کے بیچ تین رشتے تھے ایک جہاں عالم اس کا چچا تھا ایک کوڈ اور بوس کا جہاں دانیا عالم کے ماتحت کام کرتی تھی اور آخری بوس اور کنگ کا جہاں عالم یعنی بوس دانیا یعنی کنگ کی بات مانتا تھا ۔
بوس نے فون اٹھاتے ہی سلام کیا تھا ۔
کنگ کوئی کام ۔ اور سلام کے بعد کام کا پوچھا تھا ۔
بوس مجھے کچھ ضروری احکامات جاری کرنی ہیں آج سے کسی کوڈ کو کوئی کام نہیں دیا جائے گا سب کو میں نے جو انہیں کرنا ہے وہ بتا دیا ہے کسی بھی نئے بندے کی گینگ میں کسی طرح کی بھی اینٹری بند ہے چاہے ایک ڈریور کی حیثیت سے ہی کیوں نا ہو اور کوئی بھی آپ کے آفس میں نا آئے جب تم یاور لاکھانی پکڑا نا جائے ۔
کنگ کچھ ہوا ہے کیا ایک دم اچانک ۔ بوس کنگ کے ان احکامات پر تھوڑا پریشان ہو گیا اس طرح کے احکامات بہت ہی ہنگامی صورتحال میں دیے جاتے ہیں ۔ بوس کے پوچھنے کا کنگ نے سب تفصیل سے اسے بتا دیا ۔
مگر ہم ایسے چپ کر کے تو نہیں بیٹھ سکتے کنگ یاور ایک حرکت سے اس طرح کے قدم اٹھانا مجھے نہیں لگتا سہی ہو گا ۔
بوس وہ شخص بہت خطرناک ہو جاتا ہے جو ایک لمحہ میں اپنا سب کچھ کھو دے اور یاور لاکھانی انہی میں سے ایک ہے جس نے لمحوں میں اپنا نام دولت عزت شہرت سب لٹتے دیکھا ہے اس کا دھندا اس کا کاروبار سب برباد ہو گیا مگر اب وہ آخری ساکھ ہم پر لگانا چاہتا ہے ہمیں برباد کرنا چاہتا ہے جو کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد پار کر سکتا ہے ۔ بوس نے سمجھتے ہوئے فون رکھ دیا ۔
***************************************
زوہیب اور عنایہ باہر سے واپس آ چکے تھے عنایہ کپڑے بدل کر آرام دہ کپڑے پہن چکی تھی جسے پہن کر سویا جا سکے بال باندھ کر جوڑے کی شکل میں سمیٹ چکی تھی اور اب واش روم سے فریش ہو کر باہر نکل رہی تھی جب اس کا ہاتھ دروازہ بند کرتے ہوئے دروازے میں آ گیا تھا درد کی شدت سے اس کی چیخ بلند ہوئی تھی اس نے جلدی سے چاروں انگلیاں دوسرے ہاتھ لے کر آنکھیں بند کی تھی درد کی شدت سے آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے ۔
زوہیب بھاگتا ہوا عنایہ کے پاس آیا تھا اور اس کا ہاتھ تھام لیا انگلوں پر زخم کے نشان واضح تھے ہلکا کون بھی نکل رہا تھا زوہیب اسے بیڈ پر بیٹھا کر فرسٹ ایڈ بوکھ کی تلاش کرنے لگا اور جلد ہی اسے فرسٹ ایڈ بوکھ مل گیا ۔
زوہیب نے اندر سے پٹی اور دوائی نکالی اور دوائی نکال کر پٹی اس کے ہاتھ پر باندھنا شروع کیا ۔
عنایہ دھیان سے چلا کرو ناں دیکھو چوٹ لگ گئی ۔
مجھے پتا نہیں چلا کیسے لگ گئی میں تو بس دروازہ بند کر رہی تھی ۔ عنایہ نے دوسرے ہاتھ سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تھا ۔
ہاں تو دھیان سے چلنا تھا ناں اگر دروازہ دیکھ کر بند کرتی تو اس طرح چوٹ نا لگتی ۔ زوہیب فکرمندی سے کہا جس پر عنایہ نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا ۔
کھڑوس انسان مطلب یہاں چوٹ بھی مجھے لگے اور باتیں بھی میں ہی سنوں ۔ عجیب ۔ عنایہ دل میں بولی تھی ۔
آپ رہنے دیں میں خود کر لیتی ہوں ۔ عنایہ نے ہاتھ پیچھے کرتے کہا ۔
نہیں میں باندھ دیتا ہوں ۔ زوہیب نے دوبارہ اس کا ہاتھ تھام لیا ۔
نہیں آپ رہنے دیں آپ کو ایسے ہی تکلیف اٹھانی پڑی میری وجع سے ۔ عنایہ نے دوبارہ ہاتھ پیچھے کھینچنے کی کوشش کی مگر اس بار زوہیب نے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا ۔
نہیں مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی مجھے تو بس فکر ہو رہی تھی تمہاری بس اسی لیے ۔ زوہیب نے نظریں اس کے ہاتھ کی طرف جھکا لی اور پٹی کو گرہ لگا دی اور اس کے ہاتھ پر محبت سے ہاتھ پھیرا تھا جو عنایہ نے محسوس نہیں کیا تھا زوہیب نے اتنی محبت سے ہاتھ پھیرا تھا جیسا کوئی شفا کا دم کر رہا ہو اور پھر وہاں سے اٹھ گیا ۔
**************************************
عالیان ہسپتال میں لیٹا ہوا تھا جسم میں ابھی بھی تکلیف تھی مگر بار بار دی جانے والی دوا نے کچھ نا کچھ اثر ضرور دیکھایا تھا اب وہ برداش کرنے کے قابل تھا اور کراہنے کی آواز بھی تب نکلتی تھی جب وہ زیادہ حرکت کرتا تھا یا کڑوٹ لیتا تھا اسی وجع سے وہ ہلنے سے گریز کر رہا تھا ۔ وہ بستر پر لیٹا یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ آخر کل رات کیا ہوا تھا سب کچھ دھندلا دھندلا سا نظر آ رہا تھا جو آخری چیز اس کی آنکھوں کو یاد تھی وہ اس کا فیکٹری کی کے پاس پہنچنا تھا اس کے بعد کسی نے اس پر حملہ کیا تھا اس کی ہاتھا پائی ہوئی تھی ۔ شاید اس وقت اس کا موبائل نیچے گرا تھا پھر کسی چیز سے اس کے سر پر وار کیا گیا تھا اس کے بعد کی سب یادیں دھندلائی ہوئی تھی بار نار بےہوش ہونی کی جھلکیاں بھی یاداشت پر نمایا تھی شاید ہر تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کے منہ پر پانی پھینکا جاتا تھا جس سے وہ ہوش میں آ جاتا تھا مگر جو کچھ بھی اسے نظر آ رہا تھا وہ سب دھندلا تھا کچھ بھی واضع نہیں تھا وہ کئی بار کوشش کر چکا تھا کہ اسے وہ چہرے یاد آ جائیں جنہوں نے اس پر حملہ کیا تھا کیونکہ یہاں سے نکلے کے بعد اسے سب سے پہلے ان لوگوں کو ڈھونڈ کر انہیں ان کے انجام تک پہنچانا تھا ۔ اور انجام تک پہنچانے سے زیادہ ضروری یہ جاننا تھا کہ ان کا آخر مقصد کیا تھا کیونکہ اگر ان کا مقصد عالیان کی جان لینا ہوتا تو وہ اس وقت زندہ ہسپتال کے بستر پر نہ پڑا ہوتا ضرور وہ اسے وقت پر مار چکے ہوتے اور ان کے پاس یقیناً کم مواقع نہیں تھے عالیان کی جان لینے کے تو آخر ان کا مقصد کیا تھا کیا صرف اسے مارنا اسے عزیت پہنچانا مگر کیوں وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس نے کسی کا بگاڑا ہی کیا ہے کیونکہ وہ جانتا تھا اس نے بہت سوں کی زندگی عزاب بنائی ہے اور ہو سکتا ہے کہ انہی بہت سوں میں سے کسی نے اس کے ساتھ یہ حرکت کی ہو ۔
****************************************
اسلام علیکم کیسے ہیں آپ سب لوگ امید ہے خیریت سے ہوں گے آیپی کیسی لگی امید ہے پسند آئی ہو گئی اپنی رائے دینا مت بھولنا ووٹ کرنا اور اگلی قسط کا انتظار 😉 نہیں اس بار انشاء الله آپ کی یہ رائٹر جلدی دے گی ۔
اللّٰہ حافظ ۔ شکریہ

حیات المیراث CompletedNơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ