قسط ۶

441 28 75
                                    

عفاف کمرے میں بیٹھی اپنے موبائل پر لگی تھی جب عمارہ اس کے کمرے کے پاس سے گزری مگر عفاف کو یوں بیٹھا دیکھ وہ اندر آ گئی ۔
عفاف آپی کیا کر رہی ہیں ؟ عمارہ نے اندر آتے ہی سوال کیا ۔
عفاف نے موبائل سکرین سے نظریں اس کی طرف موڑ لی ۔
میں ۔۔۔۔۔میں تو کچھ بھی نہیں کر رہی تم بتاؤ کیسے آنا ہوا کوئی کام تھا کیا ۔ عفاف نے دوبارہ نظریں سکرین کی طرف موڑ لی ۔
نہیں کام تو کچھ نہیں تھا بس۔۔۔۔
عمارہ نے عفاف کو موبائل پر جھکا اسے نظر انداز کرتا پایا تو عمارہ اپنے سوال دل میں دفنائے کمرے سے باہر نکل آئی ۔ عفاف کا ہنس ہنس کر موبائل استعمال کرنا اور پھر جو کل عمارہ نے سنا عمارہ کو بہت برا لگ رہا تھا کہ وہ عفاف پر شک کر رہی ہے مگر اس کے خدشات کہیں نا کہیں بجا تھے ۔
************************************
عنایہ کافی کا کپ زوہیب کے کمرے میں رکھ کر باہر نکل آئی اور اپنی ماں کے کمرے میں آ گئی جہاں وہ گم سم بیٹھی ہوئی تھی ۔ عنایہ کو نورین کی حالت ٹھیک نہیں لگی تھی ۔
امی کیا ہوا ہے آپ ایسے کیوں بیٹھی ہیں اور بہت پریشان بھی لگ رہی ہیں کچھ بات ہے کیا ۔ عنایہ فکر مندی سے بولی ۔
نہیں بیٹا کوئی بات نہیں ہے میں ٹھیک ہوں ۔
امی کچھ تو ہوا ہے بتائیں ناں ۔ عنایہ نے ضد کرتے کہا ۔
کچھ نہیں ہوا عنایہ ضد مت کرو ۔ نورین نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا ۔
امی اب آپ مجھ سے باتیں چھپائیں گی نوٹ فئیر ۔ بتائیں ورنہ پتا تو میں ویسے بھی کر ہی لوں گی ۔
عنایہ ۔ نورین کی زبان اس سے زیادہ کچھ نہیں بول پائی تھی اور آنکھیں تھی کہ بند توڑے پھوٹ پڑی تھی ۔
امی ۔ عنایہ نے کہتے نورین کو سینے سے لگا لیا اور اسے رونے دیا کھل کر رونے دیا کبھی کبھار روتے ہوئے شخص کو چپ نہیں کرایا جاتا بلکہ کندھا دے دیا جاتا ہے تاکہ وہ کھل کر رو لے اور اس شخص کو حقیقتً ایک کندھے کی ہی ضرورت ہوتی ہے ۔ نورین نے سر آٹھایا تو آنکھیں تر تھی مگر اب اور آنسو نہیں بہہ رہے تھے شاید اب اور آنسو بچے ہی نہیں تھے ۔
کیا ہوا ہے پپا کو عنایہ نے نورین کی آنکھوں میں جھانکتے کہا ۔
نورین نے اس کے سوال پر اسے بالکل حیرت سے نہیں دیکھا تھا کیونکہ اس کی حالت سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ بات عالم خان کے متعلق ہے ۔
کچھ نہیں بس ان سے بات ہوئی تھی تو بس اسی لیے ۔
عنایہ کی آنکھوں میں نا چاہتے ہوئے بھی حسرت امڈ آئی اپنے باپ سے بات کرنے کی حسرت ان کی آواز سننے کی حسرت ۔
وہ آئیں گے ۔ نورین نے جیسے اسے آگاہ کرنا چاہا مگر وہ تو کسی اور ہی دنیا میں گم تھی کسی اور ہی خیال میں فنا ۔
عنایہ وہ تم سے ملنا چاہتے ہیں ۔ اس بار نورین نے اس کو بازو سے پکڑ کر کہا تھا ۔
جی امی ۔ عنایہ خیالوں کی دنیا سے لوٹتے بولی تھی ۔
وہ تمہاری شادی پر آئیں گے انہوں نے مجھے بتایا ہے ۔ نورین نے کبھی اسے امید نہیں دلائی تھی کبھی اسے یہ نہیں کہا کہ اس کا باپ اس سے ملنے آئے گا مگر وہ ہمیشہ اس کے سامنے عالم خان کی تعریفیں ضرور کرتی تھی کیونکہ ابا جی ہمیشہ عنایہ کے سامنے عالم خان کو برا بھلا بولنا شروع کر دیتے تھے اس کی برائیاں کرتے تھے اور نورین یہ ہر گز نہیں چاہتی تھی کہ عنایہ اپنے باپ سے بد زن ہو جائے یا وہ اس سے نفرت میں مبتلا ہو جائے نورین نے ہمیشہ عالم خان کو ایک ہیرو کی طرح پیش کیا تھا ایک بہادر انسان جو حق بات کرنے سے نہیں ڈرتا جو ہر ایک کے سامنے سینا تان کر کھڑا ہو جاتا ہے عنایہ نے کہیں نا کہیں دل میں یہ امید لگا لی تھی کہ عالم خان کبھی نا کبھی اس سے ملنے ضرور آئے گا اسے سینے سے لگانے اور تب وہ اس کے سامنے اپنی تمام شکایات رکھ دے گی ۔
عنایہ نے نورین کی گود میں سر رکھ لیا ۔
امی کب آئیں گے وہ ۔ عنایہ کی آنکھ سے پہلا آنسو نکلا تھا ۔
پتا نہیں مگر تمہاری شادی سے پہلے آئیں گے ۔ نورین نے اسے آگاہ کرتے کہا ۔
مگر امی شادی میں تو ایک مہینہ پڑا ہے ۔ عنایہ فکرمندی سے بولی ۔
ہاں تو ۔ نورین جیسے اس کی بات سمجھی ہی نہیں تھی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امی وہ پہلے نہیں آ سکتے کیا ۔ عنایہ کے دل کی حسرت زبان پر آ گئی تھی ۔
نہیں بیٹا ابا جی نہیں مانے گے آپ کی شادی پر پھر لوگوں کا سوچ کر مان بھی جائیں مگر اس سے پہلے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
امی ہم شادی پہلے کر لیتے ہیں ۔ عنایہ فوراً بولی ۔ نورین کے دل میں جیسے درد اٹھا اس کی بیٹی اپنے باپ سے ملنے کو بےتاب تھی شاید اندر وہ ٹوٹ رہی تھی شاید یہ خواہش اس کے دل میں کب کی جنم لے چکی تھی اور وہ ایک لمبے عرصے تک اسے بڑا کر رہی تھی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ عنایہ شادی کیسے پہلے ہو سکتی ہے ۔ نوریں نے عنایہ کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے کہا ۔
امی پھر انہیں کہیں کہ پہلے آ جائیں ابا جی سے میں بات کر لوں گی ۔ عنایہ روب سے بولی تھی ۔
عنایہ تمہیں عالم کی یاد آتی ہے کیا ۔ نورین کو بولنے کے بعد اپنے الفاظ پر افسوس ہوا یہ بھی کرنے والا سوال تھا وہ ایک بیٹی تھی جو اپنے باپ سے ملنا چاہتی تھی جو ایک لمبے عرصے سے اس سے نہیں ملی تھی کیا ایک بیٹی کے لیے اپنے باپ کو یاد کرنا فطری عمل نہیں تھا ۔
عنایہ کی آنکھیں مکمل بھیگ گئی ۔۔ امی مجھے وہ بہت یاد آتے ہیں مجھے وہ ہی نہیں بلکہ سب ہی یاد آتے ہیں آپ بتائیں کیا آپ کو وہ یاد نہیں آتے کیا آپ کو آپی بھی یاد نہیں آتی کیا آنی بھی یاد نہیں آتی مجھے تو سب یاد آتے ہیں شدت سے یہاں سب ہیں مگر کوئی نہیں جسے میں پپا بولا سکوں یہان آپی بولانے والے تو بہت ہیں مگر کوئی ایسا نہیں جسے میں آپی کہہ سکوں یہاں کوئی ولی خان نہیں ہے جو دلوں کی جان ہوتا ہے یہاں کوئی آنی سا حسین نہیں ہے جس کی میں لپ سٹک چوری کر کے لگاؤں یہاں سب ہیں مگر ان سب جیسا ایک بھی نہیں ہے آپ کو پتا ہے کبھی کبھی دل کرتا ہے میں بھاگ جاؤں ان کے پاس انہیں ایک نظر دیکھ آؤں پھر دل پھیری لگا لیتا ہے کہتا ہے اگر انہوں نے تجھے پہچاننے سے ہی انکار کر دیا اور یہ کوئی خیال نہیں ہوتا امی یہ تو دل کو زخمی کر دینے والا آلہ ہوتا ہے جو گہرا زخم لگا دیتا ہے ۔ نورین کو عنایہ کی حالت دیکھتے بہت دکھ ہوا وہ آج تک سب چھپائے بیٹھی تھی اس نے دل کی باتیں دل کے غم اپنی تمام حسرتیں دل کے کونے میں قید کر رکھی تھی جو آج اپنے پنجرے کا تالا توڑتے باہر آ گئی تھی ۔
ہاں مجھے بھی یاد آتی ہے سب کی خاص طور پر ولی خان کی اب کوئی مجھے نین نہیں کہتا ناں ۔ آج دونوں ماں بیٹی اپنے ان رشتوں کو یاد کر کے رو رہی تھی جنہیں یہ کہیں پیچھے چھوڑ آئی تھی اور جن کے پاس لوٹنے کی چاہ انہیں اب تڑپا رہی تھی ۔
************************************
جب سے یاور لاکھانی کا ذکر ہوا تھا بوس اور دانیا دونوں ہی پریشان رہنے لگے تھے اور یہ پریشانی واضح دیکھی جا سکتی تھی بوس نے سب سے ملنا کم کر رکھا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کسی کوڈ کو بھی اس کی بھنک پڑے دانیا کی تو الگ بات تھی مگر باقی کسی کو اس بات کی خبر ہو اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ ماہم بھی اس بات کو شدت سے محسوس کر رہی تھی کہ دانیا کو کوئی بات اندر ہی اندر کھا رہی ہے وہ پریشان ہے مگر وہ دانیا تھی کوڈ اور وہ ماہم قریشی اسے کوئی حق نہیں تھا کوڈ سے کسی بھی قسم کے سوال کرنے کا ۔
ابھی بھی ماہم اسی سوچ میں تھی کہ آخر ایسا کیا ہوا ہے جو کوڈ خاموش ہیں کہ تبھی اسے کچھ آوازیں آتی سنائی دی جو کہ کوڈ کے کمرے سے آ رہی تھی ۔
************************************
وہ رات جیسے کسی طوفان کی طرح تھی اس کے سامنے قتل ہو رہا تھا اس کے سامنے وہ کچھ ہو رہا تھا جو وہ برداش بھی نہیں کر سکتی تھی طوفان سی وہ رات سب تباہ کر گئی تھی سب خاک کر گئی تھی وہ آوازیں وہ شور وہ چیخیں وہ زمین پر بہتا خون اس کے کسی اپنے کا تھا وہ اپنے جو اس کی زندگی تھے وہ خود بھی چیخ رہی تھی وہ کب سے آوازیں لگا رہی تھی کسی کو مدد کے لیے بلا رہی تھی مگر شاید تقدیر نے وہ رات اس کے نصیب میں لکھ دی تھی اس کے نصیب میں کوڈ بننا لکھ دیا گیا تھا اس کے معصوم زہن نے ایک لمحے میں ایک لمبی عمر کاٹ لی تھی جو وہ کبھی نہیں چاہتی تھی اس نے اپنے تمام رشتے اس رات کھو دیے تھے سب ختم ہو چکا تھا وہ لوگ اسے وہاں مرنے کے لیے چھوڑ کر جا چکے تھے اور اب وہ سسکیوں میں رو رہی تھی کبھی ایک سر پر پہنچتی تو کبھی دوسرے باری باری وہ اپنے ہاتھ سے نکلی اپنی میراث کے پاس پہنچ جاتی تھی ان کے سینے سے لگے روتی رہتی تھی اس کے آنسو بھی بہنا بھول رہے تھے رفتہ رفتہ اس کا دل سخت ہو رہا تھا رفتہ رفتہ آنکھیں سرد ہوتی جا رہی ہیں اور وہ پتھر کی بن رہی تھی کہ کوئی گاڑی ان کے پاس آ رکی اور وہ ایک لمحے کو ڈری گئی تھی اور وہ اس کا آخری لمحے تھا جب وہ ڈری تھی اور ایک دم اس کی آنکھ کھل گئی تو سامنے ماہم قریشی کھڑی تھی ۔
دانیا نے خود کو مہارت سے سنبھالا اور بیڈ سے کھڑی ہو گئی ۔
کوڈ آپ ٹھیک تو ہیں ناں کچھ ہوا ہے کیا ۔ ماہم فکرمندی سے بولی ۔
نہیں کچھ نہیں ہوا تم اپنے کمرے میں جاؤ ۔ ماہم کے لیے دانیا کا حکم ہی سب کچھ تھا اسے اور کچھ پوچھنے یا کہنے کی اجازت نہیں تھی ۔
ماہم کمرے سے باہر نکل آئی اور کسی کو کال ملا دی مگر آگے سے کال موصول نہیں کی گئی تھی شاید اگلا شخص سو چکا تھا ۔
ماہم ویہیں کھڑی تھی جب اندر سے دانیا کی کسی سے فون پر بات کرنے کی آواز کانوں میں گونجی ۔
میں دانیا بول رہی ہوں ۔
ارے آپ کی کال کا ہی تو انتظار تھا کب سے شدت سے آپ کی آواز سننا چاہتا تھا ۔ یاور لاکھانی ہنستے ہوئے بولا ۔
ہم کام کی بات کر لیں ۔ دانیا غصے سے بولی تھی ۔
ارے بی بی آپ پر اتنا غصہ اچھا نہیں لگتا غصہ فِل وقت مجھ پر ہی اچھا لگے گا ۔
گوڈ ۔ دانیا نے تحمل سے کہا ۔ اب ہم کام کی بات کر لیں کیا ۔
ہاں ہاں کیوں نہیں کام ہی کام آپ بولیں کب اور کہاں ملنا ہے مجھے نا ہی وقت پر کوئی اعتراض ہے نا ہی جگہ پر آپ کو جو وقت مناسب لگے بول دیں ۔
گوڈ ابھی بیس منٹ میں تؤل ریڈ ہاؤس کیفے کے پاس پہنچ جاؤ ۔ دانیا نے اسی تحمل سے کہا ۔
ابھی یاور لاکھانی نے گھڑی کی طرف دیکھا جو ایک بجا رہی تھی ۔
کیوں یاور صاحب ہم لوگ تو ویسے بھی رات کے سوار ہیں جب لوگ سو جاتے ہیں تو ہم نکب ڈالتے ہیں ۔ دانیا نے کہتے فون کاٹ دیا وہ جانتی تھی وہ ضرور آئے گا ۔
دانیا نے فون بیڈ پر پھینکا اور خود بھی گرتے ہوئے لیٹ گئی دونوں ہاتھ منہ پر رکھ لیے اور آنکھیں بند کر لی اسے سکون چاہیے تھا زندگی کا آرام مگر شاید زندگی آرام ہر ایک کو نہیں دیتی اور اس کی قسمت میں وہ آرام تاحیات نہیں آنے والا تھا اور اسے اس بات کا ہر گزرے دن کے ساتھ یقین ہو گیا تھا ۔
کچھ دیر میں ماہم نے دانیا کو باہر نکلتے دیکھا اور اس کے نکلتے ہی دوبارہ کال ملا دی مگر اس بار کال اٹھا لی گئی تھی ۔
وہ کسی یاور لاکھانی سے ملنے گئی ہیں اور کافی پریشان بھی لگ رہی تھی ماہم ابھی بول ہی رہی تھی کہ آگے سے کال کاٹ دی گئی تھی ۔ ماہم نے ایک نظر موبائل سکرین کو دیکھا اور دوسری نظر دروازے پر ڈالی جہاں سے ابھی دانیا باہر گئی تھی اور وہ لائنچ میں پڑے صوفے پر بیٹھ گئی کیونکہ نیند تو ویسے بھی نہیں آنے والی تھی ۔
************************************
دانیا پیدل سفر کرتے ہوئے جا رہی تھی کیونکہ وہ رات کو بائک کا استعمال نہیں کرتی تھی تاکہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے کہ وہ کب گئی تھی کب آئی تھی ۔ تبھی اسے فون پر کال آتی محسوس ہوئی موبائل وائبریچن پر لگے ہونے کی وجع سے اسے آواز نہیں آئی تھی ۔ اس نے سکرین پر نظریں ڈالی تو سامنے بوس کا نام جگمگا رہا تھا دانیا نے جیسے موبائل نکالا تھا ویسے ہی دوبارہ جیب میں ڈال دیا اسے پہلے یاور کو بھگتنا تھا اس سے پہلے وہ بوس سے بات نہیں کر سکتی تھی ۔ کچھ پیدل چلنے کے بعد وہ کیفے کے پاس پہنچ گئی جہاں اسے دور سے کوئی نظر آ گیا تھا غالباً وہ یاور لاکھانی ہی تھا اور ساتھ میں اس کے بوڈی گارڈ بھی موجود تھے ۔
یاور لاکھانی ۔ دانیا نے پاس پہنچ کر اسے مخاطب کیا تو اس نے سر ہاں میں ہلا دیا ۔
ارے تم تو بڑے بزدل نکلے مجھ سے ملنے کے لیے پوری بارات ہی لے آئے ۔
آپ کا حسن دیکھ کر تو کہنا پڑے گا کہ بارات کیوں نہیں لایا ۔
اہاہاہا چھچھورے بھی ہو ۔ دانیا تمسخر سے کہتی اسے گھورنے پر مجبور کر گئی ۔
ہم جو بات کرنے آئے تھے وہ کر لیں ۔ دانیا نے دوبارہ بات کا آغاز کیا ۔
ہاں کیوں نہیں ۔ ۔۔
مگر ہم دونوں اکیلے میں بات کر لیں تو بہتر ہو گا دانیا نے یاور کو بیچ میں ٹوک دیا جو اسے بالکل اچھا نا لگا ۔
یاور نے کامران کو اشارہ کیا تو وہ ان سب کو لے کر ایک سائڈ پر ہو گیا ۔
دانیا نے یاور کی جیب کھنگالی ۔
یہ کیا کر رہی ہو ۔ یاور اس کی حرکت پر حیران ہوتا بولا ۔
تلاشی لے رہی ہوں بھئی بےفکر رہی ہمارے کام میں اندھا اعتماد اچھا نہیں ہوتا ۔
یاور لاکھانی نے جتنا سنا تھا اسے یہ لڑکی اس سے زیادہ عجیب لگی ۔
دانیا نے مطمئن ہوتے ہی گفتگو کا آغاز کیا ۔
اب بولو کون سا راز ہے جو تم ہمیں بتانا چاہتے ہو ۔
ارے راز سے تو آپ باخبر ہی ہیں ہم کون ہوتے ہیں آپ کو بتانے والے ہم تو بس آپ کا ساتھ دینا چاہ رہے ہیں ۔
دانیا نے ایک نگاہ اس پر ڈالی اس کا یہاں ایک منٹ رکنے کا دل نہیں کر رہا تھا اگر مجبوری نہ ہوتی تو وہ ایک لمحے کو یہاں نہ رکتی ۔
یاور نے بولنا شروع کیا تو اسے ایک ایک چیز محسوس ہوئی درد تکلیف ازیت کھو جانے کا ڈر اور خوف مگر اس نے اپنے چہرے پر ایک شکن نہ آنے دی ۔
*************************************
عمارہ کب سے بیڈ پر لیٹی پچھلے دو گھنٹے سے انہی سوچوں میں گم تھی پچھلے ایک ہفتے میں وہ عفاف میں بہت سی تبدیلیاں دیکھ رہی تھی ، محسوس کر رہی تھی عفاف بہت محدود ہو چکی تھی ہر وقت موبائل میں مصروف رہتی تھی عمارہ نے ہر بار اس بات کو نظر انداز کیا تھا مگر کل جو اس نے سنا تھا وہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی اس کی عفاف ایسی تو نہیں تھی جیسا وہ سوچ رہی تھی مگر جو وہ سوچ رہی تھی اگر وہ سچ تھا تو اسے جلد از جلد کچھ کرنا ہو گا اس سے پہلے کہ کچھ برا ہو جائے ۔
*************************************
دانیا جب سے آئی تھی شیشے کے سامنے بیٹھی تھی نیند تو ویسے بھی اب اس کی لکیروں میں کہاں تھی یاور لاکھانی کی باتیں کانوں میں گونج رہی تھی جیسے اس کی جان لے لیں ۔ وہ بہت بری تھی وہ یہ بات جانتی تھی مگر وہ اتنی بری نہیں تھی اس کا دماغ پھٹ رہا تھا اور زندگی کے دروازے پر ایک نیا طوفان اس کے انتظار میں کھڑا تھا جس کا اسے جلد سامنہ کرنا تھا ۔ ان آوازوں کے اثر میں وہ اب تک تھی جنہیں کئی سال پہلے وہ پیچھے چھوڑ آئی تھی اور کب تک ان کے ساتھ پل پل مرتی زندگی گزارنے والی تھی اسے نہیں معلوم تھا شاید اسے اپنی کل عمر ایسے ہی گزارنی تھی اپنی زندگی کی میراث کو رفتہ رفتہ ایک ایک کر کے کھوتے ، فیصلے کی گھڑی آ چکی تھی اسے خود میں اور کوڈ میں سے کسی ایک کو چننا تھا کاش وہ دونوں کو چن سکتی یہ خیال اندھیرے کمرے میں ایک مدھم روشنی کی طرح داخل ہوا تھا کیا یہ ممکن تھا شاید اس کے لیے تھا کیونکہ وہ دانیا تھی ایک کوڈ ایک بہادر باپ کی بہادر بیٹی ۔ موبائل پر پھر سے بوس کا نمبر جگمگایا مگر ابھی اسے کچھ فیصلے کرنے تھے اور اس سے پہلے کسی سے نا بات کرنی تھی نا کسی کی آواز سننی تھی ۔
*************************************
محد ابھی ہسپتال میں موجود تھا ابھی اسے چھٹی نہیں ملی تھی حالانکہ محد کتنی بار کہہ چکا تھا کہ وہ اب بہتر محسوس کر رہا ہے مگر ڈاکٹرز کے مطابق ابھی اسے مکمل آرام کی ضرورت تھی اور سب جانتے تھے کہ اگر اسے ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی تو اگلے لمحے ہی اپنی نوکری پر موجود ہو گا اور یہ اس کی صحت کے لیے بالکل بھی صحیح نہیں تھا ۔
زوہیب تم سن رہے ہو یا میں تمہیں جیل میں ڈالوں ۔ محد پھر سے بولا تھا ۔
نہیں میں نہیں سن رہا تم خوشی سے مجھے جیل میں ڈال سکتے ہو ۔ زوہیب پرسکون لہجے میں بولا ۔
یار تمہیں لمبی سزا ہو گی ۔ محد اکتائے ہوئے انداز میں بولا ۔
ویسے کتنی لمبی سزا ہو گی اور کس خوشی میں ہو گی ۔ زوہیب اسے انداز میں اخبار پلٹتے بولا ۔
ایک پولیس آفیسر کو اس کی نوکری پر جانے سے روکنے کی خوشی میں ۔
آہاں پھر تو کم از کم دو ہفتے کی تو ہونی چاہیے کیونکہ ابھی اتنا عرصہ تو تم یہیں ہو ۔
دیکھو شرم کرو ۔ محد سے جب کچھ نہ بنی تو وہ منہ موڑتا بولا ۔
چلو کر لی شرم اب بولو آگے کیا ۔
مر جاؤ ۔۔۔ کیا ہو جائے گا اگر مجھے چھٹی مل جاتی ہے مگر تم لوگوں کو میری خوشی کہاں راس ۔
میں آج ہی تمہاری چھٹی کے لیے بات کرتا ہوں ابو سے کہتا ہوں آئی جی صاحب سے تمہاری ایک ہفتے کی چھٹی کی بات کریں ۔ زوہیب نے مسکراہٹ دباتے کہا ۔
بہت ہی برے ہو تم اللّٰہ پوچھے ۔۔۔۔۔۔ اللّٰہ پوچھے تمہیں ۔ محد بےبسی سے بولا ۔
ہاہاہاہا ۔ محد کی بےبسی پر زوہیب کا قہقہہ بلند ہوا ۔
توں ہنس لے بس بھائی کو گولی لگی ہے مگر توں ہس لے بس ۔ محد ناراضگی سے بولا ۔
اچھا نہیں ہنستا مجھے یہ بتا کہ شکل یاد ہے جس نے تجھ پر گولی چلائی ۔
نہیں اس نے منہ پر نکاب پہن رکھا تھا مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ مجھ پر گولی نہیں چلانا چاہتا تھا ۔
یہ کیسے پتا ۔ زوہیب حیرت سے بولا ۔
وہ ۔۔۔۔۔ محد بولتا بولتا رک گیا ۔
وہ کیا محد ۔ زوہیب اس کی ادھوری بات کا مطلب نہیں سمجھ پایا تھا ۔
وہ کچھ تھا کچھ خاص تھا تجھے پتا ہے وہ مجھ پر گولی چلانے کے بعد بھاگ سکتا تھا مگر وہ نہیں بھاگا وہ مجھے اپنے ہاتھوں میں گاڑی تک لے کر آیا اور پھر چلا گیا کہاں گیا کسی کو نہیں معلوم ۔
مگر یہ بات یاد رکھ اس نے تجھ پر گولی چلائی ہے ۔ زوہیب نے اسے یاد دلایا ۔
یاد ہے مجھے اچھے سے بہت اچھے سے یاد ہے ۔
تو بھولنا بھی مت ایسا شخص جس کے ہاتھ نہ کانپے روح نا لرزے کسی کی جان لیتے وقت وہ کسی رحم یا ہمدردی کا مستحق نہیں ہو سکتا ۔
محد نے منہ دوسری طرف موڑ لیا اس کی آنکھوں کے سامنے اس شخص کے لرزتے ہاتھ آئے تھے ۔
*************************************
عفاف شیشے کے سامنے کھڑی تیار ہو رہی تھی سفید رنگ کی پاؤں تک آتی فراک اور بالوں کی سیدھی مانگ نکالے ایک سائیڈ سے بال کان کے پیچھے کیے وہ مسکارا لگا رہی تھی ۔
آپی آپ تیار ہو گئی ۔ عمارہ کمرے میں داخل ہوتے بولی تو عفاف کا مسکارا لگاتا ہاتھ ہلا اور مسکارا آنکھ کی سائیڈ پر لگ گیا ۔
عفاف یہ کیا حرکت ہے ایسے کون آتا ہے ایک دم سارا مسکارا خراب کر دیا ۔
آپی میں نے کیا کر دیا اب ۔
اچھا رہنے دو میں نے کیا کر دیا عفاف نے اسی کے انداز میں بات دہرائی ۔
آپی کچھ خاص ہے کیا آج ۔ عمارہ نے اس کے چہرے پر کچھ تلاش کرنا چاہا ۔
نہیں کچھ خاص تو نہیں ہے کیوں ۔
نہیں وہ آپ کو اس طرح تیار ہوتا آج پہلی بار دیکھا ہے ناں اس لیے ۔
ہاں وہ ۔۔ ۔ بس ایسے ہی ۔ عفاف نے بات ٹالنی چاہیے ۔
اچھا تم جاؤ اور بھائی کو کہو کہ عفاف دس منٹ میں آتی ہے ۔
جی اچھا آپی ۔ عمارہ کمرے سے جاتے ہوئے مار مڑ مڑ کر اسے دیکھتی رہی ۔
**************************************
ماہم نے دانیا کے کمرے پر دستک دی مگر اندر سے کوئی جواب نہ ملا تو وہ دروازہ کھولتی اندر آ گئی صبح سے اسے بوس کی کئی کالز آ چکی تھی مگر اب تو بوس نے اسے غصے میں کہا تھا کہ اگر آدھے گھنٹے میں دانیا ان کے آفس نہ پہنچی تو وہ یہاں پہنچ جائیں گے تو اب ماہم دانیا کے سرہانے کھڑی تھی جو گہری نیند سوئی ہوئی تھی ۔
کوڈ کوڈ اٹھ جائیں کب سے بوس کی کالز آ رہی ہیں ۔ ماہم نے اسے ہلاتے ہوئے کہا ۔
کوڈ اٹھیں بھی ۔
کیا ہو گیا ہے ماہم کیوں صبح ہی صبح تنگ کر رہی ہو ۔
کوڈ بوس کی کال آئی تھی وہ بہت غصے میں ہیں آپ کو بلا رہے ہیں ۔
بوس کو کہو دانیا مر گئی ہے آج جنازہ ہے اس کا آ جانا ۔
کوڈ پلیز اٹھ جائیں ناں ورنہ وہ آ جائیں گے ۔ ماہم نے بےبسی سے کہا ۔
کیا ۔ دانیا شوکڈ میں اٹھی ۔ کیا کہا تم نے وہ یہاں کیوں آئیں گے ۔
وہ ان کی کال آئی تھی وہ کہہ رہے تھے کہ اگر آپ نہیں پہنچی آفس تو وہ آ جائیں گے ۔۔۔۔۔ وہ بہت غصے میں تھے ۔ ماہم بہت گھبرائی ہوئی تھی اور یہ اس کے لہجے میں صاف دیکھائی دے رہا تھا ۔
اف بوس بھی ناں حد کرتے ہیں ۔ دانیا بیڈ سے اٹھتے ہوئے بولی اپنے بالوں کو اونچی پونی میں باندھا منہ دھوتے واش روم سے باہر نکلی ۔
تم ایسا کرو جلدی سے تیار ہو جاؤ اور ایسا کرو اپنا ضروری سامان بھی پیک کر لو ہمیں کبھی بھی نکلنا پڑ سکتا ہے ۔
کہاں نکلنا پڑ سکتا ہے ہم کہیں جا رہے ہیں کیا ۔
ہاں! کہاں جا رہے ہیں کب جا رہے ہیں یہ تمہیں وقت آنے پر پتا چل جائے گا تم بس یہ یاد رکھو ہر بڑھتے قدم کے ساتھ ہم اپنی منزل کی طرف جا رہے ہیں بس اپنا سامان پیک کر لو ۔ ساتھ ہی دانیا نے کال ملا دی ۔
بوس میں آ رہی ہوں آپ کو آنے کی ضرورت نہیں ۔ اتنا کہہ کر دانیا نے کال کاٹ دی بنا بوس کی بات سننے ۔
*************************************
سب عفاف کا انتظار کر رہے تھے کہ کب وہ آئے اور کب وہ یونیورسٹی کے لیے نکلے ۔
واہ عفاف کیا بات ہے آج تو تم اچھی لگ رہی ہے ۔ زین نے عفاف کو نیچے آتا دیکھا تو تعریف کیے بنا نہ رہ سکا ۔
آج سے کیا مراد ہے روز اچھی نہیں لگتی کیا ۔ عفاف چڑ کھاتے بولی ۔
جھوٹ بولنا ہے سچ ۔ اس بار صائم بولا تھا ۔
ایسا کریں کہ آپ بولیں ہی ناں وہی اچھا ہے ۔ عفاف بےنیازی سے بولی ۔
ویسے آج یونی میں تو کوئی تقریب نہیں ہے تو پھر ۔۔۔۔۔ عنایہ اس کو تیار دیکھ کر بولی ۔
ارے آپ لوگ تو پیچھے ہی پڑ گئے ہو بھئی سالگرہ ہے نوشین کی مگر آپ لوگ تو مجھے خوش دیکھ ہی نہیں سکتے ۔ عفاف غصے سے بولتی گھر سے باہر نکل گئی اور جا کر گاڑی میں بیٹھ گئی ۔
پتا نہیں اسے کیا ہو گیا ہے ایسے تو کبھی نہیں کرتی یہ ۔ صائم عفاف کا ردِعمل دیکھتا بولا ۔
چھوڑو اسے تم رہنے دو تم چلو گاڑی میں منا لیں گے اسے ۔ عنایہ نے صائم کو گاڑی میں چلنے کا اشارہ کیا ۔
بھائی مجھے آپ سے بات کرنی ہے ۔ عمارہ نے زین کو روک کر کہا ۔
کیا ہوا عمارہ اگر کوئی ضروری بات ہے تو بولو ورنہ بعد میں بات کریں گے ۔
بھائی بات تو ضروری ہے ۔ عمارہ تھوڑا جھجھک رہی تھی ۔
کیا ہوا عمارہ ۔۔
زین زین ۔ زین کو باہر سے صائم کی آواز آتی سنائی ۔
عمارہ بعد میں بات کرتے ہیں ۔ زین کہتا باہر نکل گیا ۔
عمارہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کس سے بات کرے زوہیب اور محد ہسپتال میں تھے اور زین صائم یونیورسٹی کے لیے نکل گئے تھے اور کسی بڑے سے وہ ایسی کوئی بات کر نہیں سکتی تھی اور عفاف کی اسے بہت فکر ہو رہی تھی ۔
*************************************
گلی کے نکر پر ایک شخص ہوڈی سر پر ڈالے پچھلے آدھے گھنٹے سے وہاں انتطار میں کھڑا تھا ۔ اسے خبر ملی تھی کہ حیدر آج ہی نکلنے والا ہے تو وہ اس کی گلی کے پاس پہنچ گیا تھا ۔ اسے سامنے سے ہی حیدر آتا دیکھائی دیا ۔ عالیان نے قدم بڑھائے اور حیدر کے سامنے کھڑا ہو گیا ۔
سائیڈ پر ہو جاؤ بھائی ۔ حیدر نے عالیان کو سائیڈ پر کرنا چاہا ۔
میرا کیا ہے سائیڈ پر ہو جاؤں گا مگر میری یہ آنکھیں لوگوں کا پیچھا نہیں چھوڑتی موت بن کر ساتھ چلتی ہیں ۔
حیدر کی سانس ہی اٹک گئی اس نے بھاگنا چاہا مگر بھاگنا ممکن نہیں تھا اس کے سامنے چوہدری عالیان حماد کھڑا تھا کوڈ جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کی آنکھیں لوگوں کے ساتھ موت بن کر چلتی ہیں ۔
چلیں ہم۔۔۔۔۔۔ کیا ہے یہاں اچھے سے بات نہیں ہو سکتی ۔ عالیان نے جتاتے ہوئے کہا تو حیدر نے سر ہاں میں ہلا دیا ۔
عالیان حیدر کو اپنے ساتھ گاڑی میں لے آیا حیدر کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہو گیا تھا وہ عالیان کے ساتھ چپ چاپ بیٹھا تھا جیسے بولنا بھول گیا ہو ۔
کچھ ہی دیر میں وہ دونوں ایک عمارت میں پہنچ گئے جہاں آ کر عالیان نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ۔
دیکھیں مجھے معاف کر دیں میں دوبارہ ایسا کبھی نہیں کروں گا پلیز اس بار معاف کر دیں ۔
ارے معافی کس بات کی تم نے تو انعام والا کام کیا ہے تو انعام کے بغیر تو تم کہیں نہیں جا رہے ۔
حیدر کی اندر تک روح کانپ رہی تھی ۔ کچھ دیر میں وہ کمرے کے اندر داخل ہو گئے تھے اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اسے اپنے ہاتھ پیچھے بندھتے محسوس ہوئے پھر اسے اپنے گلے میں ایک رسی ڈلتی محسوس ہوئی اس کے بعد پاؤں کے بیچے کچھ ٹھنڈا محسوس ہوا ۔
عالیان نے اس کی آنکھوں سے پٹی ہٹا دی اور یکدم اس کی چیخ بلند ہوئی حیدر کے سامنے ایک ریچھ موجود تھا جو اسے کھانے کو بےقرار نظر آ رہا تھا ۔
کوڈ مجھے معاف کر دیں پلیز کوڈ ۔۔۔ کوڈ یہ مجھے کھا جائے گا کوڈ اسے ہٹائیں یہاں سے کوڈ ۔ وہ اونچی آواز میں میں بولا وہ ڈر سے کانپ رہا تھا اوپر سے پاؤں کے نیچے موجود برف اس کا خون جما رہی تھی ۔
آہاہاں ایسے کیسے کھا لے گا فکر نہ کرو جب تک یہ برف تمہارے پاؤں کے نیچے ہے تب تک یہ تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا تم فکر نہیں دعا کرو کہ یہ برف کبھی ختم نہ ہو پوری زندگی نہیں ۔
حیدر ڈر اور خوف سے اسے دیکھتا تو کبھی سامنے کھڑے ریچھ کو ۔
جوں جوں یہ برف پگھلتی جائے گی تمہاری رسی نیچے آئے گی اور اس ریچھ کی رسی تمہارے قریب تو جب تک یہ برف ہے تمہاری سانسیں ہیں ۔ یہ کہتا عالیان باہر نکلنے لگا ۔
کوڈ آپ کہاں جا رہے ہیں پلیز مت جائیں یہ مجھے کھا لے گا کوڈ کچھ رحم کریں ۔
یہ دنیا چکر ہے یہاں جو کرو گے وہ سامنے آئے گا تو تمہارا کیا تمہارے سامنے آ رہا ہے ۔ عالیان کہتا باہر کی طرف قدم بڑھا گیا ۔
کوڈ آپ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے ۔ حیدر کے منہ سے بےساختہ نکلا تھا موت کو اپنے اتنا سامنے دیکھ اسے سمجھ نہیں آیا تھا وہ کیا کہہ گیا ۔
میرے ساتھ تو پہلے بھی بہت کچھ ہو چکا ہے اگر چکر میں میرا حصہ کہیں لکھا ہوا تو ضرور مجھے ملے گا کیونکہ چکر میں ہر ایک کو اس کا حصہ ملتا ہے ۔
کوڈ پلیز ۔ حیدر پھر سے چیخا تھا ۔
عالیان کمرے سے باہر نکل آیا ۔
اندر حیدر کبھی اپنے برف سے جمتے پاؤں کو دیکھتا تو کبھی سامنے کھڑے درندے کو کبھی دل کرتا یہ برف ایک ہی مرتبہ ختم ہو جائے پھر موت کی ایک خیال اس کی سوچ کو پھیر دیتا ۔
اسے وہاں بندھے تین منٹ ہو چکے تھے اور وہ ایک ایک سیکنڈ گن گن کر گزار رہا تھا اور سامنے کھڑا جانور اس کے قریب ہو رہا تھا ۔
***************************************
دانیا بوس کے کمرے کے باہر کھڑی تھی ۔
کوڈ اندر بھی جائیں ۔ ماہم قریشی اسے باہر کھڑا دیکھ کر بولی ۔
ہاں جاتی ہوں ۔ ۔۔۔۔۔ اللّٰہ بچائیں بوس کے زاویے درست رکھیں ۔ دانیا کہتی اندر داخل ہو گئی ۔
آئیں آئیں آپ کا ہی انتظار تھا بتائیں کیسے آنا ہوا ۔
بوس بس سوچا تو تھا کہ ابھی نہ جاؤں مگر آپ کی یاد ہی اتنا ستا رہی تھی کہ میرے قدم خود کو روک ہی نہیں پائے خود باخود کھینچے چلے آئے ۔
بتانا پسند کرو گی کہ رات کے پہر کہاں گئی تھی ۔
بوس آپ کو سچ میں بتانے کی ضرورت ہے کیا جیسے میں آپ کو جانتی نہیں ہوں ۔
کیوں گئی تھی اس سے ملنے مجھے منع کر کہ خود رات کے پہر اس سے ملنے چلی گئی ۔
بوس میں کیوں گئی کیوں نہیں وہ میرے لیے بتانا مشکل ہے ۔
کیا چاہتا ہے وہ اور اسے کیا معلوم ہے ایسا جسے وہ راز کا نام دے رہا ہے ۔
وہ راز کو ہی راز کا نام دے رہا ہے وہ راز جو سالوں دفن رہے وہ شخص سب جانتا ہے اور اب مجھ سے ان رازوں کی قیمت چاہتا ہے ۔
کیسی قیمت ۔
اب بولو کون سا راز ہے جو تم ہمیں بتانا چاہتے ہو ۔
ارے راز سے تو آپ باخبر ہی ہیں ہم کون ہوتے ہیں آپ کو بتانے والے ہم تو بس آپ کا ساتھ دینا چاہ رہے ہیں ۔
دانیا نے ایک نگاہ اس پر ڈالی اس کا یہاں ایک منٹ رکنے کا دل نہیں کر رہا تھا اگر مجبوری نہ ہوتی تو وہ ایک لمحے کو یہاں نہ رکتی ۔
یاور نے بولنا شروع کیا تو اسے ایک ایک چیز محسوس ہوئی درد تکلیف ازیت کھو جانے کا ڈر اور خوف مگر اس نے اپنے چہرے پر ایک شکن نہ آنے دی ۔
بس اتنا سا تعاون چاہیے کہ چوہدری محد اصغر کی گردن اڑنی چاہیے پہلے اس کی وردی اترنی چاہیے اور پھر گردن ۔
اور تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ ہم تمہاری مدد کریں گے ۔
کیونکہ مدد کرنا تمہارا اوپشن نہیں تمہاری مجبوری ہے اور مجبور لوگ یہ نہیں پوچھتے کہ انہیں کیا کرنا ہے اور کیوں ۔ یاور لاکھانی روب سے بولا ۔
یاور لاکھانی مت بھولنا کہ کوڈ کبھی مجبور نہیں ہو سکتا ایک کوڈ کو نا ہی مجبور کیا جا سکتا ہے نا ہی مجبور کرنا ممکن ہے ۔
یہ تو سوچ سوچ کی باتیں ہیں بی بی مجبوری ہر کسی کو ہوتی ہے کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں انسان مجبور ہو ہی جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ چلو جیسے تمہاری مرضی پہلے تمہیں تمہاری مجبوری ہی بتا دیتا ہوں ۔
چلو تو میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں سات سال پہلے کی کہانی گم نام محبت کی داستان شروع کریں ۔ یاور نے اجازت طلب چاہی اور پھر خود ہی شروع ہو گیا ۔
تو کہانی ہے ایک خاندان کی ایک بیٹی کی ایک خوشحال گھر کی دو میاں بیوی اور ان کی ایک بیٹی پیاری سی بیٹی یاور نے ایک ایک حرف پر زور دیتے کہا ۔
تو ہوتا کچھ یوں ہے کہ اس لڑکی کی ماں سی ایک شخص کو محبت ہو جاتی ہے بہت والہانہ محبت اور وہ اس عورت کو حاصل کرنے کے لیے بہت جتن کرتا ہے مگر وہ تو کسی کی بیوی ہوتی ہے کسی کی ماں تو اس شخص کی تمام کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں تو ایک رات وہ اس عورت کو اغواہ کر لیتا ہے اور پھر اس کا شوہر کسی ہیرو کی طرح پہنچ جاتا ہے مگر افسوس وہ ہیرو اپنی بیوی کو بچا نہیں پاتا ۔
دانیا کے دماغ میں وہ منظر کسی فلم کی طرح چل رہا تھا ۔
رات کا دوسرا پہر چل رہا تھا جب اس کی ماں کو گاڑی میں ڈال کر اغواہ کر لیا گیا تھا اور وہ وہاں اکیلی رہ گئی تھی اسے صرف اتنا معلوم ہوا تھا کہ کوئی شخص اس کے باپ کی جان کا دشمن بنا ہوا ہے اور سالوں پہلے اس کی ماں سے شادی کا خواہش مند تھا اور اب اس کے باپ کی زندگی کے پیچھے پڑا ہوا تھا دانیا اس وقت بیس سال کی تھی جب وہ طوفانی رات ان کی زندگیوں میں داخل ہوئی دانیا نے پاس کھڑی بائک لی اور چلا دی اور اس گاڑی کا پیچھا کرنے لگی ساتھ ہی اس نے اپنے باپ کو بھی کال کر کے سب سے آگاہ کر دیا ۔ اس کے باپ نے اسے لاکھ منا کیا کہ وہ ان کا پیچھا نہ کرے مگر اس نے ان کی ایک نہ سنی اور کچھ آگے جا کر وہ گاڑی کے سامنے آ گئی اس ایک لمہے اس میں اتنی ہمت کہاں سے آ گئی تھی اسے خود نہیں معلوم تھا گاڑی میں بیٹھے حسن لاکھانی نے اس پر حکارت کی نظر ڈالی ۔
اسے بھی گاڑی میں ڈال لو ماں حسین ہے تو بیٹی ماہ پارہ ۔ حسن نے گارڈ کو اشارہ کیا تو دانیا کی ماں نے اسے چیخ کر بھاگ جانے کو کہا مگر وہ اپنی ماں کو چھوڑ کر کیسے چلی جاتی اسے زبردستی گاڑی میں بیٹھایا گیا گاڑی نے زیادہ سفر نہیں کیا تھا جب سامنے سے ایک گاڑی نے راستے کاٹا جس میں دانیا کا باپ اور گارڈز موجود تھے وہاں فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں دانیا کے باپ کے تمام گارڈ اور حسن لاکھانی کے دو گارڈز مارے گئے حسن کے پاس دانیا اور اس کی ماں تھی تو اسے دانیا کا باپ کچھ نہیں کہہ سکتا تھا حسن نے گارڈز سے کہہ کر اس کے ہاتھ بندھوا دیے اور دانیا اور اس کی ماں کو گاڑی سے گھسیٹتا ہوا باہر لایا ۔
خبردار اگر میرے پاس آئے ۔ دانیا کی ماں نے پاس پڑی گن اٹھا کر اپنی کنپٹی پر رکھ لی ۔
حسن نے اس کی طرف قدم بڑھائے تاکہ گن چھین سکے ۔
اپنی عزت پر حرف آنے سے بہتر میں مر جانا چاہوں گی اور یہ کہتے ہی اس نے گولی چلا دی ۔ اس کے سر سے خون کے چھینٹے نکل کر دور تک پھیلے تھے ۔
ماما ۔ دانیا چیخی تھی ۔
دانیا دوڑتی ہوئی اپنی ماں کے پاس آئی جو اب صرف مٹی کا پتلا تھی بےجان دانیا کے آنسو ہی نہیں رک رہے تھے کہ اس نے دوبارہ گولی چلنے کی آواز سنی تو پیچھے مڑ کر دیکھا تو حسن لاکھانی نے اس کے باپ کے سینے پر گولی ماری تھی ۔ دانیا پھر سے چیخی تھی اور دوڑتی ہوئی اپنے باپ کے پاس پہنچی تھی اس وقت اس کے باپ کی سانسیں چل رہی تھی اس کے باپ نے اسے خود کے قریب کیا اور اس کا کان کے قریب ہونٹ لے جاتے کچھ بولا دانیا حیرت سے اسے دیکھتی رہی۔ پپا ۔ دانیا کے منہ سے صرف یہی ایک حرف نکلا تھا کہ اتنے میں ایک اور گولی چلنے کی آواز آئی جو دانیا کے پیٹھ میں لگی تھی ۔
وہ سب جا چکے تھے اور اب دانیا دو لاشوں کے پاس موجود تھی جب حسن لاکھانی گیا تو دانیا کا باپ زندہ تھا اس کی سانسیں چل رہی تھی مگر حسن لاکھانی کو اس بات کا مکمل یقین تھا کہ ان کا زندہ بچنا نا ممکن ہے ۔
دانیا خود بھی چیخ رہی تھی درد کی شدت سے اس کے لیے ہلنا مشکل ہو گیا تھا پھر بھی وہ آوازیں لگا رہی تھی کسی کو مدد کے لیے بلا رہی تھی مگر شاید تقدیر نے وہ رات اس کے نصیب میں لکھ دی تھی اس کے نصیب میں کوڈ بننا لکھ دیا گیا تھا اس کے معصوم زہن نے ایک لمحے میں ایک لمبی عمر کاٹ لی تھی جو وہ کبھی نہیں چاہتی تھی اس نے اپنے تمام رشتے اس رات کھو دیے تھے سب ختم ہو چکا تھا وہ لوگ اسے وہاں مرنے کے لیے چھوڑ کر جا چکے تھے اور اب وہ سسکیوں میں رو رہی تھی کبھی ایک سر پر پہنچتی تو کبھی دوسرے باری باری وہ اپنے ہاتھ سے نکلی اپنی میراث کے پاس پہنچ جاتی تھی ان کے سینے سے لگے روتی رہتی تھی اس کے آنسو بھی بہنا بھول رہے تھے وہ دو شخص اسے چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے جا چکے تھے اور شاید اب وہ بھی زیادہ دیر زندہ نا رہ سکے اس کی کمرہ میں لگی گولی سخت تکلیف دے رہی تھی رفتہ رفتہ اس کا دل سخت ہو رہا تھا رفتہ رفتہ آنکھیں سرد ہو رہی ہوتی ہیں اور وہ پتھر کی بن رہی تھی کہ کوئی گاڑی ان کے پاس آ رکی اور وہ ایک لمحے کو ڈری تھی اور وہ اس کا آخری لمحے تھا ۔
یاد تو ہو گا ناں کہ کیا ہوا تھا اس رات ۔ یاور لاکھانی نے بات مکمل کرتے کہا ۔
دانیا نے بس ایک نظر اس پر ڈالی منہ سے کچھ نہیں کہا مگر اس کی نظر ہی کافی تھی ۔
تو پھر یہ بھی جانتی ہو ناں کہ اس رات کون مرا تھا ۔
ہاں جانتی ہوں کون مرے تھے میرے ماں باپ مرے تھے مل گئی دل کو تسلی یا اور کچھ بھی سننا چاہتے ہو ۔
ارے نہیں نہیں اور کچھ میں کیوں سننا چاہوں گا ۔۔۔۔۔۔۔ ویسے ہمیں اگلے دن پتا چلا تھا کہ تم زندہ بچ گئی ہو میں تو تمہیں پوری طرح بھول گیا تھا مگر وہ کیا ہے ناں کہ قسمت اچھی تھی میری تب ہی اتنا بڑا راز لگ گیا ہاتھ ویسے پتا تو اور بھی بہت کچھ چلا تھا مگر وہی تو اصل راز ہے ۔
اب تم مجھ سے کیا چاہتے ہو ۔
میں کیا چاہتا ہوں وہ تو تم اچھے سے سمجھ گئی ہو اب اگر سمجھنا نہیں چاہتی وہ الگ بات ہے ۔
ہم کوڈ کسی کا قتل نہیں کرتے ۔ دانیا نے اسے جتاتے ہوئے کہا ۔
یہ میرا سر درد نہیں ہے کہ تم لوگ کیا کیسے کرتے ہو مجھے صرف نتائج سے مطلب ہے جو میرے حق میں آنے چاہیے ۔
تم خود بھی تو مار سکتے ہو اسے تو میں ہی کیوں ۔
میں چاہتا ہوں تم مارو بس ۔ یاور لاکھانی کہتا گاڑی کی طرف بڑھ گیا اور دانیا وہاں تنہا رہ گئی ۔
جانتی ہو کیا کرنا ہے ۔ بوس نے نظریں جمائے پوچھا ۔۔
ہاں جانتی ہوں کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے ۔ دانیا پر سکون تھی ۔
مجھے بھی بتا دو کیا کرنے جا رہی ہو ۔
محد چوہدری کے گھر میں قدم رکھنے جا رہی ہوں ۔ دانیا اعتماد سے بولی ۔
بوس نے ایک نظر دانیا کو دیکھا ۔
جانتی ہو ناں تم کیا کہہ رہی ہو ۔
جانتی بھی ہوں اور سمجھتی بھی ہوں اور اسی لیے جا رہی ہوں ۔
اور یہ سب تم کرو گی کیسے ۔ بوس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ یہ سب پوچھ ہی کیوں رہے ہیں کیونکہ جواب تو شاید کہیں نا کہیں انہیں معلوم ہی تھے ۔
عالم خان کے لیے چوہدری خاندان میں ایک انٹری کروانا کوئی مشکل کام نہیں ہے کیوں صحیح کہا ناں میں نے عالم خان ۔ دانیا نے بوس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے کہا ۔
ٹھیک ہے مگر کیا تم سچ میں محد چوہدری کو مار دو گی ۔ عالم خان اس کی آنکھوں میں کچھ تلاش کرتا بولا ۔
بوس جو آج تک نہیں ہوا وہ آگے بھی نہیں ہو گا اور جو آج تک ہوتا آیا ہے وہ آگے بھی ہوتا آئے گا ۔
مگر کنگ ۔ ۔ ۔ ۔ عالم خان بولنے ہی والا تھا جب دانیا نے اسے بیچ میں روک دیا ۔
بوس کنگ کا نام کسی اور کے سامنے لیجئے گا میرے سامنے نہیں جس سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں کنگ نام کے کسی شخص کا وجود نہیں ہے جس کنگ کی گرج لوگوں میں پھیلی
تھی وہ تو سات سال پہلے ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ۔
کنگ ہے اور کنگ رہے گا اس رات یہ تمہارا ہی فیصلہ تھا ناں تو پھر کیوں بھول جاتی ہو سب کیوں حقائق کو فراموش کر جاتی ہو کیوں بھول جاتی ہو کہ کوڈ گینگ کی کنگ تم ہو جس دن دنیا کو پتا چلا کہ کنگ مر گیا ہے تو کوڈ کی بنیادیں ہل جائیں گی ۔
جانتی ہوں بوس سب جانتی ہوں اور پپا کے آخری الفاظ بھی زہن پر موٹے حروف میں نقشبند ہیں ۔
اس وقت اس کے باپ کی سانسیں چل رہی تھی اس کے باپ نے اسے خود کے قریب کیا اور اس کا کان کے قریب ہونٹ لے جاتے کچھ بولا ۔
دانیا آج تمہارا باپ اپنی وصیت تمہیں سناتا ہے تم کوڈ گینگ کا اگلا کنگ ہو میں ولی خان اپنی بیٹی دانیا ولی خان کو کوڈ کا کنگ منتخب کرتا ہوں ۔
دانیا حیرت سے اسے دیکھتی رہی ۔ پپا ۔ دانیا کے منہ سے صرف یہی ایک حرف نکلا تھا کہ اتنے میں ایک اور گولی چلنے کی آواز آئی جو دانیا کے پیٹھ میں لگی تھی ۔
سب یاد ہے مجھے ۔
سب یاد ہونا بھی چاہیے ۔ بوس نے کہتے سینے سے لگا لیا ۔
آپ کو پتا ہے میں سب سے پہلے آنی کو گلے لگاؤں گی اور ان کے ہاتھ کے پائے بھی کھاؤں گی اور وہ جو ساگ بناتی تھی کتنے سال ہو گئے کھائے ہوئے ۔ دانیا اپنے بہر میں بول رہی تھی ۔
اس کو فون کر کے بتا دوں اس کی چہیتی آ رہی ہے ۔ بوس نے اسے خود سے جدا کرتے کہا ۔
ہرگز نہیں اتنی آسانی سے تو ہر گز نہیں ۔ دانیا نے جیسے حکم ثادر کیا ۔
یعنی میری بیٹی اور بیوی کو سہی ٹرپانے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے تم نے ۔
چاچو ۔۔۔ وہ میرے کچھ نہیں ہیں کیا ۔ دانیا کو عالم خان کا یوں میری کہنا اچھا نہیں لگا تھا ۔
ہم سب سب کے ہیں تم مجھے اتنی عزیز ہو جتنی خود کی زندگی بھی نہیں اور عنایہ مجھے اتنی عزیز ہے جتنا مجھے خود کا وجود بھی نہیں ہے ۔
اور آنی ان کا کیا ان کو تو شکایت لگانی چاہیے ۔
ارے وہ تو میری گل ہے ناں ۔ عالم خان فخر سے بولا تھا ۔
بوس کتنے عجیب رشتے ہیں ناں ہمارے جو ہمارے اپنے ہیں انہوں ہم اپنا کہہ نہیں سکتے ( دانیا کا اشارہ سامنے کھڑے عالم خان کی طرف تھا ) اور کچھ جانتے ہی نہیں پتا نہیں انہیں میں یاد بھی ہوں گی کہ نہیں ۔
تم یاد ہو یا نہ ہو عنایہ کو تمہارے ساتھ چھپ کر کافی پینا ضرور یاد ہو گا اور کچھ یاد ہو نہ ہو نورین کو تمہارا ضد کر کے بریانی بنوانا اور ہر روز بریانی کھانے کی ضد کرنا ضرور یاد ہو گا انہوں اور کچھ یاد ہو نہ ہو یہ ضرور یاد ہو گا کہ ایک معصوم سی لڑکی ہے جسے وہ دانیا کے نام سے جانتے ہیں جو ہر چھوٹی بات پر الماری پر چڑھ جایا کرتی تھی اور تب تک ناراض رہتی تھی جب تک اس کی پسند کا کھانا بننے کا وعدہ نہ کر لیا جائے وہ جسے ہر آدھے گھنٹے میں بھوک لگ جاتی تھی جو سکول سے چھٹی کے بہانے تلاش کرتی تھی اپنی چھوٹی بہن کی محافظ ہوا کرتی تھی کسی کو اور کچھ یاد ہو نہ ہو یہ ضرور یاد ہو گا ایک لڑکی گھر کی رونق ہوا کرتی تھی ۔
میں چلتی ہوں بوس ۔ دانیا جانتی تھی وہ ایک اور لمحہ یہاں رکی تو رو پڑے گی اور وہ رونا نہیں چاہتی تھی ۔
ہاں ٹھیک ہے مگر اب مجھے بنا بتائے کچھ مت کرنا ورنہ مجھے پھر اپنے طریقہ استعمال کرنے پڑتے ہیں ۔
ہر وقت میری جاسوسی کرواتے رہتے ہیں ماہم کو آپ نے ہی لگایا تھا ناں میری جاسوسی پہ ۔
اچھا چلو بھاگو یہاں سے ۔ بوس نے آنکھیں دیکھائی تو وہ کمرے سے باہر نکل آئی ۔
**************************************
محد ہسپتال کے کمرے میں بیڈ پر لیٹا ہوا تھک چکا تھا ہر وقت کام کرنے والے شخص کے لیے ایک لمحہ بیٹھنا مشکل لگتا ہے وہ تو پھر کب سے لیٹا ہوا تھا ۔ محد بیڈ سے اٹھتا کھڑکی کے پاس آ گیا کھڑکی سے باہر کے منظر کا جائزہ لینے لگا تبھی اس کی نظر ایک لڑکی پر پڑی جو ایک بڑی گاڑی کے پاس کھڑی تھی اور اپنے ساتھ کھڑے لڑکے سے سگڑٹ لے کر کش لگانے میں مصروف تھی ۔ اس لڑکی کو دیکھ محد کو شدت سے کسی یاد آئی تھی ۔
شارقہ اپنے چھوٹے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی جو اس کے کندھے تک بھی نہیں آتے تھے تبھی اس نے دوسرا ہاتھ جیب میں ڈالا اور سگڑٹ کی ڈبی نکال لی اور دوسری جیب سے لائٹر نکالتے سگڑٹ کو آگ لگائی تھی اور پھر وہی سگڑٹ منہ میں رکھ لی تھی اور لائٹر اور سگڑٹ کی ڈبی جیبوں میں واپس رکھ رہی تھی ۔
زرا اپنے ماں باپ کا نمبر دو انہیں بھی تو پتا چلے کہ ان کی بیٹی سگڑٹ پیتی پھر رہی ہے ۔ محد نے اسے سگڑٹ کا کش لگاتے دیکھا تو غصے سے بولا۔
نہیں ہے ۔ شارقہ نے بڑے تحمل سے جواب دیا ۔
کیا تمہارے پاس تمہارے ماں باپ کا نمبر نہیں ہے ۔ محد کو حیرت کا جھٹکا لگا ۔
میرے ماں باپ نہیں ہیں ۔ وہی تحمل تھا اس بار پھر ۔
او افسوس ہوا ۔ محد افسوس سے بولا ۔
اس میں افسوس والی کیا بات ہے کئی لوگوں کے نہیں ہوتے میرے بھی نہیں ہیں ۔ شارقہ بات مکمل کر چکی تھی اور محد نے اس کے منہ سے سگڑٹ نکال کر زمین پر پھینکی اور پاؤں سے مسل دیا ۔
آج کے بعد تم سگڑٹ کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤ گی ۔شارقہ نے پہلے نیچے پڑی سگڑٹ کو دیکھا جو اسے منہ چڑا رہی تھی اور پھر اپنے سامنے کھڑے چوہدری محد کو اور پھر پیکٹ سے ایک نئی سگڑٹ نکال کر سلگھائی ۔
میں نے کہا آج کے بعد تم اسے ہاتھ بھی نہیں لگاؤ گی ۔
کیوں تم بھی اور مردوں کی طرح سوچتے ہو کہ ایک سگڑٹ پیتی عورت بدکردار ہے ۔ شارقہ غصے سے بولی تھی ۔
میں نے ایسا کچھ نہیں کہا مگر سگڑٹ پینے سے گردے پھیپھڑے ضرور بےکار ہو جائیں گے اور خود کو مردوں جیسا دیکھانے کے لیے یا خود کو مضبوط دکھانے کے لیے سگڑٹ کے کش لگانا ضروری نہیں شیر کی کھال اوڑھ لینے سے شیر نہیں بنا جا سکتا اس کے لیے شیر کی دھاڑ اور اس جیسا حملہ بھی آنا چاہیے ۔ محد نے کہتے سگڑٹ زمین پر پھینک دی اور شارقہ اسے دیکھتی رہ گئی یہ شخص اسے ہر بار لاجواب کر دیتا تھا اور اس بار بھی کر گیا تھا ۔
شارقہ تم یاد آ رہی ہو ۔ محد نے ہمکلامی کرتے کہا ۔
****************************************
حیدر کمرے کے اندر برف پر کھڑا تھا اور عالیان کمرے کے باہر حیدر کے پاؤں کا خون جم رہا تھا اور پاؤں میں جان نکل رہی تھی اسے لگ رہا تھا اس درندے کے پہنچنے سے پہلے وہ مر جائے گا گلے میں بندی رسی بھی تکلیف دے رہی تھی اور ہاتھوں کی کلائیوں میں درد ہو رہا تھا ۔
کوڈ میرے گھر والے میرے انتظار میں ہوں گے میری بیٹی میرا انتظار کر رہی ہو گی ۔ حیدر نے التجا کی ۔
کوڈ آپ کی زندگی میں کوئی تو ہو گا جس سے آپ محبت کرتے ہوں گے آپ کو اس ایک کا واسطہ ہے مجھے معاف کر دیں میں یہاں سے دور چلا جاؤں گا کبھی واپس نہیں آؤں گا کوڈ ایک بار ۔۔۔۔ ایک بار مجھے معاف کر دیں ۔
عالیان کے سامنے عمارہ کا چہرہ آیا تھا جیسے وہ کہہ رہی ہو کہ اندر کھڑے شخص کو معاف کر دے اور عالیان عمارہ کی کسی بات کا انکار کیسے کر سکتا تھا ۔
عالیان دروازہ کھولتا اندر آیا اور اس کی رسیاں کھول دی ۔
تیرے پاس صرف ایک گھنٹہ ہے کہیں بھی چلا جا اس شہر سے دور مگر مجھے دوبارہ نظر نہ آئیں ورنہ اسی ایک کی قسم تیرے اتنے ٹکرے کروں گا کہ گننے لگو تو گنتی میں نہ آئیں ۔ ۔
حیدر وہاں سے بھاگ گیا اتنا تیز بھاگا جتنا وہ بھاگ سکتا تھا حالانکہ اس کے پاؤں میں شدت سے درد اٹھ رہا تھا ۔
عالیان نے فون نکال کر کال ملائی اور ایک بڑی گاڑی بھجوانے کا کہا تاکہ اسے درندے کو ویہیں چھوڑ کر آیا جا سکے جہاں سے لایا گیا تھا ۔
***************************************
معانی معافی معافی سب سے پہلے تو میں اپنے ریڈرز سے اتنا ہی کہنا چاہوں گی جو لوگ انسٹا پر مجھے فولو کر رہے ہیں انہیں تو معلوم ہی ہو گا کہ قسط کیوں لیٹ آئی ہے ۔ باقی سب سے اتنا کہوں گی کہ آپ سب کا بہت بہت شکریہ میرا ساتھ دینے کا اتنا انتظار کرنے کا اب قسط پر ووٹ اور کمنٹ ضرور کیجیے گا قسط کیسی لگی کیا رائے ہے آپ سب کی اور ناول کیسا آپ سب کو انشاء الله اگلی قسط جلد آئے گی ۔
آپ کی معصوم سے رائٹر 😁 سعدیہ مبارک ۔

حیات المیراث CompletedМесто, где живут истории. Откройте их для себя