آخری قسط

134 4 6
                                    

لوگ چلے جانے والوں کو کس مہارت سے بھول جاتے ہیں یا پھر کبھی بھولتے ہی نہیں بس ان کے بغیر رہنا سیکھ لیتے ہیں انہیں ڈھنگ آتا ہے مگر دانیا ولی خان تو ان میں سے کچھ نا کر پائی چھ ماہ گزر جانا بھی ایسے تھا جیسے وہ لمحے آیا ہی نا ہو اور آج بھی عالم خان اسے پکار لے گا وہ نا عالم خان کی موت بھول سکی تھی اور نا ہی اسے اس کے بغیر رہنا آیا تھا ہاں وہ سیکھ رہی تھی پل پل سیکھ رہی تھی مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے اندر ابلتا لاوا زور پکڑ رہا تھا عنایہ زوہیب چوہدری کے ٹھنڈے سایے میں کھڑی تھی نورین کو بھی چین آ ہی گیا تھا کوئی نہیں ہلا تھا تو وہ دانیا ولی خان تھی جس کے بازوں میں عالم خان نے جان دی جس کا چہرہ ان آنکھوں نے آخری دیکھا تھا وہ جو ہر سچ سے واقف تھی ہر حقیقت سے آشنا ہر لمحے کی گواہ اور داستان کا مرکزی کردار جس کے گرد کردار چکر لگاتے ہیں جس کے ہٹ جانے سے سب کی زندگیاں ٹھر جاتی ہیں وہ چلا جائے تو سب قطار میں آ جائے مگر ابھی اس کی سانسوں نے خود کو گروی رکھا تھا موت دروازے پہ کھڑی بھی ہو تو تو اسے انتظار کرنا تھا دانیا ولی خان کو یاور لاکھانی کا سامنا کرنا تھا یاور کی رگوں میں بہتا خون اس کی چلتی کی دھڑکن اور سانسوں کی رفتار اس کے انتظار میں تھی لمحہ جو ملاقات کا تھا لمحہ جو سب برابر کر دینے کے تھا ختم کر دینے کا بدلا لینے کا اور بدلا کب کچھ ختم ہونے دیتا ہے وہ زندہ تو تھی مگر اس میں زندگی نہیں تھی شاید یہ بدلا اس کے اندر زندگی لوٹا سکتا اسے خود کو نہیں معلوم تھا کہ عالم خان اس کے لیے کیا تھا کچھ لوگ چلے جانے کے بعد اپنی قیمت اور جگہ بتاتے ہیں اور عالم خان بھی انہی میں سے تھا ۔
کوڈ کو آج بھی کوئی نہیں پکڑ پایا تھا شاید اب کوڈ لو پکڑنے کی کوششیں چھوڑ دی گئی تھی جو کوڈ کے پیچھے تھا وہ تو حقیقت قبول کر لیتا اس کے لیے مشکل تھا پھر دانیا سے نفرت کرنا جسے شدت سے چاہا تھا ممکن نہیں تھا اسے نہیں معلوم تھا اسے کیا کرنا ہے مگر دانیا کو تکلیف نہیں پہنچانی یہ وہ بہت اچھے سے جانتا تھا ۔ وہ اپنی وردی کے ساتھ انصاف نہیں کر رہا تھا وہ یہ بھی جانتا تھا مگر کچھ فیصلہ زندگی موت کا معملہ ہوتے ہیں وہ دانیا کو اس کے انجام تک تو پہنچا دیتا مگر پھر اس کا خود کا کیا اختتام ہوتا اسے نہیں معلوم تھا اس نے اقرار کر لیا تھا کہ وہ یہ نہیں کر سکتا دانیا کی محبت کو دل کب کا تسلیم کر چکا تھا اس نے پیچھے ہٹ جانا بھی تسلیم کر لیا تھا دانیا سے قدم بھر کا فاصلہ قائم کر لیا تھا اور شاید یہ قدم بھر کا فاصلہ میلوں کی سفر ثابت ہوتا جس کی منزل بھی مقرر نہیں اور ہم سفر کا کچھ ٹھکانا نہیں ہم سفر ہوتا تو شاید یہ سفر کٹ بھی جاتا ۔
عالیان اور عفاف کے نکاح کو چار ماہ ہو چکے تھے رخصتی کو بھی ہفتہ گزر چکا تھا عفاف نے بہت جلد ہی محسوس کر لیا تھا کہ عالیان کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے کچھ عجیب تھا عالیان میں وہ جو اتنے عرصہ میں نہیں دیکھ پائی تھی عالیان کے ایک ہفتے کے ساتھ نے اسے دیکھا دیا تھا جو اسے پریشان کر دیتا تھا عالیان کبھی کبھار بہت خوش ہوتا اور کبھی ایسے جیسے اس سے زیادہ مشکل میں کوئی نا ہو ہڑبڑاہٹ میں گھبرایا ہوا ہوتا اس کی زبان کچھ نا بولتی مگر اس کے جسم کا ایک عضو بولتا تھا جو کوئی نہیں دیکھ پاتا عفاف کو لگا شاید اسے بائی پولر ہے مگر ایسا نہیں تھا عفاف نے ایک بار اس سے بات کرنے کی کوشش کی اس کے اندر جھانکنا چاہا مگر وہ ناکام رہی عالیان تو ایک خول میں بند تھا وہ خود سے چھپا کر رکھنے والوں میں سے تھا اپنے سایے تک سے بچ کر چلنے والا اسے حیرانی تھی کہ عفاف اس کے اندر کیسے جھانک سکی کیسے اسے اس کے حال کی خبر ہو گئی مگر اسے شاید محبت کرنا تو آ گئی مگر یہ نا جان سکا کہ محبت کرنے والوں کی نگاہ خاص ہوتی ہے اور عفاف تو اس کے ساتھ رہتی تھی ہر وقت اور کوڈ نے بھی اسے ایک ہفتے کی چھٹی دے رکھی تھی مگر وہ پھر بھی اپنے کام سے لاتعلق نا تھا جانتا تھا کہ کیسے موت سی نگاہ ڈال کر رکھنی ہے ۔
ماہم قریشی نے کئی بار دانیا سے کام کا کہا تھا مگر دانیا ہر بار ٹال جاتی تھی دانیا ماہم کو وقت دے رہی تھی ابھی ماہم کوڈ میں بہت آگے نہیں پہنچی تھی ابھی واپسی کا راستہ موجود تھا اور دانیا چاہتی تھی کہ وہ واپس مڑ جائے اللّٰہ نے ماہم کو صاہم سے نوازا تھا دانیا نہیں چاہتی تھی کہ وہ کوڈ میں پڑ کر صائم کو کھو دے ابھی وقت تھا کہ وقت کو اپنی مٹھی میں کر لیا جاتا اور دیر ہوتی تو شاید دروازے بند ہو جاتے جیسے عالیان کے لیے ہو گئے تھے جیسے دانیا کے لیے جگن کے لیے اور باقی کہ کوڈ کے لیے ہو چکے تھے ماہم ابھی پہلی سیڑھی پر تھی اور پہلے سیڑھی سے مڑنا آسان ہوتا ہے مگر ماہم قریشی کے لیے یہ ہر گز آسان نا تھا اس کے اندر بھی بدلے کی آگ جل رہی تھی ویسی ہی آگ جیسی دانیا کے اندر لگی ہوئی تھی اسے بھی بدلا چاہیے تھا اپنے ماں باپ کی موت کا حساب جس کے لیے وہ سب کچھ داؤ پر لگائے کوڈ میں داخل ہوئی تھی کوڈ کو قبول کیا تھا نا ڈری تھی نا گھبرائی تھی ہر امتحان پاس کر کہ وہ ایک مقام پر پہنچی تھی اب وہ کیسے پیچھے ہٹ جاتی ۔ دانیا نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ اس کے ماں باپ کے قاتلوں کو خود سزا دے گی مگر ماہم قریشی نہیں مانی تھی قاتلوں کا اب تک کوئی پتا نہیں چلا تھا کچھ چیزوں کا کبھی پتا نہیں چلتا کچھ چیزیں اپنے اوپر کئی رنگ ڈال کر چھپ جاتی ہیں اور سچ ایسا ہی ہو جاتا ہے جیسا جھوٹ پھر جھوٹ اور جھوٹ ایک برابر ایسی چیزوں کی تلاش بےکار ہوتی ہے یہ ماہم کو کون سمجھاتا ۔
صائم اور وہ شادی کے بعد بھی ویسے ہی لڑتے تھے جیسے شادی سے پہلے موضوع بدل گئے تھے مگر انداز نہیں حال یہ تھا کہ اگر نا لڑتے تو عجیب لگتا تھا فرق صرف اتنا آیا تھا کہ اب بیچارے زین کو لڑائی دیکھنے کو نہیں ملتی تھی یہ دونوں کمرے میں ہی لڑ کر صلح بھی کر لیتے کبھی ایک معافی مانگ لیتا تو کبھی دوسرا اچھی بات یہ ہوتی کہ ان کی لڑائی ایک گھنٹے سے زیادہ نا ہوتی اور ناراضگی دس منٹ سے آگے نا بھڑتی جن لوگوں کو چاہا جاتا ہے ان سے زیادہ دیر ناراض رہنا مشکل ہوتا ہے ان کا بھی یہی حال تھا شادی کے بعد سب نے صائم پر ذمہ داریاں اٹھانے پر زور ڈالنا شروع کیا تھا اب وہ زوہیب کے ساتھ مستقل طور پر کاروبار سنبھالنے والا تھا زین پر بارحال ابھی ایسی کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی تھی یہی وجع تھی کہ وہ دندناتا گھومتا تھا ہر وقت صائم کے سر پر ناچتا اسے چڑاتا اسے چین سا مل جاتا تھا ۔ عمارہ آج کل فری تھی پڑھائی سے آزاد اسی لیے اس پر گھر کے کاموں کا بوجھ ڈال دیا گیا تھا پہلے اسے روٹیاں اور چائے بنانا سکھائی گئی تھی جب وہ سیکھ گئی تو ناشتے کی ذمہ داری اس کے معصوم کندھوں پر ڈال دی گئی کہاں کوئی عفاف کے ہاتھ کے بنے پراٹھوں کے علاوہ کچھ کھاتا ہی نہیں تھا اوت اب صبح صبح عمارہ کے ہاتھ کا جلا کبھی کچا ناشتہ ملتا اور زین صائم صبح صبح شور مچاتے مگر اباجی تھے عمارہ کے سر پر ہمیشہ دونوں کو چپ کرا دیتے اور یوں دو ہفتے میں عمارہ کے ہاتھوں کے پراٹھوں کی عادت ہو ہی گئی اب بھی اس کے کھانے میں نقص نکالا جاتا تھا مگر اب کھانا قابلِ قبول تھا پھر سالن اور دوسری چیزوں کی باری آئی اور عمارہ کے کانوں میں کہیں سے اوڑتی اوڑتی خبر پہنچ گئی کہ اس کے لیے رشتہ آیا ہے تبھی اسے سب سکھایا جا رہا ہے عمارہ نے تو بات ہی پکڑ لی اور کیا کچھ سیکھنا تھا اس نے ناشتہ بنانے سے بھی انکار کر دیا ۔
میری کوئی عمر ہے ابھی باقی سب کی تو اتنی جلدی شادی کا خیال کسی کو نہیں آیا جو سب کو میری شادی کی ایک دم سوجھ گئی ہے ۔ عمارہ تڑخ کر بولی تھی جیسے وہ ہمیشہ غصے میں سن لہاز بھول جاتی ۔
ارے عمارہ رشتہ آیا ہے رشتہ طہ تھوڑی ہو گیا ہے ۔  عنایہ نے اسے سمجھایا تھا ۔
نہیں یہ حادیہ آپی کو کیا موت پڑی ہے جو اپنے منحوس ناکھتو دیور کا رشتہ اٹھا کہ لے آئی ۔ عمارہ غصے میں بولی ۔
عمارہ اچھا بھلا لڑکا ہے شہریار پتا ہے کتنے رشتے آ رہے اس کے ۔
اتنا ہی اچھا ہے ناں تو آپ کر لیں اس سے شادی ۔ عمارہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کیا بول رہی ہے ۔
کر لیتی مگر تمہارے بھائی کا کیا ہو گا ۔ عنایہ نے شرارت سے کہا ۔
کر لیں گے وہ بھی کچھ نا کچھ فلحال مجھے پینک اٹیک ہو رہے ہیں ۔
عمارہ تم بلاوجہ فکر کر رہی ہو ۔ عنایہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہا ۔
تو یہ سب گھرداریاں کیوں سکھا رہے مجھے ۔ عمارہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔
تو کیا سیکھنی نہیں ہیں تم نے ۔
ہاں تو آپ کیوں نہیں سیکھتی آپ تو مجھ سے بھی بڑی ہیں ۔ عمارہ نے الٹا سوال کیا تھا ۔
سیکھ تو رہی دیکھو اس اللّٰہ دین کے چراغ کے لیے چائے بنانا نہیں سیکھی کیا میں نے اور یاد نہیں میرے بھی ایف۔ایس۔سی کے بعد سب نے کتنا مجھے سیکھانے کی کوشش کی تھی وہ تو میں تھی نکھٹو اوپر سے اباجی کی لاڈلی ساری ذمہ داری بچاری عفاف پر آ گئی تھی ۔ عمارہ کو عنایہ کے یاد کرانے پر یاد آیا تھا ۔
مجھے نہیں پتا مجھے نہیں کرنی کسی شہریار سے شادی ۔ عمارہ نے چڑتے ہوئے کہا تھا ۔
ارے کس کی شادی کی باتیں ہو رہی ہیں جناب ۔ زوہیب نے آتے انہیں ڈرا دیا تھا ۔
میری شادی کی بھائی ۔ عمارہ نے جہاں کی معصومیت سجاتے کہا تھا اپنے لاڈلے بھائی سے عالیان اور زوہیب میں اس کی جان بستی تھی اور ان کی اس میں کوئی بات منوانی ہوتی اور زوہیب نا کر دیتا ایسا کس کتاب میں لکھا تھا ۔
تمہاری شادی کی ۔ زوہیب ایک دم سنجیدگی سے بولا تھا چہرے کے تاثر بدلے تھے اور عنایہ نے یہ دیکھا تھا ۔
ہاں بھائی مجھے حادیہ آپی نے خود بولا کہ میں ان کی دیورانی بن جاؤں گی ۔ عمارہ روہانسی ہو گئی ۔
حادیہ کا تو دماغ خراب ہو گیا ہے بچی کے دماغ میں کیا اول فول ڈال رہی ہے ۔۔۔۔ تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں جب تک تمہارا بھائی زندہ ہے کسی کی ہمت کہ وہ تمہاری مرضی کہ خلاف کچھ کروا سکے ۔ زوہیب مان سے کہتا کمرے سے نکلا اور عمارہ کے چہرے کی رونق لوٹ آئی ۔
زوہیب کمرے سے نکلتا سدرہ کے سر پہنچا تھا اور سارے قصے کے حوالے سے دریافت کیا تھا ۔
کیا مطلب آپ نے ابا جی سے بات کی مگر کیوں مطلب عمر دیکھیں آپ اس کی اور آپ یہاں رشتے طہ کراتی پھر رہی ہیں ۔
نہیں میں کیا کرتی تمہاری بہن نے ناک دم کر رکھا تھا وہ تو سسرال کی ایسی مالا جبتی ہے جیسے کوئی مرید پیر کی ۔ سدرہ نے سر پر ہاتھ رکھتے بیٹھتے کہا تھا ۔
اور آپ کی وہ لاڈلی جیسا چاہے گی وہ ہو جائے گا اسے اپنے الفاظ میں سمجھا دیجئے گا میں نے سمجھایا تو بہت برا ہو گا ۔ زوہیب کہتا غصے میں کمرے سے باہر نکلا تھا اسے نکلتے عنایہ نے دیکھا تھا ۔
عنایہ کمرے میں پہنچی تو زوہیب ٹائی گلے سے اتار کر بیڈ پر پھینک رہا تھا وہ آفس سے آیا تھا اور آتے ہی عمارہ اور عنایہ کو باتیں کرتے سنا تھا اور پھر وہ غصے میں سدرہ کے کمرے میں چلا گیا اب واپس آیا تو عمارہ کمرے سے جا چکی تھی ۔
عمارہ بہت خوش قسمت ہے کہ اسے آپ جیسا بھائی ملا ۔
نہیں میں زیادہ خوش قسمت ہوں کہ مجھے عمارہ جیسی بہن ملی وہ بہن سے بہت زیادہ ہے میرے لیے وہ میری دوست میری ساتھی میرا درد بانٹنے والی مجھے سمجھنے والی سب ہے اس نے مجهے سنبھالا جب ۔۔۔۔ زوہیب بولتا بولتا چپ ہو گیا ۔
جب ۔ عنایہ نے اس چپ دیکھ کر دہرایا تھا ۔
جب ابو نے مجھ پر پابندی لگا دی اور زبردستی بزنس میں لگا دیا ۔ زوہیب بڑی مہارت سے جھوٹ بول گیا تھا ۔ عمارہ نے کب کب اسے سنبھالا اسے سب یاد تھا وہ بچوں کی طرح رو دیتا ہے وہ کس قدر عنایہ کو چاہتا تھا صرف عمارہ جانتی تھی پھر عنایہ اور محد کا نکاح نا ہونے پر اس نے خود کو قصور وار ٹھرایا تو عمارہ ہی تھی جس نے اسے بتایا اسے سکھایا اسے کبھی کبھار لگتا کہ اگر عمارہ نا ہوتی تو اس کا کیا ہوتا شاید وہ بہت پہلے ڈوب جاتا ٹوٹ جاتا موتی موتی بکھر جاتا اسے مالا میں جوڑ کر رکھا ۔
کس سوچ میں چلے گئے ۔ عنایہ نے اسے گہری سوچ میں ڈوبا دیکھا تو بولا ۔
نہیں بس عمارہ کا بچپن یاد آ گیا تھا معصوم سا بچپن ۔ ۔۔۔
اچھا یار ایک کپ چائے تو بنا دو بڑی طلب ہو رہی ہے ۔ زوہیب نے موضوع بدلتے کہا تھا ۔
ابھی اس وقت ۔ عنایہ نے وال کلاک پر دیکھا جو سات بجا رہی تھی ۔
ارے چائے کا بھی کوئی ٹائم ہوتا ہے ۔ زوہیب نے بے ساختگی سے کہا ۔
ابھی پی لی تو بعد میں نہیں پیے گے آپ ۔ عنایہ نے شکایت کی تھی ۔
فکر نا کرو یار پھر دوبارہ پی لیں گے ۔ زوہیب نے مسکراہٹ سجائے کہا تھا زوہیب اور عنایہ کا معمول بن گیا تھا وہ دونوں روز رات کو ساتھ بیٹھتے تھے ایک کپ چائے اور ایک کپ کافی لیے دونوں باتیں کرتے تھے جس دن زوہیب پہلے چائے پی لیتا اس کا رات کو پینے کو دل نا کرتا اور پھر عنایہ کو غصہ آتا ۔
نہیں اچھے سے پتا ہے مجھے آپ بعد میں نخرے کریں گے میں نہیں بنا کر دے رہی چائے ۔ عنایہ نے صاف انکار کیا تھا ۔
عنایہ دیکھو تمہیں گناہ ملے گا اپنے شوہر کی اتنی سی آرزو پوری نہیں کر سکتی ۔ زوہیب نے اموشنل بلیک میل کیا تھا ۔
شوہر صاحب کو اتنی ہی طلب ہو رہی ہے تو وہ عفاف کو بول دے ۔
یار عفاف بچاری شوہر والی ہے اور تمہارے ہاتھ کے علاوہ کسی کے ہاتھ کی چائے نہیں پسند آتی ۔ زوہیب نے شرارت سے کہا ۔
بس اسی طرح خوشامد کر کر کہ آپ ہمیشہ اپنا کام نکلوا لیتے ہیں ۔ عنایہ کہتی اٹھی تھی اور چائے بنانے کے لیے چلی گئی تھی ۔
کچھ باتیں ادھوری رہ جاتی ہیں ان کا ادھورا رہ جانا بہتر ہوتا ہے وہ پوری ہو جائیں تو بہت کچھ ادھورا رہ جاتا ہے بہت تار کمزور ہو جاتے ہیں ادھورے ان کہے احساس جو جان لینے لگتے ہیں پیدا ہو جاتے ہیں زوہیب کی محبت بھی ایسی ہی تھی وہ اس تک ہی رہتی تو بہتر تھا اس کا اظہار ادھورا ہی رہ جانا بہتر تھا ورنہ شاید ان کے رشتے میں بھی عجیب فاصلے آ جاتے اور وہ ایسا ہرگز نہیں چاہتا تھا بہت مشکل سے اس کے اور عنایہ کے بیچ سب بہتر ہوا تھا وہ پھر سے کسی پڑاؤ پر نہیں ڈالنا چاہتا تھا شاید کسی موڑ پر وہ اسے بتا دیتا اپنے دل کا حال بتا دیتا کہ عنایہ سے شادی زبردستی نہیں تھی اس میں اس کی خوشی شامل تھی اور شاید وہ کبھی عنایہ کو سچ نا بتا پاتا اور راز ایسے ہی اس کے دل میں دفن ہو جاتا ۔
*******************************************
محد بیٹا کہاں جا رہے ہو ۔ ابا جی نے محد کو گھر سے باہر جاتے دیکھا تو پیچھے سے پکارا ۔
جی ابا جی ۔ وہ کسی دوست کی طرف جا رہا تھا کیوں کوئی کام تھا م
ہاں کام تو تھا یہ زرا دانیا بیٹی کو کہیں جانا ہے اسے چھوڑ دو جاتے جاتے ۔
ابا جی مجهے تو زرا جلدی پہنچنا ہے لیٹ ہو جائے گا ۔
کوئی نہیں بیٹا دانیا بیٹی تو کہہ رہی تھی کہ وہ خود چلی جائے گی وہ تو میں نے کہا کہ کوئی ساتھ جاتا ہے تمہارے تمہیں تو پتا ہے ناں باہر ڈاکٹروں کی ہڑتال ہے اب ایسے میں اکیلی بچی کو کیسے بھیج دیں ۔ ابا جی نے تفصیل بتائی تھی ۔
اچھا ابا جی آپ اسے بلوا دیں میں ڈراپ کر دوں گا ۔
دانیا بیٹا ۔۔۔ دانیا بیٹا ۔ ابا جی نے آواز لگائی تھی دانیا جلدی میں باہر نکلی تھی ۔
جی ابا جی ۔ دانیا باہر نکلی تو نظریں سیدھی محد پر پڑی تھی ۔
یہ محد باہر جا رہا ہے تمہیں بھی چھوڑ دے گا ۔ ابا جی نے کہتے محد کی طرف اشارہ کیا تھا ۔
ابا جی میں نے تو کہا تھا میں اکیلی چلی جاؤں گی ایسے ہی محد کو مشکل ہو گی ۔ دانیا زرا جھجکی تھی اس نے محسوس کیا تھا کہ محد نے اس سے فاصلہ قائم کر رکھا تھا ۔
نہیں مجھے مشکل نہیں ہو گی میں چھوڑ دوں گا تمہیں ۔ ابا جی کی بجائے جواب محد کی طرف سے آیا تھا ۔
دانیا اور محد دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے تھے ۔
کہاں جانا ہے تمہیں ۔ محد نے نظریں سامنے رکھتے گاڑی چلاتے کہا تھا ۔
مجھے انارکلی جانا ہے اگر تمہیں دیر نہیں ہو رہی ورنہ میں اکیلی چلی جاتی ہوں میں نے تو ابا جی کو بھی بولا تھا مگر وہ مانے ہی نہیں ۔
نہیں نہیں فکر مت کرو میں تمہیں چھوڑ دوں گا ۔ دراصل محد کو زیادہ ضروری کام نہیں تھا اس نے تو ابا جی کو ٹالنا چاہا تھا مگر ابا جی کہ اثرار پر وہ مجبور ہو گیا ۔
محد نے گاڑی انارکلی کے راستے پر چلا دی کافی دیر گاڑی میں عجیب خاموشی برقرار رہی پھر دانیا نے خاموشی توڑی تھی ۔
محد تمہیں کیا ہوا ہے ۔ دانیا کا انداز صاف تھا نا شکایت نا ملامت کچھ بھی نہیں بس عام سا لہجہ ۔
مجھے ۔۔۔ مجھے کیا ہونا ہے ٹھیک ہوں میں ۔
ہاں ٹھیک ہو تم مجھے سے کتراتے ہو تم مگر سہی ہی کرتے ہو ۔ دانیا کے انداز میں طنز نہیں تھا ۔
تم بھی تو یہی چاہتی تھی دانیا کہ میں تمہارا پیچھا چھوڑ دوں تمہیں اکیلا کر دوں تو بس سمجھو میں نے تمہاری بات مان لی ۔ محد نے سڑک پر نظریں جمائے کہا تھا ۔
تم نے میری بات مانی ہوتی تو کیا ہی بات تھی چوہدری محد ظفر مگر تم نے تو ۔۔۔۔ دانیا کہتی کہتی رک گئی الفاظ ختم ہو گئے تھے یا جو تھے وہ کہنے کی ہمت نہیں تھی اس میں ۔
میں نے کیا دانیا ۔ محد نے گاڑی روکی تھی ۔
گاڑی چلاتے رہو مجھے جلدی پہنچنا ہے ۔ دانیا نے چہرہ موڑتے کہا تھا ۔
میں نے کیا کیا ہے دانیا ۔ محد نے گاڑی کو دوبارہ ریس دی تھی ۔
تم نے تو مجھ سے نفرت ہی کر لی محد ظفر ۔ دانیا کے انداز درد تھا مگر آواز بالکل صاف نا ہچکچاہٹ نہ کوئی ناراضگی ۔
دانیا تم نے سوچ کیسے لیا کہ مجھے تم سے نفرت ہے ۔۔۔ تم سے ۔۔۔ تم سے محبت کے سوا محد ظفر کچھ نہیں کر سکتا وہ ادھورا ہے ۔
دانیا نے ہمیشہ چاہا تھا کہ محد زندگی میں آگے بڑھ جائے اسے بھول جائے زندگی کی نئی سرے سے شروعات کرے ایک نئی صبح ایک نیا دن مگر ہرگز یہ نہیں چاہا تھا کہ وہ اس سے نفرت کرے وہ یہ لمحے کے لیے بھی اس خیال کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھی کہ محد ظفر کو اس سے نفرت ہے ۔
سب جاننے کے باوجود ۔ دانیا آنکھوں میں جہاں کی حیرت لیے بولی تھی ۔
کیا جاننے کے باوجود مجھے نہیں معلوم کہ تم کس بارے میں بات کر رہی ہو ۔ محد نے نظریں چرائی تھی وہ اس موضوع پر بات کرنا نہیں چاہتا تھا ۔
محد میں جانتی ہوں تم سب جانتے ہو اس دن جو تم نے کہا وہ سب ۔ دانیا ابھی کچھ کہنا چاہتی تھی مگر محد نے اسے بیچ میں روک دیا ۔
دانیا میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا میں سب بھول گیا ہوں تم بھی بھول جاؤ تو بہتر ہو گا ایک منزل پر وقت سے زیادہ قیام کر لیا جائے تو زندگی میں بےمعانی ٹھراؤ اکتاہٹ آ جاتی ہے بہتر یہی کہ جتنا جلدی ہو اگلے سٹیشن کی طرف قدم بڑھا دیا جائے ۔ دانیا محد کو دیکھتی رہی وہ بولتا رہا اس کے بعد دونوں میں کوئی بات نہیں ہوئی وہی پرانی لاتعلقی خاموشی دونوں کے بیچ حائل ہو چکی تھی ۔
کچھ دیر میں گاڑی انارکلی بازار میں رکی تھا بازار کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ہر طرف لوگوں کا رش تھا آج ہفتے کا دن تھا اور رش معمول سے زیادہ تھا کپڑے کی دکانوں میں خواتین بحث کرتی نظر آتی تھی گاہت دکاندار ایک قیمت پر فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے دکاندار اپنے مال کی خوبیاں بتانے میں مصروف تھے اور یہ یقین دلانے میں جٹ چکے تھے کہ اگر ان سے مال نہ لیا گیا تو گاہک اپنی زندگی کی کتنی بڑی غلطی کر بیٹھے گا دوسری طرف گاہک اس بات پر باضد کہ جو مطالبہ دکاندار کا ہے وہ کتنا غلط اور انصاف سے پیچھے ہے ۔
دانیا دروازہ کھولتی باہر نکلی تھی جب پیچھے سے محد نے سوال کیا تھا ۔
تمہیں یہاں کیا کام ہے ۔ دانیا اس وقت بحث کے موڈ میں قطعاً نہیں تھی تو اس نے جھوٹ بول کر بات کو ٹال دینا چاہا ۔
مجھے زرا کچھ ضرورت کا سامان خریدنا ہے ۔ دانیا کہتی آگے بڑھ گئی اور بازار میں گم ہو گئی محد کو اس کے جھوٹ پر یقین نہیں آیا تھا آتا بھی کیسے وہ سب جان چکا تھا دانیا کیا ہے کون ہے وہ دانیا کو تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا تھا مگر وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ دانیا کسی کو تکلیف پہنچاتی رہے کسی کی جان کو دانیا کی وجع سے خطرہ ہو اس بات کی اجازت محد نہیں دے سکتا تھا محد نے دانیا کا پیچھا کرنا چاہا اس نے دانیا کو گلی میں دکانوں میں ادھر ادھر کچھ تلاش کرتے دیکھا وہ پہلے کپڑے کی دکان میں داخل ہوئی تھی اس نے جارجٹ کے فیروزی دوپتے پر ہاتھ رکھا تھا بلاشبہ دوپتا کافی خوبصورت تھا دانیا نے دوپتے کی قیمت پر بحث کی تھی ہزار کا دوپتا وہ چھ سو میں خریدنے میں کامیاب ہوئی تھی یہ دانیا کی عادت کے خلاف تھا اسے خریداری ہرگز نہیں آتی تھی محد چھپ کر سارا منظر دیکھتا رہا اسے سب عجیب لگ رہا تھا دانیا عجیب لگ رہی تھی اس کی باتیں عجیب لگ رہی تھی دکاندار نے دوپتا ایک شوپر میں ڈال کر اسے پکڑا دیا اور وہ شوپر ہاتھ میں پکڑے دکان سے باہر نکل آئی رش میں جگہ بناتی وہ آگے بڑھتی رہی محد گہری نگاہ ڈالے اس کا پیچھا کرتا رہا اسے ڈر تھا کہ وہ کہیں دانیا کو اس بھیڑ میں کھو نہ دے دانیا کی اگلی منزل ایک کھسوں کی دکان تھی خوبصورت قیمتی کھسے انتہائی باریک کام ہوا ہوا سادہ بھاری کام والے موتی لگے کڑہائی ہوئے ہر طرح کا کھسہ موجود تھا دکان کافی بڑی تھی دانیا اندر داخل ہو گئی اور محد اس کے پیچھے اتنے میں محد کو پیچھے سے زور کا دھکا لگا تھا غلطی بھی اگلے شخص کی تھی اور بگڑ بھی الٹا وہ رہا تھا مگر جلد ہی محد اس سے جان چھڑانے میں کامیاب ہو گیا اس نے مڑ کر دانیا کو تلاش کرنا چاہا مگر دانیا تو کب کی کھو گئی تھی محد نے اس چھوٹی سی لڑائی کے بیچ اسے کھو دیا تھا وہ اتنی سی دیر میں کب کہاں چلی گئی اسے نہیں معلوم تھا دوسری طرف دانیا دیوار کے پیچھے چھپی محد پر نظر رکھے ہوئے تھی کھسے کی وہ دکان نہیں تھی بلکہ ملاقات کی ایک جگہ تھی کوڈ کے ہی ایک فرد کی ملکیت وہ دکان اس طرح بنائی گئی تھی کہ کون سی راہ کس طرف نکلتی کسی کو سمجھ نا آتی شرط یہ کہ کوئی اس جگہ سے اچھے سے واقف نہ ہو اور دانیا جانتی تھی اس جگہ کو بہت اچھے سے جانتی تھی وہ بس ایک موقع کے انتظار میں تھی اسے معلوم تھا محد اس کا پیچھا ضرور کرے گا اس کے اندر کا پولیس افسر اسے گاڑی میں بیٹھا نہیں رہنے دے گا اور ایسا ہی ہوا محد نے اس کا پیچھا کیا دانیا اسے گھوماتی رہی اور وہ گھومتا رہا اور پھر انہی کے ایک بندے نے محد سے ایک لڑائی کا ڈرامہ کیا اور دانیا جس لمحے کے انتظار میں تھی اسے مل گیا اب دانیا محد کو اسے ڈھونڈتا دیکھتی رہی وہ ادھر ادھر دانیا کی تلاش میں تھا وہ دو بار باہر سے ہو کر بھی آیا مگر تلاش بیکار تھی محد کو معلوم ہو گیا تھا کہ دانیا نے اس کے ساتھ کھیل کھیلا ہے اور دانیا کو معلوم ہو چکا تھا کہ محد کو اس کے کھیل کا علم ہو چکا ہے کتنی عجیب بات تھی دونوں کو معلوم تھا اور دونوں ایک دوسرے سے چھپا رہے تھے ۔ آخر محد تھک ہار کر چلا گیا دانیا اندر داخل ہو گئی دیوار کے پیچھے ایک اندر کی طرف کمرہ تھا جہاں بظاہر تو سارا مال رکھا جاتا تھا مگر اندر کوئی اور بھی تھا جگن جس کی ذمہ ایک اہم کام لگایا گیا تھا کوڈ جو یاور لاکھانی کی پل پل کی خبر کی تلاش میں رہتی تھی دانیا نے خود کو چھپا رکھا تھا کمرے میں اندھیرا اتنا تھا کہ مخالف کی جنس کے بارے میں معلوم کرنا بھی مشکل تھا پھر بھی دانیا نے چہرہ چھپا رکھا تھا جگن کے لیے تو یہ ہی بڑی بات تھی کہ کنگ اس سے خود ملنے آیا ہے یقیناً کنگ کے لیے یاور لاکھانی بہت اہم ہے ورنہ کنگ بازاتِ خود اس سے ملنے نہ آتا ۔
دانیا نے گفتگو کا آغاز کیا تو جگن کو جھٹکا لگا کنگ ایک عورت ہے اسے جیسے سانپ سونگ گیا ہو ۔
جگن تم کچھ بولو گی ۔ دانیا نے اپنی آواز سے جگن پر روب ڈالتے کہا تھا ۔
جی ج۔ی کنگ ۔ جگن بامشکل بول پائی تھی ۔
جگن میری جنس سے کسی کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے میرا عورت ہونا اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دیتا کہ کوئی کنگ کے سامنے آواز بلند کر سکیں اور نہ ہی اس بات کی کہ کوئی کوڈ اپنا اعتماد کھو دے یا اپنی آواز ہلکی کر لے کوڈ کوڈ رہے گا چاہے کنگ میں کوں یا کوئی اور ۔۔۔۔ اور کسے معلوم کون کیا ہے کیا معلوم تم کنگ نکلو ۔ دانیا پراعتماد تھی ۔
جی بہتر جگن سمجھ چکی تھی اسے کیا بولنا ہے اس نے حکم ملتے بولنا شروع کیا تھا ۔
کنگ یاور کا پتا چل گیا ہے وہ تین دن لے لیے پاکستان آ رہا ہے اور اس بار خبر پکی ہے وہ تین دن کے لیے آئے گا اور اپنا سب سمیٹ کر نکل جائے گا اور غالباً دوبارہ کبھی واپس نہ لوٹے ۔ جگن نے اسے آگاہ کیا تھا ۔
اور کب آ رہا ہے یاور لاکھانی اور کہاں رکے گا ۔ دانیا نے اگلا سوال کیا ۔
جی کل رات نو بجے اس کی فلائٹ ہے اور وہ سیرینا ہوٹل رکے گا ۔ جگن نے اپنی معلومات كے مطابق دانیا کو یاور لاکھانی کہاں ٹھرنے والا اس متعلق بتایا ۔
دانیا  نے جگن کو کال کر کہ یہاں آنے کو کہا تھا وہ کال پر بات نہیں کرنا چاہتی تھی ان کی باتیں ریکورڈ ہونے کا خطرہ نا ہونے کے برابر تھا پھر بھی احتیاط بہتر تھی ۔
مجھے نہیں لگتا یاور وہاں رکے گا ۔ دانیا نے کچھ سوچتے کہا تھا ۔
کیوں کنگ آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے ۔ جگن تجسس سے بولی تھی ۔
سیرینا ہوٹل چوہدری حویلی کے بہت قریب ۔ دانیا نے دل میں سوچا تھا یاور ایسا خطرہ کیوں مول لے گا یا پھر وہ خطرے کے قریب رہ کر خطرے کی نظروں سے بچا رہنا چاہتا ہے جو بھی تھا وہ پتا لگا ہی لے گی ۔
جگن دانیا کے جواب کی منتظر تھی مگر دانیا خاموش کھڑی سوچتی رہی ۔
کنگ ۔ جگن نے اسے خیال سے بیدار کیا تھا ۔
تم یاور پر نظر رکھو اس کی پل پل کی خبر مجھے چاہیے یاد رہے اسے ایک آنچ نہیں آنی چاہے آگے کیا کرنا ہے میں تمہیں آگاہ کروں گی ۔
دانیا کہتی دکان سے باہر نکل آئی اس طرح کہ بھیڑ میں گم ہو چکی ہو اتنے میں اس کے موبائل پر کال آئی جو شور کے بعض وہ سن نا سکی تھی جب وہ بھیڑ سے آزاد ہوئی تو اسے رنگ ٹون سنائی دی تھی اس نے جلدی سے بیگ میں سے فون نکالا تھا اتنے میں کال اینڈ ہو چکی تھی موبائل سکرین پر محد کی تین مس کالز تھی دانیا نے اسے کال لگائی تھی ۔
سوری وہ میں رش میں تھی کال کی آواز نہیں آئی مجھے ۔ محد کے کال اٹھاتے ہی دانیا نے معازرت کی تھی ۔ تم نے کسی کام سے کال کی تھی ۔
ہاں میرا کام نہیں ہو سکا تم بتاؤ تم کام سے کتنی دیر میں فارغ ہو گی میں تمہیں پک کر لوں ۔
ہاں میرا کام ہو گیا ہے تم رہنے دو میں خود سے آ جاؤں گی ۔
نہیں نہیں تم فکر مت کرو میں دس منٹ میں پہنچ رہا ہوں تم بس میرا انتظار کرو جہاں چھوڑا ہے ویہیں سے پک کروں گا ۔ محد نے کہتے فون کاٹ دیا تھا سچ تو یہ تھا محد کہیں گیا ہی نہیں تھا وہ اس کا انتظار کرتا رہا تھا اسے ڈھونڈتا رہا تھا مگر وہ اسے کہیں نہیں ملی تھی اس کا دل بےچین تھا دانیا کو چھوڑ کر جانے پر اس کا دل رضامند نہیں تھا وہ کیسے اپنے دل کی نا سنتا اور دانیا کو چھوڑ کر چلا جاتا اسی لیے اس نے مناسب وقت تک دانیا کا انتظار کیا تھا ایک وقت گزر گیا تو اس نے کال ملائی تھی تاکہ دانیا کو شک نا ہو کہ وہ کہیں گیا ہی نہیں تھا پھر جب دانیا اس مقام پر پہنچی تو گاڑی وہاں موجود تھی دانیا نے گاڑی کو ہاتھ لگایا تو وہ ٹھنڈی تھی جتنا وقت اسے بازار میں ہو گیا تھا اگر محد کہیں گیا ہوتا تو گاڑی کا انجن اچھا خاصا گرم ہو چکا ہوتا مگر ایسا نہیں تھا دانیا کو معلوم ہو چکا تھا ۔ محد نے کچھ چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی وہ چاہتا تو گاڑی کو سڑکوں پر بےمعانی بھگاتا رہتا مگر اس نے ایسا نہیں کیا تھا کیونکہ وہ کچھ چھپانا ہی نہیں چاہتا تھا اگر دانیا اس سے سوال کرتی تو شاید وہ سب سچ بتا دیتا مگر دانیا چپ چاپ آ کر گاڑی میں بیٹھ گئی بنا کسی سوال اعتراض کے اسے گاڑی چلانے کا اشارہ دیا ۔
*********************************************
آج ہفتہ تھا سب جوان چھت پر موجود تھے سوائے دانیا اور محد کے رات کے نو بج چکے تھے اور دانیا کو جگن کو کال کرنی تھی وہ کال کر کے چھت پر جانے والی تھی اور محد کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا ۔ چھت پر خوب رونک لگی ہوئی تھی سب کے لیے کافی اور چائے کا انتظام کیا ہوا تھا ساتھ میں کپ کیکز بھی موجود تھے چوکلیٹ اور کیریمل فلیور کے مزیدار کپ کیک عنایہ نے بیک کیے تھے تاش کے پتے ہاتھوں میں لیے سب تاش بھی کھیل رہے تھے عالیان نے گیم میں چیٹنگ کی تھی اور عفاف کی مدد کی تھی جس پر زین نے اچھا خاصا شور مچایا تھا ۔
نہیں بھئی یہ کیا طریقہ ہوتا ہے ۔ زین تاش کے پتے فرش پر پھینکتا بولا تھا ۔
ارے معاف کر دے یار بچارے کی نئی نئی شادی ہوئی ہے ۔ زوہیب نے اسے حوصلہ دیا تھا ۔
اب میرا کیا قصور ہے اس کی شادی ہو گئی ہے ۔ زین کو ایک دم اپنا کنوارے پن کا دکھ ستایا تھا ۔
سارے شادی کر رہے ہیں بس میں نے ہی بن بیاہے ہی اس دنیا سے اٹھ جانا ۔ زین نے رونا ڈالا تھا ۔
کہاں سارے محد کو بھی دیکھ اس سے چھوٹے گھر گرستی والے ہو گئے ہیں ۔ صائم بولا تھا ۔
لڑکی تو ڈھونڈ لی ہے نا ایک میں ایک اکلوتا سنگل بلکہ شدید سنگل ہینڈسم نوجوان کنوارا مرے گا ۔
کس نے لڑکی ڈھونڈ لی ہے ۔ محد ایک دم سے کسی جن کی طرح نازل ہوا تھا اور جگہ بناتے ان کے ساتھ دو زانوں بیٹھ گیا تھا ۔
کچھ نہیں یار بس اس زین کا رونا کہہ رہا تھا کہ لڑکی ڈھونڈ کر دو اپنے لیے تو ڈھونڈ لی ہیں سب نے اب میری مدد کرو ۔ زوہیب نے جوان دیا تھا ۔
اس کے تو رونے نہیں ختم ہونے تم ایسا کرو پتے بانٹو ۔ محد نے پتے سب سے چھینتے کہا تھا ۔
کیا مطلب نئے سرے سے گیم شروع ۔ عمارہ بدمزہ ہو گئی تھی ۔
ہاں سہی کہا محد نے ویسے بھی پیچھلی گیم میں بہت چیٹنگ ہو چکی ہے ۔ زین نے محد کا ساتھ دیتے کہا تھا ۔
ہاں توں جو ہارنے والا تھا ۔ صائم بیچ میں بولا تھا ۔
اچھا پھر دانیا کا ہی انتظار کر لیتے پھر سے گیم شروع کرنی پڑ جائے گی ۔ عنایہ نے مشورہ دیا تھا ۔
نہیں اس کے انتظار کا فائدہ نہیں وہ سو گئی ہے ۔ محد نے پتے زوہیب کی طرف بڑھا دیے اور زوہیب پتے پکڑے سب میں بانٹنے لگا تھا ۔
اتنی جلدی کیسے سو گئی وہ طبیعت تو ٹھیک ہے نا اس کی ۔ عنایہ فکرمندی سے بولی تھی ۔
صبح تک تو ٹھیک تھی ابھی کا پتا نہیں ۔ محد نے لاتعلقی دیکھائی تھی جیسے دانیا کی طبیعت سے اس کا کوئی لینا دینا ہی نا ہو ۔
ماہم اور عالیان تھوڑے پریشان تھے ماہم نے اٹھ کر جانا چاہا کہ دانیا کا حال معلوم کر آئے مگر عنایہ نے روک دیا کہ وہ آرام کر رہی ہو گی ۔
ماہم کو فون پر پیغام ملا تھا وہ پیغام پا کر ایک طرف سے مطمئن ہو گئی تھی دوسری طرف فکرمند صائم کی نظر میں آنے سے پہلے اس نے میسج ڈیلیٹ کر دیا اگر وہ مسیج صائم پڑھ بھی لیتا تو اسے سمجھ نا آتی کہ اس کا مطلب کیا ہے ۔
جگن کی کال آتے ہی دانیا نے دروازہ لوک کر لیا تھا جگن نے اسے پکی خبر دی تھی کہ یاور لاکھانی سیرینا ہوٹل ہی رکا ہے دانیا جانتی تھی اگر وہ اس وقت چوہدری حویلی سے باہر نکلی تو محد کو معلوم ہو جائے گا اور وہ اس کا پیچھا ضرور کرے گا اسی لیے اس نے سدرہ سے کہا کہ وہ سونے لگی ہے کوئی اسے نا اٹھائے یا ڈسٹرب کرے خود وہ دروازہ لوک کر کے کھڑکی کے راستے نیچے اتر گئی اس طرح کہ کسی کو خبر بھی نا ہوئی اسے زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے کا وقت لگنے والا تھا اس نے ماہم قریشی کے موبائل ہر پیغام چھوڑا تھا ۔
آج تو سب چھت پر دیر تک رکنے والے ہیں میری تو طبیعت ہی سہی نہیں ورنہ ضرور آتی ۔ دانیا جانتی تھی ماہم سمجھ جائے گی ۔
دانیا کچھ دور پیدل چلتی ہوئی آئی وہاں اسے ایک گاڑی نظر آئی کالے رنگ کی مرسیڈیز وہ اندر بیٹھ گئی کچھ ہی دیر میں وہ ہوٹل کے اندر پہنچ گئی ہوٹل میں کومل کے نام سے ہوٹل میں ایک کمرہ بک تھا وہ کمرے یاور لاکھانی کے کمرے سے چار کمرے چھوڑ کر تھا کمرہ چار دن کے لیے بک کیا گیا تھا کل کا سورج یاور لاکھانی کے لیے نئے رنگ لانے والا تھا جس کی یاور لاکھانی کو خبر بھی نا تھی ۔ آج رات تو وہ صرف صورتحال دیکھنے آئی تھی اسے اپنے پلین کو کیسے ترتیب دینا ہے کیا کرنا ہے کون سی مشکلات اس کے راستے میں حائل ہو سکتی اور اسے ان سے کیسے بچ کر نکلنا ہے وہ ہر چیز پر نظر رکھنے آئی تھی دانیا ایک بار یاور لاکھانی کے کمرے میں بھی داخل ہوئی تھی اور وہ اسے پہچان تک نہ پایا تھا منہ پر داڑھی لگی ہوئی چھوٹے بالوں میں اس کے فرشتے بھی دانیا کو نا پہچان پاتے وہ کمرے کا جائزہ لیتی باہر آ گئی تھی اور تقریباً ایک گھنٹہ چالیس منٹ میں وہ چوہدری حویلی کے اندر تھی جس راستے سے وہ باہر نکلی تھی اسی سے اندر داخل ہو گئی تھی ۔ اب اسے آرام کرنا تھا چین کی نیند سونا تھا کیونکہ کل کے لیے بہت کچھ تھا کرنے کو بہت سی چیزیں تھی اپنے اختتام کی منتطر اور اس کے لیے دانیا کو آرام کی ضرورت تھی مکمل طور پر آزاد ہو جانا تھا دنیا کی مشکلات سے ہر مسئلے سے آزاد ۔
*****************************************
عفاف کب سے دیکھ رہی تھی عالیان پریشان ہے تاش کھیلتے ہوئے بھی اس کا دھیان کہیں اور پھر کمرے میں بھی جلدی آ گیا آخر ایک دم ایسا کیا ہو گیا تھا کہ اس کے چہرے پر تین سو ساٹھ ڈگری کے زاویے بدلے تھے عفاف بھی اس کے پیچھے کمرے میں آ گئی ۔
عالیان آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں کچھ ہوا ہے کیا ۔ عفاف کمرے میں داخل ہوئی تو عالیان کو بستر پر لیٹا چھت کو گھورتا پایا ۔
ہاں کچھ نہیں میں ٹھیک ہوں ۔ عالیان ایک دم اٹھ کر بیٹھا تھا ۔
عالیان آپ اس شادی سے خوش تو ہیں ناں ۔ عفاف نے فکرمندی سے کہا تھا اسے لگا کہ کہیں عالیان کی پریشانی کی وجع یہ شادی ہی تو نہیں ہے ۔
عفاف تم کیسی باتیں کر رہی ہو ۔ عالیان نے اس کا ہاتھ پکڑتے اسے اپنے قریب بیٹھایا تھا ۔
میں شادی سے خوش کیوں نہیں ہوں گا یہ خیال کیسے آ گیا تمہیں ۔
جب سے ہماری شادی ہوئی ہے آپ ایسے ہی پریشان پریشان رہتے ہیں ۔
مجھے معاف کر دو عفاف اگر میرے رویے نے تم پر کبھی ایسا تاثر ڈالو ہو کہ میں تم سے شادی کر کہ خوش نہیں ہوں میں خوش ہوں بہت خوش ہوں ۔ عالیان نے اسے یقین دلایا تھا ۔
تو پھر یہ پریشانی کیسی ہے جو مجھے آپ کے چہرے پر نظر آتی ہے ۔ عفاف پریشان تھی عالیان کے لیے پریشان تھی ۔
عفاف کچھ چیزیں ہیں میری زندگی میں جو میں تمہیں ابھی نہیں بتا سکتا شاید کبھی نا بتا سکوں بس تم اتنا جان لو کہ میں بہت جلد سب کچھ ٹھیک کر دوں گا ۔ عالیان نے عفاف کو یقین دلایا تھا ۔
آپ مجھے کیوں نہیں بتا دیتے شاید میں آپ کی مدد کر سکوں ۔ عفاف اس کو ہر حال میں مشکل سے نکالنا چاہتی تھی ۔ عالیان مسکرایا تھا ۔
عفاف میری زندگی فکر مت کرو سب ٹھیک ہو جائے گا میں ٹھیک کر دوں گا تمہیں یقین ہے ناں مجھ پر ۔ عالیان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا تھا جس پر عفاف نے سر ہلا دیا تھا ۔
عفاف میں جانتا ہوں تمہارے لیے یہ مشکل ہو گا میں نے اپنی آدھی سے زیادہ زندگی گھر سے باہر گزاری ہے میری زندگی عام لوگوں جیسی ہے اور تم میری زندگی کا حصہ ہو بہترین حصہ ۔ عالیان عفاف کی آنکھوں میں دیکھتا بولا تھا ۔
میں بس آپ کو کسی مصیبت میں نہیں دیکھ سکتی ۔ عفاف نے بہت دیر بعد کچھ بولا تھا ۔
کوئی چیز عالیان حماد کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی جب تک خدا عالیان کے ساتھ ہے ۔ عالیان نے عفاف کو مطمئن کرنے کو کہا تھا اور وہ کسی حد تک مطمئن دکھائی دے رہی تھی ۔
عالیان کو دانیا نے ایک کام سونپا تھا کل کوڈ کے لیے بڑا دن تھا بہت اہم کام سرانجام دینے تھے بہترین کوڈ اور بھروسہ مند کوڈ کو ان کے کام سے اگاہ کر دیا گیا تھا جگن کو یاور لاکھانی پر نظر رکھنی تھی ٹائگر کو ہوٹل کے اندر کے انتظامات دیکھنے تھے اور عالیان کو ۔۔۔۔۔ عالیان کو سب سے اہم کام سونپا گیا تھا یاور کو ہوٹل سے باہر لانے کا کام عالیان کے ذمہ تھا اور دانیا جانتی تھی عالیان یہ کر لے گا ۔
**********************************************
زوہیب ۔ عنایہ بیڈ پر بیٹھی تھی جب ایک خیال کے آتے زوہیب کو پکارا تھا ۔
ہاں بولو عنایہ ۔ زوہیب عنایہ کی طرف متوجع ہوا ۔
شکریہ ۔ عنایہ نظریہ اپنے ہاتھ میں بندھے بریسلٹ پر انگلی پھیرتے بولی تھی جو اسے عفاف لوگوں کی شادی سے پہلے زوہیب نے لے کر دیا تھا ۔
اتنا دن بعد کیسے خیال آ گیا شکریہ کا ۔ زوہیب نے اس کی کلائی کی طرف دیکھتے کہا تھا ۔
میں بریسلٹ کے لیے شکریہ نہیں کر رہی ۔ عنایہ نے اس کی نظروں کے تاکب میں کہا تھا ۔
اچھا خاصا بریسلٹ ہے ویسے شکریہ بنتا تو تھا ۔ زوہیب نے شرارتاً کہا تھا ۔
بریسلٹ کے لیے بھی شکریہ ۔
اور کس چیز کے لیے شکریہ ادا کرنا چاہ رہی ہو ۔
ہر چیز کے لیے میرا ساتھ دینے کے لیے مجھ سے کبھی سوال نہ کرنے کے لیے مجھ پر بھروسہ کرنے کے لیے مجھے سنبھالنے کے لیے میں سوچتی ہوں اگر آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کیا وہ مجھے معاف کر دیتا نکاح کے عین وقت انکار کرنے والی لڑکی سے کیا وہ کوئی سوال نہ کرتا ۔
عنایہ پرانی باتیں بھول جاؤ اور آگے بڑھو مجھے تم سے کبھی سوال کرنے کی ضرورت پیش ہی نا آئی سوال تو تب کرتا جب تمہاری نیت میں کوئی کھوٹ پاتا سوال تو تب بنتے اگر تمہاری نظروں میں مجھے پچھتاوا نظر آتا مگر ایسا کچھ نہیں تھا مجھے ایک لمحے کو بھی یہ نہیں لگا کہ میرا تم سے شادی کرنے کا فیصلہ غلط تھا مجھے کبھی نہیں لگا کہ تم مجھے چھوڑ کر بھاگ جانا چاہتی ہو تو میں اپنی اتنی پیاری بیوی سے سوال کرنے والا بےوقوف کیوں بنتا ۔ زوہیب نے اطمینان سے کہا تھا ۔
مگر میں آپ کو سب سچ بتانا چاہتی ہوں میں چاہتی ہوں کہ میں سب کچھ پیچھے چھوڑ دوں اور میں حال ماضی میں صرف آپ ہوں ۔
عنایہ تم چاہے مجھے بتاو یا نا بتاو میں ہمیشہ تمہیں تمہارے ساتھ کھڑا ملوں گا یہ میرا تم سے وعدہ ہے ۔ زوہیب نے اس کے ہاتھ میں ہاتھ رکھتے یقین دلاتے کہا تھا ۔
محد دانیا سے محبت کرتا ہے ہمیشہ سے کرتا تھا ۔ عنایہ نے عام سے لہجے میں کہا تھا اور پھر حرف با حرف اسے سب بتاتی گئی تھی جب وہ سب بتا چکی تھی تو اس امید سے زوہیب کو دیکھا تھا اس کا ردِ عمل کیا ہو گا وہ کیا کہے گا ۔
زوہیب آپ خاموش کیوں ہو گئے آپ ناراض ہیں مجھ سے ۔
مجھے فخر ہے تم پر عنایہ تم نے وہ کیا جو ہر کسی میں کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تم ایک بہادر لڑکی ہو تمہارے لیے کتنا آسان ہوتا اس روز محد کے نکاح میں آ جانا کون روک سکتا تھا تمہیں مگر تم نے ان دونوں کی خوشی کے لیے پیچھے ہٹ گئی کچھ لوگ۔۔۔۔۔ تو محبت کا اقرار کرنے کی ہمت نہیں رکھتے اس نے آخری الفاظ دل میں کہے تھے ۔
کچھ لوگ تو ۔ عنایہ نے اسے چپ دیکھا تو بولی ۔
کچھ لوگ تو محبت کی خوشیاں پا لینے کے بعد بھی خوش نہیں رہ پاتے ۔
کیا معلوم میں بھی ان لوگوں میں ہو جاتی ہو محبت تو پا لیتی مگر محبت کی خوشیاں نا پاتی ۔ عنایہ گہری سوچ کے ساتھ بولی تھی ۔
ہو سکتا ہے عنایہ مگر تم آزاد کر دو اپنے آپ کو پچھلی یادوں سے تم نے کچھ غلط نہیں کیا ۔
میں نے کر دیا ہے آزاد خود کو ہر چیز سے بس مجھے ایک ہی بات ستاتی تھی کہ میں نے آپ سے سب چھپا کر رکھا اب میں سکون میں ہوں ۔ عنایہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولی تھی ۔
اور میں تمہیں سکون میں دیکھ کر سکون میں ہوں ۔
*******************************************
صبح کے دس بج رہے تھے اور عالیان چوہدری حویلی سے باہر نکلا تھا عفاف سے ملتا چوہدری حویلی سے قدم باہر نکالے تھے کون سا لمحہ اپنے ساتھ کیا طوفان لائے کسے معلوم تھا کس کی زندگی کے کون سے رنگ اڑنے والے تھے سب بےخبر تھی مگر یہ بےخبری زیادہ دیر نہیں رہنے والی تھی آج کا دن سب بدل دینے والا تھا عالیان عفاف دانیا محد سب کی زندگی کے فیصلے ہو چکے تھے دانیا کا یہ اٹھتا قدم بہت سارے بدلاؤ لانے والا تھا کسے خبر کون وہ بدلاؤ دیکھنے کے لیے بچتا بھی نہیں کس کی زندگی کی ڈور سلامت رہتی کسی کی زندگی کی تار ہمیشہ کے لیے کٹ جاتی ۔
عالیان ہوٹل کے اندر داخل ہوا تھا اندر کے انتطامات ٹائیگر نے سنبھال رکھتے تھے ساری سیکیورٹی کوڈ کے ہاتھوں میں تھی ۔
عالیان ہوٹل میں داخل ہوا اور سیدھا کومل کے نام پر بک کمرے میں داخل ہو گیا اس سے آگے کا سفر زیادہ مشکل نہیں تھا بس اسے یاور لاکھانی کے کمرے میں داخل ہونا تھا اس نے تقریباً بارہ بجے یاور لاکھانی کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور یاور لاکھانی نے دروازہ کھول لیا تھا یاور اسے پہچان نہیں پایا تھا اور اس سے پہلے یاور اسے پہچاننے کی کوشش بھی کرتا عالیان مہارت سے اسے کمرے کے اندر لے گیا اور ساتھ ہی خود بھی کمرے میں داخل ہو گیا عالیان نے یاور کا بازو پکڑا تھا اور ایک سوئی اس کے جسم میں چبھوئی تھی اور وہ ساتھ ہی بیہوش ہو گیا اور عالیان اسے دھکا دیتا اندر داخل ہو گیا یہ سب اتنا جلدی ہوا تھا کہ اسے اپنے بچاؤ کا موقع بھی نہیں ملا تھا ۔
عالیان نے اپنے کمرے سے بڑا سوٹ کیس نکالا تھا اور یاور لاکھانی کو اس میں فٹ کر کے بند کر دیا تھا اب اسے بس ہوٹل سے باہر لے جانا تھا جس میں دس منٹ درکار تھے دوسری طرف ٹائیگر کیمروں کی نگرانی کر رہا تھا اور ڈیڈ نام کا کوڈ سیکورٹی کی نگرانی میں تھا پورا انتطام کیا گیا تھا کہ عالیان یاور کو با آسانی ہوٹل سے باہر لے جانے میں کامیاب ہو جائے اور ایسا ہی ہوا اب وہ بڑا بیگ گاڑی میں ڈالے سکون سے بیٹھا تھا آدھا کام ہو چکا تھا آدھا باقی تھا عالیان نے یاور کو بیگ سے نکال کر پیچھے سیٹ پر اس طرح لٹا دیا تھی کہ اس کے بندھے ہوئے ہاتھ اور اس کا چہرہ دیکھائی نہ دیتا ایسا معلوم ہوتا کوئی شخص گہری نیند میں ہے ۔  
عالیان نے گاڑی ایک سنسان سڑک پر روکی تھی اور یاور لاکھانی کو ڈگی میں ڈالا تھا عالیان نے ایسے راستے کا انتخاب کیا تھا جہاں اسے کوئی ناقہ نہ ملے اور وہ بنا کسی رکاوٹ کے منزل پر پہنچ جائے اور ایسا ہی ہوا آج قسمت ساتھ تھی سب کچھ آسانی کے ساتھ ہوتا جا رہا تھا کوئی مشکل پیش نا آئی تھی جیسے پوری کائنات ان کی مدد کر رہی ہو عالیان نے گاڑی عمارت کے سامنے روکی اور یاور کو اٹھاتا اوپر لے گیا اوپر لے جا کر اس نے اسے ایک کرسی پر بیٹھا دیا اس کے ساتھ اور پاؤں باندھ دیے اور منہ پر بھی ایک پٹی باندھ دی کہ جب وہ ہوش میں آئے بھی تو نا کچھ بول پائے نا یہاں سے فرار حاصل کر سکے عالیان کا کام بس یہیں تک تھا اس سے آگے کیا ہونے والا تھا عالیان کوئی اندازہ نہیں تھا اسے یاور لاکھانی کو یہاں چھوڑ کر چلے جانا تھا ۔
******************************************
یاور لاکھانی جب ہوش میں آیا تو خود کو قید میں پایا اس کے ساتھ کیا ہوا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ یہاں کیسے پہنچے اسے کچھ یاد نہیں تھا آنکھیں کھول کر اپنے ارد گرد دیکھا تو اسے جگہ جانی پہچانی لگی اور جب اپنے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا تو سب یاد آ گیا دانیا اس کے سامنے کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ چڑہائے سکون سے بیٹھی اپنے بالوں کے ساتھ کھیل رہی تھی ۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی ۔ یاور لاکھانی دھاڑا تھا ۔
او بچے کو ہوش آ گیا مجھے تو لگا تھا شاید ڈر سے کبھی ہوش ہی نا آئے تجھے ۔ دانیا سکون سے بول رہی تھی اور وہ اسے گھور رہا تھا ۔
تجھے پتا ہے مجھے سب سے زیادہ افسوس کس بات کا ہے ۔ دانیا نے سوال کیا تھا اور جواب نا ملنے پر خود ہی بولی تھی ۔ یہ کہ مجھے تو دشمن بھی کمینا ملا کم ظرف ۔
اےےےے ۔ یاور لاکھانی للکارا تھا ۔
ارے ارے آرام سے جناب کہیں پھیپھڑے ہی باہر نہ آ جائیں ۔ دانیا کرسی سے اٹھتی اس کے قریب آتے معصومیت سے بولی تھی ۔
اچھا میرے کمینے دشمن اب زرا میں چلتی ہوں تم سے زرا دیر میں دوبارہ ملاقات ہو گی تب تک اپنی قوت بچا کر رکھنا اور اپنا خیال رکھنا ۔ دانیا اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی کمرے سے باہر چلی گئی تھی ۔
یاور لاکھانی نے کمرے کو غور سے دیکھا تھا یہ وہی جگہ تھی جہاں اس نے عالم خان کو موت کی نیند سلایا تھا کیا اس کا انجام بھی ویسا ہی ہونے والا ہے کیا اس کی سانسیں بھی کٹنے والی ہیں اس کا پورا جسم اس ایک  خیال کے آتے کانپ اٹھا تھا جیسے کسی نے جسم سے سارا خون چوس لیا ہو جیسے کسی نے دل مٹھی میں دبا لیا ہو وہ ایک ایک سیکند گنتا رہا ایک ایک لمحہ قیامت بن کر گزرتا رہا یہاں تک کہ تاریکیاں چھانے لگی رات اپنی آگوش میں اسے لینے کو پہنچ چکی تھی اس کا حلق پانی کی طلب سے سوکھ چکا تھا آواز میں لرزش تھی اور جسم ٹھنڈا جیسے برف کی ڈلی ہو اسے نیند آتی تھی مگر اس کے ہوش اسے نیند کی آگوش میں جانے نہیں دیتے تھے جانے وہ وہاں سے واپس آ سکے بھی یا نہیں مگر وہ یہ بھی جانتا تھا دانیا ولی خان اسے کبھی نیند میں نہیں مارے گی کبھی اتنی آسان موت نہیں دے گی اور پھر رات کا وہ پہر آ گیا جب نیند کا غلبہ اس پر بھاری پڑ گیا اور وہ سو گیا اسے بامشکل پانچ منٹ ہی ہوئے ہوں گے کے پانی سے بھری بالٹی اس پر انڈیل دی گئی ٹھنڈا پانی اس کی رگوں میں جم گیا ہو جیسے اس نے مشکل سے آنکھیں کھولی تھی رات کا ڈیڑھ ہو رہا تھا دانیا ساتھ والے کمرے میں بیٹھی یاور کی نگرانی کر رہی تھی اور اسے سوتا دیکھ کر اس کے سر پانی کی بالٹی لیے پہنچ گئی تھی ۔
دانیا نے بالٹی ایک طرف پھینکی تھی اور خود کرسی پر جا کر بیٹھ گئی تھی ۔
تجھے معلوم ہے یاور کہ تیری سانسیں اب تک کیوں چل رہی ہیں توں اب تک زندہ کیوں ہے کیا مجھے تجھ پر ترس آ گیا ہے ۔۔۔۔۔ نہیں توں بس لوٹری کی وہ ٹکٹ ہے جو کسی کے ہاتھ کب لگ جائے اور اسے سمجھ نہ آئے کہ وہ اتنی رقم کا کرنے کیا والا ہے میرا حال بھی ویسا ہی ہے مجھے نہیں معلوم کہ مجھے تیرے ساتھ کیا کرنا ہے کیا تیری جان لے لوں یا تجھے لنگڑا بہرا گونگا کر کہ اس زمین پر بوجھ کی طرح چھوڑ دوں مجھے واقعی نہیں معلوم یاور لاکھانی ۔ دانیا صاف گوہ تھی ۔
مجھے معاف کر دو دانیا میں واعدہ تم سے بہت دور چلا جاؤں گا مجھے چھوڑ دو مجھے جانے دو ۔ یاور لاکھانی اپنی زندگی کی بھیک مانگنے کے موڑ پر آ چکا تھا اسے کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا سوائے اس کے کہ وہ گڑگڑا کر دانیا سے معافی مانگ لے ۔
دانیا نے ہاتھ میں پکڑے چاقو سے یاور کی زبان کاٹ دی تھی اسے اس کی چلتی زبان برداش نہیں ہو رہی تھی زمین پر خون بہہ رہا تھا یاور تڑپ رہا تھا اور دانیا اسے تڑپتا ہوا دیکھ رہی تھی اور یہ دانیا کے لیے کوئی نئی انوکھی بات نہیں تھی ۔
دانیا کے سر پر جنون سوار ہو چکا تھا وہ جو چند لمحوں پہلے یاور سے آرام سے بات کر رہی تھی اب لگاتار یاور کے پیٹ میں چاقو مار رہی تھی پاگلوں کی سی دیوانوں کی سی دانیا یاور کی جان لے رہی تھی وہ کب تک اس کے پیٹ میں چاقو مارتی رہی اسے خود کو معلوم نہیں تھا بس اس کا جنون سر چڑھ کر بول رہا تھا یہاں تک یاور نے جان دے دی دانیا کی ہتھیلی میں رکھ دی مگر دانیا کا ہاتھ نا رکا اور پھر ایک دم اسے کسی چیز نے زمین پر پٹکا تھا اس نے اوپر چہرہ کر کے دیکھا تو کوئی نہیں تھا شاید اس کے بازو میں اور طاقت ختم ہو گئی تھی شاید اب اور ہمت نہیں رہی تھی کہ وہ کچھ کر سکتی ۔ اس نے یاور لاکھانی کی طرف دیکھا تھا جو بے سدھ پڑا تھا وہ آزاد ہو چکا تھا دانیا ایک دم چلائی تھی ۔
یہ میں نے کیا کر دیا میں نے یاور لاکھانی کو آزاد کر دیا یہ میں نے کیا کر دیا دانیا اونچی آواز میں بول رہی تھی ۔ دانیا زمین سے اٹھتی یاور لاکھانی کی طرف بھاگی تھی ۔
یاور یاور ہوش میں آؤ مجھے معلوم ہے تم زندہ ہو میں جانتی ہوں تم ایسے کیسے اتنی آسانی سے فرار ہو سکتے ہو ۔ یاور نہیں اٹھا تھا وہ کیسے اٹھ سکتا تھا وہ تو جا چکا تھا آزاد ہو چکا تھا ہمیشہ کے لیے ۔
یاور ۔ دانیا نے اسے کالر سے پکڑ کر للکارا تھا اسے ہوش میں لانا چاہا تھا اور پھر کرسی کو ٹھوکر مارتے گرایا تھا یاور کرسی سمیت زمین پر جا گرا تھا دانیا یاور لاکھانی سے دس فیٹ کے فاصلے پر جا کر زمین سے ٹیک لگائے اس طرح بیٹھ گئی کہ اس کے گھٹنے اس کے پیٹ سے لگے ہوئے تھے اور ہاتھوں سے گھٹنوں کو پکڑ رکھا تھا ۔ دانیا ولی خان اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے سب سے بڑے دشمن کو آزاد دیکھ رہی تھی اتنا آزاد کہ اس کا دل چاہا کہ وہ بھی اسی آزادی کے سفر پر نکل جائے ۔
********************************************
رات کے ساڑھے بارہ ہو رہے تھے اور دانیا ابھی تک گھر نہیں آئی تھی عالیان کو فکر ہو رہی تھی وہ کہاں ہے کس حال میں ہے جہاں تک اسے معلوم تھا اسے یاور کے ساتھ اسی بلڈنگ میں ہونا چاہیے مگر ابھی تک تو اسے واپس آ جانا چاہیے تھا وہ کہاں رہ گئی تھی اسے اندر خوف ستا رہا تھا ۔ ماہم قریشی کو بھی علم تھا کہ دانیا کسی نا کسی اہم کام سے گئی ہے اور ایسے کام رات کے اندھیروں میں ہی ہوتے ہیں دوسری طرف محد تک یاور لاکھانی کی لاپتا ہونے کی رپورٹ پہنچ چکی تھی کوڈ نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ یاور لاکھانی کے لاپتا ہونے کی خبر کسی کو نا ہو اور اس میں کوڈ کامیاب بھی ہو گیا تھا ویسے ببھی یاور لاکھانی سب سے ملنے سے منع کر رکھا تھا وہ اکیلے رہنا چاہتا تھا مگر رات دس بجے کے قریب یاور لاکھانی کی ایک میٹنگ تھی اور جب وہ میٹنگ تک نا پہنچا تو اس کی تلاش شروع کر دی گئی تھی اور رپورٹ بھی کٹوا دی گئی تھی محد اس وقت گھر پر تھا اور سو رہا تھا جب اسے تھانے سے کال آئی تھی کیس ہائی فائی تھا اس لیے محد کو خود جانا پڑا تھا پہلے تو اس کا شک نہیں گیا یا اس کا دل اس بات کو ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ دانیا ایسا کچھ کر سکتی ہے مگر وہ گھر پہنچا تھا اس نے گھر آتے ہی دانیا کی تلاش کی تھی دانیا کہیں نہیں تھی وہ پورا گھر چھان چکا تھا اس کا دماغ بند ہو چکا تھا دانیا کہاں تھی کسی کو خبر نہیں تھی وہ دانیا کی تلاش کرتا رہا تھا دانیا کہیں نہیں مل رہی تھی وہ گاڑی نکالے نگر نگر گھومتا رہا مگر دانیا کا نام و نشان نہیں تھا اسی ایک ہی ڈر تھا کہ کہیں دانیا کچھ کر نا لے پھر اس کے دماغ میں دھماکہ ہوا اس نے گاڑی اس عمارت کی طرف موڑ لی جہاں عالم خان مرا تھا وہ عمارت چوہدری حویلی سے خاصی دور تھی تو محد کو جاتے جاتے کافی ٹائم لگ گیا اور واقعی ہی بہت وقت نکل چکا تھا جب محد اس کمرے میں داخل ہوا تو اس نے عجیب منظر دیکھا تھا ایک لاش جو کہ یاور لاکھانی کی تھی خون میں لت پت ایک کونے میں دانیا ولی خان بیٹھی تھی کلائی پر چاقو رکھے اسے کافی وقت ہو گیا تھا مگر وہ چاقو چلا نہیں پا رہی تھی ۔ دانیا ولی خان کو یاور زندہ اپنے سامنے نظر آ رہا تھا جو اسے چیخ چیخ کر بتا رہا تھا اس ہر طرف یاور لاکھانی دیکھائی دے رہا تھا ایک نہیں کئی کئی یاور لاکھانی نظر آ رہے تھے ۔
تم بھی تڑپو گی دانیا۔ ایک یاور لاکھانی چیخ کر بولتا تھا ۔  تمہیں کبھی آزادی نہیں ملے گی دانیا ۔ پھر دوسرے گی آواز آتی تھی ۔ تمہاری قسمت میں سسکنا لکھ دیا گیا ہے اور تمہیں سسکنا ہے دانیا تیسرے کی آواز کانوں میں گونجتی تھی ۔ تمہیں کیا لگا آزادی اتنی آسانی سے مل جائے گی نہیں ہر گز نہیں چوتھا پکارا تھا ۔ دانیا کبھی کانوں پر ہاتھ رکھ کر ان آتی آوازوں کو روکنا چاہتی تھی تو کبھی دوبارہ چاقو تھام لیتی تھی دانیا نے بہت ہمت کر کے چاقو چلا دیا ابھی پہلی جلد پر ہی زخم آیا تھا کہ محد نے بھاگ کر اس سے چاقو چھین کر پھینک دیا تھا اور اسے سینے سے لگا لیا تھا وہ بلک بلک کر رو رہی تھی اور پھر بےہوش ہو گئی ۔
*******************************************
دانیا ولی خان کو کچھ دن ہوش نہیں آیا تھا اس کے خلاف کیس دائر کر دیا گیا تھا پرچہ کٹ گیا تھا عدالت میں کیس جا چکا تھا اور اسے عدالت میں پیش کر دیا گیا تھا اس نے سب کچھ قبول کر لیا تھا ہر گناہ کا اعتراف کر لیا تھا مگر اپنی کسی ساتھی کا نام نہیں لیا تھا کسی کا ذکر نہیں کیا تھا کوڈ کون تھا کسی کو آج بھی معلوم نہیں تھا کیونکہ کنگ جب تک زندہ تھا کوڈ کو کچھ نہیں ہو سکتا تھا عالیان جگن ٹائیگر ڈیڈ سب آزاد تھے کسی پر حرف بھی نہیں آیا تھا پولیس نے بہت کوشش کی کہ وہ اپنے باقی ساتھیوں کا نام لے لے ان کے ٹھکانوں کی خبر دے دے مگر دانیا ولی خان بھی ولی خان کی بیٹی تھی ایسے کیسے کسی کا راز کھول دیتی ۔ اسے چودھا سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جو اسے کاٹنی تھی یاور سچ کہہ گیا تھا آزادی اتنی آسانی سے نہیں ملتی آزادی اسے نہیں ملنے والی تھی اسے سسکنا تھا سسک سسک کر مرنا تھا ایک ایک لمحہ کاٹنا تھا ایک ایک دن گننا تھا اسے آزادی نہیں ملنے والی تھی ۔
**********************************************
دانیا کو سنٹرل جیل منتقل کر دیا گیا تھا اسے چودھا سال اسی قید خانے میں گزارنے تھے اور آج تو دوسرا دن تھا پانچ ہزار ایک سو دس سن میں سے ایک دن کم ہو چکا تھا وارڈن اسے اپنے ساتھ لے کر گئی تھی اس کی ملاقات آئی تھی وہ جانتی تھی کہ کون ہو گا اور وہی تھا اس کا چوہدری محد ظفر شاید اب اس کا کبھی ہو ہی نہیں سکنا تھا وہ اسے ہمیشہ کے لیے کھو چکی تھی چودھا سال کی جدائی اس سے محد کو بھی چھین لینے والی تھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ۔
دانیا کیسی ہو ۔ محد اس کے سامنے کھڑا تھا ۔
میں۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں تم کیسے ہو ۔
تمہارے بغیر کیسا ہو سکتا ہوں ۔ دانیا اس کی طرف دیکھتی رہ گئی اتنا صاف اقرار کیا وہ اس کے دن اور مشکل بنانے آیا تھا کیا وہ اسی کی زندگی کی چلتی گاڑی کو اور سست کر دینا چاہتا تھا ۔
دانیا تم نے یہ سب کیا کر لیا خود کے ساتھ کیوں دانیا کیوں ۔ محد بےچارگی سے بولا تھا دنیا جہاں کی لاچارگی لیے ۔
کچھ چیزیں آپ کے ہاتھ میں نہیں ہوتی محد بس وہ آپ کے ہاتھ سے ہونا لکھ دی گئی ہوتی ہیں ۔
دانیا میں نہیں مانتا انسان اگر چاہے تو وہ بہت کچھ ہونے سے روک سکتا ہے ۔
اور اگر انسان ایسا کچھ چاہے ہی نا تو پھر محد ۔۔۔۔ پھر ایسے انسان کا کیا کرنا چاہیے ماحد ۔
دانیا تم نے ایسا کچھ کیوں چاہا ۔
میری چاہ میرے ہاتھ میں نہیں تھی بس میں رشتوں کے ہاتھوں کھلونا بن گئی پہلے باپ نے ساری ذمہ داریاں مجھ پر ڈال کر آزادی حاصل کر لی اور پھر چچا نے بدلے کا جنون مجھ پر لاد دیا اور میں کرتی گئی جو وہ کراتے گئے میرا بس اتنا قصور تھا کہ میں نے غلط چیز کو غلط طریقے سے روکنا چاہا ۔
ہاں تمہاری غلطی تھی یہ دانیا غلط چیز کو غلط راستے سے روکنے کی کوشش آپ کو بھی غلط بنا دیتی ہے ۔۔۔۔ دانیا تم فکر مت کرو میں تمہیں بچا لوں گا ۔ محد نے اسے یقین دلایا تھا ۔
دانیا ہنس دی تھی جیسے کوئی لطیفہ سنا دیا گیا ہو ۔
دانیا مجھ پر بھروسہ رکھو یہ اتنے سیاستدان چھوٹ جاتے ہیں اتنے بڑے بڑے گناہ کر کے میں تمہیں بھی چھڑا لوں گا ۔
انہی سیاستدانوں کی اولادوں کو اور ان کج زندگیوں کو عزاب بنائے رکھا تھا میں نے اور تم پولیس والے ہو کر ایسی باتیں کر رہے ہو ۔
جانتا ہوں مگر کبھی کبھار انسان اپنی چاہ کے آگے ہار جاتا ہے میں بھی ہار گیا ہوں تمہارے آگے میری خوشی تم میں ہے ۔
اپنی اس وردی کو دوبارہ پہن پاؤ گے ۔ دانیا نے اسے گور سے دیکھا تھا ۔
دانیا انسان فرشتہ نہیں ہوتا اور میں بھی نہیں ہوں ۔ محد اس سے آگے کچھ نا بولا تھا ۔
دانیا میں نے ہائی کورٹ میں کیس فائر کروا دیا ہے طایا ابو بھی ساتھ ہیں تم بس وہ کرنا جو وہ کہتے ہیں تمہیں کچھ نہیں ہو گا ۔ محد نے یقین سے کہا تھا ۔
دانیا میری محبت کسی قید کی محتاج نہیں ہے یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا میں ہمیشہ تمہارا تھا اور تمہارا ہی رہوں گا ۔ محد کہتا اسے اکک کو قید کے حوالے کر کے چلا گیا اور وہ اس کی محبت کی قید کو قبول کر بیٹھی ۔
کون جانتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے کل کس نے دیکھی تھی شاید محد کو اس سے محبت نا رہے شاید وہ اسے بھول جائے وہ جانتی تھی محد اپنی پوری کوشش کرے گا وہ اس کی سزا کم کرا لے گا مگر مکمل آزادی نہیں دلا پائے گا اسے قید کاٹنی نہیں یاور نے سچ کہا تھا اسے قید کاٹنی تھی ۔ 
کوڈ کبھی ختم نہیں ہونے والا تھا یہ طہ تھا عالیان کی سچائی شاید کبھی کسی کے سامنے نہ آتی ماہم قریشی کوڈ کی پہلی سیڑھی سے ہی مڑ گئی تھی عنایہ کبھی زوہیب کا اقرار نا سن پاتی شاید اور شاید دانیا چودھا سال ساید کم اس قید خانے میں سزا کاٹتی یا شاید پہلے ہی موت آ کر اسے آزاد کرا جاتی بھلا موت سے بڑی آزادی کون سی تھی ۔ ہر ایک کو اس کی حیات کی میراث مل کر رہی تھی چاہے وہ تنہائی ہو یا سایہ دار درخت یا پل پل مرنا یہ ہنستے ہوئے جینا یہ تو ان کی میراث تھی ۔
******************************************
                   The end .
Hope you guys loved journey of hayatulmeras do give view after reading.

Du hast das Ende der veröffentlichten Teile erreicht.

⏰ Letzte Aktualisierung: Mar 22, 2022 ⏰

Füge diese Geschichte zu deiner Bibliothek hinzu, um über neue Kapitel informiert zu werden!

حیات المیراث CompletedWo Geschichten leben. Entdecke jetzt