بوس کے کمرے میں اس وقت صرف دو شخص موجود تھے ایک بوس خود اور ایک سامنے بیٹھا پچیس سال کا نوجوان ، یہ بھی ان پندرہ کوڈز میں سے ایک تھا جو کوڈ کا حصہ تھے۔ بوس کا آفس ہر طرح سے محفوظ تھا یہاں پر کام کرنے والا ایک ایک شخص نہایت بھروسہ مند تھا یہاں ایک وقت میں صرف ایک کوڈ ہی آتا ہے وہ بھی جب بوس کا حکم ہوتا کسی کو بھی اس حکم کے علاوہ آنے کی اجازت نہیں تھی کوئی ایک کوڈ دوسرے کو دیکھ نہ لے اس کا خاص خیال رکھا جاتا تھا آج بھی یہ سامنے بیٹھا شخص بوس کے حکم پر یہاں آیا تھا ۔
بوس آپ نے بلوایا تھا مجھے سلیم نے بتایا ۔ ۔۔۔۔ ہاں بلوایا تھا وہ ارشد کا کیا بنا ۔
بوس ابھی اسے آزاد چھوڑا ہوا ہے کچھ اور لوگوں کو ان کے انجام تک پہچانا ہے مگر آپ فکر نہ کریں اب اس کا بھی کچھ نہ کچھ کرتا ہوں ۔
ہاں جلد سے جلد کچھ کرو اس کا وہ بچے بچارے بےاسرا ہیں ۔
آپ فکر نہ کریں جلد کام ہو جائے۔۔۔
تم کیسے ہو ۔ بوس نے اسے بولتے بولتے روکا ۔
میں ٹھیک ہوں بوس ۔ کوڈ نے صاف جھوٹ بولا ۔
کوڈ میں تمہیں بہت پہلے سے جانتا ہوں اور بہت اچھے سے جانتا ہوں جب تم پریشان ہوتے ہو تو مسلسل اپنے دائیں پاوں کو ہلاتے ہو (بوس نے اس کے مسلسل ہلتے دائیں پاؤں کی طرف اشارہ کیا) ، اب بتاو کیا بات ہے اور ویسے بھی تم نہ بھی بتاو تو میں نے پتا لگا ہی لینا ہے تو اچھا ہے خود ہی بتا دو ۔
زندگی سے دو قدم کے فاصلے سے مل کر آیا ہوں زندگی سے اس کی مراد اس کی فیملی تھی یہ بوس کے سامنے بیٹھا شخص کوئی اور نہیں عمارہ کا لاڈلہ بھائی عالیان تھا ۔
کب ملے ۔ بوس نے اس کے اداس چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
کل مال میں ۔ عالیان بوس کو سب بتانے لگا
نہیں بھائی اب تو مجھے بھی یہی گھڑی چاہیے انہیں یہ گھڑی یہاں لگانی ہی نہیں چاہیے تھی یہ ان کی غلطی ہے میری نہیں ۔ عمارہ اپنی بات پر بضد تھی ۔
میم وی آر ریلی سوری ایکچولی یہ ابھی ہی بکی ہے اور کسٹمر کو کوئی ضروری کام آ گیا تھا اور وہ چلے گئے مگر وہ پیمنٹ کر کے گئے ہیں تاکہ ہم یہ کسی اور کو نہ بیچیں ۔ سیلر نے اصل مدع بیان کیا ۔
اچھا آپ مجھے ایک بار دیکھا دیں میں چیک کر کے واپس کر دیتی ہوں ۔ عمارہ نے نہایت معصومیت سے کہا ۔
او کے میم ۔ سیلر نے گھڑی نکال کر اس کے ہاتھ میں پکڑائی ۔
کتنے کی ہے ۔ عمارہ نے گھڑی ہاتھ میں پکڑے حسرت سے کہا ۔
پچاس ہزار کی ہے ۔ سیلر نے عمارہ کو قیمت سے آگاہ کیا ۔
عالیان دکان کے باہر کھڑا اپنی بہن کو دیکھ رہا تھا وہ اچھے سے جانتا تھا کہ وہ یہ گھڑی اسی کے لیے خرید رہی تھی ۔
آپ یہ مجھے دے دیں اپنے کسٹمر کو کہنا کسی نے گھڑی توڑ دی ۔ عمارہ نے ایک تجویز دی ۔
میم ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔
اور اگر میں اس گھڑی کو سچ میں توڑ دوں ۔ عمارہ کی آنکھوں میں واضح چیلنج تھا ۔
عمارہ ۔ زوہیب نے اس کے ہاتھ سے گھڑی کھینچتے ہوئے سیلر کے ہاتھ میں پکڑائی کیونکہ عمارہ کا کیا بھروسہ سچ میں گھڑی توڑ دے ۔۔۔۔۔۔ چلو ۔ زوہیب عمارہ کا ہاتھ پکڑتا شوپ سے باہر آ گیا ۔ عالیان ان دونوں کے دکان سے باہر نکلتے سائیڈ پر ہوا اور ان کے کچھ آگے جاتے دکان کے اندر داخل ہو گیا ۔
آپ یہ گھڑی ان میم کو دے دیں ۔ عالیان نے دکاندار سے کہا ۔
او۔کے سر ۔ اور وہ انہیں بلانے ان کے پیچھے چلا گیا اور عالیان دکان سے باہر نکل آیا ۔
کون کون تھا ۔ بوس نے نظریں اسی پر جمائے کہا ۔
میری عمارہ اور ساتھ شاید زوہیب یا محد میں سے کوئی تھی ۔
کیسے پہچانا ۔ بوس نے یہ سوال اس لیے کیا کیونکہ عالیان اسی شہر میں رہنے کے باوجود کبھی انہیں دیکھنے نہیں گیا کہ کہیں انہیں دیکھ کر کمزور نہ پڑ جائے ۔
لڑکے نے نام لیا تھا عمارہ اور ویسے بھی اپنوں کے لیے دل گواہی دیتا ہے ۔
کیا پتا وہ کوئی اور عمارہ ہو ۔
نہیں وہ وہی تھی وہی ضدی سی میری گڑیا ۔ یہ سنگدل پتھر کا دل رکھنے والا شخص جس نے کئی لوگوں کا حال بحال کيا تھا جو بےرحم تھا کبھی اس کے ہاتھ نہیں کانپے تھے آج اس کی آواز کانپ رہی تھی ۔
بات کی ۔ بوس نے ایک وہ سوال کیا تھا جس کا جواب ناممکنات میں سے تھا ۔
آپ کو لگتا ہے میں نے بات کی ہو گی ۔ آواز میں درد واضح تھا ۔
تم کیوں نہیں چلے جاتے ، مل آؤ ان سے تمہیں بھی سکون ملے گا اور انہیں بھی ۔
نہیں جا سکتا میں جس راہ پر نکل آیا ہوں وہاں سے واپس نہیں پلٹ سکتا ۔
تم پچھتا رہے ہو ۔
نہیں بوس میں اپنے کام سے خوش ہوں بس کبھی کبھار یاد آ جاتی ہے ۔ عالیان نے صاف جھوٹ بولا حالانکہ ان کی یاد تو پل پل اسے چین نہیں لینے دیتی تھی ۔
تم رہنے دو میں کسی اور سے کہہ دیتا ہوں تم آرام کر لو ۔
آپ کو کیا لگتا ہے کہ میں اتنا سا کام بھی نہیں کر سکتا ، فکر نہ کریں جلد کام مکمل کر کے آپ کو اطلاع کرتا ہوں ۔
ٹھیک ہے اب تم جاؤ ۔ بوس نے اسے جانے کا حکم دیا اور وہ باہر نکل گیا ۔
***********************************
رات کے بارہ بج رہے تھے اور وہ شخص اپنے گھر کی طرف قدم بڑھا رہا تھا کل رات اس نے جب مخبری کی تو وہ کافی ڈرا ہوا تھا ایک خوف تھا دل میں کہ کہیں پکڑا نہ جائے ڈرتے ڈرتے ہی سہی اس نے مخبری کر دی اس کے مطابق کوڈ رات بارہ بجے کاروائی کرنے والا تھا اسی لیے اس نے بارہ بجے سے کچھ دیر پہلے فرقان سلیمان کے گھر فون کر کے انہیں مطلع کر دیا اور ساتھ ساتھ پولیس کو بھی خبر کر دی اور کوڈ کے خفیہ اڈوں کی بھی اطلاع دے دی جہاں وہ اغوا کر کے فرقان سلیمان کو لے جانے والے تھے مگر صرف چند منٹ کے فرق سے سب برباد ہو گیا اور صبح سے وہ چھپا ہوا تھا مگر اسے جلد یقین آ گیا کہ کسی کو اس پر شک نہیں ہوا تو وہ کیوں چھپ کر سب کا شک اپنے اوپر ڈالے اور اسی لیے وہ اب گھر واپس آ رہا تھا کیونکہ اور چھپنا اسے شک کے دائرے میں ڈال سکتا تھا اور کوڈ تو اسے کہیں سے بھی ڈھونڈ نکالتا ، گھر کے باہر لگے تالے کو کھولتا دروازہ کو ایک جھٹکے سے دھکیلتے اندر داخل ہوا گھر میں ہر طرف اندھیروں کا راج تھا ۔ دیوار پر ٹٹولتے بورڈ پر لگے بٹن کو دبایا تو گھر روشن ہوا لائٹ آؤن کرتے وہ مڑا تو سامنے صوفے پر کالی جینز اور شرٹ پر ہوڈی پہنے چہرا ہوڈی سے چھپائے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے دونوں ہاتھ سیدھے صوفے کی پشت پر رکھے روب سے بیٹھی تھی ۔
سامنے اسے بیٹھا دیکھ اسے اپنا آپ ہوا ہوتا محسوس ہوا پورے جسم میں کرنٹ محسوس ہوا کوڈ اس وقت اس کے گھر پر موجود ہے یعنی وہ سب جان چکی تھی ۔
کو۔۔ڈد ۔۔۔ آپ ی۔ہاں ۔ وجاہت نے اٹکتے اٹکتے کہا جیسے آج پہلی بار بول رہا ہو ۔
ارے وجاہت کیا ہو گیا بولنا کیوں بھول گئے ۔ دانیا نے اٹھتے ہوئے کہا ۔
نہیں کوڈ و۔۔ہ آپ اس وقت یہاں ۔۔۔ مطلب کوئی کام ۔ وجاہت نے ہمت کر کے بولنا شروع کیا ۔
کیوں میں نہیں آ سکتی اپنے اتنے خاص آدمی کے گھر ، کیا کروں تم نے کام ہی اتنا شاندار کیا ہے کہ انعام دینے مجھے خود ہی آنا پڑا ۔ دانیا نے اس کے گرد گھومتے ہوئے کہا ۔
وہ کوئی عام لڑکی نہیں تھی جس کی کہی بات کو بےمول کر دیا جائے وہ کوڈ تھی اپنی ایک ایک بات سے اگلے کو جتانے والی بتانے والی کہ وہ کون ہے ۔
وجاہت نے اپنے پیچھے کھلے دروازے کو دیکھا اور پھر سامنے کھڑی کوڈ کو ۔
چھت سے آئی ہوں وجاہت ۔ دانیا نے اس کی الجہن کم کی ۔
نہیں وہ ۔ ۔ وجاہت نے الٹے قدم بھاگنا چاہا مگر اس کے دروازے پر پہنچنے سے پہلے دروازہ بند ہو چکا تھا اور اندر ایک شخص آ چکا تھا ۔
ارے ارے اتنی جلدی کہاں جانے کی ہے ہمیں بتاؤ ہم پہنچا دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ کوڈ مجھے معاف کر دیں میری کوئی غلطی نہیں کوڈ مجھے معاف کر دیں ۔ وجاہت اس کے پاوں میں بیٹھے بھیک مانگ رہا تھا جس پر دانیا نے ایک جھٹکے سے اسے اپنے سامنے کھڑا کیا ۔ مجھے ایسے لوگ زہر لگتا ہیں جو خود کو انسان ہونے کے درجے سے گرا دیں جھکا صرف خدا کے سامنے جاتا ہے ۔ دانیا نے غصے میں کہا ۔
اچھا اب بتاو کس لیے کیا اگر تو کوئی معقول وجع ہوئی تو سزا کم ملے گی ورنہ ۔ دانیا کہتے کہتے رک گئی ۔
وہ آپ کی وجع سے میں کوڈ نہیں بن سکا اس لیے ۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ اور کہتا دانیا اس کو اس کے بالوں سے پکڑ چکی تھی ۔۔۔ وجع معقول ہے ۔ اور یہ کہتے دانیا نے اس کو چھوڑ دیا ۔
پہلے میں نے سوچا تھا کہ تمہارے دماغ کو سزا دوں گی ۔ دانیا نے اس کی کنپٹی پر انگلی رکھتے کہا ۔
اب بھی یہی سوچ رہی ہوں مگر چونکہ وجع معقول ہے تو سزا میں نرمی کی جاتی ہے ۔۔۔۔ پہلے سوچا تھا کہ تمہارے سر پر ابلا ہوا پانی پھینک دیا جائے پھر میں نے کہا نہیں کیوں نہ توا سر پر رکھ کر تمہارے بالوں کو آگ لگا دی جائے کافی اچھی بنے گی ۔ دانیا اپنے ایک ایک لفظ سے اسے ڈرا رہی تھی ۔
اب سوچ رہی ہوں ایک سال پاگل خانے میں رہنے کی سزا کافی ہو گی ۔ دانیا نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے کہا ۔
مگر ایک الجہن ہے ایک عقلمند شخص کا پاگل خانے میں کیا کام تو ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر یہ مجھے صبح تک پاگل خانے کے لیے تیار چاہیے ۔ دانیا نے دروازے کے پاس کھڑے شخص کو کہا ۔
او۔کے ۔ اس شخص نے حکم پر سر خم کیا۔
دانیا اس کے گھر سے باہر نکل آئی پیچھے وجاہت کی چیخیں بلند ہوئی اور بلند ہوتی گئی ۔
تاریک گلی سے نکلتے پیدل کچھ سفر کرتے وہ ماہم کے پاس پہنچ گئی جو اس کی بائیک پر بیٹھے اس کا انتظار کر رہی تھی آج دانیا کے حکم پر وہ بہری بنی ہوئی تھی ۔
دانیا بائیک پر بیٹھی ہیلمٹ پہنا اور پیچھے بیٹھی ماہم کو بھی ہیلمٹ تھما دیا ۔
دانیا نے بائیک کو پوری ریس دی اور پھر بائیک ہوا سے باتیں کرتی چل پڑی ۔
کوڈ آہستہ جلدی کام شیطان کا ہوتا ہے ۔ ماہم نے بائیک کی اتنی تیز سپیڈ پر تبصرہ کیا ۔
تو ہم کون ہیں ہم ہیں کوڈینز ۔۔۔ کے۔او۔ڈی ۔۔۔۔ یعنی کنگ اوف ڈیولز یعنی شیطانوں کے بادشاہ ۔
کوڈ کچھ بولیں بھی تو سہی ہونٹ ہلائے جا رہی ہیں ۔ ماہم نے مسکراہٹ دباتے کوڈ کے حکم سے بھرپور فائدہ اٹھایا جس پر دانیا نے اسے گھور کر دیکھا ۔۔۔۔۔ کیا کوڈ بول خود کچھ نہیں رہی اور گھورے مجھے جا رہی ہیں ۔ ماہم نے پھر سے شرارت کی ۔
میرے خیال سے تمہیں سچ میں بہرا کر دینا چاہیے ۔ دانیا نے اسے غصے سے کہا ۔
پتا نہیں کیا بولے جا رہی ہیں ۔ ماہم کے معصوم سے انداز پر دانیا کو ہنسی آ گئی ۔
آپ ہنستی ہوئی اچھی لگتی ہیں کوڈ ۔ ماہم نے دل سے تعریف کی ۔
اچھا اب چپ کر کے بیٹھ جاؤ ۔ دانیا نے حکم سنایا مگر ماہم تو بہری تھی اسے کچھ سنائی کہاں دیا تھا تو وہ بولتی رہی ۔
کچھ دیر میں وہ بلڈنگ کے سامنے پہنچ گئے دانیا نے بائیک پارکنگ میں کھڑی کر دی ۔
شکر ہے آج سیدھے راستے سے جانا ہے ۔ ماہم نے بڑبڑایا ۔
الٹے سے بھی جا سکتے ہیں اگر تمہارا اتنا دل کر رہا ہے تو ۔ مگر ماہم بہری بنی رہی ۔ دانیا نے بائیک سے چابی نکالی لفٹ میں آئی اور چوتھی منزل کا بٹن دبا دیا ۔
اور کچھ دیر میں وہ گھر میں پہنچ چکے تھے چلو اب تم سن سکتی ہو ۔ دانیا نے اگلا حکم دیا ۔
کیا ۔ ماہم اسی طرح اپنا کردار نبھاتی رہی ۔
دانیا نے غصے سے کاپی لی اور اس پر اپنی کہی بات لکھ کر ماہم کو تھما دی ۔
ہاں اب بولیں کوڈ میں سن رہی ہوں ۔ ماہم نے حکم کی تکمیل کی ۔
آج میں تم سے آخری بار کچھ پوچھنا چاہتی ہوں ۔
اب رات کے دو بجے کیا پوچھنا یاد آ گیا کوڈ کو ۔ ماہم نے دل ہی دل میں کہا ۔ ۔۔۔۔ ہاں کوڈ پوچھیں ۔
آج کے بعد کبھی موقع نہیں دوں گی آج آخری موقع دے رہی ہوں اب تک تم جان ہی چکی ہو یہاں کیسے کام ہوتے ہیں اور کتنا خطرہ ہے تو اگر تم بھاگنا چاہو یا یہ سب چھوڑ کر جانا چاہو تو کل صبح ہونے سے پہلے پہلے چلی جانا ۔
ماہم کوڈ کو حیرانگی سے دیکھتی رہی کہ آخر یہ کیا گویا ہے ۔
ایسے مت دیکھو ماہم آج کے بعد یہ موقع نہیں ملے گا آگے جان کا خطرہ ہو گا ایک ایک سیکنڈ جان ہاتھ میں رکھے گھومنا ہو گا مرنے کے لیے ہر لمحہ تیار رہنا ہو گا ۔
ابھی جمعہ جمعہ چار دن نہیں ہوئے اور یہ مجھے جان سے ڈرا رہی ہے ۔ ماہم دل میں بولی ۔
تمہارے پاس آج رات کا وقت ہے کل صبح اگر تم مجھے یہیں ملی تو تم کبھی کوڈ کو چھوڑ نہیں سکو گی یاد رکھنا ۔ دانیا اسے ہر چیز سے آگاہ کرتی کمرے میں چلی گئی اور ماہم کو پیچھے کشمکش میں ڈال گئی ۔
***********************************
عنایہ عفاف اور عمارہ تینوں عفاف کے کمرے میں بیٹھی فلم دیکھ رہی تھی آج ہفتہ تھا اور ان کا مووی نائٹ بھی جب تینوں مل کر کوئی اچھی سے مووی دیکھتے عفاف کھانے کے لیے کچھ بنا لیتی اور عنایہ کافی بنا لیتی اسے کافی کے علاوہ کچھ بنانا ہی کہاں آتا تھا آج بھی عفاف نے چوکلیٹ برائونیز بنائی تھی اور تینوں بیڈ پر ٹانگیں چڑھائے بیٹھی تھی عفاف کی آنکھوں میں آنسو تھے مووی میں ہیرو بہت ہی ایموشنل انداز میں ہیروئن سے اظہارِ محبت کر رہا تھا عمارہ اور عنایہ بار بار اس کو گھور کر دیکھ رہی تھی ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا جہاں کہیں کوئی ایموشنل سین آتا عفاف کے آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہاتھوں میں ڈھیر سارے ٹیشو تھامے عفاف بار بار اپنے آنسو صاف کر رہی تھی ۔ زین اور صائم کو ساتھ شامل نہ کیا جاتا وجع یہ تھی کہ جب وہ ساتھ ہوتے تو کسی مووی کو سکون سے دیکھنے نہ دیتے اگر دیکھی جانے والی مووی انہوں نے پہلے سے دیکھ رکھی ہوتی تو وہ مووی کا اینڈ بتا دیتے اگر کوئی مزاحیہ مووی ہوتی تو ہنسنے والے سین پر گونگے اور سیریس سین پر پاگلوں کی طرح ہنستے اگر کوئی رومنٹک مووی دیکھی جاتی تو ان کی زبان پر صرف ایک ہی جملہ ہوتا کہ شرم نہیں آتی بھائیوں کے سامنے ایسی چیزیں دیکھتے ہوئے اور مسلسل کہہ کہہ کر انہیں شرم دلاتے رہتے اور ہورر مووی پر تو خود جن بن جاتے جس کے بعد صرف اکشن موویز رہ جاتی تھی ان پر بھی ان دونوں کی خود کی کوئی جنگ شروع ہو جایا کرتی اور کمرہ میدان جنگ کا منظر پیش کرتا اس وجع سے ان تینوں نے ان دونوں کو اپنے ساتھ بیٹھانے سے ہی انکار کر دیا اور اب تینوں دروازہ بند ، لائٹس اوف کیے سامنے لگی ایل۔ای۔ڈی پر نظریں جمائے بیٹھی تھی ۔
زین اور صائم کو اچھے سے معلوم تھا یہ تینوں بیٹھی کیا کر رہی ہیں ۔ زین نے ہلکا سا دروازہ کھولا سامنے بیٹھی لڑکیوں کو دیکھا جن کی اس کی طرف پشت تھی اور وہ بیٹھی مووی دیکھنے میں اتنی مگن تھی کہ انہوں نے اس کے آنے کو محسوس تک نہ کیا ۔
باؤ ۔ زین نے اونچی آواز میں کہا تو سامنے بیٹھی لڑکیاں ڈر کر اچھلی ۔
ہاہاہاہاہاہا ۔ اف تم لوگ اتنے ڈرپوک ہو ۔ زین ہنستے ہوئے ہاتھ کا اشارہ تینوں کی طرف کیے بولا ۔
یہ کیا حرکت ہے زین ۔ عنایہ اونچی آواز میں بولی ۔
کچھ نہیں بس میں سوچ رہا تھا کہ آخر چڑیلوں کو بھی تو کسی نہ کسی سے ڈر لگتا ہو گا ۔
دیکھ لیا اب جاؤ یہاں سے ۔ عنایہ نے اسی انداز ميں بولا ۔
نہیں ایک ضروری کام تو رہتا ہے ابھی جس کے لیے میں آیا ہوں ۔ زین نے آنکھوں میں شرارت لیے کہا ۔
بھائی جو کام بھی ہے جلدی کریں اور جائیں ہمیں مووی دیکھنی ہے ۔ عفاف نے ہاتھ میں پکڑے ٹشو سے آنسو صاف کرتے کہا اور اسے جلد کام کرنے کا اشارہ کیا ۔
وہ اس مووی میں ہیرو اینڈ پر مر جائے گا ۔ یہ کہتا زین باہر بھاگ گیا ۔
آآآ بھائی اللّٰہ پوچھے آپ سے ۔ عمارہ نے اونچی آواز میں کہا جو اس نے سن لی اور باہر سے ہی بولا ۔۔۔۔ اللّٰہ نے تو سب سے پوچھنا ہے ۔
عفاف نے آواز کے ساتھ رونا شروع کر دیا ۔
ارے عفاف رونا تو بند کر دو فلم ہی تو ہے ۔ عنایہ نے اسے سمجھاتے ہوئے رموڈ سے ایل۔ای۔ڈی بند کی اور رموڈ اٹھا کر بیڈ پر دے مارا ۔ عنایہ کو وہ مووی ہر گز نہیں دیکھنی ہوتی تھی جس کا اسے اختتام پتا ہو اور اس کی وجع سے عفاف اور عمارہ بھی مووی نہیں دیکھتے تھے ۔
اچھا آپی آپ موڈ خراب نہیں کریں ہم اپنی باتیں کرتے ہیں ۔ عمارہ نے عفاف کو چپ کرواتے کہا ۔
یار اصل میں بھی تو کوئی مرتا ہو گا نہ ۔ یہ کہتے عفاف کی آنکھوں میں پھر سے آنسو آ گئے ۔
اچھا کوئی بات نہیں ۔ عنایہ نے اسے ساتھ لگائے چپ کروایا ۔
عفاف نے اپنی آنکھیں صاف کی ۔ اچھا ہم اپنی بات کرتے ہیں دل مزبوط کرتے اس نے مووی سے پوری طرح دھیان ہٹایا ۔
کیا بات کریں ۔ عنایہ نے تھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھے کہا ۔
کچھ بھی اچھا ایسا کریں آپ یہ بتائیں کہ آپ پڑھنے کے بعد کیا کریں گی ۔ عمارہ نے سوال کیا ۔
افکورس شادی ۔ عنایہ کے بولنے سے پہلے عفاف بول پڑی ۔
ہاہاہاہا ۔ ہم ایسا کرتے ہیں پہلے عفاف کی شادی کرا دیتے ہیں اسے بہت جلدی ہے شادی کی ۔ عنایہ نے عفاف کا اتنا فوراً جواب سن کر کہا ۔
آپی میں نے کچھ غلط تو نہیں کہا آپ کی اور محد بھائی کی شادی ہے تو تین مہینے بعد ۔ عفاف نے اپنی شرمندگی چھپانے کو کہا ۔
ہاں ہے تو ۔۔۔ مگر ہر چیز شادی تو نہیں ہوتی میرے شادی کے علاوہ بھی بہت خواب ہیں جنہیں مجھے ہر حال میں پورا کرنے کی کوشش کرنی ہے ، میں اپنی نظروں میں اپنا مقام بلند کرنا چاہتی ہوں لوگ میرے بارے میں جو سوچتے ہیں سوچتے رہیں مگر میں اپنی نظروں میں ہمیشہ بلند ہونا چاہتی ہوں کوئی ایسا فیصلہ نہیں کروں جو مجھے میری نظروں میں گرا دے ۔
واوو ۔ عفاف نے ستائش سے کہا مگر عمارہ کسی اور ہی خیال میں کھو گئی ۔
اچھا تمہارا کیا خواب ہے عمارہ ۔ عنایہ نے کہیں کھوئی ہوئی عمارہ کو اس کے خیالوں سے باہر نکالا ۔
میرا دل چاہتا ہے میں ہوائوں میں اڑوں ان سے باتیں کروں ۔ یہ کہتے عمارہ کی آنکھوں میں الگ چمک تھی ۔
مطلب ۔ عفاف کو سمجھ نہیں آئی وہ کہنا چاتی ہے ۔
میں بائیک چلانا چاہتی ہوں اتنی تیز بائیک کہ ہر چیز کو پیچھے چھوڑ دوں ۔
اور وہ تمہارا کھڑوس بھائی تمہاری جان لے لے گا ۔ عنایہ نے زوہیب کی طرف اشارہ کیا ۔
آپ نے میرے بھائی کو کچھ زیادہ ہی ظالم سمجھ لیا ہے وہ ایسے نہیں ہیں جیسا آپ انہیں سمجھتی ہیں وہ اخروٹ ہیں باہر سے جتنے سخت ہیں اندر سے اتنے ہی نرم ۔ عمارہ اپنے بھائی کی شان میں زمین آسمان ملا رہی تھی وہ زوہیب کے خلاف کچھ نہیں سن سکتی تھی ۔
جو بھی ہے مگر ہے کھڑوس ہی ۔ عنایہ نے جیسے عمارہ کی کوئی بات سنی ہی نہ ہو ۔
آپی آپ کو پتا ہے جس شخص کے خود کے خواب پورے نہ ہوں وہ دوسروں کے خوابوں کی قدر کرتا ہے اسے خوابوں کی قیمت معلوم ہوتی ہے اور ان کے ٹوٹنے کی تکلیف سے بھی وہ واقف ہوتے ہیں ۔ عمارہ کو اپنے بھائی کے بارے میں عنایہ کی یہ رائے بالکل اچھی نہیں لگی تھی وہ بتانا چاہتی تھی کہ اس کا بھائی کتنا اچھا ہے ۔
اچھا ایسے کون سے خواب ٹوٹ گئے تمہارے بھائی کے ۔ عنایہ کے الفاظ میں نہ کوئی طنز تھا نہ کوئی حکارت پھر بھی وہ الفاظ عمارہ کو کانٹوں کی طرح دل میں اترتے محسوس ہوئے ۔
کچھ نہیں ۔ عمارہ اس کے خواب بتا کر اس کا تماشہ نہیں بنانا چاہتی تھی جن لوگوں کو آپ کے خوابوں کی قدر نہ ہو ان کو خواب بتا کر ان خوابوں کی قدر نہیں گرانی چاہیے ۔
ناراض تو مت ہو ۔ عنایہ کو لگا شاید وہ ناراض ہو گئی ہے ۔
نہیں آپی میں آپ سے ناراض نہیں ہوں ۔ عمارہ کے الفاظ میں محبت تھی جس سے معلوم کرنا مشکل نہ تھا کہ وہ ناراض نہیں ہے ۔
تو پھر بتا کیوں نہیں رہی ۔ اب عنایہ کو بھی جاننے کا اشتیاق ہو رہا تھا کہ آخر اس کھڑوس شخص کے کون سے خواب ہیں وہ بوڑھی روح والا شخص بھی خواب دیکھتا ہے ۔
ارے آپی جانے دیں نا تب کیا پچھتانا جب چڑیا چگ گئی کھیت ۔ عمارہ نے دوستانہ انداز میں کہا ۔
مجھے کبھی کبھار لگتا ہے کہ عفاف نہیں بلکہ تم زوہیب کی سگی بہن ہو ۔ عنایہ نے عمارہ کی اپنے بھائی کے لیے جزبات دیکھتے ہوئے کہا ۔
ارے وہ ہے ہی اتنے اچھے ۔ عمارہ نے بڑے مان سے کہا ۔
بس تمارے لیے ہی اچھا ہے مجھ سے تو ایسے بات کرتا ہے جیسے اس کی بھینس چرا لی ہو میں نے ۔ عنایہ نے اپنے جزبات کا کھل کر اظہار کیا ۔
آپی آپ کو ایسے ہی لگتا ہے ورنہ ۔۔۔ کبھی غور کریں تو پتا چلے ان کے جزبات ۔ آخری بات عمارہ نے منہ میں کہی تھی کہ عنایہ کے کانوں تک نہ پہنچے ۔
ورنہ ۔ عنایہ نے جانتی نظروں سے کہا ۔
کچھ نہیں ورنہ وہ بہت اچھے ہیں ۔ عمارہ نے بات سنبھالتے ہوئے کہا ۔
ابھی یہ لوگ لمبی باتیں کرنے کے موڈ میں تھے کہ ایک دم کچھ کہتے کہتے عنایہ نے ماتھا چھوا ۔
کیا ہوا آپی ۔ عفاف نے اسے اپنے سر پر ہاتھ رکھے دیکھا تو پوچھا ۔
میری اسئمنٹ شٹ تم دونوں باتیں کرو مجھے سر کو میل کرنی ہے ۔ اور یہ کہتے وہ کمرے سے باہر نکل گئی اور پیچھے عفاف اور عمارہ رہ گئے ۔ خاموشی مٹانے کو عفاف نے اگلی بات شروع کی ۔
مجھ سے تو بس محد بھائی اور عنایہ آپی کی شادی کا انتظار نہیں ہو رہا حادیہ آپی کی شادی کے بعد کوئی شادی نہیں آئی اور زوہیب بھائی کا تو دور دور تک شادی کا کوئی پلین نہیں ہے ۔ عفاف عنایہ کی شادی کے لیے کافی پرجوش تھی ۔
ہممم ۔ عمارہ نے غیر دلچسپی دیکھائی جیسے اسے ان کی شادی سے کوئی فرق ہی نہ پڑتا ہو کیونکہ اسے حقیقی طور پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔
ESTÁS LEYENDO
حیات المیراث Completed
Ficción Generalکہانی نئے کرداروں کی، محبتوں کی ان کہے جزباتوں کی، رشتوں کی ،مرادوں کی ۔ کہانی ایک شخص نہیں بلکہ کئی لوگوں کے گرد گھومتی ہے کہانی محبت قربان کرتے لوگ دیکھاتی ہے اپنے سے آگے اپنوں کو دیکھاتی ہے خوابوں کو دیکھاتی ہے ۔ کہانی ہے دانیا کے جنون کی لوگوں ک...