قسط نمبر ۱۷ (2nd last)

97 7 5
                                    

ڈاکٹر عالم خان کی نبض پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا اور دانیا عالم خان کے سر کی طرف کھڑی آنکھوں میں آنسو لیے امید بھری نگاہ سے ڈاکٹر کو دیکھ رہی تھی اس کے کان عالم خان کے زندہ ہونے کے علاوہ کچھ سننے کو تیار نہیں تھے اور نا وہ اتنی مضبوط تھی کہ عالم خان کو کھونے کا صدمہ سہہ سکے ۔
سوری ہی از نو مور ۔ ڈاکٹر کے الفاظ نہیں تھے وہ زہر تھے جو دانیا کے کانوں کے راستے پورے جسم میں داخل ہوئے تھے کیا زندگی اتنی دھوکے باز ہے اتنی غیر یقینی دانیا پتھر کی بن چکی تھی شاید ولی خان اور باز کی موت بھی اتنی زہریلی نہیں تھی جتنی عالم خان کی ثابت ہوئی تھی ۔
ڈاکٹر نے ہاتھ خان کی آنکھوں تک لے جاتے اس کی آنکھیں بند کرنا چاہی مگر دانیا نے ڈاکٹر کا ہاتھ پکڑ لیا دانیا نفی میں سر ہلاتے ڈاکٹر کو روک رہی تھی اسے لگا اگر اس لمحے عالم خان کی آنکھیں بند ہوئی تو وہ کبھی ان کھلی آنکھوں میں خود کا عکس نہیں دیکھ پائے گی اپنی تصویر کسی آئینے میں اتنی بھلی کہاں لگتی تھی جتنی عالم خان کی فخر بھری نگاہ میں ہوتی تھی ۔
ڈاکٹر ایک طرف ہو گیا تھا اس وقت دانیا کاریڈور میں کھڑی تھی اور اس کے سامنے ایک لاش جو اس کا سایہ تھا جس سایہ میں وہ خود کو محفوظ جانتی تھی جہاں زندگی بستی تھی آج نا وہ سایہ تھا نا اس سایے میں بستی کوئی زندگی ۔
دانیا اس کے سر کے پیچھے سے ہوتی ہوئی اس کے چہرے کے سامنے آئی تھی اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا باپ کی محبت جن ہاتھوں نے لٹائی تھی وہ آج بے جان اس کے ہاتھ میں تھا دانیا نے ہاتھ محبت سے چھوا اور پھر واپش رکھ دیا اپنے ہاتھ اس کی آنکھوں تک لے جاتے آخری بار ان میں اپنا عکس دیکھتے انہیں بند کر دیا ۔
عالم خان کی لاش کو سرد خانے میں رکھ دیا گیا تھا دانیا ویہیں زمین پر دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھ گئی تھی چہرہ سرد تھا اور آنکھیں کسی طوفانی بارش سے پہلے کی خاموشی لیے ہوئے ۔ ہاتھوں اور منہ پر خون کے دھبے بھی خشک ہو چکے تھے کپڑوں پر بھی خون لگا ہوا تھا ۔
محد تیز قدموں سے ہسپتال میں داخل ہوا تھا اسے کاریڈور میں دانیا دیوار سے ٹیک لگائے گھٹنوں پر سر رکھے بیٹھی ہوئی دیکھائی دی تھی محد اس کی طرف آہستگی سے بڑھا ۔
دانیا ۔ محد ہلکی آواز میں بولا تھا دانیا نے چہرہ اٹھا کر دیکھا محد گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گیا تھا اس سے پہلے محد کچھ بولتا دانیا اس سے لپٹ گئی ۔
وہ کچھ بڑبڑا رہی تھی جو محد کا کان سن تو سک رہے تھے مگر شناخت کرنے میں ناکام تھے کہ وہ کیا کہہ رہی ہے ۔
دانیا کی آنکھ سے ابھی تک ایک آنسو نہیں نکلا تھا آنکھیں کسی سحرا کی طرح پانی کی ایک ایک بوند کے لیے ترس رہی تھی مگر وہ پانی دور دور تک نظر نہیں آ رہا تھا ۔
دانیا دانیا تم ٹھیک ہو محد دانیا کی بند ہوتی آنکھیں دیکھتا اسے ہوش میں لانے کے لیے پکار رہا تھا ۔ عالم خان کو گولی لگے سے لے کر محد کے ہسپتال میں داخل ہونے تک محض آدھے گھنٹے کا دورانیہ مگر یہ تیس منٹ دانیا کی زندگی کی مشکل طرین منٹ تھے کیسے آدھے گھنٹے میں سب بدل گیا تھا کوئی زندہ سے مردہ ہو گیا تھا کوئی بیوہ ہو گئی تھی کسی کے سر سے باپ کا سایہ چھن گیا تھا اور کسی کا استاد اس کا محافظ اس دوست باپ سب ظالم وقت نے چھین لیا تھا ۔ کسی کی دنیا بدلنے کے لیے تو چند سیکنڈ ہی کافی ہوتے ہیں ۔
******************************************
عنایہ اور زوہیب کمرے میں بیٹھے تھے عنایہ زوہیب کے لیے چائے لائی تھی جو کہ بنائی عفاف نے تھی وہ صرف اپنے ہاتھوں سے اسے پیش کرنے کا کام سرانجام دے رہی تھی ۔
ارے شکریہ تم نے بنائی ہے چائے میرے لیے ۔ زوہیب نے اسے تنگ کرتے ہوئے کہا تھا ۔
میں نے نہیں بنائی عفاف نے بنائی ہے میں تو لائی ہوں ۔ عنایہ نے بیٹھتے ہوئے کہا ۔
کوئی نہیں ءہ بھی بڑے اعزاز کی بات ہے کہ عنایہ میرے لیے اپنے ہاتھوں سے چاہے کا کپ لے کر آئیں ہیں ۔ زوہیب نے چائے کی چسکی لگاتے کہا تھا ۔
اب ایسا بھی نہیں ہے آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے میں نے کبھی کوئی کام کیا ہی نہیں ہے ۔
میں نے ایسا کب کہا بلکہ تم نے تو ایک بار زبردست سی اپنے ہاتھوں کی چائے بنا کر پلائی تھی ۔
شرمندہ تو نا کریں مجھے ۔ ۔۔
ارے خدا کا خوف کھاو عنایہ یہاں م تمہاری تعریف کر رہا ہوں اور تم ایسا کہہ رہی ہو بندے کی تعریف کی تو کوئی قدر ہی نہیں ہے ۔ زوہیب نے تنگ کرتے کہا اتنے میں زوہیب کے موبائل پر کسی کی کال آئی ۔
زوہیب نے کال اٹھا لی دوسری طرف محد تھا ۔
زوہیب تم کہاں ہو عنایہ تمہارے ساتھ ہے ۔ محد کی آواز سے پریشانی ظاہر ہو رہی تھی ۔
ہاں میرے ساتھ ہے کیوں کیا ہوا خیرت ۔ زوہیب نے فکرمندی سے پوچھا ۔
وہ زوہیب ۔۔ عنایہ کے والد انتقال فرما گئے ہیں ۔
واٹ ۔ زوہیب حیرت پریشانی کے ملے جلے جزبات سے بولا تھا ۔
ہاں عنایہ کو سنبھال لینا ہم شفا ہسپتال میں ہیں ۔
ہم ۔ اور کون ہے تیرے ساتھ ۔
ہاں میں اور دانیا ، دانیا بےہوش ہے اس کی حالت ٹھیک نہیں ۔
دانیا وہاں کیا کر رہی ہے ۔
اسے چھوڑ وہ بعد کی بات ہے ۔ یہ کہتے محد نے فون کاٹ دیا ۔
زوہیب کیا ہوا تم اتنے پریشان کیوں ہو ۔ عنایہ بیڈ سے اٹھتے ہوئے بولی ۔
عنایہ تم بیٹھو ۔ زوہیب نے اسے بیٹھایا ۔
زوہیب بتائے کیا ہوا ہے ۔ عنایہ بہت پریشان ہو گئی تھی ۔
عنایہ پہلے تم ریلکس کرو ۔
زوہیب آپ مجھے بتا رہے ہیں یا نہیں ۔
عنایہ عالم انکل ۔ زوہیب بولتے بولتے چپ ہو گیا تھا ۔
کیا ہوا پاپا کو ۔ عنایہ گھبرا گئی تھی ۔
انکل کی۔۔۔۔۔ ڈیتھ ہو گئی ہے ۔ زوہیب کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ عنایہ کو کیسے بتائے مگر چھپانا بھی تو ناممکن سا تھا ۔
آپ جھوٹ بول رہے ہیں پاپا کو کچھ نہیں ہو سکتا پاپا بالکل ٹھیک ہیں آپ جھوٹ بول رہے ہیں ۔ عنایہ بوکھلائے ہوئے بول رہی تھی زوہیب نے اسے سنبھالتے ہوئے سینے سے لگا لیا ۔
عنایہ سنبھالو خود کو ۔
مجھے پاپا کے پاس جانا ہے ۔ عنایہ کی آنکھیں بھیگ چکی تھی ۔
عنایہ سنبھالو پھپھو کو بھی تمہیں سنبھالنا ہے تم کمزور نہیں پڑ سکتی ۔
زوہیب پاپا ایسا کیسے کر سکتے ہیں میرے ساتھ وہ مجھے ایسے نہیں چھوڑ کر جا سکتے ابھی تو آئے تھے وہ اور ابھی ۔۔۔۔ کیسے مجھے ان سے باتیں کرنی تھی ان کے ساتھ کھانا کھانے جانا تھا مووی دیکھنی تھی کتنا کچھ تھا جو مجھے کرنا تھا ۔ عنایہ کے گلے میں پھندہ بن گیا اس کے لیے بولنا مشکل ہو گیا تھا زوہیب اسے سہلاتا رہا اسے چپ کراتا رہا ۔ نورین تک جب عالم کی موت کی خبر پہنچی تو اندر سے اس کا حال بھی عنایہ اور دانیا سے ملتا جلتا تھا مگر اسے باہر سے مضبوط رہنا تھا اپنی بیٹیوں کو سنبھالنا تھا وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی اور نا ہی وہ کمزور پڑ سکتی تھی ۔
*******************************************
عالیان کوڈ کے ہی کام سے گھر سے باہر گیا ہوا ہے جب واپس آیا تو رات کے نو بج رہے تھے گھر میں قدم رکھا تو گھر والوں کے اترے ہوئے چہرے اور گھر میں آنے والے تعزیت کرنے والوں کا رش خطرے کی گھنٹی بجا رہا تھا وہ آہستہ قدم رکھتا آگے بڑھا سامنے عمارہ اور عفاف تعزیت کرنے آنے والوں کے لیے پانی رکھ رہی تھی نورین سامنے ہی صوفے پر بیٹھی تھی ساتھ صباء سدرہ بھی خاموش بیٹھی تھی عالیان نے اشارہ کرتے عفاف کو بلایا تھا ۔
یہ کیا ہوا ہے اور یہ سب کون لوگ ہیں ۔
عالم انکل کی ڈیتھ ہو گئی ہے جس جس کو پتا چل رہا ہے وہ تعزیت کے لیے آ رہا ہے ۔ عالیان کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی یہ کیسے ممکن تھا کیا یہ کوئی چال ہے یا عالم خان کا بنایا گیا کوئی نیا منصوبہ مگر اگر ایسا کچھ ہے تو عالیان کو کچھ کیوں نہیں پتا اور اگر سچ میں ایسا ہوا کہ عالم خان مر گیا تو کیا ہو گا کوڈ کو کون سنبھالے گا ۔
عالیان نے عالم کے آفس فون ملایا کوڈ کو فون کر کہ خبر لینی چاہی مگر کسی کو عالم خان کا کچھ نہیں پتا تھا ۔
عالیان نے محد کو فون ملایا ۔
محد عالم خان کو کیا ہوا ہے ۔
عالم خان کو سر میں گولی لگی تھی جس کی وجع سے وہ موقع واردات پر ہی دم توڑ گئے تھے دانیا انہیں ہسپتال لائی تھی مگر اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ مر چکے ہیں ۔
دانیا ۔۔ (عالیان کو دانیا کا خیال آیا) دانیا کیسی ہے ۔
ابھی تو دوائی کے زیرِ اثر بےہوش ہے۔ (محد کو پیچھے سے ڈاکٹر نے آواز دی تھی) اچھا مجھے کوئی کام ہے بعد میں بات ہوتی ہے ۔ محد نے کہتے فون کاٹ دیا ۔
دانیا ہسپتال میں کیا کر رہی ہے اسے تو تھانے میں ہونا چاہئے تھا اور عالم خان کو گولی کس نے ماری وہ یہ تو جانتا تھا کہ بوس مشکل میں ہیں دانیا نے اسے بتایا تھا مگر یہ اس کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہو جائے گیا اور کنگ وہ کہاں ہیں کیا اسی کنگ کو ڈھونڈنا چاہیے اور کیا باقی سب کوڈ کو معلوم ہے کہ عالم خان اب نہیں رہا اسے کیا کرنا چاہیے وہ یہ سب اکیلا کیسے سنبھالے گا کیسے سب کچھ لے کر آگے چلے گا کنگ اور بوس ہی تو کوڈ کی بنیاد تھے جب بنیاد کمزور پڑ جائے تو عمارت کے گرنے کی خبر کے لیے انسان کو ہر وقت تیار رہنا چاہیے مگر فلحال اسے اپنی ذمہ داریاں سنبھالنی تھی اسے عالم خان کی موت کا بہت دکھ تھا مگر اس وقت اور بہت سے کام تھے جو اس کے ذمہ تھے اس سب کوڈ اطلاع دینی انہیں کچھ دنوں کے لیے انڈر مارکیٹ ہونے کا حکم دینا تھا کمزور لمحے میں دشمن چلاکی سے وار کا سوچتا ہے اس لمحے آپ کو دشمن پر وار نہیں کرنا ہوتا بس اس کے وار سے خود کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے عالیان بھی اسی بارے میں سوچ رہا تھا ۔
عالیان جن قدموں سے گھر میں داخل ہوا تھا انہی قدموں سے گھر سے واپس نکل آیا ۔
گاڑی نکالی اور بوس کے آفس کی طرف گاڑی دوڑا دی ۔
عالیان نے فون ملانا شروع کیا آہستہ آہستہ وہ ہر کوڈ کو فون کر رہا تھا باری باری ہر ایک کو انڈر گراؤنڈ ہونے کا حکم دینا شروع کر دیا تھا ۔
*****************************************
عالم خان سے وابستگی چوہدری حویلی میں صرف اتنی ہی تھی کہ وہ عنایہ کا باپ اور نورین کا شوہر تھا اس سے زیادہ جزباتی وابستگی کسی کی بھی نہیں تھی مگر جن کی تھی ان کی زندگی تھی عنایہ کتنے سالوں بعد اپنے باپ سے ملی تھی اسے خود یاد نہیں تھا عالم خان کی محبت کے لیے وہ کتنے لمبے کتنے سال انتظار میں رہی اسے یاد بھی نہیں تھا کس موقع پر کس گھڑی پر اس نے عالم خان کے ساتھ کی خواہش کی تھی اس کی گنتی مشکل تھی سب کچھ دے کر دوسرے لمحے چھین لیا جانے کا احساس کیسا ہوتا ہے یہ عنایہ زوہیب سے بہتر کون بتا سکتا تھا ۔
نورین جس کے کان ترس گئے تھے گل سننے کو جس نے ابھی علم کے ہاتھ سے گجرے بھی نہ پہنے تھے اس کے الفاظ میں مکمل طرح سے سرایا جانا باقی تھا اور وہ چلا گیا کیسے چلا گیا بنا ملے بنا بتائے ویسے تو کہتا تھا گل یہ عالم گل سے دور تو ہو سکتا ہے مگر اس کو چھوڑ کر نہیں کا سکتا اور ایک دم چھوڑ کر گیا تو نا کوئی واپس آنے کا وعدہ کر گیا اور نا ہی کوئی پتا چھوڑ گیا بس اپنے پیچھے گل کو لمبے انتظار میں چھوڑ گیا انتظار دوبارہ ملنے کا انتظار ایک دوسرے کی ایک جھلک دیکھنے کا ۔
*****************************************
عالم خان کی موت کو آج ساتواں دن تھا دانیا ابھی تک ہسپتال میں داخل تھی ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ وہ دماغی طور پر تندروست نہیں ہے وہ زیرِ نگرانی رہے تو بہتر ہے اور محد بھی یہی چاہتا تھا کہ وہ تب تک یہیں رہے جب تک وہ دانیا کی رہائی کی کوئی صورت نہیں نکال لیتا وہ جیل سے بھاگی تھی یہ بازاتِ خود ایک بڑا جرم تھا اور دانیا کو ہسپتال سے سیدھا جیل جانا ہوتا ۔ دانیا نے عالم خان کی موت کے بعد کسی کا چہرہ نہیں دیکھا تھا محد پھر کسی طرح اس سے ملنے جیسے تیسے آ جاتی کبھی زبردستی کبھی انکوائری کے بہانے مگر اور کسی سے دانیا ملنے کو تیار نہیں تھی نورین اور عنایہ نے اس سے ملنا چاہا مگر دانیا نے صاف انکار کر دیا وہ کیسے سامنا کرتی کیا جواب دیتی ایک بیٹی کو کہ اس کا باپ کیوں اس کے ساتھ نہیں ہے آج کیا جواب دیتی نورین کو جیسے بڑے مان سے کہا تھا کہ عالم خان بالکل درست ہیں کسی کام سے گئے ہیں جلد آ جائیں گے دانیا چاہ کر بھی اتنی ہمت اکھٹی نہیں کر پائی تھی کہ ان کا سامنا کر سکے ۔
اس کے ہاتھوں سے عالم خان کا قتل ہوا تھا اگر وہ دروازہ با کھولتی تو گولی نا چلتی اور آج عالم خان زندہ ہوتا وہ ہر وقت یہی الفاظ دہراتی رہتی تھی خود کو بار بار یاد دلاتی تھی کہ وہ ہے اس کی موت کی ذمہ دار اس کی وجع سے عالم آج اس دنیا میں نہیں ہے اس کی وجع سے عنایہ نے اپنا باپ اور نورین نے اپنا شوہر کھویا تھا کیسے ایک قاتل ایک مقتول کے سامنے دندناتا گھوم سکتا تھا کسی ظالم مظلوم کے سامنے کھل کر سانس لے سکتا تھا کیسے وہ یہ سب کر سکتی تھی ۔

حیات المیراث CompletedNơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ